خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍ مارچ 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِی ہٰذَا الْقُرْآنِِ لِیَذَّکَّرُوْا۔ وَمَا یَزِیْدُہُمْ اِلَّا نُفُوْرًا (بنی اسرائیل: 42)

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ وَ لَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا (بنی اسرائیل: 83)

مخالفینِ اسلام کو اسلام، قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے دلوں کے بغض اور کینے نکالنے کا اُبال اٹھتا رہتا ہے۔ گذشتہ دنوں پھر یہ خبر تھی اور بعض مسلمان ممالک میں اس خبر کا بڑا سخت ردّ عمل ظاہر ہوا اور ہو رہا ہے۔ جب ایک بدفطرت امریکی پادری نے جس نے ستمبر 2010ء میں قرآنِ کریم کے بارہ میں بیہودہ گوئی اور دریدہ دہنی کی تھی اور قرآنِ کریم کو جلانے کی باتیں کی تھیں۔ اُس وقت تو وہ کسی دباؤ کے تحت یہ ظالمانہ کام نہیں کر سکا تھا۔ لیکن دو دن پہلے اُس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر قرآنِ کریم کو جلانے کی مذموم حرکت کی ہے۔ اور اپنی اس ناپاک حرکت کو جسٹیفائی (Justify) اس طرح کرتا ہے، یہ ڈھکوسلا اس نے بنایا ہے کہ ایک جیوری بنائی جس کے بارہ ممبر تھے اور اُس میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے لئے فریق کے طورپر ایک مسجد کے امام کو بھی بلایا گیا کہ قرآنِ کریم کا دفاع کرو۔ اور چھ گھنٹے کے بعد جیوری نے فیصلہ کیا کہ نعوذ باللہ قرآنِ کریم شدت پسندی اور دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اس لئے اس کو جلایا جائے۔ خود ہی فریق ہیں اور خود ہی جج ہیں بلکہ کہنا چاہئے کہ خود ہی مجرم ہیں اور خود ہی منصف ہیں۔ بہر حال اس پادری کی امریکہ میں کوئی ایسی حیثیت نہیں ہے کہ بہت ساری اُس کی following ہو، بہت سارے اُس کے پیچھے چلنے والے ہوں، ماننے والے ہوں۔ چند سو لوگ شاید اُس کے چرچ میں آنے والے ہیں۔ وہ سستی شہرت کے لئے یہ ظالمانہ حرکتیں کر رہا ہے۔ اخباروں اور میڈیا نے اس حرکت کو پھر اٹھایا ہے۔ اصل میں تو میڈیا ہی ہے جو اس کو ہوا دے رہا ہے اور بجائے اس کے کہ امن کی کوشش کرے فساد کو ہوا دی جا رہی ہے۔ صرف اس لئے کہ اُن کی خبر دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچے اور اس طرح اُس اخبار کی یاجو بھی سائٹ وغیرہ ہے یا چینل ہے اُس کی مشہوری ہو۔ لیکن تبصرہ کرنے والے کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ میڈیا نے اس کی خبر دی ہے اِس خبر کو لوگوں کی طرف سے اتنی توجہ نہیں ملی۔ انہوں نے مختلف لوگوں سے انٹرویو لئے۔ امریکہ میں Council on American Islamic Relations ایک تنظیم ہے۔ اُس کے نمائندے سے بھی پوچھا تو اُس نے کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ خبیث شخص ہے۔ اس کام کے کرنے سے یہ پندرہ منٹ کی شہرت توشاید میڈیا میں حاصل کر لے لیکن ہم اگر کچھ بیان دیں گے تو اس سے اِس کو چند منٹ کی اور شہرت مل جائے گی اور ہم نہیں چاہتے کہ اس کو مزید کسی قسم کی شہرت ملے۔ بہر حال اُن کا اپنا خیال ہے۔

اس قسم کی ظالمانہ اور خبیثانہ حرکتیں جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیشہ سے اسلام کے خلاف ہوتی رہی ہیں اور ایسی حرکت چاہے کوئی شخص اپنے چند لوگوں کے درمیان بیٹھ کر کر رہا ہو یا پبلک میں کر رہا ہو، ایک حقیقی مومن کو، جب اس کے علم میں یہ بات آتی ہے تو اس سے تکلیف پہنچتی ہے۔ لیکن ایک مومن کا اس تکلیف پہنچنے پر یہ ردّعمل نہیں ہوتا کہ کسی کے سر کی قیمت لگا دو جس طرح بعض تنظیموں نے اُس کے سر کی قیمت لگائی ہے یا جلوس نکال کر توڑ پھوڑ کی جائے۔ اپنے ملک کو نقصان پہنچایا جائے اور دشمن کے ہاتھ مزید مضبوط کئے جائیں۔ بلکہ اصل ردّعمل یہ ہے کہ اپنے قول سے، اپنے عمل سے، اپنے کردار سے قرآنِ کریم کی ایسی خوبصورت تصویر پیش کی جائے کہ دنیا خود ہی ایسی مکروہ حرکتیں کرنے والوں پر لعن طعن کرنے لگ جائے۔ جو اندھے ہیں اُن کو تو قرآنِ کریم کی شان نظر نہیں آتی اور نہ ہی آ سکتی ہے ورنہ تو مختلف مذاہب کے بعض منصف مزاج جو ہیں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم کی تعریف میں لکھاہے۔ اُن میں ہندؤوں میں سے بھی بعضوں نے لکھا ہے، سکھوں نے بھی لکھا ہے، عیسائیوں نے بھی لکھا ہے اور ان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

مَیں یہاں ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں جو خود بولیں گی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان غیروں کی نظر میں کیا مقام ہے؟ اور قرآنِ کریم کی تعلیم کس قدر خوبصورت ہے؟ صرف یہی بدبخت پادری نہیں ہے جو آج کل یہ بول رہا ہے۔ چند دن ہوئے ایک اخباری کالم لکھنے والے نے بھی امریکہ کے اخبار میں یہ لکھا تھا کہ مسلمان تو بُرے نہیں ہیں۔ یہ بھی دیکھیں دجّال کی چال کس طرح ہے کہ مسلمان تو بُرے نہیں ہیں لیکن قرآنی تعلیم اصل وجہ ہے جو ان کو شدت پسندی اور دہشت گردی سکھاتی ہے۔ نہ انہوں نے کبھی قرآن پڑھا ہو گا نہ دیکھا ہو گا۔ صرف دلوں کے بُغض اور کینے نکالنے ہیں۔ بہر حال مَیں ایک حوالہ ہے جو پیش کرتا ہوں۔ ایک کتاب ہےHistory of the Intellectual Development of Europe by John William Draper یہ نیویارک سے چھپی ہے۔ اس کے Volume 1کے صفحہ 332 پر اُس نے لکھا ہوا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر غلط خیال ہے کہ عرب کی ترقی صرف تلوار کے زور پر تھی۔ تلوار قوم کے مذہب کو تو بدل سکتی ہے لیکن یہ انسان کے خیالات اور ضمیر کی آواز کو نہیں بدل سکتی۔

