خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 5؍ نومبر 2010ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَآاَنْفَقُوْا مَنًّاوَّلَآاَذًی لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَرَبِّھِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْن (البقرہ: 263)
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّھَارِسِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْن (البقرہ: 275)
اور وہ لوگ جو اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ پھر جو وہ خرچ کرتے ہیں اس کا احسان جتاتے ہوئے یا تکلیف دیتے ہوئے پیچھا نہیں کرتے، ان کا اجر ان کے ربّ کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے۔
پھر فرمایا۔ وہ لوگ جو اپنے اموال خرچ کرتے ہیں رات کو بھی اور دن کو بھی، چھپ کر بھی اور کھلے عام بھی، تو ان لوگوں کے لئے ان کا اجر ان کے رب ّکے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں شروع سے آخر تک متعدد جگہ مؤمنین کو انفاق فی سبیل اللہ کی طرف توجہ دلائی اور مختلف مثالوں اور مختلف طریقوں سے بتایا کہ ایک مؤمن اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے کیا کیا فوائد حاصل کر سکتا ہے؟ لیکن شرط یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں یہ قربانی خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو، نہ کہ کوئی اور مقصد ہو۔ جیسا کہ ایک جگہ فرماتا ہے۔ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ اللّٰہِ (البقرۃ: 272) اور تم اللہ کی رضا کے حصول کے علاوہ کبھی خرچ نہیں کرتے۔
پس اگر خرچ کرنے والا حقیقی مومن ہے تو وہ خرچ کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ کی مرضی دیکھتا ہے اور ان چیزوں پر خرچ نہیں کرتا جن پر خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل نہ ہو۔ پس اگر ہم اس نقطے کو سمجھ جائیں تو علاوہ جماعتی ترقی کے اپنی روحانی ترقی کے بھی سامان کر رہے ہوں گے۔ گھروں میں جو میاں بیوی کے مسائل پیدا ہو رہے ہوتے ہیں یا بیوی کی طرف سے یہ شکوے ہو رہے ہوتے ہیں کہ اس نے میری فلاں خواہش کو پورا نہ کرتے ہوئے مجھے فلاں چیز لے کر نہیں دی۔ اور میاں کی طرف سے یہ اعتراض ہو رہا ہوتا ہے کہ میری بیوی اپنی چادر سے بڑھ کر پاؤں پھیلانے والی ہے، اس نے مجھے مقروض کر دیا ہے۔ اور اس وجہ سے گھروں میں جو روز روز کی چخ چخ ہوتی ہے، لڑائیاں ہوتی ہیں اس نے جہاں گھروں کا سکون برباد کیا ہے وہاں بچوں کی تربیت پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے۔ پھر یہ اعتراض صرف عورتوں پر ہی نہیں ہے۔ کئی معاملات مَیں نے دیکھے ہیں جس میں عورتوں کو اعتراض ہے کہ مرد جو کماتے ہیں، باہر دوستوں میں فضول خرچیاں کر کے آ جاتے ہیں یا صرف اپنی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں اور گھروں کے اخراجات میں تنگی کرتے ہیں۔ اور یہ بات پھر گھروں کی بے سکونی کا باعث بن جاتی ہے۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے خرچ کیا جائے تواس سے جہاں گھروں کے سکون قائم ہوں گے، بچوں کی تربیت بہتر رنگ میں ہو گی، وہاں آمد میں بھی برکت پڑے گی اور اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ جماعت کے لئے قربانی کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے مال پر اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا اور اگر کوئی اور کسی کے زیرِ کفالت ہے تو ان کا بھی حق ہے۔ لیکن اگر اعتدال ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا سامنے ہو تو اپنے گھروں کے حقوق بھی ادا ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرف توجہ بھی رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں اوسط یا کم آمدنی والا ایک بہت بڑا طبقہ ہے جو اس اَصل کو پکڑے ہوئے ہے۔ اس پر عمل کرتا ہے کہ اپنے گھروں کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں اور انفاق فی سبیل اللہ بھی کرنا ہے۔ لیکن بعض لوگ جو بہت زیادہ کشائش رکھنے والے ہیں، ان میں ایک حصہ ایسا بھی ہے جو اپنے حقوق تو ادا کرتا ہے، ان حقوق کے ادا کرنے کی فکر تو رہتی ہے لیکن ان کا قربانی کا معیار بہر حال کم آمدنی والوں کے معیارِ قربانی سے کم ہوتا ہے یا نسبتی لحاظ سے ان کے برابر نہیں پہنچتا۔ لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ زیادہ آمدنی والا ہر کوئی شخص ایسا ہے۔ ہر احمدی جو ہے وہ ایسا نہیں۔ بعض کی مثال مَیں نے دی ہے۔ مَیں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں اور پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی کمائی میں سے اپنے لئے بہت کم حصہ رکھتے ہیں۔ اور کروڑوں روپے یا ہزاروں ڈالر یا پاؤنڈ جماعتی تحریکات میں دے دیتے ہیں۔ بلکہ پیچھے پڑ کر کہتے ہیں کہ ہم نے اتنی رقم دینی ہے جو ہم نے اس سال میں سے اس مقصد کے لئے بچت کی ہے، بتائیں کہ وہ کہاں دیں۔ تو پھر ان کو سوچ کر بتانا پڑتا ہے کہ اس سال فلاں جگہ دے دی جائے۔ اس سال فلاں جگہ دے دی جائے یہاں ضرورت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے وعدے اور چندے اور تحریکات میں حصہ لینے کے بعد زائد رقوم ادا کرتے ہیں۔ تو ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اور پھر بھی فکر ہوتی ہے کہ پتہ نہیں ہم نے قربانی کا حق ادا کیا کہ نہیں۔ ان کے شکریہ کے خطوط آتے ہیں کہ آپ نے ہماری حقیر قربانی کو قبول کر لیا۔ حالانکہ جیسا کہ میں نے بتایا بڑی بڑی خطیر رقمیں ہیں جو بعض لوگ دیتے ہیں۔ اور صرف یہ نہیں کہ ایک آدھ دفعہ بلکہ اپنی زندگی کا مستقل طریق انہوں نے بنا لیا ہے کہ تمام جاری تحریکات میں رقم دینے کے بعد پھر بڑی بڑی رقوم پیش کرتے ہیں کہ جہاں بھی خرچ کرنا چاہیں، خرچ کر دیں۔ تو جیسا کہ میں نے کہا، جن جگہوں پر ضرورت ہوتی ہے وہاں خرچ کیا جاتا ہے۔ مساجد بنانے کے لئے، مشن ہاؤسز بنانے کے لئے یا دوسری ضروریات کے لئے یہ رقوم خرچ ہوتی ہیں۔ اور یہ بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے صرف پاکستانی یا ہندوستانی ہی نہیں ہیں، جن کی ایک لمبے عرصے کی تربیت ہے، بزرگوں کی اولاد ہیں اور تربیت کا حصہ چل رہا ہے۔ بلکہ افریقہ میں رہنے والے بھی کئی ایسے ہیں جو بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں۔ انہوں نے بڑی بڑی خوبصورت مساجد بنا کر پیش کی ہیں۔ اور جماعت کے جو دوسرے متفرق پراجیکٹس ہیں یا منصوبے ہیں، ان کے لئے خرچ دیتے ہیں۔ اور یہ قربانی کرنے والے جس عاجزی اور خوشی کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں وہ صاف بتا رہا ہوتا ہے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے خرچ کرنے کے لئے بے چین ہیں۔ یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں ان کے عین مطابق اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے پھر کبھی یہ اظہار بھی نہیں کرتے کہ ہم نے جماعت کواتنے کروڑوں روپے دئیے ہیں یا ہم نے کوئی احسان کر دیا ہے۔ بلکہ جیسا کہ میں نے کہا، اتنہائی عاجزی سے پیش کر رہے ہوتے ہیں اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ پتہ نہیں حق ادا بھی کیا ہے کہ نہیں۔ خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان سمجھتے ہیں کہ اس نے اس قربانی کی توفیق انہیں دی۔
یہاں اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ جماعت کی اکثریت تو کم آمدنی والوں کی ہے۔ اور اوسط درجہ کے کمانے والوں پر مشتمل ہے۔ وہ بھی جیسا کہ مَیں نے کہا غیر معمولی قربانیاں دینے والے ہیں اور کبھی اس بات کا اظہار نہیں کرتے کہ جماعت نے اتنی تحریکات شروع کی ہوئی ہیں ہماری آمدنی محدود ہے، کہاں سے دیں؟ بلکہ ایک دلی جوش اور جذبے سے یہ قربانیاں دیتے ہیں۔ اور پھر کبھی اس بات کا اظہار نہیں کرتے کہ ہم نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر یہ قربانیاں دی ہیں۔ یا کبھی یہ خیال نہیں آیا یا کبھی مطالبہ نہیں کیا کہ کیونکہ ہماری یہ یہ قربانیاں ہیں اور اب ہمیں ضرورت ہے، فلاں مقصد کے لئے ہمیں ضرورت ہے تو جماعت بھی ہمیں دے۔ کسی قسم کا احسان نہیں ہوتا۔ بلکہ اگر ضرورت بھی ہو تو انتہائی جھینپ اور عاجزی کے ساتھ خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور وہ بھی قرضے کی صورت میں۔ بعض لوگوں نے تو چندے دینے کے اپنے طریق اختیار کئے ہوئے ہیں تا کہ آسانیاں رہیں۔ آمدنی کیونکہ محدود ہوتی ہے۔ ایک وقت میں چندوں کی ادائیگی ہو نہیں سکتی توبعض ایک ڈبہ بنا لیتے ہیں اور اس میں ہر روز کچھ نہ کچھ ڈالتے رہتے ہیں۔ اس سوچ کے ساتھ کہ تحریکِ جدید یا وقفِ جدید یا فلاں تحریک کا چندہ ادا کرنا ہے تو دے دیں گے۔ کئی مثالیں ایسی ہیں۔ مثلاًایک صاحب نے مجھے لکھا کہ مَیں ڈبے میں سارا سال رقم جمع کرتا جا رہا تھا کہ اگر سال تحریکِ جدید کا اعلان ہو گا تو اس میں ادا کروں گا۔ اور میری یہ کوشش تھی کہ گزشتہ سال کا جو چندہ تحریکِ جدید تھا اس کے برابر یہ رقم ہو جائے۔ اب قریب آ کر جب انہوں نے ڈبے کو کھولا تو وہ رقم بہت کم تھی۔ ابھی اس سوچ میں تھے کہ یہ کس طرح پوری ہو گی کہ کہتے ہیں کہ سیکرٹری تحریکِ جدید میرے پاس پہنچ گئے کہ ہمارے اس سال کے ٹارگٹ میں اتنی کمی ہے۔ ہم نے آپ کے ذمّہ اتنی رقم لگائی ہے۔ تو انہوں نے کہا میری محدود آمدنی ہے میں اتنی بڑی رقم تو ادا نہیں کر سکتا۔ کہاں سے ادا کروں گا؟ بہر حال اب آپ آئے ہیں تو آپ کو کچھ نہ کچھ رقم مَیں دے دیتا ہوں، ورنہ جو مَیں نے جمع کیا ہوا ہے یا جو میں دیتا ہوں وہ تو سارا سال جمع کر کر کے دیتا ہوں اور میں نے اگلے سال کے لئے جمع کیا ہوا ہے کہ تحریکِ جدید کا اعلان ہو گا تو اس کے بعد ادائیگی کروں گا۔ کہتے ہیں پھر مجھے خیال آیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو تو اس سال یا اگلے سال کا کیا سوال ہے؟ دے دو کیونکہ رقم تو بہر حال ابھی بھی پوری نہیں ہوئی۔ چنانچہ وہ مطلوبہ رقم انہوں نے سیکرٹری تحریکِ جدید کو دے دی۔ اور کہتے ہیں گھر آ کر بیٹھا ہی تھا کہ ایک جگہ سے ایک لفافہ آیا۔ کسی کا خط تھا اور اس میں چیک تھا اور عین اس رقم کے برابر چیک تھا جو مَیں نے دی تھی۔ اور اس شخص نے لکھا تھا کہ فلاں وقت مَیں نے آپ سے قرض لیا تھا میں بھول گیا اور ان کو بھی بھول گیا تھا۔ آج مجھے یاد آیا تو مَیں وہ قرض واپس کر رہا ہوں۔ اور معذرت کے ساتھ واپس کرتا ہوں۔ پھر اسی طرح ایک اور جگہ سے فوری طور پر رقم آ گئی۔ گویا اللہ تعالیٰ نے فوری حساب نہ صرف برابر کر دیا بلکہ بڑھا کر دے دیا۔ خدا تعالیٰ اس طرح قربانی کرنے والوں کواَجر دیتا ہے کہ چند گھنٹوں کے لئے بھی اس خوف میں نہیں رکھا کہ اگلے سال کے چندے کا انتظام کس طرح ہو گا۔ پس ایک یہ بھی مطلب ہے وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْن کا کہ ان پر کوئی خوف اور غم نہیں ہوتا۔ دنیا میں بھی ایسے اجر ملنے شروع ہو جاتے ہیں کہ ان کے ہر خوف اور غم خوشی میں بدلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ خالص ہو کر خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی ہو اور قربانی کے بعد کبھی یہ احساس نہ ہو کہ ہم نے جماعت پر کوئی احسان کیا ہے۔
جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تحریکِ جدید شروع فرمائی تو سادہ زندگی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس زمانے میں آپ نے کھانوں، کپڑوں وغیرہ اور دوسرے اخراجات میں کمی کر کے چندہ تحریکِ جدید دینے کا مطالبہ فرمایا تھا۔ اُس وقت افرادِ جماعت کے حالات بھی ایسے نہیں تھے جیسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج کل ہیں۔ لیکن مردوں، عورتوں بچوں نے قربانیاں دیں اور خوشی سے دیں۔ آج بھی بعض غریب گھروں میں ایسے نظارے نظر آتے ہیں لیکن پھر بھی کوئی احسان نہیں ہے۔ فکر ہوتی ہے تو یہ کہ ہمارے پاس اور ہو تو ہم اور دیں۔ اور ان قربانی کرنے والوں کی اولادوں کو پھر اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے اور نواز رہا ہے۔ پس ایک مومن تو جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے دیکھتا ہے تو اس کی قربانی کے معیار بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ وہ قربانیاں کرنے کے بعد احسان جتانا تو ایک طرف رہا وہ تو چھپ چھپ کر قربانیاں کرتے ہیں کہ پتہ نہ چلے۔ اور صرف اور صرف یہ مدّ نظر ہوتا ہے کہ میرا خدا مجھ سے راضی ہو جائے۔ اور یہ نظارے آج ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں اکثر نظر آتے ہیں۔ جو لوگ غیرہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شاید جماعت کے پاس اربوں روپے ہیں۔ پتہ نہیں کہاں سے ان کے پاس یہ پیسے آتے ہیں؟ اس کی وجہ سے جماعت اپنے منصوبوں پر اتنی آسانی سے عملدرآمد کر لیتی ہے۔ انہیں پتہ نہیں ایک تو اللہ تعالیٰ جماعت کے تھوڑے سے پیسے میں بھی اتنی برکت عطا فرماتا ہے جوکہ دنیا داروں کی سوچ سے باہر ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ یہ اربوں روپے نہیں ہیں جو جماعت کے پاس ہیں بلکہ اخلاص و وفا اور خدا تعالیٰ کی رضا چاہنے کا وہ لا متناہی خزانہ ہے جو ان قربانی کرنے والے احمدیوں کے سینوں سے وقت پر اُبل اُبل کر نکلتا ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے پاس اَور ہو تو وہ اَور دیں۔ ایک جذبہ ہوتا ہے، ایک جوش ہوتا ہے، ایک شوق ہوتا ہے۔ اور جماعت میں اور ہر قوم میں ایسی ہزاروں مثالیں ہیں۔ دوسرے لوگ تو کسی مسجد کے لئے پانچ روپے چندہ دے کرپھر اس کا سو دفعہ اعلان کرواتے ہیں اور احمدی اپنی ضروریات کو کم کر کے بڑی بڑی قربانیاں دیتے ہیں۔ لیکن اکثر سِرًّا، چھپ کر۔ ہاں بعض قربانیوں کا اعلان بھی ہوتا ہے لیکن وہ اعلان جماعت کی طرف سے ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی خواہش نہیں ہوتی کہ اعلان ہو۔ یا بعض تحریکات میں چندہ دینے والوں کی فہرستیں بنتی ہیں جو خلیفۂ وقت کو پیش کی جاتی ہیں صرف اس غرض کے لئے کہ ان کے لئے دعا کی تحریک پیدا ہو۔ پس یہاں بھی جو مقصد ہے وہ نیک ہے۔ دکھاوا نہیں ہے بلکہ خلیفۂ وقت کو اس قربانی کی اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ ان قربانی کرنے والوں کے لئے دعا کرے۔ اللہ تعالیٰ ان قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے تا کہ قربانیوں کے معیار آئندہ پھر بڑھتے چلے جائیں۔ پھر اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ کہ نیکیوں کے حصول میں آگے بڑھنے کی کوشش کی طرف توجہ پیدا ہو۔
آج تحریکِ جدید کے نئے سال کا اعلان ہونا ہے انشاء اللہ۔ مَیں ابھی آپ کے سامنے وہ سارے کوائف رکھوں گا کہ کس طرح جماعتیں مالی قربانیوں کو پیش کرنے کی وجہ سے مالی قربانی کی نیکی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جب کوائف سامنے آتے ہیں تو ہر سال دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور جماعت کی قربانی افرادِ جماعت کی قربانی کی وجہ سے ہے۔ پس اگر مالی قربانی کا اظہار کیا جاتا ہے تو یہ تحریک کرنے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَات کو بھی سامنے رکھو۔
آج بحیثیت جماعت تمام دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس کے افراد یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّھَار کے حقیقی مصداق بن رہے ہیں۔ یعنی عملی طور پر دن اور رات قربانی ہو رہی ہے۔ چوبیس گھنٹے یہ قربانی کا سلسلہ جاری ہے۔ جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر خطے میں پھیلی ہوئی ہے۔ ہر ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ کہیں دن ہے کہیں رات ہے۔ اس وقت بھی مَیں جو خطبہ دے رہا ہوں تو کسی ملک میں صبح سویرے کا وقت ہے اور کہیں رات ہو گئی ہے، کہیں آدھی رات ہے۔ اور تحریکِ جدید کے اعلان کے ساتھ ہی وعدوں اور وصولی کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ تو صرف افراد ہی نہیں بلکہ جماعت من حیث الجماعت بھی ایک وقت میں رات اور دن کو جمع کر کے اپنی قربانی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہے۔ یہ رات اور دن کی قربانی کرنے والوں کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تو یہ بات اُس عالمگیریت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جو مسیح محمدی نے آ کر اُمّتِ واحدہ کی صورت میں پیدا کرنی تھی۔ پس یہ وہ قربانیوں کا خوبصورت سلسلہ ہے جو خدا تعالیٰ کے دین کو دنیا میں پھیلانے کے لئے رات اور دن کے ہر حصہ میں اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے تا کہ دنیا کے ہر حصہ میں ہر وقت مسیح محمدی کے بعثت کے مقصدکو جو تکمیل اشاعتِ ہدایت ہے پورا کرنے کے لئے قربانیاں پیش ہوتی چلی جائیں۔ اشاعتِ ہدایت کی تکمیل یا اس کو تمام دنیا میں پھیلانا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ یہ کام مسیح محمدی کے ماننے والوں کے ذمے لگایا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو تعلیم اور ہدایت لائے وہ آپ کے وقت میں کامل ہوئی اور اس کامل ہدایت کو دنیا میں پھیلانا اور اس کی تکمیل آپ کی بعثتِ ثانیہ میں ہونی تھی۔ پس اب یہ ہماری ذمہ داری ہے جنہوں نے مسیح محمدی کو مانا ہے۔ گو دنیا کے مقابلے میں ہمارے وسائل بہت کم ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن جس کام کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمہ ڈالی ہے یا لگائی ہے، اس کے لئے جب ہم رات دن قربانیوں میں مصروف رہیں گے تو برکت دینا پھر اللہ تعالیٰ کا کام ہے اس کا وعدہ ہے وہ دیتا ہے اور دے گا انشاء اللہ۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْن کہ نہ ان پر کوئی خوف ہے اور نہ وہ لوگ جو قربانیاں کرنے والے ہیں غم میں مبتلا ہوں گے۔ بیشک دنیا کے وسائل بہت ہیں، بیشک دنیا کے پاس طاقت بہت ہے، بیشک اس وقت تعداد کے لحاظ سے غیروں کی کثرت ہے اور ہم چھوٹی سی جماعت ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے رات دن کی قربانیاں جو صاف اور پاک دل ہو کر کی جاتی ہیں، جو نام و نمود سے بالکل پاک ہیں، مبرّا ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہیں۔ اس لئے تمہیں کسی قسم کا خوف اور غم کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ دنیا ہمارے ساتھ کیا کرے گی یا ہماری ترقی کس طرح ہو گی، یا ہماری یہ قربانیاں نتیجہ خیز بھی ہوں گی کہ نہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ جب تک تم پاک سوچ کے ساتھ یہ قربانیاں کرتے چلے جاؤ گے، یہ قربانیاں نتیجہ پیدا کرتی چلی جائیں گی انشاء اللہ۔ کیونکہ آخری نتیجہ تو خدا تعالیٰ نے پیدا کرنا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں قربانیوں کو سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ پھل لگاتا ہوں۔ جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے ہوتے ہیں ان کی قربانیوں کو بڑھاتا چلا جاتا ہوں۔ جو لوگ اس کا عباد الرحمن بنتے ہوئے یہ قربانیاں پیش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم جتنی قربانیاں پیش کرتے چلے جاؤ گے ان کو اللہ تعالیٰ اپنے وقت پر بڑھاتاچلا جائے گا، جلدی کی ضرورت نہیں۔ نتیجہ تم خدا پر چھوڑ دو۔ اپنی قربانیوں کو پیش کرتے ہوئے مسیح محمدی کے انصار میں شامل ہوتے چلے جاؤ اور حتی المقدور تکمیل اشاعتِ ہدایت میں اپنا حصہ ڈالتے چلے جاؤ تو بعیدنہیں کہ اپنی زندگیوں میں ان نتائج کو بھی دیکھ لو جن کے آثار اللہ تعالیٰ کے فضل سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جماعت کے افراد کی جانی اور مالی قربانیاں انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن ہماری قلیل تعداد کو کثرت میں بدل دیں گی۔ ہمارا کام صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے کام کرتے چلے جانا ہے۔ اور اس کے حصول کے لئے ہم نے دل میں ایک جوش قائم کرتے ہوئے یہ مصمّم ارادہ کرنا ہے کہ کبھی نہیں تھکنا اور کبھی نہیں تھکنا۔
اب مَیں تحریکِ جدید کے ختم ہونے والے سال کے کوائف پیش کرتا ہوں جس میں چند اوپر کی جو جماعتیں ہیں ان کا موازنہ بھی پیش ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ تحریکِ جدید کا چھہترواں (76واں ) سال تھا جو 31؍اکتوبر کو ختم ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بے شمار برکات لیتے ہوئے گزرا اور برکات سمیٹتے ہوئے اور ان برکات کو ہم پر ظاہر کرتے ہوئے اور ان برکات کے بہترین نتائج ظاہر کرتے ہوئے ہم نے اس کو الوداع کہا۔ آج مَیں تحریکِ جدید کے ستہترویں (77ویں ) سال کے آغاز کا اعلان کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ سال بھی پہلے سالوں کی طرح، پہلے سے بڑھ کر برکتوں والا سال ثابت ہو۔
رپورٹس کے مطابق اس سال کے دوران جماعتہائے احمدیہ عالمگیر نے تحریکِ جدید میں کُل 54 لاکھ 68 ہزار 500 پاؤنڈ کی قربانی پیش کی ہے۔ چھوٹے ممالک کی رپورٹس تو ابھی نہیں آئیں اور اسی طرح بعض چھوٹے ممالک میں جو لوکل جماعتیں ہیں ان کے بھی وہاں پوری طرح رابطے کیونکہ نہیں ہوتے اس لئے ہو سکتا ہے ابھی بہت ساری رقوم راستے میں ہوں۔ بہر حال جو موجودہ آمدہ پورٹس ہیں ان کے مطابق یہ قربانی ہے اور یہ قربانی بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال سے پانچ لاکھ بائیس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے الحمد للہ۔ اور اس سال بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان نے صفِ اوّل میں، سب سے اوپر رہنے کا اپنا اعزاز برقرار رکھا ہوا ہے۔ اور سب سے بڑی خوشی کی بات آپ کے لئے ہے کہ غیر متوقع طور پر تو نہیں کہنا چاہئے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک خاص اظہار ہے جو آپ کی کوششوں میں برکت ڈالی ہے، دوسرے نمبر پر برطانیہ آ گیا ہے۔ اس نے امریکہ اور جرمنی کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اور یہ جو جمپ (Jump) لیا ہے، اضافہ ہوا ہے یہ اتنا غیر معمولی ہے کہ میرا خیال ہے آپ کی جو انتظامیہ ہے شاید اس کو بھی سمجھ نہیں آئی کہ کس طرح ہو گیا؟ دوسال پہلے جرمنی اور برطانیہ کا بڑا تھوڑا فرق تھا اور افرادِ جماعت بڑا افسوس کرتے تھے۔ کئی لوگوں نے مجھے کہا بھی اور کچھ کے پیغام مجھ تک پہنچے کہ اتنی معمولی رقم تھی اگر ہمیں پتہ ہوتا تو ہم اپنی جیب سے پوراادا کر دیتے اور UK اوپر آ جاتا۔ لیکن بہر حال جب انہوں نے یا آپ نے محنت اور دعا سے کام کیا ہے تو امریکہ کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ ماشاء اللہ یہ بہت بڑی ترقی ہے۔ پاکستان سے باہر کی جماعتوں میں چند سال پہلے تک برطانیہ یا UK آٹھویں دسویں نمبر پر تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب پاکستان کے بعد پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔
یہاں مَیں ایک بات کی یاد دہانی کروا دوں کہ مَیں پرانا ریکارڈ دیکھ رہا تھا تو مجھے حیرت ہوئی کہ 1988ء میں برطانیہ کے وعدے اور وصولی پاکستان کے علاوہ دنیا کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر تھی اور پھر آہستہ آہستہ آہستہ پیچھے چلتے چلے گئے۔ اب یہ اعزاز جو آپ نے پہلے نمبر کا حاصل کیا ہے اس کو گزشتہ روایت کے مطابق دوبارہ ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ یہ قائم رہنا چاہئے انشاء اللہ تعالیٰ۔
یہاں برطانیہ میں بھی احمدی ہونے کی وجہ سے جو دشمنی بڑھ رہی ہے، غیر احمدیوں سے بعض عورتوں نے بھی مار کھائی ہے، ہوسکتا ہے مَردوں نے بھی کھائی ہو، اس کے یہ اچھے نتیجے نکل رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تھوڑی سی جسمانی قربانی کے بدلے میں مالی قربانی کو بھی آگے بڑھا دیا۔ بعضوں کے کاروبار متاثر ہوئے ہیں۔ غیر احمدیوں نے بعض علاقوں میں جہاں یہ لوگ زیادہ تھے شور مچایا کہ ان سے کوئی چیز نہ خریدی جائے۔ بعضو ں کو ملازمتوں سے نکالا جو غیر احمدیوں کے ملازم تھے۔ لیکن اس کے باوجود یہ جو دشمنی تھی یہ راس آئی ہے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے خلاف جو دشمنی ہے وہ کھاد کا کام کرتی ہے۔
برطانیہ کے چندے کے اضافے میں اس وقت لجنہ کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ ان کا جو ٹارگٹ تھا مَیں نے ایک دفعہ ان کو کہا کہ اس کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ برطانیہ نے گزشتہ سال کی نسبت اس سال تقریباً کوئی پینتالیس ہزار پاؤنڈ کا اضافہ کیا ہے۔ اور کُل رقم میں میرا خیال ہے 1/3حصہ یا اس سے زیادہ لجنہ کا ہے۔
تیسرے نمبر پر امریکہ ہے۔ پھر جرمنی ہے۔ جرمنی اب اتنا پیچھے رہ گیا ہے کہ اگر آپ یہ maintain رکھیں تو ان کا ساتھ ملنا مشکل ہی ہو گا لیکن بہر حال ان کو بھی غیرت آ گئی تو بعیدنہیں کہ وہ بھی آگے نکل سکیں۔ کیونکہ جرمنی والوں کا پہلے یہ خیال تھا کہ ہم اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ اب برطانیہ کاجمپ لے کرہم سے ملنا بڑا مشکل ہو گا۔ لیکن اس دفعہ یہ غیر معمولی جمپ ہوا ہے۔
پھر کینیڈا ہے پانچویں نمبر پر، پھر انڈیا ہے، پھر انڈونیشیا ہے، آسٹریلیا ہے، پھر عرب ملک ہے جس کا نام مصلحتاً میں نہیں لے رہا۔ پھر سوئٹزر لینڈ ہے اور اس کے ساتھ ہی تقریباً جڑا ہوا بیلجیئم ہے، ذرا سا معمولی سا فرق ہے۔
پاکستان کے حالات جیسا کہ ہم جانتے ہیں گزشتہ کئی سالوں سے بہت نا مساعد حالات ہیں۔ معاشی لحاظ سے بھی اور احمدیوں کے تو خاص طور پر بہت زیادہ۔ اور اس سال تو سیلاب کی وجہ سے معاشی حالات میں اور بھی زیادہ شدت آ گئی تھی۔ خاص طور پر ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ وغیرہ کے جو علاقے ہیں وہاں کے زمینداربہت بُری طرح متاثر ہوئے ہیں لیکن ایک عجیب حیرت انگیز بات سامنے آئی ہے کہ ان علاقوں کی جماعتوں نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ٹارگٹ پورے کئے ہیں جو مرکز سے ان کو دئیے گئے تھے۔ گاؤں کے گاؤں ان کے بہہ گئے۔ فصلیں بہہ گئیں، تباہ ہو گئیں۔ بے سروسامانی کی حالت میں وہاں سے اٹھ کے آئے ہیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا مجموعی طور پر جو ملک کے حالات ہیں اس کا تو احمدیوں پر اثر ہے ہی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیاوی نقصان سے ایمانوں میں کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اپنے ٹارگٹس پورے کئے ہیں۔ لاہور کی جماعت ہے۔ امسال پاکستان کا جو مکمل جائزہ ہے، سامنے آئے گا۔ اس میں لاہور صفِ اوّل پر ہے۔
اس سے پہلے مَیں مقامی کرنسی میں گزشتہ سال کے مقابلے پر زیادہ وصولی کے لحاظ سے جو جماعتیں ہیں وہ بتا دوں۔ ایک تو وہی عرب ملک ہے جس کا مَیں نے کہا مَیں ذکر نہیں کر رہا۔ دوسرے نمبر پر انڈیا ہے۔ انہوں نے اپنی مقامی کرنسی کے لحاظ سے چوالیس فیصد سے زیادہ وصولی کی ہے۔ اور انڈیا میں بھی بعض علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے دشمنی کے حالات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ بہت زیادہ احمدیوں کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن اس سے مالی قربانی میں تیزی پیدا ہوئی ہے۔ پھر آسٹریلیا ہے تیسرے نمبر پر۔ پھر UK ہے۔ پھر پاکستان ہے۔ پھر کینیڈا۔ پھر سوئٹزرلینڈ، امریکہ اور بیلجیئم۔
فی کس ادائیگی میں امریکہ سب سے آگے ہے۔ پھر نمبر دو پر ایک عرب ملک ہے۔ پھر سوئٹزر لینڈ ہے نمبر تین پر۔ پھر دبئی ہے باسٹھ پاؤنڈ فی کس۔ پھرکبابیر ساٹھ پاؤنڈ فی کس۔ پھرجاپان، برطانیہ، بحرین، آئرلینڈ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے بلکہ کئی سالوں سے اس بات پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ تحریکِ جدید میں شامل ہونے والوں کی تعداد کو بڑھایا جائے۔ خاص طور پر جو نو مبائعین ہیں اور بچے ہیں خواہ وہ معمولی رقم ہی کیوں نہ دیں تحریکِ جدید میں ضرور شامل ہوں۔ چنانچہ جماعتوں کی طرف سے اس طرف بھی توجہ پیدا ہوئی ہے اور ہر سال شاملین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب شامل ہونے والوں کی یہ تعداد چھ لاکھ بائیس ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔ پچھلے سال پانچ لاکھ کچھ ہزار تھی۔ اس سال تیس ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ اس میں ابھی بھی گنجائش ہے۔ خاص طور پر افریقن ممالک کوشش کریں۔ نو مبائعین چاہے چند پینس (Pence) ہی کیوں نہ دیں لیکن چندے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ اس سے بھی کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔ مبلغین کے فرائض میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ بھی اس طرف توجہ دلوایا کریں۔ مالی قربانی ہو گی تو جماعتی تعلق میں بھی مضبوطی پیدا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی بڑھے گا۔ اس کا اظہار بھی اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ قرآنِ کریم میں فرمایا ہے۔
تعداد اور وصولی کے بارہ میں یہ بھی یاد رکھیں کہ جیسا کہ مَیں نے دفتر پنجم کے اجراء کے وقت کہا تھا کہ نئے پیدا ہونے والے بچے یا نئے شامل ہونے والے چندہ دہند یا نو مبائعین وغیرہ 2005ء کے بعدتحریکِ جدید میں شامل ہوتے ہیں تو ان کو دفتر پنجم میں شامل کرنا ہے۔ پاکستان میں اس بات کا خیال رکھا جارہاہے۔ باہر کے ممالک میں بھی 2005ء کے بعد جتنے نئے تحریکِ جدید کے چندے میں شامل ہو رہے ہیں ان کے سامنے’’دفتر پنجم‘‘ لکھا کریں اور اس کی اطلاع دیں اور یہ ریکارڈ رکھنا کوئی مشکل نہیں ہے، سیکرٹریانِ تحریکِ جدید کوصرف تھوڑی سی محنت کرنا پڑے گی۔ افریقن ممالک میں نائیجیریا کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجموعی وصولی کے لحاظ سے افریقہ میں سرِ فہرست ہے۔ انہوں نے گزشتہ سالوں میں تحریکِ جدید کی مالی قربانی میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ترقی کو بڑھاتا رہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال کے مقابلے پر مجموعی وصولی کے اعتبار سے گیمبیا اور گھانا کی جماعتوں نے بھی نمایاں کام کیا ہے۔ گیمبیا کا اضافہ چھیالیس فیصد ہے اور گھانا کا اکتیس فیصد ہے۔ الحمد للہ۔ لیکن میرے خیال میں گھانا میں مزید گنجائش ہے اور یہ پہلے نمبر پر آ سکتا ہے۔ اس بارے میں گھانا کو خاص طور پر تعداد اور وصولی دونوں میں کوشش کرنی چاہئے۔
شاملین میں اضافے کے اعتبار سے سیرالیون، بینن، برکینا فاسو، کینیا، یوگنڈا، آئیوری کوسٹ اور نائیجر کی جماعتیں قابلِ ذکر ہیں۔ وکالتِ مال اوّل کے ریکارڈکے مطابق مجاہدین دفتر اول کی کل تعداد جو سب سے پہلے شروع میں چھہتر سال پہلے شامل ہوئے تھے، 5,927 ہے جس میں سے تین سو اکیاسی (381) مجاہدین خدا تعالیٰ کے فضل سے ابھی تک حیات ہیں اور اپنے چندے خود ادا کر رہے ہیں۔ بقیہ پانچ ہزار پانچ سو چھیالیس (5,546) مرحومین میں سے تین ہزارتین سو بائیس (3,322) مرحومین دفتر اول کی طرف سے ان کے حقیقی ورثاء نے ادائیگی کر کے ان کے کھاتے جاری کر دئیے ہیں۔ اور دو ہزاردوسو چوبیس (2,224) مرحومین کے کھاتے مخلصینِ جماعت نے جاری کروائے ہیں جو اُن کے حقیقی ورثاء نہیں ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے دفتر اوّل کے تمام کے تمام کھاتے زندہ ہیں۔ اس خواہش کا اظہار حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے بھی کیا تھااور تحریک فرمائی تھی۔ اس کے بعد مَیں نے بھی تحریک کی تھی۔ اس کے بعد سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے دو تین سالوں سے یہ تمام کھاتے جاری ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں تین بڑی جماعتیں ہیں۔ اول، لاہور۔ دوئم، ربوہ۔ سوئم، کراچی۔ اور مجموعی وصولی کے لحاظ سے زیادہ مالی قربانی کرنے والی جماعتیں راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان، بہاولپور، میر پور خاص، نوابشاہ، ڈیرہ غازی خان، جہلم، خانیوال اور منڈی بہاؤالدین ہیں۔ لاہور کے بارہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ لاہور کی جماعت جو ہے جہاں وہ جانی قربانی میں بھی صفِ اوّل میں آ گئی ہے وہاں انہوں نے تحریکات میں بھی، مالی قربانیوں میں بھی اپنا اعزاز قائم رکھا ہے۔ اور تحریکِ جدید کی مالی قربانی میں بھی جیسا کہ میں نے بتایا اول نمبر لاہور کا ہے۔ لاہور کی جماعت کے شہداء کے جو غم تھے اس غم نے انہیں مایوس نہیں کیا، پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قربانی میں مزید تیزی پیدا ہوئی ہے۔ جان مال وقت کی قربانی کا جو انہوں نے عہد کیا تھا اس کو نبھا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوب نبھا رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی دوسری جماعتیں بھی۔ لیکن ان کے ساتھ عملی طور پر بہت بڑا حادثہ ہوا ہے اس لئے یہاں ان کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔ مئی کے واقعہ کے بعد سے مستقل طور پر نوجوان بھی اور صحت مند انصار بھی اپنے وقت جماعت کودے رہے ہیں اور جو وقت کی قربانی کا عہد کیا تھا اس کو پورا کر رہے ہیں۔ اور پھر یہ کہ ایسی جگہوں پر ڈیوٹیاں دینے کے لئے حاضر ہوتے ہیں جہاں ہر وقت جان کا بھی خطرہ ہے۔ پاکستان میں تو ویسے ہی ہر پاکستانی کی زندگی خطرے میں ہے۔ لیکن ایک احمدی کی زندگی جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اس کو دہرا خطرہ ہے۔ ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے اور دوسرے احمدی ہونے کی حیثیت سے۔ اللہ تعالیٰ جلد ان خطرات کو ہمارے سر پر سے ٹالے اور دشمنوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائے۔
تحریکِ جدید کے بارے میں وکالتِ مال کا بعض ممالک کے بارہ میں یہ تأثر ہے کہ وہ بھر پور کوشش نہیں کرتے۔ خاص طور پر وہ جن کے ہاں دوسرے جماعتی پروجیکٹس یا مساجد وغیرہ کے منصوبے شروع ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے جو مساجد وغیرہ کے اپنے منصوبے ہیں اگر انہوں نے تحریکِ جدید کی طرف زور دیا یا دوسری مرکزی تحریکات کی طرف زور دیا تو یہ منصوبے متاثر ہوں گے۔ مَیں تو سمجھتا ہوں کہ ان ملکوں کی جو انتظامیہ ہے وہ افرادِ جماعت پر بھی بد ظنی کر رہی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا تعالیٰ پر بد ظنی کر رہے ہیں۔ یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر ان تحریکات کی رقم مرکز میں آتی ہے تو اس مرکزی رقم کا بہت بڑا حصہ افریقہ اور انڈیا وغیرہ اور دوسرے غریب ممالک کے منصوبوں پر خرچ ہوتا ہے۔ اگر دوسروں کی، غریب ملکوں کی مدد کے لئے دل کھولیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی آپ کے مال میں برکت فرمائے گا اور منصوبوں میں برکت فرمائے گا۔ جب آپ کی طرف سے (پیسے) جائیں گے تو غریب ملکوں کے جو منصوبے ہیں ان پر عملدرآمد ہو گا۔ جب ان کی مساجد بنیں گی جو بہت ضروری ہیں تو آپ بھی ان کی دعاؤں سے حصے دار بنیں گے۔ اگر تو خدا تعالیٰ کی خاطر یہ قربانی کر رہے ہیں اور ایک احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ کی خاطر ہی قربانی کرتا ہے۔ اگر کہیں کمی ہوتی ہے، کمزوری ہوتی ہے تو عہدے داران کی طرف سے ہوتی ہے۔ اگر وہ بد ظنی نہیں تو کم از کم ایک احمدی کو under estimate کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ توکّل میں بڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ انشاء اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا۔ یہ جو ضروریات ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پوری ہو رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ ان کو پورا فرماتا رہا ہے۔ لیکن اگر آپ لوگ حصے دار بن جائیں گے تو ان برکات میں سے آپ کو بھی ثواب مل جائے گا۔ آپ بھی ثواب کے حامل ہو جائیں گے اور برکات میں حصے دار بن جائیں گے۔ پاکستان کی جماعتوں کی اول دوم سوم کی پوزیشن مَیں بتا چکاہوں۔ پھر ضلعی سطح پر جودس اضلاع ہیں، ان میں سیالکوٹ، سرگودھا، گوجرانوالہ، نارووال، عمر کوٹ، بہاولنگر، حیدرآباد، اوکاڑہ، حافظ آباد، بدین، میر پور آزاد کشمیر ہیں۔ اور جو نمایاں کارکردگی والی جماعتیں ہیں وہ واہ کینٹ، کھوکھر غربی، حیات آباد، کنری، سانگھڑ، موسے والا، لودھراں، میانوالی، بھکر اور گجر خان۔
UK کی جو پہلی بڑی دس جماعتیں ہیں جنہوں نے قربانی دی ہے اس میں حلقہ مسجد فضل پہلے نمبر پر ہے، پھرنیو مالڈن ہے، ووسٹر پارک ہے، سربٹن ہے، ویسٹ ہل ہے، مسجد ویسٹ یہ نئی جماعت بنی ہے جو اِنر پارک اور مسجد فضل کو تقسیم کر کے بنائی گئی ہے۔ چیم اور مانچسٹر ساؤتھ، رینز پارک اور جیلنگھم۔ اور چھوٹی جماعتوں میں سکنتھورپ، کیمبرج، بورن متھ، وولور ہیمپٹن، براملے، لیوشم، لیمنگٹن سپا، ہارٹلے پول، برسٹل اور نارتھ ویلز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مجموعی وصولی کے لحاظ سے چار ریجنز۔ لنڈن، نارتھ ایسٹ، مِڈ لینڈاور ساؤتھ ریجن ہیں۔ مجموعی وصولی کے لحاظ سے امریکہ کی پہلی پانچ جماعتیں، سِیلیکون ویلی، اِن لینڈ ایمپائر، شکاگو، ڈیٹرائٹ اور لاس اینجلس ایسٹ ہیں۔ جرمنی میں جو غیر معمولی قربانی کرنے والی لوکل امارات ہیں، ان میں ہمبرگ، گراس گراؤ، مائینز ویز بادن(Mains Wiesbaden)، ڈامسٹڈ اور دائیبرگ(Dieburg)۔
جوچھوٹی جماعتیں ہیں وہ نیوس (Neuss)، آگس برگ (Augusburg)، ماربرگ (Marburg) اور مہدی آباد ہیں۔ کینیڈا کی قابلِ ذکر جماعتیں پِیس ولیج ایسٹ، ایڈمِنٹن، پِیس ولیج سینٹر، پِیس ولیج ویسٹ، کیلگری نارتھ ویسٹ+ پِیس ولیج ساؤتھ یہ اکٹھے ہیں۔ انڈیا کے جو پہلی دس پوزیشن والے صوبے ہیں وہ کیرالہ ہے۔ نمبر2۔ آندرا پردیش، نمبر 3۔ جموں و کشمیر، نمبر 4۔ تامل ناڈو، 5۔ کرناٹک، 6۔ بنگال، 7۔ اڑیسہ، 8۔ پنجاب، 9۔ یوپی، 10۔ لکش دویپ۔ اور جو پہلی دس جماعتیں ہیں وہ حیدرآباد (آندرا پردیش)، کالی کٹ (کیرالہ)، قادیان (پنجاب)، کلکتہ، کنانور ٹاؤن، چَنائی، کیرولائی، کوئمبٹور، بنگلور اور آسنورہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام چندہ دینے والوں کے اموال اور نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے جو تکمیلِ اشاعتِ ہدایت میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کو اپنی قربانیوں میں بڑھاتا چلا جائے۔
اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:
’’چندے کی ابتدااس سلسلہ سے ہی نہیں ہے۔ بلکہ مالی ضرورتوں کے وقت نبیوں کے زمانہ میں بھی چندے جمع کئے گئے تھے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ ذرا چندے کا اشارہ ہوا تو تمام گھر کا مال لا کر سامنے رکھ دیا۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسبِ مقدورکچھ دینا چاہئے اور آپ کی منشاء تھی کہ دیکھا جاوے کہ کون کس قدر لاتا ہے۔ ابو بکرؓ نے سارا مال لا کر سامنے رکھدیا۔ اور حضرت عمرؓ نے نصف مال۔ آپ نے فرمایا کہ یہی فرق تمہارے مدارج میں ہے…‘‘۔
فرماتے ہیں کہ: ’’… صحابہ کرام ؓ کو پہلے ہی سکھایا گیا تھا لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْن (آل عمران: 93)اس میں چندہ دینے اور مال صرف کرنے کی تاکیداور اشارہ ہے۔ یہ معاہدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے اس کو نباہنا چاہیئے۔ اس کے بر خلاف کرنے میں خیانت ہوا کرتی ہے…‘‘۔
فرمایا: ’’…ایک آدمی سے کچھ نہیں ہوتا۔ جمہوری امداد میں برکت ہوا کرتی ہے۔ بڑی بڑی سلطنتیں بھی آخر چندوں پر ہی چلتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیاوی سلطنتیں زور سے ٹیکس وغیرہ لگا کر وصول کرتے ہیں۔ اور یہاں ہم رضا اور ارادہ پر چھوڑتے ہیں۔ چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ محبت اور اخلاص کا کام ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ358تا361 جدید ایڈیشن)
فرمایا کہ: ’’تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے۔ ہر ایک قوم دنیا سے پیار کررہی ہے۔ اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں۔ وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں اُن کیلئے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں۔ یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کردیگا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی۔ اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے…‘‘۔
فرمایا: ’’…وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کرینگے اور اُن پر مصائب کے زلزلے آئیں گے۔ اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی۔ وہ آخر فتحیاب ہونگے اور برکتوں کے دروازے اُن پر کھولے جائیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ‘‘۔ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 309-308)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کی توقعات کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو فتوحات اس نے مقدر کی ہیں ان کو بھی ہم دیکھنے والے ہوں۔
خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:
کیونکہ وقت بدل گیا ہے۔ عصر کا پہلا وقت بھی شروع ہو جائے گا اس لئے نمازِ عصر بھی ساتھ ہی جمع ہوگی۔