خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 8؍ اکتوبر 2010ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُونَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ  (القصص: 84)

وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْماً وَعُلُوًّا فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ (النمل: 15)

یہ دو آیات جومَیں نے تلاوت کی ہیں، ایک سورۃ قصص کی چوراسیویں آیت ہے اور دوسری سورۃ نمل کی پندرھویں آیت۔ پہلی آیت سورۃ قصص کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ: یہ آخرت کا گھر ہے جسے ہم ان لوگوں کے لئے بناتے ہیں جو زمین میں نہ اپنی بڑائی چاہتے ہیں اور نہ فساد، اور انجام تو متقیوں کا ہی ہے۔ (دوسری آیت کا ترجمہ یہ ہے) اور انہوں نے ظلم اور سرکشی کرتے ہوئے ان کا انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل ان پر یقین لا چکے تھے، پس دیکھ فساد کرنے والوں کا کیسا انجام ہوتا ہے۔

نیکی اور بدی، عاجزی اور بڑائی، امن ومحبت اور فتنہ و فساد، اطاعت اور بغاوت اور اس طرح کی بہت سی باتیں نیکی میں بھی اور برائیوں میں بھی ہمیں نظر آتی ہیں۔ ان میں ایک حصہ رحمان خدا کا پتہ دے کر اس سے تعلق جوڑنے والوں کی نشانی ہے تو دوسری شیطان کی گود میں گرنے والوں کا پتہ دیتی ہے۔ گویا یہ دو مخالف سمتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ جن نیکیوں کے کرنے کا حکم دیتا ہے شیطان ان سے روکتا ہے۔ اور جن برائیوں سے خدا تعالیٰ روکتا ہے شیطان ان کے کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ نافرمانی شیطان کی سرشت میں ہے جس کو ایک جگہ خدا تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا(مریم: 45) کہ شیطان یقینا خدائے رحمان کا نافرمان ہے۔ اور شیطان کے پیچھے چلنے والے یقینا خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آتے ہیں۔ یہ دو آیات جن کا ترجمہ مَیں نے بیان کیا ہے۔ آپ نے تلاوت بھی سنی۔ ان میں دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہے۔ ایک وہ جو بڑائی اور فساد سے بچتے ہیں۔ یہ رحمان کے بندے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو ظلم اور فساد کرنے والے ہیں اور متکبر لوگ ہیں۔ یہ شیطان کے بندے ہیں۔ اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق اپنے بد انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں (چونکہ بہت سارے پاکستانی اس وقت میرے سامنے ہیں دنیا میں اکثر جگہ پاکستانی غور سے خطبہ سنتے ہیں) اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ مسلمان اکثریت کا ملک ہے۔ یہ ملک آج ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکا ہے جنہیں خدا تعالیٰ کے ان احکامات سے دُور کا بھی واسطہ نہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور جن باتوں کو کرنے سے روکا ہے وہ وہاں عام ہو رہی ہیں۔ وہ طبقہ آج سیاستدانوں کے سروں پر بھی سوار ہے۔ اور اس نے انتظامیہ کے کندھوں پر بیٹھ کر ان کی گردن کو اپنے شکنجے میں لیا ہوا ہے۔ اور اس کا نتیجہ ہمیں ہر روز کی آگوں اور فسادوں اور قتل و غارت کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ پورا نظام ہی چاہے سیاستدان ہیں، انتظامیہ ہے یا کوئی اور ہے ان فسادیوں کے رنگ میں رنگین ہو چکا ہے۔ پاکستان بننے سے لے کر آج تک خلفائے احمدیت سیاستدانوں اور عوام کو اس طرف توجہ دلاتے رہے کہ ہمیشہ اس طبقہ سے ہوشیار رہو جو کسی بھی صورت میں مذہبی شدت پسندی کی طرف ملک کو لے جانا چاہتا ہے۔ عوام تو اپنی کم علمی اور معصومیت اور اسلام سے محبت کی وجہ سے ان شدت پسندوں کے دھوکوں میں آتے گئے۔ پھر غربت اور افلاس نے وہاں کے جو اکثر غریب لوگ ہیں ان کو سوچنے کا موقع نہیں دیا۔ اور سیاستدان اپنے مفادات کی خاطر مذہبی جبہ پوشوں سے معاہدے کرتے رہے یا ان کو اس حد تک آزادی دے دی کہ اب سیاستدانوں کے خیال میں بغیر ان کے ان کی سیاست چمک نہیں سکتی، وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہر پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ کسی نہ کسی مذہبی جبہ پوش کی حمایت کے بغیر اس کی بقا نہیں ہے۔ جانتے بوجھتے ہوئے نام نہاد اسلام کے ٹھیکے داروں کو غیر ضروری اہمیت دے کر پاکستان میں لاقانونیت کے حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں جو روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ سول (Civil) انتظامیہ ہے تو وہ مجبور ہے بلکہ اب تو ایسے خطرناک حالات ہیں کہ رینجرز جو کسی زمانے میں امن قائم کرنے کے لئے بڑی اہم سمجھی جاتی تھی اور فوج جو ہے ان کی بھی ان دہشت گرد اور شدت پسند تنظیموں کے سامنے جدید ہتھیاروں کے لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں۔ ان حالات میں ایک احمدی ہے جس کا دل بے چین ہوتا ہے کہ وہ ملک جسے ہم نے ہزاروں جانوں کی قربانی سے حاصل کیا تھا اس کا ان مفاد پرستوں اور خود غرضوں اور اسلام اور خدا کے نام پر ظلم و تعدی میں بڑھنے والوں نے یہ حال کر دیا ہے۔ گو ظاہری لحاظ سے باوجود کوشش کے احمدی اس ملک کو ظالموں سے نجات دلانے کے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن وطن کی محبت، ہر پاکستانی احمدی کی وطن کی محبت اس سے یہ ضرور تقاضا کرتی ہے اور یہ ہر پاکستانی احمدی کا فرض بھی ہے کہ ہم ملک کے لئے دعا کریں، کوشش کریں۔ چاہے جتنا بھی اہلِ وطن یا کم از کم اپنے آپ کو سب سے زیادہ ملک کا وفادار سمجھنے والے نام نہاد لوگ جتنا بھی ہم پر وطن دشمنی کا الزام لگا لیں، ہم پر ہر قسم کا ظلم بھی روا رکھیں، ہم نے وطن کی محبت کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے ملک کے لئے دعا کرتے رہنا ہے۔ اس ملک کو اب اس خوفناک صورتحال سے اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ احمدیوں کی دعائیں ہی ہیں۔ بیرونی دنیا کا محاذ بھی پاکستان کے خلاف سخت سے سخت تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور اندرونی طور پر بھی فتنہ و فساد، دہشت گردی اور قومی املاک اور وسائل کو آگیں لگا کر تباہ کر کے ملک کو کمزور تر کیا جا رہا ہے۔ یہ کون سی حب الوطنی ہے جس کو ہم ان شدت پسند تنظیموں کے رویے سے دیکھ رہے ہیں، ان کے عمل سے دیکھ رہے ہیں؟

بے شک اس وقت ہم یعنی احمدی پاکستان کے مظلوم ترین شہری ہیں جن کے ہر قسم کے حقوق غصب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سیاست اور حکومت سے تو ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، کوئی واسطہ نہیں۔ یہ تو ان دنیا داروں کی کم عقلی ہے اور وہم ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کیونکہ ایک منظم تنظیم ہے اس لئے شاید حکومت پر ایک وقت میں قبضہ کرنا چاہے گی۔ ہمیں نہ تو پاکستان کے حکومتی معاملات سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی دنیا کی کسی بھی ملک کی حکومت سے۔ ہاں کسی ملک کا شہری ہونے کی حیثیت سے ہم ملک سے وفا اور محبت کا تعلق بھی رکھتے ہیں۔ اور ہر ملک کے احمدی کو اپنے ملک کو دنیا کے ملکوں میں نمایاں طور پر دیکھنے کی خواہش بھی ہے۔ اور اس کے لئے وہ کوشش بھی کرتا ہے اور دعا بھی کرتا ہے اور کرنی چاہئے۔ اور ایک احمدی اپنی ذاتی حیثیت سے کسی بھی ملک کی سیاست میں یا کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ جُڑ کر سیاست میں حصہ بھی لیتا ہے۔ دنیا کے کئی ملک ہیں جہاں احمدی اگر حکومتی پارٹی میں شامل ہو کر ملک کی بہتری کے لئے کردار ادا کر رہے ہیں تو غیر حکومتی یا حزبِ مخالف پارٹی جو ہے اس میں بھی شامل ہو کر ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پس ہر احمدی کی ملک کے شہری کی حیثیت سے تو ملک کے سیاسی معاملات میں دلچسپی ہے، ہو سکتی ہے اور ہونی چاہئے۔ لیکن جماعت احمدیہ کو بحیثیت جماعت یا خلافتِ احمدیہ کو کسی حکومت، کسی ملک کی حکومت پر قبضہ کرنے میں نہ کوئی دلچسپی ہے اور نہ یہ ہمارا مقصد ہے۔ کیونکہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق نے جو راہ دکھلائی ہے وہ مادی ملکوں کے حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ روحانی بادشاہت کے حصول کے لئے ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا تاج ہے جس کا حصول ہمارا مقصود ہے۔ ہاں جب بھی کسی بھی حکومتِ وقت کو ملک کی تعمیر و ترقی اور بقاء کے لئے مشوروں کی اور قربانیوں کی ضرورت ہوئی تو جماعت احمدیہ نے حصہ لیا اور حصہ لیتی ہے۔ پس ہم احمدی تو وہ ہیں جو پاکستان میں انفرادی طور پر بھی اور من حیث الجماعت بھی تمام قسم کے ظلم سہنے کے باوجود اپنے ہم وطنوں اور اپنے ملک کو پریشانی اور مشکل کی حالت میں دیکھتے ہیں تو بے چین ہو جاتے ہیں۔ ہماری بے چینی حکومتوں کے لئے نہیں، ہماری بے چینی ملک کی بقا کے لئے ہے۔ ہماری بے چینی ملک کے عوام کے لئے ہے۔ اور ہم یہ کوشش کرتے ہیں بلکہ جہاں تک وسائل اجازت دیتے ہیں دنیا میں پھر کر بھی ملک کو کسی بھی قسم کی مشکل سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ عمل ہماری اس تعلیم کی وجہ سے ہیں جو ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی ہے۔ یہ عمل ہمارے اس اُسوہ پر چلنے کی کوشش کی وجہ سے ہیں جو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا۔ اور جس کی خدا تعالیٰ نے ہمیں ہدایت فرمائی کہ یہی وہ میرا پیارا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کے اُسوہ پر چلنا خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے فرض قرار دے دیا ہے۔ اور جو اُسوہ اس محسنِ انسانیت اور رحمۃللعالمین نے پیش کیا وہ یہ ہے کہ اپنے دکھوں کو بھول کر انسانیت کی خدمت کرو۔ کسی اجر کے لئے نہیں بلکہ احسان کے جذبات کے تحت، پیار کے جذبات کے تحت، اِیْتَآء ذِی الْقُرْبیٰ کے جذبات کے تحت کہ تمہارے ہم وطن بھی تمہارے قرابت دار ہیں۔ دکھ تو اگر غیروں کو بھی پہنچے تو جونیک فطرت لوگ ہیں ان کو تکلیف ہوتی ہے، بے چین ہو جاتے ہیں۔ تو یہ تو ہمارے اپنے ہیں اور جو ہمارے اپنوں کو دکھ اور مصیبت اور تکلیف پہنچے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں بے چین نہ کرے۔ پس ہمیں علوّ اور فساد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم تو عاجزی اور پیار اور محبت کو پھیلانے والے ہیں۔ ہم تو اس نبی کے ماننے والے ہیں جو دنیا کو خدا سے دور دیکھ کر بے چین ہو جاتا تھا کہ یہ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے سزاوار نہ ٹھہر جائیں۔ جو اپنی راتیں اس غم میں ہلکان کرتا تھا کہ لوگ خدا کو بھول کر تباہی کے گڑھے میں گر رہے ہیں۔ جس کے اس درد کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا تھا کہ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَ(الشعراء: 4) شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال لے گا کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے۔ پس ہمیں اپنے آقا و مولیٰ کی اُمّت سے منسوب ہونے والوں سے ہمدردی ہے۔ اس بات کا درد ہے اور اس کے لئے ہماری کوشش ہے کہ یہ لوگ آپؐ کے پیغام کو سمجھ کر آپ کے مسیح و مہدی کو مان لیں تاکہ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی آفات اور عذاب سے بچ جائیں اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ جائیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے مَیں مختلف وقتوں میں خطبات میں بھی، تقریروں میں بھی بتا رہا ہوں کہ زلازل اور طوفان اور آفات گزشتہ ایک سو سال سے شدت اختیار کر گئے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی تائید کا ثبوت ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ یہ زلازل اور آفات اور طوفان میری تائید میں آئیں گے۔ آپ کی زندگی میں بھی آئے اور آج تک یہ الٰہی تائیدات کا دور چلتا چلا جا رہا ہے۔ باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ان آفات سے جو نقصان ہو رہا ہے وہ ظاہر و باہر ہے۔ بلکہ اقوامِ متحدہ کے صدر جو دورے پر وہاں گئے تھے ان کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب کی تباہی کئی سُونامیوں سے بڑھ کر ہے۔ ہر احمدی جانتا ہے کہ یہ آسمانی اور زمینی آفات جو دنیا میں آ رہی ہیں اور ہو رہی ہیں مسیح موعود کی تائید میں ہیں۔ کاش کہ دنیا اس کو سمجھ جائے۔ یہ عذاب جو دنیا میں آتے ہیں یہ ہمیں بے چین بھی کر دیتے ہیں کہ اگر دنیا نے خدا تعالیٰ کے اشاروں کو نہ سمجھا تو بڑی تباہی بھی آ سکتی ہے۔ اور اس بے چینی میں پھر ہمارا رُخ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف ہوتا ہے۔ اپنے اللہ کی طرف ہوتا ہے جو دنیا کی اصلاح کے لئے اپنے پیاروں کو مبعوث فرماتا ہے۔ دنیا کو بچانے کے لئے اپنے فرستادوں کو بھیجتا ہے۔

پاکستانی اخباروں اور میڈیا میں بھی یہ شور ہے کہ یہ خدائی عذاب ہے یا کیا ہے؟ ان کے دینی رہنما کہتے ہیں کہ یہ عذاب نہیں ہو سکتا کیونکہ عذاب خدا تعالیٰ کے نبیوں کے ساتھ آتا ہے۔ مگر خدا کے لئے ہماری بات بھی سنو۔ مسیح موعود کی بات بھی سنو۔ خدا تعالیٰ کے مسیح کا پیغام گزشتہ سو سال سے تمہیں ہوشیار کر رہا ہے۔ ہر آفت جو دنیا میں آتی ہے ہمیں بے چین کرتی ہے کہ یہ آئندہ کسی بڑی آفت کا پیش خیمہ نہ ہو۔

جہاں تک آفات میں جماعت احمدیہ کا اہلِ وطن کی خدمت کا سوال ہے، جیسا کہ مَیں نے کہا ہم ہر طرح مدد کرتے ہیں، ان حالیہ سیلابوں کی تباہ کاریوں میں بھی جماعت احمدیہ نے مختلف ممالک میں پاکستانی سفارتکاروں کے ذریعہ سے انفرادی بھی اور جماعتی طور پر بھی رقمیں اکٹھی کر کے بھیجی ہیں۔ ملک کے اندر بھی، پاکستان میں بھی مخیر حضرات نے، احبابِ جماعت نے رقم کے ذریعہ بھی، سامان کے ذریعے بھی مدد کی ہے۔ اور ہمارے volunteersنے بھی لوگوں کو نکالنے میں، محفوظ مقامات پر پہنچانے میں، خوراک مہیا کرنے میں کام کیا ہے۔ بلکہ ایک موقع پر ہماری ٹیموں کا ایدھی صاحب جو وہاں کا بہت بڑا ٹرسٹ چلاتے ہیں، ان سے سامنا ہو گیا۔ ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ مَیں نے دیکھا ہے کہ قادیانی مدد کے لئے سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ اگرہماری ٹیموں نے احمدیوں کو سیلاب میں گھرے ہوئے علاقوں سے نکالا ہے تو غیر از جماعت کی بھی بلا تفریق مذہب، عقیدہ، فرقہ خدمت کی ہے۔ پھر Humanity Firstکے ذریعے سے بھی خدمت کی ہے اور ہو رہی ہے۔ اور اب Humanity First نے ان سیلاب زدہ علاقوں کے لئے ایک ملین ڈالر مزید امداد کے لئے ارادہ کیا ہے۔ وہاں بحالی کے جو کام ہیں اس میں مدد دے گی۔ اور بلا تخصیص مذہب ہم یہ خدمت کر رہے ہیں اور کرتے رہے ہیں۔ اور پھر ہم یہ بھی نہیں بتاتے کہ ہم احمدی ہیں۔ خاموشی سے خدمت کر رہے ہیں اس لئے کہ کہیں کوئی فتنہ پرداز فتنہ نہ کھڑا کر دے اور اس فتنہ کی وجہ سے غریبوں کو مدد لینے سے محروم کر دے۔

لیکن ان نام نہاد مذہب کے ٹھیکے داروں کا رویہ کیا ہے؟ جو اپنے آپ کو اسلام کا نمائندہ سمجھتے ہیں ان کا رویہ کیا ہے؟ ایک جگہ جب پتہ چلا کہ وہاں دریا کے علاقہ کے کچھ خاندان جو ڈیرہ غازی خان کے ریموٹ علاقہ میں رہتے تھے۔ وہ وہاں سے جو دریا کے قریب ہو گا اٹھ کے آئے۔ بہر حال جب سیلاب آیا تو احمدی بھی متاثر ہوئے تو جو خاندان وہاں سے اٹھ کے آئے ان لوگوں کو جب یہ پتہ لگا تو ان احمدی خاندانوں کو انہوں نے خوراک وغیرہ تو کیا دینی تھی، وہ تو ہم نے خود ہی انتظام کر دیا تھا، جو سکول میں shelter ملا ہوا تھا وہاں سے بھی ان لوگوں کو نکال دیا گیا کہ یہ قادیانی ہیں یہاں نہیں رہ سکتے۔

جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے سنبھالا ہے اور جماعت ان کوبے سہارا نہیں چھوڑتی بلکہ خدا تعالیٰ احمدی کو بے سہارا نہیں چھوڑتا۔ ان کا انتظام تو ہو گیا لیکن ان لوگوں کی بد فطرتی کا پتہ چل گیا جو اپنے آپ کو اسلام کا نمائندہ کہتے ہیں کہ خدا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ان لوگوں نے کس بدفطرتی کا ثبوت دیا ہے اور دیتے ہیں۔ یہ طوفان اور سیلاب لاہور میں ہماری مساجد کے واقعہ کے بعد آئے جہاں ظلم و بربریت کی ہولی کھیلی گئی۔ اس تناظر میں اگر دیکھیں تو جماعت احمدیہ کا بلند کردار مزیدنکھر کر سامنے آتا ہے کہ باوجود یہ سب ظلم سہنے کے جماعت اپنے ہم وطنوں کو پریشان دیکھ کر فوراً مدد کے لئے آگے آئی۔ جماعت کے افراد کی قربانی کی قدر اور بھی بڑھتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ مسجدوں میں ہمارے شہید ہونے والوں کے گھروں میں اس وقت جب ابھی ان کے گھروں سے جنازے بھی نہیں اٹھے تھے محلے والوں کی طرف سے بعض جگہ مٹھائی پہنچی کہ لو اپنے شہیدوں کی خوشی میں مٹھائی کھاؤ۔ اس سے بڑا مذہبی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا اور کیا اظہار ہو سکتا ہے یا ہو گا جو قوم کے بعض لوگوں کا مولوی نے کر دیا ہے۔ بالکل دیوالیہ کر دیا ہے۔ اور پھر محلے کے بچے بعض جگہ احمدی بچوں کو کہتے ہیں کہ انہیں گٹروں میں پھینکنا ہے کیونکہ یہی ان کا مقام ہے، یہی ان کی جگہ ہے۔ جس کی وجہ سے بعض گھرانوں کو اپنے گھر بھی تبدیل کرنے پڑے۔ لیکن احمدی کا بلند کردار پہلے سے بھی بڑھ کر ان حالات میں اپنی شان اور چمک دکھاتا ہے۔ جب خوراک اور مختلف اشیاء بلکہ دوائیوں اور تعمیراتی کاموں کے لئے جماعت خدمات پیش کرتی ہے تو بغیر یہ دیکھے کہ کون کس وقت کس قسم کی دشمنی کرتا رہا ہے، بلا تخصیص ہر ایک کی مدد کے لئے گئی ہے اور مدد پہنچائی ہے۔

پس یہ ہے وہ حقیقی اسلام کی تصویر جو آج جماعت احمدیہ پیش کر رہی ہے۔ یہ اسوہ رسول پر چلنے کا اظہار ہے۔ پس جماعت احمدیہ تو ’’گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو‘‘ کے حکم پر عمل کرنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ کرتی چلی جائے گی۔ یہ مخالفانہ حالات صرف پاکستان میں نہیں ہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی خطے میں جب احمدیوں پر ظلم ہوتا ہے تو جماعت وہاں بھی جب وقت پڑے تو اپنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتی ہے۔

گزشتہ دنوں انڈونیشیا میں پھر ایک جگہ جماعت کی مسجد کو اور احمدیوں کے پانچ چھ گھروں اور کاروں وغیرہ کو، ایک دو کاریں تھیں یا موٹر سائیکل تھے، ان کو آگ لگائی گئی۔ لیکن جماعت نے وہاں بھی جب طوفان کی صورت میں ان کو ضرورت پڑی، ان کی مدد کی۔ انڈونیشیا میں کم از کم بہت سارے غیر از جماعت پڑھے لکھے لوگوں میں یہ شرافت ہے اور جرأت بھی ہے کہ مسجدوں اور گھروں کو جلانے والوں کی کافی سیاستدانوں نے اور بڑے لیڈروں نے مذمت کی ہے بلکہ عبدالواحد جو سابق صدر مملکت تھے، ان کی بیگم افسوس کے لئے جماعت کے گھروں میں بھی گئی۔ ان لوگوں کے پاس گئی جن کا نقصان ہواتھا۔ کاش کہ ہمارے پاکستانی لیڈروں کی آنکھیں بھی کھلیں اور سیاسی قدروں اور اخلاق کو وہ جاننے والے بنیں۔ بہر حال احمدی تو ہر حال میں دنیا کو ہلاکت سے بچانے کے لئے کوشش کرتا ہے اور اس نے کوشش کرنی ہے۔ زمانہ کے امام کا پیغام پہنچا کر بھی اور دعاؤں میں خاص توجہ دے کر بھی ہم نے اپنی کوشش کو جاری رکھنا ہے۔ اور ہمارے ان اخلاق کو کوئی ظالم اور کسی بھی قسم کا ظلم ہم سے چھین نہیں سکتا۔ ہماری دعائیں انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن رنگ لائیں گی جب ظالم اور ظلم صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ ہمیں ہمیشہ یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے ہر شخص کو اور ہر ملک کو ظالم اور ظلم سے پاک کر دے۔

ہمارا یہ کام نہیں کہ دنیا میں فتنہ و فساد پیدا کر کے اپنے حقوق کے لئے جنگ لڑیں۔ ہمارے پر ظلم دین کی وجہ سے ہو رہے ہیں اس کے علاوہ تو اور کوئی وجہ نہیں۔ اور دین کی خاطر لڑائیوں سے ہمیں اب زمانے کے امام نے روک دیا ہے۔ دعا ایک ہتھیار ہے اور بہت بڑا ہتھیار ہے جس سے ہماری فتح انشاء اللہ تعالیٰ ہونی ہے اور ہو گی۔ ہمارا اصل مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ جس کے لئے نیکیاں تو بجا لائی جاتی ہیں لیکن فتنہ و فساد اور عُلوّ سے کام نہیں لیا جاتا۔ اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُونَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا (القصص: 84)یعنی یہ آخرت کا گھر ہے جسے ہم ان لوگوں کے لئے بناتے ہیں جو نہ تو زمین میں اپنی بڑائی چاہتے ہیں اور نہ ہی فساد کرتے ہیں۔ پس جب ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم ان لوگوں میں سے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے آخرت پر یقین رکھنے والوں میں شامل کیا ہے تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کسی بھی قسم کے علو ّاور فساد سے ہم کام لیں، قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیں۔ انسانیت کی خدمت سے انکار کر دیں۔ دوسروں کو ذلیل کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ یہ تقویٰ کے خلاف ہے اور تقویٰ ہی ایک مومن کا مقصود ہے اور ہونا چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ وعدہ فرماتا ہے کہ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ  (القصص: 84) یعنی آخری انجام متقیوں کا ہی ہے۔ فساد کرنے والوں کا نہیں۔ ہر مذہب کے ماننے والے مخالفین کے حملوں اور زیادتیوں اور ظلموں کی وجہ سے یہی سمجھتے رہے۔ بعض دفعہ ایسے حالات آئے کہ سمجھنے لگے کہ ہم اب ختم ہوئے کہ اب ختم ہوئے۔ اور بعض دفعہ جب امتحان اور ابتلا لمبا ہو جائے تو بعض سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں بھی دنیا داری کے داؤ پیچ استعمال کرنے چاہئیں لیکن الٰہی جماعتیں ایسا نہیں کرتیں۔ بعض لوگ مجھے خط بھی لکھ دیتے ہیں کہ اب اتنا صبر اچھا نہیں ہے ہمیں بھی کچھ کرنا چاہیے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مَیں نے جیسے کہہ دیا کہ جنگ اور فساد ہمارا مقصد ہی نہیں ہے۔ ہم نے اس زمانے کے امام کو مان لیا۔ جب مان لیا تو وہ جو کہتا ہے اس پر حرف بحرف چلنا ہے۔

اور پھر یہ کہ نیک فطرتوں کو اس قسم کے فتنہ و فساد کے داؤ پیچ آ ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ اگر ہم کوشش بھی کر لیں تو ہم نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ہماری فطرت کے خلاف ہے۔ ہمارے ربوہ کے ارد گرد جو علاقہ ہے جس میں وہاں کے مقامی باشندے آباد ہیں۔ ربوہ چونکہ partitionکے بعد آباد ہوا تو وہاں آنے والوں کو ربوہ کے شہریوں کو اردگرد کے مقامی لوگ مہاجر کہتے ہیں۔ لغو کام، بیہودہ کام، چوریاں چکاریاں، ڈاکے وغیرہ اس میں یہ لوگ بڑے مشہور ہیں۔ شروع میں ان لوگوں سے ربوہ کو بھی بڑا محفوظ کرنا پڑا تھا۔ مَیں بتا رہا تھا کہ ایک دفعہ باتوں میں ان کا ایک آدمی پنجابی میں کہنے لگا کہ یہ جو ہمارے لغو قسم کے کام ہیں، جوبرائیاں ہیں، پنجابی میں کہتا ہے کہ ان کاموں میں ’’جِتھے تہاڈے سیانے دی عقل ختم ہوندی اے ساڈے کملے دی شروع ہوندی اے‘‘ یعنی یہ برائیوں والے کام ایسے ہیں کہ تم لوگ جو مہاجر ہو جہاں تمہارے عقلمند کی عقل ختم ہو گی وہاں سے ہمارے بیوقوف کی عقل شروع ہوتی ہے۔ اتنے ماہر ہیں ہم۔ ہمارا تو ان سے مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم تو اس مقابلہ میں اس فتنہ و فساد میں ان کے بیوقوفوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ان میں سے بھی جو لوگ احمدی ہو رہے ہیں اب لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کی وجہ سے ان میں بھی ایک پاک تبدیلی ہو رہی ہے اور وہی کملے جو ان کاموں میں شیر تھے وہ احمدی ہونے کے بعد کافی بہتر ہو رہے ہیں۔ دوسرے ہمارا خدا تعالیٰ پر یقین ہے جس کا وعدہ ہے کہ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ کہ انجام متقیوں کا ہی ہے۔ اس کا ایک تو یہ مطلب ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے وہاں داؤ پیچ، فتنہ و فساد کے نمبر نہیں ملیں گے۔ ہاں اگر پوچھا جائے گا تو تقویٰ کے بارہ میں پوچھا جائے گا کیونکہ یہ تقویٰ ہی ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُم۔ اسے تمہارا تقویٰ ہی پہنچے گا اور تقویٰ میں بڑھنے سے ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخشش کے سامان ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں بڑھائے۔

دوسرے اَلْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ کا واضح مطلب یہ بھی ہے کہ الٰہی جماعتوں کی کامیابی اور فتوحات داؤ پیچ، فتنہ وفساد، بڑائی اور علوّ سے حاصل نہیں ہونے۔ بلکہ عاجزی اور انکساری دکھانے والے اور ہر حال میں اللہ کی رضا چاہنے والے جو لوگ ہیں یہی انشاء اللہ تعالیٰ فتح کے نظارے دیکھیں گے۔ پس یہ ظلم، یہ فساد، یہ سرکشیاں عارضی ہیں اور تیزی سے اپنے انجام کو پہنچ رہی ہیں۔ دنیا میں بڑے بڑے فرعون پیدا ہوئے، بڑے بڑے ظالم اور جابر پیدا ہوئے، بڑے بڑے طاقتور پیدا ہوئے لیکن سب ختم کر دئیے گئے۔ وہ گروہ جو الٰہی جماعتوں کے مقابلہ پر کھڑا ہوتا ہے، وہ کھڑا ہی اس لئے ہوتا ہے کہ اسے یقین ہوتا ہے کہ یہ لوگ جو آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں ایک وقت میں ہماری بالا دستی ختم کر دیں گے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کیونکہ یہ لوگ دنیا دار ہوتے ہیں اس لئے ان کی سوچ اس بات سے آگے جاتی ہی نہیں اور نہ جا سکتی ہے کہ اگر احمدی پھیلتے چلے گئے تو ہماری حکومت پر قبضہ ہو جائے گا۔ حالانکہ الٰہی جماعتوں کا مقصد بندے کا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنا ہے۔ اور یہی مقصد لے کر اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے۔

یہ فرعون صفت لوگ جنہوں نے اپنی حکومت کو اور اپنی طاقت کو ہی خدا بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا ہوتا ہے ان کو خطرہ ہوتا ہے کہ اگر یہ بندے خدا والے بن گئے تو ہماری جومزعومہ خدائی ہے وہ تو ختم ہو جائے گی۔ اور جونشانات اللہ تعالیٰ نبی اور اس کی جماعت کی تائید میں دکھاتا ہے، جو ظاہر ہو رہے ہیں اور ہوتے ہیں، ان کو دیکھ کر یہ یقین بھی ان لوگوں کے دل میں بیٹھ جاتا ہے کہ ان لوگوں نے غالب آ ہی جانا ہے۔ اس لئے دشمنی اور ظلم میں بڑھتے چلے جاتے ہیں تا کہ کسی نہ کسی طرح انہیں ختم کردیں۔ کبھی جادوگر کہہ کر روکیں ڈالی جاتی ہیں، کبھی کچھ کہہ کر روکیں ڈالی جاتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے زمانے میں یا اس کی جماعت کی ترقی کے زمانہ میں جو مذہبی جبہ پوش ہیں یہ بھی تائیدات اور نشانات دیکھ کر گمان کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہمارے تو منبروں کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے اس لئے ظاہری طور پر بھی بھر پور مخالفت کی کوشش کرتے ہیں اور ظلم اور تعدی میں حد سے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ جھوٹ اور فریب میں اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ لوگوں کے سامنے سچ اور جھوٹ کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ اور مذہب کے نام پر خون کر کے اپنے منبروں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس یہ مخالفت ان کے دلوں کے خوف کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اور اس وجہ سے ہوتی ہے کہ ان کو نظر آ رہا ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اب غالب آنا ہی آنا ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہے وہ حکومتیں ہوں یا منبروں کے نام نہاد مالک، جب اپنی کرسیاں اور منبر نیچے سے نکلتے نظر آئیں تو وہ الٰہی جماعتوں کی مخالفت میں اور زیادہ تیزی پیدا کر دیتے ہیں اور ہر قسم کے اخلاق اور قانون کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ اگر ان کو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی کامیابی اور نشان پر یقین نہ ہو تو ان کو اتنی منظم مخالفت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ پس یہ منظم مخالفت جب بھی ہو تویہ مخالفین کے اس یقین کا اظہار کر رہی ہوتی ہے کہ ہم تو اب گئے کہ تب گئے۔ یہ تو کئی لوگ اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر تسلیم بھی کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت بظاہر احمدیوں کے ساتھ لگتی ہے۔ بظاہر نہیں، بلکہ حقیقت میں ہے۔ اب پاکستان میں یا اور ملکوں میں جہاں مذہبی رہنما اور حکومت مل کر جماعت کے خلاف منظم کوشش کر رہے ہیں ان کے متعلق بعض جگہوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ جس طرح یہ جماعت ترقی کر رہی ہے اور جو باتیں یہ بتاتے ہیں وہ باتیں تو سچی ہیں لیکن اگر یہ باتیں ہم نے عوام میں آسانی سے جانے دیں اور ان کا عوام میں نفوذ ہو گیا تو پھر یاد رکھو کہ ہماری کرسیاں بھی جائیں گی اور نام نہاد اماموں کی امامتیں بھی جائیں گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ دیکھو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوتا ہے؟ انبیاء کے مخالفین کے انجام کی طرف نشاندہی فرما دی ہے کہ جس طرح ان کے فتنہ اور فساد اور علو ّاور ظلم اور دولت اور طاقت ان کو نہیں بچا سکی تھی آئندہ بھی کسی حد سے بڑھے ہوئے کو اور الٰہی جماعتوں کے مخالفین کو یہ چیزیں نہیں بچا سکتیں۔ پس آج میں پھر کہتا ہوں کہ جو بظاہر آفات اور مصائب سے محفوظ ہیں یا اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں وہ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ اِسْتِکْبَاراً فِی الْاَرْضِ وَمَکْرُ السَّیِّیِٔ وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ۔ فَہَلْ یَنظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلاً (فاطر: 44) کہ ان کے زمین میں تکبر کرنے اور برے مکر کرنے کی وجہ سے۔ اور بُری تدبیر نہیں گھیرتی مگر خود صاحبِ تدبیر کو۔ (یعنی کہ بری تدبیریں ان تدبیر کرنے والوں کو ہی گھیرتی ہیں)۔ پس کیا وہ پہلے لوگوں پر جاری ہونے والی اللہ تعالیٰ کی سنت کے سوا کوئی اور انتظار کر رہے ہیں۔ پس تو ہرگز اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا اور تو ہرگز اللہ کی سنت میں کوئی تغیر نہیں پائے گا۔

پس کیا یہ تکبر، بڑائی، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے خلاف مکر، کامیاب ہو گا؟ نہیں ہو گا، ہرگز نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے۔ یہ پرانے انبیاء کے قصے ہمیں قرآنِ کریم میں صرف قصے کہانیوں کے لئے نہیں سنائے جا رہے بلکہ اس لئے کہ عبرت حاصل کرو اور اپنے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا کرو۔ اور خدا کے بھیجے ہوئے سے ٹکر لے کر اس کے ماننے والوں پر ظلم اور سفّاکی کی داستانیں رقم کرنے والوں کا حصہ نہ بنو اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلاً (فاطر: 44)۔ پس تو ہرگز اللہ تعالیٰ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا اور تو ہرگز اللہ کی سنت میں کوئی تغیر نہیں پائے گا، پر غور کرو۔ کاش کہ یہ لوگ سمجھ جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کی توفیق بھی دے اور دنیا کے حق میں ہماری دعائیں قبول بھی فرمائے کہ یہ تباہی کے گڑھے میں گرنے سے اور تباہ ہونے سے بچ جائیں۔ اپنے لئے بھی دعا کرتے رہیں کہ ہم صبر اور حوصلے سے ہمیشہ دعائیں کرتے رہیں اور وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ کے حقیقی مصداق بن کر فتح اور نصرت کے نظارے دیکھنے والے ہوں۔ آخر پر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کروں گا۔

آپؑ فرماتے ہیں:

’’یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے ثبوت نہیں چھوڑے گا۔ وہ خود فرماتا ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے’’کہ دنیامیں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا‘‘۔ جن لوگوں نے انکار کیا اور جو انکار کے لئے مستعد ہیں ان کے لئے ذلت اور خواری مقدر ہے۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر یہ انسان کا افترا ہوتا تو کب کا ضائع ہو جاتا کیونکہ خدا تعالیٰ مفتری کا ایسا دشمن ہے کہ دنیا میں ایسا کسی کا دشمن نہیں۔ وہ بیوقوف یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ کیا یہ استقامت اور جرأت کسی کذّاب میں ہو سکتی ہے- وہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ جو شخص ایک غیبی پناہ سے بول رہا ہے وہی اس بات سے مخصوص ہے کہ اس کے کلام میں شوکت اور ہیبت ہو۔ اور یہ اسی کا جگر اور دل ہوتا ہے کہ ایک فرد تمام جہان کا مقابلہ کرنے کیلئے طیار ہو جائے۔ یقیناً منتظر رہو کہ وہ دن آتے ہیں بلکہ نزدیک ہیں کہ دشمن رُوسیاہ ہوگا اور دوست نہایت بشاش ہوں گے۔ کون ہے دوست؟ وہی جس نے نشان دیکھنے سے پہلے مجھے قبول کیا اور جس نے اپنی جان اور مال اور عزت کو ایسا فدا کر دیا ہے کہ گویا اس نے ہزار ہا نشان دیکھ لئے ہیں۔ سو یہی میری جماعت ہے اور میرے ہیں جنہوں نے مجھے اکیلا پایا اور میری مدد کی۔ اور مجھے غمگین دیکھا اور میرے غمخوار ہوئے اور ناشناسا ہو کر بھی آشناؤں کا سا ادب بجا لائے۔ خدا تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو۔ اگر نشانوں کے دیکھنے کے بعد کوئی کھلی صداقت کو مان لے گا تو مجھے کیا اور اس کو اجر کیا اور حضرتِ عزت میں اس کی عزت کیا‘‘۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس اس کی عزت کیا) ’’مجھے درحقیقت انہوں نے ہی قبول کیا ہے جنہوں نے دقیق نظر سے مجھ کو دیکھا اور فراست سے میری باتوں کو وزن کیا اور میرے حالات کو جانچا اور میرے کلام کو سنا اور اس میں غور کی۔ تب اس قدر قرائن سے خدا تعالیٰ نے ان کے سینوں کو کھول دیا اور میرے ساتھ ہوگئے۔ میرے ساتھ وہی ہے جو میری مرضی کے لئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے اور اپنے نفس کے ترک اور اخذ کیلئے مجھے حَکم بناتا ہے اور میری راہ پر چلتا ہے اور اطاعت میں فانی ہے اور انانیت کی جلد سے باہر آگیا ہے۔ مجھے آہ کھینچ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ کھلے نشانوں کے طالب وہ تحسین کے لائق خطاب اور عزت کے لائق مرتبے میرے خداوند کی جناب میں نہیں پا سکتے جو ان راستبازوں کو ملیں گے جنہوں نے چھپے ہوئے بھید کو پہچان لیا اور جو اللہ جلّشانہ کی چادر کے تحت میں ایک چھپا ہوا بندہ تھا اس کی خوشبو ان کو آگئی۔ انسان کا اس میں کیا کمال ہے کہ مثلاً ایک شہزادہ کو اپنی فوج اور جاہ و جلال میں دیکھ کر پھر اس کو سلام کرے۔ باکمال وہ آدمی ہے جو گداؤں کے پیرایہ میں اس کو پاوے اور شناخت کرلیوے۔ مگر میرے اختیار میں نہیں کہ یہ زیر کی کسی کو دوں۔ ایک ہی ہے جو دیتا ہے۔ وہ جس کو عزیز رکھتا ہے ایمانی فراست اس کو عطا کرتا ہے۔ انہیں باتوں سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں اور یہی باتیں ان کے لئے جن کے دلوں میں کجی ہے زیادہ تر کجی کا موجب ہو جاتی ہیں‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلدنمبر5صفحہ 349-350مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرتا چلا جائے اور دنیا کی آنکھیں کھولے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں