خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍ اپریل 2010ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

میں اکثر جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں اور حقیقی شکر گزاری اسی صورت میں ادا ہو سکتی ہے جب ہمارے دل میں تقویٰ ہو، جب ہم اپنے مقصدِ پیدائش کو سمجھتے ہوئے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اور اس دورے کے دوران جو میں نے یورپ کے مختلف ممالک کا کیا ہے میں نے گزشتہ دو تین خطبات میں خاص طور پر اس طرف توجہ دلائی تھی۔ یہ باتیں دوہرانے کی مجھے اس وجہ سے بھی توجہ پیدا ہوئی کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں MTA کی سہولت سے نوازا ہوا ہے جس میں میرے خطبات باقاعدہ آتے ہیں اور دوسرے ایسے پروگرام بھی جاری رہتے ہیں جو ہماری روحانی ترقی کے لئے ضروری ہیں پھر بھی سو فیصد افرادِ جماعت اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور ایک خاصی تعداد مردوں، عورتوں اور نوجوانوں میں ایسے افراد کی ہے جو باقاعدگی سے خطبہ بھی نہیں سنتے۔ یا سن لیں تو یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید جس جگہ خطبہ دیا جا رہا ہے وہاں کے لوگوں کے لئے ہے۔ حالانکہ ہر خطبہ کا مخاطب ہر احمدی ہوتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو۔ خاص طور پر جوپرانے احمدی ہیں ان میں یہ بڑی غلط رَو پیدا ہو گئی ہے۔ نئے ہونے والے احمدیوں میں عربوں میں سے بھی لکھتے ہیں، یا جو نو مبائعین ہیں ملاقاتوں میں بتاتے ہیں کہ بعض خطبات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے حالات کے متعلق آپ کہہ رہے ہیں۔ اب کچھ عرصہ سے رشین میں بھی باقاعدہ خطبہ کا ترجمہ MTAسے نشر کیا جاتا ہے اور روس کے مختلف ممالک سے احمدیوں کے، جو وہاں کے مقامی احمدی ہیں، خطوط بڑی کثرت سے آنے لگ گئے ہیں کہ خطبات نے ہم پر مثبت اثر کرنا شروع کر دیا ہے اور بعض اوقات تربیتی خطبات پر یوں لگتا ہے کہ جیسے خاص طور پر ہمارے حالات دیکھ کر ہمارے لئے دئیے جا رہے ہیں۔ بلکہ شادی بیاہ کی رسوم پر جب میں نے خطبہ دیا تھا تو اس وقت بھی خط آئے کہ ان رسوم نے ہمیں بھی جکڑا ہوا ہے اور خطبہ نے ہمارے لئے بہت سا تربیتی سامان مہیا فرمایا ہے۔ تو جو احمدی اس جستجو میں ہوتے ہیں کہ ہم نے خلیفہ وقت کی آواز کو سننا ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے، اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہے وہ نہ صرف شوق سے خطبات سنتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی ان کا مخاطب سمجھتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہاایک تعداد ایسی بھی ہے جو یا تو خطبات کو سنتی نہیں یا اپنے آپ کو اس کا مخاطب نہیں سمجھتی یا رسمی طور پر سن لیتی ہے۔ اس لئے میں بعض معاملات کی طرف ہر ملک میں بار بار اپنے خطبات میں توجہ دلاتا ہوں کیونکہ دورے کی وجہ سے احمدیوں کی ایک بڑی تعدادجمعہ پر حاضر ہو جاتی ہے۔ ہر احمدی کے اندر ایک نیکی کا بیج تو ہے۔ خلافت سے ایک تعلق تو ہے جس کی وجہ سے باوجود عمومی کمزوریوں کے جب سنتے ہیں کہ خلیفہ وقت کا دورہ ہے اور خطبہ ہے، جلسہ ہے تو ایک خاص شوق اور جذبے سے اس پروگرام میں شامل ہوتے ہیں چاہے خطبہ ہو یا کوئی اور پروگرام ہو۔

پس آج اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں سوئٹزرلینڈ کے احمدیوں کو بھی بعض امور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور سب سے پہلی بات تو یہی ہے جو شروع میں مَیں نے کہی کہ عبدِ شکور بنیں، شکر گزار بندے بنیں۔ خاص طور پر یورپ کے ممالک میں آنے والے احمدی اور آپ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے سوئٹزرلینڈ میں آ کر رہنے اور مالی سکون و کشائش عطا فرمائے، ان کو بہت زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ نے شکر گزاری کے مضمون کو قرآنِ کریم میں مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ اِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکُمۡ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ (ابراہیم: 8) اور جب تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ لوگو! اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔

پس یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کی شکر گزاری کی طرف توجہ دلائی ہے یا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اظہار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکر گزاری اور اس کا اظہار کیا ہے؟ اس کی شکر گزاری کا اظہار اس کی کامل فرمانبرداری ہے۔ اس کے حکموں کی پابندی ہے۔ جن باتوں کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے انہیں پوری توجہ سے سرانجام دینا ہے اور جن باتوں سے اس نے روکا ہے ان سے کامل فرمانبرداری کا نمونہ دکھاتے ہوئے رُک جانا ہے۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے تو ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ اپنی زندگی عبدِ شکور بن کر گزارے اور عبدِ شکور بننے کے لئے اپنے دل و دماغ میں اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد رکھے۔ اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد رکھتے ہوئے اس کے ذکر سے تَر رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے جن انعامات سے نوازا ہے انہیں یاد رکھے اور انہیں یاد رکھتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حمد کا اظہار ہو۔ اللہ تعالیٰ کی حمد زبان پر جاری رہے اور صرف زبان پر نہ جاری ہو بلکہ ایک حقیقی مومن کا اظہار اس کے ہر عضو سے ہوتا ہو، اس کی ہر حرکت و سکون سے ہوتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ بننے کی کوشش ہو۔ یہ عاجزی اس وقت ہو سکتی ہے جب حقیقت میں تمام نعمتوں کا دینے والا خدا تعالیٰ کی ذات کو سمجھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا پیار دل میں ہو۔ جو نعمتیں اس نے دی ہیں ان کا استعمال اس کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ہو۔ صحت مند جسم دیا ہے تو عبادت اور اس کے راستے میں اس کے دین کی خدمت کر کے اس کا شکر ادا کریں۔ اگر کشائش عطا فرمائی ہے تو کسی قسم کی رعونت، تکبر اور فخر کے بغیر اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرف توجہ کریں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں اور استعدادوں اور مال اور اولادکے صحیح مصارف خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ہیں تو طبعی شکر گزاری بھی ہے اور پھر خدا تعالیٰ جو اپنے بندے پر بہت رحم کرنے والا ہے اور ایک کے بدلے کئی گنا دینے والا ہے۔ وہ استعدادیں بھی بڑھاتا ہے، صحت بھی دیتا ہے، کشائش بھی دیتا ہے، ایک عابد بندے کو اپنے قرب سے بھی نوازتا ہے۔ اس کا جو مقصدِ پیدائش ہے اس کے حصول کی بھی توفیق دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر انسان اپنے زورِ بازو سے عبادت یعنی مقبول عبادت بھی نہیں کر سکتا۔ اگر عبادت کرتا بھی ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر وہ قابلِ قبول نہیں تو ایسی عبادت بھی بے فائدہ ہے۔ پس یہ شکر گزاری کا مضمون ہے جو نیکیوں میں بڑھنے کی بھی توفیق دیتا ہے۔ تقویٰ میں بڑھنے کی توفیق دیتا ہے۔ کیونکہ انسان اپنے ہر قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا نتیجہ قرار دے کر اس کی طرف جھکتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے شکر گزار بندوں کی طرف توجہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَ مَا یَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلَنۡ یُّکۡفَرُوۡہُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ (آل عمران: 116) اور جو نیکی بھی وہ کریں اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔

پس تقویٰ بھی شکر گزاری سے بڑھتا ہے کیونکہ شکر گزاری بھی ایک نیکی ہے۔ اور حقیقی نیکیوں کی توفیق بھی اپنے تمام تر وجود، مال، صلاحیتوں اور نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی طرف منسوب کرنے سے ملتی ہے اور ایسے نیکیوں میں بڑھنے والے اور شکر گزار مومنوں کے لئے خدا تعالیٰ خودکس طرح اپنے شکور ہونے کا ثبوت دیتا ہے، اس کی مزید وضاحت کے لئے اس طرح بیان فرمایا کہ لِیُوَفِّیَہُمۡ اُجُوۡرَہُمۡ وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّہٗ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ (فاطر: 31) یعنی تا کہ وہ انہیں ان کے اعمال کے پورے پورے اجر دے اور ان کو اپنے فضل سے اور بھی زیادہ بڑھا دے یقیناً وہ بہت بخشنے والا اور بہت قدر دان ہے۔

جب اللہ تعالیٰ اپنے لئے شکور کا لفظ استعمال کرتا ہے تو بندوں والی عاجزی اور شکر گزاری نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جو تمام طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے وہ جب شکور بنتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی عاجزی اور شکر گزاری اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کو پسند کیا ہے اور خالص ہو کر اس کی خاطر کی گئی عبادتیں اور تمام نیکیاں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہیں۔ اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غفور کے لفظ کے ساتھ شکور کا لفظ استعمال فرمایا کہ وہ بخشنے والا ہے اور قدردان ہے۔ انسان جو کمزور ہے جب اس کو احساس ہو جائے کہ میں نے ہر نیکی خدا تعالیٰ کی خاطر بجا لانی ہے اور اس کا شکر گزار بندہ بننا ہے اور خالص ہو کر اس کی طرف جھکنا ہے تو اللہ تعالیٰ جو بہت بخشنے والا ہے، جس کی رحمت بہت وسیع ہے وہ اپنی مغفرت کی چادر میں اپنے بندے کو ڈھانپ لیتا ہے۔ اس کے گناہوں اور کمزوریوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور اپنی طرف بڑھنے والے اپنے بندے کے ہر قدم کو بڑی قدر کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے انعامات میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ پس یہ ہمارا خدا ہے جو ہر لحاظ سے اپنے بندے کو نوازتا ہے۔ اسے دنیا بھی ملتی ہے اور اس کو نیکیوں کے اجر بھی ملتے ہیں۔ اگر ایسے مہربان اور قدر دان خدا کو چھوڑ کر بندہ اور طرف جائے تو ایسے شخص کو بیوقوف اور بدقسمت کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟

پس آپ لوگ جو اس ملک میں آکر آباد ہوئے ہیں، اپنے جائزے لیں۔ آپ اپنے ماضی کو دیکھیں اور اس پر نظر رکھیں تو آپ میں سے اکثر یہی جواب پائیں گے کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر اپنا فضل فرمایا ہے۔ اپنے وطن سے بے وطنی کوئی بِلاوجہ اختیار نہیں کرتا۔ یا تو ظالموں کی طرف سے زبردستی نکالا جاتا ہے یا ظلموں سے تنگ آ کر خود انسان نکلتا ہے، یا معاش کی تلاش میں نکلتا ہے۔ اگر احمدی اپنے جائزے لیں تو صاف نظر آئے گا کہ جو صورتیں میں نے بیان کی ہیں ان میں سے اگر پہلی صورت مکمل طور پر نہیں تو دوسری دو صورتیں بہر حال ہیں۔ ظلموں سے تنگ آکر نکلنا بھی جیسا کہ میں نے کہا ذہنی سکون اور معاش کی تلاش کی وجہ سے ہی ہے۔ اور ان ملکوں کی حکومتوں نے آپ کے حالات کو حقیقی سمجھ کر آپ لوگوں کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ سب فضل ہم پر احمدیت کی وجہ سے کئے ہیں۔ پس یہ پھر اس طرف توجہ دلانے والی چیز ہے کہ احمدیت کے ساتھ اس طرح چمٹ جائیں جو ایک مثال ہو تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکر گزاری ہو گی۔

اگر جماعت کی قدر نہیں کریں گے اگر خلیفہ وقت کی باتوں پر کان نہیں دھریں گے تو آہستہ آہستہ نہ صرف اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے فضلوں سے دور کر رہے ہوں گے بلکہ اپنی نسلوں کو بھی دین سے دور کرتے چلے جائیں گے۔ پس غور کریں، سوچیں کہ اگر یہ دنیا آپ کو دین سے دور لے جا رہی ہے تو یہ انعام نہیں ہلاکت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بے قدری ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کی بیعت کی ہے جس کے آنے کی ہر قوم منتظر ہے۔ جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیار کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ جس کے لئے آنحضرتﷺ نے سلام بھیجا ہے۔ (المعجم الاوسط جلد 3 من اسمہ عیسیٰ حدیث نمبر 4898 صفحہ 383-384۔ دار الفکر، عمان اردن طبع اول 1999ء)

