خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 22؍ جنوری 2010ء
نور حاصل کرنے کے لئے،اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے، اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے اور اس کا بہترین ذریعہ راتوں کی عبادت ہے، فر ض نمازیں ہیں، دل کا تقویٰ ہے ۔
نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍحضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک نورانی وجودکے حسن وجما ل اور آپ کی مختلف دعاؤں کا دلنشیں اور اثر انگیز تذکرہ جن میں اللہ تعالیٰ سے مزید نور اور برکت کی التجا کی گئی ہے۔
آنحضرت ﷺ سراپا نور تھے پھر بھی آپؐ یہ دعائیں کرتے تھے۔ اصل میں آپؐ یہ دعائیں ہمیں سکھا رہے ہیں
کہ میری اُمّت کے لوگ، مومنین یہ دعائیں کریں اور سراپا نور بننے کی کوشش کریں۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 22؍ جنوری 2010ء بمطابق 22؍صلح 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں۔ چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آنحضرتﷺ کے مقام اور کما ل نور کو بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’… (عقل اور جمیع اخلاق فاضلہ اس نبی معصوم کے ایسے کمال موزونیت و لطافت ونورانیت پر واقعہ کہ الہام سے پہلے ہی خود بخود روشن ہونے پر مستعد تھے)۔ ‘‘(براہین احمدیہ حصّہ سوم۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 195۔ حاشیہ نمبر11)کہ عقلی لحاظ سے بھی اور باقی اخلاق کے لحاظ سے بھی آپﷺ اُس مقام پر واقع تھے جس کی کوئی انتہا نہیں اور ہر چیز،ہر اخلاق،ہر عمل جو تھا اس میں ایک نور بھرا ہوا تھا اور روشنی خود بخود نظر آتی تھی۔
قرآن کریم کے فرمان نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ (النور:36) نور فائض ہوا نور پر،کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’(یعنی جب کہ وجود مبارک حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں کئی نور جمع تھے سو ان نوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی الٰہی ہے وارد ہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجودباجُود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا‘‘۔ (براہین احمدیہ حصہ سوم۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 195۔ حاشیہ نمبر 11)۔ (نوروں کا مجموعہ بن گیا)۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف میں آنحضرتﷺ کا نام نور اور سراج منیر رکھا ہے‘‘۔
(براہین احمدیہ حصہ سوم۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 196۔ حاشیہ نمبر 11)
ایک جگہ نور اور سراج منیر کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
‘’آپؐ کا نام چراغ رکھنے میں ایک اور باریک حکمت یہ ہے کہ ایک چراغ سے ہزاروں لاکھوں چراغ روشن ہو سکتے ہیں اور اس میں کوئی نقص بھی نہیں اتا۔ چاند سورج میں یہ بات نہیں۔ اس سے مطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی پیروی اور اطاعت کرنے سے ہزاروں لاکھوں انسان اس مرتبہ پر پہنچیں گے اور آپ کا فیض خاص نہیں بلکہ عام اورجاری ہو گا۔ غرض یہ سنت اللہ ہے کہ ظلمت کی انتہا کے وقت اللہ تعالیٰ اپنی بعض صفات کی وجہ سے کسی انسان کو اپنی طرف سے علم اور معرفت دے کر بھیجتا ہے اور اس کے کلام میں تاثیر اور اس کی توجہ میں جذب رکھ دیتا ہے۔ اس کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں۔ مگر وہ ان ہی کو جذب کرتے ہیں اور ان ہی پر ان کی تاثیرات اثر کرتی ہیں جو اس انتخاب کے لائق ہوتے ہیں۔ دیکھو آنحضرتﷺ کانام
سِرَاجًامُنِیْرًا
ہے مگرابو جہل نے کہاں قبول کیا؟‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 665 جدید ایڈیشن)
آج مَیں اللہ تعالیٰ کے اس نور اور روشن چراغ جونُوْرٌ عَلٰی نُوْر ہے، کے مقام اور آپ ؐکے ظاہری حسن کے بارہ میں کچھ احادیث پیش کروں گا۔ جن سے آپ کے ظاہری حسن کے نور کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اسی طرح آپؐ کے مقام اوراپنی اُمّت کو نور سے حصہ دینے کے لئے بعض دعائیں جو آپ نے سکھائی ہیں ان کا ذکر کروں گا۔ خیال یہ تھا کہ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بھی اس حوالے سے واقعات بیان ہوں لیکن یہ واقعات کافی ہیں اس لئے آج تو بیان نہیں ہو سکیں گے۔ آئندہ انشاء اللہ۔
