خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ برموقع سنگ بنیاد مسجد بروکسال جرمنی
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
الحمدللہ کہ آج بروکسال کی جماعت کو یہاں اس لیے جمع ہونے کی توفیق مل رہی ہے کہ یہ اپنے لیے ایک عبادت گاہ تعمیر کریں۔ان مقاصد کے حصول کے لیے جس کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی تھی اور دیواریں اٹھائی تھیں۔ اور وہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی عبادت خود بھی کریں اور اپنی نسلوں میں بھی اس عبادت کے مضمون کو، اس عبادت کی عادت کو جاری رکھیں۔اس تعلیم کو جاری رکھیں جو خدا تعالیٰ نے انسا ن کو دی ہے۔ اس مقصد کو جاری رکھیں جو انسان کی پیدائش کا مقصد ہے ۔
پس ہماری مساجد جہاں بھی تعمیر ہوتی ہیںاس مقصد کے لیے ہوتی ہیں کہ خدائے واحد کی عبادت کی جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مخلوق کے حق بھی ادا کیے جائیں۔ مجھے امید ہے کہ انشاءاللہ تعالیٰ جب یہ مسجد تعمیر ہوگی تو اس مقصد کو ہر احمدی، یہاں رہنے والا احمدی اپنے پیش نظر رکھے گا اور اسی نیت سے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ بھی لیں گے آپ لوگ جو مقصد آپ نے تلاوت میں دعاؤں میں سنا۔ اللہ کرے کہ یہ تعمیر جلد مکمل ہو جائے اور آپ لوگ اس مقصد کو پورا کرنے والے بھی ہوں۔
میئر صاحبہ نے ابھی تقریر کی، اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ایک تو یہ بات میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ انشاءاللہ تعالیٰ تعمیر کے لحاظ سے بھی، آرکیٹکچر کے لحاظ سے بھی ان کے علاقہ میں یہ ایک اچھا اضافہ ہو گا، ایک اچھی عمارت کا ااضافہ ہوگا اور جب اس کی تعمیر مکمل ہو جائے گی تو ان کو اس خوبصورت عمارت کو دیکھ کے ان کو کسی قسم کی مایوسی نہیں ہوگی اور صرف عمارت ہی نہیں جب یہ عمارت بن جائے گی، یہاں کے لوگوں کو، یہاں کے احمدیوں کو ایک مرکز مل جائے گا۔ جب یہاں آئیں گے اور امید ہے مجھے جس طرح ہمیشہ ہر احمدی کا یہ طریق رہا ہے اور یہی ہماری تعلیم ہے کہ جب مسجد میں آؤ تو محبت اور پیار کے جذبات لے کر آؤ۔ اپنے خدا کے لیے بھی جس کی عبادت کرنی ہے اور اس مخلوق کے لیے بھیی جو خدا تعالیٰ کی مخلوق ہے ۔
پس امید ہے انشاءاللہ تعالی اس مسجد کی تعمیر کے بعد میئر صاحبہ کے یا لوگوں کے جو concern ہیں، بعض تحفظات ہیں کہ پتہ نہیں مسجد بن جائے گی مسلمانوں کی تو کیا حال ہو گا۔ وہ کوئی اگر ہیں بھی تو دور ہو جائیں گے۔
میئر صاحبہ نے یہ بتایا کہ آپ کو یہ جگہ مل گئی ہے لیکن گو اس کا مقصد جیسا کہ ان کی باتوں سے لگا ہے اور آپ افتتاح بھی کر رہے ہیں، بنیاد بھی رکھ رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ یہاں تشریف بھی لائی ہیں۔اوریہ علاقہ کے لوگوں کو بھی پتہ ہے اور کونسل کو بھی پتہ ہے ، میئر کو بھی پتہ ہے کہ مسجد یہاں تعمیر ہونی ہے لیکن پھر آپ نے فرمایا کہ اس کا ابھی ایک لمبا سفر طے ہونا باقی ہے ۔ یہ نہ سمجھیں کہ آج بنیاد رکھ لی تو مراحل طے ہوگئے او رفورا مسجد بننی شروع ہو جائے گی۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہم نے ایک خدا کی عبادت کرتے ہوئے محبت پیار کا پیغام پہنچانا بھی ہے ، اس کا اظہار بھی کرنا ہے ۔ اپنے لوگوں کے لیے بھی اورعلاقہ کے لوگوں کے لیے بھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس کی عباد ت کے ساتھ ساتھ ، اس کا حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مخلوق کا بھی حق ادا کیا جائے۔ اس لیے اگر کوئی روکیں پڑ سکتی ہیں مزید ا س کے نقشوںکی منظوری میںیا تعمیرکی اجازت میں تو میئر کے پاس بڑے اختیار ہوتے ہیں ان کے پاس کونسلر جو ہیں ان کے پا س آئیں گے۔ اگروہ دیکھ رہی ہیں کہ ہم لوگ احمدی لوگ پر امن شہری ہیں اور مسجد کا مقصد ہی یہ ہے کہ ایک خدا کی عباد ت کے لیے ایک جگہ تعمیر کی جائے جس میں لوگ اکٹھے ہوں اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ سے محبت کا اظہار کرنے والے ہوں اور بندوں سے بھی محبت کا اظہار کرنے والے ہوں۔
تو ا س چیز کو دیکھ کر امید ہے کہ وہ اپنے کونسلرز کو بھی قائل کریں گی اور علاقہ کے لوگوں کو بھی قائل کریں گی ۔اگر وہ چاہیں تو گو کہ انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ ابھی لمبا سفر ہے جو تمہیں طے کرنا ہے لیکن اس سفر کو وہ چھوٹا بھی کر سکتی ہیں اور مجھے امید ہے کہ وہ جلد سے جلد اس کو چھوٹا کرنے کی کوشش کریں گی۔
امیر صاحب نے اپنی تقریر میں ایک ڈش کی مثال دی کھانے کی۔ جو میں سمجھا ہوں نام تو انہوں نے جرمن میں لیا تھا لیکن میرا خیال ہے سپیریگس ا س کو انگلش میں کہتے ہیں۔تو یہ اس علاقے کی ایک مشہور ڈش ہے ۔گویا کہ اس علاقے میں خوراک اور ایک مادی مائدہ مہیا ہے او رویسے بھی ان ملکوں میں بکثرت مہیا ہے لیکن ا س کے ساتھ ساتھ جو سب سے اہم خوراک ہے وہ روحانی مائدہ ہے اور روحانی مائدہ ہی ہے جو انسان کی روح کی غذا بن کر اس کا خدا تعالیٰ سے بھی تعلق پیدا کرتا ہے اور اس کو بندوں کے حق ادا کرنے والا بھی بناتا ہے ۔
پس انشاء اللہ تعالیٰ یہ مسجد جو ہے یہ اس روحانی مائدہ کے پیدا کرنے اور اس کے اظہار کااور اس کے مہیا کرنے کا، اپنے لوگوں میں بھی اور غیروں میں بھی ذریعہ بنے گی۔
اور اسی دعا کے ساتھ ہمیں اس مسجد کی بنیاد رکھنی چاہیے کہ اللہ کرے کہ یہ مسجد اپنے لوگوں کے لیے بھی اور علاقہ کے لوگوں کے لیے بھی روحانی مائدہ کا کردار ادا کرنے والی ہو۔
میئر صاحبہ نے ذکر کیا ایک درخت لگایا انہوں نے پارک میں جماعت کی طرف سے دیا گیا تھا۔ یہ درخت بھی ایک ظاہر ی اظہار ہے اس بات کا کہ ہم لوگوں میں مل جل کر ان کی خوشحالی کے لیے ماحول کی صفائی کے لیے کوشش کرتے ہیں اور آج کل سبزے کا اور گرین ہائو سسز سیٹ کا بڑا چرچا ہے ۔اس کے لیے دنیا کوشش کر رہی ہے ۔ ماحول میں جو پولیوشن ہے اس کو صاف کرنے کے لیے کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ شجر کاری کی جائے، درخت لگائیں جائیں۔ کم سے کم ایسی چیزوں کا استعمال کیا جائے جو ماحول کو اور فضا کو poluteکرنے والے ہیں۔کاروں کی گرمی ہے ، بجلی کی، انرجی کی گرمی ہے ۔ اسی لیے مختلف قسم کی انرجی کا بھی آج کل بڑا شور اٹھتا ہے ۔ تو جیسا کہ میں کہہ رہا تھا کہ یہ درخت ایک ظاہر اظہار ہے اس بات کاکہ ہم یہاںکے لوگوں کی بھلائی چاہتے ہیں۔اور جب انشاء اللہ تعالیٰ یہ مسجد بنے گی تو پھر اس کا مزید اظہارشروع ہوگا کہ یہ ایک درخت نہیں بلکہ یہاں اس مسجد سے محبت اور امن اور بھائی چارے کے بے شمار درخت لگیں گے۔اور انشاء اللہ تعالیٰ علاقے کے لوگوں کے تحفظات جو ہیں وہ دور ہوں گے اس مسجد کے بننے سے۔
امیر صاحب نے ایک بات rules and laws of Islamکی کی ہے۔اس سے بھی کسی قسم کی کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں تو نہیں ہے بہر حال احمدیوں کو۔ یہاں جو دوسرے ہیں ان کو بھی بتادوں کہ اسلام کا قانون یہی ہے کہ جو حکومت وقت ہے اس کے جو قوانین ہیںان کی پابندی کرو۔اورآج یہی خوبی جماعت احمدیہ کی ہے کہ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو سو کے قریب ممالک میں احمدیت قائم ہو چکی ہے او ریہ خوبی ہے ہر ملک کے ہرقوم کے احمدی کی کہ وہ ہمیشہ قانون کا پابند رہا ہے کیونکہ اسلام نے اس کو یہی سکھایا ہے کہ تم نے حکومت وقت کی پابندی کرنی ہے سوائے ایک بات کے، جہاں تمہیں وہ خدا کی عبادت کرنے سے روکیں۔ وہاں یہ تمہارا مذہب، اپنے دل کا اور خدا کا معاملہ ہے۔ وہاں تم نے اپنے مذہب کی پابندی کرتے ہوئے اللہ کا حق ادا کرنا ہے کیونکہ یہ اللہ کا حق ہے لیکن اس حق کے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ تم نے بندوں کے حق بھی ادا کرنے ہیں اور قانون کی پابندی کرنی ہے ۔سوائے جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر کوئی قانون یہ روکتا ہے جس طرح کہ بعض ملکوں میں احمدیوں پر پابندیاں ہیں کہ نمازیں نہیں پڑھنی، مسجد میں نہیں جانا، مسجد کو مسجد نہیں کہنا۔ وہاں ہم صرف اس حد تک قانون کی پابندی نہیں کرتے کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں ،خدا کو مانتے ہیں، اس کے آگے جھکتے ہیں لیکن جہاں تک باقی قوانین ہیں ملک کے، باوجود اس کے کہ ظالمانہ قوانین ہیں۔ احمدی ان ظالمانہ قوانین کی بھی پابندی کرتے ہیں۔ اوریہ خوبصورتی ہے دنیا میں ہر جگہ احمدی کی اور ہرقوم کے احمدی کی ۔اور میں یہ مثال دیا کرتا ہوں ہر جگہ کہ احمدی ہمیشہ قانون کا پابند ہے، ملکی قانون کا پابند ہے اور رہے گااور یہی اس کی خوبصورتی ہے اور اگر وہ نہ ہو تو جماعت خود اس کے خلاف ایکشن لیتی ہے۔ خلیفہ وقت خود اس کے خلاف ایکشن لیتا ہے۔
پس یہ ایک ایسی خوبصورت تعلیم ہے اسلام کی جس کا کوئی مقابلہ نہیں ۔بلکہ یہاں تک فرمایا ہے آنحضرتﷺ نے تمہارے وطن کی محبت تمہارے ایمان کا حصہ ہے ۔اور محبت اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے جب اس ملک کے قوانین کی پابندی کی جا رہی ہو۔
پس ہم وہ شہری ہیں اس ملک کے ، اس شہر کے جنہوں نے ہر حال میں قوانین کی پابندی کرنی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ کریں گے اور جب یہ مسجد بنے گی تو جیسا کہ میں نے کہا کہ میئر صاحبہ کہ بھی پتہ چلے گا، علاقہ کے لوگوں کو بھی پتہ چلے گا کیونکہ اس خوبصورتی سے ہم قوانین کی پابندی کرنے والے ہیں بلکہ اس کا اظہار نکھر کر اور خوبصورت بن کر سامنے آئے گا۔انشاء اللہ تعالیٰ
اللہ تعالیٰ کرے کہ جلد اس کی بنیاد کی اجازت مل جائے اور مسجد کی تعمیر ہو اور تعمیر مکمل ہو کر افتتاح بھی اس کا جلدی ہوتا کہ اس علاقہ میں اسلام کا اور احمدیت کا ایک خوبصورت سمبل کے طور پر ابھرے۔
اب دعا کر لیں۔
اچھا اس کے بعد پھر اب تقریب ہو گی سنگ بنیاد کی، وہاں چلیں گے۔