تو کیا ایسے شخص کی طرف منسوب ہونا کوئی معمولی چیز ہے؟ یقیناً یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو ایک احمدی کو ملا ہے۔ پس اس اعزاز کی قدر کرنا ہر احمدی کا فرض ہے۔ یہ قدر پھر ایک حقیقی احمدی کو عبدِ شکور بنائے گی اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر اترتے دیکھے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے منسوب ہونا صرف زبانی اعلان نہیں ہے بلکہ ایک عہدِ بیعت ہے جو ہم نے آپ سے کیا ہے اور آپ کے بعد آپ کے نام پر خلیفہ وقت سے وہ عہد کیا ہے۔ اس بیعت کے مضمون کو سمجھنے کی بھی ہر احمدی کو ضرورت ہے۔ بیعت بیچ دینے کا نام ہے۔ یعنی اپنی خواہشات، تمام تر خواہشات اور جذبات کو خدا تعالیٰ کے حکموں پر قربان کرنے اور ان کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کا ایک عہد ہے۔ اپنی مرضی کو بالکل ختم کرنے کا نام ہے جو خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کیا جاتا ہے اور اگر اس دن پر یقین ہو جو خدا تعالیٰ سے ملنے کا دن ہے، جس دن ہر عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے کن کن باتوں پر ہم سے عہد لیا ہے۔ ان کو میں مختصر آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ ہر ایک اپنے جائزے خود لے کہ کیا اس کی زندگی اس کے مطابق گزر رہی ہے یا گزارنے کی کوشش ہے۔ اگر نہیں تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سامنے رکھ کر کہ وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا (بنی اسرائیل: 35) اور اپنے عہد کو پورا کرو، ہر عہد کے متعلق یقیناً جواب طلبی ہو گی، ہمیں اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہئے کہ اس عارضی زندگی کے بعد ایک اخروی اور ہمیشہ کی زندگی کا دور شروع ہونا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے کیا عہد لیا ہے؟ اس کو مَیں مختصر بیان کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ سچے دل سے ہر قسم کے شرک سے دور رہنے کا عہد کرو۔ اور شرک کے بارے میں آپ نے بڑی وضاحت سے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ شرک صرف ظاہری بتوں اور پتھروں کا شرک نہیں ہے بلکہ ایک مخفی شرک بھی ہوتا ہے۔ اپنے کاموں کی خاطر اپنی نمازوں کو قربان کرنا یہ بھی شرک ہے۔ نمازوں سے بے توجہگی دوہرا گناہ ہے۔ ایک تو اپنے مقصدِ پیدائش سے دوری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جنوں اور انسانوں کو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ ہے کہ دنیا کو اُس پر مقدم کرنا ہے۔ گویا کہ رازق خدا تعالیٰ نہیں بلکہ آپ کی کوششیں ہیں اور آپ کے کاروبار یا ملازمتیں ہیں۔ بعض دفعہ اولاد بھی خدا تعالیٰ کے حکموں کے مقابلے پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ وہ بھی ایک شرک کی قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کا انکار کر کے اولاد کی بات ماننا بھی ایک قسم کا مخفی شرک ہے۔ بلکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی یاد کو یہ چیزیں بھلا دیتی ہیں۔ کئی لوگ ہیں جو احمدیت سے دور ہٹے ہیں تو اولاد کی وجہ سے۔ اولاد کے بے جا لاڈ پیار نے اور اولاد کی آزادی نے اولاد کو جب دین سے ہٹایا تو خود ماں باپ بھی دین سے ہٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے۔ کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡہِکُمۡ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ (المنافقون: 10) کہ اے مومنو! تمہیں تمہارے مال اور اولادیں اللہ کے ذکرسے غافل نہ کر دیں۔ پس جب بھی اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی دوسری چیز اہمیت حاصل کرے گی تو اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کی یاد، اس کی عبادت سے غافل کرے گی اور یہی مخفی شرک ہے کہ خدا تعالیٰ کے مقابلے پر دوسری چیزوں کو ترجیح دی جا رہی ہو۔ یہ غفلت معمولی غفلت نہیں ہے بلکہ ہلاکت کی طرف لے جانے والی غفلت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ نہ سمجھناکہ ہمارا عہدِ بیعت کر لینا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو جانا کافی ہے بلکہ ہر لمحہ تمہیں خدا تعالیٰ کی یاد سے اپنے دل و دماغ کو تازہ رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہر قسم کے شرک سے انتہائی دوری پیدا ہو جائے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک احمدی سے توقع رکھی ہے کہ ہر قسم کے جھوٹ، زنا، بدنظری، لڑائی جھگڑا، ظلم، خیانت، فساد، بغاوت سے ہر صورت میں بچنا ہے۔ ہر وقت اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ میں ان برائیوں سے بچ رہا ہوں؟ بعض لوگ ان باتوں کو چھوٹی اور معمولی چیز سمجھتے ہیں۔ اپنے کاروبار میں، اپنے معاملات میں جھوٹ بول جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک جھوٹ بھی معمولی چیز ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی شرک کے برابر ٹھہرایا ہے۔ زنا ہے، بدنظری وغیرہ ہے۔ یہ برائیاں آج کل میڈیا کی وجہ سے عام ہو گئی ہیں۔ گھروں میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ یا انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ایسی ایسی بیہودہ اور لچر فلمیں اور پروگرام وغیرہ دکھائے جاتے ہیں جو انسان کو برائیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں بعض احمدی گھرانوں میں بھی اس برائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پہلے تو روشن خیالی کے نام پر ان فلموں کو دیکھا جاتا ہے۔ پھر بعض بدقسمت گھر عملاً ان برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تویہ جوزنا ہے یہ دماغ کا اور آنکھ کا زنا بھی ہوتا ہے اور پھر یہی زنا بڑھتے بڑھتے حقیقی برائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ماں باپ شروع میں احتیاط نہیں کرتے اور جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو پھر افسوس کرتے اور روتے ہیں کہ ہماری نسل بگڑ گئی، ہماری اولادیں برباد ہو گئی ہیں۔ اس لئے چاہئے کہ پہلے نظر رکھیں۔ بیہودہ پروگراموں کے دوران بچوں کو ٹی وی کے سامنے نہ بیٹھنے دیں اور انٹر نیٹ پر بھی نظر رکھیں۔ بعض ماں باپ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ جماعتی نظام کا کام ہے کہ ان کو اس بارے میں آگاہ کریں۔ اسی طرح انصاراللہ ہے، لجنہ ہے، خدام الاحمدیہ ہے یہ تنظیمیں اپنی اپنی تنظیموں کے ماتحت بھی ان برائیوں سے بچنے کے پروگرام بنائیں۔ نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو جماعتی نظام سے اس طرح جوڑیں، اپنی تنظیموں کے ساتھ اس طرح جوڑیں کہ دین ان کو ہمیشہ مقدم رہے اور اس بارے میں ماں باپ کو بھی جماعتی نظام سے یا ذیلی تنظیموں سے بھر پور تعاون کرنا چاہئے۔ اگر ماں باپ کسی قسم کی کمزوری دکھائیں گے تو اپنے بچوں کی ہلاکت کا سامان کر رہے ہوں گے۔ خاص طور پر گھر کے جو نگران ہیں یعنی مرد ان کا سب سے زیادہ یہ فرض ہے اور ذمہ داری ہے کہ اپنی اولادوں کو اس آگ میں گرنے سے بچائیں جس آگ کے عذاب سے خدا تعالیٰ نے آپ کو یا آپ کے بڑوں کو بچایا ہے اور اپنے فضل سے زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ دنیا خاص طور پر دوسرے مسلمان شدید بے چینی میں مبتلا ہیں کہ ان کو کوئی ایسی لیڈر شپ ملے جو ان کی رہنمائی کرے۔ لیکن آپ پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہوا ہے کہ زمانے کے امام کی بیعت میں آکر رہنمائی مل رہی ہے۔ خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے سے نیکیوں پر قائم رہنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے یہ سب فضل تقاضا کرتے ہیں کہ توجہ دلانے پر ہر برائی سے بچنے کا عہد کرتے ہوئے لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھیں۔ نیکیوں پر خود بھی قدم ماریں اور اولاد کو بھی اس پر چلنے کی تلقین کریں اور اس کے لئے کوشش کریں۔ خدا تعالیٰ کے اس ارشاد اور انذار کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا (التحریم: 7) اے مومنو! اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی آگ سے بچاوٴ۔ آج کل تو دنیا کی چمک دمک اور لہو و لعب، مختلف قسم کی برائیاں جو مغربی معاشرے میں برائیاں نہیں کہلاتیں لیکن اسلامی تعلیم میں وہ برائیاں ہیں، اخلاق سے دور لے جانے والی ہیں، منہ پھاڑے کھڑی ہیں جو ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہاپہلے روشن خیالی کے نام پر بعض غلط کام کئے جاتے ہیں اور پھر وہ برائیوں کی طرف دھکیلتے چلے جاتے ہیں۔ تو یہ نہ ہی تفریح ہے، نہ آزادی بلکہ تفریح اور آزادی کے نام پر آگ کے گڑھے ہیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے جو اپنے بندوں پر انتہائی مہربان ہے، مومنوں کو کھول کر بتا دیا کہ یہ آگ ہے، یہ آگ ہے اس سے اپنے آپ کو بھی بچاوٴ اور اپنی اولادوں کو بھی بچاوٴ۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں جو اس معاشرے میں رہ رہے ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ یہ تمہاری زندگی کا مقصدنہیں ہے۔ یہ نہ سمجھوکہ یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے کہ اس لہو و لعب میں پڑا جائے، یہی ہمارے لئے سب کچھ ہے۔ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے تمہارے میں اور غیر میں فرق ہونا چاہئے۔ اسی طرح ہر احمدی کو ہر قسم کے ظلم سے بچنے کی ضرورت ہے۔ آپس میں محبت و پیار اور بھائی چارے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہر قسم کے دھوکے سے اپنے آپ کو بچانے کی ضرورت ہے۔ نظامِ جماعت کی پابندی کی ضرورت ہے۔ جماعت احمدیہ کی خوبصورتی تو نظامِ جماعت ہی ہے۔ اگر اس خوبصورتی سے دور ہٹ گئے تو ہمارے میں اور غیر میں کیا فرق رہ جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ تم نمازیں پڑھتے ہو وہ بھی نمازیں پڑھتے ہیں۔ تم روزے رکھتے ہو دوسرے مسلمان بھی روزے رکھتے ہیں۔ تم حج پر جاتے ہو دوسرے بھی حج پر جاتے ہیں۔ یا بعض صدقات بھی دیتے ہیں توکوئی فرق ہونا چاہئے۔ ایک بڑا واضح فرق نظامِ جماعت ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلافت سے تو ہمارا وفا کا تعلق ہے لیکن جماعتی نظام سے اختلاف ہے۔ جماعتی نظام بھی خلافت کا بنایا ہوا نظام ہے، اگر کسی عہدیدار سے شکایت ہے تو خلیفۂ وقت کو لکھا جا سکتا ہے۔ اس کی شکایت کی جا سکتی ہے۔ لیکن نظامِ جماعت کی اطاعت سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسی طرح عہدیداروں کا بھی کام ہے کہ لوگوں کے لئے ابتلا کا سامان نہ بنیں۔ لوگوں کو ابتلا میں نہ ڈالیں اور سچی ہمدردی اور خیر خواہی سے ہر ایک سے سلوک کریں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی شرائطِ بیعت میں نمازوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ میرے سے منسوب ہونے کے لئے نمازیں شرط ہیں۔ (ماخوذ ازمجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159 مطبوعہ ربوہ)