پھر آگے چل کے اسی کتاب میں یہ لکھتا ہے۔ اِس کا 344,343 صفحہ ہے۔ کہتا ہے کہ قرآنِ کریم کو پڑھنے والا ایک منصف مزاج بغیر کسی شک کے اس بات پر حیران ہوتا ہے کہ کس طرح بات کے مقصد کو احسن رنگ میں ادا کیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم اعلیٰ اخلاق اور تعلیم و احکامات سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی ترکیب و ترتیب ایسی واضح اور ہر لفظ اپنے اندر ایک مطلب سمیٹے ہوئے ہے۔ ہر صفحہ اپنے اندر ایسے مضامین لئے ہوئے ہے جس کی تعریف کئے بغیر انسان آگے نہیں جا سکتا۔

تو یہ اس مستشرق کا خیال ہے۔ اور بہت سارے مستشرقین ایسے ہیں جن کو باوجود مذہبی اختلاف کے حق سے کام لینا پڑا ہے۔ وہ مجبور ہوئے کہ اُن کے دل کی آواز نے اُن کو کہا کہ انصاف سے کام لو اور وہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ لیکن جو بُغض اور کینے میں بڑھے ہوئے ہیں اُنہیں کچھ نظر نہیں آتا۔

مَیں نے جو آیات تلاوت کی ہیں اِن میں بھی خدا تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کا نقشہ کھینچا ہے کہ قرآن تو سچ ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ پہلی آیت جو مَیں نے پڑھی تھی اس کا ترجمہ یہ ہے۔ اور یقینا ہم نے اس قرآن میں (آیات کو) بار بار بیان کیا ہے تا کہ وہ نصیحت پکڑیں۔ بایں ہمہ یہ اُنہیں نفرت سے دور بھاگنے کے سوا کسی اور چیز میں نہیں بڑھاتا۔ یہ سورۃ بنی اسرائیل کی بیالیسویں نمبر کی آیت ہے۔

پس قرآنِ کریم نے تو اِن لوگوں کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ اِن لوگوں کا بھی وہی حال ہے جو کفار کا تھا۔ قرآنِ کریم کی ہر آیت جہاں اپنی پرانی تاریخ بتاتی ہے وہاں پیشگوئی بھی کرتی ہے۔ تو ایسے لوگ تو اسلام کی دشمنی میں پیدا ہوتے رہے اور پیدا ہوتے چلے جائیں گے جو باوجود قرآنِ کریم کی واضح تعلیم کے ہر پہلو کی وضاحت کے اور مختلف زاویوں سے وضاحت کے پھر بھی اس پر اعتراض ہی نکالیں گے۔ اور نہ صرف اعتراض نکالتے ہیں بلکہ فرمایا کہ قرآنِ کریم کی اس خوبصورت تعلیم کو جو ہم مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ یہ وضاحت جو ہے، مختلف پہلو سے بیان کرنا جو ہے یہ اِن لوگوں کی آنکھیں کھولے وَمَا یَزِیْدُہُمْ اِلَّا نُفُوْرًا۔ یہ اُن کو اس خوبصورت تعلیم سے نفرت کرتے ہوئے دُور بھاگنے میں ہی بڑھاتا ہے۔ یعنی وہ لوگ نفرت کرتے ہوئے اس سے دور ہٹتے چلے جاتے ہیں۔ پھر اسی سورۃ میں جو بنی اسرائیل کی ہے، آگے جا کے پھر ایسے لوگوں کا نقشہ کھینچا ہے۔ جو میں نے تلاوت کی ہے اُس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم قرآنِ کریم میں سے سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفا ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور ظالموں کو گھاٹے کے سوا کسی اور چیز میں نہیں بڑھاتا۔

پس یہاں مزید وضاحت فرمائی کہ جیسا کسی کی فطرت ہو ویسا ہی اُسے نظر آتا ہے۔ کہتے ہیں یرقان زدہ مریض جو ہے اُس کی آنکھیں زرد ہو جاتی ہیں تو اُس کو ہر چیز زردنظر آتی ہے۔ جو بدفطرت ہے اُس کو اپنی فطرت کے مطابق ہی نظر آتا ہے۔ قرآنِ کریم نے جب ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ: 3) کا اعلان فرمایا ہے تو ابتدا میں ہی فرما دیا ہے کہ یہ جو ہدایت ہے اور اس قرآنِ کریم میں جو خوبصورت تعلیم ہے، جو سب سابقہ تعلیموں سے اعلیٰ ہے، یہ صرف انہی کو نظر آئے گی جن میں کچھ تقویٰ ہو گا۔ ہدایت اُنہی کو دے گی جن کے دل میں کچھ خوفِ خدا ہو گا۔ پس یہ لوگ جتنی چاہے دریدہ دہنی کرتے رہیں ہمیں اس کی فکر نہیں کہ اس ذریعہ سے یہ نعوذ باللہ قرآنِ کریم کی تعلیم کو نقصان پہنچا سکیں گے۔ قرآنِ کریم کے اعلیٰ مقام اور اس کی حفاظت کا خدا تعالیٰ خود ذمہ دار ہے بلکہ یہ دوسری آیت جو مَیں نے پڑھی تھی اس میں تو مومنوں کو خوش خبری ہے کہ قرآنِ کریم تمہارے لئے رحمت کا سامان ہے۔ اور ہر لمحہ رحمت کا سامان مہیا کرتا چلا جائے گا۔ تمہاری روحانی بیماریوں کا بھی علاج ہے اور تمہاری جسمانی بیماریوں کا بھی علاج ہے، ہر قسم کی تعلیم اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اور اگر اس سے پہلے کی آیت سے اس کو ملا لیں تو حقیقی مومنین کو یہ خوشخبری ہے کہ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا۔ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (بنی اسرائیل: 82) کہ جھوٹ، فریب، مکاری اور باطل نے بھاگنا ہی ہے، یہ اُس کی تقدیر ہے۔ پس یہاں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ سروں کی قیمت مقرر کرنے سے یا توڑ پھوڑ کرنے سے یا غلط قسم کے احتجاج کرنے سے قرآنِ کریم کی عزت قائم نہیں ہو گی بلکہ حقیقی مومن اپنے پر قرآنی تعلیم لاگو کر کے ہی قرآنِ کریم کی برتری ثابت کر سکتا ہے اور کرنے والا ہو گا۔ وہ اس کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کو دکھا کر حق اور باطل میں فرق ظاہر کریں گے۔ اور جب یہ تعلیم دنیا پر ظاہر ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ کی غالب تقدیر مومنوں کے لئے رحمت اور اُن زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کا نظارہ دکھائے گی۔ قرآنِ کریم کی فتح اور مومنین کی فتح ہو گی۔ دنیا کو اس کے بغیراب کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ قرآنِ کریم کی تعلیم سے اپنی روحانی اور مادّی ترقی کے سامان پیدا کرے۔ اپنے اوپر یہ تعلیم لاگو کرے۔ پس ہمیں خاص طور پر احمدیوں کو ان لوگوں کے غلیظ اور اوچھے ہتھکنڈوں سے کوئی فکر نہیں ہوتی۔ ہم تو اُس مسیح موعود کے ماننے والے ہیں جس کو اس زمانہ میں قرآنِ کریم کی تعلیم کو دنیا میں دوبارہ پھیلانے کے لئے بھیجا گیا ہے جس کے بارے میں قرآنِ کریم سورۃ جمعہ میں فرماتا ہے کہ:

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْا َرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ۔ ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْا ُ مِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْاعَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔ وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ۔ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(الجمعۃ آیات 2تا 4)

کہ اللہ ہی کی تسبیح کرتا ہے جو آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ وہ بادشاہ ہے۔ قدوس ہے۔ کامل غلبہ والا ہے۔ (اور) صاحبِ حکمت ہے۔ وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے۔ انہیں پاک کرتا ہے۔ انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینا کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔ اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی اُن سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔

پس ایک پہلا دَور تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اور آپ نے اس تعلیم کے ذریعہ سے جو آپ پر اتری، دنیا کی انتہائی بگڑی ہوئی حالت میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ وہ جوگ جو جاہل اور ذرا ذرا سی بات پر جانوروں کی طرح ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے تھے، اُن پر خوبصورت آیات تلاوت کیں۔ انہیں اس خوبصورت تعلیم کے ذریعہ سے پاک کیا۔ جاہل اور اُجڈ لوگوں کو پُر معارف اور پُر حکمت تعلیم سے مالا مال کر دیا۔ اُنہیں اس خوبصورت کتاب سے جو واحد الٰہی صحیفہ ہے جس نے تاقیامت تمام علوم و حکمت کی باتوں کا احاطہ کیا ہوا ہے، اُس سے روشناس کروایا۔ جس سے جانوروں کی طرح زندگی گزارنے والے انسان بنے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے یہ لوگ انسان بنے اور پھر انسان سے تعلیم یافتہ انسان بنے اور پھر تعلیم یافتہ انسان سے باخدا انسان بنے۔

اس دَور میں اب پھر ہم پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو بھیجا ہے تا کہ آیات پڑھ کر سنائے۔ الٰہی نشانات سے ہماری روحانیت میں اضافہ کرے، ہمارے ایمان اور یقین میں اضافہ کرے، ہماری زندگیوں کو صحیح رہنمائی کرتے ہوئے پاک کرے، ہمیں اس الٰہی کتاب کی حقیقت اور اس کے اسرار سے آگاہ کرے، ہمیں بتائے کہ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ وَ لَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا  (بنی اسرائیل: 83)، کہ یہ شفاء اور رحمت ہے مومنین کے لئے۔ یہ عظیم کتاب ہمارے لئے شفا کس طرح ہے؟ اس آخری شریعت کی تعلیم میں جو پُر حکمت موتی پوشیدہ ہیں اُس سے ہمیں آگاہی دے۔ پس یہ احسان ہے جو مؤمنوں پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور جو صرف اور صرف آج اُس عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں اور اُن پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو ماننے والے، اُس پر چلنے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں۔ اس زما نے میں قرآنِ کریم کی عظمت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کس طرح واضح فرمایا ہے اور توریت کا موازنہ کرتے ہوئے آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ

’’یہ دعویٰ پادریوں کا سراسر غلط ہے کہ قرآن توحید اور احکام میں نئی چیز کونسی لایا جو توریت میں نہ تھی‘‘۔ فرمایا: ’’بظاہر ایک نادان توریت کو دیکھ کر دھوکہ میں پڑے گا کہ توریت میں توحید بھی موجود ہے اور احکام عبادت اور حقوق ِعباد کا بھی ذکر ہے۔ پھر کونسی نئی چیز ہے جو قرآن کے ذریعہ سے بیان کی گئی۔ مگر یہ دھوکہ اسی کو لگے گا جس نے کلامِ الٰہی میں کبھی تدبر نہیں کیا۔ واضح ہو کہ الٰہیات کا بہت سا حصہ ایسا ہے کہ توریت میں اس کا نام و نشان نہیں۔ چنانچہ توریت میں توحید کے باریک مراتب کا کہیں ذکر نہیں۔ قرآن ہم پر ظاہر فرماتا ہے کہ توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ ہم بتوں اور انسانوں اور حیوانوں اور عناصر اور اجرام فلکی اور شیاطین کی پرستش سے باز رہیں بلکہ توحید تین درجہ پر منقسم ہے۔ درجہ اوّل عوام کے لئے، یعنی ان کے لئے جو خدا تعالیٰ کے غضب سے نجات پانا چاہتے ہیں دوسرا درجہ خواص کے لئے، یعنی ان کے لئے جو عوام کی نسبت زیادہ تر قرب الٰہی کے ساتھ خصوصیت پیدا کرنی چاہتے ہیں۔ اور تیسرا درجہ خواص الخواص کیلئے جو قرب کے کمال تک پہنچنا چاہتے ہیں‘‘۔

فرمایا: ’’اوّل مرتبہ توحید کا تو یہی ہے کہ غیر اللہ کی پرستش نہ کی جائے اور ہر ایک چیز جو محدود اور مخلوق معلوم ہوتی ہے خواہ زمین پر ہے خواہ آسمان پر ہے اس کی پرستش سے کنارہ کیا جائے‘‘ (بچا جائے)۔

’’دوسرا مرتبہ توحید کا یہ ہے کہ اپنے اور دوسروں کے تمام کاروبار میں مؤثرِ حقیقی خدا تعالیٰ کو سمجھا جائے‘‘ (یعنی نتیجہ پیدا کرنے والا، اثر ڈالنے والاحقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی ہے) ’’اور اسباب پر اتنا زور نہ دیا جائے جس سے وہ خدا تعالیٰ کے شریک ٹھہر جائیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ زیدنہ ہوتا تو میرا یہ نقصان ہوتا اور بکر نہ ہوتا تو مَیں تباہ ہو جاتا۔ اگر یہ کلمات اس نیت سے کہے جائیں کہ جس سے حقیقی طور پر زید و بکر کو کچھ چیز سمجھا جائے تو یہ بھی شرک ہے‘‘۔

فرمایا: ’’تیسری قسم توحید کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھانا اور اپنے وجود کو اس کی عظمت میں محو کرنا۔ یہ توحید توریت میں کہاں ہے؟ ایسا ہی توریت میں بہشت اور دوزخ کا کچھ ذکر نہیں پایا جاتا۔ اور شاید کہیں کہیں اشارات ہوں۔ ایسا ہی توریت میں خدا تعالیٰ کی صفات کاملہ کا کہیں پورے طور پر ذکر نہیں۔ اگر توریت میں کوئی ایسی سورۃ ہوتی جیسا کہ قرآن شریف میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمْ یَلِدْ۔ وَلَمْ یُوْلَدْ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ(الاخلاص: 2تا 5) ہے تو شاید عیسائی اس مخلوق پرستی کی بلا سے رک جاتے۔ ایسا ہی توریت نے حقوق کے مدارج کو پورے طور پر بیان نہیں کیا۔ لیکن قرآن نے اس تعلیم کو بھی کمال تک پہنچایا ہے۔ مثلاً وہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَایِٔ ذِی الْقُرْبٰی (النحل: 91) یعنی خدا حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم احسان کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم لوگوں کی ایسے طور سے خدمت کرو جیسے کوئی قرابت کے جوش سے خدمت کرتا ہے۔ یعنی بنی نوع سے تمہاری ہمدردی جوش طبعی سے ہو کوئی ارادہ احسان رکھنے کا نہ ہو جیسا کہ ماں اپنے بچہ سے ہمدردی رکھتی ہے‘‘۔ فرمایا: ’’ایسا ہی توریت میں خدا کی ہستی اور اس کی واحدانیت اور اس کی صفات کاملہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے نہیں دکھلایا۔ لیکن قرآن شریف نے ان تمام عقائد اور نیز ضرورت الہام اور نبوت کو دلائل عقلیہ سے ثابت کیا ہے اور ہر ایک بحث کو فلسفہ کے رنگ میں بیان کر کے حق کے طالبوں پر اس کا سمجھنا آسان کر دیا ہے اور یہ تمام دلائل ایسے کمال سے قرآن شریف میں پائے جاتے ہیں کہ کسی کی مقدور میں نہیں کہ مثلاً ہستی باری پر کوئی ایسی دلیل پیدا کر سکے کہ جو قرآن شریف میں موجودنہ ہو‘‘۔ فرمایا: ’’ماسوا اس کے قرآن شریف کے وجود کی ضرورت پر ایک اور بڑی دلیل یہ ہے کہ پہلی تمام کتابیں موسیٰ کی کتاب توریت سے انجیل تک ایک خاص قوم یعنی بنی اسرائیل کو اپنا مخاطب ٹھہراتی ہیں۔ اور صاف اور صریح لفظوں میں کہتی ہیں کہ ان کی ہدایتیں عام فائدہ کے لئے نہیں بلکہ صرف بنی اسرائیل کے وجود تک محدود ہیں۔ مگر قرآن شریف کا مدّ نظرتمام دنیا کی اصلاح ہے اور اس کی مخاطب کوئی خاص قوم نہیں بلکہ کھلے کھلے طور پر بیان فرماتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے اور ہر ایک کی اصلاح اس کا مقصود ہے‘‘۔ (کتاب البریہ۔ روحانی خزائن۔ جلد 13صفحہ 83تا 85)

پس یہ ایک جھلک ہے اُس خزانے کی جو زمانے کے امام نے ہمیں قرآنِ کریم کی برتری کے بارہ میں بتائی ہے۔ ہم احمدی خوش قسمت ہیں، اور ہم خوش قسمت تبھی کہلا سکتے ہیں جب ہم اپنی زندگیوں کو قرآنِ کریم کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں، دنیا کو دکھائیں کہ دیکھو یہ وہ روشن تعلیم ہے جس پر تمہیں اعتراض ہے۔ تبھی ہم آخرین کی جماعت میں شامل ہونے کا حق ادا کر سکیں گے۔

مَیں نے ایک خطبہ میں جرمنی کی مثال دی تھی کہ وہاں جماعت نے مختلف جگہوں پر قرآنِ کریم کی نمائش لگائی ہے اور بعض جگہ چرچ کے ہال بھی نمائش کے لئے استعمال کئے گئے جس کا بڑا اچھا اثر ہوا، میڈیا نے بھی اس کو دیا۔ تواُس وقت یہ بتانے کا میرا یہ مطلب تھا کہ دوسرے ممالک کی جماعتیں بھی اس طرح کی نمائشیں لگائیں لیکن اس پر اُس طرح کام نہیں ہوا۔

امریکہ میں ہی اگر صحیح طور پر پروگرام بنا کر نمائش لگائی جاتی تو میڈیا جس کی آج کل توجہ اسلام کی طرف ہے اگر ایک طرف اس ظالم کی باتیں بیان کرتا ہے تو ہماری بھی بیان کرتا۔ گو امریکہ کی جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے امن کا پیغام پہنچانے کے لئے جماعت کا پورا پیغام پہنچانے کے لئے لیف لیٹنگ (Leafletting) اور سیمینارز وغیرہ بڑے وسیع پیمانے پر کئے ہیں اور ایک اچھا کام ہوا ہے اس کو میڈیا میں کافی کوریج ملی ہے لیکن اس طرح کے کام نمائش وغیرہ کے اُس طرح نہیں ہوئے جس طرح ہونے چاہئے تھے۔ مومن کا کام ہے کہ ہر محاذ پر نظر رکھے۔ اگر باقاعدہ آرگنائز کرکے امریکہ میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی نمائشوں کا اہتمام ہو، چاہے ہال کرایہ پر لے کر کیا جائے کیونکہ بعض دفعہ جب مساجد میں نمائشیں ہوتی ہیں، اسلام کے بارے میں کیونکہ غلط تاثر اتناپیدا کر دیا گیا ہے کہ ایک خوف بلا وجہ کا پیدا ہو گیا ہے دنیا میں، تو بعض لوگ شامل نہیں ہوتے۔ تو اگر ہال وغیرہ کرائے پر لئے جائیں، اُس میں نمائش کی جائے قرآنِ کریم کے تراجم رکھے جائیں، اُس کی خوبصورت تعلیم کے پوسٹر اور بینر بنا کے لگائے جائیں، خوبصورت قسم کا ڈسپلے ہوں وہاں، تو لوگوں کی توجہ کھینچے گا یہ، میڈیا کی توجہ بھی اس طرف ہو گی۔ آج کل اسلام کی طرف توجہ ہوئی ہوئی ہے، بعض جائز باتیں بھی لکھ دیتے ہیں، جماعت کے بارہ میں جو بھی خبریں آتی ہیں اکثر صحیح بھی لکھ دیتے ہیں، تونیت کیا ہے ان کی یہ خدا بہتر جانتا ہے لیکن بہر حال ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ سٹالوں کے ذریعے اور عمومی نمائشوں میں بیشک ہم حصہ لیتے ہیں لیکن اس کی کوریج میڈیا پر نہیں ہوتی، کیونکہ وہاں اور بڑے بڑے سٹال لگائے ہوتے ہیں، لوگ آئے ہوتے ہیں، مختلف قسم کی توجہات ہوتی ہیں، ترجیحات ہوتی ہیں، تو خاص طور پر ہم علیحدہ نمائش کریں گے، تو اس کا بہر حال زیادہ اثر ہو گا۔ ایک اہتمام سے علیحدہ انتظام ہو تو دنیا کو پتہ چلے گا کہ قرآنِ کریم کیا ہے؟ اور اس کی تعلیم کیا ہے؟

جہاد یا قتال کے خلاف دشمن بہت کچھ کہتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ کن حالات میں اس کی اجازت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں تلوار اٹھانے کی اجازت دی ہے وہاں تو ساتھ ہی عیسائیوں اور یہودیوں اور دوسرے مذہب والوں کی حفاظت کی بھی بات کی ہے۔ صرف مسلمانوں کی حفاظت کی بات نہیں کی۔ پس یہ دجّالی چالیں ہیں جو اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے بعض حلقوں سے وقتاً فوقتاً چلائی جاتی ہیں۔ ہمیں ان کے مکمل توڑ کی ضرورت ہے اور مکمل توڑ کے لئے مسلسل کوشش کی ضرورت ہے۔ جماعت احمدیہ ہی ہے جو اس کا حقیقی حق ادا کر سکتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس جو مَیں نے پڑھا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ کیا اہمیت ہے اس قرآنِ کریم کی تعلیم کی، اور کس طرح آپ نے موازنہ پیش کیا ہے۔

پھر اسلام نے جتنا انصاف پر زور دیا ہے کسی اور کتاب نے نہیں دیا۔ مثلاً ایک جگہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْآ اِلَیْھِمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن  (الممتحنہ: 9) اور اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا یعنی اس بات سے، لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیاکہ تم اُن سے نیکی کرو اور اُن سے انصاف کے ساتھ پیش آؤ، یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

جو تم سے ڈرتے نہیں، تمہیں نقصان نہیں پہنچا رہے، اُن سے قطع تعلق کرنے سے یا اُن سے نیکی کرنے سے، یا اُن کو انصاف مہیا کرنے سے تمہیں اللہ تعالیٰ منع نہیں کرتا۔ پھر فرمایا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَٓاءَ بِالْقِسْط۔ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْا۔ ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔ وَاتَّقُوا اللّٰہَ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْن (سورۃ المائدۃ آیت 9)

کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو۔ یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ سے ڈرو یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔

پھر فرماتا ہے: وَاعْبُدُوااللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا (سورۃالنساء: 37)

اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی، اور یتیموں سے بھی، اور مسکین لوگوں سے بھی، اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی، اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی، اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی، اور مسافروں سے بھی، اور اُن سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقینا اللہ اُس کو پسندنہیں کرتا جو متکبر اور شیخی بگاڑنے والا ہے۔

اب اِن آیات میں پہلے وہ کفار جو دشمنی نہیں کرتے اُن سے نیکی اور انصاف کا حکم ہے۔ پھر سورۃ مائدہ کی آیت ہے اس میں فرمایا دشمنوں سے بھی عدل اور انصاف کروکہ دشمنی کی بھی کچھ حدود اور قیود ہوتی ہیں۔ دشمن اگر کمینی اور ذلیل حرکتیں کر رہا ہے تو تم انصاف سے ہٹ کر غیر ضروری دشمنیاں نہ کرو۔ جرم سے بڑھ کر سزا نہ دو۔ جیسے گندے اخلاق وہ دکھا رہا ہے تم بھی ویسے نہ دکھانے لگ جاؤ۔

پھر تیسری آیت جو سورۃ نساء کی آیت ہے اس میں والدین سے لے کر ہر انسان سے احسان کے سلوک کا ارشاد فرمایا ہے۔ یعنی کُل انسانیت سے حسنِ سلوک کرو اور احسان کرو تاکہ دنیا میں امن قائم ہو۔ تو امن کے قیام کے لئے، ایک پُر امن معاشرے کے لئے یہ اعلیٰ تعلیم ہے جو قرآنِ کریم نے ہمیں دی ہے اور یہی آج امن کی ضمانت ہے۔ نہ کہ وہ عمل جو ظالم امریکی پادری نے قرآنِ کریم کی توہین کر کے کیا ہے۔ ایسے لوگ یقینا خدا تعالیٰ کے عذاب کو آواز دینے والے ہیں۔ پس ہمارا کام یہ ہے کہ جب بھی ہم اسلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم پردشمنوں کے غلیظ حملوں کو دیکھیں تو سب سے پہلے اپنے عملوں کو صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں، پھر معاشرے میں اس خوبصورت تعلیم کا پرچار کریں اور اس کے لئے جو ذرائع بھی میسر ہیں اُنہیں استعمال کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اس وقت مَیں سلسلے کے ایک عالم اور بزرگ کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں جو حافظِ قرآن بھی تھے جن کو قرآن سے خاص تعلق تھا۔ دنیاوی تعلیم بھی پی ایچ ڈی تھی اور اسٹرانومی میں انہوں نے بڑا نام پیدا کیا ہے لیکن سائنس کو ہمیشہ قرآن کے تابع رکھا ہے۔ گزشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کا نام حافظ صالح محمد الٰہ دین صاحب تھا۔ گذشتہ تقریباً چار سال سے یہ قادیان کی انجمن احمدیہ کے صدر تھے اور صدر صدر احمدیہ کے علاوہ اس سے پہلے یہ کافی عرصہ ممبر انجمن احمدیہ بھی رہے ہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے انہوں نے فزکس میں ایم ایس سی کی تھی۔ بعد میں پھر انہوں نے امریکہ سے اسٹرانومی، ایسٹروفزکس میں پی ایچ ڈی کی۔ 1963ء میں Observatory University of Chicago USAسے انہوں نے پی ایچ ڈی کی۔ اور بڑی خصوصیات کے حامل تھے، علمی لحاظ سے ان کے قریباًپچاس مضامین اور ریسرچ پیپر بین الاقوامی رسالوں میں شائع شائع ہوئے ہیں اور جن پر کئی ایوارڈز بھی ان کو ملے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان کا مشہور ایوارڈ مگناد سہا (Meganad Saha)ایوارڈ فار ٹھیوریٹیکل سائنس 1981ء میں آپ کو دیا گیا ہے۔ جب مَیں ان کی تاریخ دیکھ رہا تھا اس کے علاوہ بے تحاشا ایوارڈ ان کو ملے ہیں۔ لیکن عاجزی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ lunar اور Dynamic of galaxies and solar eclips آپ کے پسندیدہ مضمون تھے جن میں قرآن اور احادیث میں سورج چاند گرہن بطور صداقت حضرت مسیح موعود اور امام مہدی بیان ہوا ہے۔ چنانچہ اس کے بارہ میں آپ تقریریں بھی کرتے رہے مختلف جلسوں پر۔ یو کے میں بھی تقریر کی تھی۔ قادیان میں بھی کرتے تھے۔ 1994-95ء میں اس نشان پر صد سالہ پروگرام کے تحت کئی جماعتی رسائل میں آپ کے مضامین بھی شائع ہوئے۔ 2009ء میں بھی ’’ہستی باری تعالیٰ فلکیات کی روشنی میں‘‘ آپ نے تقریر کی، بڑی پُر مغز، بڑی علمی تقریر تھی۔ اور اپنے سائنسی مضامین کاہمیشہ قرآنی آیات سے استدلال کیا کرتے تھے۔ جو بھی اپنے سائنسی مضامین تھے اُن کا ہمیشہ قرآنی آیات سے استدلال کرتے تھے اور بڑا ملکہ تھا اِن کو اس میں۔ اور طبعی میلان بھی تھا ان کا اس طرف۔ مختلف یونیورسٹیز کے ریسرچ سکالر اور ریسرچ فیلو بھی تھے۔ یہ لمبی ایک فہرست ہے بتائی نہیں جا سکتی۔ پھر Great minds of the 21st century, American biographical institute rally America نے ان کو 2003ء میں ایوارڈ بھی دیا۔ دین میں بھی آپ کی تاریخی خدمات کافی ہیں۔ امام مہدی کی صداقت کے دو عظیم نشان چاند اور سورج گرہن آپ نے تحریر فرمائی۔ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ازروئے نشان سورج چاند گرہن، نشانات سورج گرہن اور چاند گرہن، ہمارا خدا، The dynamics and the way to reach it, The goal of the man, The dynamics of stallers system,of coliding galaxies, Views of scientists on the existing of God,  اس قسم کی کتابیں بھی آپ نے لکھیں۔ مختلف حیثیتوں سے جماعت کی خدمات کرتے رہے، سالہا سال تک صوبائی امیر بھی رہے، سیکرٹری بھی رہے، صدر جماعت بھی رہے، ممبر صدر انجمن احمدیہ بھی رہے اور جیسا کہ میں نے کہا ہے ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ پہلے قادیان آ گئے تھے۔ پھر صدر صدر انجمن احمدیہ بھی ان کو مَیں نے مقرر کیا تھا۔ تعلق باللہ بھی اللہ تعالیٰ سے بڑا تھا اِن کا۔ ان کی اہلیہ نے ایک دفعہ بتایا، پاکستان آئے تو کراچی ائیر پورٹ پر کسٹم والوں نے بعض الیکٹرونک کی چیزیں جو تھیں وہ روک لیں، بڑی پریشانی کا سامنا تھا۔ جائز تھیں، ناجائز کام تو یہ کر ہی نہ سکتے تھے، لیکن ہمارے ہاں جو سفر کرنے والے ہیں ان کو پتہ ہے کسٹم والوں کا کہ کس طرح روک لیا کرتے ہیں۔ تو بہر حال ان کی اہلیہ کہتی ہیں تھوڑی دیر بعد مَیں نے دیکھا تو صالح الٰہ دین صاحب غائب تھے۔ مَیں پریشان ہوئی کہ کہاں چلے گئے ہیں، کچھ دیر بعد واپس آئے تو مَیں نے پوچھا کہ کہاں گئے تھے اس پریشانی کے وقت میں، تو کہنے لگے مَیں نے سوچا کہ اس صورتِ حال میں خدا ہی ہے جو مدد کر سکتا ہے، چنانچہ مَیں ایک طرف دو رکعت نفل ادا کرنے چلا گیا ہے۔ اب نماز پڑھ آیا ہوں چلو اب چلیں اور اب ہمیں چیزیں مل جائیں گی۔ چنانچہ بڑے اعتماد سے گئے کسٹم والوں کے پاس۔ اس عرصہ میں کسٹم کا عملہ تبدیل ہو چکا تھا انہوں نے معذرت بھی کی اور ان کی چیزیں بھی ان کو دے دیں۔ تو ایسی صورتِ حال میں اور کوئی ہوتا تو سفارشوں کے پیچھے جاتا یا پریشان ہوتاہے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے۔ اِن کی اہلیہ کی بہن ہیں ڈاکٹر نصرت جہاں، یہ مولوی عبدالمالک خان صاحب کے داماد بھی تھے۔ تو کہتی ہیں جب میں قادیان گئی تو اپنی بیماری کی وجہ سے مَیں نے دیکھا کہ مسجدنہیں جا سکتے تھے، اس کا بہت اُن کو دُکھ تھا۔ اس کا اظہار کرتے تھے کہ مَیں مسجدنہیں جا سکتا تم لوگ وہاں جا کر نمازیں پڑھتے ہو۔ یہ کہتی ہیں مجھے انہوں نے بتایا اور مجھے اور روایتیں بھی ملی ہیں اس بارے میں، دوسروں سے بھی ذکر کیا ہے۔ اس کا کہ چھبیس سال کی عمر کا ہوں گا کہ ایک دن حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں اندر داخل ہوا ہی تھا تو آپ فرمانے لگے کہ ابھی یا آج ہی مَیں نے خواب میں حضرت مولوی حکیم نورا لدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا ہے وہ تشریف لائے ہیں تو انہوں نے کہا (عرفانی صاحب نے کہا) کہ خواب میں دیکھا تھا کہ آپ حضرت مولوی نورالدین صاحب کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ خلیفۃ المسیح الاول تشریف لائے وہ بیٹھے تھے۔ پھر انہوں نے ان کو کرسی پر بٹھا دیا۔ تو یہ کہتے ہیں کہ مَیں نے سوچا کہ کہاں مَیں اور کہاں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل۔ یوں بات آئی گئی ہو گی۔ کہتے ہیں کہ جب وہ قادیان میں وہ آئے اُس وقت کچھ عرصے کے بعد صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی وفات کے بعد ان کو میں نے صدر صدر انجمن احمدیہ بنایا تو کہتے ہیں اس وقت میں نے تاریخِ احمدیت پڑھی تو مجھے معلوم ہوا کہ صدر انجمن احمدیہ کے پہلے صدر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ تھے اور عرفانی صاحب کی خواب اس طرح ایک لمبے عرصے کے بعد پوری ہوئی۔

ایک امتحان کی تیاری تھی، سکول کی، قرآنِ شریف سے ان کو بڑا تعلق تھا، اور قرآنِ شریف خود بڑی ہمت کر کے انہوں نے حفظ کیا ہے، کہ پرچہ تھا صبح تو میری والدہ نے کہا کہ بیٹے پرچے کی تیاری کر لو۔ لیکن مَیں قرآنِ کریم کو پڑھ رہا تھا اور وہی یاد کرتا رہا۔ خود ہی گھر پہ قرآنِ کریم انہوں نے حفظ کیا۔ قرآنِ کریم لے کر اپنے گھر میں نیچے basement میں چلے جاتے تھے اور وہاں یاد کرتے رہتے تھے۔ پھر ان کی والدہ نے جب اِن کا شوق دیکھا تو پھر اِن کے لئے، قرآن حفظ کرانے کے لئے ایک معلم رکھا گیا۔ خلافت کی کامل اطاعت تھی اور بڑی جانثاری کا جذبہ تھا۔ درویشانِ قادیان سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا ہے ہر مشکل میں نفل اور دعا میں لگ جاتے تھے۔ بے نفس، بے ضرر، تہجد گزار قرآنِ کریم کی آیات زیرِ لب تلاوت کرتے رہتے۔ مسجد اقصیٰ میں جلسہ سالانہ کے ایام میں تہجد کی امامت بھی کرواتے تھے۔ ہمیشہ دینی مجالس میں بیٹھنا پسند کیا۔ دنیا سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ ایک مربی صاحب نے مجھے لکھا کہ ایک دفعہ پرانی بات ہے، اپنے عزیز کی کسی رشتہ دارکی شادی میں شامل ہونے کے لئے گئے تو جب نکاح کا اعلان ہونے لگا تو اِن کے دنیاوی مقام کی وجہ سے بھی اور خاندانی بزرگی کی وجہ سے بھی اِن کو انہوں نے کہہ دیا کہ نکاح آپ پڑھائیں۔ اس پر بڑے سخت ناراض ہوئے کہ تم لوگ مربیوں کا احترام نہیں کرتے، واقفینِ زندگی کا احترام نہیں کرتے؟ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ مربی یہاں موجود ہے اور مَیں نکاح پڑھاؤں آئندہ اگر ایسی بات کی تومَیں تمہاری شادی میں شامل نہیں ہوں گا۔

ہمارے ایک مربی ہیں انہوں نے لکھا کہ 2008ء کو عہدِ خلافت جب لیا ہے جوبلی کے جلسے پر، اس کے بعد سے ان کی حالت ہی اور ہو گئی تھی، ہر وقت تبلیغ کے لئے کوشاں رہتے۔ اپنے جاننے والوں سے بھی دوبارہ contact کئے نئے اور پرانے جو اُن کے سائنسدان تھے، اور اپنا ای میل ایڈریس بنوایا اور پھر اُن سے رابطہ کرنا شروع کیا۔ پھر قادیان آنے کی انہیں دعوت بھی دیتے رہے۔ ضعیفی کی حالت میں بھی کمزوری کے باوجود دہلی میں سائنسدانوں کی میٹنگ میں بھی صرف اس غرض سے تشریف لے گئے تھے کہ اُن سے رابطے ہوں گے اور اُن کو جماعت کا لٹریچر دیا، اور کئی پروفیسر صاحبان سے گھر ملنے گئے اور اُن کو قادیان آنے کی دعوت دی۔

2008ء میں جب یو این او کی جانب سے انٹرنیشنل ایئر آف اسٹرانومی منایا گیا تو بنگلور گئے اور وہاں قرآنِ مجید اور سائنس کے موضوع پر ضعیفی کے باوجود بڑی لمبی اور نہایت عالمانہ تقریر اُن لوگوں کے سامنے کی۔ اور اس کے بعد پھر کئی پروفیسر صاحبان سے رابطے کئے۔

سورج گرہن پر ایک مرتبہ تحقیق کر کے انہیں چھوڑ نہیں دیتے تھے بلکہ ہمیشہ مزید سے مزید تحقیق میں لگے رہتے تھے۔ یہ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ کمپیوٹر اُن کو اتنا چلانا نہیں آتا تھا میرے سے مدد لیا کرتے تھے، اور انجمن کے کاموں کے بعد جب وقت میسر ہوتا تو خود اس کارکن کے پاس آ جاتے، مربی صاحب تھے اور پھر نئے نئے ٹاپکس (Topics) پر تحقیق کرتے۔ کہتے تھے کہ ہمیں نوجوانوں کی ایک ٹیم بنانی چاہئے جو ہر ماہ شہر سے باہر کھلے دیہات میں جا کر نیا چاند تلاش کرے اور ایک ڈیٹا بیس (Database) بنائے جس میں ہر ماہ کا چاند کب دیکھا گیا اس کو نوٹ کرے کیونکہ یہ چیز سائنس ہمیں نہیں بتا سکتی کہ چاند آنکھوں سے کب نظر آئے گا۔ اور اس ریکارڈ کو اگر ہم محفوظ رکھیں تو کئی اعتراضات کے جوابات نکلیں گے۔ اُن کی اپنی ایک سوچ تھی جس پر وہ غور کیا کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ آنکھوں سے چاند کا مشاہدہ کرنا بہت ضروری ہے۔ مسلمانوں نے جس قدر حساب میں ترقی کی اس کی وجہ چاند کا مشاہدہ ہی تھا۔ قرآنِ مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے چاند کی گردش کے متعلق فرمایا ہے کہ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَالسِّنِیْنَ وَالْحِسَابََ(یونس: 6)۔ تو کہتے چاند کو ضرور آنکھوں سے دیکھنا چاہئے۔ راتوں کو اکثر ستاروں کا مشاہدہ کرتے اور کہتے کہ فرانس کا ایک بڑا سائنس دان تھا وہ بھی یہی کہتا تھا کہ ستاروں سے صرف وہی روشنی نہیں آتی جو ہماری آنکھوں کو منورکرتی ہے بلکہ اِن سے ایک ایسی روشنی بھی آتی ہے جو ہمارے دماغوں کو منور کرتی ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید کے حکم کے مطابق ہمیشہ زمین و آسمان کی پیدائش پر غور کرنے والے تھے، اولوالالباب میں سے تھے۔

آپ کے دادا احمدی ہوئے تھے اور وہ بھی اُن کا عجیب واقعہ ہے احمدی ہونے کا، کہتے ہیں کہ مَیں کاروباری آدمی تھا دنیا دار آدمی تھا، دین سے کوئی رغبت نہیں تھی۔ ایک دن ریویو آف ریلیجنز رسالہ میرے پاس آیا اور اس پر ساتھ یہ بھی تھا کہ اس کے لئے اشتہار دیں، تو اس پر مَیں نے اسلامی اصول کی فلاسفی کا اشتہار بھی دیکھا۔ وہ مَیں نے کتاب منگوا کر پڑھی اور پھر یوں ہوا جیسے سارے اندھیرے چھٹ گئے۔ اس کے بعد اِن کے دادا بھی کہتے ہیں کہ میرے پر ایسا انقلاب آیا ہے کہ مَیں روزے بھی رکھنے لگ گیا، نفلی روزے بھی رکھنے لگ گیا، نمازوں اور تہجد کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گئی۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک خواب دیکھی تھی اور اس پر انہوں نے اُس کی تعبیر یہ کی تھی، کیونکہ ان کا تعلق سیٹھ صاحب کا اِن کے دادا کا حضرت مفتی صادق صاحب اور یعقوب علی صاحب عرفانی اور حافظ روشن علی صاحب کے ساتھ تھا، انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کے پاس ذکر کیا، تو اس لحاظ سے تعارف تھا۔ تو حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ مَیں نے ایک خواب دیکھی ہے کہ یہ احمدیت قبول کریں گے اور عظیم الشان روحانی فیض اور خدمت کی توفیق پائیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے بیعت کر لی۔

حضرت مصلح موعودنے ان کے دادا کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ پرانا خاندان ہے اس کا بھی ذکر کردیتاہوں کہ ’’متواتر سلسلہ کی خدمت میں اُن کا نمبر غالباً سب سے بڑھا ہوا ہے، اِن کی مالی حالت میں جانتا ہوں ایسی اعلیٰ نہیں جیسا کہ لوگ اُن کی امداد کو دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن ان کو خدا تعالیٰ نے نہایت پاکیزہ دل دیا ہے۔ اور مجھے ان کی ذات پر خصوصاً اس لئے فخر ہے کہ اِن کے سلسلہ میں داخل ہونے کے وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے اُن کے اخلاص کے متعلق پہلے سے اطلاع دی تھی حالانکہ مَیں نے اُن کو دیکھا بھی نہ تھا۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہ سلسلہ کے درد میں اس قدر گداز ہیں کہ مجھے اُن کی قربانی کو دیکھ کر رشک آتا ہے اور میں اُن کو خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت سمجھتا ہوں۔ کاش کہ ہماری جماعت کے دوسرے دوست اور خصوصاً تاجر پیشہ اصحاب اُن کے نمونے پر چلیں اور اُن کے رنگ میں اخلاص دکھائیں‘‘۔ (الفضل 29؍جنوری 1926ء) یہ حضرت مصلح موعود کے الفاظ ہیں۔ مولوی محمد اسماعیل صاحب یادگیری کہتے ہیں کہ مَیں نے اندازہ لگایا ہے کہ ان کی مالی قربانی کتنی ہوتی ہے تو اُس زمانے میں پیسے تو اب رواج ہے ناں کہ ایک روپے میں سو پیسے۔ اُس زمانے میں آنے ہوتے تھے اور سولہ آنے کا ایک روپیہ۔ توکہتے ہیں کہ مَیں نے حساب لگایا تو دیکھا کہ چودہ آنے یہ خدمتِ دین پر خرچ کرتے ہیں اور صرف دو آنے اپنی ضروریات کے لئے رکھتے تھے باوجود اس کے کہ بڑے کاروباری تھے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے دادا کے بارے میں ایک دفعہ فرمایا کہ تبلیغِ احمدیت کے متعلق اُن کا جوش ایسا ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کے پرانے صحابہ مولوی برہان الدین صاحب وغیرہ میں تھا۔ اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا جوش اس طرح ہے جیسے سیٹھ عبدالرحمن صاحبؓ میں تھا۔ ……حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام کے پاس اللہ تعالیٰ نے سیٹھ عبدالرحمن اللہ رکّھا کی شکل میں اپنے فرشتے بھجوائے تھے اور میرے پاس آپ کی شکل میں فرشتے بھجوائے ہیں۔ (اصحاب احمد۔ جلدنہم۔ صفحہ 350-349)

تو یہ ہے مختصر ان کا تعارف اور خاندانی تعارف بھی۔

ان کی سادگی اور بالکل عاجزی کا ایک واقعہ ان کے بیٹے نے یہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ یہ دہلی کے سٹیشن پر کھڑے تھے اور سرخ قمیض پہنی ہوئی تھی، اور جو قُلی، مزدور ہوتے ہیں سامان اٹھانے والے، اُن کی بھی سرخ قمیضیں ہوتی ہیں۔ تو ایک فیملی آئی، انہوں نے سمجھا یہ قُلی ہے، انہوں نے کہا یہ ہمارا سامان اٹھاؤ اور وہاں پہنچا دو۔ انہوں نے بغیر کچھ کہے اُن کا سامان اٹھایا اور لے گئے۔ یہ مَیں حافظ صالح الٰہ دین صاحب کی بات کر رہا ہوں جن کی ابھی وفات ہوئی ہے، ان کی سادگی کی، تو یہ وہاں لے گئے سامان اتار کے جب اُس شخص نے مزدوری دینی چاہی تو کہنے لگے کہ آپ نے سامان پہنچانے کا کہا تھا مَیں نے آپ کی مدد کر دی ہے اس کی کوئی اجرت نہیں ہے۔ وہ صاحب بڑے شرمندہ ہوئے اس بات پر۔ یعنی کہ بالکل انتہائی عاجزی تھی۔

یہاں بھی جلسہ پر آئے ہیں پہلی دفعہ 2003ء میں جب، یا پہلی دفعہ نہیں تو بہر حال 2003ء میں آئے تھے اور کچھ اُن کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی، ائیر پورٹ پر کچھ ٹرانسپورٹ کا انتظام صحیح نہیں تھا، بڑی دیر انتظار کرنا پڑا، پھر رہائش کا انتظام بھی ایسا نہیں تھا لیکن بغیر کسی شکوے کے انہوں نے جماعتی نظام کے تحت وہ دن گزارے۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریقِ رحمت کرے، ان کے بچوں کو بھی نیکیوں پر قائم رکھے۔ اُن کا حافظ و ناصر ہو۔ ان کی اہلیہ بھی وفات پا چکی ہیں پہلے ہی ان سے۔ ان کا جنازہ ابھی مَیں نمازوں کے بعد پڑھاؤں گا۔

دوسرا جنازہ ہے کرنل محمد سعید صاحب ریٹائرڈ کا، یہ بھی آج کل کینیڈا میں ہوتے تھے، پاکستان جا رہے تھے جہاز میں فلائٹ کے دوران ہی ان کی وفات ہو گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ کینیڈا میں وینکور اور کیلگری میں بطور آنریری مربی سلسلہ تعینات رہے تھے۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں بطور جنرل سیکرٹری، صدر قضا بورڈ کینیڈا، سیکرٹری وصایا وغیرہ خدمات بجا لاتے رہے۔ احمدیہ گزٹ اور وقفِ نو کے کوآرڈی نیٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ کیوبک (Quebec) میں قرآنِ مجید کے فرنچ اور گورمکھی ترجمے کی ترویج جو ہے اس میں پیش پیش رہے۔ بیوت الحمد ربوہ کی جب تحریک کا اعلان کیا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے، انہوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ ایک لاکھ روپیہ اپنی فیملی کی طرف سے ادا کریں گے۔ تو وہاں اس میں وہ ادا نہیں کر سکے۔ اس کے بعد کینیڈا چلے گئے وہاں مسجد بیت السلام کی تعمیر کے وقت آپ نے اپنی فیملی کی طرف سے ایک لاکھ ڈالر اس مسجد کے لئے رقم ادا کی۔ قرآنِ مجید کی دو زبانوں میں اشاعت کے لئے کافی بڑی رقم کی ادائیگی کی توفیق بھی اِن کوملی۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند کرے اور ان کے بچوں کا حافظ و ناصر ہو۔

جیسا کہ مَیں نے کہاان دونوں بزرگوں کی نمازِ جنازہ ابھی ادا کروں گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں