خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍ نومبر 2010ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّھُمْ مِنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْا َنْھٰرُخٰلِدِیْنَ فِیْھَا نِعْمَ اَجْرُالْعٰمِلِیْنَ۔ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (العنکبوت: 60-59)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنین کی وہ قوم پیدا کی جو ایمان میں بڑھے ہوئے تھے۔ وہ اس ایمان اور یقین پر قائم تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ ان پر دین اپنے کمال پر پہنچا اور یہی دین ہے جس کی تعلیم پر عمل کر کے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کی جا سکتی ہے۔ پس جب صحابہ اپنے ایمان کی معراج کو چھونے لگے تو ان کا ہر حرکت و سکون اور ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو گیا۔ اور جو عمل اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے یا چاہنے کے لئے ہو، وہی عمل صالح کہلاتا ہے۔ پس ان آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی سے اپنے اندر ایک عظیم انقلاب لانے والے لوگوں کا ہی ذکر ہے۔ جو اپنی تمام پرانی بد عادات کو چھوڑ کر اپنے ایمان میں اس قدر مضبوط ہوئے کہ انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ایمان میں مضبوطی اور اعمالِ صالحہ بجا لانے کے لئے وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار رہیں گے۔ اگر خاموشی سے سختیاں برداشت کرنی پڑیں تو وہ کریں گے کیونکہ ایک وقت میں جب سختی کا مقابلہ کرنے کی اجازت نہیں تھی تو اس وقت ایمان میں مضبوطی کا تقاضا یہی تھا کہ خاموشی سے سختیاں جھیلو۔ اس وقت عملِ صالح یہی تھا کہ سختی کا جواب سختی سے نہیں دینا۔ جب یہ حکم ہواکہ وطن چھوڑ کر ہجرت کر جاؤ تو ایمان کی مضبوطی اور عملِ صالح یہی تھا کہ بغیر کسی تردد کے وطن چھوڑ دیں۔ جب دشمن کو سزا دینے کے لئے جنگ کا حکم تھا تو ایمان کا تقاضا اور عملِ صالح یہی تھا کہ ہر قسم کے نتائج سے بے پرواہ ہو کر دشمن کو سزا دو۔ یہ نہ دیکھو کہ میرے پاس ہتھیار ہیں یا نہیں۔ دشمن کی طاقت اور میری طاقت میں کوئی نسبت ہے یا نہیں۔ غرضیکہ ایمان لانے کے بعد کوئی بھی عمل اور کوئی بھی نیکی جب خدا تعالیٰ کی رضا کی تابع ہو جائے۔ اپنی جان کو انسان خدا تعالیٰ کی امانت سمجھنے لگے جس کا حق صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو میں ضرور جنت میں داخل کروں گا اور جنت میں بھی ایسے بالا خانے ملیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور یہ جنتیں دائمی انعامات اور دائمی زندگی کی علامت ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بہترین اجر ہے جو ہم ایمان میں کامل اور اللہ تعالیٰ کی خاطر ہر عمل کرنے والے کو دیتے ہیں۔ اور یہ لوگ جو بہترین اور دائمی جنتوں کا اجر پانے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انتہائی صبر سے قربانیاں دیں اور اپنے ایمانوں کو سلامت رکھا۔ اپنے ربّ پر کامل توکل رکھتے ہوئے وہ اس یقین پر قائم تھے کہ اگر ہم نے صبر کے نمونے دکھاتے ہوئے اپنے ایمان کی حفاظت کی اور ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بجا لاتے رہے تو اللہ تعالیٰ جو سچے وعدوں والا ہے، ضرور اجر سے نوازے گا۔ پس یہ ایمان میں مضبوطی اور اعمالِ صالحہ بجا لانے کی طرف توجہ جیسا کہ مَیں نے کہا اُن صحابہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور قوتِ قدسی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔
آج مَیں صبر کے حوالے سے چند احادیث پیش کروں گا جن سے پتہ چلتا ہے کہ مومنین میں اس خُلق کے پیدا کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کیا اسلوب اور طریقے سکھائے۔ اور پھر صحابہ نے جو ایمان میں ہر دن ترقی کرتے چلے گئے یا ترقی کرتے چلے جانے والے تھے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کس طرح صبر و استقامت کے اعلیٰ معیار قائم کئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام روز مرہ کے معاملات سے لے کر دشمنوں کے مقابلہ تک میں صبر دکھانے کے قرینے سکھائے اور یہ سکھاتے ہوئے ہمیں نصائح فرمائیں کہ کس وقت ہمیں کیا کرنا ہے؟
آج مَیں سب سے پہلے جو حدیث پیش کروں گا اس کا تعلق دشمنوں کے ساتھ نہیں بلکہ عائلی زندگی کے صبر کے ساتھ ہے کہ خاوند اور بیوی کو عائلی زندگی کس طرح گزارنی چاہئے۔ کئی عورتوں کے بھی خطوط آتے ہیں اور اگر ملاقات کا موقع مل جائے تو اس میں بھی شکایات کرتی ہیں کہ ہماری بیٹیاں ہیں مثلاً اور بیٹا کوئی بھی نہیں جس کی وجہ سے خاوند اور سسرال مستقل طعنہ دیتے رہتے ہیں۔ گھریلو زندگی اجیرن ہوئی ہوئی ہے۔ یا بیٹیاں خود بھی لکھ دیتی ہیں کہ ہمارے باپ کا ہمارے ساتھ بیٹی ہونے کی وجہ سے نیک سلوک نہیں ہے اور ہماری زندگی مستقل اذیت میں ہے۔ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ایسی ہے جو لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ بہت سارے ایسے ہیں جو دینی علم بھی رکھتے ہیں، جماعتی کام بھی کرنے والے ہیں لیکن پھر بھی گھروں میں ان کے سلوک اچھے نہیں ہوتے۔ اس حدیث کے سننے کے بعد مَیں سمجھتا ہوں کہ کوئی انسان جس میں ہلکی سی بھی ایمان کی رمق ہو، اپنی بیٹیوں کو بیوی یا بیٹیوں کے لئے طعنہ کا ذریعہ نہیں بنائے گا۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو صرف بیٹیوں کے ذریعے سے آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے اس پر صبر کیا تو وہ بیٹیاں اس کے اور آگ کے درمیان روک ہوں گی۔ (سنن ترمذی۔ کتاب البرو الصلۃ۔ باب ماجاء فی النفقۃ علی البنات والاخوات)
دنیا میں کون شخص ہے جس سے چھوٹی موٹی غلطیاں اور گناہ سرزدنہ ہوتے ہوں۔ کون شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں نہیں آنا چاہتا۔ یقینا ہر ایک اس پناہ کی خواہش رکھتا ہے۔ تو بیٹیوں والوں کو یہ خوشخبری ہے کہ مومن بیٹیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جائے گا۔ بعض مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کو حل کرنا اور اس معاشرے میں بھی ہمیں بیٹیوں کی وجہ سے بہت سارے مسائل نظر آتے ہیں ان کو برداشت کرنا اور کسی بھی طرح بیٹیوں پر یہ اظہار نہ ہونے دینا یا ماؤں کو بیٹیوں کی وجہ سے نشانہ نہ بنانا، یہ ایک مو من کی نشانی ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر یہ باتیں جو ہیں اس کے اور آگ کے درمیان روک بن جاتی ہیں۔ پھر ایک حدیث میں ان لوگوں کے لئے نصیحت ہے جو بڑے زود رنج ہوتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر ان میں ناراضگی ہو جاتی ہے۔ اور اسی وجہ سے پھر اپنے اس معاشرے میں گھلنا ملنا پسندنہیں کرتے۔
یحيٰ بن وثَّاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک بزرگ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مسلمان جو لوگوں سے ملتا جلتا رہتا ہے اور ان کی تکلیف دہ باتوں پر صبر کرتا ہے، اُس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ تو لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے اور نہ ہی ان کی تکلیف دہ باتوں پر صبر کرتا ہے۔ (سنن ترمذی۔ کتاب القیامۃ والرقائق)
پس اس میل ملاپ سے ہو سکتا ہے کسی کے اچھے اخلاق اور صبر سے دوسرے متأثر ہو جائیں، نصیحت حاصل کر جائیں، معاشرے میں بہتری پیدا ہو جائے۔ لوگ اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور پھر اس طرح ملنے جلنے سے کوئی کسی دوسرے کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے۔ پھر انسان کے اپنے اندر صبر کی وجہ سے جو وسعتِ حوصلہ پیدا ہوتی ہے وہ اسے مزیدنیکیوں کی طرف لے جاتی ہے، مزیدنیکیوں کا باعث بنتی ہے۔ اور پھر یہ ایک نصیحت بھی اس میں آ گئی کہ صبر جو ہے اس کی عادت انسان کو ڈالنی چاہئے۔ ذرا ذرا سی باتوں پر آپس کے جھگڑے جوبے صبری کی وجہ سے ہوتے ہیں اُن سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسی وسعتِ حوصلہ کا ذکر فرماتے ہوئے ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں نصیحت فرمائی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طاقتور پہلوان وہ شخص نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے۔ اصل پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے۔ (صحیح بخار ی کتاب الادب۔ باب الحذر من الغضب)
پس خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک پہلوان وہ ہے جو غصے پر قابو پانے والا ہے۔ اور یہی عملِ صالح ہے جو ایک مومن کو خدا تعالیٰ کا قرب دلاتا ہے، اس کے قریب کرتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عظیم اُسوہ اس صبر کے اظہار میں کیسا تھا؟ اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کبھی کسی کو نہیں مارا۔ نہ کسی عورت کو نہ کسی خادم کو، سوائے اس کے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے کسی کو مارا ہو۔ آپ کو جب کبھی کسی نے تکلیف پہنچائی تو بھی آپؐ نے کبھی اس سے انتقام نہیں لیا۔ ہاں جب اللہ تعالیٰ کے کسی قابلِ احترام مقام کی ہتک اور بے حرمتی کی جاتی تو پھر آپؐ اللہ تعالیٰ کی خاطر انتقام لیتے تھے۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب مباعدتہ ملاثام واختیارہ…)
پس یہ وہ عظیم اسوہ ہے جو صبر کے مضمون کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ ابو کبشہ انماریؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین باتوں کے متعلق تاکیداً کہتا ہوں اور میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں۔ پس تم اسے خوب یاد رکھو۔ آپؐ نے فرمایا: کسی بندے کا مال صدقے سے کم نہیں ہوتا اور وہ بندہ جس پر کوئی ظلم کیا گیا ہو اور اس نے اس پر صبر کیا تو اللہ تعالیٰ اسے عزت میں بڑھاتا ہے۔ اور وہ بندہ جس نے کسی سوال کا دروازہ کھولا تو اللہ تعالیٰ اس پرفقر کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ (سنن الترمذی۔ کتاب الزھد۔ باب ما جاء مثل الدنیا مثل اربعۃ نفر)
پس یہاں صبر کے حوالے سے مَیں یہ بات کرنی چاہتا ہوں۔ ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ظلم پر خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر صبر اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا مقبول ہے کہ اس کی عزت اللہ تعالیٰ خود قائم فرما دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں روزمرہ معاملات میں اگر لوگ اس اصل کو سمجھ لیں تو ایک پُر امن معاشرہ قائم ہو جائے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ عمر بن سعد اپنے والد سعدؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان پر مجھے تعجب آتا ہے اس لئے کہ جب اسے کوئی خیر پہنچتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر بجا لاتا ہے اور جب اس کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس پر اجر کی امید رکھتا ہے اور صبر سے کام لیتا ہے۔ مسلمان کو ہر حال میں اجر ملتا ہے یہاں تک کہ اُس لقمے میں بھی جو وہ اپنے منہ میں ڈالتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبلؒ۔ مسند سعد بن ابی وقاصؓ۔ جلد اول صفحہ 479۔ حدیث نمبر 1531)
ایک دوسری روایت میں اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے۔ حضرت صہیبؓ بن سنان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے سارے کام برکت ہی برکت ہوتے ہیں۔ یہ فضل صرف مومن کے لئے مختص ہے۔ اگر اس کو کوئی خوشی و مسرت و فراخی نصیب ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے۔ اور اس کی شکر گزاری اس کے لئے مزید خیر و برکت کا موجب بنتی ہے۔ اور اگر اُس کو کوئی دُکھ اور رنج، تنگی اور نقصان پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے۔ اور اس کا یہ طرزِ عمل بھی اس کے لئے خیر و برکت کا ہی باعث بن جاتا ہے۔ کیونکہ وہ صبر کر کے ثواب حاصل کرتا ہے۔ (مسلم۔ کتاب الزھد۔ باب المومن اَمرُہٗ کلّہ خیر)
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کو کوئی مصیبت، کوئی دکھ، کوئی رنج و غم، کوئی تکلیف اور پریشانی نہیں پہنچتی یہاں تک کہ کانٹا بھی نہیں چبھتا مگر اللہ تعالیٰ اُس کی تکلیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ۔ باب ثواب المومن فیما یصیبہ من مرض او حزن)
ایک لمبی روایت ہے۔ اس میں خدا تعالیٰ کے پسندیدہ اور نا پسندیدہ لوگوں کا ذکر ہے۔ وہ پیش کرتا ہوں۔ مُطَرَّفْ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ تک حضرت ابو ذرؓ کی ایک روایت پہنچی اور میں خواہش رکھتا تھا کہ ان سے ملاقات ہو جائے۔ پھر جب مَیں ان سے ملا تو عرض کی کہ اے ابو ذرؓ ! مجھ تک آپ کی ایک روایت پہنچی ہے۔ میں خواہش رکھتا تھا کہ آپ سے ملاقات ہو اور اس کے بارے میں آپ سے پوچھوں۔ حضرت ابوذرؓ نے کہا۔ اب مل لیا ہے تو پوچھو۔ مَیں نے کہا مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ عزّوجل پسند کرتا تھا اور تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ عزّوجل نا پسند کرتا ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے کہا کہ ہاں اور مجھے خیال بھی نہیں آ سکتا کہ مَیں اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولوں۔ یہ بات انہوں نے تین مرتبہ کہی۔ تو مَیں نے پوچھا کہ وہ تین شخص کون سے ہیں جنہیں اللہ عزّوجل پسند کرتا ہے تو آپ نے فرمایا۔ وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جنگ کے لئے نکلا اور اس کا مجاہد ہوتے ہوئے، اُس کا اجر خدا کے ہاں قرار دیتے ہوئے دشمن سے لڑائی کی یہاں تک کہ قتل ہو گیا۔ اور تم اللہ عزّوجل کی کتاب میں پاتے ہو کہ اللہ تو ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستے میں صف باندھ کر لڑتے ہیں۔ اور وہ شخص جس کا ہمسایہ اسے تکلیف دیتا ہو اور وہ اس کی تکلیف پر صبر کرے اور اپنے آپ کو روکے رکھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ موت یا زندگی کے ذریعے اس کے لئے کافی ہو جائے۔ اور ایسا شخص جو قوم کے ساتھ سفر پر ہو یہاں تک کہ نیند اور اونگھ انہیں بوجھل کر دے اور وہ رات کے آخری حصے میں پڑاؤ کریں اور وہ شخص اپنا وضو کرے اور نماز کے لئے کھڑا ہو جائے۔ مَیں نے عرض کی کہ وہ کون سے تین شخص ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ فخر و مباہات کرنے والا، تکبر کرنے والااور تم اللہ عزّوجل کی کتاب میں پاتے ہو ’’اللہ یقینا ہر شیخی کرنے والے اور فخر کرنے والے سے پیار نہیں کرتا۔‘‘ اور وہ بخیل جو احسان کو جتانے والا ہو اور ایسا تاجر جو قسمیں کھا کھا کر بیچنے والا ہو۔ (مسند احمد بن حنبلؒ۔ مسند ابی ھریرہؓ۔ جلد 7صفحہ 217۔ حدیث نمبر 21863۔ ایڈیشن 1998ء۔ بیروت)
اس میں جو تین پسندیدہ لوگ ہیں ان میں صبر کرنے والے کا بھی ذکر ہے۔ جو صبر کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ کو بہت پسندیدہ ہیں۔ حضرت علیؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ایمان میں صبر کی حیثیت ایسی ہے جیسے کہ جسم میں سر کی۔ جب صبر نہ رہا تو ایمان بھی نہ رہا۔ (کنزالعمال۔ الکتاب الثالث فی الاخلاق۔ قسم الافعال۔ باب الصبر وفضلہ)