انسان کامل جن کا نام محمد مصطفیﷺ ہے جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد! امَیں نے زمین و آسمان کو بھی تیری وجہ سے پیدا کیا ہے۔ اپنے نور ہونے کے بارے میں آپﷺ خود فرماتے ہیں۔ ایک روایت مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ کتاب الایمان میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی وہ میرا نور ہے۔
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ کتاب الایمان باب الایمان بالقدر الفصل الثانی شرح حدیث نمبر 94 جلد اول صفحہ 270 حاشیہ مطبوعہ بیروت لبنان 2001ء)
یعنی اللہ تعالیٰ نے ابتداء سے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس انسان کامل کو دیا جانے والا نور وہ نور ہے جو نہ پہلوں میں کبھی کسی کو دیا گیا اور نہ بعد میں آنے والوں کو دیا جائے گا۔ وہ صرف اور صرف انسان کامل حضرت محمد مصطفیﷺ میں ہو گا۔
آنحضرتﷺ اپنی والدہ کی ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میری والدہ نے کہا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میرے اندر سے ایک نورنکلا ہے۔ جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے ہیں۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 64 مسند عتبۃ بن عبد السلمی حدیث نمبر 17798 مطبوعہ بیروت 1998ء)
پس دور دراز کے علاقوں تک اور بڑے بڑے محلات تک، بڑی بڑی حکومتوں تک آپ کے نور کے پھیلنے کی خوشخبری اللہ تعالیٰ نے آپ کی والدہ کو بھی دی تھی۔ جس والدہ نے اپنے بچے کی پیدائش بھی بیوگی کی حالت میں دیکھی اور خود بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تحت اپنے اس عظیم بچے کے بچپن کا پورا زمانہ بھی نہیں دیکھنا تھا، ان کو اللہ تعالیٰ نے تسلی کر ا دی کہ باپ کے سائے سے محروم یہ بچہ محرومیت میں زندگی گزارنے والا نہیں ہے۔ بلکہ اس کے نور نے تمام انسانیت کی روشنی کا ذریعہ بننا ہے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ کس عظمت اور شان سے آپ کی والدہ کی یہ رؤیا پوری ہو رہی ہے۔
آنحضرتﷺ کے خدوخال کے بارہ میں ایک روایت میں آتا ہے حضرت حسن بن علی ؓ نے کہا: مَیں نے اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ سے نبی کریمﷺ کا حلیہ مبارک پوچھا اور وہ نبیﷺ کا حلیہ خوب بیان کرتے تھے اورمَیں چاہتا تھا کہ وہ میرے سامنے بھی ان (خدوخال) کا کچھ ذکر کریں جس سے مَیں چمٹ جاؤں تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ بارعب اور وجیہ شکل و صورت کے تھے۔ آپؐ کا چہرہ مبارک یوں چمکتا تھاجیسے چودھویں کا چاند۔
(شمائل النبی ﷺ باب ما جاء فی خلق رسول اللہ ﷺ حدیث نمبر 7 اردو ترجمہ شائع کردہ نور فاؤنڈیشن۔ ربوہ)
پھر آپ کے حسن اور خوبصورتی کے بارہ میں ایک روایت میں ہے۔ حضرت جابرؓ بن سمرہؓ روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو چاندنی رات میں دیکھا۔ آپؐ سرخ جوڑے میں ملبوس تھے (سرخ کپڑے پہنے ہوئے تھے)۔ مَیں کبھی آپؐ کی طرف دیکھتا کبھی چاند کی طرف دیکھتا۔ آپؐ میرے نزدیک چاند سے زیادہ حسین تھے۔
(شمائل النبی ﷺ باب ما جاء فی خلق رسول اللہ ﷺ حدیث نمبر 9 اردو ترجمہ شائع کردہ نور فاؤنڈیشن۔ ربوہ)
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ سفید رنگ تھے گویا کہ آپ کو چاندی سے بنایا گیا ہے۔
(شمائل النبی ﷺ باب ما جاء فی خلق رسول اللہ ﷺ حدیث نمبر 11 اردو ترجمہ شائع کردہ نور فاؤنڈیشن۔ ربوہ)
اسی طرح ایک روایت میں آپ کے حسن اور پُرنور چہرے کا یوں بیان ہوا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہا کے سامنے والے دانت ریخدار تھے (یعنی دانتوں میں ہلکا ہلکا فاصلہ تھا) جب آپؑ کلام فرماتے تو سامنے کے دانتوں کے درمیان سے ایک نور ظاہر ہوتا تھا۔
(شمائل النبی ﷺ باب ما جاء فی خلق رسول اللہ ﷺ حدیث نمبر 14 اردو ترجمہ شائع کردہ نور فاؤنڈیشن۔ ربوہ)
پھر اپنوں کو ہی نہیں بلکہ آپ کا نور ہر سعید فطرت کو نظر آتا تھا۔ ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہؓ بن سلام کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو کہا گیا کہ رسول اللہﷺ تشریف لے آئے۔ مَیں بھی لوگوں کے ساتھ آپ کو دیکھنے کے لئے آیا۔ جب مَیں نے غور سے رسول اللہﷺ کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھا تومَیں جان گیا کہ یہ چہرہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے۔
(سنن ترمذی کتاب القیامۃ و الرقائق باب 107/42 حدیث 2485)
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ آپﷺ کا نام چراغ رکھا، اور چراغ سے ہزاروں چراغ روشن ہوتے ہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ آپؐ نے اپنی زندگی میں ہی ہزاروں لاکھوں چراغ روشن کر دئیے اور آج تک یہ روشنی دنیا میں پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان روشنی پانے والوں،عبادت کرنے والوں اور اعمال صالحہ بجا لانے والوں کو خوشخبریاں بھی دی ہیں کہ وہ جنت کے وارث بنیں گے۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا: مَیں ان نور حاصل کرنے والوں کو پہچان لوں گا۔ اس کی تفصیل ایک روایت میں یوں بیان ہوئی ہے۔
عبدالرحمن بن جبیر کہتے ہیں کہ مَیں نے حضرت ابو ذرؓ اور حضرت ابودرداءؓ سے سنا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اُمّتوں میں سے مَیں اپنی اُمّت کو پہچان لوں گا۔ (صحابہؓ) نے عرض کیا یا رسول اللہ !آپ کیسے اپنی امت کو پہچان لیں گے؟ فرمایا کہ مَیں ان کو پہچان لوں گا کیونکہ ان کی کتاب ان کو دائیں ہاتھ میں دی جائے گی اور کثرت سجود کی وجہ سے ان کے چہروں کی علامتوں سے مَیں ان کو پہچان لوں گا اور مَیں انہیں ان کے نور کی وجہ سے پہچان لوں گا جو ان کے آگے ہو گا۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 275 مسند ابو الدرداء حدیث 22083 مطبوعہ بیروت 1998ء)
اللہ تعالیٰ نے جنتیوں کی نشانی بتائی ہے کہ نور ان کے آگے آگے چلے گا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ سجدہ کرنے والوں کے متعلق فرماتا ہے یا مومنوں کے متعلق فرماتا ہے جن کے چہروں سے نور ظاہر ہوتا ہے کہ
تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا۔ سِیْمَا ھُم ْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ(الفتح:30)
تو انہیں رکوع کرتے ہوئے اورسجدہ کرتے ہوئے دیکھے گا۔ وہ اللہ ہی سے فضل اور رضا چاہتے ہیں۔ سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر ان کی نشانی ہے۔
پس چہروں کا یہ نور، کثرت سجود اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہر دم تیار رہنے اور اس کے حصول کے لئے کوشش کرنے کی وجہ سے انہی کے آگے آگے چلے گا جو اعمال صالحہ بجا لانے والے ہوں گے، جو عبادات کرنے والے ہوں گے۔
پس آنحضرتﷺ نے اُمّت میں انہیں شامل فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں اور عبادت میں بھی طاق ہیں۔ پس ایک احمدی کو اس مضمون کو اچھی طرح ذہن نشین کرناچاہئے۔
عبادتوں کے معیار اونچے کرنے سے نور حاصل ہونے کے بارہ میں ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت بُریدہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اندھیرے میں مسجد کی طرف جانے والوں کو قیامت کے دن کامل نور کی بشارت دے دے۔
(سنن ابو داؤد کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی المشی الی الصلاۃ فی الظلام حدیث 561)
یعنی فجر اور عشاء کی نمازیں پڑھنے کے لئے مسجد میں آنے والوں کو نور کی بشارت دے دے جوتکلیف کرکے آتے ہیں۔ ایک جگہ تو فجر اورعشاء کی نماز نہ پڑھنے والوں کے بارہ میں بڑی سختی سے انذار بھی فرمایا ہوا ہے۔ پس یہ ہیں وہ لوگ جو آنحضرتﷺ کی پیروی میں آپ کے احکامات پر عمل کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے نور حاصل کرتے ہیں۔
پھر بخشش اور شفاعت کا مضمون ہے جو آنحضرتﷺ کے ساتھ، آپ کے وجود کے ساتھ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ایک روایت میں اس کا یوں ذکر آیا ہے۔
حضرت عقبہ ؓبن عامرجُہنی بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب اللہ اولین و آخرین کو جمع کرے گا اور ان کے درمیان فیصلہ کرے گا اور جب وہ فیصلہ سے فارغ ہو جائے گا تو مومنین کہیں گے کہ ہمارے ربّ نے ہمارے درمیان فیصلہ کر دیا ہے۔ کون ہے جو ہمارے رب کے حضور ہمارے لئے شفاعت کرے۔ (یہ مومنین کا فیصلہ ہوا ہے اور مومنین پوچھ رہے ہیں۔ کون ہے جو شفاعت کرے؟)۔ پھر وہ کہیں گے کہ آدم کے پاس چلو کیونکہ اللہ نے اسے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے اور اس سے کلام کیا ہے۔ وہ آدم کے پاس آ کر کہیں گے کہ آپ چلیں اور ہمارے ربّ کے حضور ہماری شفاعت کریں تو آدم کہیں گے تم نوح کے پاس جاؤ۔ پھر وہ نوح کے پاس آئیں گے تو وہ ان کو ابراہیم کے پاس بھیج دیں گے۔ پھروہ ابراہیم کے پاس آئیں گے تووہ ان کوموسیٰ کے پاس جانے کا کہیں گے۔ پھر وہ موسیٰ کے پاس جائیں گے تو وہ ان کو عیسیٰ کی طرف راہنمائی کریں گے۔ وہ عیسیٰ کے پاس آئیں گے تو وہ ان سے کہیں گے مَیں تمہاری نبی اُمّی کی طرف راہنمائی کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر وہ میرے پاس آئیں گے پھر اللہ تعالیٰ مجھے اپنے حضور کھڑے ہو نے کی اجازت دے گا۔ پھر میرے بیٹھنے کی جگہ سے ایسی خوشبودار ہوا اٹھے گی جسے کبھی کسی نے پہلے نہیں سونگھا ہو گا۔ یہاں تک کہ مَیں اپنے ربّ کے حضور حاضر ہوں گا۔ پھر وہ مجھے شفاعت کی اجازت دے گا اور میرے سر کے بالوں سے لے کر میرے پاؤں کے ناخنوں تک نور بھر دے گا۔ اُس وقت کافر ابلیس سے کہیں گے کہ مومنوں نے توایسے وجود کو ڈھونڈ لیا ہے جو ان کی شفاعت کرے۔ پس تو بھی اٹھ اور اپنے ربّ کے حضور ہماری شفاعت کر کیونکہ تو نے ہی ہمیں گمراہ کیا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ اٹھے گا تو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے ایسی بدبودار ہوا آئے گی جسے کبھی کسی نے پہلے نہیں سونگھا ہو گا۔ پھر اسے جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا۔ اس وقت وہ کہے گا کہ
وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْا َمْرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَالْحَقِّ وَوَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ۔ (ابراہیم:23)
اورشیطان کہے گا کہ جب یہ فیصلہ نپٹا دیا جائے گا کہ یقیناً اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا جبکہ مَیں ہمیشہ تم سے وعدہ کرتا تھا اور پھر مَیں خلاف ورزی کرتا رہا۔ (سنن الدارمی کتاب الرقاق باب فی الشفاعۃ حدیث 2806) اور آج بھی یہ اس وعدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
پس یہ مقام ہے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاءﷺ کا کہ آپ کا نور سب انبیاء کے نوروں سے چمکتا ہوا ظاہر ہو گا اور شفاعت کا اذن صرف آپؐ کو دیا جائے گا۔ پس ہزاروں ہزار درُود و سلام ہوں ہمارے اس پیارے نبی پر جن کے ساتھ جڑنے سے دنیا بھی سنورتی ہے اور عاقبت بھی سنورتی ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ جب صبح ہو تو چاہئے کہ تم میں سے ہر کوئی یہ کہے ہم نے صبح کی اور اللہ کی سلطنت نے بھی جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ ہم نے اور تمام سلطنت نے اللہ تعالیٰ کے لئے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے صبح کی۔ اے اللہ ! مَیں تجھ سے اس دن کی بھلائی چاہتا ہوں اور اس کی فتح اور مدد کا طلب گار ہوں اور اس کا نور اور برکت اور ہدایت چاہتا ہوں اور اس میں جو شرپوشیدہ ہے اور جو شر اس کے بعد آنے والا ہے اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ پھر جب شام ہو تو چاہئے کہ وہ یہی کلمات دوہرائے۔
(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب ما یقول اذا اصبح۔ حدیث نمبر 5084)
پس نور حاصل کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے، اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے اور اس کا بہترین ذریعہ جیسا کہ پہلی حدیث میں بیان ہوا ہے عبادات ہیں، راتوں کی عبادت ہے، دل کا تقویٰ ہے، دن کی فرض نمازیں ہیں۔
ایک روایت میں آنحضرتﷺ نے نور کے حصول کے لئے اور آپﷺ کے نور سے فیض حاصل کرنے کے لئے،اللہ تعالیٰ کی وحدانیت دلوں میں قائم کرنے کے لئے کہ اس کے بغیر خدا کا نور نہیں ملتا، مومنوں کو یہ نصیحت فرمائی۔
سہل بن معاذؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :جس نے سورۃ کہف کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت کی وہ اس کے لئے اس کے پاؤں سے سر تک نور بن جائیں گی اور جس نے ساری سورۃ کی تلاوت کی تووہ اس کے لئے آسمان و زمین کے درمیان نور بن جائے گی۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 374 مسند معاذ بن انسؓ حدیث 15711 مطبوعہ بیروت 1998ء)
ایک حدیث میں دجّال کے فتنے(سے بچنے) کے لئے بھی سورۃ کہف کی پہلی دس آیات اور آخری دس آیات پڑھنے کی طرف آنحضرت انے توجہ دلائی اور اس کی تلقین فرمائی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 890،896 مسند ابو الدرداء عویمرحدیث نمبر 28092۔ 28066 مطبوعہ بیروت لبنان 1998ء)۔ اور دجال کا فتنہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے انکار کا فتنہ ہے۔ پس آجکل یہ فتنہ زوروں پر ہے اور اس کے زوروں پر ہونے کی وجہ سے ان آیات کے پڑھنے کی طرف ہمیں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دجّال نے اپنے دجل سے جو مختلف قسم کے شرک پھیلائے ہوئے ہیں، ان سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار اور توحید کے قیام کے لئے عبادات کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان آیات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اپنے دلوں میں حقیقی توحید قائم کریں گے تو پھر اس نور سے حصہ لینے والے ہوں گے جو خداتعالیٰ کا نور ہے۔ جس کے سب سے اعلیٰ اور اکمل فردحضرت محمد مصطفی اللہ علیہ وسلم تھے جو انسان کامل کہلائے۔ پس صرف آیات پڑھ کر یا آیات پڑھ لینے سے انسان نور سے حصہ نہیں لے گا بلکہ اس اُسوہ پر چلنے سے حصہ ملے گا جو توحید کے قیام کے لئے آنحضرتﷺ نے ہمارے سامنے پیش فرمایا۔
پھر آپ نے اُمّت کو فتنوں اور فساد سے بچنے کے لئے،معاشرے کو خوبصورت بنانے اور اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو اس نور سے منور کرنے کے لئے دعا سکھائی ہے۔
ایک روایت میں ذکر آتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں یہ کلمات سکھایاکرتے تھے لیکن آپ کا یہ کلمات سکھانا ہمیں تشہد سکھانے کی طرح نہ تھا۔ (کلمات یہ تھے) اے اللہ! ہمارے دل پر خیر جمع کر دے اور ہمارے درمیان صلح کے سامان مہیا فرما اور ہمیں سلامتی کی راہیں دکھا اور ہمیں اندھیروں سے نجات دے اور نور کی طرف لے آ اور ہمیں بری باتوں اور فتنوں سے بچا۔ خواہ ان کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے۔ اور اے ہمارے ربّ ہمارے کانوں، آنکھوں اور دلوں میں برکت دے اور بیویوں اور اولاد میں بھی برکت عطا فرما اور ہم پر رجوع برحمت ہو۔ یقیناً تو بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے اور ہمیں اپنی نعمت کا شکر گزار اور اس کی تعریف کرنے والا اور اسے قبول کرنے والا بنا اور وہ نعمت ہم پر پوری کر۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب التشھد حدیث 969)
اور سب سے بڑی نعمت ایک مومن کے لئے اس کے دین پر قائم رہنا ہے۔ اعمال صالحہ بجا لانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ اس کے حقوق ادا کرنا ہیں۔ اس کے لئے ہر مومن کوکوشش کرنی چاہئے۔
پھر آپ نے ایک اور دعا سکھائی۔ طاؤس روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ جب نبیﷺ نماز تہجد کے لئے کھڑے ہوتے تو یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! تعریف کے لائق توہی ہے۔ تو ہی آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان کو قائم رکھنے والا ہے۔ تعریف کے لائق صرف تُو ہی ہے۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے ان کی بادشاہی تیری ہے۔ تعریف کا تُو ہی مستحق ہے۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے ان کا نور تُو ہی ہے۔ اور تعریف کے لائق تُو ہی ہے۔ تو ہی آسمان وزمین کا مالک ہے اور تعریف کے لائق تُو ہی ہے۔ تُو برحق ہے اور تیرا وعدہ برحق ہے اور تیری ملاقات برحق ہے او ر تیرا قول برحق ہے اور جنت برحق ہے اور دوزخ برحق ہے اور انبیاء برحق ہیں اور محمدﷺ برحق ہیں اور قیامت کا ظہور پذیر ہونا برحق ہے۔ اے اللہ! مَیں تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں اور تجھ پر ایمان لاتا ہوں اور تجھ پر توکل کرتا ہوں اور تیری طرف جھکتا ہوں اور تیری مدد کے ساتھ مجادلہ کرتا ہوں اور تجھ سے ہی مَیں فیصلہ کا طالب ہوں۔ پس تُو مجھے میرے وہ گناہ بخش دے جو مجھ سے سرزدہو چکے ہیں یا جو آئندہ سرزد ہوں گے اور وہ بھی جو مَیں نے پوشیدہ طور پر کئے ہیں اور جو اعلانیہ طور پر کئے ہیں۔ سب سے پہلے بھی تُوہے اور سب سے آخر بھی تُو ہے۔ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
(بخاری۔ کتاب التہجد۔ باب التہجد باللیل حدیث نمبر 1120)
پس نفس کی پاکیزگی اور خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے شیطان سے ایک جنگ کرنی پڑتی ہے۔ آنحضرتﷺ کا شیطان تو آپؐ نے فرمایا کہ مسلمان ہو گیا ہے۔ جب آپؐ یہ دعائیں کرتے ہیں اور اس درد سے کرتے ہیں تو ایک عام مومن کو کس قدر درد کے ساتھ دعائیں کرنے کی ضرورت ہے اور یہ دعائیں اور شیطان سے یہ جنگ، دعائیں کرنے کی یہ توفیق اللہ تعالیٰ کی مدد سے ملتی ہے۔ اور شیطان سے جوجنگ انسان نے کرنی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی مدد کا حصول اس وقت ممکن ہے جب اس کے حضور جھکنے والا بنا جائے۔ جب اس کا حق ادا کیا جائے۔ اس کے نور کی تلاش کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہر مومن کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
پھر ایک روایت میں ایک دعا اس طرح بیان ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ انے فرمایا: اگر کسی کو کوئی تکلیف اور کوئی غم پہنچا ہو تو وہ یہ کلمات کہے کہ اے اللہ!مَیں تیرا بندہ ہوں اور تیرے بندے کا اور تیری لونڈی کا بیٹا ہوں۔ (ایک عام غلام کا ایک عورت کا بیٹا ہوں۔ یعنی ایک عام آدمی کا اور ایک عورت کا بیٹاہوں۔ ) میری پیشانی کے بال تیرے ہاتھ میں ہیں۔ (توُہر چیز کی قدرت رکھتا ہے۔ ) تیرا حکم میرے بارہ میں چل رہا ہے اور میرے بارہ میں تیری قضاء و قدر انصاف پرمبنی ہے۔ (ظلم توتُو بہرحال مجھ پر نہیں کرے گا۔ جو بھی تو کرے گا وہ میرے گناہوں کی سزا ہے، میرے اپنے اعمال کی سزا ہے۔ جزاہے تو وہ بھی تیری باتیں ماننے کی وجہ سے اور تیرے فضل کی وجہ سے ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کبھی ظلم نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ مَیں ظلم نہیں کرتا۔ رحمت اللہ تعالیٰ کی وسیع ہے لیکن اللہ تعالیٰ کسی بندے پرظلم کبھی نہیں کرتا۔ میرے بارہ میں تیری قضاء و قدر انصاف پر مبنی ہے)۔ مَیں تجھے تیرے ان تمام صفاتی ناموں کے ساتھ جن سے تو نے اپنے آپ کو یاد کیا ہے یا جو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے مانگتا ہوں یا جو توُنے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے اس کے ساتھ مانگتا ہوں۔ یا جسے تُو نے اپنے علم غیب میں ترجیح دی ہوئی ہے اس کے ذریعہ سے سوال کرتا ہوں۔ (اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کا تو انسان کو علم نہیں۔ اس لئے اپنے علم غیب کے لحاظ سے جنہیں ترجیح دی ہے ان کے واسطہ سے بھی مانگتا ہوں ) کہ توُقرآن کو میرے دل کی بہار بنا دے اور میرے سینے کا نور بنا دے اور میرے غم و حزن کو بھگانے اور دور کرنے کا باعث بنا دے۔ جب وہ یہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے غم اور حزن کو دور کر دے گا اور اس کی جگہ فرحت اور سرور رکھ دے گا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا۔ یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم اس کو یاد نہ کر لیں۔ آپؐ نے فرمایا کیوں نہیں ض جو بھی اسے سنے چاہئے کہ وہ اس کو یاد کر لے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 47 مسند عبد اللہ بن مسعود حدیث 3712 مطبوعہ بیروت 1998ء)
جیسا کہ پہلے بھی میں ایک خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ،اس کے رسولﷺ اور قرآن کریم وہ نور ہیں جن کے ذریعہ سے شیطان کے حملوں سے بچا جا سکتا ہے۔ پس اس دعا میں قرآن کریم کو بہار بنانے کا مطلب ہے کہ اسے پڑھنے، اس پر عمل کرنے، اس کو سمجھنے کی توفیق اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اور جب ہم اس دعا پر غور کرتے ہوئے قرآن کریم کو پڑھیں گے،سمجھنے کی کوشش کریں گے،عمل کریں گے تو ظاہر ہے جو بھی عمل ہو گا اس سے لازماً حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ ہو رہی ہو گی اور حقوق اللہ بھی ادا کرنے کی کوشش ہو رہی ہو گی اور حقوق العباد بھی اد اکرنے کی طرف توجہ ہو رہی ہو گی اور کوشش ہو رہی ہو گی۔ عبادت کے معیار بڑھیں گے اور
اَلَابِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ(سورۃ الرعد: آیت 29)
کامضمون اپنی شان دکھاتے ہوئے اطمینان قلب کا باعث بنے گا۔ مشکلات سے نکالنے کا باعث بنے گا۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رات کو جب رسول اللہﷺ نماز سے فارغ ہوئے مَیں نے آپ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا۔ اے اللہ!مَیں تیری اس رحمت خاص کاطلبگار ہوں۔ جس کے ذریعہ تُو میرے دل کو ہدایت عطا کر دے اور میرے کام بنا دے اور میرے پراگندہ کاموں کو سنوار دے اور میرے بچھڑے ہوؤں کو ملا دے۔ اور میرے تعلق رکھنے والے کو رفعت دے۔ تُو اپنی رحمت کے ذریعہ میرے عمل کو پاک کر دے اور مجھے رشد و ہدایت الہام کر اور جن چیزوں سے مجھے الفت ہے وہ مجھے مل جائیں۔ ہاں ایسی رحمت خاص جو مجھے ہر برائی سے بچالے۔ اور اے اللہ! مجھے ایسا دائمی ایمان و ایقان بھی نصیب فرما جس کے بعد کفر نہیں ہوتا۔
(اب آنحضرت اکا مقام دیکھیں فرماتے ہیں ) اے اللہ مجھے ایسا دائمی ایمان و ایقان بھی نصیب فرما جس کے بعد کفر نہیں ہوتا۔ (یہ دعا ہمیں کس قدر کرنی چاہئے؟)۔ ایسی رحمت عطا کر جس کے ذریعہ مجھے دنیا و آخرت میں تیری کرامت کا شرف نصیب ہو جائے۔ اے اللہ !مَیں تجھ سے ہر فیصلے میں کامیابی چاہتا ہوں اور شہیدوں کی سی مہمان نوازی اور سعادت مندی کی زندگی اور دشمنوں پر فتح و نصرت کا خواستگار ہوں۔ مولیٰ مَیں تو اپنی حاجت لے کر تیرے در پر حاضر ہو گیاہوں۔ اگر میری سوچ ناقص اور میری تدبیر کمزور بھی ہے تب بھی مَیں تیری رحمت کا محتاج ہوں۔ پس اے تمام معاملات کے فیصلے کرنے والے اور اے دلوں کو تسکین عطا کرنے والے! مَیں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جس طرح بپھرے سمندروں میں تُو انسان کو بچا لیتا ہے اسی طرح مجھے آگ کے عذاب سے بچا لے۔ ہلاکت کی آواز اورقبر کے فتنے سے مجھے پناہ دے اور اے میرے مولیٰ !جس دعا سے میری سوچ کوتاہ ہے (جہاں تک میری سوچ نہیں پہنچ سکتی) اور جس امر کے لئے مَیں نے دست سوال دراز نہیں کیا ہاں وہ خیر اور وہ بھلائی جس کی مَیں نیت بھی نہیں باندھ سکا۔ (نہ صرف یہ کہ دست سوال نہیں پھیلایابلکہ نیت بھی نہیں باندھ سکا)۔ مگر تُو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کے ساتھ اس خیر کا وعدہ کر رکھا ہے یا اپنے بندوں میں سے کسی کو وہ خیر توعطا کرنے والا ہے۔ توایسی ہر خیر کے لئے مَیں رغبت رکھتا ہوں۔ (مجھے بھی عطا فرما) اور اے سب جہانوں کے ربّ!مَیں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تجھ سے وہ خیر مانگتا ہوں۔ اے اللہ! مضبوط تعلق والے اور رشد و ہدایت کے مالک!مَیں قیامت کے روز تجھ سے امن کا خواہاں ہوں اور اس دائمی دور میں جنت چاہتا ہوں۔ تیرے دربار میں حاضری دینے والے مقرب بندوں کے ساتھ اور رکوع و سجود بجا لانے والوں اور عہد پورا کرنے والوں کی معیت میں۔ یقیناً تو بہت رحم اور محبت کرنے والا ہے۔ (دیکھیں میں تیرے دربار میں حاضری دینے والے مقرب بندوں کے ساتھ، رکوع و سجود بجا لانے والوں اور عہد پورا کرنے والوں کی معیت میں۔ پس عہد پورا کرنا بھی ایک بہت ضروری چیز ہے۔ یقیناً توبہت رحم اور محبت کرنے والا ہے)۔ بے شک تو جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اے اللہ!ہمیں ایسا ہدایت یافتہ راہنما بنا دے جو خود گمراہ ہونے والے ہوں نہ گمراہ کرنے والے بنیں۔ (نہ خود گمراہ ہوں نہ دوسروں کوگمراہ کرنے والے بنیں )۔ تیرے پیاروں اور دوستوں کے لئے ہم سلامتی کا پیغام ہوں۔
(اگر مسلمان بھی یہ دعا کریں اور اگر نیک نیتی سے دعا کی جائے تو ان کو اس زمانہ کے امام کو ماننے کی بھی توفیق ملے۔ )
فرمایا اور تیرے دشمنوں کے لئے جنگ کا نشان، تیرے پیاروں اور دوستوں کے لئے ہم سلامتی کا پیغام ہوں اور تیرے دشمنوں کے لئے جنگ کا نشان۔ فرمایا ہم تیری محبت کے صدقے، تیرے ہر محب سے محبت کرنے والے اور تیری مخالفت اور دشمنی کرنے والوں سے تیری خاطر عداوت رکھنے والے ہوں۔ اے اللہ! یہ ہماری عاجزانہ دعا ہے جس کا قبول کرنا تیرے پر منحصر ہے۔ اے اللہ! بس یہی دعا ہماری سب محنت اور تدبیر ہے اور سب بھروسہ تیری ذات پر ہے۔ اے اللہ میرے لئے میرے دل میں نور پیدا کر دے۔ میری قبر کو بھی روشن کر دے۔ میرے آگے اور میرے پیچھے نور کر دے۔ میرے بائیں بھی نور کر دے اور میرے اوپر بھی نور کردے اور میرے نیچے بھی نور کر دے اور میری سماعت میں بھی نور بھر دے اور میری بصارت میں بھی نور بھر دے اور میرے بالوں میں بھی نور بھر دے اور میری جلد کو بھی نورانی کر دے اور میرے گوشت اور میرے خون میں بھی نور بھر دے اور میرے دماغ میں بھی نور بھر دے۔ اور میری ہڈیوں میں بھی نور بھر دے۔ اے اللہ میرے دل میں نور کی عظمت پیدا کر دے اور پھر مجھے وہ نور عطا کر۔ بس مجھے سراپا نور ہی نوربنا دے۔ پاک ہے وہ ذات جو بزرگی کا لباس زیب فرما کر عزت کے ساتھ متمکن ہے۔ پاک ہے وہ ذات کہ جس کے سوا کسی کی پاکیزگی بیان کرنی مناسب نہیں۔ پاک ہے وہ صاحب فضل و نعمت وجود۔ پاک ہے وہ عزت و بزرگی کا مالک اور پاک ہے وہ جلال اور اکرام والا۔
(سنن ترمذی کتاب الدعوات باب 30 حدیث 3419)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس دعا کو سمجھ کر کرنے اور اس کا فیض پانے والا بنائے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے اس نور سے فیض پانے والے ہوں جو آنحضرتﷺ لے کر آئے۔ آپ سراپا نور تھے لیکن پھر بھی کس درد کے ساتھ یہ دعائیں کرتے تھے۔ یہ دعائیں اصل میں آپؐ ہمیں سکھا رہے ہیں کہ میری اُمّت کے لوگ،مومنین یہ دعائیں کریں اور سراپا نور بننے کی کوشش کریں۔ میرے اسوہ پر چلنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ مخلوق کے حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ آپ اپنے متبعین کو بھی اس نُور سے منور کرنے کے لئے بے چین تھے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اپنے ہر عمل کو خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر بجا لانے والے ہوں اور اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ کے پیار کو سب پر مقدم رکھتے ہوئے آپ کی اپنی اُمّت کے لئے نیک خواہشات کو پورا کرنے والے ہوں۔ آپ نے امت سے جو امیدیں وابستہ رکھیں ان کو پورا کرنے والے ہوں اور ہمیشہ اس نورٌ علیٰ نور سے فیض پاتے ہوئے امت ہونے کا حق ادا کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرتﷺ کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر آنحضرتﷺ کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی لا انتہاء نالیاں ہوتی ہیں اور بقدر حصّہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں ‘‘۔ (الحکم مؤرخہ 28 فروری 1903ء جلد:7شمارہ:8 صفحہ 7کالم نمبر 1)
اور یہ حقدار کون ہیں ؟ وہ جو حقوق اللہ بجا لانے والے ہیں اور حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہمارے سینے بھی اس نور کو جذب کرنے والے ہوں جو آنحضرتﷺ کے سینے سے نکل رہا ہے۔