خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 15؍ اکتوبر 2010ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفاً۔ فَالْعٰصِفٰتِ عَصْفاً۔ وَالنّٰشِرٰتِ نَشْراً۔ فَالْفٰرِقَاتِ فَرْقاً۔ فَالْمُلْقِیٰتِ ذِکْراً۔ عُذْراً اَوْ نُذْرًا۔ اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَوَاقِعٌ۔ فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْ۔ وَاِذَا السَّمَآءُ فُرِجَتْ۔ وََاِذَاالْجِبَالُ نُسِفَتْ۔ وَاِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ (المرسلت: 2تا 12)
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ قسم ہے پے بہ پے بھیجی جانے والیوں کی۔ پھر بہت تیز رفتار ہو جانے والیوں کی۔ اور پیغام کو اچھی طرح نشر کرنے والیوں کی۔ پھر واضح فرق کرنے والیوں کی۔ پھر انتباہ کرتے ہوئے صحیفے پھینکنے والیوں کی۔ حجت یا تنبیہ کے طور پر۔ یقینا جس سے تم ڈرائے جا رہے ہو لازماً ہو کر رہنے والا ہے۔ پس جب ستارے ماند پڑ جائیں گے۔ اور جب آسمان میں طرح طرح کے سوراخ کر دئیے جائیں گے۔ اور جب پہاڑ جڑوں سے اکھیڑ دئیے جائیں گے۔ اور جب رسول مقررہ وقت پر لائے جائیں گے۔
ان آیات میں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور آپ کے صحابہ کے ذریعے اسلام کے پھیلنے کی خبر ہے جو اپنے نقطہ عروج کو پہنچ کر ان پیشگوئیوں کو روزِروشن کی طرح واضح کر گئیں وہاں ان آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے زمانہ اور آپ کی آمد کی پیشگوئی بھی ہے۔ جب صحابہ والا تقویٰ مفقود ہونے کے بعد اسلام کی کشتی کو سنبھالنے کے لئے مسیح موعود اور مہدی موعودنے مبعوث ہو کر پھر اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا آغاز کر کے اسلام کو، اسلام کی تعلیم کودنیا میں پھیلانے کا کام سرانجام دے کر اسلام کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنا تھا۔
پس آج یہ آیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت اور آپ کی قائم کردہ جماعت کی ترقی کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ ان آیات میں بیان کردہ کچھ پیشگوئیاں بھی ہیں جو ہم اس زمانہ میں پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں اور دیکھ چکے ہیں اور باقی انشاء اللہ پوری ہونے والی ہیں وہ بھی دیکھیں گے۔ یہ اُس خدا کا کلام ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے، جو سب سچوں سے سچا ہے۔ پس ہمارا خدا وہ خدا ہے جو قادر و توانا ہے۔ جو اپنی عظیم تر قدرت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مقدر انقلابات کو بھی سچا کر کے دکھا رہا ہے اور دکھائے گا۔ اگر ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ہم اُس انقلاب کا حصہ بننے کے لئے، اُن نعمتوں سے حصہ لینے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے لئے مقدر کی ہیں اپنی کوششوں کو بھی حرکت میں لائیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا حصہ بننے کے لئے ہمیں اپنے اندر بھی انقلاب پیدا کرنا ہو گا، جس سے ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کا حصہ بن کر ان انعامات کو حاصل کرنے والا بن جائے جو آپ؈ کے ساتھ خدا تعالیٰ نے مقدر کر دئیے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اپنی تائیدات کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں جونشانات دکھائے ہیں، دکھا رہا ہے اور دکھائے گا انشاء اللہ تعالیٰ، ان کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفاً فرمایا کہ فرشتوں کے ذریعہ جو تائیدات ہو رہی ہیں، ان کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں شروع ہوا۔ یہ پیغام جو نیکی، پاکیزگی، اعلیٰ اخلاق اور تقویٰ کے پھیلانے اور قائم کرنے کا پیغام تھا۔ یہ پیغام ان نشانات اور تائیدات کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے ذریعہ بھی پھیلا۔ وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو وہ نہ صرف یہ کہ قابلِ پذیرائی نہ تھا۔ اس کو پوچھا نہیں گیا بلکہ مخالفت کے شدید دور سے یہ پیغام گزرا۔ مخالفتوں کے طوفان کھڑے کئے گئے لیکن اللہ تعالیٰ کے پے در پے نشانات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دلائل اور براہین جو خود خدا تعالیٰ کے نشان کا درجہ رکھتے تھے اور آپ کے ماننے والوں کی تبلیغ، یہ سب ایسی چیزیں تھیں جنہوں نے تمام مخالفتوں کے باوجود آہستہ آہستہ نیک فطرتوں کو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل کرنا شروع کر دیا۔ اور آپ کی زندگی میں جماعت لاکھوں کی تعداد تک پہنچ گئی۔ پس خدا تعالیٰ جب اپنے انبیاء بھیجتا ہے تو ان کے پیغام کو پہلے آہستہ آہستہ پھیلاتا ہے اور پھر وہ بڑی تیزی سے ضرب کھاتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے پیغام پہنچانے کے وسائل اور ذرائع کم ہوتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ جس تقدیر کو کرنے کا اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ ان وسائل اور ذرائع میں بھی اضافہ اور تیزی فرما دیتا ہے۔ پس ایک تو نشانات میں اضافہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں دیکھتے رہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جو بات بھی الہاماً یا رؤیا صادقہ کی صورت میں بتاتا رہا ان میں بھی آپ کے ابتدائی دور میں اور ہر آنے والے وقت میں اضافہ ہوتا رہا جس کے اپنے اور غیر کثرت سے گواہ ہیں۔ مثلاً آپ نے اپنی زندگی میں طاعون کی مثال دی ہے کہ شروع شروع میں یہ نشان کے طور پر ظاہر ہوا۔ بہت معمولی نشان تھا، تھوڑے تھوڑے علاقوں میں ظاہر ہوا۔ اور پھر یہ پھیلتا چلا گیا اور پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لیکن جیسا کہ آپؑ نے فرمایا تھا کہ بعض باتیں میرے اس دنیا سے جانے کے ساتھ مقدر ہیں یعنی اس کے بعد ہوں گی جو جماعت کی تائید میں ہوں گی، جن کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ اور قدرتِ ثانیہ جو خلافت کا دور ہے، ان میں تم ان باتوں کو پورا ہوتا دیکھو گے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے جو یہ وعدہ فرمایا تھا کہ یہ باتیں جو اَب کی جا رہی ہیں بعض ان میں سے بعد میں پوری ہوں گی۔ ان کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے وسائل اور ذرائع کو اس زمانہ کے مطابق مہیا فرما دیا اور فرما رہا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ بعض کام اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی زندگیوں میں پورے فرماتا ہے اور بعض ان کے جانے کے بعد پورے فرماتا ہے۔ لیکن انبیاء سے جو وعدہ ہوتا ہے، جو الٰہی تقدیر کا حصہ ہوتا ہے وہ ضرور پورا ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِمَّا نَذْہَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْہُم مُّنْتَقِمُوْنَ (الزخرف: 42) پس اگر ہم تجھے لے بھی جائیں تو ان سے ہم بہر حال انتقام لینے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ جب نبی کے مخالفین کے بارہ میں کچھ بتاتا ہے تو وہ ضرور پورا ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں، اگر ان کے لئے سزا مقدر ہو، اگر اللہ تعالیٰ نے ان سے انتقام لینا ہو تو وہ ضرور لیا جاتا ہے، چاہے نبی کی زندگی میں پورا ہو یا بعد میں۔ اسی طرح اگر کسی کے بارہ میں خوشخبری ہے، فتوحات کی خبریں ہیں، اگر اس کی اطلاع اللہ تعالیٰ دیتا ہے یا اپنے نبی سے الفاظ کہلواتا ہے تو وہ بھی کچھ زندگی میں اور کچھ بعد میں پوری ہوتی ہیں۔ چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ کو کسریٰ کے سونے کے کنگن کی خوشخبری دی تھی تو اصل میں اس میں ایران کے اسلام کے جھنڈے تلے آنے کی خبر تھی جو حضرت عمرؓ کے زمانہ میں پوری ہوئی اور سراقہ کو کنگن پہنائے گئے۔ پس نیکی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق پہلے آہستہ آہستہ پھیلتی ہے اور پھر دائرہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ نبی کی فتوحات آہستہ آہستہ شروع ہوتی ہیں اور پھر دائرہ وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور جب دائرہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی ان کو پورا کرنے کے لئے پہلے سے تیز اور بہتر حالات پیدا کر دیتی ہے۔ اور ذرائع اور وسائل مہیا ہو کر پھر ان میں تیزی آتی جاتی ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کوئی محدود طاقتوں والا نہیں ہے۔ اگر وہ چاہے کہ نبی کے زمانے میں بھی نبی سے کئے گئے تمام وعدے اور فتوحات کو اس زمانہ میں اور اس کی زندگی میں پورا کر دے تو کر سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ بعد میں آنے والے بھی ان فتوحات اور انعامات سے حصہ لینے والے بن جائیں۔ پس اس زمانہ کے تیز وسائل ہمیں اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ ان کا صحیح استعمال کریں۔ انہیں کام میں لائیں اور صحابہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے زمانہ کے امام کے معین و مددگار بن جائیں۔ اور مددگار بن کر اس کے مشن کو پورا کرنے والے ہوں۔ تیز رفتار وسائل اس طرف توجہ مبذول کروا رہے ہیں کہ ہم اس تیز رفتاری کو خدا تعالیٰ کا انعام سمجھتے ہوئے اس کے دین کے لئے استعمال کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اگر یہ فرمایا ہے کہ وَالنّٰشِرٰتِ نَشْراً اور پیغام کو اچھی طرح نشر کرنے والوں کو بھی شہادت کے طور پر پیش کیا گیا ہے تو یہ پیغام وہ ہے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ اور وہ کامل اور مکمل دین جو تاقیامت قائم رہنے والا ہے اس دین کے احیائے نو کے لئے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے۔
پس خدا تعالیٰ نے اس نشر کے اس زمانہ میں جدید طریقے مہیا فرما دئیے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے پاس آج کل کے وسائل اور جدید طریقے موجودنہیں تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے تبلیغِ اسلام کا حق ادا کر دیا۔ آج کل ہمارے پاس یہ طریقے موجود ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے زمانہ میں یہ مقدّر تھے۔ ا للہ تعالیٰ نے اس کی پیشگوئی بھی فرما دی تھی۔ یہ آیت جو ہے یہ پیشگوئی ہے جس کا دوسری جگہ اس طرح ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَاالصُّحُفُ نُشِرَتْ (التکویر: 11) یعنی جب کتابیں پھیلا دی جائیں گی۔ پس ایک تو یہ زمانہ کتابیں پھیلانے کا ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے اور اس وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روحانی خزائن کا ایک بے بہا سمندر ہمارے لئے چھوڑا ہے اور اس کی اشاعت آپ کے زمانے میں ہوئی۔ آپ کے صحابہ نے بھی اس کو پھیلانے میں خوب کردار ادا کیا۔ ہم صحابہ کے واقعات پڑھتے ہیں کہ کسی نہ کسی صحابی نے کوئی کتاب دوسرے شخص کو دی، اس نے پڑھی، اس کے دل پر اثر ہوا اور اس طرح آہستہ آہستہ لوگ احمدیت میں شامل ہوتے چلے گئے۔ اور ایک قربانی کے ساتھ ان لوگوں نے یہ کام کیا جیسا کہ اسلام کے دورِ اول میں صحابہ نے کیا تھا۔ اور پھر یہ لوگ، یہ صحابہ جن کی قسم کھائی گئی ہے، جن کو شہادت کے طور پر پیش کیا گیا ہے خدا تعالیٰ کے پسندیدہ بن گئے۔ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ والا کردار ادا کیا۔ جس سے یہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بن گئے۔
آج خدا تعالیٰ نے ان کتابوں کو نشر کرنے کے اور اسلام کے مخالفین کے جواب دینے کے پہلے سے بڑھ کر ذرائع مہیا فرما دئیے ہیں جو تیز تر ہیں۔ کتابیں پہنچنے میں وقت لگتا تھا اب تو یہاں پیغام نشر ہوا اور وہاں پہنچ گیا۔ یہاں کتاب پرنٹ ہوئی اور دوسرے endسے نکال لی گئی۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب، قرآنِ کریم اور دوسرا اسلامی لٹریچر انٹرنیٹ کے ذریعہ، ٹی وی کے ذریعہ نشر ہونے کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔ جو تیزی میڈیا میں آج کل ہے آج سے چند دہائیاں پہلے ان کا تصور بھی نہیں تھا۔ پس یہ مواقع ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائے ہیں کہ اسلام کی تبلیغ اور دفاع میں ان کو کام میں لاؤ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ جدید ایجادات اس زمانہ میں ہمارے لئے اس نے مہیا فرمائی ہیں۔ ہمارے لئے یہ مہیا کر کے تبلیغ کے کام میں سہولت پیدا فرما دی ہے۔ اور ہماری کوشش اس میں یہ ہونی چاہئے کہ بجائے لغویات میں وقت گزارنے کے، ان سہولتوں سے غلط قسم کے فائدے اٹھانے کے ان سہولتوں کا صحیح فائدہ اٹھائیں، ان کو کام میں لائیں۔ اور اگر اُس گروہ کا ہم حصہ بن جائیں جو مسیح محمدی کے پیغام کو دنیا میں پہنچا رہا ہے تو ہم بھی اس گروہ میں شامل ہو سکتے ہیں، ان لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جن کی خدا تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔
MTA کی تقریب پر مَیں نے انہیں یہی کہا تھا کہ آج MTA کا ہر کارکن چاہے وہ جہاں بھی دنیا میں کام کر رہا ہے، یا کسی بھی کونے میں جہاں کام کر رہا ہے، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو دنیا کے کنارے تک پہنچانے کا کام کر رہا ہے۔ یہ کام تو خدا تعالیٰ نے کرنا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خود آپؑ سے فرمایا تھا کہ مَیں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ ذرائع بھی پیدا فرمائے ہیں کہ آپ کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچے۔ پس یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے اور یہ تمام ایجادات اس کی شہادت دے رہی ہیں۔ لیکن ہم اس سوچ کے ساتھ اگر یہ کام کریں کہ ہم اس تبلیغ کا حصہ بن کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے بھی بن جائیں۔ اور یہ اپنے آپ کو دیکھیں کہ آیا ہم بن رہے ہیں کہ نہیں تو تبھی اس کا صحیح حق ادا ہو گا۔ ایسے کارکنوں کو تبھی ان کے حقیقی مقام کا احساس ہو گا جب وہ یہ جائزہ بھی لے رہے ہوں گے۔ اور جب مقام کا احساس ہو گا تو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی جو ذمہ داریاں ہیں اس طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ صرف ٹیکنیکل مدد یا کیمرے کے پیچھے کھڑے ہو جانا یا پروگرام بنا لینا یا اسی طرح کے دوسرے کام کر دینا کافی نہیں ہو گا بلکہ پھر اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے عبادتوں کی طرف بھی توجہ ہو گی۔ ہر کام کے بہتر انجام کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف جھکاؤ ہو گا اور وَالنّٰشِرٰتِ نَشْراً کو سامنے رکھتے ہوئے صحابہ کے نقشِ قدم پر چلنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ یعنی عبادتوں کے معیار کے ساتھ عملی کوششیں کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے مسیح کی مدد کرنے کی طرف بھی توجہ ہو گی۔ اس پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے کوشش ہو گی۔ اور یہ بات صرف MTA تک محدودنہیں ہے یا بعض ویب سائٹس پر جواب دینے کے لئے کچھ لوگوں کی ٹیم بنا دی جاتی ہے، ان تک ہی محدودنہیں ہے بلکہ ہر فردِ جماعت کو اس میں کردار ادا کرنا چاہئے۔ صحابہ نے جو حق ادا کیا اسے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہم نے اب تک وقت ضائع کیا ہے یا ہماری توجہ پیدا نہیں ہوئی یا احساس نہیں ہوا تو اب اپنے اندر احساس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ گو کہ اتمامِ حجت تو ہو چکی ہے لیکن پھر بھی جس حد تک ہم اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اس کو ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اس طرح ہر احمدی اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرے تو انشاء اللہ تعالیٰ جلد ہی ہم ایک انقلاب دیکھیں گے کیونکہ زمانہ اب تیزی سے اس طرف آ رہا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَالْفٰرِقَاتِ فَرْقاً۔ پھر فرق کر کے دکھلانے والوں کی شہادت ہے۔ یہ تبلیغ اور ذرائع کاجو استعمال ہے یہ فرق کر کے دکھا رہا ہے۔ ہر احمدی جو کسی بھی صورت میں تبلیغی مہم میں حصہ لے رہا ہے، فٰرِقَاتِ فَرْقاً کا حصہ ہے۔ انٹر نیٹ کے ذریعے سے، لٹریچر کے ذریعے سے یا MTA کے کارکنان جو براہِ راست اگر نہیں تو اس مشینری کا حصہ ہیں جو یہ کام سرانجام دے رہی ہے۔ اس نظام کا حصہ ہیں جو دنیا میں یہ صحیفے اور کتب نشر کر رہا ہے۔ آج دنیا میں اس نئی ایجاد کی وجہ سے کھیل کود اور لغویات کی تشہیر بھی ہو رہی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا تھا۔ لیکن دوسری طرف اللہ والوں کا ایک گروہ ہے جو نیکی کی باتیں پھیلا رہے ہیں۔ مسیح محمدی کے غلاموں کا ایک گروہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے کوشاں ہے۔
گو بعض دوسرے چینل بھی اسلام کی تعلیم پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایک محدود وقت کے لئے اور پھر اس میں زمانہ کے حکم اور عدل کو چھوڑنے کی وجہ سے ایسی ایسی تشریحات اور بدعات بھی ہیں جو بعض دفعہ تعلیم کی روح کو بگاڑ دیتی ہیں۔ اب مثلاً یہی سوال جواب کے پروگرام آتے ہیں۔ کسی نے مجھے لکھا کہ فلاں مولوی صاحب یہ تشریح پیش کر رہے تھے کہ عورتوں کے لئے اب پردہ ضروری نہیں ہے کیونکہ قرآنِ شریف میں صرف سینے پر اوڑھنیوں کو لپیٹنے کا حکم ہے۔ کہیں سَر ڈھانکنے کا حکم نہیں ہے۔ حالانکہ بڑا واضح لکھا ہے اور پھر کہہ دیتے ہیں کہ وہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے لئے تھا۔ حالانکہ اسی آیت میں مومنات کے لئے بھی حکم ہے۔ تو بہر حال یہ غلط قسم کی توجیہات پیدا کی جاتی ہیں۔ پھر بدعات پیدا کی جاتی ہیں۔ بہانے بنائے جاتے ہیں کہ کس طرح اسلامی حکموں کو ٹالیں۔ اس طرح یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہے، اسلام کی تعلیم ہے اس کی روح کو بگاڑ دیتے ہیں۔ پس اصل تعلیم وہی ہے جو اس غلامِ صادق کے ذریعے پھیل رہی ہے جو زمانے کا حکم عدل ہے۔ اور یہی تعلیم ہے جو حق اور باطل اور صحیح اور غلط اور خالص دینی اور بدعات کی ملونی میں فرق کر کے دکھلانے والی ہے۔ پس مسیح موعود کا کام بطور حَکم عَدل کے فَالْفٰرِقَاتِ فَرْقاً کی حقیقی تشریح کرنا ہے۔ پس ہمیں اس ماحول سے نکل کر جو آج کل دنیا داری کا ماحول ہے اس حقیقی ماحول کو اپنانے کی ضرورت ہے، اس پر قائم رہنے کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے پیش فرمایا ہے۔ ورنہ ہم میں اور دوسروں میں تو کوئی فرق نہیں ہے۔ فرق تبھی واضح ہو گا جب ہماری تبلیغ کے ساتھ، جب ہمارے پروگراموں کے ساتھ ہمارے اپنے اندر بھی وہی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہوں گی۔ ہم اپنے نفس کے بھی جائزے لے رہے ہوں گے۔ جو تعلیم دے رہے ہوں گے، جس تعلیم کو سمجھ رہے ہوں گے اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہوں گے۔ اس کے نمونے بھی دکھا رہے ہوں گے۔ پس اسلام کی جس خوبصورت تصویر کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمایا ہے اور جو فرق کر کے دکھایا ہے جو اصل میں وہ تصویر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمائی ہے۔ اسی کی آج دنیا کو ضرورت ہے۔ اسی کی آج ہمیں ضرورت ہے۔
تبلیغ کے ضمن میں مَیں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ لیف لیٹس (Leaflets) تقسیم کرنے کی ایک سکیم بنائی گئی تھی، ۔ یہاں UK میں بھی اس پر عمل ہوا ہے، دنیا کے اور ملکوں میں بھی ہوا ہے اور دنیا میں اس کا بڑا اثر ہے۔ جماعت کا مختصر تعارف جیسے پیش کیا گیا اور جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیار اور محبت کی تعلیم پیش کی گئی اس نے دنیا میں بڑا اثر دکھایا۔ امریکہ میں بھی مہم ہوئی ہے۔ وہاں تو یہ کہتے تھے کہ شاید ہم کامیاب نہ ہو سکیں لیکن جب انہوں نے Leaflets بانٹنا شروع کئے تو لوگوں نے بڑی خوشی سے اس پیغا م کو وصول کیا کہ اسلام کا یہ پیغام تو ہم نے پہلی دفعہ دیکھا اور سنا ہے۔ اور اس بنیاد پر اخبار کے کالم لکھنے والوں نے بھی اس میں حصہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیغام جوتم پہنچا رہے ہواس پیغام کو ہم بھی تمہارے ساتھ تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ کئی کالم نویسوں نے، بڑے بڑے اونچے درجہ کے کالم نویس جو بڑے نیشنل اخباروں کے ٹاپ کے لکھنے والے تھے انہوں نے اس میں حصہ لیا اور پھر اپنے کالم لکھے اور وہ اخبارات لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں۔ وہاں کے لوگ پڑھتے ہیں، Leaflets تو چند ہزار یا سینکڑوں میں تقسیم ہوئے تھے لیکن اخبار کے ذریعہ پھر جماعت کا پیغام لاکھوں کروڑوں میں پہنچ گیا۔ تو یہ ذریعہ بڑا کامیاب ہوا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا بعض انکار بھی کرتے تھے لیکن جب بتایا کہ ہمارا پیغام وہ پیغام نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ یہ محبت، پیار اور بھائی چارے کا پیغام ہے تو پھر لیتے ہیں۔ تو ہمارے پیغام میں اور دوسروں کے پیغام میں یہ فرق ہے جو زمانہ کے امام نے ہمیں سکھایا ہے کہ اس طرح تبلیغ کرو۔ بلکہ ایک صاحب نے مجھے لکھاکہ ایک عورت کو انہوں نے پمفلٹ دیا تو اُس نے بڑے غصے سے دیکھا اور کہا کہ ہیں، یہ کیا مجھے بتا رہے ہو؟ جو نائن الیون کاواقعہ ہوا۔ تم نائن الیون والے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ ہمارا یہ پیغام نہیں۔ ہم مختلف ہیں۔ خیر اس نے لے لیا اور اس کے بعد پھر تعریف کی۔ پس اس پیغام نے نیکی اور برائی کو بھی واضح کر دیا۔ جہاں احمدیت کا اصل پیغام پہنچا ہے، اسلام کا اصل پیغام پہنچا ہے، وہاں نیکی اور بُرائی کا فرق بھی ظاہر ہو گیا۔ اصل اسلام اور بگڑی ہوئی تعلیم کو بھی واضح کر دیا۔ دنیا کو پتہ لگ گیا کہ اصل اسلام کی تعلیم کیا ہے؟ اور اس سے پھر نوجوانوں میں بھی جرأت پیدا ہوئی۔ امریکہ میں خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر بعض نوجوان جھجک رہے تھے۔ لیکن جب اجتماع پر انہوں نے سکیم بنائی اور یہ پیش کیا جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض اخباری کالم لکھنے والوں نے بھی شامل ہونے کے لئے کہا۔ جب وہ شامل ہوئے تو لڑکوں میں نوجوانوں میں ایک اعتماد پیدا ہوا اور پھر انہوں نے باقاعدہ سکیم بنا کر اس میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ تو اس طرح جو تھوڑا سا احساسِ کمتری تھاوہ بھی دور ہو گیا۔ کیونکہ نوجوانوں میں اسلام کے نام پرجو دوسروں سے غلط باتیں سنتے ہیں ان میں ہمارے نوجوان بھی ایسے ہیں جن کو اسلام کا پوری طرح علم نہیں، جانتے نہیں، تو ان میں احساسِ کمتری پیدا ہو جاتا ہے۔ بہر حال غیروں کے منہ سے تعریف سن کر پھر ان میں اعتماد پیدا ہوا۔ یہ ایک ابتدا ہے جو ہوئی ہے۔ اس سے مزید راستے انشاء اللہ تعالیٰ کھلیں گے۔ اس لئے مَیں اس میں یہ نہیں کہتا کہ یہاں بند ہو گیا۔ اب اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔ تو اس طرح انشاء اللہ تعالیٰ چلتا جائے گا۔ جن کے پاس ایک دفعہ یہ پیغام پہنچ گیا اب ان کے لئے سوچنا چاہئے کہ اگلا پیغام کیا دینا ہے؟ ان کو اگلا پیغام کیا پہنچاناہے؟
ایک صاحب نے مجھے کہا کہ کینیڈا میں بھی لیف لیٹ تقسیم ہو رہے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ انڈیا کی کسی جگہ سے ٹیکسٹ میسجز (Text Messages) بھیجے جائیں تو اس سے زیادہ اثر ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ وہاں بیٹھ کر کون سی ٹیم بھیجے گی۔ اور پھر کن کن ملکوں میں بھیجے گی؟ وہاں کے نمبروں کاڈائریکٹریوں سے اگر پتہ بھی کر لیں گے، ایڈریس لے لیں گے تو پھر بعض قانونی روکیں ہوتی ہیں۔ بہر حال قانونًا یہ غلط ہے کہ کسی کو اگر وہ کوئی پیغام لینا نہیں چاہتاتو وہ پیغام بھیجا جائے۔ گو کہ ان کی نیت نیک ہی ہو گی لیکن یہ پیغام بہر حال اس طرح اثر انداز نہیں ہو سکتا جس طرح خود دینے سے، کیونکہ جب خود آپ دے رہے ہوں گے تو اپنی ایک کوشش بھی بیچ میں شامل ہوتی ہے۔ ایک ذاتی تعلق بھی بنتا ہے۔ پھر جب وہ شخص آپ کو دیکھتا ہے، آپ کا حلیہ دیکھتا ہے آپ کا انداز دیکھتا ہے آپ کی بات چیت کا انداز دیکھتا ہے تو پھر ایک ظاہری شکل سے بھی وہ اندازہ لگا لیتا ہے کہ کس قسم کا شخص ہے؟ اور پرسنل تعلق جب بنتے ہیں تو پھر ان سے رابطے بڑھتے ہیں اور یہی پھر تبلیغ کے ذریعے پیدا کرتے ہیں۔ لٹریچر دینا یا پمفلٹ دینا یا لیف لیٹ دینا تو ٹھیک ہے۔ لیکن صرف فونوں پر ٹیکسٹ میسج دینا ٹھیک نہیں۔ پھر یہ ہے کہ مشن کا پتہ دیں گے تو کوئی آئے کہ نہ آئے۔ ٹیکسٹ میسج دینے سے کمپنیوں کے اشتہار تو دئیے جا سکتے ہیں لیکن جب تک ذاتی تعلق سے اور ذاتی کوشش سے تبلیغ نہ کی جائے یا یہ لٹریچر تقسیم نہ کیا جائے توپھر میرے خیال میں اس طرح تبلیغ نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ رابطے مستحکم ہوں گے تو تبلیغ کے میدان میں آگے بڑھیں گے۔
پھر یہ بھی مَیں کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں اور بعض مسلمان ممالک میں اگر قانونی روکیں ہیں، تو باہر دوسرے ممالک میں جہاں آزادی ہے وہاں وسیع پیمانے پر جماعت کا تعارف کروانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ جو ہو رہا ہے ہر ملک نے ہزاروں میں یا چند لاکھ میں شائع کئے ہیں اس پر اکتفا نہ کرلیں۔ اس کام کو اب آگے بڑھانا چاہئے۔ ہر سال یہ تعارف لاکھوں میں پہنچنا چاہئے اور جن کو پہنچ گیا ان کو اگلا حصہ پہنچنا چاہئے۔ گویا کہ سارے نظام کو اس میں پوری طرح involve ہونا پڑے گا۔ پھر ان لیف لیٹس کے ذریعے جیسا کہ مَیں نے کہا صرف امریکہ میں نہیں اور جگہوں پر بھی اخباروں نے خبریں دی ہیں جہاں کئی ملین لوگوں میں احمدیت کا پیغام پہنچا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچا ہے۔ پس اس مہم کو پہلے سے بڑھ کر جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انتباہ کرنا بھی انبیاء کے کاموں میں سے ایک کام ہے۔ اور پھر انبیاء کے جو ماننے والے ہیں اُن کو بھی ان کے کام کو آگے بڑھانا چاہئے۔ اس لئے دنیا کو آگاہ کرنا، دنیا کو انتباہ کرنا، اللہ تعالیٰ کے انذار سے ڈرانا یہ بھی بعض دفعہ ضروری ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَالْمُلْقِیٰتِ ذِکْراً کہ اللہ کا پیغام سنانے والوں کو انتباہ کرنے والوں کے زمرہ میں شامل ہونا بھی نبی کے سچے پیروکاروں کا کام ہے۔ پس ایک پیغام کے بعد دوسرا پیغام اس لئے بھی ہونا ضروری ہے کہ نبی کے سچے پیروکاروں کا یہ کام ہے تا کہ دنیا جو غلط رستے پر چلی ہوئی ہے وہ ان غلط راستوں سے بچ جائے۔ اور یہی الٰہی جماعتوں کا کام ہے کہ دنیا کو آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچائیں۔ اس کے لئے ہمیشہ کوشش ہوتی رہنی چاہئے۔ پیغام کے دو حصے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں۔ عُذْراً اَوْ نُذْرًا۔ حجت کے طور پر یا تنبیہ اور ہوشیار کرنے کے لئے۔ پس اگر نہ مانیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ بھی آ سکتی ہے۔
اس آیت اور اس سے پہلی آیت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ نبی کے نشان مومن اور کافر کے درمیان فرق کر دیتے ہیں۔ فرمایا کہ اس وقت لوگوں کو سمجھ آ جائے گی کہ حق کس امر میں ہے۔ آیا اس امام کی اطاعت میں یا اس کی مخالفت میں؟ یہ سمجھ آنا بعض کے لئے صرف حجت کا موجب ہو گا۔ عُذْراً یعنی مرتے مرتے ان کا دل اقرار کر جائے گا کہ ہم غلطی پر تھے اور بعض کے نزدیک نُذْرًا یعنی ڈرانے کا موجب ہو گا کہ وہ توبہ کر کے بدیوں سے بعض آویں۔ پس نبی کی سچائی تو بعض لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جاتی ہے لیکن بعض دفعہ ڈھٹائی اور ضد اور اَنا آڑے آ جاتی ہے۔ کچھ تو اللہ تعالیٰ کے حضور حساب دیں گے۔ اللہ پوچھے گا کہ کیوں نہیں مانا؟ اور کچھ کو توبہ کی توفیق مل جائے گی اور مل جاتی ہے۔ لیکن بعض دفعہ اگر اللہ تعالیٰ رسّی دراز کرتا ہے اور وہ توبہ نہیں کرتے اور اپنی حرکتوں سے بعض نہیں آتے تو پھر ان لوگوں کے انجام کے بارہ میں بھی متعدد جگہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ اور اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَوَاقِعٌ کہ تم جس بات کا وعدہ دئیے جا رہے ہو یقینا وہ ہونے والی ہے۔ یعنی یہ انذار کی خبر اگر نہ مانو گے تو انذار ہے۔ اور انذار کے نتیجہ میں اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ (نشان) ظاہر فرماتا ہے اور اگلے جہان میں بھی سزا کی خبر دیتا ہے۔ اور نبی اور اس کی جماعت کے لئے یہ وعدہ ہے کہ آخری فتح اور غلبہ ان کا ہے۔ یعنی تُوْعَدُوْنَ لَوَاقِعٌ میں دو پیغام ہیں۔ مخالفین کے لئے بھی کہ تم اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہو گے، اس دنیا میں عذاب کی صورت میں یا مرنے کے بعد۔ اور نبی اور ان کی جماعت سے جو غلبہ کا وعدہ ہے اس کے متعلق بھی فرمایا کہ وہ بھی انشاء اللہ پورا ہو گا۔ پس اللہ تعالیٰ نہ ماننے والوں کو فرماتا ہے کہ اگر تم یہ کہو گے، اللہ کے پاس حاضر ہو کر یہ عرض کرو گے کہ ہمیں پتہ نہیں چلا، ہم سمجھ نہیں سکے، ہمیں واپس بھیج دے تو ہم اس نبی کو مان لیں گے، تیرے فرستادے کو مان لیں گے تو اللہ فرمائے گا اب نہیں۔ ایک دفعہ مرنے کے بعد کوئی واپس نہیں لوٹتا۔ اس کے لئے جو انذار تمہیں دیا گیا تھا اب وہی ہے۔ پس یہ ان لوگوں کے لئے بڑا خوف کا مقام ہے جو بلا سوچے سمجھے مخالفت میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ زمانہ جس میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْ کہ جب ستارے ماند پڑ جائیں گے۔ یعنی نام نہاد علماء علم سے بے بہر ہ ہو جائیں گے۔ زمانہ کے امام کا انکار کرنے کی وجہ سے اپنے پیچھے چلنے والوں کو بھی اس روشنی سے محروم کر دیں گے۔ طُمِسَتْ کا مطلب ہے مٹا دئیے جائیں گے۔ پس ان کی روشنی تو ہو گی ہی نہیں۔ اور جس کے پاس روشنی نہ ہو اس نے کیا رہنمائی کرنی ہے؟ یہ لوگ تو خوب دنیا داری میں پڑ گئے ہوئے ہیں۔ اگر دیکھیں تو صرف ایک کام ان کا رہ گیا ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دو۔ کل سے ربوہ میں بھی پھر ایک ختمِ نبوت کانفرنس ہو رہی ہے۔ نام نہاد ختمِ نبوت کانفرنس۔ جس میں تمام بڑے بڑے مولوی، جماعتِ اسلامی کے امیر بھی اور دوسرے علماء بھی شامل ہوئے ہیں، اور جو اَب تک کی رپورٹیں ہیں، سب تقریروں میں جماعت کے خلاف مغلظات ہی بَک رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں۔ پس یہ ستاروں کا ماند پڑ جانا عربی محاورہ ہے، جس کا یہی مطلب ہے کہ علماء دین سے بے بہرہ ہو جائیں گے یا لغات میں لکھا ہے کہ جب آفات ان پر پڑتی تھیں تو اس وقت کہا کرتے تھے کہ ستارے ماند پڑ گئے۔ پس یہاں اس کا یہ مطلب ہے کہ علماء توبے دین ہو کر روشنی کے بجائے اندھیراپھیلانے والے بن گئے اور لوگوں کو گمراہ کر دیا اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے بندہ کے ذریعہ سے جو اتمامِ حجت اور انذار کیا جائے۔ اور اس پر بھی جب انہوں نے توجہ نہیں دی تو پھر اللہ تعالیٰ کی اپنی تقدیر بھی چلتی ہے، قدرتی آفات بھی آتی ہیں۔ رات کے اندھیروں میں تاروں کی چمک اور روشنی جو تھوڑی بہت آتی ہے وہ بھی غائب ہو جاتی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ زمانہ ہے وَاِذَا السَّمَآءُ فُرِجَتْ کہ جب آسمان میں شگاف پڑ جائیں گے۔ ایک تو اس کا سائنسی دنیا سے تعلق ہے۔ اس زمانہ میں نئی نئی وسعتوں کا بھی پتہ لگ رہا ہے، نئی کائناتوں کا پتہ لگ رہا ہے، نئے سیاروں کا پتہ لگ رہا ہے۔ پھر آج کل اوزون (Ozone) کی layer میں سوراخوں کا شور ہے۔
بہر حال ان سے تو موسمی تغیرات پیدا ہو رہے ہیں لیکن روحانی دنیا میں بھی اس سے مراد مسیح موعود کے آنے کی خبر ہے۔ کیونکہ علماء کے جب ستارے ماند پڑ جاتے ہیں اور ایسی حالت میں جب اندھیرے پھیل جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فرستادہ کے ذریعے سے روشنی بھیجتا ہے۔ اور اس روشنی کو پانے کے بعد اس فرستادہ کے ذریعہ جماعت قائم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کو بھی اور بعض ان کے ماننے والوں کو بھی الہامات اور رؤیا صادقہ کا اظہار شروع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ جب ہمارے فرستادہ کے آنے سے روحانی سلسلہ شروع ہو گا تو علماء روک بن جائیں گے۔ یہ سلسلہ تو شروع ہو جائے گا۔ پھر آگے فرمایا یہ علماء روک نہیں بن سکیں گے۔ ان سب کی بقاء اسی میں ہے کہ اس روحانی سلسلہ کو تسلیم کر لیں۔ ان علماء کی اور ان کے پیچھے چلنے والوں کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بڑے بڑے جبال ہیں، جو اپنے آپ کو پہاڑوں کی طرح مضبوط سمجھنے والے ہیں اور حکومتیں بھی ہیں وہ اگر اس فرستادہ کے سامنے کھڑی ہوں گی، اللہ کے پیاروں کے سامنے کھڑی ہوں گی توپارہ پارہ کر دی جائیں گی۔ فرمایا کہ وَاِذَاالْجِبَالُ نُسِفَتْ پہاڑ جڑوں سے اکھیڑ دئیے جائیں گے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ میری جڑیں عوام میں بڑی گہری ہیں۔ یا مجھے فلاں عرب ملک کی بادشاہت کی پشت پناہی حاصل ہے جو اسلام کے محافظ ہیں۔ یا فلاں مغربی ملک کی حکومت کی ہمیں اشیر باد حاصل ہے۔ جب کوئی خدا تعالیٰ کے فرستادے اور اس کی جماعت کے مقابلے پر آئے گا تو نہ عوام کی حمایت کام آئے گی، نہ کسی کی دولت اور مدد کام آئے گی، نہ اپنے قبیلے کام آئیں گے۔ یہ سب لوگ جو اپنے زعم میں پہاڑوں کی طرح مضبوط جڑوں پر قائم ہیں ہوا میں بکھیر دئیے جائیں گے۔ بلکہ جن کی حمایت پر زعم ہے وہ بھی بکھر جائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی ہے اور ہم تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی تاریخ میں ایسے پہاڑوں کو بکھرتا ہوا دیکھ چکے ہیں۔ پھر اس سورۃ میں سے یہ جو آخری آیت مَیں نے لی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ جب رسول وقتِ مقررہ پر لائے جائیں گے، یہ پھر مسیح و مہدی کی آمد کی پیشگوئی ہے کہ تمام رسول لائے جائیں گے۔ یعنی ایک شخص کھڑا ہو گا جو تمام رسولوں کی نمائندگی کرے گا۔ جس کے آنے کی پیشگوئی ہر پہلے رسول نے کی ہے۔ اپنے اپنے وقت میں انہوں نے کی تھی اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات میں پوری ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً بھی فرمایا کہ جَرِیُ اللّٰہ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَآء۔ یعنی اللہ کا پہلوان تمام انبیاء کے پیرائے میں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میری نسبت براہینِ احمدیہ کے حصص سابقہ میں یہ بھی فرمایا ہے۔ جَرِیُ اللّٰہ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَآء۔ یعنی رسولِ خدا تمام گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے پیرایوں میں۔ اس وحی الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک جس قدر انبیاء علیہم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں۔ خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی، ان سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اس عاجز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ایک بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے خواص یا واقعات میں سے اس عاجز کو حصہ نہیں دیا گیا۔ ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے۔ اسی پر خدا نے مجھے اطلاع دی اور اس میں یہ بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے جانی دشمن اور سخت مخالف جو عناد میں حد سے بڑھ گئے تھے جن کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کیا گیا اس زمانے کے اکثر لوگ بھی ان سے مشابہ ہیں اگر وہ توبہ نہ کریں‘‘۔ (ان سے مشابہتیں ہیں۔ پس اگر ان کو ہلاک کیا گیا تو وہ سزائیں اب بھی آ سکتی ہیں۔ یہ انذار جو ہے وہ اب بھی قائم ہے۔) ’’غرض اس وحی الٰہی میں یہ جتلانا منظور ہے کہ یہ زمانہ جامع کمالاتِ اخیار و کمالاتِ اشرار ہے۔ اور اگر خدا تعالیٰ رحم نہ کرے تو اس زمانے کے شریر تمام گزشتہ عذابوں کے مستحق ہیں۔ یعنی اس زمانے میں تمام گزشتہ عذاب جمع ہو سکتے ہیں اور جیسا کہ پہلی امتوں میں کوئی قوم طاعون سے مری، کوئی قوم صاعقہ سے، اور کوئی قوم زلزلہ سے اور کوئی قوم پانی کے طوفان سے اور کوئی قوم آندھی کے طوفان سے اور کوئی قوم خسف سے۔ اسی طرح اس زمانے کے لوگوں کو ایسے عذابوں سے ڈرنا چاہئے اگر وہ اپنی اصلاح نہ کریں کیونکہ اکثر لوگوں میں یہ تمام مواد موجود ہیں۔ محض حلمِ الٰہی نے مہلت دے رکھی ہے۔ اور یہ فقرہ کہ جَرِیُ اللّٰہ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَآء بہت تفصیل کے لائق ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’جو کچھ خدا تعالیٰ نے گزشتہ نبیوں کے ساتھ رنگا رنگ طریقوں میں نصرت اور تائید کے معاملات کئے ہیں ان معاملات کی نظیر بھی میرے ساتھ ظاہر کی گئی ہے اور کی جائے گی‘‘۔ پس یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ مستقل چل رہا ہے۔ مستقبل کی بھی خبریں ہیں اور کی جائیں گی۔ پھر فرمایا ’’کیونکہ زمانہ اپنے اندر ایک گردشِ دوری رکھتا ہے اور نیک ہوں یا بد ہوں بار بار دنیا میں ان کے امثال پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اور اس زمانہ میں خدا نے چاہا کہ جس قدر نیک او رراستباز مقدس نبی گزر چکے ہیں ایک ہی شخص کے وجود میں ان کے نمونے ظاہر کئے جائیں سو وہ مَیں ہوں۔ اسی طرح اس زمانہ میں تمام بدوں کے نمونے بھی ظاہر ہوئے، فرعون ہو یا وہ یہود ہوں جنہوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھایا یا ابوجہل ہو سب کی مثالیں اس وقت موجود ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں یاجوج ماجوج کے ذکر کے وقت اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلدنمبر 21صفحہ 116تا 118)
آپ تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’اے سونے والو بیدار ہو جاؤ، اے غافلو! اٹھ بیٹھوکہ ایک انقلابِ عظیم کا وقت آ گیا۔ یہ رونے کا وقت ہے نہ سونے کا، اور تضرع کا وقت ہے نہ ٹھٹھے اور ہنسی اور تکفیر بازی کا۔ دعا کرو کہ خداوند کریم تمہیں آنکھیں بخشے۔ تا تم موجودہ ظلمت کو بھی بتمام و کمال دیکھ لو۔ اور نیز اس نور کو بھی جو رحمتِ الٰہیہ نے اس ظلمت کے مٹانے کے لئے تیار کیا ہے۔ پچھلی راتوں کو اٹھو اور خدا تعالیٰ سے رو رو کر ہدایت چاہو۔ اور ناحق حقانی سلسلے کے مٹانے کے لئے بددعائیں مت کرو۔ اور نہ منصوبے سوچو۔ خدا تعالیٰ تمہاری غفلت اور بھول کے ارادوں کی پیروی نہیں کرتا۔ وہ تمہارے دماغوں اور دلوں کی بے وقوفیاں تم پر ظاہر کرے گا۔ اور اپنے بندہ کا مددگار ہو گا۔ اور اس درخت کو کبھی نہیں کاٹے گا جس کو اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔ کیا کوئی تم میں سے اپنے اس پودہ کو کاٹ سکتا ہے جس کے پھل لانے کی اس کو توقع ہے۔ پھر وہ جو دانا و بینا اور ارحم الراحمین ہے وہ کیوں اپنے اس پودے کو کاٹے جس کے پھلوں کے مبارک دنوں کی وہ انتظار کر رہا ہے۔ جب کہ تم انسان ہو کر ایسا کام کرنا نہیں چاہتے۔ پھر وہ جو عالم الغیب ہے جو ہر ایک دل کی تہہ تک پہنچا ہوا ہے کیوں ایسا کام کرے گا۔ پس تم خوب یاد رکھو کہ تم اس لڑائی میں اپنے ہی اعضاء پر تلواریں مار رہے ہو۔ سو تم ناحق آگ میں ہاتھ مت ڈالو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ آگ بھڑکے اور تمہارے ہاتھ کو بھسم کر ڈالے۔ یقینا سمجھو کہ اگر یہ کام انسان کا ہوتا تو بہتیرے اس کے نابود کرنے والے پیدا ہو جاتے‘‘۔ فرمایا: ’’کیا تمہاری نظر میں کبھی کوئی ایسا مفتری گزرا ہے کہ جس نے خدا تعالیٰ پر ایسا افتراء کر کے کہ وہ مجھ سے ہم کلام ہے پھر اس مدت مدید کے سلامتی کو پا لیا ہو۔ افسوس کہ تم کچھ بھی نہیں سوچتے اور قرآنِ کریم کی ان آیتوں کو یادنہیں کرتے جو خودنبی کریمؐ کی نسبت اللہ جل شانہ فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تو ایک ذرہ مجھ پر افتراء کرتا تو مَیں تیری رگِ جان کاٹ دیتا۔ پس نبی کریم سے زیادہ تر کون عزیز ہے کہ جو اتنا بڑا افتراء کر کے اب تک بچا رہے۔ بلکہ خدائے تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال بھی ہو۔ سو بھائیو! نفسانیت سے باز آؤ اور جو باتیں خدائے تعالیٰ کے علم سے خاص ہیں ان میں حد سے بڑھ کر ضد مت کرو۔ اور عادت کے سلسلہ کو توڑ کر اور ایک نئے انسان بن کر تقویٰ کی راہوں میں قدم رکھو۔ تا تم پر رحم ہو اور خدا تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخش دیوے۔ سو ڈرو اور باز آ جاؤ۔ کیا تم میں ایک بھی رشیدنہیں وَاِنْ لَمْ تَنْتَھُوْا فَسَوْفَ یَأتِی اللّٰہُ بِنُصْرَۃٍ مِّنْ عِنْدِہٖ وَیَنْصُرُ عَبْدَہٗ وَیُمَزِّقُ اَعْدَآئَہٗ وَلَا تَضُرُّوْنَہٗ شَیْئًا‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 53تا 55)
اگر تم باز نہ آئے تو اللہ اپنی جناب سے مدد دے گا اور اپنے بندے کی مدد کرے گا اور اس کے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکو گے۔
اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے اور اس پیغام کو سمجھنے والے ہوں اور ہمیں بھی توفیق دے کہ اس پیغام کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں اور دنیا کے بچانے کے لئے جس حد تک کوشش کر سکتے ہیں کرنے والے بنیں۔