ایک مومن کو ہمیشہ تلقین کرتے ہیں کہ ہمیں کس طرح اپنی تکلیفوں اور دکھوں میں اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہئے؟ کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ کس طرح دعا کرنی چاہئے؟ یہ سب باتیں ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں۔ اس بارہ میں ایک حدیث میں آتا ہے کہ امّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابیان کرتی ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپؐ فرماتے ہیں: جس بندے کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِی فِی مُصِیْبَتِی وَاخْلُفْ لِیْ خَیْرًا مِنْھَا۔ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں اور اے میرے اللہ! مجھے مصیبت میں اجر دے اور میرے لئے اس کے بعد اس سے بہتر عطا کر۔ تو اللہ تعالیٰ ضرور اُس کی مصیبت کے بدلے میں اس کو اجر دیتا ہے اور اس کے بعد اس کو اس سے بہتر عطا فرماتا ہے۔ (الجامع لشعب الایمان۔ جلد 12۔ صفحہ182۔ السبعون من شعب الایمان۔ باب فی الصبر علی المصائب۔ حدیث 9247۔ مطبوعہ مکتبۃ الرشد۔ ناشرون 2004ء)
اور یہ جو مصیبتیں یا تکالیف ہیں وہ ذاتی زندگی میں بھی ہیں، جماعتی زندگی میں بھی ہیں، قومی زندگی میں بھی ہیں۔ ہر جگہ یہی اصول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے، ان تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے، صبر اور حوصلہ دکھاتے ہوئے، اس کی پناہ میں آتے ہوئے اس سے اجر مانگا جائے۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں بھی کسی بھی قسم کے ابتلا اور مصیبت سے گزرنے والوں کے بارے میں یہی فرماتا ہے۔ فرمایا: الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْآ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اُوْلٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ۔ وَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُہْتَدُوْن (البقرۃ: 58-57) ان پر جب بھی کوئی مصیبت آئے تو گھبراتے نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے ربّ کی طرف سے برکتیں نازل ہوتی ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ پس یہ قرآنِ کریم کا بھی حکم ہے۔
اب میں اللہ تعالیٰ کی نظر میں اُن ہدایت یافتہ لوگوں کے کچھ واقعات پیش کروں گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب پانے والے تھے اور آپ کی صحبت سے فیضیاب ہونے والے تھے اور آپ کی تربیت سے انہوں نے فائدہ اٹھایا اور صبر کے اعلیٰ نمونے دکھائے۔
ایک واقعہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب مسلمان آزمائش میں ڈالے گئے تو حضرت ابوبکرؓ بھی مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کے ارادے سے نکل پڑے۔ جب آپ بَرْکُ الْغِمَاد کے مقام پر پہنچے تو آپ کو قارہ قبیلے کا سردار ابن الدغنہ ملا۔ اس نے پوچھا کہ اے ابوبکر! آپ کا کہاں کا ارادہ ہے؟ اس پر ابوبکر نے کہا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے۔ اس لئے اب میں نے ارادہ کیا ہے کہ اللہ کی زمین میں کہیں نکل جاؤں اور آزاد ہو کر اپنے رب کی عبادت کروں۔ ابن الدغنہ نے کہا کہ تمہارے جیسے شخص کو نہ تو خود مکہ سے نکلنا چاہئے اور نہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ نکالیں۔ تم بھولی ہوئی نیکیوں پر عمل کرنے والے ہو اور رحمی رشتے داروں سے حسنِ سلوک کرتے ہو اور بے بسوں کے بوجھ اٹھاتے ہو اور مہمان نوازی کرتے ہو اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرتے ہو۔ پس میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ واپس لوٹ جاؤ اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کرو۔ حضرت ابوبکرؓ واپس آ گئے۔ ابن الدغنہ بھی آپ کے ساتھ ہی ہو لیا۔ رات کے وقت قریش کے رؤوساء کے پاس جا کر ابن الدغنہ نے کہا۔ ابوبکر جیسے لوگ نہ تو خودنکلتے ہیں اور نہ ہی انہیں نکالا جاتا ہے۔ کیا تم ایسی اعلیٰ اور نیک صفات والے شخص کو نکالتے ہو؟ قریش نے ابن الدغنہ کی پناہ کا انکار نہ کیا۔ انہوں نے اسے کہا کہ ابوبکرؓ کو کہہ دو کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کر لیا کرے اور وہاں نماز ادا کر لیا کرے اور جو چاہے پڑھ لیا کرے لیکن اس کے ذریعہ سے ہمیں تکلیف نہ پہنچائے اور نہ اس کا اظہار اونچی آواز سے کرے۔ کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ ہماری عورتوں اور بچوں کو فتنے میں نہ ڈال دے۔ ابن الدغنہ نے یہ سب باتیں حضرت ابوبکرؓ کو بتائیں تو آپ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرنے لگے۔ اور نماز کے وقت آواز اونچی نہ رکھتے اور اپنے گھر کے سوا کہیں اور قرآن نہ پڑھتے۔ پھر آپ کے ذہن میں ایک خیال آیا اور آپ نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد تعمیر کی جہاں آپ نماز ادا کرتے تھے اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے تھے۔ اس وقت مشرکین کی عورتیں اور ان کے بچے جھانکتے اور حضرت ابوبکرؓ کو دیکھتے تو بہت زیادہ متأثر ہوتے۔ حضرت ابوبکرؓ بہت زیادہ رونے والے تھے اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے وقت اپنی آنکھوں پر قابو نہ رکھتے تھے۔ ان کے آنسو بہنے شروع ہو جاتے تھے۔ قریش کے رؤوساء اس بات سے بہت زیادہ گھبرا گئے۔ تو انہوں نے اپنا ایک پیغامبر ابن الدغنہ کی طرف بھیجا۔ جب وہ آیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس شرط پر ابوبکرؓ کو تمہاری پناہ میں رہنے دیا تھا کہ وہ اپنے گھر میں اپنے ربّ کی عبادت کرے گا۔ لیکن اس نے اس سے تجاوز کیا ہے اور اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد تعمیر کر لی ہے اور بلند آواز سے وہاں نماز ادا کرتے اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ اور ہمیں اس بات کا خوف ہوا کہ کہیں وہ ہماری عورتوں اور بچوں کو آزمائش میں نہ ڈال دے۔ پس تو ان سے پوچھ کہ وہ کیا تمہاری پناہ سے انکار کرتا ہے۔ کیونکہ ہم نے تو اس بات کو ناپسند کیا کہ ہم تجھ سے بدعہدی کریں اور نہ ہی ہم ابوبکر ؓ کو علی الاعلان عبادت کی اجازت دے سکتے ہیں۔ (حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ) ابن الدغنہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا (اور کہا) جس بات کا مَیں نے آپ سے معاہدہ کیا تھا یا اس پر قائم رہو یا میری ذمہ داری مجھے سونپ دو۔ کیونکہ یہ مجھے گوارا نہیں کہ عرب کے لوگ یہ بات سنیں کہ میرے ساتھ اس شخص کی وجہ سے بدعہدی کی گئی ہے جس کے ساتھ مَیں نے معاہدہ کیا ہوا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ مَیں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں اور اللہ بزرگ و برتر کی امان کو پسند کرتا ہوں۔ (تلخیص از بخاری۔ کتاب مناقب الانصار۔ باب ھجرۃالنبیؐ واصحابہ الی المدینۃ…الخ)
اس کے بعد قریش نے حضرت ابوبکرؓ کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں مگر وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ قائم رہے۔ روایت میں آتا ہے کہ کفار نے حضرت ابوبکرؓ کوبہت مارا پیٹا۔ آپ کے سر اور داڑھی سے پکڑ کر اس قدر آپ کو کھینچا جاتا تھا کہ آپ کے اکثر بال گِر گئے۔ تو یہ ظلم روا رکھا گیا لیکن آپ نے صبر کیا‘‘۔ (السیرۃ الحلبیۃ۔ جلد 1باب استخفاء ہؐ واصحابہ فی دارالارقم بن ابی ارقم صفحہ 41۔ دارالکتب العلمیۃ۔ بیروت۔ 2002ء)
مجھے یاد آیا کہ یہی حال پاکستان میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تم لوگ نمازیں نہیں پڑھ سکتے۔ ہمارے کمزور لوگوں کونمازیں پڑھ کے ورغلا لو گے، بہکا لو گے کہ تم لوگ بھی اپنے آپ کومسلمانوں کی طرح ظاہر کر رہے ہو۔ اسی لئے یہ قانون پاس ہوا ہے۔ اور تو اور، کل ایک جگہ بلکہ دو جگہ سے یہ خبر بھی آئی ہے، پاکستان میں اخبار میں بھی چھَپ گئی ہے کہ غیر احمدی مولویوں نے یہ رپورٹ پولیس میں درج کروا دی کہ احمدی قربانی کی عید پہ قربانی کرتے ہیں اور یہ تو اسلامی شعار میں داخل ہے اس لئے ان کو اس سے روکا جائے، ہمارے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ تو یہاں تک یہ پہنچ گئے ہیں۔ پولیس کا بھی یہ حال ہے کہ پولیس نے احمدیوں کو بلایا اور ان کو وارننگ دی کہ اگر قربانی کرنی ہے تو چاردیواری کے اندر ہو گی۔ باہرذرا سا بھی کوئی اظہار نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ تمہیں یہ قربانی کرنے کا کوئی حق نہیں اور مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کا بھی تمہیں حق نہیں۔ حالانکہ جب پتہ کیا گیا تو پتہ لگا کہ وہ احمدی تو پہلے ہی قربانیاں اپنے گھر میں کرتے ہیں بلکہ سوائے کسی اپنے بہت قریبیوں کے اظہار بھی نہیں کرتے کہ ہم نے قربانی کی ہے۔ لیکن بہر حال انہوں نے ایک فساد پھیلانا تھا اور پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی بہانہ ان کے ہاتھ آتا رہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ اب یہ ایک عورت کا بھی صبر اور استقامت کا عجیب واقعہ ہے۔ حضرت امّ شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب اسلام قبول کیا تو قریش کی عورتوں کو مخفی طور پر اسلام کی تبلیغ کرنے لگیں۔ قریش کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہم تجھے تیرے قبیلے کے پاس لے جائیں گے۔ پھر انہوں نے حضرت امّ شریک کو اونٹ کی ننگی پیٹھ پر سوار کیا اور کہتی ہیں تین دن تک نہ مجھے پانی پینے کو دیا اور نہ ہی کھانے کو دیا تو آپ کی یہ حالت ہو گئی کہ حواس برقرار نہ رہے۔ پھر وہ لوگ ایک جگہ اترے۔ خود تو وہ لوگ سائے دار جگہ میں بیٹھے اور اُن کو دھوپ میں باندھ دیا۔ حضرت امّ شریکؓ فرماتی ہیں کہ اسی حالت میں مَیں نے ایک پانی کا برتن دیکھا۔ مَیں اس میں سے تھوڑا سا پانی پیتی تو وہ مجھ سے دورہو جاتا۔ پھر مَیں اس کو پکڑ کر کچھ پیتی پھر وہ مجھ سے دور ہو جاتا اور یہ کافی دفعہ ہوتا رہا یہاں تک کہ مَیں سیر ہو گئی۔ اچھی طرح پانی پی کے تسلی ہو گئی۔ حضرت امّ شریکؓ نے باقی ماندہ پانی اپنے جسم پر اور کپڑوں پر پھینک لیا۔ جب وہ لوگ اٹھے اور انہوں نے پانی کے آثار اور آپ کی اچھی حالت دیکھی تو انہوں نے یہ کہا کہ تُو نے رسّیاں وغیرہ کھول کر ہمارے پانی میں سے پیا ہے۔ حضرت امّ شریکؓ نے جواباً انہیں کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! مَیں نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔ آپ نے سارا واقعہ ان لوگوں کو سنایا تو اس پر انہوں نے کہا کہ اگر تو ایسا ہے جیسا تو بیان کرتی ہے تو تمہارا دین سچا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے پانی کے مشکیزوں میں دیکھا تو وہاں اتنا پانی تھا جتنا انہوں نے چھوڑا تھا۔ اسی بات پر وہ لوگ اسلام بھی لے آئے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ۔ جلد 8۔ کتاب النساء ’’فیمن عرف الکنیۃمن النساء حرف الشین ’’ام شریک‘‘ صفحہ418-417۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت۔ 2005ء)
تو یہ بھی ایک عجیب نظارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صبر کا اجر اسی وقت دیا۔ تین دن کی بھوک پیاس کو اپنے اس پیار کے انداز میں مٹایا اور خود انتظام فرما دیا۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو فُکَیہؓ، یہ بنو عبدالدار کے غلام تھے، جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو وہ لوگ آپ کو تکلیفیں دیتے تھے تاکہ اسلام سے پِھر جائیں۔ مگر آپؓ انکار کر دیا کرتے تھے۔ بنو عبدالدار سخت گرمی میں دوپہر کے وقت آپ کے کپڑے اتار کر اور لوہے میں جکڑ کر کھڑا کر دیتے تھے۔ پھر ایک چٹان لا کر آپ کی پشت پر رکھ دیتے تھے۔ اس اذیت کی وجہ سے آپ کے حواس گم ہو جاتے تھے۔ لیکن یہ نہیں ہوا کہ اپنے صبر و استقامت میں انہوں نے لغزش آنے دی ہو۔ (الاستیعاب جلد 4۔ کتاب الکنیٰ۔ باب الفاء ’’ابوفکیہ‘‘۔ صفحہ 293۔ دارلکتب العلمیۃ۔ بیروت 2002ء)
حضرت بلالؓ کا واقعہ ہم سنتے رہتے ہیں۔ امیہ بن خلف کے حبشی غلام تھے۔ امیہ ان کو سخت گرمی میں دوپہر کے وقت باہر لے جاتا اور زمین پر لٹا دیتا اور بڑے بڑے پتھر ان کے سینے پر رکھ کر کہتا۔ لات اور عزّٰی کی پرستش کر اور محمد کا انکار کر۔ ورنہ اسی طرح عذاب دے کر مار دوں گا۔ بلالؓ کہتے اَحد اَحد کہ اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے۔ ایک روز حضرت ابوبکر نے ان پر یہ جوروستم دیکھا تو امیہ بن خلف کو ایک غلام دے کر اس کے بدلے میں حضرت بلال کو خرید کر آزاد کر دیا۔ (السیرۃ لابن ھشام۔ ذکر عدوان المشرکین علی المستضعفین ممن اسلم… صفحہ 235۔ دارالکتب العلمیۃ۔ بیروت 200`ء)
پھر روایات میں ایک مثال حضرت خبابؓ کی بھی آتی ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک دفعہ حضرت خبابؓ ان کی مجلس میں حاضر ہوئے تو انہوں نے حضرت خبابؓ کو بلا کر اپنی خاص مسند پر بٹھایا اور فرمایا کہ خبابؓ ! آپ اس لائق ہیں کہ میرے ساتھ اس مسند پر بیٹھیں۔ مَیں نے نہیں دیکھا کہ آپ سے بڑھ کر اس جگہ میرے ساتھ بیٹھنے کا کوئی مستحق ہو سوائے بلال کے۔ اُنہوں نے کہا اے امیر المومنین! بے شک بلالؓ بھی حقدار ہیں لیکن بلال کو مشرکین کے ظلم سے بچانے والے موجود تھے۔ لیکن میرا تو کوئی بھی نہیں تھا جو مجھے ان کے ظلم سے بچاتا۔ ایک دن مجھ پر ایسا بھی آیا کہ مجھے کافروں نے پکڑ لیا اور آگ جلا کر مجھے اس میں جھونک دیا۔ پھر ان میں سے ایک نے میرے سینے پر پاؤں رکھ دیا۔ پھر آپ نے کپڑا اٹھایا۔ حضرت عمرؓ کو اپنی پشت دکھائی تو وہاں جِلد پرجلنے کی وجہ سے (کھال جلنے کی وجہ سے اور چربی جلنے کی وجہ سے) سفید لکیروں کے نشانات تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد۔ جز ء 3۔ صفحہ88۔ الطبقۃ الاولیٰ علی السابقۃ فی الاسلام’’خباب بن الارت‘‘۔ داراحیاء التراث العربی۔ بیروت 1996ء)
حضرت خبابؓ بن ارت لوہار تھے اور تلواریں بنایا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تالیفِ قلب کے لئے ان کے پاس آیا کرتے تھے۔ اس بات کا پتہ ان کی مالکن اُمّ انمار کو لگ گیا۔ وہ ایک لوہا گرم کر کے آپ کے سر پر رکھ دیا کرتی تھی۔ حضرت خبابؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کا ذکر کیا۔ آپ نے دعا کی: اَللّٰھُمَّ انْصُرْ خَبَابًا۔ اے اللہ! خباب کی مدد فرما۔ اس کے نتیجے میں آپ کی مالکہ اُمّ انمار کو سر میں ایک تکلیف لاحق ہو گئی جس سے وہ کتوں کی طرح چیخنے لگتی تھی۔ اور اس کا علاج وہاں کے جو حکیم تھے انہوں نے یہ بتایا کہ لوہا گرم کر کے اس کے سرپر رکھو۔ حضرت خباب کہتے ہیں کہ مَیں پھر اس کے سر کو گرم لوہے سے داغا کرتا تھا‘‘۔ (اسد الغابۃ۔ جلد اول۔ خباب بن الارت۔ صفحہ675۔ دارالفکر۔ بیروت۔ 2003ء)
اللہ تعالیٰ نے اس طرح بھی بدلہ لیا اور صبر کا اس طرح انتقام لیا۔
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو آزمائش میں دیکھا جبکہ وہ ولید بن مغیرہ کی پناہ میں صبح و شام امن میں رہتے تھے۔ توانہوں نے سوچا کہ اللہ کی قسم ایک مشرک شخص کی پناہ میں میرا صبح و شام بسر کرنا یقینا میرے نفس کی کسی بڑی خرابی کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ میرے ساتھی اور دینی بھائی تو اللہ تعالیٰ کی خاطر مصائب اور تکالیف کو برداشت کر رہے ہیں۔ اس پر آپ ولید بن مغیرہ کی طرف نکلے اور اسے کہا کہ اے ابو عبدالشمس! تمہاری پناہ پوری ہو گئی۔ میں تمہاری پناہ واپس کرتا ہوں۔ اس نے پوچھا اے میرے بھائی کے بیٹے! کیوں؟ کیا میری قوم میں سے کسی نے تمہیں تکلیف پہنچائی ہے؟ آپ نے کہا نہیں۔ لیکن مَیں اللہ کی پناہ کو پسند کرتا ہوں۔ اور مَیں اس کے علاوہ کسی اور کی پناہ میں نہیں آنا چاہتا۔ ولیدنے کہا کہ تم مسجد میں میرے ساتھ چلو یعنی کعبہ میں اور جس طرح مَیں نے تمہیں اعلانیہ طور پر پناہ دی تھی اسی طرح تم بھی اعلانیہ طور پر میری پناہ مجھے واپس لوٹا دو۔ حضرت عثمان بن مظعون کہتے ہیں کہ ہم مسجد پہنچے اور ولیدنے کہا کہ یہ عثمان ہے اور میری امان مجھے لوٹانے آیا ہے۔ حضرت عثمانؓ نے کہا۔ اس نے سچ کہا ہے۔ مَیں نے اسے امان کو پورا کرنے والا اور معزز پایا ہے۔ لیکن میں اللہ کے علاوہ کسی اور کی پناہ میں آنا نہیں چاہتا۔ اس لئے میں نے اس کی امان اسے لوٹا دی ہے۔ پھر حضرت عثمانؓ چلے گئے۔ لبید بن ربیعہ ایک مجلس میں قریش کے لوگوں کو اپنے اشعار سنا رہا تھا۔ حضرت عثمانؓ بن مظعون بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے، جب لبیدنے یہ کہا کہ
اَلَا کُلُّ شَیْء ٍمَا خَلَا اللّٰہَ بَاطِلٗ
یعنی اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے۔ جس پر حضرت عثمان بن مظعون نے کہا تم نے سچ کہا۔ پھر لبیدنے کہا
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٗ
اور ہر نعمت لا محالہ ختم ہونے والی ہے۔ اس پر حضرت عثمانؓ بن مظعون نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔ جنت کی نعمت کبھی زائل نہیں ہو گی۔ لبید بن ربیعہ نے کہا کہ اے قریش کے گروہ! تم میں سے کوئی بھی کبھی مجھے تکلیف نہیں دیتا تھا۔ یہ طریق تم میں کب سے شروع ہو گیا ہے۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ یہ شخص اپنے ساتھیوں سمیت ایک بیوقوف ہے جس نے ہمارے دین سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ اس لئے تُو اس کی بات سے اپنے دل میں کوئی برا نہ محسوس کر۔ حضرت عثمانؓ نے اس کا جواب دیا یہاں تک کہ معاملہ بڑھ گیا اور ایک شخص کھڑا ہوا اور آپ کی آنکھ پر مُکّا مارا اُس کی وجہ سے آپ کی آنکھ باہر نکل آئی۔ ولید بن مغیرہ پاس بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا اللہ کی قسم! اے میرے بھائی کے بیٹے! اگر تُو ایک روک والی امان میں ہوتا تو تیری آنکھ کو جو صدمہ پہنچا ہے اس سے وہ صحیح سلامت رہتی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میری درست آنکھ بھی اسی سلوک کی محتاج ہے جو اس کی ساتھی کے ساتھ ہوا ہے۔ اور اے ابو عبد الشمس! یقینا میں اس ذات کی پناہ میں ہوں جو تم سے زیادہ معزز ہے اور زیادہ قادر ہے۔ ولید بن مغیرہ نے اسے کہا کہ آؤ میرے بھائی کے بیٹے اگر تم چاہو تو میری پناہ میں واپس آ سکتے ہو۔ لیکن حضرت عثمان نے انکار کر دیا۔ (السیرۃ لابن ھشام۔ قصّۃ عثمان بن مظعون فی ردّ جوارالولید۔ صفحہ 269۔ مطبوعہ بیروت۔ ایڈیشن 2001ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عشق و محبت اور صبر کے نئے زاویے صحابہ کو دئیے۔ واقعہ رجیع میں جن صحابہ کو قید کیا گیا تھا ان میں سے ایک حضرت زید بن دثنہ بھی تھے۔ صفوان بن امیہ نے ان کو خریدا تھا تا کہ اپنے باپ کے بدلے ان کو قتل کر سکے۔ جب حضرت زید کو قتل کرنے کے لئے تنعیم لے جایا گیا تو وہاں ابو سفیان نے کہا اے زید! مَیں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تو یہ پسندنہیں کرے گا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تیری جگہ یہاں قتل کئے جائیں اور تو اپنے گھر والوں میں ہو۔ حضرت زیدنے جواب دیا اللہ کی قسم! میں تو یہ بھی پسندنہیں کرتا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ جہاں پر وہ اس وقت ہیں کوئی کانٹا چبھے اور میں اپنے گھر والوں میں بیٹھا ہوا ہوں۔ ابو سفیان نے کہا جس طرح محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے محبت کرتے ہیں ایسی محبت میں نے کسی کو کسی شخص سے کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (اسدالغابۃ۔ جلد 2صفحہ 147’’زید بن دثنۃ‘‘۔ دارالفکر۔ بیروت 2003ء)
پھر اس زمانے کی جو مائیں تھیں وہ کس طرح اپنے بچوں کو صبر کی اور حوصلہ کی تلقین کیا کرتی تھیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ جس دن حضرت عبداللہؓ بن زبیر شہید کئے گئے اُس روز وہ اپنی والدہ کے پاس تشریف لائے۔ والدہ نے حضرت زبیر سے کہا کہ اے میرے بیٹے! قتل کے خوف سے ہرگز کوئی ایسی شرط قبول نہ کر لینا جس میں تمہیں ذلت برداشت کرنی پڑے۔ اللہ کی قسم! عزت کے ساتھ تلوار کھا کر مر جانا اس سے بہتر ہے کہ ذلت کے ساتھ کوڑے کی مار برداشت کر لی جائے۔ (اسدالغابۃ۔ جلد 3۔ صفحہ139۔ ’’عبداللہؓ بن زبیر‘‘۔ دارالفکر بیروت2003ء)
اس روایت سے ماں کے عزم اور غیرتِ ایمانی کا بھی پتہ چلتا ہے جنہوں نے اپنے بیٹے کو یہ تلقین کی کہ کبھی ایمان میں کمزوری نہ دکھانا۔ قربانیوں اور صبر کے یہ عجیب نمونے ہیں جو ہمیں اسلام کی تاریخ میں عورتوں اور مردوں، نوجوانوں اور بوڑھوں ہر جگہ میں نظر آتے ہیں۔ ان نمونوں کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں خود سبقت کر کے ہرگز تلوار نہیں اٹھائی۔ بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اٹھایا۔ اور اس قدر صبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اٹھاؤ اور صبر کرو۔ ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا۔ وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دَم نہ مارا۔ ان کے بچے ان کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے۔ وہ آگ اور پانی کے ذریعے سے عذاب دئیے گئے مگر وہ شر کے مقابلے سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیر خوار بچے ہیں۔ کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تمام نبیوں کی امتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرتِ انتقام ہونے کے خدا کا حکم سن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دستکش بنا لیا جیسا کہ انہوں نے بنایا؟ کس کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گروہ ہوا ہے جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوتِ بازو اور طاقتِ مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردی اور مردانگی کے پھر خون خوار دشمن کی ایذاء اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا؟ ہمارے سید و مولیٰ اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس صبر کے زمانے میں بھی آپ کے جانثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائے۔ اور بسا اوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبرد آزما کو شکست دے دی۔ ایسا ہوا تا لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مکہ میں دشمنوں کی خون ریزیوں پر صبر کیا گیا تھا اُس کا باعث کوئی بزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ اور بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح ہونے کو تیار ہو گئے تھے۔ بے شک ایسا صبر انسانی طاقت سے باہر ہے اور گو ہم تمام دنیا اور تمام نبیوں کی تاریخ پڑھ جائیں تب بھی ہم کسی امت میں اور کسی نبی کے گروہ میں یہ اخلاقِ فاضلہ نہیں پاتے اور اگر پہلوں میں سے کسی کے صبر کا قصہ بھی ہم سنتے ہیں تو فی الفور دل میں گزرتا ہے کہ قرائن اس بات کو ممکن سمجھتے ہیں کہ اس صبر کا موجب دراصل بزدلی اور عدمِ قدرت انتقام ہو۔ مگر یہ بات کہ ایک گروہ جو درحقیقت سپاہیانہ ہنر اپنے اندر رکھتا ہو۔ اور بہادر اور قوی دل کا مالک ہو اور پھر وہ دُکھ دیا جائے اور اس کے بچے قتل کئے جائیں اور اس کو نیزوں سے زخمی کیا جائے مگر پھر بھی وہ بدی کا مقابلہ نہ کرے۔ یہ وہ مردانہ صفت ہے جو کامل طور پر یعنی تیرہ برس برابر ہمارے نبی کریم اور آپ کے صحابہؓ سے ظہور میں آئی ہے۔ اس قسم کا صبر جس میں ہر دم سخت بلاؤں کا سامنا تھا جس کا سلسلہ تیرہ برس کی دراز مدت تک لمبا تھا درحقیقت بے نظیر ہے۔ اور اگر کسی کو اس میں شک ہو تو ہمیں بتلاوے کہ گزشتہ راستبازوں میں سے اس قسم کے صبر کی نظیر کہاں ہے؟‘‘۔ فرمایا: ’’اور اس جگہ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اس قدر ظلم جو صحابہ پر کیا گیا ایسے ظلم کے وقت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے کوئی تدبیر بچنے کی ان کو نہیں بتلائی بلکہ بار بار یہی کہا کہ ان تمام دکھوں پر صبر کرو اور اگر کسی نے مقابلہ کے لئے کچھ عرض کیا تو اس کو روک دیا اور فرمایا کہ مجھے صبر کا حکم ہے۔ غرض ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبر کی تاکید فرماتے رہے جب تک کہ آسمان سے حکمِ مقابلہ آ گیا۔ اب اس قسم کے صبر کی نظیر تم تمام اول اور آخر کے لوگوں میں تلاش کرو پھر اگر ممکن ہو تو اس کا نمونہ حضرت موسیٰ کی قوم میں سے یا حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے دستیاب کر کے ہمیں بتلاؤ‘‘۔ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد۔ روحانی خزائن۔ جلد17۔ صفحہ 11-10)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ہمیشہ صبر اور استقامت دکھانے کی توفیق دیتا چلا جائے۔ خاص طور پر ان جگہوں پر، ان ممالک میں، پاکستان میں اور بعض اور جگہوں پر جہاں احمدیوں پر بڑی سختیاں کی جا رہی ہیں، ان کا جینا دوبھر کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر اور استقامت عطا فرمائے اور ان کے دشمنوں کی بھی اپنی خاص قدرت دکھاتے ہوئے پکڑ کے سامان پیدا فرمائے۔ ہمارا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کو جذب کرنے والا ہو اور ہم اس کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں۔