اس بارے میں پہلے بھی بتا چکا ہوں۔ لیکن اس مضمون کو آپ نے نمازوں کے ساتھ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرو اور اس کے احسانوں کو ہمیشہ یاد رکھو۔

پھرچوتھی شرط بیعت آپ نے بیان فرمائی کہ نفسانی جوش کے تحت نہ زبان سے نہ ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہیں دینی۔ (ماخوذ ازمجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159 مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ نے فرمایا کہ ہر حالت میں، تنگی کے حالات ہوں یا آسائش کے خدا تعالیٰ سے بے وفائی نہیں کرنی بلکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں قدم آگے بڑھانا ہے۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159 مطبوعہ ربوہ)

جیسا کہ میں بیان کر آیا ہوں کشائش جو اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں آنے کی وجہ سے آپ کو عطا فرمائی ہے اس کے حقیقی شکر گزار بندے بنیں۔ بعض لوگ آج کل کے معاشی حالات کی وجہ سے جو دنیا میں گزشتہ تقریباً دو سال سے عمومی طور پر چل رہے ہیں پریشانی کا شکار بھی ہیں۔ لیکن اس پریشانی میں بھی خدا تعالیٰ کا دامن نہیں چھوڑنا۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کھول کر بیان فرمایا ہے۔

پھر ایک شرط یہ آپ نے رکھی کہ دنیا کی رسموں اور ہوا و ہوس سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کرنی ہے۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159)

اب اللہ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کرنے کے لئے قرآنِ کریم کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے تا کہ قرآنِ کریم میں اس کے جو حکم ہیں ان کو سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو۔

پھر ایک شرط یہ فرمائی کہ ہر قسم کا تکبر چھوڑنا ہو گا اور عاجزی اختیار کرنی ہو گی۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159 مطبوعہ ربوہ)

پھر آٹھویں شرط میں آپ فرماتے ہیں کہ اور دین اور دین کی عزت اور ہمدردیٴ اسلام کو اپنی جان، مال اور عزت اور اولاد اور ہر ایک عزیزسے زیادہ عزیز سمجھ لیں۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 160 مطبوعہ ربوہ)

پس یہ ایک بہت اہم شرط ہے۔ ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ احمدی ہونے کے ناطے احمدیت کا نمائندہ ہے۔ اور اسلام کی حقیقی تصویر بننے کی اس نے کوشش کرنی ہے۔ غیر احمدی مسلمانوں کی نظریں بھی ہم پر ہیں اور غیر مسلموں کی نظریں بھی ہم پر ہیں۔ ہم یہ دعویٰ کر کے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں کہ ہم اسلام کی حقیقی تصویر ہیں۔ جب ہم اسلام کی حقیقی تصویر ہیں تو اسلام کی عزت کو قائم رکھنے کی ذمہ داری بھی ہمارے سپرد ہے۔ ہم نے ایک نمونہ بننا ہے۔ اور جب ہمارے نمونے ہوں گے تو تبھی ہم تبلیغ کے میدان میں بھی ترقی کر سکتے ہیں۔ دین کی عزت اور اسلام کی ہمدردی ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس عزت کو دنیا میں قائم کریں۔ آج جب کہ ہر طرف اسلام کے خلاف محاذ کھڑے کئے گئے ہیں آپ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اسلام مخالف لوگوں نے یہاں اس ملک میں بھی اسلام کو بدنام کرنے کا ایک طریق اختیار کیا ہے کہ مسلمانوں کی مسجدوں کے مینارے نہ بننے دئیے جائیں۔ اگر یہ مینارے ختم ہو گئے تو مسلمانوں کے جرائم اور ان کی دنیا میں فساد پیدا کرنے کی جو ساری activities ہیں وہ بقول ان کے ختم ہو جائیں گی۔ بے شک یہ میناروں کا فیصلہ تو ہو چکا ہے۔ لیکن اس ایشو کو ہر وقت زندہ رکھیں۔ وقتاً فوقتاً اخباروں میں لکھیں، سیمینار کریں یا اور مختلف طریقوں سے اس طرف لوگوں کی توجہ کراتے رہیں۔ جس طرح توجہ سے انہوں نے ریفرینڈم کروا کر یہ قانون پاس کروایا ہے اسی طرح ریفرینڈم سے قانون ختم بھی ہو سکتا ہے۔ بے شک میناروں کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ تو بہت بعد میں بننے شروع ہوئے ہیں لیکن یہاں اسلام کی عزت کا سوال ہے کہ اسلام کو میناروں کے نام پر بدنام کیا جا رہا ہے۔ اس لئے مسلسل کوشش ہوتی رہنی چاہئے۔ جماعت احمدیہ کی مثال دنیا کے سامنے پیش کریں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے 195ممالک میں جماعت قائم ہے۔ کسی ایک جگہ بھی مثال دو، یہاں سوئٹزرلینڈ میں ہی مثال دو کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے کبھی کوئی قانون شکنی کی گئی ہو یا کسی بھی فساد میں جماعت نے حصہ لیا ہو، یا حکومت کے خلاف کسی بغاوت میں شامل ہوئے ہوں۔ بلکہ قوانین کی مکمل پابندی کی جاتی ہے۔ ہم ہیں جو اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے والے ہیں۔ ذاتی رابطوں سے اپنے تعلقات کو بھی وسیع کریں۔ اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنے ماحول میں نہ بیٹھے رہیں۔ جن کو زبان آتی ہے، جن کے ارد گرد ماحول میں شرفاء ہیں وہ اس ماحول میں رابطے کریں۔ تبلیغی میدان کو وسیع کریں۔ جن کوصحیح طرح زبان نہیں آتی وہ کوئی لٹریچر لے کر تقسیم کرنا شروع کر دیں۔ بہر حال پوری جماعت کے ہر فرد کو اس بات میں اپنے آپ کو ڈالنا ہو گا۔ تبھی آپ کی تھوڑی تعداد بھی جو ہے وہ موٴثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ کیونکہ اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنا اور تبلیغ کی مہم میں اسلام کی اور دین کی عزت اور عظمت قائم کرنا ضروری ہے۔ جب تک ہم ایک مسلسل جدوجہد کے ساتھ اپنی تعداد میں اضافے کی کوشش نہیں کرتے ہم دین کی عزت قائم کرنے اور اسلام کی ہمدردی کا حق ادا نہیں کر سکتے یا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے نہیں کہلا سکتے۔

اسی طرح آج کل یورپ میں اسلام کو بدنام کرنے کا ایک ایشو پردہ کا بھی اٹھا ہوا ہے۔ ہماری بچیاں جو ہیں اور عورتیں جو ہیں ان کا کام ہے کہ اس بارے میں ایک مہم کی صورت میں اخباروں میں مضامین اور خطوط لکھیں۔ انگلستان میں یا جرمنی وغیرہ میں بچیوں نے اس بارے میں بڑا اچھا کام کیا ہے کہ پردہ عورت کی عزت کے لئے ہے اور یہ تصور ہے جو مذہب دیتا ہے، ہر مذہب نے دیا ہے کہ عورت کی عزت قائم کی جائے۔ بعضوں نے تو پھر بعد میں اس کی صورت بگاڑ لی۔ عیسائیت میں تو ماضی میں زیادہ دور کا عرصہ بھی نہیں ہوا جب عورت کے حقوق نہیں ملتے تھے اور اس کو پابند کیا جاتا تھا، بعض پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ تو بہر حال یہ عورت کی عزت کے لئے ہے۔ عورت کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنی عزت چاہتی ہے اور ہر شخص چاہتا ہے لیکن عورت کا ایک اپنا وقار ہے جس وقار کو وہ قائم رکھنا چاہتی ہے اور رکھنا چاہئے۔ اور اسلام عورت کی عزت اور احترام اور حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ پس یہ کوئی جبر نہیں ہے کہ عورت کو پردہ پہنایا جاتا ہے یا حجاب کا کہا جاتا ہے۔ بلکہ عورت کو اس کی انفرادیت قائم کرنے اور مقام دلوانے کے لئے یہ سب کوشش ہے۔

اس کے ساتھ ہی میں ان احمدی لڑکیوں کو بھی کہتا ہوں جو کسی قسم کے complexمیں مبتلا ہیں کہ اگر دنیا کی باتوں سے گھبرا کر یا فیشن کی رَو میں بہہ کر انہوں نے اپنے حجاب اور پردے اتار دئیے تو پھر آپ کی عزتوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہو گی۔ آپ کی عزت دین کی عزت کے ساتھ ہے۔ میں پہلے بھی ایک مرتبہ ایک واقعہ کا ذکر کر چکا ہوں۔ اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔ ایک احمدی بچی کو اس کے باس (Boss) نے نوٹس دیا کہ اگر تم حجاب لے کر دفتر آئی تو تمہیں کام سے فارغ کر دیا جائے گا اور ایک مہینہ کا نوٹس ہے۔ اس بچی نے دعا کی کہ اے اللہ! میں تو تیرے حکم کے مطابق یہ کام کر رہی ہوں اور تیرے دین پر عمل کرتے ہوئے یہ پردہ کر رہی ہوں۔ کوئی صورت نکال۔ اور اگر ملازمت میرے لئے اچھی نہیں تو ٹھیک ہے پھر کوئی اور بہتر انتظام کر دے۔ تو بہر حال ایک مہینہ تک وہ افسر اس بچی کو تنگ کرتا رہا کہ بس اتنے دن رہ گئے ہیں اس کے بعد تمہیں فارغ کر دیا جائے گا۔ اور یہ بچی دعا کرتی رہی۔ آخر ایک ماہ کے بعد یہ بچی تو اپنی کام پر قائم رہی لیکن اس افسر کو اس کے بالا افسر نے اس کی کسی غلطی کی وجہ سے فارغ کر دیا یا دوسری جگہ بھجوا دیا اور اس طرح اس کی جان چھوٹی۔ اگر نیت نیک ہو تو اللہ تعالیٰ اسباب پیدا فرما دیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو خدا تعالیٰ ایسے طریق سے مدد فرماتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد کے الفاظ دل سے نکلتے ہیں۔ پھر نویں شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خلق اللہ سے ہمدری اور بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کا لکھا ہے۔ (ماخوذ ازمجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 160 مطبوعہ ربوہ)

یہ بھی حقیقی رنگ میں اس وقت ہو سکتا ہے جب خالص ہمدردی کے جذبے کے تحت دنیا کو خدا تعالی کے قریب کرنے کی کوشش کریں اور انہیں کامل اور مکمل دین کے بارے میں بتائیں۔ اور یہ اس وقت ہو گا جب پیغام پہنچانے والے کے اپنے عمل بھی اس تعلیم کے مطابق ہوں گے۔ اور پھر ایک درد کے ساتھ ماحول میں پیغام پہنچانے کی کوشش کریں گے۔

شرائطِ بیعت کی آخری شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مجھ سے اطاعت اور تعلق سب دنیاوی رشتوں سے زیادہ ہو۔ (ماخوذ ازمجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 160 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس ہر ایک کو جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے رشتے، ہماری عزیز داریاں، ہمارے تعلقات، ہماری قرابت داریاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق میں حائل تو نہیں ہو رہے اور اس کے معیار کا علم ہمیں اس وقت ہو گا جب ہم آپ کی تعلیم (جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے) کا جوٴا مکمل طور پر اپنے گلے میں ڈالنے والے ہوں گے یا اس کے لئے کوشش کرنے والے ہوں گے۔ آپ نے اپنے بعد جس قدرتِ ثانیہ کے آنے کی خوشخبری دی تھی جو دائمی ہو گی اس قدرتِ ثانیہ یعنی خلافت کے ساتھ کامل اطاعت اور وفا کا نمونہ بھی آپ دکھائیں گے۔ اگر ہر ایک حقیقی تعلق کو قائم رکھنے کا عہد کرے گا تو وہ حقیقت میں آپ کی جماعت میں شمار ہو گا ورنہ احمدیت کا صرف لیبل ہے۔ یہ نہ ہو کہ بعد میں آنے والے احمدی آگے نکل کر ان برکات سے فیض پا لیں اور پرانے احمدی جن کے باپ دادا نے قربانیاں دے کر احمدیت کے چشمے اپنے گھروں میں جاری کئے تھے وہ اس چشمے سے محروم ہو جائیں۔ پس بہت دعاوٴں اور توجہ کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’یقیناً سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں ہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولت مند اور خوش خور ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لئے ہو جاتے ہیں۔ پس تم اس امر کی طرف توجہ کرو، نہ پہلے امر کی طرف‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ596)

پھر آپ فرماتے ہیں ’’جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ (آل عمرن: 56) یعنی اور وہ لوگ جنہوں نے تیری پیروی کی انہیں ان لوگوں پر جنہوں نے تیرا انکار کیا قیامت تک غالب رکھوں گا۔ یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دو تین دفعہ ہوا۔ قرآنِ کریم کی آیت بھی ہے۔ اور 1883ء میں شاید اس وقت پہلی دفعہ ہوا جب آپ کی جماعت کی ابھی بنیاد بھی نہیں پڑی تھی۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں پھر فرماتے ہیں کہ ’’وہ میرے متبعین کو میرے منکروں اور میرے مخالفوں پر غلبہ دے گا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں سے ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہو سکتا جب تک اپنے اندر وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہو سکتا۔ …… ایسی پیروی کہ گویا اطاعت میں فنا ہو جاوے اور نقشِ قدم پر چلے۔ اس وقت تک اتباع کا لفظ صادق نہیں آتا۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسی جماعت میرے لئے مقدر کی ہے جو میری اطاعت میں فنا ہو اور پورے طور پر میری اتباع کرنے والی ہو۔‘‘ فرمایا: ’’یہ ضروری امر ہے کہ میں تمہیں توجہ دلاوٴں کہ تم خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرو اور اسی کو مقدم کر لو اور اپنے لئے آنحضرتﷺ کی پاک جماعت کو ایک نمونہ سمجھو۔ ان کے نقشِ قدم پر چلو‘‘۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 596-597)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہمارے سے یہ توقعات ہیں۔ اگر ہم حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق جوڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں آپ کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقی متبع بننے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ بوڑھوں، عورتوں، نوجوانوں کو اپنے جائزے لینے ہوں گے۔ والدین کو اپنے گھروں کی نگرانی کرنی ہو گی۔ بچوں کے اٹھنے بیٹھنے اور نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ پیار سے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے آگاہ کریں۔ یہ ماوٴں کا بھی کام ہے، باپوں کا بھی کام ہے۔ ایک احمدی مسلمان اور ایک غیر احمدی مسلمان کے فرق کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کیا فرق ہے۔ اگر ہمارے اندر کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا۔ علاوہ ایک نظام کے ہمارے عمل میں بھی ایک واضح فرق ہونا چاہئے۔ اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعتی نظام اور تمام ذیلی تنظیموں کو اپنے دائرے میں فعال تربیتی پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر صرف دولت کمانے اور دنیاوی آسائشوں اور چمک دمک کے حصول میں زندگیاں گزار دیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکر گزاری ہے۔ جن میں سے سب سے بڑی نعمت جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے وہ حضرت مسیح موعودؑ کوقبول کرنا ہے، ان کی بیعت میں آنا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو حقیقی احمدی بننے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ لیتا رہے۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں