خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ جنوری 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث قدسی ہے کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْا َفْلَاک۔ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر مَیں تجھے پیدا نہ کرتا تو دنیا پیدا نہ کرتا۔ یہ زمین و آسمان پیدا نہ کرتا۔ (الموضوعات الکبریٰ لِمُلَّا علی القاری صفحہ 194حدیث نمبر754 مطبوعۃ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)
گو مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ اس حدیث کی صحت پر اعتراض کرتا ہے لیکن ہمیں اس زمانہ کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عاشقِ صادق نے اس حدیث کی صحت کا علم دیا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی مقام کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔ آپؐ تمام رسولوں سے افضل ہیں۔ آپؐ تا قیامت تمام زمانوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ آپؐ کو خدا تعالیٰ نے یہ مقام بخشا ہے کہ آپ کی اتباع سے انسان اللہ تعالیٰ کی محبت پاتا ہے۔ آپؐ کو وہ مہرِ نبوت عطا ہوئی ہے جو تمام سابقہ انبیاء پر ثبت ہو کر ان انبیاء کے نبی ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ آپؐ کو وہ مقامِ خاتم النبیین ملا ہے جس کے اُمّتی کو بھی نبوت کا درجہ ملا اور آپؐ کا اُمّتی اور عاشق صادق ہونا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی کو نبوت کا مقام دلا گیا۔ آپؐ کا قربِ خدا وندی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یوں فرمایا ہے کہ دَنٰی فَتَدَلّٰی(النجم: 9)۔ یہ اللہ تعالیٰ سے قرب کی انتہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’(یہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر کی طرف ہو کر نوعِ انسان کی طرف جھکا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال اعلیٰ درجہ کا کمال ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی اور اس کمال میں آپؐ کے دو درجے بیان فرمائے ہیں۔ ایک صعود (یعنی بلندی کی طرف جانا)۔ دوسرا نزول۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف تو آپ ؐ کا صعود ہوا یعنی خدا تعالیٰ کی محبت اور صدق و وفا میں ایسے کھینچے گئے کہ خود اس ذاتِ اقدس کے دُنُوّ کا درجہ آپؐ کوعطا ہوا۔ دُنُوّ، اَقْرَب سے زیادہ اَبْلَغ ہے۔ اس لئے یہاں یہ لفظ اختیار کیا‘‘۔ (یعنی دُنُوّ، قرب کی نسبت زیادہ انتہائی اور وسیع معنی دیتا ہے۔ قرب میں تو صرف قربت کا تصور پیدا ہوتا ہے لیکن دُنُوّ میں اتنا قرب ہے، یعنی کہ ایک ہو جانا۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ) جب اﷲ تعالیٰ کے فیوضات اور برکات سے آپؐ نے حصہ لیا تو پھر بنی نوع پر رحمت کے لئے نزول فرمایا۔ یہ وہی رحمت تھی جس کا اشارہ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (الانبیاء: 108) میں فرمایا ہے(کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن بنا کر)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم قاسم کا بھی یہی سرّ ہے کہ آپ اﷲ تعالیٰ سے لیتے ہیں اور پھر مخلوق کو پہنچاتے ہیں۔ پس مخلوق کو پہنچانے کے واسطے آپ ؐ کا نزول ہوا۔ اس دَنٰی فَتَدَلّٰی میں اسی صعود اور نزول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عُلوّ مرتبہ کی دلیل ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 356 مطبوعہ ربوہ)
پس آپؐ کے نزول سے جو نئے زمین و آسمان پیدا ہوئے، جس میں آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے انتہائی درجہ کا قرب پا کر انسانوں کی نجات اور خدا تعالیٰ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے حضور شفاعت کا مقام بھی حاصل کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن کا مقام عطا فرمایا۔ آپؐ سے محبت کو اپنی محبت قرار دیا۔ یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ یہ افلاک بھی خدا تعالیٰ کے آپ سے خاص پیار کے نتیجہ میں آپؐ کے لئے پیداکئے گئے۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ آپ کی علُوِّ شان کے لئے ہم اس حدیثِ قدسی کو صحیح تسلیم نہ کریں۔ پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کرآنحضرت ﷺ کے اس مقام کو پہچانا ہے۔ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْا َفْلَاک میں کیا مشکل ہے؟ قرآنِ مجید میں ہے خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْا َرْضِ جَمِیْعًا (البقرۃ: 30)، زمین میں جو کچھ ہے وہ عام آدمیوں کی خاطر ہے۔ تو کیا خاص انسانوں میں سے ایسے نہیں ہو سکتے کہ ان کے لئے افلاک بھی ہوں؟…‘‘۔ (اگر زمین میں سب کچھ عام انسانوں کے لئے ہو سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے خاص آدمیوں کے لئے افلاک کی پیدائش بھی کر سکتا ہے)۔ فرمایا کہ ’’… دراصل آدم کو جو خلیفہ بنایا گیا تو اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ وہ اس مخلوقات سے اپنے منشاء کا خدا تعالیٰ کی رضامندی کے موافق کام لے۔ اور جن پر اس کا تصرف نہیں وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے انسان کے کام میں لگے ہوئے ہیں، سورج، چاند، ستارے وغیرہ‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 213۔ جدید ایڈیشن۔ مطبوعہ ربوہ)
یعنی جس پر انسان کا تصرف نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ سب انسان کے کام پر لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ چیزیں سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کام کر ر ہی ہیں۔ ماضی میں بھی کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شق القمر کا واقعہ ہوا۔ یہ ایک معجزہ تھا۔ دنیا نے دیکھا۔ اس کی تفصیلات اس وقت بیان نہیں کروں گا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی بات بیان فرمائی ہے اور ثابت فرمایا ہے کہ یہ معجزہ ہوا۔ (سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 60حاشیہ)
اور ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ ہو سکتا ہے یہ کسی قسم کے گرہن کی صورت ہو۔ (مأخوذ از نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 506) جو دوسروں کو بھی نظر آئی۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مہدی کے لئے جو پیشگوئی فرمائی کہ فلاں مہینے میں اور فلاں دن میں سورج اور چاند کو گرہن لگے گا۔ (سنن الدارقطنی کتاب العیدین باب صفۃ صلٰوۃ الخسوف والکسوف وھیئتھما نمبر1777مطبوعۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
یہ بھی افلاک کی، کائنات کی جو چیزیں ہیں ان کو تابع کرنے والی بات ہے۔ اور اُس زمانہ میں جب یہ گرہن لگا تواُس زمانہ کے اخبارات بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ واقعہ ہوا۔
بہر حال اس ساری تمہید سے یا بیان سے میرا مقصد آپؐ کے بلند مقام کو بیان کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بے شمار معجزات ہمیں روایات میں ملتے ہیں جن سے آپؐ کے مرتبہ اور خدا تعالیٰ کے آپ سے خاص سلوک کا پتہ چلتا ہے جس کی مثالیں پہلے کبھی نہیں ملتیں، لیکن ان سب باتوں کے باوجود کافروں کے اس مطالبے پر جو انہوں نے آپ سے کیا کہ ہمارے سامنے آپ آسمان پر چڑھیں اور کتاب لے کر آئیں جسے ہم پڑھیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًارَّسُوْلًا (بنی اسرائیل: 94)۔ ان کو کہہ دے کہ میرا ربّ ان باتوں سے پاک ہے۔ مَیں تو صرف ایک بشر رسول ہوں۔ پس آپ کا مقام گو سب انسانوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ آپ انسانِ کامل ہیں، لیکن جہاں تک بشر رسول ہونے کا سوال ہے، آپﷺ سے بھی خدا تعالیٰ نے وہی سلوک فرمایا جو باقی رسولوں سے فرمایا۔ یعنی جہاں، جس طرح باقی رسولوں کی اُن کی قوموں نے مخالفت کی، آپ سے بھی کی اور آپ کیونکہ تمام زمانوں اور تمام قوموں کے لئے ہیں اس لئے آپ کی مخالفت اُس زمانہ میں آپ کی زندگی میں بھی کی گئی اور اب بھی کی جا رہی ہے اور کی جاتی رہے گی۔ باقی انبیاء کا بھی استہزاء ہوا تو آپ کا بھی استہزاء ہوا اور کیا جا رہا ہے۔ لیکن سعید فطرت لوگ پہلے بھی انبیاء کو مانتے رہے۔ آپؐ کو بھی آپؐ کے زمانہ میں مانا بلکہ سب سے زیادہ مانابلکہ آپ کی زندگی میں عرب میں پھیلا اور عرب سے باہر قریب کے علاقوں تک اسلام پھیل گیا۔ اور پھر ایک دنیا نے دیکھا کہ تمام دنیا میں پھیل گیا اور آج تک پھیلتا چلا جا رہا ہے اور ایک وقت آئے گا جب دنیا کی اکثریت اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ہو گی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمّہ تبلیغ کا کام اللہ تعالیٰ نے لگایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِکَ (المائدۃ: 68) تیرے ربّ کی طرف سے جو کلام تجھ پر اتارا گیا ہے، اسے لوگوں تک پہنچا۔ پس آپ نے حسن و احسان سے، پیار سے، عفو سے، صبر سے، دعائیں کرتے ہوئے یہ پیغام پہنچایا۔ غیر تو خیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام لگاتے ہی ہیں کہ اسلام تلوار سے پھیلالیکن بعض مسلمان علماء، یا علماء کہلانے والے بھی یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اسلام جنگوں کے ذریعہ سے پھیلا۔ حالانکہ ہجرت کے بعد جب مکّہ سے مدینہ ہجرت ہوئی ہے اور پھر جب اگلے سال میں جنگِ بدر ہوئی ہے تو اس کے بعد صلح حدیبیہ تک مختلف جنگیں ہوتی رہیں، جس میں زیادہ سے زیادہ جنگِ احزاب میں مسلمان شریک ہوئے تھے اور اُن کی تعداد تین ہزار تک تھی۔ صلح حدیبیہ کے وقت پندرہ سو افراد کا قافلہ تھا جو آپ کے ساتھ مکّہ گیا تھا۔ صلح حدیبیہ تک یہ تقریباً پانچ سال کا عرصہ بنتا ہے۔ لیکن صلح حدیبیہ سے لے کر فتح مکہ تک پونے دو سال میں جو لشکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکّہ گیا، اُس کی تعداد دس ہزار تھی۔ پس یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ امن کے جو دو سال تھے، ان میں اسلام زیادہ پھیلا ہے۔ اسی طرح امن اور پیار کی تبلیغ کے بہت سے واقعات ہیں۔ عفو کے بہت سے واقعات ہیں جس نے لوگوں کے دلوں پر قبضہ کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو، درگزر اور شفقت کے سلوک کے واقعات گزشتہ خطبات میں بھی مَیں بیان کر چکا ہوں۔ آپؐ نے یہ سب کیوں کیا؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ یہ آپؐ نے کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ بے شک یہ میرا پیارا ترین ہے اور قریب ترین ہے مگر انبیاء سے لوگوں کے سلوک کا جو طریق چلا آ رہا ہے وہ اس سے بھی ہو گا۔ آپؐ کو فرمایا اے نبی! تجھ سے بھی (ایسا) ہو گا لیکن توُ نے صبر، تحمل، برداشت، عفو، مستقل مزاجی سے تبلیغ کا یہ کام کرتے چلے جانا ہے۔ سوائے اس کے کہ کوئی جنگ ٹھونسے، حتی الوسع سختی سے پرہیز کرنا ہے۔ ہرزہ سرائیوں پر، بیہودہ گوئیوں پر، ایذاء دہی پر صبر کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے چلے جانا ہے کہ اسلام کا محبت اور امن کا پیغام اسی طرح پھیلنا ہے۔ قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ نے ان سب باتوں کو کس طرح بیان فرمایا ہے اور کیا نصیحت فرمائی ہے؟ وہ مَیں بیان کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ قؔ میں فرماتا ہے کہ فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الغُرُوْبِ (سورۃ ق: 40) پس صبر کر اس پر جو وہ کہتے ہیں اور اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر، سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اور غروب سے پہلے بھی۔
پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دلائی کہ یہ طعن و تشنیع جو دشمن کرتا ہے وہ تو ہونی ہے، آپ صبر کے ساتھ اسے برداشت کریں۔ قرآنِ کریم ان پیشگوئیوں سے بھرا پڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی غالب آئیں گے۔ آخر کار کامیاب وہی ہوتا ہے جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآنِ کریم کے ساتھ، اس تعلیم کے ساتھ نصیحت کرتا چلا جا، تنبیہ کرتا چلا جا۔ پس جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس نصیحت اور تنبیہ سے ڈر کر اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والا بن جائے گا۔
پھر خدا تعالیٰ نے دشمن کی زبان درازیوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا رویہ اختیار کرنے کا ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاصْبِرْ کََمَا صَبَرَ اُوْلُوالْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَھُمْ۔ کَاَنَّھُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوْعَدُوْنَ لَمْ یَلْبَثُوْآ اِلَّا سَاعَۃً مِّنْ نَّھَارٍ۔ بَلٰغٌ۔ فَھَلْ یُھْلَکَ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ (احقاف: 36) پس صبر کر جیسے اولوا العزم رسولوں نے صبر کیا اور ان کے بارہ میں جلد بازی سے کام نہ لے۔ جس دن وہ اسے دیکھیں گے جس سے انہیں ڈرایا جاتا ہے تو یوں لگے گا جیسے دن کی ایک گھڑی سے زیادہ وہ انتظار میں نہیں رہے۔ پیغام پہنچایا جا چکا ہے۔ پس کیا بدکرداروں کے سوا بھی کوئی قوم ہلاک کی جاتی ہے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو نظامِ نو آپ کی آمد سے جاری ہونا تھا وہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے وہ جاری ہو چکا ہے۔ لیکن کامیابیوں کا بھی ایک وقت ہے۔ اس لئے صبر اور برداشت سے کام لینا چاہئے۔ اور اے رسول!صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے بھی اور آپ کے ماننے والوں نے بھی اسی صبر و برداشت سے کام لینا ہے کہ یہی اولوالعزم نبیوں اور ان کے ماننے والوں کا شیوہ ہے۔ یہ سختیاں، مشکلات اور ان پر برداشت اور صبر ہی کامیابیاں دلانے کا باعث بنتا ہے اور جب کامیابیاں آئیں گی، دشمن کی پکڑ ہو گی تو تب وہ سوچے گا کہ مَیں کیا کرتا رہا، تب اسے خیال آئے گاکہ یہ دنیاوی زندگی جسے میں سب کچھ سمجھتا رہا یہ تو ایک گھڑی یا ایک گھنٹے سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی۔ پس جہاں تک انبیاء کے مخالفین کی پکڑ کا سوال ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑھ کریہی سلوک دکھایا اور آپ کے دشمنوں کو ایسا کچلا اور پیسا کہ ان کے نام و نشان کومٹا دیا۔ پس کہاں گئے وہ آپ کے بڑے بڑے دشمن جو سردارانِ مکّہ کہلاتے تھے۔ کہاں گیا وہ بادشاہ جس نے آپ کے پکڑنے کے لئے اپنے سپاہی بھیجے تھے۔ پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تا قیامت ہے تو خدائی وعدے کے مطابق آپ کے دشمنوں کی پکڑ بھی ہر زمانے میں نشان بنتی چلی جائے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس کس طرح تنگ کیا۔ آپ کے کیا کیا نام رکھے۔ آپ کو کس طرح بدنام کرنے کی کوشش کی اس بارہ میں قرآنِ کریم ہمیں بتاتا ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقَالُوْا یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ اِنَّکَ لَمَجْنُوْنٌ (الحجر: 7) اور انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر ذکر اتارا گیا ہے، یقینا تو مجنون ہے۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر استہزاء ہے بلکہ کھلی کھلی ایک گالی ہے۔ مکّہ میں یہ سورۃ نازل ہوئی اور اس وقت وہاں کی تقریباً ساری آبادی آپ سے یہ سلوک کرتی تھی، سوائے چند ایک نیک فطرت لوگوں کے جو ایمان لے آئے تھے۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ فتح کرتے ہیں تو سب سے محبت اور شفقت کا سلوک کرتے ہیں۔ بلکہ جیسا کہ میں گزشتہ خطبہ میں بتا چکا ہوں۔ یہ لوگ صرف گالیاں دینے والے ہی نہیں تھے۔ یہ لوگ ظلم کی انتہا کرنے والے تھے۔ زبردستی جنگیں ٹھونسنے والے تھے۔ لیکن آپ نے ہر ایک سے شفقت کا سلوک فرمایا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا تھا کہ خود مَیں بدلے لوں گا۔
پھر قرآنِ کریم میں سورۃ فرقان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِنْ ھٰذَا اِلَّآ اِفْک نِ افْتَرٰہُ وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ فَقَدْ جَآءُ وْا ظُلْمًا وَّزُوْرًا (الفرقان: 5) اور جن لوگوں نے کفر کیا انہوں نے کہا یہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں جو اس نے گھڑ لیا ہے اور اس بارہ میں اس کی دوسرے لوگوں نے مدد کی ہے۔ پس یقینا وہ سراسر ظلم اور جھوٹ بنانے والے ہیں۔ گو اس آیت میں بڑے وسیع مضمون بیان ہوئے ہیں لیکن یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ آپؐ کو دعویٰ کے بعد وہی لوگ نعوذ باللہ جھوٹا کہنے لگ گئے جو آپؐ کو سچا کہتے تھے اور ان کی زبانیں اس سے نہیں تھکتی تھیں۔ آپؐ کی سچائی اور امانت کے قائل تھے۔ پھر آپﷺ کے بارہ میں ظالموں کی ہرزہ سرائی کا قرآنِ کریم میں یوں ذکر آتا ہے۔ فرمایا کہ وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا (الفرقان: 9) اور ظالم کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے آدمی کے پیچھے چل رہے ہو جو سحر زدہ ہے۔
پھر ایک آیت میں کافروں کی بیہودہ گوئی کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَعَجِبُوْا اَنْ جَآءَ ھُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْھُمْ وَقَالَ الْکَافِرُوْنَ ھٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ (سورۃ صٓ: 5) اور انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے کوئی ڈرانے والا آیا، اور کافروں نے کہا یہ سخت جھوٹا جادوگر ہے۔
پس کبھی جھوٹا، کبھی جادوگر، کبھی کچھ اور کبھی کچھ اور کبھی کسی نام سے یہ کافر آپؐ کوپکارتے رہے اور آپؐ کے بارہ میں باتیں کہتے رہے اور مختلف رنگ میں استہزاء کرتے رہے۔ لیکن آپؐ کو صبر اور حمد اور دعا کی ہی اللہ تعالیٰ نے تلقین فرمائی۔ اور یہی تلقین اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی فرمائی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَذًی کَثِیْرًا۔ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ (آل عمران: 187) اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور ان سے جنہوں نے شرک کیا بہت تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقینا ایک بڑا ہمت کا کام ہے۔
اب ایک مومن کے لئے، ایک ایسے شخص کے لئے جو اپنے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے، اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہے، اُس کے لئے اس سے زیادہ دل آزاری کی اور تکلیف دہ بات کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے آقا کے بارے میں ایسی بات سنے جس سے آپ کی شان میں ہلکی سی بھی گستاخی ہوتی ہو۔ کوئی کسی صورت بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ ایسی باتیں تم سنو تو صبر کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مَیں نے گزشتہ خطبہ میں مثال دی تھی کہ کس طرح آپ نے ردّعمل دکھایا۔ تو حقیقی ردّعمل یہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دکھایا لیکن اس کے لئے بھی تقویٰ شرط ہے۔ تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنے عمل اور دعاؤں سے جو اس کا جواب دو گے تو وہی اس محبت کا صحیح اظہار ہے۔ اور جب ہم دشمنوں کی باتیں سن کے تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی دعاؤں سے خدائے ذوالانتقام کے آگے جھکیں گے تو ان دشمنانِ اسلام کے بد انجام کو بھی ہم دیکھیں گے۔ لیکن ہمارا اپنا تقویٰ شرط ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے آپﷺ اور قرآنِ کریم پر اعتراض کرنے والوں کے جواب میں قرآنِ کریم میں جو فرمایا ہے وہ یہی ہے کہ خود ہی اللہ تعالیٰ بدلے لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ایک جگہ دشمنوں کو جو جواب دیا وہ یہ ہے کہ سورۃ الحاقۃ میں فرمایا اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ۔ وَّمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ۔ قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ۔ وَلَا بِقَوْلِ کَاھِنٍ۔ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ۔ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الحاقۃ: 41تا44) یقیناً یہ عزت والے رسول کا قول ہے اور یہ کسی شاعر کی بات نہیں ہے۔ بہت کم ہیں جو تم ایمان لاتے ہو۔ اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے۔ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔ ایک تنزیل ہے تمام جہانوں کے ربّ کی طرف سے۔
تو اللہ تعالیٰ نے ان سب استہزاء کرنے والوں اور آپؐ کے مختلف نام رکھنے والوں اور نعوذ باللہ جھوٹا اور کذّاب کہنے والوں کو یہ جواب دیا۔ پس یہ ہے جواب آپؐ پر الزام لگانے والوں اور استہزاء کرنے والوں کے لئے لیکن اس بات کے باوجود کہ خدا تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو صبر اور دعا کی تلقین فرمائی ہے، خدا تعالیٰ نے خود دشمن کو چھوڑا نہیں ہے۔ صرف یہ جواب نہیں دے دیا کہ نہ وہ کاہن ہے، نہ وہ جھوٹا ہے اور نہ جو تم الزامات لگا رہے ہو وہ تمہارے صحیح الزامات ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِ یْنَ(الحجر: 96) تو اس نے پھر دشمنانِ اسلام سے اس دنیا میں یا مرنے کے بعد بدلے بھی لئے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰھُمُ النَّارُ۔ کُلَّمَآ اَرَادُوْآ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَا اُعِیْدُوْا فِیْھَا وَقِیْلَ لَھُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ۔ وَلَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْا َدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْا َکْبَرِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْھَا۔ اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ (السجدہ: 21تا 23)اور جہاں تک اُن لوگوں کا تعلق ہے جنہوں نے نافرمانی کی تو ان کا ٹھکانہ آگ ہے۔ جب کبھی وہ ارادہ کریں گے کہ وہ اس سے نکل جائیں تو اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اس آگ کا عذاب چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ اور ہم یقینا انہیں بڑے عذاب سے ورے چھوٹے عذاب میں سے کچھ چکھائیں گے۔ (بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب میں سے کچھ چکھائیں گے) تا کہ ہو سکے تو وہ ہدایت کی طرف لوٹ آئیں۔ اور کون اس سے زیادہ ظالم ہو سکتا ہے جو اپنے ربّ کی آیات کے ذریعے اچھی طرح نصیحت کیا جائے، پھر بھی ان سے منہ موڑ لے۔ یقینا ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ جو اپنے پیارے پر ہر وقت نظر رکھنے والا ہے، اگر دشمن دشمنی سے باز نہ آئے تواسے بغیر انتقام کے نہیں چھوڑتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی تنبیہوں سے نہ ڈریں، اگر اس دنیا میں اللہ تعالیٰ لوگوں کی اصلاح کے لئے جو اپنے بعض جلوے دکھاتا ہے اُن سے نصیحت حاصل نہ کریں تو پھر اللہ تعالیٰ بغیر انتقام کے نہیں چھوڑتا۔ پھر ضرور سزا دیتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ اختیار میرے پاس ہی ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلاً۔ وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُوْلِی النَّعْمَۃِ وَمَھِّلْھُمْ قَلِیْلًا۔ اِنَّ لَدَیْنَا اَنْکَالًا وَّجَحِیْمًا۔ وَّطَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّعَذَابًا اَلِیْمًا (المزّمل: 11تا14) اور صبر کر اس پر جو وہ کہتے ہیں اور ان سے اچھے رنگ میں جدا ہو جا، اور مجھے اور نازونعم میں پلنے والے مکذبین کو الگ چھوڑ دے اور انہیں تھوڑی سی مہلت دے۔ یقینا ہمارے پاس عبرت کے کئی سامان ہیں اور جہنم بھی ہے۔ اور گلے میں پھنس جانے والا ایک کھانا ہے اور دردناک عذاب بھی۔
پس جہاں آپ کو صبر کی تلقین فرمائی وہاں دنیاداروں کے متعلق فرمایا کہ دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں نے ان لوگوں کو کافر بنا دیا ہے، اس کفر کی انہیں سزا ملے گی کیونکہ یہ حد میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اور سزا بھی ایسی ہو گی جو دوسروں کے لئے عبرت کا نشان ہو گی۔ پس یہ عبرت کا نشان بنانے کا معاملہ بھی خدا تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے۔ اور نبی اور ماننے والوں کو صبر کرنے اور بغیر جھگڑے کے ان کی بیہودہ گوئیوں کو سن کر علیحدہ ہو جانے کا ارشاد فرمایا۔
پھر خدا تعالیٰ خود آپ سزا دینے کا ذکر سورۃ العلق میں اس طرح فرماتا ہے کہ اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یَنْھٰی۔ عَبْدًا اِذَا صَلّٰی۔ اَرَءَ یْتَ اِنْ کَانَ عَلَی الْھُدٰی۔ اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوٰی۔ اَرَءَ یْتَ اِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی۔ اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی۔ کَلَّا لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاِصَیۃِ۔ نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ۔ فَلْیَدْعُ نَادِیَہٗ۔ سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ (العلق: 10تا 19) کیا تو نے اس شخص پر غور کیا جو روکتا ہے ایک عظیم بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے۔ کیا تُو نے غور کیا کہ اگر وہ ہدایت پر ہوتا یا تقویٰ کی تلقین کرتا۔ کیا تُو نے غور کیا کہ اگر اس نے پھر جھٹلا دیا اور پیٹھ پھیر لی۔ پھر کیا وہ نہیں جانتا کہ یقینا اللہ دیکھ رہا ہے۔ خبردار! اگر وہ باز نہ آیا تو ہم یقینا اسے پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر کھینچیں گے، جھوٹی خطا کار پیشانی کے بالوں سے۔ پس چاہئے کہ وہ اپنی مجلس والوں کو بُلا دیکھے۔ ہم ضرور دوزخ کے فرشتے بلائیں گے۔
پس اللہ تعالیٰ کا سزادینے کاطریق اس طرح ہے۔ آج اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اُس عظیم بندے کی پیروی کرتے ہوئے جو لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور جو ان کو نمازیں پڑھنے سے روکتے ہیں، وہ کون ہیں؟ پس یہ اُن لوگوں کے لئے بھی بڑا خوف کا مقام ہے جو کسی کو عبادت کرنے سے روکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کی خاطر جب زمین و آسمان پیدا کئے ہیں توپھر اس سے استہزاء کرنے والوں اور کفر میں بڑھنے والوں کو اور تکلیف پہنچانے والوں پر لعنت ڈالتے ہوئے فرماتا ہے کہ مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مَُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَیًّا م بِاَلْسِنَتِھِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ۔ وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ وَلٰکِنْ لَّعَنَھُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا (النساء: 47) یہ سورۃ نساء کی سینتالیسویں آیت ہے۔ فرمایا کہ یہود میں سے ایسے بھی ہیں جو کلمات کو انکی اصل جگہوں سے بدل دیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی۔ اور بات سُن اس حال میں کہ تجھے کچھ چیز سنائی نہ دے۔ اور وہ اپنی زبانوں کو بَل دیتے ہوئے اور دین میں طعن کرتے ہوئے رَاعِنَا کہتے ہیں۔ اور اگر ایسا ہوتا کہ وہ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور سُن اور ہم پر نظر کر تو یہ ان کے لئے بہتر اور سب سے زیادہ مضبوط قول ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کر دی ہے۔ پس وہ ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑا۔
پس یہ لعنت ہے جو اُن لوگوں پر پڑے گی جو یہ راستہ اختیار کریں گے کہ رسول کی توہین کے مرتکب ہوں۔ پھر یہودیوں کے یہ کہنے پر کہ ہم اتنا کچھ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کر رہے ہیں۔ یعنی کہ جو بھی تکلیفیں پہنچا سکتے ہیں اور جو باتیں بنا سکتے ہیں اور جو منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں۔ اگر یہ رسول سچا ہے تو خدا تعالیٰ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نُھُوْا عَنِ النَّجْوٰی ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا نُھُوْا عَنْہُ وَیَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ۔ وَاِذَا جَآئُ وْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ وَیَقُوْلُوْنَ فِی اَنْفُسِھِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ۔ حَسْبُھُمْ جَھَنَّمُ۔ یَصْلَوْنَھَا فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ (المجادلہ: 9) کیا تُو نے ان کی طرف نظر نہیں دوڑائی جنہیں خفیہ مشوروں سے منع کیا گیا؟ مگر وہ پھر بھی وہی کچھ کرنے لگے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا۔ اور وہ گناہ، سرکشی اور رسول کی نافرمانی کے متعلق باہم مشورے کرتے ہیں اور جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تو اس طریق پر تجھ سے خیر سگالی کا اظہار کرتے ہیں جس طریق پر اللہ نے تجھ پر سلام نہیں بھیجا۔ اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں اس پر عذاب کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں۔ اُن سے نپٹنے کو جہنم کافی ہے۔ وہ اس میں داخل ہوں گے۔ پس کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔
بعض حدیثوں سے بھی ثابت ہے کہ یہ یہودی بعض دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں آتے تھے یا ویسے ملتے تھے تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کی بجائے اَلسَّامُ عَلَیْکَ کہہ کر نعوذ باللہ آپ کی موت کی خواہش کیا کرتے تھے، جیسا کہ پہلے بھی مَیں گزشتہ خطبوں میں حدیث بیان کر چکا ہوں۔ اس پر بعض اوقات صحابہ کہتے کہ ہم اسے قتل کر دیں تو آپؐ فرماتے: نہیں۔ (بخاری کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین … باب اذا عرض الذمی وغیرہ …حدیث نمبر 6926) اس لئے کہ ان کی بیہودہ گوئیوں کا معاملہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے۔ جہنم میں ڈال کر جو سزا خدا تعالیٰ نے دینی ہے وہ اس دنیاوی سزا کی طرح نہیں ہو سکتی۔ پس جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں بیشک آپؐ خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ پیارے ہیں۔ تا قیامت آپ کا سلسلہ نبوت جاری ہے۔ تمام انبیاء سے آپؐ افضل ہیں لیکن اس کے باوجود تمام رسولوں کی طرح آپ کو دشمنانِ دین کی مخالفتوں اور ہر قسم کے نقصان پہنچانے کی تدبیروں کا سامنا کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ہر موقع پر یہی کہا کہ اولوالعزم انبیاء کی طرح صبر اور دعا سے کام لے۔ یہی آپ کے ماننے والوں کو کہا گیا۔ اور خود بھی بیان فرمایا کہ ان دشمنانِ دین کے استہزاء، بیہودہ گوئیوں اور خباثتوں کا میں کس کس رنگ میں بدلہ لوں گا۔ بعض کا اس دنیا میں اور بعض کا مرنے کے بعد جہنم کی آگ میں ڈال کر۔ ہاں اگر دشمن جنگ کرے اور قوم کا امن و سکون برباد کرے تو پھر اس سے مقابلے کی اجازت ہے۔ کیونکہ اس مقابلہ کی اجازت نہ دی گئی تو مذاہب کے مخالفین ہر مذہب کے ماننے والے کا چین اور سکون برباد کر دیں گے۔
اس دنیا میں کس طرح خدا تعالیٰ آپ کی توہین کے بدلے لیتا رہا، اس کے بھی بہت سے واقعات ہیں۔ ایک بدلے کا اعلان قرآنِ کریم میں یہ کہہ کر فرمایا کہ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَّب(اللھب: 2) کہ ابو لہب کے دونوں ہاتھ شَل ہو گئے۔ جب آپ نے پہلے دعویٰ کیا اور اس وقت جب اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کے لئے اکٹھا کیا تو اس شخص نے جو آپ کا چچا تھا بڑے نازیبا الفاظ آپ کے بارہ میں استعمال کئے تھے۔ (بخاری کتاب التفسیر باب سورۃ تبت یدا ابی لہب… حدیث نمبر 4971) تو قادر و تواناخدا جو بڑے سچے وعدوں والا ہے اُس نے اس کو کس طرح پکڑا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک سفر کے دوران اس پر بھیڑیوں نے حملہ کر دیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو تاقیامت خدا کے پیارے اور افضل ہیں۔ آپ سے کئے گئے خدا تعالیٰ کے وعدے بھی ہمیشہ پورے ہوتے رہیں گے۔ ہر زمانے میں دشمنانِ اسلام اپنے انجام کو پہنچتے رہے ہیں اور پہنچتے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان کے نظارے اور خدا تعالیٰ کا آپؐ سے پیار کا سلوک دکھاتا چلا جائے۔ اور ہم حقیقی رنگ میں قرآنی تعلیم کو بھی اپنے اوپر لاگو کرنے والے ہوں اور ایسے مومن بننے کی کوشش کریں جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت سے توقع کی ہے۔