خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍ مارچ 2010ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے اور اس پر توکل کرے، اس کے لئے وہ کافی ہے۔ اور اس کے لئے ایسے سامان پیدا فرماتا ہے جن کا گمان بھی انسان کی سوچ میں نہیں ہوتا۔ اس وہم و گمان سے بالا مدد کے نظارے جو اللہ تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنے بندوں کو اور ایمان والوں کو دکھاتا رہتا ہے اس کے چند واقعات مَیں آج پیش کروں گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ غیرت دکھاتے ہوئے جس طرح حساب لیتا ہے اس کے بھی بعض واقعات مَیں نے آج چنے ہیں۔ جماعت کی تاریخ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہت سارے واقعات ہیں۔ کیونکہ آپ کی سیرت بڑی تفصیل سے لکھی گئی ہے۔ چوہدری غلام محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حکیم خادم علی صاحب کے ایک رشتہ دار سے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بارہ میں سنا کہ:
ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب کشمیر سے راولپنڈی کے راستے سے واپس آ رہے تھے کہ دورانِ سفر روپیہ ختم ہو گیا۔ (کہتے ہیں) مَیں نے اس بارہ میں عرض کیا (تو) آپ گھوڑی پر سوار تھے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ گھوڑی چار پانچ صد روپے میں بیچ دیں گے (اور) فوراً بِک جائے گی اور خرچ کے لئے کافی روپیہ ہو جائے گا۔ آپ نے وہ گھوڑی سات سو روپیہ میں خریدی تھی۔ (وہ کہتے ہیں) تھوڑی دُور ہی گئے تھے کہ گھوڑی کو دردِ قولنج ہوا (پیٹ میں بڑی درد ہوئی، قولنج اُسے کہتے ہیں ) بہرحال راولپنڈی پہنچ کر وہ گھوڑی مر گئی۔ (کہتے ہیں) تانگے والوں کو کرایہ دینا تھا۔ آپ ٹہل رہے تھے(پیسوں کی ضرورت تھی)۔ مَیں نے عرض کی کہ ٹانگہ والے کرایہ طلب کرتے ہیں۔ آپ نے نہایت رنج کے لہجہ میں فرمایاکہ نورالدین کا خدا تو وہ مرا پڑا ہے۔ اب اپنے اصل خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ وہی کارساز ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک سکھ اپنے بوڑھے بیمار باپ کو لے کر حاضر ہوا۔ آپ نے اسے دیکھ کر نسخہ لکھا(اور بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ) اُس نے ہمیں اتنی رقم دے دی کہ جمّوں تک کے اخراجات کے لئے کافی ہو گئی۔ (ماخوذ از حیات نور صفحہ 168-169۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
تو یہ تقویٰ ہے کہ اگر غلطی سے کسی دنیاوی ذریعہ پر انحصار کیا بھی تو اس کے ضائع ہو جانے پر رونا پیٹنا شروع نہیں کر دیا۔ بلکہ کامل توکّل کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہوئی، دعا کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فوراً پھر خلافِ توقع انتظام بھی فرما دیا۔
جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی زندگی تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اور ان کو پڑھا جائے تو ایمان اور یقین میں اضافہ ہوتا ہے۔
اسی طرح مرزا سلام اللہ صاحب مستری، قطب الدین صاحب دہلوی کی ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ عید الاضحیہ کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے گھر سے دریافت فرمایا کہ کیا کوئی کپڑے دھلے ہوئے ہیں؟ معلوم ہوا کہ صرف ایک پاجامہ ہے اور وہ بھی پھٹا ہوا۔ آپ نے اس میں آہستہ آہستہ ازار بند ڈالنا شروع کر دیا۔ قادیان کا واقعہ ہے۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحب ان دنوں صدر انجمن کے سیکرٹری تھے۔ انہوں نے پیغام بھیجا کہ حضور نماز عید میں دیر ہو رہی ہے۔ لوگوں نے قربانیاں بھی دینی ہیں۔ اس لئے جلد تشریف لائیں۔ فرمایا۔ تھوڑی دیر تک آتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر آدمی آیا۔ حضور نے اسے پھرپہلے کا سا جواب دیا۔ اتنے میں ایک آدمی نے آ کر دروازہ پر دستک دی۔ آپ نے ملازم کو فرمایادیکھو باہر کون ہے؟ آنے والے نے کہا۔ مَیں وزیر آباد سے آیا ہوں۔ حضرت صاحب سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ حضور نے اسے اندر بلا لیا۔ عرض کی کہ حضور مَیں وزیر آباد کا باشندہ ہوں۔ حضور کے، امّاں جی کے اور بچوں کے لئے کپڑے لایا ہوں۔ چونکہ رات کو یکّہ نہیں مل سکا تھا، اس لئے بٹالہ ٹھہرا رہا۔ اب بھی پیدل (چل کر) آیا ہوں۔ (تو اللہ تعالیٰ نے فوراً وہاں انتظام فرمایا)۔ (ماخوذ ازحیات نور صفحہ 641۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
صوفی عطا محمد صاحب بھی اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ عید کی صبح حضرت مولوی صاحب نے غرباء میں کپڑے تقسیم کئے حتّٰی کہ اپنے استعمال کے کپڑے بھی دے دئیے۔ گھر والوں نے عرض کی کہ آپ عید کیسے پڑھیں گے۔ فرمایا خدا تعالیٰ خود میرا انتظام کر دے گا۔ یہاں تک کہ عید کے لئے روانہ ہونے میں صرف پانچ سات منٹ رہ گئے۔ عین اس وقت ایک شخص حضرت کے حضور کپڑوں کی گٹھڑی لے کر حاضر ہوا۔ حضور نے وہ کپڑے لے کر فرمایا۔ دیکھو ہمارے خدا نے عین وقت پر ہمیں کپڑے بھیج دئیے۔ (حیات نور صفحہ 641-642۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس دیکھیں کس طرح خدا تعالیٰ آپ کی ضرورتوں کا خود متکفل ہو جاتا تھا اور وقت پر آپ کی تمام حاجات پوری فرماتا تھا۔
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میرا بڑا لڑکا عزیزم میاں اقبال احمد سلّمہ ابھی بچہ ہی تھا تو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں اور میری اہلیہ اور عزیز موصوف سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں مقیم ہیں اور اس وقت مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ میری اہلیہ حضرت اقدس کی لڑکی ہے اور عزیز موصوف حضور کا نواسہ ہے۔ پھر مَیں نے دیکھا کہ مَیں اور میرا یہ لڑکا سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاوٴں دبا رہے ہیں کہ حضور علیہ السلام مجھے دعا دیتے ہوئے فرماتے ہیں (پنجابی میں فرمایا کہ) ’’جا تینوں کوئی لوڑ نہ رئے‘‘۔ یہ پنجابی زبان کا ایک فقرہ ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ تیری سب حاجتیں (خواہشیں ) پوری کرے۔ (تجھے کسی قسم کی حاجت نہ رہے)۔ اس خواب کے بعد (مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ) واقعی آج تک خدا تعالیٰ میری ہر ایک ضرورت کو مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ پورا فرما رہا ہے۔ جہاں سے گمان بھی نہیں ہوتا وہاں وہاں سے میری ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں اور میرے گھر والے اور میرے پاس رہنے والے اکثر لوگ اس روحانی بشارت کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ (ماخوذ ازحیات قدسی حصہ دوم صفحہ 138 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اس طرح مولوی صاحب کے بھی اور بے شمار واقعات ہیں۔ آپ کی کتاب بھی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اصل رازق خدا تعالیٰ ہے۔ وہ شخص جو اس پر بھروسہ کرتا ہے کبھی رزق سے محروم نہیں رہ سکتا۔ وہ ہر طرح سے اور ہر جگہ سے اپنے پر توکل کرنے والے شخص کے لئے رزق پہنچاتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مجھ پر بھروسہ کرے اور توکل کرے مَیں اس کے لئے آسمان سے برساتا اور قدموں میں سے نکالتا ہوں۔ پس چاہئے کہ ہر ایک شخص خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 273 مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں رنگین ہوجاؤ۔ انبیاء اس کی صفات میں ہو بہو رنگین ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ کی ذات سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ کہ آپ کسی طرح خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین تھے۔ اس بارے میں بعض احادیث ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی ہوتا تو یہ بات میرے لئے زیادہ خوشی کا باعث ہوتی کہ تین دن اور تین راتیں گزرنے پر اس میں سے میرے پاس کچھ بھی باقی نہ رہتاسوائے اس حصہ کے جسے مَیں قرض کی ادائیگی کے لئے بچا کے رکھ لیتا۔ (صحیح بخاری کتاب الاستقراض و اداء الدیون باب اداء الدیون حدیث نمبر 2389) یعنی اتنی زیادہ دولت بھی ہوتی تو مجھے پسندنہیں کہ میرے پاس رہے۔ بے حساب تقسیم کرتا چلا جاتا۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت موسیٰ بن انس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ کریمؐ سے اسلام کے نام پر جب بھی کچھ مانگا گیا تو آپؐ نے فوراً عطا فرما دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ نے اسے دو پہاڑوں کے درمیان پھیلا ہوا بکریوں کا ریوڑ عطا فرما دیا۔ وہ اپنی قوم کی طرف لَوٹا تو کہنے لگا۔ اے میری قوم! مسلمان ہو جاوٴ۔ کیونکہ محمدﷺ تو اتنا عطا کرتے ہیں کہ جس کی موجودگی میں فاقہ کا کوئی خوف باقی نہیں رہتا۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب ما سئل رسول اللہ شیئا قط فقال لا و کثرة عطائہ حدیث نمبر 5914)
ابنِ شہاب زھری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ فتح مکہ کے بعد اپنے ساتھ موجود مسلمانوں کے ساتھ نکلے اور حنین کی جنگ لڑی۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کے دین اور مسلمانوں کی نصرت فرمائی۔ اس موقع پر نبی کریمﷺ نے صفوان بن امیہ کو سو اونٹ عطا فرمائے۔ پھر سو اونٹ دئیے، پھر سو اونٹ دئیے۔ (یعنی تین سو اونٹ عطا فرمائے۔) یہ مسلم کی روایت ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب ما سئل رسول اللہ شیئا قط فقال لا حدیث نمبر 5916)
ابن شہاب بیان کرتے ہیں کہ سعیدبن المسیّب نے مجھے بتایا کہ صفوان خود کہا کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے مجھے جب یہ عظیم الشان انعام عطا فرمایا تو اس سے پہلے آپؐ میری نظر میں سب دنیا سے زیادہ قابلِ نفرت وجود تھے۔ لیکن جوں جوں آپ مجھے عطا فرماتے چلے گئے آپؐ مجھے محبوب ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ آپ مجھے سب دنیا سے زیادہ پیارے ہو گئے۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب ما سئل رسول اللہ شیئا قط فقال لا حدیث نمبر 5916)
بعض دفعہ دنیا کی دولت بھی دین کی طرف لے آتی ہے اور سچائی کا رستہ دکھا دیتی ہے۔ جب آپؐ صفوان کے پیارے ہو گئے تو ظاہر ہے کہ سب سے بڑی دولت ان کے نزدیک پھر آپ کی محبت تھی۔
ایک روایت میں ان کے بارہ میں اس طرح بھی آتا ہے کہ ایک وادی سے گزرے۔ صفوان ساتھ تھے۔ آنحضرتﷺ جب گزرے تو وادی میں ریوڑ چَر رہا تھا۔ صفوان نے اس ریوڑ کو بڑی حسرت کی نظر سے دیکھا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں یہ بہت اچھا لگ رہا ہے؟ اس نے کہا: جی۔ تو آپ نے فرمایا جاوٴ یہ تم لے لو۔ صفوان اتنی بڑی عطا پر حضورﷺ کے قدموں میں گر گیا اور اسلام قبول کر لیا۔ اور یہ کہنے لگا کہ اتنی بڑی عطا خدا کا نبی ہی کر سکتا ہے۔
صفوان ایک ایسا شخص تھا جو بدترین دشمن تھا اور فتح مکہ کے وقت بھی مکہ سے بھاگ گیا تھا اس لئے کہ اس کو علم تھا کہ مَیں نے جو زیادتیاں مسلمانوں پر کی ہوئی ہیں اس کی وجہ سے کوئی امکان ہی نہیں کہ مَیں بخشا جاوٴں، سزا سے بچ جاوٴں۔ لیکن آنحضرتﷺ نے اس کو بھی نہ صرف یہ کہ معاف فرما دیا بلکہ بے انتہا عطا بھی فرمایا۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 135 باب ذکر مغازیہ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت۔ طبع اول 2002ء)
آنحضرتﷺ نے اپنے صحابہ کو اور اپنی اُمّت کو دین کے معاملے میں خرچ کرنے میں کنجوسی نہ کرنے کی خاص طور پر نصیحت فرمائی اور اسی طرح حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اس میں بھی کمی نہیں ہونی چاہئے۔
حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت نبی کریمﷺ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دے گا۔ (یعنی کنجوسی سے خرچ نہ کرو) اور اپنی تھیلی کا منہ بند کر کے نہ بیٹھ جاوٴ ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا۔ (یعنی اگرروپیہ نکلے گا نہیں، پیسہ خرچ نہیں کرو گے، تو پھر آئے گا بھی نہیں۔ اس لئے فرمایا کہ) جتنی طاقت ہے دل کھول کر خرچ کیا کرو۔ (صحیح بخاری کتاب الزکوٰة باب التحریض علی الصدقۃ۔ حدیث نمبر 1433)
ہر ایک کی طاقت اس کی استعدادوں کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کے مال کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کے فرائض کے مطابق ہے۔ اس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دین کے اوپرخرچ کرنا چاہئے۔ یہ تقویٰ اور توکّل جو آپ اپنے صحابہ میں پیدا فرمانا چاہتے تھے اور صحابہ کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ توکّل ان کے اندر پیدا ہوا۔ اور وہ لوگ جو اَن پڑھ اور جاہل کہلاتے تھے وہ باخدا انسان کی عظیم مثالیں بن گئے۔ آپﷺ کوامت کے لئے ہر وقت یہ فکر تھی، دولت کی فکر نہیں تھی۔ یہ فکر تھی کہ میری اُمّت باخدا بنی رہے اور اس کے لئے صحابہ کو نصائح فرماتے تھے۔ اور یہ نصائح اس لئے تھیں کہ آگے بھی پہنچتی رہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر آپﷺ نے صحابہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ اس کا روایت میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عمرو بن عوف انصاری سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے ابو عبیدہ بن الجراح کو جزیہ لانے کے لئے بحرین بھیجا۔ رسولِ کریمﷺ نے اہلِ بحرین کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا تھا اور ان پر حضرت علاء بن الحضرمی کو امیر مقرر فرمایا تھا۔ چنانچہ جب حضرت ابو عبیدہ بحرین سے مال لے کر لوٹے اور انصار کو آپ کے آنے کی خبر ہوئی تو وہ کافی تعداد میں آنحضرتﷺ کے ساتھ صبح کی نماز میں حاضر ہوئے۔ آپؐ جب نماز فجر پڑھا کر لوٹنے لگے تو یہ انصار حضور کے سامنے آ گئے۔ آپﷺ نے جب انہیں دیکھا تو مسکراتے ہوئے فرمایا کہ شاید تم نے سن لیا ہے کہ ابو عبیدہ کچھ لے کر لوٹے ہیں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں یا رسول اللہ!۔ آپ نے فرمایا: تو پھرخوشخبری ہو اور بے شک خوشکن امیدیں رکھو۔ کیونکہ اللہ کی قسم! مَیں تمہارے بارہ میں فقر و غربت سے نہیں ڈرتا بلکہ مَیں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا داری کی بساط اس طرح کھول دی جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کھول دی گئی تھی۔ اور پھر تم اُن کی طرح اس میں مقابلہ کرنے لگ جاوٴ۔ اور پھر یہ دنیا داری اُن کی طرح تمہیں بھی ہلاک کر دے۔ (صحیح مسلم کتاب الزھد و الرقائق باب الدنیا سجن الموٴمن و جنۃ الکافر حدیث نمبر 7319)
آنحضرتﷺ کو یہ فکر تھی۔ لیکن افسوس! آپؐ کے اس شدت کے اظہار کے باوجود، اس تنبیہ کے باوجود اُمّت کی اکثریت اسی دوڑ میں مبتلا ہے۔ لیکن ایک احمدی کو اپنا عہدِ بیعت نبھاتے ہوئے اس طرف خاص توجہ دینی چاہئے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے اُسوہ، آپ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کس طرح اپنے ساتھیوں سے، صحابہ سے اظہار فرمایا کرتے تھے۔
ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اپنی کتاب ’’مجدد اعظم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’سید غلام حسین صاحب نے اپنا ایک واقعہ الحکم 28/مئی و7/جون1939 ء میں شائع کیا۔ مَیں اس کا خلاصہ یہاں اپنے الفاظ میں عرض کرتا ہوں۔ واقعہ یوں ہے کہ غالباً 1898ء کا ذکر ہے کہ سید غلام حسین صاحب قادیان میں تھے اور دل سے متمنی تھے کہ حضرت اقدس کوئی خدمت ان کے سپرد کریں تو وہ خوشی سے بجا لائیں۔ آخر ایسا ہوا کہ ڈاک دیکھتے دیکھتے حضرت اقدسؑ نے سید صاحب کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ’’یہ ایک بلٹی ہے آپ بٹالہ سے جا کر لے آئیں‘‘ ۔ ساتھ ہی بلٹی ان کے ہاتھ میں دے کر فرمایا کہ ’’ابھی ٹھہرئیے‘‘۔ پھر آپ اندر تشریف لے گئے اور پانچ روپے لا کر سید صاحب کو دئیے کہ یہ رستہ اور بلٹی کے اخراجات کے لئے ہیں۔ اُن دنوں قادیان میں یکّے ایک دو ہی ہوا کرتے تھے اور وہ اس وقت موجودنہ تھے۔ سید صاحب اس وقت 15سالہ نوجوان تھے۔ جوشِ خدمت میں پیدل ہی چل پڑے۔ بٹالہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ پارسل آیا ہوا ہے۔ رات وہیں سرائے میں رہے۔ صبح پارسل چھڑانے گئے تو معلوم ہوا کہ پارسل کا محصول جو ہے وہ بھی بھیجنے والے نے ادا کر دیا ہے۔ پارسل لے کر واپس ہوئے تو یکہ والے کرایہ زیادہ مانگنے لگے۔ انہوں نے کفایت شعاری کی وجہ سے ایک مزدور سے چارآنے کی اجرت ٹھہرائی اور ٹوکری اس کی بہنگی میں رکھ دی اور خود پیدل چل پڑے۔ قادیان پہنچ کر حضرت کے عطاکردہ پانچ روپے میں سے چار آنے تو اس مزدور کو دئیے اور باقی پونے پانچ روپے جیب میں رکھ لئے۔ یہ ٹوکری ہاتھ میں لی۔ مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے چڑھ کر زنان خانہ کے دروازے پر پہنچے اور اندر اطلاع کروائی۔ حضرت اقدسؑ فوراً باہر تشریف لائے۔ انہیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمانے لگے کہ آپ آ گئے؟ ٹوکری دیکھتے ہی فرمایا کہ آپ ٹھہریں۔ اندر سے جا کر ایک بڑا سا چاقو لے آئے اور اس ٹوکری کے اوپر جو ٹاٹ سِلا ہوا تھا اس کو چاقو سے ایک طرف سے کاٹ کر اپنے دونوں ہاتھ ٹاٹ کے اندر داخل کر کے باہر نکالتے ہی فرمایا کہ یہ آپ کا حصہ ہے۔ انہوں نے دیکھا تو وہ بڑے اعلیٰ قسم کے سبزی مائل انگور تھے۔ انہوں نے جلدی میں وہ انگور اپنے کُرتے میں ہی ڈلوا لئے۔ اس کے بعد انہوں نے وہ پونے پانچ روپے (پانچ روپے کی اس وقت بڑی قیمت ہوتی تھی) حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ حضور یہ بقایا رقم ہے۔ صرف چار آنے خرچ ہوئے ہیں۔ اس پر حضرت صاحب نے بڑی شفقت سے فرمایا کہ’’ہم اپنے دوستوں سے حساب نہیں رکھا کرتے‘‘۔ اتنا فرمایا اور ٹوکری اٹھا کر اندر تشریف لے گئے۔ (اور لکھنے والے لکھتے ہیں کہ) انگور ان کے کُرتے میں اور پونے پانچ روپے ان کے ہاتھ میں رہ گئے۔‘‘ (ماخوذ از مجدد اعظم جلد دوم صفحہ 1275 از ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مطبوعہ لاہور) (ماخوذ از الحکم جلد42شمارہ نمبر15-18 موٴرخہ 28مئی تا7جون 1939ء ص23بقیہ)
حکیم عبدالرحمن صاحب آف گوجرانوالہ کی ایک روایت ہے کہ:
ان کے بیٹے مکرم عبدالقادر صاحب سے روایت ہے کہ ’’والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مَیں قادیان گیا اور دو چار روز ٹھہرنے کے بعد اجازت مانگی۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ابھی ٹھہرو۔ دو چار روز کے بعد پھر گیا۔ حضور نے پھر بھی یہی فرمایا کہ ابھی اور ٹھہرو۔ دو تین دفعہ ایسا ہی فرمایا۔ یہاں تک کہ دو اڑھائی مہینے گزر گئے۔ پھر مَیں نے عرض کیا کہ حضور! اب مجھے اجازت دیں۔ فرمایا کہ بہت اچھا۔ مَیں نے کتاب ازالہ اوہام کے متعلق حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا۔ حضورؑ نے میر مہدی حسن شاہ صاحبؓ کے نام ایک رقعہ لکھ دیا۔ مَیں وہ رقعہ لے کر گیا تو میر صاحب نے کہا لوگ یونہی تنگ کرتے ہیں اور مفت کتابیں مانگتے ہیں حالانکہ روپیہ نہیں ہے اور ابھی فلاں فلاں کتاب چھپوانی ہے۔ مَیں نے کہا۔ پھر آپ میرا رقعہ دے دیں۔ انہوں نے رقعہ واپس دے دیا۔ مَیں حضرت صاحب سے واپسی کے لئے اجازت لینے گیا۔ حضور نے پوچھا کہ کیا کتابیں آپ کو مل گئی ہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! وہ تو اس طرح فرماتے تھے۔ یہ سن کر حضرت صاحب ننگے پیر میرے ساتھ چل پڑے۔ اور میر صاحب کو فرمایا کہ آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔ جس کا یہ کام ہے وہ اس کو ضرور چلائے گا۔ آپ کو میرا رقعہ دیکھ کر فوراً کتابیں دے دینی چاہئے تھیں۔ آپ ابھی سے گھبرا گئے۔ یہاں تو بڑی مخلوق آئے گی اور خزانے تقسیم ہوں گے۔ اس پر انہوں نے کتابیں دے دیں اور مَیں لے کر واپس آ گیا‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) جلد 10 صفحہ 122-123 روایات حضرت حکیم عبد الرحمان صاحبؓ)
اسی طرح ایک روایت منشی غلام حیدر صاحب سب انسپکٹر اشتمال اراضی گوجرانوالہ کی ہے۔ یہ دو روایتیں مَیں نے رجسٹر روایات صحابہ سے لی ہیں۔ انہوں نے منشی احمد دین صاحبؓ اپیل نویس گوجرانوالہ کی روایت بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں جب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتا تو عموماً حضور کے سامنے ہو کر نذر پیش نہیں کیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے مجھے نصیحت کی کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ سامنے ہو کر نذر پیش کرنی چاہئے۔ کیونکہ بعض اوقات ان لوگوں کی جب نظر پڑ جاتی ہے تو انسان کا بیڑہ پار ہو جاتا ہے۔ پھر ایک دفعہ مَیں نے سامنے ہو کر مالی تنگی کی وجہ سے کم نذرانہ پیش کیا۔ حضور نے فرمایا! ’’اللہ تعالیٰ برکت دے‘‘۔ چنانچہ اس واقعہ کے بعد ایک شخص نے مجھے بہت سے روپے دئیے۔ مَیں نے بہت انکار کیا۔ مگر اس نے کہا کہ مَیں نے ضرور آپ کو یہ رقم دینی ہے۔ چنانچہ اس رقم سے میری مالی تنگی دور ہو گئی۔ (رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) جلد 10 صفحہ 125 روایات حضرت منشی غلام حیدر صاحبؓ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کی برکت سے انہوں نے مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطلاق: 4) کا نظارہ دیکھا۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کی اشاعت کے لئے جو لوگ قربانیاں کرتے ہیں اور اپنی رقمیں پیش کرتے ہیں۔ اسلام کا درد رکھنے والے جو ہیں اس کے لئے قربانیاں کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں اور قربانیاں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی ایسے نظارے دکھلاتا ہے۔ پرانے احمدیوں کی مثالیں تو مَیں مختلف وقتوں میں بتاتا رہتا ہوں۔ نئے احمدیوں کے بھی بعض ایمان افروز واقعات ہوتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کومضبوط کرتا ہے۔ اس کی دو مثالیں مَیں آج پیش کرتا ہوں۔ آئیوری کوسٹ کے شہر بسّم (Bassam)کے ایک نو مبائع احمدی مکرم یاگو علیڈو(Yago Alido) صاحب کو جماعتی مالی نظام کے تحت چندے کی شرح اور ترتیب بتائی گئی تو اگلے روز وہ خود اپنی تنخواہ کے حساب سے شرح کے مطابق چندہ عام، چندہ وقفِ جدید اور تحریکِ جدید ادا کرنے آ گئے جو کہ تقریباً 50پاوٴنڈ بن رہا تھا۔ یہ ان کے لئے بہت بڑی رقم ہے۔ یہ ان کا احمدیت قبول کرنے کے بعد پہلا چندہ تھا۔ بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ ابھی ہمارا معلم اس چندے کی رسید کاٹ رہا تھا کہ ان صاحب کو ایک دوست کا فون آیا کہ وہ قرضہ جو مَیں نے تم سے دو سال قبل لیا تھا۔ کل آ کے مجھ سے وصول کر لو۔ یاگو علیڈوصاحب حیران ہو کر بتانے لگے کہ یہ شخص قرض لے کر ایسا رویہ اپنائے ہوئے تھا کہ مجھے اس قرض کی وصولی کی امید ہی نہیں تھی۔ اور یہ صرف اور صرف چندہ دینے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اور صرف یہی نہیں کہ یہ قرض مل گیا بلکہ چند روز کے بعد ان کو حکومت کی طرف سے ایک خط ملا کہ نئے سال سے نہ صرف آپ کی ملازمت میں ایک گریڈ کا اضافہ ہو گیا ہے بلکہ آپ کی تنخواہ میں پچاس فیصد کا اضافہ بھی ہو گیا ہے۔ چنانچہ جب انہوں نے اپنے نئے اضافے والی تنخواہ وصول کی تو فوراً اپنا چندہ شرح کے مطابق دُگنا کر دیا۔ اور اب نہ صرف وہ اپنا ماہانہ چندہ ادا کر رہے ہیں بلکہ مسجد کی تزئین خوبصورتی وغیرہ کے لئے بھی اپنی جیب سے کافی خرچ کر رہے ہیں۔ اور سب کو یہ برملا کہتے ہیں کہ یہ سب جوخدا تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہے اس کی راہ میں مالی قربانی کرنے کے نتیجے میں ہے۔
دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ نئے آنے والوں کو بھی مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطلاق: 4) کا نہ صرف نظارہ دکھاتا ہے بلکہ فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ اَضۡعَافًا کَثِیۡرَۃً (البقرة: 246) کا وعدہ بھی ہے، نقدنقد پورا فرما رہا ہے۔
امیر صاحب بینن نے ایک اور واقعہ لکھا ہے کہ ریجن باسیلا کے لوکل مشنری اپنے علاقہ کے گاوٴں جاپنگو (Djapengo) میں چندہ تحریکِ جدید کے بارہ میں بتا رہے تھے اور اس کی برکات کا ذکر کر رہے تھے تووہاں کی ایک غیر احمدی حلیم نامی خاتون نے اس تحریک میں 500فرانک سیفا چندہ دیا۔ ایک سال کے گزرنے پر اس نے دوبارہ رابطہ کیا اور گزشتہ سال کی نسبت چار گنا مزید چندہ دیا۔ اس نے بتایا کہ گزشتہ سال جب مَیں نے چندہ دیا تو اس کے بعد سے میرے کاروبار میں غیر یقینی طور پر برکت پڑ گئی ہے۔ مَیں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اتنی برکت پڑے گی۔ اس بات نے مجھے اس بات کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اور آج مَیں پھر ان کی تحریک میں چندہ دیتی ہوں اور ساتھ ہی کہا کہ مَیں جماعت میں بھی شامل ہوتی ہوں اور بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئی۔
عموماً تو ہم غیر احمدیوں سے چندہ نہیں لیتے لیکن افریقہ میں بعض ایسے تعلقات بن جاتے ہیں کہ وہ مجبور کر دیتے ہیں کہ آپ لوگ لیں۔ کیونکہ وہ دینا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ چندے کاصحیح مصرف جماعت احمدیہ کرتی ہے۔ جب مَیں وہاں گھانا میں ہوتا تھا۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بعض لوگ جو زمیندار تھے وہ اپنی زکوة لے کر آ جاتے تھے۔ اور میرے پوچھنے پر کئی دفعہ بعض لوگوں نے کہا کہ اگرہم اپنے مولوی کو دیں گے تو وہ کھا پی جائے گا۔ آپ لوگ کم از کم صحیح استعمال تو کریں گے۔ توبہر حال اللہ تعالیٰ نے اس خاتون کی نیکی کو اس طرح نوازا کہ نہ صرف اس کو مالی کشائش عطا فرمائی بلکہ اس روحانی مائدے سے بھی فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائی جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لے کر آئے۔
حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’حافظ نور احمد صاحب سوداگر پشمینہ لدھیانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے اور مخلص خدام میں سے ہیں۔ ان کو اپنے تجارتی کاروبار میں ایک بار سخت خسارہ ہو گیا اور کاروبار قریباً بندہی ہو گیا۔ انہوں نے چاہا کہ وہ کسی طرح کسی دوسری جگہ چلے جاویں اور کوئی اور کاروبار کریں تا کہ اپنی مالی حالت کی اصلاح کے قابل ہو سکیں۔ وہ اس وقت کے گئے ہوئے گویا اب واپس آ سکے ہیں۔ (کافی عرصے بعد آئے تھے۔) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی زندگی میں برابر خط و کتابت رکھتے تھے۔ (آپ کی وفات کے بعد وہ آئے تھے۔) اور سلسلہ کی مالی خدمت اپنی طاقت اور توفیق سے بڑھ کر کرتے رہے۔ اور آج کل قادیان میں ہی مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی داد ودہش اور جودو سخا کے متعلق مَیں تو ایک ہی بات کہتا ہوں کہ آپ تھوڑا دینا جانتے ہی نہ تھے۔
اپنا ذاتی واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مَیں نے جب اس سفر کا ارادہ کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کچھ روپیہ مانگا۔ حضور ایک صندوقچی جس میں روپیہ رکھا کرتے تھے۔ اٹھا کر لے آئے اور میرے سامنے صندوقچی رکھ دی کہ جتنا چاہو لے لو اور حضور کو اس سے بہت خوشی تھی۔ مَیں نے اپنی ضرورت کے موافق لے لیا۔ گو حضور یہی فرماتے رہے کہ سارا ہی لے لو۔‘‘ (سیرت حضرت مسیح موعودؑ از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ حصہ سوم صفحہ 316-317)
پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سَرِيْعُ الْحِسَابِ بھی ہے کہ ایک تو یہ کہ بے حساب دیتا ہے، بعض دفعہ حساب لیتا بھی ہے۔ اور بعض دفعہ آخرت میں جو حساب لینا ہے اس کے علاوہ اس دنیا میں ہی حساب لے لیتا ہے۔ اسی بارہ میں بعض واقعات ہیں۔ حضرت مولانا غلام رسول راجیکیؓ صاحب فرماتے ہیں کہ (حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی میاں میراں بخش کے بیٹے کا) ’’خطبہ نکاح پڑھانے کے بعد مَیں بارات کے ساتھ گیا۔ واپسی پر معلوم ہوا کہ اس شادی شدہ لڑکے کے سوا میاں میراں بخش صاحب کے سب لڑکے گونگے اور بہرے ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ یہ ابتلا بلا وجہ نہیں ہو سکتا۔ (بہت خوف والا واقعہ ہے۔) چنانچہ مَیں نے میاں میراں بخش صاحب سے پوچھا توانہوں نے بتایا کہ میری سالی کا ایک بچہ گونگا اور بہرہ تھا تو مَیں نے بطور استہزاء کے اس کو کہنا شروع کیاکہ اگر بچہ جننا تھا تو کوئی بولنے سننے والا بچہ جنتی۔ یہ کیا بہرا اور گونگا اور ناکارہ بچہ جنا ہے۔ جب مَیں تمسخر میں حد سے بڑھ گیا تو میری سالی کہنے لگی ’’خدا سے ڈرو، ایسا نہ ہو کہ تمہیں ابتلا آ جائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات تمسخر کو پسندنہیں کرتی۔‘‘ اس پر بھی مَیں استہزاء سے باز نہ آیا۔ بلکہ ان کو کہتا کہ دیکھ لینا میرے ہاں تندرست اولاد ہو گی۔ میری یہ بیباکی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنی اور میرے ہاں گونگے اور بہرے بچے پیدا ہونے لگے۔ مَیں نے اس ابتلاء پر بہت استغفار کیا۔ اور سیدنا حضرت مسیح موعودکے حضور بھی بار بار دعا کے لئے عرض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی کو قبول فرمایا اور آخری بچہ تندرست پیدا ہوا جس کی شادی اب ہو رہی ہے۔‘‘ (حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ 300-301 مطبوعہ ربوہ)
پس مذاق میں بھی ایسی باتیں (نہیں کہنی چاہئیں) جن کو بات کرنے والا انسان تو ہلکا پھلکا سمجھ رہا ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے کے دل پر وہ شدید چوٹ لگانے کا باعث بن جاتی ہے اور کبھی ایسی آہ بن جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیتی ہے اور اس دنیا میں پھر حساب شروع ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور حقیقی تقویٰ دلوں میں قائم فرمائے۔
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ ایک اور واقعہ بیان فرماتے ہیں:۔ 1938ء کا واقعہ ہے کہ ہمارے حلقہ انتخاب (حافظ آباد) میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کی ممبری کے لئے دو امیدوار کھڑے ہوئے۔ یعنی ایک چوہدری ریاست علی چٹھہ تھے اور دوسرے میاں مراد بخش صاحب بھٹی۔ یہ دونوں امیدوار علاقہ کے احمدیوں سے ووٹ دینے کے لئے درخواست کر رہے تھے۔ لیکن محترم میاں سردار خان صاحب رضی اللہ عنہ ان کو یہی جواب دیتے تھے کہ جب تک حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ (خلیفہ ثانیؓ) کی طرف سے کوئی فیصلہ صادر نہ ہو وہ کسی امیدوار کے حق میں وعدہ نہیں کر سکتے۔ …… حضرت مولانا راجیکی صاحب خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد کے ساتھ تشریف لے گئے اور گاوٴں کی بھری مجلس میں جس میں علاوہ احمدیوں کے بہت سے غیر احمدی بھی موجود تھے یہ ہدایت سنائی کہ اسمبلی کی نشست کے لئے ووٹ چوہدری ریاست علی صاحب چٹھہ کو دئے جائیں۔ (ان دو میں سے ایک کو)۔ یہ خلافِ توقع فیصلہ سن کر علاوہ احمدیوں کے تمام حاضرین جو چوہدری ریاست علی کے مخالف تھے غصّہ سے تِلملا اٹھے اور احمدیوں کے خلاف سبّ و شتم اور مخالفانہ مظاہروں سے اس علاقہ کی فضا کو خراب کر دیا۔ ہم نے اس مخالفت کو صبر و استقلال سے برداشت کیا۔
اس موقع پر علاقہ کے ایک بھٹی رئیس حاتم علی نامی نے تو مخالفت انتہا کو پہنچا دی۔ اور جوشِ غیض میں نہ صرف یہ کہ عام احمدیوں کو گالیاں دیں، بلکہ حضرت مولانا صاحب اور سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بڑی سبّ وشتم (بیہودہ دہنی) کا نشانہ بنایا۔ اور ان بزرگ ہستیوں کی سخت ہتک اور توہین کا ارتکاب کیا۔ کہتے ہیں جب اس کی بد زبانی کی انتہا ہو گئی تو حضرت مولانا راجیکی صاحب نے حاضرین مجلس کے سامنے ان کو(مخالفین کو) ان الفاظ میں مخاطب کیاکہ حاتم علی! دیکھ اس قدر ظلم اچھا نہیں۔ تیرے جیسوں کو خدا تعالیٰ زیادہ مہلت نہیں دیتا۔ یاد رکھ اگر تُو نے توبہ نہ کی تو جلد پکڑا جائے گا۔ حضرت مولوی صاحب مجمع عام میں یہ الفاظ کہہ کر اور احبابِ جماعت کو صبر کرنے اور اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ کی دعا پڑھتے رہنے کی تلقین کر کے واپس قادیان تشریف لے گئے۔ حاکم علی آپ کے جانے کے معاً بعد بعارضہ سِل بیمار ہو گیا اور مقامی طور پر علاج کی کوشش بھی کی اور میوہسپتال کے ماہر ڈاکٹروں سے علاج بھی کروایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور چار ماہ کی تکلیف دہ بیماری کے بعد یہ اپنی تمام تر دولت اور جاہ و جلال کے باوجود فوت ہو گیا، اس دنیا سے چلا گیا۔ (ماخوذ ازحیات قدسی حصہ پنجم صفحہ 637-639 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ فرماتے ہیں:
ایک واقعہ ضلع سیالکوٹ تحصیل پسرور کے ایک گاوٴں کا ہے کہ وہاں پر حکیم مولوی نظام الدین صاحب ایک احمدی رہتے تھے۔ انہوں نے ملاقات کے وقت مجھے سنایا کہ میرے رشتہ داروں میں سے اسی علاقے کے ایک گاوٴں میں ایک مولوی صاحب رہتے تھے جو واعظ بھی تھے۔ اور حیاتِ مسیح کے عقیدہ کے اس قدر حامی تھے کہ شب و روز ان کی بحث کا آغاز اسی موضوع پر ہوتا تھا کہ عیسیٰ زندہ ہیں۔ جب ان کی خدمت میں آیت یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ پیش کی جاتی تھی۔ وہ پوری آیت اس طرح ہے۔ اس کا اگلا حصہ بھی تب ہی سمجھ میں آئے گا جب پوری آیت سامنے ہو۔ کہ اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ (آل عمران: 56)
جب اللہ تعالیٰ نے کہا اے عیسیٰ! یقیناً میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں اور تجھے ان لوگوں سے نتھار کر الگ کرنے والا ہوں جو کافر ہوئے اور ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے ان لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک بالا دست کرنے والا ہوں۔ پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹ کر آنا ہے جس کے بعد مَیں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
اب دیکھیں یہاں اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ قرآن شریف کی اپنی ترتیب ہے۔ جب یہ آیت انہیں پیش کی جاتی اور اس سے استدلال کیا جاتا تو محض جوش سے اس فقرہ کو آگے پیچھے کر دیتے اور کہتے تھے کہمُتَوَفِّیۡکَ کو وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ کے بعد رکھتے ہیں کہ اصل ترتیب یہ ہے۔ انہیں کوئی خوف نہیں تھا کہ قرآن کریم کی کسی آیت میں تبدیلی کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ تو وہ اپنے جذبہ اور جوش میں مُتَوَفِّیۡکَ کو زبانی موخر کرتے رہے۔ بعد میں پھر انہوں نے اسی جذبے کی شدت سے علماء سے یہ مشورہ کرنا شروع کر دیا کیوں نہ قرآنِ کریم کے تازہ ایڈیشن میں اس فقرہ کو موٴخر printکر دیا جائے، طبع کر دیا جائے۔ علماء نے کہا کہ بے شک یہ لفظ ہے تو موٴخرلیکن اگر اس کو طباعت میں پیچھے کیا گیا تو لوگوں میں شور پڑ جائے گا۔ اور بہت سخت اعتراض ہو گا۔ اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ کچھ بھی ہو مَیں یہ کام خود کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے وعظ کر کے بہت سا روپیہ جمع کیا۔ اور امرتسر پہنچے لیکن وہاں تمام پریس والوں نے اس طرح تحریف کرنے سے قرآنِ کریم کو طبع کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر وہ ایک سکھ پریس والے کے پاس گئے اور بہت سا روپیہ اس غرض کے لئے پیش کیا لیکن اس نے بھی مسلمانوں کے ڈر سے جرأت نہ کی اور انکار کر دیا۔ مگر مولوی صاحب مذکور کے سر میں کچھ ایسا جنون سمایا ہوا تھا کہ انہوں نے اس غرض کے لئے پریس کے پتھر وہاں سے خرید لئے اور یہ ارادہ کیا کہ وہ اپنے گاوٴں میں طباعت کا کام کر کے تحریف کے ساتھ قرآنِ کریم طبع کروائیں گے۔ لیکن ان کے گھر پہنچنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عجیب پُر ہیبت نشان ظاہر ہواکہ مولوی صاحب اور ان کے اہل و عیال یکایک ایک طاعون کی لپیٹ میں آگئے اور ایک ہی رات میں گھر کے سب لوگ جو تھے وہ موت کی نذر ہو گئے۔ (ماخوذ ازحیات قدسی حصہ چہارم صفحہ 391 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
تو یہ نام نہاد مُلّاں اور عالم، جو تقویٰ سے بالکل عاری ہیں حضرت مسیح موعود کی دشمنی میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں تحریف کرنے سے بھی نہیں ڈرتے۔ اور الزام ہے احمدیوں پر۔ بہر حال اللہ تعالیٰ بھی اپنا حساب عجیب طریقے سے لیتا ہے۔ اور جو قرآنِ کریم کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا ہے اس کو بھی کس طرح پورا کیا۔ ہلکی سی بھی تحریف کسی ایسے شخص کے ہاتھ سے بھی کرنی گوارا نہیں کی جو بظاہر کلمہ گو کہلاتا تھا اور فوراً اس کو سزا دی۔
حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ: ’’اگر خدا تعالیٰ کی کچھ بھی عظمت ہو اور مرنے کا خیال اور یقین ہوتو ساری سستی اور غفلت جاتی رہے۔ اس لئے خدا تعالیٰ کی عظمت کو دل میں رکھنا چاہئے اور اس سے ہمیشہ ڈرنا چاہئے۔ اس کی گرفت خطرناک ہوتی ہے۔ وہ چشم پوشی کرتا ہے اور درگزر فرماتا ہے۔ لیکن جب کسی کو پکڑتا ہے تو پھر بہت سخت پکڑتا ہے۔ یہاں تک کہ لَا یَخَافُ عُقۡبٰہَا (الشمس: 16) پھر وہ اس امر کی بھی پروا نہیں کرتا کہ اس کے پچھلوں کا کیا حال ہو گا۔ برخلاف اس کے جولوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور اس کی عظمت کو دل میں جگہ دیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو عزت دیتا ہے اور خود ان کے لئے ایک سِپر ہو جاتا ہے‘‘۔ (ڈھال بن جاتا ہے)۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 641 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہمیشہ اپنے غضب سے، اپنی ہلکی سی سزا سے بھی ہمیں محفوظ رکھے، اور ہمیں اپنے انعامات سے نوازے۔ ہمیشہ ہمارے وہم و گمان سے بڑھ کر اپنے فضل و رحم کے نظارے دکھائے، اپنی خوف اور اپنی خشیت ہمارے دلوں میں قائم فرمائے۔ ہم کامل توکّل کرنے والے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ خود ہر موقع پر ہماری ڈھال بن جائے جیسا کہ اس کا وعدہ ہے۔
انشاء اللہ تعالیٰ مَیں سفر پر بھی جا رہا ہوں تو امید ہے آئندہ چند جمعے جو ہیں وہ آپ لوگ بھی باقی دنیا کی طرح MTAپر دیکھیں گے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ سفر بابرکت فرمائے۔