خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 15؍ اپریل 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

دو جمعہ پہلے مَیں نے حکمرانوں کے غلط رویوں اور عوام کے حقوق صحیح طور پر ادا نہ کرنے اور عوام الناس کے ردّ عمل اور رویے کی قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کی روشنی میں وضاحت کی تھی کہ ان حالات میں ایک حقیقی مسلمان کو حکمرانوں کے متعلق کیا ردّ عمل دکھانا چاہئے اور آج کل کیونکہ عرب ممالک میں تازہ تازہ اپنے سربراہان اور حکمرانوں کے خلاف یہ ہوا چلی ہے کہ اُن سے کس طرح حقوق لینے ہیں یا اُن کو حکومتوں سے کس طرح اتارنا ہے اور علیحدہ کرنا ہے اس لئے ہمارے عرب ممالک کے رہنے والے احمدی اس موضوع پر زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی دلچسپی کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہمارے عربی چینل کے ایم ٹی اے تھری (MTA-3) کے لائیو پروگرام کرنے والوں نے، اَلْحِوَارُ الْمُبَاشِر کاجو اُن کا لائیو پروگرام ہے اور ہر مہینے کی پہلی جمعرات سے اتوار تک ہوتا ہے، اُس میں انہوں نے اس موضوع کو رکھا تھا جو براہِ راست عرب ممالک کے سیاسی حالات سے متعلق تو نہیں تھا لیکن پھر بھی مسلمانوں کے موجودہ حالات پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس پروگرام کو کنڈکٹ (Conduct) کرنے والے شریف عودہ صاحب اِس پروگرام کے متعلق مجھے کچھ بتا بھی گئے تھے۔ پھر بعد میں انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب’اَلْھُدیٰ‘ کے کچھ حصہ پر نشان لگا کے بھیجا۔ یہ اس کا پہلا حصہ ہے۔ ترجمہ بھی ساتھ ساتھ ہے۔ یہ تمام مضمون خاص طور پر اِن ملکوں کے سربراہوں کے حالات پر منطبق ہے جہاں آج کل یہ فساد ہو رہے ہیں۔ بلکہ یہ مضمون نہ صرف حکمرانوں بلکہ عوام الناس اور پھر علماء پر بھی منطبق ہوتے ہیں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کتاب میں اگلا حصہ علماء کے بارہ میں بھی لکھا ہے۔ اپنے پروگرام میں شاید اس حوالے سے انہوں نے وضاحت سے باتیں بھی کی ہوں گی۔

بہر حال مَیں بھی اس بارہ میں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ یہ صرف چند ملکوں کا جن کے عوام پُرجوش ہو کر حکومتوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اُن کا ہی نقشہ نہیں ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھینچا ہے بلکہ جو نقشہ مسلمان بادشاہوں کا اور حکمرانوں کا اور عوام کا اور علماء کا سو سال سے زائد عرصہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھینچا ہے آج بھی تمام مسلم ممالک آپ کے ان الفاظ کی صداقت کی گواہی دیتے ہیں۔ یہی حالات آج کل پیش آ رہے ہیں۔ اور جب ہم مزیدنظر دوڑائیں تو صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے مسلم ممالک نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد جو نئی اسلامی مملکتیں وجود میں آئی ہیں، اُن کے سربراہوں اور رعایا اور نام نہاد علماء کا بھی یہی حال ہے۔ جو اپنی کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا۔ اور پھر اس تمام خوفناک اور قابلِ شرم صورتِ حال کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب میں بیان فرمائی ہے، حل بھی بیان فرمایا ہے کہ مسیح وقت جس نے آنا تھا وہ آ چکا اور ہزاروں نشانات اور آسمانی تائیدات اُس کی آمد کی گواہی دے رہی ہیں۔ اور اُس کو ماننے میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے میں اب مسلمانوں کی بقا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ لیکن آپ کی بات کا مثبت جواب دینے کی بجائے آپ کے خلاف مخالفتوں کے طوفان ہی اُٹھے۔ تاہم آپ کے دعویٰ کے بعد ایک اچھی صورتِ حال یہ بھی سامنے آئی کہ مخالفینِ احمدیت نے اسلام کی خدمت کا دعویٰ کرتے ہوئے اسلام کی تبلیغ کی کوششیں بھی شروع کر دیں۔ اُن کی ان کوششوں کی حقیقت کیا ہے اور کس حد تک اسلام کا درد ہے؟ یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے۔ اس تفصیل میں تو نہیں جاؤں گا لیکن بہر حال بعض تنظیموں نے اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن کیونکہ براہِ راست الٰہی رہنمائی حاصل نہیں تھی اس لئے بہت سی بدعات یا اپنے اپنے خاص مکتبہ فکر جس کی طرف مختلف گروپ منسوب تھے، اُن کے نظریات کی زیادہ تقلید کی گئی اور بہت سارے نظریات اور بدعات راہ پا گئیں۔ بنیادی اسلامی تعلیم کو بھلایا جاتا رہا۔ حَکم اور عدل تو خدا تعالیٰ نے ایک ہی کو بھیجنا تھا جس نے غلط اور صحیح اور حقیقی اور غیر حقیقی کے درمیان لکیر کھینچ کر واضح کرنا تھا۔ اُس حَکم اور عدل کے بغیر تو غلط نظریات ہی راہ پانے تھے لیکن بہر حال ایک ہل جُل (ہلچل) مسلمانوں میں پیدا ہوئی اور ایک طبقے کو مذہب میں دلچسپی بھی پیدا ہوئی بلکہ بڑھی اور یہ دلچسپی اصل میں تو لوگوں کے اندر کی بے چینی کو دور کرنے کے لئے تھی اور یہ بھی اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کی تقدیر کے تحت ہی ہو رہا تھا تا کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ کی تلاش کریں۔ گو کہ بعض جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور ہو رہا ہے وہ تلاش میں کامیاب ہوتے ہیں اور بعض غلط ہاتھوں میں پڑنے کی وجہ سے اس بے چینی کو دور کرنے کی جستجو میں ہی دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ یہاں میرے پاس جب بیعت کرنے والوں کے واقعات آتے ہیں تو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ سعید روحیں کس قدر بے چین تھیں، حق کو پانے کے لئے اُن کی کیا حالت تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی کس طرح رہنمائی فرمائی۔ اس رہنمائی کو بعض اتفاقات کہتے ہیں لیکن اصل میں یہ خدا تعالیٰ کے اس اعلان کی صداقت ہے کہ جس کو وہ چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے۔ بہر حال ایسے بے شمار واقعات ہیں جن کو مَیں کسی وقت بیان کروں گا، جس طرح گذشتہ جمعہ میں صحابہ کے واقعات بیان کئے تھے تا کہ دنیا کو پتہ چلے کہ وہ خدا جس طرح پہلے رہنمائی فرماتا تھا آج بھی رہنمائی فرما رہا ہے۔

احمدیت کی ترقی اور تبلیغ کے کام اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کو احمدیت کے ذریعے دنیا میں پھیلتا دیکھ کر نیک فطرت مسلمانوں کو روزانہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آتا دیکھ کر بعض مسلمان حکومتوں نے بھی مولویوں کو رقمیں دے کر دنیا میں بھیجا اور پھیلانے کی کوشش کی۔ افریقن ممالک میں مدرسے بھی کھولے گئے اور کھولے جا رہے ہیں۔ اسلامی یونیورسٹیوں کے نام پر ادارے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ کچھ حد تک حکومتوں کی دولت لگ رہی ہے۔ اس لئے جو غریب ممالک ہیں، ترقی پذیر ممالک ہیں یا غیر ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی حکومتیں بھی انہیں سہولتیں دے دیتی ہیں تا کہ مزید دولت آئے اور ملک کی معیشت بہتر ہو۔ لیکن ان نام نہاد علماء نے جو اس طرح وہاں تبلیغ کرنے جاتے ہیں، انہوں نے تبلیغی مراکز کے نام پر اصل میں اسلام کی تبلیغ اور مسلمانوں کی تربیت کی کوشش کم کی ہے اور جماعتِ احمدیہ کے خلاف منصوبہ بندی پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ اور اِلَّا مَاشَاء اللّٰہ یہ اپنی کوششوں میں ناکام ہی ہوتے ہیں اور ہو رہے ہیں، پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ بہر حال اس بہانے اِن ملکوں میں بعض جگہ پر غریبوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی ہے۔

لوگوں پر اسلام کی حقیقی تعلیم جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کے ذریعے کھل جاتی ہے اور ایک دفعہ جب وہ یہ پیغام سمجھ لیتے ہیں تو پھر ہر وہ شخص جو دین کا درد رکھتا ہے، اس پیغام کو اہمیت دیتا ہے اور اس کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ جو نور خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اُس کا بندے تو مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کوئی انسانی کوشش اُس کے مقابلے پر کھڑی نہیں رہ سکتی۔ یہ دولتمند حکومتیں چاہے جتنا بھی اسلام کی خدمت کے نام پر احمدیت سے لوگوں کو برگشتہ کرنے کی کوشش کریں ہر عقلمند انسان جو ہے اُس پر سچائی اور جھوٹ ظاہر ہو جاتا ہے۔ دنیاوی کوشش چاہے خدا کے نام پر ہی کی جائے، اگر خدا کی منشاء کے خلاف ہو، تو اس میں برکت پڑ ہی نہیں سکتی۔ برکت اُسی میں پڑتی ہے، نیک نتائج اُسی کام کے ظاہر ہوتے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہوتی ہیں۔ ہمارے مبلغین، ہمارے معلمین اور وہ احمدی جو اِن علاقوں میں رہتے ہیں جہاں ان تائیدات کے نظارے دیکھتے ہیں اور اُن کو ہر لمحہ نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ یہ نظارے اُن کے ایمان میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ نظارے ہر طلوع ہونے والے دن میں ان تائیدات کی وجہ سے ان کے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تائید میں خدا تعالیٰ کے ایک زبردست نشان کا اظہار فرمایا جو ہر روز پورا ہوتا ہے۔ آپؑ براہینِ احمدیہ کی پیشگوئیوں کا ذکر فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’اس کتاب براہینِ احمدیہ میں اللہ تعالیٰ مجھے ایک دعا سکھاتا ہے یعنی بطور الہام فرماتا ہے رَبِّ لاَ تَذَ رْنِی فَرْدًا وَاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ۔ یعنی مجھے اکیلا مت چھوڑ اور ایک جماعت بنا دے۔ پھر دوسری جگہ وعدہ فرماتا ہے۔ یَأتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ ہر طرف سے وہ زر اور سامان جو مہمانوں کے لئے ضروری ہے اللہ تعالیٰ خود مہیا کرے گا اور وہ ہر ایک راہ سے تیرے پاس آئیں گے۔‘‘ فرمایا کہ’’اب غور کرو جس زمانے میں یہ پیشگوئی شائع ہوئی یا لوگوں کو بتائی گئی اُس وقت کوئی شخص یہاں آتا تھا؟ مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے کوئی جانتا بھی نہ تھا۔ کبھی سال بھر میں بھی ایک خط یا مہمان نہ آتا تھا‘‘۔ (ملفو ظات جلدنمبر5صفحہ 128جدید ایڈیشن)

پھر آپ نے فرمایا کہ یہ تعداد کا بڑھنا، مخلصین کا آنا اور آپ کی بیعت میں شامل ہونا، یہ ایک ایسا نشان ہے جو ہر روز پورا ہو رہا ہے۔ (ماخوذ از ملفو ظات جلدنمبر5صفحہ 129جدید ایڈیشن)

آج بھی ہم خدا تعالیٰ کے یہ نظارے دیکھ رہے ہیں۔ باوجود تمام تر مخالفتوں کے، باوجود بعض مرتدین کی کوششوں کے جن کو دنیاوی لالچ نے دین سے دور کر دیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں روزانہ کی ڈاک میں بلا ناغہ بعض دفعہ درجنوں میں، بعض دفعہ سینکڑوں میں اور کبھی ہزاروں میں بھی بیعتوں کی خوشخبریاں پڑھتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ بیعت فارم آتے ہیں اور بعض ایسے ایمان افروز واقعات ہوتے ہیں کہ سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے دلوں کی یہ کیفیت کوئی اور پیدا کر ہی نہیں سکتا جو ان نو مبائعین کے جذبات کی کیفیت ہوتی ہے۔ پھر یورپ اور امریکہ میں بعض لوگ مجھے ملتے ہیں، جب اُن سے پوچھو کہ کس طرح احمدی ہوئے؟ تو بتاتے ہیں کہ اپنے کسی غیر احمدی مسلمان دوست کے ذریعہ اسلام کی طرف توجہ پیدا ہوئی یا ویسے ہی اسلام کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور غیر احمدی مسلمانوں سے رابطہ ہوا اور اسلام قبول بھی کر لیا لیکن بے یقینی اور بے سکونی کی کیفیت پھر بھی جاری رہی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اتفاق سے احمدیت کا تعارف ہوا تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا کہ اس حقیقی اسلام کو قبول کیا جائے اور اس کی آغوش میں آیا جائے تا کہ دل کا سکون حاصل ہو۔ اسی طرح مسلمانوں میں سے ہزاروں لاکھوں جب اپنی نیک فطرت کی وجہ سے حق کی تلاش کرتے ہیں تو حقیقت اُن پر آشکار ہو جاتی ہے، اُن پر کھل جاتی ہے۔ وہ فوراً احمدیت قبول کرتے ہیں اور مسلمانوں میں سے جو احمدیت میں آتے ہیں اور حقیقی اسلام کو سمجھتے ہیں اُن کو تو خاص طور پر احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے خاندانوں اور ماحول کی وجہ سے بعض بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض دفعہ بڑی اذیت ناک صورتِ حال سے گزرنا پڑتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ثابت قدم رہتے ہیں اور اس ثابت قدمی کے لئے دعا کے لئے بھی لکھتے رہتے ہیں۔ یہ ثابت قدمی وہ اس لئے دکھاتے ہیں کہ حقیقت کو پہچاننے کے بعد حقیقت سے دور ہٹ کر کہیں وہ گناہگار نہ بن جائیں۔ اپنے علماء کا حال دیکھ کر اُنہیں نظر آ رہا ہوتا ہے کہ یہ لوگ جو ہیں یہ قول و فعل کا تضاد رکھتے ہیں۔ اُن کی علمی حالت ایسی نہیں کہ غیر مذاہب کے اعتراضات کا جواب دے سکیں بلکہ دفاع تو ایک طرف رہا بعض دفعہ مداہنت دکھا جاتے ہیں یا کہہ دیتے ہیں کہ اِن لوگوں سے بحث کی ضرورت نہیں اور یہ غیر اسلامی بات ہے۔ خاص طور پر عرب ممالک میں رہنے والے جو ہیں وہ تو اب اکثر جان گئے ہیں۔ جن لوگوں کا ایم۔ ٹی۔ اے سے رابطہ ہو گیا ہے، تعلق جُڑ گیا ہے چاہے اُنہوں نے احمدیت قبول کی ہے یا نہیں کی، عیسائی پادریوں کے اعتراضات کے جوابات جس طرح ٹھوس طور پر لاجواب کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے علماء دیتے ہیں اُن کے علاوہ اور کوئی اُن کودینے والا نظر ہی نہیں آتا۔ اُن کے علماء تو اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے۔ کئی خطوط آتے ہیں کہ ہم اسلام پر اعتراضات سُن سُن کر بے چین ہوتے تھے اور دعائیں مانگتے تھے کہ خدا تعالیٰ ہماری اس بے چینی کو دور کرے اور ہمیں اسلام کی شان و شوکت دکھائے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرتے ہوئے ہمیں ایک دن اتفاق سے ایم۔ ٹی۔ اے دکھا دیا اور احمدی علماء نے جس طرح اسلام پر اعتراض کرنے والوں کے مدلّل جواب دئیے ہیں اور اُنہیں جواب دے کر چُپ کرایا ہے ہمارے بھی سر فخر سے اونچے ہو گئے ہیں اور ہمیں بھی سکون کا سانس آیا ہے۔

بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا کسی وقت ان واقعات اور احساسات کا بھی ذکر کروں گا جو لوگوں کے آتے ہیں۔ اس وقت جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب’’اَلْھُدیٰ‘‘ میں جو بادشاہوں اور مختلف طبقوں کو مخاطب کر کے توجہ دلائی ہے یا اُن کا حال پیش فرمایا ہے اُس میں سے کچھ حصے پیش کرتا ہوں۔ اُس زمانے میں مسلمانوں کی کیا حالت تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’مسلمانوں میں بگاڑ پیدا ہو گیا ہے اور نیک لوگ سرخ گندھک کی مانند ہو گئے ہیں (نیکی بالکل نایاب ہو گئی ہے)۔ ان میں نہ تو اخلاقِ اسلام رہے ہیں اور نہ بزرگوں کی سی ہمدردی رہ گئی ہے۔ کسی سے بُرا آنے سے باز نہیں آتے خواہ کوئی پیارا یار کیوں نہ ہو۔ لوگوں کو کھولتا ہوا پانی پلاتے ہیں (یعنی تکلیفیں ہی دیتے چلے جاتے ہیں ) خواہ کوئی خالص دوست ہی ہو۔ اور دسواں حصہ بھی بدلہ میں نہیں دیتے خواہ بھائی ہو یا باپ یا کوئی اور رشتہ دار ہو اور کسی دوست اور حقیقی بھائی سے بھی سچی محبت نہیں کرتے اور ہمدردوں کی بڑی بھاری ہمدردی کو بھی حقیر سمجھتے ہیں۔ اور محسنوں سے نیکی نہیں کرتے اور لوگوں پر مہربانی نہیں کرتے خواہ کیسے ہی جان پہچان کے آدمی ہوں۔ اور اپنے رفیقوں کو بھی اپنی چیزیں دینے سے بخل کرتے ہیں بلکہ اگر تم (اپنی نظر دوڑاؤ) دوڑاؤ اپنی آنکھ کو ان میں اور بار بار ان کے منہ کو دیکھو۔ (یعنی اپنی نظر دوڑاؤ اور ان کو دیکھو) تو تم اس قوم کی ہر جماعت کو پاؤ گے فسق اور بددیانتی اور بے حیائی کا لباس پہنا ہوا ہے۔ اور ہم اس جگہ تھوڑا سا حال اپنے زمانے کے بادشاہوں اور دوسرے لوگوں کا لکھتے ہیں جو ہوا پرست لوگ ہیں …‘‘۔

پھر آگے بادشاہوں کے حالات میں فرماتے ہیں:۔ یہ عربی میں ہے ساتھ ساتھ اُس کا ترجمہ بھی آپ نے فرمایا کہ: ’’خدا تیرے پر رحم کرے کہ اکثر بادشاہ اس زمانہ کے اور امراء اس زمانہ کے جو بزرگانِ دین اور حامیانِ شرع متین سمجھے جاتے ہیں وہ سب کے سب اپنی ساری ہمت کے ساتھ زینتِ دنیا کی طرف جھک گئے ہیں۔ اور شراب اور باجے اور نفسانی خواہشوں کے سوا اُنہیں اور کوئی کام ہی نہیں۔ وہ فانی لذتوں کے حاصل کرنے کے لئے خزانے خرچ کر ڈالتے ہیں۔ اور وہ شرابیں پیتے ہیں نہروں کے کنارے اور بہتے پانیوں اور بلند درختوں اور پھلدار درختوں اور شگوفوں کے پاس اعلیٰ درجہ کے فرشوں پر بیٹھ کر اور کوئی خبر نہیں کہ رعیّت اور ملّت پر کیا بلائیں ٹوٹ رہی ہیں۔ اُنہیں امورِ سیاسی اور لوگوں کے مصالح کا کوئی علم نہیں۔ اور ضبطِ امور اور عقل اور قیاس سے انہیں کچھ بھی حصہ نہیں ملا…‘‘۔ فرمایا کہ’’… اسی طرح حرمات ِاللہ کے نزدیک جاتے ہیں اور اُن سے بچتے نہیں‘‘۔ (جو باتیں اللہ تعالیٰ نے حرام کی ہوئی ہیں اُن کے نزدیک جاتے ہیں )’’اور حکومت کے فرائض کو ادا نہیں کرتے اور متقی نہیں بنتے۔ یہی وجہ ہے کہ شکست پر شکست دیکھتے ہیں اور ہر روز تنزل اور کمی میں ہیں اس لئے کہ انہوں نے آسمان کے پروردگار کو ناراض کیا اور جو خدمت اُن کے سپرد ہوئی تھی اُس کا کوئی حق ادا نہیں کیا…‘‘۔ فرمایا ’’… وہ زمین کی طرف جھک گئے ہیں اور پوری تقویٰ سے انہیں کہاں حصہ ملا ہے۔ اس لئے ہر ایک سے جو اُن کی مخالفت کے لئے اُٹھ کھڑا ہو، شکست کھاتے ہیں اور باوجود کثرتِ لشکروں اور دولت اور شوکت کے بھاگ نکلتے ہیں۔ اور یہ سب اثر ہے اُس لعنت کا جو آسمان سے اُن پر برستی ہے۔ اس لئے کہ اُنہوں نے نفس کی خواہشوں کو خدا پر مقدم کر لیا اور ناچیز دنیا کی مصلحتوں کو اللہ پر اختیار کر لیا اور دنیا کی فانی لہو و لعب اور لذتوں میں سخت حریص ہو گئے اور ساتھ اس کے خود بینی اور گھمنڈ اور خودنمائی کے ناپاک عیب میں اسیر ہیں۔ دین میں سست اور ہار کھائے ہوئے اور گندی خواہشوں میں چست چالاک ہیں …‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’… اُنہوں نے خواہشوں سے اُنس پکڑ لیا اور اپنی رعیت اور دین کو فراموش کر دیا‘‘۔ (نہ عوام کا خیال ہے، نہ دین کا خیال ہے)’’اور پوری خبر گیری نہیں کرتے۔ بیت المال کو باپ دادوں سے وراثت میں آیا ہوا مال سمجھتے ہیں اور رعایا پر اسے خرچ نہیں کرتے جیسے کہ پرہیز گاری کی شرط ہے۔ اور گمان کرتے ہیں کہ ان سے پرسش نہ ہو گی اور خدا کی طرف لوٹنا نہیں ہو گا۔ سو ان کی دولت کا وقت خواب پریشان کی طرح گزر جاتا ہے…‘‘۔ فرمایا ’’… اگر تم ان کے فعلوں پر اطلاع پاؤ تو تمہارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور حیرت تم پر غالب آ جائے۔ سو غور کرو کیا یہ لوگ دین کو پختہ کرتے اور اس کے مددگار ہیں۔ کیا یہ لوگ گمراہوں کو راہ بتاتے اور اندھوں کا علاج کرتے ہیں‘‘۔ (الھدی والتبصرۃلمن یری۔ روحانی خزائن جلد 18۔ صفحہ 284-280۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)

یہ تو ان بادشاہوں کا حال ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ افریقن ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو ناکام کرنے کے لئے یہ اپنی طرف سے کوشش کرتے ہیں۔ گو اپنی دولت کا تو یہ شاید ہزارواں حصہ بھی خرچ نہیں کرتے۔ معمولی سی رقم دے کر (کیونکہ دولت ان کے پاس بے انتہا ہے، تیل کی دولت ہے۔) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کی مخالفت کے لئے اپنے مشنری بھیجے ہیں۔ پہلے ان کو خیال نہیں آیا لیکن اب اس کام کے لئے بھیج رہے ہیں۔ بہر حال پھر آگے آپؑ فرماتے ہیں کہ:

’’…انہیں شریعت کے احکام سے نسبت ہی کیا۔ بلکہ وہ تو چاہتے ہیں کہ اس کی قید سے نکل کر پوری بے قیدی سے زندگی بسر کریں۔ اور خلفائے صادقین کی سی قوت عزیمت ان میں کہاں اور صالح پرہیز گاروں کا سا دل کہاں جس کا شیوہ حق اور عدالت ہو۔ بلکہ آج خلافت کے تخت ان صفات سے خالی ہیں …‘‘۔ (لیکن کہتے ہیں کہ ہم میں خلافت قائم ہو گی۔ اُس کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں۔ علماء کی طرف سے کبھی کسی کا نام پیش کیا جاتا ہے کبھی کسی کا۔ فرمایالیکن بہر حال ان کے دل ان صفات سے خالی ہیں اس لئے خلافت ان میں ہو نہیں سکتی۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’…دھیان نہیں کرتے کہ ملت کی ہوا ٹھہر گئی ہے اور اس کے چراغ بجھ گئے ہیں اور اس کے رسول کی تکذیب ہو رہی ہے اور اس کے صحیح کو غلط کہا جا رہا ہے بلکہ ان میں سے بہتیرے خدا کی منع کی ہوئی چیزوں پر اَڑ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور سخت دلیری سے خواہشوں کو محرمات کے بازاروں میں لے جاتے ہیں …‘‘۔ (یعنی کھلے عام ایسی بے حیائیاں کر رہے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہوا ہے۔) فرمایا کہ ’’… صبح اور شام ان کی خوش زندگی ہر طرح کی لذات میں بسر ہوتی ہے۔ سو ایسے لوگوں کو خدا سے کیونکر مدد ملے جبکہ ان کے ایسے پُر معصیت اور بُرے اعمال ہوں۔ بلکہ ان عیش پسند غافل بادشاہوں کا وجود مسلمانوں پر خدا تعالیٰ کا بڑا بھاری غضب ہے‘‘۔ (ان کا وجود ہی مسلمانوں کی سزا بھی ہے) ’’جو ناپاک کیڑوں کی طرح زمین سے لگ گئے ہیں اور خدا کے بندوں کے لئے پوری طاقت خرچ نہیں کرتے اور لنگڑے اونٹ کی طرح ہو گئے ہیں اور چست چالاک گھوڑے کی طرح نہیں دوڑتے۔ اسی سبب سے آسمان کی نصرت ان کا ساتھ نہیں دیتی اور نہ ہی کافروں کی آنکھ میں ان کا ڈر خوف رہا ہے جیسے کہ پرہیز گار بادشاہوں کی خاصیت ہے۔ بلکہ یہ کافروں سے یوں بھاگتے ہیں جیسے شیر سے گدھے۔ اور لڑائی کے میدان میں ان کے دو ہزار کے لئے دو کافر کافی ہیں …‘‘۔

فرمایا ’’… ایسی خیانت اور گمراہی کے ہوتے انہیں کیونکر خدا سے مدد ملے۔ اس لئے کہ خدا اپنی دائمی سنت کو تبدیل نہیں کرتا اور اس کی سنت ہے کہ کافر کو تو مدد دیتا ہے پر فاجر کو ہرگز نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ نصرانی بادشاہوں کو مدد مل رہی ہے اور وہ ان کی حدوں اور مملکتوں پر قابض ہو رہے ہیں اور ہر ایک ریاست کو دباتے چلے جاتے ہیں‘‘۔ (آج بھی دیکھ لیں ظاہری طور پر اگر نہیں بھی تو عملی طور پر غیروں کے ہاتھوں میں مسلمان بادشاہوں کی اور ملکوں کی لگامیں ہیں۔ اِن کی معیشت اُن کے ہاتھ میں ہے۔)

فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو اس لئے نصرت نہیں دی کہ وہ ان پر رحیم ہے‘‘ (یعنی غیروں کو جو مدد مل رہی ہے اور مسلمانوں کی جو بری حالت ہے، غیروں کی یہ مدد اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن پر بڑا مہربان ہے) ’’بلکہ اس لئے کہ اس کا غضب مسلمانوں پر بھڑکا ہوا ہے۔ کاش مسلمان جانتے‘‘۔ (الھدی والتبصرۃلمن یری۔ روحانی خزائن جلد 18۔ صفحہ 284 تا287۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)

یہ آپ کا درد ہے۔ اور آج یہ بات بڑی حقیقت ہے اور اخباروں میں جوحقیقت پسند کالم لکھنے والے ہیں، تبصرہ نگار ہیں، وہ بھی یہی لکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مَیں نے ’دی نیشن‘میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک مضمون دیکھا جنہیں پاکستان کا سائنٹسٹ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بھی قرآنی آیات کی روشنی میں یہ سارا کچھ لکھا ہوا تھا کہ یہ یہ باتیں ہم کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا عذاب ہم پر نازل ہو رہا ہے۔ تو بہر حال یہ تو ان کی حالت ہے۔

پھر آگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اگر یہ متقی ہوتے تو کیونکر ممکن تھا کہ ان کے دشمن ان پر غالب کئے جاتے۔ بلکہ جب انہوں نے دعا اور عبادت کو چھوڑ دیا تب خدانے بھی ان کی کچھ پروا نہ کی…‘‘۔ فرمایا ’’…خدا کا عہد توڑنے اور قرآن کی حدود کی بے عزتی کرنے کے سبب سے خطرناک حادثے ان پر نازل ہو رہے ہیں۔ اور بہت سے شہر ان کے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں …‘‘۔ فرمایا ’’…یہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سے سزااور گرفت ہے…‘‘۔ فرماتے ہیں ’’… دشمنوں نے انہیں رسوا نہیں کیا بلکہ خدانے کیا۔ اس لئے کہ خدا کی آنکھوں کے سامنے انہوں نے بے فرمانیاں کیں سو اس نے انہیں دکھایا جو دکھایا اور انہیں آفات میں چھوڑ دیا اور نہ بچایا اور ان کے وزیر بددیانت اور خائن ہیں …‘‘۔

پھر آپ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ ان کے جتنے وزیر اور مشیر ہیں وہ اپنے وزیر اور مشیر ہونے کا حق ادا نہیں کر رہے بلکہ بد دیانتی میں ان سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں اور بددیانتی کی طرف ان لوگوں کو لے کر جا رہے ہیں۔ آگے لکھتے ہیں کہ ’’یورپ کے اخبار انہیں سست اور نالائق لکھتے ہیں‘‘۔ (الہدیٰ والتبصرۃلمن یریٰ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 287 تا 289) (اور آج بھی یہ حقیقت ہے)۔ پھر آپ فرماتے ہیں ’’… مردوں کی خُوبُو اُن میں رہی ہی نہیں …‘‘۔ ’’…نماز کی پابندی نہیں کرتے اور خواہشیں ان کی راہ میں چٹان اور روک بن گئی ہیں اور اگر نماز پڑھیں بھی تو عورتوں کی طرح گھر میں پڑھتے ہیں اور متقیوں کی طرح مسجدوں میں حاضر نہیں ہوتے…‘‘۔ (الھدی والتبصرۃلمن یری۔ روحانی خزائن جلد 18۔ صفحہ 287 تا292۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)

پھر فرمایا: ’’اور وعظ کی کوئی بات سن نہیں سکتے۔ جھٹ کبر اور نخوت کی عزت انہیں جوش دلاتی ہے اور غضب اور غیرت میں نیلے پیلے ہوجاتے ہیں۔ اور اُن کے نزدیک بڑا مکرم وہ ہوتا ہے جو ان کا حال انہیں خوبصورت کرکے دکھائے اور ان کی اور ان کے اعمال کی تعریف کرے…‘‘۔ یعنی صرف خوشامدی ان کو پسند ہے۔ پھر فرمایا کہ ’’… جب خدا نے ان کا فسق و فجور اور ظلم اور جھوٹ اور اِترانااور ناشکرگزاری دیکھی۔ اُن پر ایسے لوگوں کو مسلّط کیا جو اُن کی دیواروں کو پھاندتے اور ہر بلند جگہ پر چڑھ جاتے ہیں اور ان کے باپ دادوں کی ملکیت پر قبضہ کرتے ہیں اور ہرریاست کو دباتے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ہونے والا تھا اور تم قرآن میں یہ باتیں پڑھتے ہو اور سوچتے نہیں …‘‘۔ جیسا کہ مَیں نے کہا معیشت کی صورت میں اب مسلمانوں کی ہر چیز غیروں کے قبضے میں ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’… سو جبکہ انہوں نے دِلوں کا تقویٰ بدل دیا خدا نے ان کے امورِ دنیا کو بدل دیا۔ اور اس لئے بھی کہ وہ گناہوں پر دلیر تھے۔ اور خدا تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتاجب تک وہ اپنی اندرونی حالت کو آپ نہ بدل لیں اور نہ ہی ان پر رحم کیا جاتا ہے۔ بلکہ خدااُن گھروں پر لعنت کرتاہے اور اُن شہروں پر جن میں لوگ بدکاری اور جرم کریں۔ اور بدکاری کے گھروں پر فرشتے اتر کر کہتے ہیں اے گھر خداتجھے ویران کرے‘‘۔ (الھدی والتبصرۃلمن یری۔ روحانی خزائن جلد 18۔ صفحہ 292 تا294۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)

فرمایا ’’… بادشاہان نصاریٰ کو مت کوسو‘‘ (لوگوں کو فرماتے ہیں کہ غیروں کو مت کوسو کہ تمہیں تکلیفیں پہنچا رہے ہیں ) ’’سو بادشاہانِ نصاریٰ کو مت کوسو اور جو کچھ تمہیں ان کے ہاتھوں سے پہنچا ہے اسے مت یاد کرو۔ اوبدکارو!خود اپنے آپ کو ملامت کرو۔ کیا تم میری باتیں سنتے ہو۔ نہیں نہیں تم تومنہ بناتے اور گالیاں دیتے ہو۔ اور تمہیں سننے والے کان اور سمجھنے والے دل تو ملے ہی نہیں اور تمہیں اتنی فرصت ہی کہاں کہ کھانے پینے سے عقل کی طرف آؤاور خُم مَے سے الگ ہو کر خدا کی طرف دھیان کرو اور تم میں سوچنے والے جوان ہی کہاں ہیں۔ کیا تم دشمنوں کو کوستے ہو اور تمہیں جو کچھ پہنچاہے اپنی بدکرداریوں کی وجہ سے پہنچاہے‘‘۔ (ایضاً صفحہ 295)

پھر آپ نے عوام کو بھی مخاطب کر کے فرمایا، جو آج کل ہڑتالیں کر رہے ہیں کہ:

’’سنو تم اگر نیکوکار ہوتے تو بادشاہ بھی تمہارے لئے صالح بنائے جاتے‘‘ (تم نیک ہوتے تو بادشاہ بھی نیک ہوتے)۔ ’’اس لئے کہ متقیوں کے لئے خدا تعالیٰ کی ایسی ہی سنت ہے۔ اور مسلمان بادشاہوں کی مدح سرائی سے باز آؤ اور اگر اُن کے خیر خواہ ہو تو اُن کے لئے استغفار پڑھو…‘‘۔

فرمایا: ’’…خدانے انہیں تمہارے حق میں سازوسامان اور تمہیں ان کے آلات بنایاہے۔ سواگر مخلص ہوتو تقویٰ اور نیکی پر ایک دوسرے کے مددگار بن جاؤ۔ اور انہیں ان کی بدکرداریوں پر آگاہ کرواور لغویات پر انہیں اطلاع دو اگر تم منافق نہیں۔ واللہ وہ اپنی رعیت کے حقوق ادا نہیں کرتے…‘‘۔ (فرمایا کہ سمجھانا بالکل ٹھیک ہے، ضروری ہے۔ جائز ہے کہ بادشاہ کے سامنے حق بات کہنی چاہئے۔)

فرماتے ہیں کہ’’… قسم بخدا ان کے دل پہاڑوں کے پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہیں …… وہ کبھی خدا کے حضور گڑگڑاتے نہیں۔ ان فعلوں اور عملوں سے ثابت ہوگیا کہ انہوں نے خدا کو ناراض کرکے گمراہی کے طریق اختیار کئے ہیں اور خود قاتل زہر کھا کر رعیت کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے سو ان کے لئے وبال سے دوحصے ہیں …‘‘۔

فرمایا ’’…سو اے متکلمو!تم میں کوئی ایسا ہے جوانہیں ان عادات کے نتیجوں پر آگاہ کرے۔ اس لئے کہ ان لوگوں نے ناپاک خواہشوں کے پیچھے اپنا دین کھو دیا ہے اور تمام احوال میں اَحْوَل بن گئے ہیں‘‘ (یعنی ان کی نظریں ٹیڑھی ہو گئی ہیں۔ بھینگے ہو گئے ہیں) فرمایا’’بلکہ میرے نزدیک تو وہ بالکل اندھے ہیں۔ مَیں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم ان کی اطاعت کو چھوڑ کر ان سے جنگ و جدال کرو‘‘۔ (بڑا واضح فرمایا۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم ان کی اطاعت کو چھوڑ کر ان سے جنگ و جدال کرو۔ کلمہ حق کہو۔ جنگ کے لئے اجازت نہیں ہے۔ اور پھر دعا ہے۔ دعا کی طرف پہلے توجہ دلائی۔ استغفار کی طرف توجہ دلائی)’’مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم ان کی اطاعت کو چھوڑ کر ان سے جنگ و جدال کرو۔ بلکہ خدا سے ان کی بہتری مانگو تاکہ وہ باز آ جائیں۔ اور یہ تو ان سے امیدنہ رکھو کہ وہ اصلاح کرسکیں گے ان باتوں کی جنہیں دجال کے ہاتھوں نے بگاڑدیاہے یا وہ اس قدر تباہی اور پریشانی کے بعد ملّت کی حالت کو درست کر لیں گے۔ اورتم جانتے ہو کہ ہر میدان کے لئے خاص خاص مرد ہوا کرتے ہیں اور کیا ممکن ہے کہ مُردہ دوسروں کو زندہ کر سکے یا گمراہ دوسروں کو ہدایت دے۔ ……تو پھر ان سے کیا اُمید رکھ سکتے ہو۔ ہمیں تو امیدنہیں کہ وہ سنورجائیں جب تک انہیں موت ہی آکر بیدار نہ کرے۔ ہاں وعظ و پند کرنے کا ہمیں حکم ہے…‘‘۔ (نصیحت کرنے کا حکم ہے وہ کرتے چلے جا رہے ہیں )۔

فرمایا ’’…ان میں فراست کی قوت اور اصولِ مُلک داری کا علم نہیں۔ انہوں نے چاہاکہ اپنے عیسائی پڑوسیوں کی مکاریوں کو سیکھیں لیکن باریک فریبوں اور بچاؤ کی تدبیروں میں ان تک پہنچ نہ سکے۔ سو وہ اس مرغ کی مانند ہیں جس نے پرواز میں کرگس بنناچاہا…‘‘۔

فرمایا کہ ’’…عیسائیوں کے مقابل جو کچھ انہیں تقوی اللہ کے متعلق تعلیم ملی تھی اس سے تو منہ پھیر لیا اور اپنے مخالفوں کی طرح وہ چالاکیاں اور داؤبھی پورے نہ سیکھے اور مسلمان بادشاہوں کی نسبت خدا تعالیٰ وعدہ کر چکا ہے کہ جب تک متقی نہ بنیں گے ان کی کبھی مددنہ کرے گا اور اس نے ایسا ہی چاہا ہے کہ نصاریٰ کو ان کے مکر میں کامیاب کردے جبکہ مومنوں نے اُسے ناراض کیاہے…‘‘۔

فرمایا ’’…کیا تم خیال کرتے ہو کہ وہ اسلام کی حدوں کو کفار سے بچا سکیں گے؟ ……کیا تم گمان کرتے ہو کہ وہ اسلام کی پناہ میں ہیں۔ سبحان اللہ بڑی بھاری غلطی ہے بلکہ وہ تو بدعتوں سے دین خیرالانام کی بیخ کنی کرتے ہیں۔ تمہارا اختیار ہے کہ تم ان کی نسبت نیک گمان کرو اور بدکرداریوں سے اُن کی بریت ثابت کرو۔ لیکن کن علامتوں سے تم ایسا دعویٰ کرو گے۔ کیا تمہارا خیال ہے کہ وہ حرمین شریفین کے خادم اور محافظ ہیں۔ ایسا نہیں بلکہ حرم انہیں بچا رہا ہے اس لئے کہ وہ اسلام اور رسول خدا کی محبت کے مدعی ہیں‘‘۔ (دعویٰ تو اُن کا ہے کہ ہم اسلام سے محبت کرنے والے ہیں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں، اس لئے وہ حرمین شریفین کی حفاظت نہیں کر رہے بلکہ وہ اُن کو بچا رہا ہے) ’’اور اگر وہ سچی توبہ نہ کریں تو سزا سر پر کھڑی ہے۔ سو تم میں کوئی ہے جو انہیں بُرے دنوں سے ڈرائے۔ تم دیکھتے نہیں کہ اسلام بیدادگر زمانہ کے ہاتھوں سے چُور ہو گیا ہے اور موسلا دھار مینہ کی طرح فتنے اس پر برس رہے ہیں۔ اور دشمنوں کی فوجیں شکاری کی طرح اس کے پھانسنے کو آمادہ ہیں۔ اور اب ایسی کوئی بات نہیں جو دِلوں کو خوش کرے اور دُکھوں کو دور کرے۔ اور مسلمان جنگل کے پیاسے یا اُس مریض کی طرح ہیں جو سانس توڑ رہا ہو…‘‘۔

فرمایا ’’… بعض لوگ تو مسلمانوں پر ہنسی اُڑاتے گزرجاتے ہیں اور بعض روتے ہوئے ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ اور تم دیکھتے ہو کہ دل سخت ہو گئے ہیں اور گناہ بڑھ گئے ہیں۔ اور سینے تنگ ہو گئے اور عقلیں تیرہ و تار ہوگئیں اور غفلت اور سُستی اور عصیان کی ترقی اور جہالت اور گمراہی اور فساد کا غلبہ ہو گیا ہے اور تقویٰ کانام و نشان نہیں رہا۔ اور دِلوں میں وہ نور جس سے ایمان کوقوت ہو نہیں رہا اور آنکھیں اور زبانیں اور کان پلید ہوگئے ہیں اور اعتقادبگڑ گئے اور سمجھیں چھینی گئیں اور نادانیاں ظاہر ہوگئی ہیں اور عبادت میں نمود اور زہد میں خود بینی داخل ہو گئی ہے۔ ……سعادت کے نشان مٹ گئے ہیں اور محبت اور اتفاق جاتا رہا اور بغض اور پھوٹ پیدا ہوگئی ہے اور کوئی گناہ اور جہالت نہیں جو مسلمانوں میں نہیں اور کوئی ظلم اور گمراہی نہیں جو ان کی عورتوں اور مردوں اور بچوں میں نہیں۔ خصوصاً ان کے امیروں نے راہ حق کو چھوڑ دیا ہے…‘‘۔

اور جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا سب کچھ چھوڑنے کے باوجود علماء نے ان کو اس طرح بگاڑ دیا ہے کہ عوام بھی احمدیت کی مخالفت میں آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں مَیں ایک مشنری کی رپورٹ میں دیکھ رہا تھا، اُن کا ایک عیسائی دوست ہے جو اُن کے پاس ہندوستان میں اپنے کسی مسلمان واقف کار کے ہاں آیا۔ اس کو پتہ تھا کہ وہ مسلمان شراب پیتا ہے۔ تو کہتا ہے مَیں نے جان کر اسے سنانے کے لئے کہا، باتوں باتوں میں اسے بتایا کہ بعض احمدی بھی میرے دوست ہیں۔ اور وہ مسلمان اس وقت اُس کے سامنے بیٹھا شراب پی رہا تھا۔ وہ کہتا ہے احمدی تو مسلمان ہی نہیں ہیں۔ تم کیا باتیں کر رہے ہو۔ کہتا ہے مَیں نے اسے کہا کہ قرآنِ کریم میں شراب کی حرمت ہے، احمدی شراب نہیں پیتے، اس کے باوجود وہ مسلمان نہیں۔ احمدی نمازیں پڑھتے ہیں۔ اس کے باوجود تمہارے مطابق وہ مسلمان نہیں۔ وہ کہتا ہے احمدی (جن کو مَیں نے دیکھا ہے) قرآنِ کریم کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن تم کہتے ہو کہ وہ مسلمان نہیں اور تم باوجود اس کے کہ ابھی میرے سامنے شراب پی رہے ہو اور قرآنِ کریم کی تعلیم کی خلاف ورزی کر رہے ہو، تم مسلمان ہو۔ تو کہتاہے پہلے سنتا رہا اور بولا کچھ نہیں۔ خاموش ہو گیالیکن شراب کا گلاس بھی ہاتھ میں ہی تھا۔ تو پھر مَیں نے اس کو کہا(یہ عیسائی تھا) کہ پریشان نہ ہویہ تو ایسے ہی بات سے بات نکل آئی تھی مَیں نے کر دی۔ تم یہ شراب پی رہے ہو بیشک پیتے رہو۔ اس نے بغیر کسی انتظار کے فوراً دوبارہ پینی شروع کر دی۔ تو یہ مسلمانوں کی حالت ہے۔ لیکن احمدی(ان کے نزدیک) مسلمان نہیں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ’’… نشان ظاہر ہوئے پر انہوں نے قبول نہ کیا۔ سو خدا کا غضب اُترا۔ اور جب انہوں نے عذاب دیکھا کہنے لگے کہ تیرے وجود کو ہم نجس سمجھتے ہیں‘‘ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود کو گندہ سمجھتے ہیں ) ’’اوریہ طاعون تیرے جھوٹ کی وجہ سے پھیلی ہے‘‘۔ (خدا تعالیٰ کے جو عذاب آ رہے ہیں نعوذ باللہ۔ یہ اس لئے آ رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نعوذ باللہ جھوٹا دعویٰ کیا ہے۔ آج بھی یہی اُن کا حال ہے)اور پھر فرماتے ہیں ’’کہا گیا تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے…‘‘۔ (نعوذ باللہ)

فرمایا کہ ’’… خدا نے کوئی رسول نہیں بھیجا جس کے ساتھ آسمان اور زمین سے عذاب نہ بھیجا گیا ہو اس لئے کہ وہ باز آئیں …‘‘۔ پس یہ عذاب اور آفتیں جو ہیں یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائیدات میں ہیں۔ (ایضًا صفحہ 295تا 304)

پھر فرماتے ہیں: ’’… مجھے بتاؤ کہ تمہارے بادشاہوں سے کس بادشاہ نے اس طوفان کے وقت کشتی بنائی بلکہ وہ خود بھی ڈوبنے والوں کے ساتھ ڈوب گئے اور زمانہ کی قینچی نے ان کے ناخن قلم کر ڈالے اور ان کے منہ کو گردوغبار نے ڈھانک لیا اور زمانہ نے اُن کا پانی خشک کردیا اور اقبال ان سے الگ ہوگیا‘‘۔ (اُن کی شان جو تھی وہ ختم ہو گئی)’’اور انہوں نے حیلے تو کئے پر اُن سے کچھ نفع نہ پایااور ایسے فتنے آشکار ہوئے کہ وہ اپنی کمیٹیوں اور پارلیمنٹوں کے ذریعہ اور دشمنوں کی سرحدوں پر فوجوں کی چھاؤنی ڈال دینے کے وسیلہ ان کی اصلاح نہ کرسکے۔ بسا اوقات انہوں نے ہتھیار سجائے اور بڑے بڑے لشکر بھیجے مگر نتیجہ سوائے شکست اور بڑی ذلت کے کچھ نہ ہوا…‘‘۔ (ایضًا صفحہ 305)

فرماتے ہیں ’’… اب بتاؤ اے طبیبو! تمہارے نزدیک علاج کا کیا طریق ہے؟ کیا تمہاری رائے میں یہ امراء اس بلا کو دفع کرسکتے ہیں؟ اور کیا تم امید کرتے ہو کہ یہ بادشاہ ان کانٹوں سے دین کے باغ کو پاک کرسکیں گے؟ یا تم خیال کرتے ہو کہ یہ بیماریاں اسلامی سلطنتوں اور ان کی معلوم کوشش سے اچھی ہو جائیں گی؟ نہیں نہیں یہ بات اس سے زیادہ دشوار ہے کہ تم تھوہر سے تازہ کھجوروں کی امید رکھو‘‘۔ (تھوہر کے پودے سے تازہ کھجور کی امید رکھو)۔ ’’اور ان سے کیا توقع کی جائے اور وہ تو بڑے پتھروں کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور وہ کیونکر سر اٹھائیں اور وہ ہزاروں غموں کے نیچے آئے ہوئے ہیں۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ان آفتوں کا دفع کرنا بادشاہوں اور امیروں کامقدور نہیں۔ کیا کبھی اندھا اندھے کو راہ بتا سکتا ہے۔ اے دانشمندو!۔

علاوہ بریں اگرچہ یہ بادشاہ مسلمان یا مخلص ہمدرد بھی ہوں لیکن پھر بھی ان کے نفوس پاک کاملوں کے نفوس کی مانندنہیں ہیں اور مقدسوں کی طرح انہیں نور اور جذب نہیں دیا جاتا۔ اس لئے کہ نور آسمان سے اسی دل پر اترتا ہے جو فنا کی آگ سے جلایا جاتا ہے۔ پھر اُسے سچی محبت دی جاتی ہے اور رضا کے چشمہ سے اُسے غسل دیا جاتا اور بینائی اور سچائی اور صفائی کا سرمہ اس کی آنکھوں میں لگایا جاتا ہے۔ پھر اسے برگزیدگی کے لباس پہنائے جاتے ہیں اور پھر اسے بقا کا مقام بخشا جاتا ہے۔ اور جو آپ ہی اندھیرے میں بیٹھا ہو وہ اندھیرے کو کیونکر دُور کرسکتا ہے۔ اور جو آپ ہی لذات کے تختوں پر سوتا ہو وہ کسی کو کیا جگا سکتا ہے۔ اور حق بات یہ ہے کہ اس زمانہ کے بادشاہوں کو روحانی امور سے کوئی مناسبت نہیں۔ خدا نے ان کی ساری توجہ جسمانی سیاستوں کی طرف پھیر دی ہے۔ اور کسی مصلحت سے انہیں اسلام کے پوست کی حمایت کے لئے مقرر کررکھا ہے‘‘۔ (یعنی ظاہری حمایت کے لئے مقرر کر رکھا ہے۔ ) ’’سیاسی اُمور ہی ان کے پیشِ نظر رہتے ہیں۔ …… اُن کا فرض اس سے زیادہ نہیں کہ اسلام کی سرحدوں کی نگہداشت کا اچھا انتظام کریں اور ظاہر ملک کی خبر گیری کرکے دشمنوں کے پنجوں سے اسے بچائیں۔ رہے لوگوں کے باطن اور ان کا پاک کرنامیل کچیل سے۔ اور بچانا لوگوں کو شیطان سے۔ اوران کی نگہبانی کرنا آفتوں سے دعاؤں کے ساتھ اور عقد ہمت کے ساتھ۔ سو یہ معاملہ بادشاہوں کی طاقت اور ہمت سے باہر اور بالا تر ہے‘‘(روحانیت میں انہیں کوئی دخل نہیں ) اور دانشمندوں پر یہ بات پوشیدہ نہیں۔ اور بادشاہوں کو مُلک کی باگ اس لئے سپرد کی جاتی ہے کہ وہ اسلامی صورتوں کو شیاطین کی دستبرد سے بچائیں۔ اس لئے نہیں کہ وہ نفوس کو پاک صاف کریں اور آنکھوں کو نورانی بنائیں‘‘۔ (ایضًا صفحہ 307تا 309)

پھر علماء کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ان کی اکثریت اسلام کے لئے بیماری کا حکم رکھتی ہے نہ کہ علاج کا۔ یہ لوگوں کے مال طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے ہتھیاتے ہیں۔ کہتے ہیں پر کرتے نہیں‘‘۔ (جو حکم دیتے ہیں وہ خودنہیں کرتے) ’’نصیحت کرتے ہیں پر خودنصیحت نہیں پکڑتے‘‘۔ (خلاصہ ان کی باتوں کا یہ ہے) ’’ان کی زبانیں درشت، دل سخت اور اندھیروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان کی آراء کمزور، ذہن کند، ہمتیں پست اور عمل برے ہیں۔ تھوڑے سے علم پر مغرور ہوجاتے ہیں اور جو اِن سے اختلاف کرے اس پر زبان طعن دراز کرتے اور مختلف حیلوں سے کفر کے فتوے لگاتے ہیں اور دکھ دیتے ہیں اور اس کا مال لوٹ لیتے ہیں …‘‘۔

فرمایا ’’…بخل ان کی فطرت، حسد ان کا شیوہ، تحریفِ شریعت ان کا دین ہے…‘‘۔ (شریعت میں تحریف کرتے ہیں اور پھر نعوذ باللہ نام یہ کہ احمدیوں نے کیا ہے) ’’غضب کے وقت یہ بھیڑیئے ہیں۔ …ان کی ناراضگی یا خوشی صرف اپنے نفس امارہ کی خاطر ہوتی ہے اور ان کا ذکر اور تسبیح محض دکھاوے کیلئے ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو لوگوں کی گردنوں کا مالک سمجھتے ہیں‘‘۔ (کیسی حقیقت بیان کی ہے۔ اور آج کل تو پاکستان میں یہ بہت زیادہ اپنے آپ کولوگوں کی گردنوں کا مالک سمجھنے لگ گئے ہیں ) ’’جس کو چاہیں فرشتہ قرارد ے دیں اور جسے چاہیں شیطان کا بھائی۔ ان میں حلم وبردباری کا نام ونشان نہیں بلکہ زبان درازی میں انہوں نے درندوں کو بھی مات دیدی ہے۔ وہ تمہارے پاس بھیڑوں کے لباس میں آتے ہیں حالانکہ وہ انواع واقسام کے بہتانوں سے حملہ کرنے والے خونخوار بھیڑئے ہیں۔ ان کے ہاتھ جھوٹے فتوے لکھتے ہیں اور ایک دو درہم ان کے ایمان کو تباہ کرنے کیلئے کافی ہیں۔ وہ لوگوں کو قبول حق سے روکتے ہیں اور شیطان کی طرح وسوسے ڈالتے ہیں۔ ان کا تکبر بہت بڑھ گیا ہے اور تدبر کم ہو گیا ہے۔ کوئی مفید بات کرنے کی قدرت نہیں رکھتے بلکہ شکوک وشبہات کو ہوا دیتے ہیں۔ جب خاموش ہوتے ہیں تو ان کی خاموشی فرائض کو ترک کرنے کیلئے ہوتی ہے اور جب کلام کرتے ہیں تو اس میں کوئی رعب اور تاثیر نہیں ہوتی۔ شریعت کے مشکل مسائل کے حل سے ان کو کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی طریقت کی باریکیوں کی کوئی خبر ہے۔ عیسی علیہ السلام کی موت کا عقیدہ بڑا واضح ہے لیکن انہیں اسلام کی فتح سے کوئی غرض نہیں ہے…‘‘۔ فرمایا’’…خدا کی طرف سے ان کی قسمت میں صرف شور شرابا ہی ہے۔ قرآن کو پڑھتے ہیں لیکن صرف زبان سے۔ ان کے دلوں میں قرآن نے کبھی جھانکا ہی نہیں …‘‘۔

فرمایا ’’…ان میں کسل اور غفلت بہت بڑھ گیا ہے اور ذہانت وفراست کم ہو گئی ہے۔ مشکل اور پیچیدہ مسائل حل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ تو انہیں جذبات نفس کی و جہ سے مدہوش اور نفس کااسیرپائے گا…‘‘۔

فرمایا ’’…خدا ئے رحمن کے حقوق کو بھلائے بیٹھے ہیں۔ اس حال میں کیسے ان سے کسی نصرتِ دین کی توقع کی جا سکتی ہے؟…‘‘

فرمایا ’’…تعصب نے انہیں درندہ صفت بنادیا ہے اور حق بات سننے سے روک دیاہے۔ انکا دین حرص وہوا پرستی‘ کھانا پینا اور مال بٹورنا ہے۔ اسلام کی مصیبت زدہ حالت پر نہ غم کھاتے ہیں، نہ ہی روتے ہیں‘‘۔ (اگر روئیں گے بھی تو مگر مچھ کے آنسو ہیں )’’اپنے بادشاہوں کو تودیکھ کران پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے جبکہ خدائے ذوالجلال والاکرام سے کوئی خوف نہیں۔ نہ ہی انہیں ضلالت اور فتنوں کے پھیلنے اور آفات کے نازل ہونے سے کوئی خوف محسوس ہوتاہے۔ … ان میں سے ایک فریق جہاد کے نام پر جاہل لوگوں کوتلواروں سے گردنیں مارنے پر ابھار رہا ہے۔ چنانچہ وہ ہر اجنبی اور راہ رَو کا خون کرتے پھرتے ہیں اور تقویٰ اختیار نہیں کرتے‘‘۔

تو یہ بعض حصے تھے اُن چند صفحات کے جومَیں نے پیش کئے۔ سو سال سے زائد عرصہ پہلے یہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی تھیں۔ مسلمانوں کی حالت کا جو نقشہ آپ نے کھینچا، آج بھی ہم اُسی طرح دیکھتے ہیں۔ آپ کے الفاظ اور آپ کا مشاہدہ جو ہے وہ آج بھی ان کے عمل کی گواہی دے رہا ہے کہ ایسے ہی عمل ہیں اور یہی آپ کے الفاظ کی صداقت پر گواہی ہے۔ ان کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے جس طرح آپ کو بتایا وہ آپ نے بیان فرمایا۔ حالات کا جوحل آپ نے پیش فرمایا ہے وہ بھی اسی کتاب میں ہے۔

اس کے بعد کچھ فرقوں کا ذکر فرما رہے ہیں۔ کچھ مختلف لوگوں کا بھی ذکر فرما رہے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ: ’’ان تمام فرقوں کو چھوڑ دو اور تلاش کرو کہ کہیں اللہ نے اپنی طرف سے کوئی علاج نہ نازل کیا ہو‘‘۔ (اللہ تعالیٰ نے کہیں اپنی طرف سے کوئی علاج تو نہیں نازل کیا) ’’یاد رکھو کہ ان فتنوں کا علاج آسمان میں ہے نہ کہ لوگوں کے ہاتھوں میں۔ قرآن کریم میں پرانے لوگوں کے قصے پڑھ کے دیکھ لوکہ ان کے بارہ میں خداتعالیٰ کی کیا سنت تھی۔ پھربعد میں آنے والوں کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کی سنت کیونکر تبدیل ہو سکتی ہے؟‘‘

فرمایا ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ وقت امام کے ظہور کا نہیں ہے؟ …جبکہ تم گمراہی اور جہالت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ پھر اسلام پر حملے ہورہے ہیں اور بلائیں جان ہی نہیں چھوڑرہیں اور اس طوفانِ ضلالت میں تمہارے درمیان کوئی خادمِ دین نظر نہیں آتا۔ حالت یہ ہے کہ لوگ خدا کی نصیحت اور قرآن کی ہدایت بھول چکے ہیں اور جو کچھ حدیثوں میں آیا ہے اسے بھی ردّ کر چکے ہیں۔ کئی گمراہ کن عقائد میں عیسائیوں کے ہم زبان بن چکے ہیں۔ انہیں اپنے کھانے پینے اور عیش وعشرت کی زندگی کے علاوہ کسی چیز کی فکر نہیں۔ کیا ان لوگوں سے دین کی اصلاح کی توقع کی جاسکتی ہے؟‘‘

فرمایا ’’کہتے ہیں کہ صرف عیسیٰؑ ہی مس ِشیطان سے پاک ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھول گیا ہے کہ إِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَان۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معصوم اور مسّ ِشیطان سے پاک نہ تھے؟ پس آج حیاتِ عیسیٰؑ کے عقیدہ سے بڑا گناہ کوئی نہیں ہے۔ اس عقیدہ کے ذریعہ تم عیسائیوں کی تائید کر رہے ہو‘‘۔

فرمایا: ’’تم خود زمانے کی حالت پر غور کرو۔ امت اتنے فرقوں میں بٹ گئی ہے کہ بجز خدائے رحمن کی عنایت کے ان کا اکٹھا ہونا محال ہے۔ کیونکہ ہر ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہا ہے او راب زبانی بحثوں سے بات جنگ وجدال اور قتال تک جاپہنچی ہے۔ ایسی حالت میں کیا تم سمجھتے ہو کہ اختلافات کے اتنے بڑے پہاڑ وں کو درمیان سے ہٹا کرتم آپس میں صلح کر کے یکجان ہوکراسلام کے مخالفین کے سامنے میدان میں آسکتے ہو؟ ہر گز نہیں‘‘۔

حالت تو یہ ہے کہ پاکستان میں ایک شہر میں ختمِ نبوت والوں کا جلسہ ہو رہا تھا اور تمام قسم کے شیعہ، سُنی، بریلوی، دیوبندی وغیرہ سب اکٹھے تھے۔ اور تھوڑے عرصے کے بعد جس دن جلسہ تھا اس سے دو دن پہلے اُن میں پھوٹ پڑ گئی۔ اور پھر تین مختلف جگہوں پر جلسوں کا انتظام ہوا۔ ایک جگہ پر جہاں ایک تنظیم نے جلسے کا انتظام کرنا تھا، وہاں سے پولیس نے اُن کو اٹھایااور دوسری جگہ لے کے گئے۔ ختم نبوت ان کے نزدیک ایک ایسا ایشو ہے جس پر یہ احمدیوں کے خلاف ایک جان ہو چکے ہیں، اکٹھے ہو چکے ہیں، اس ایشو پر بھی اکٹھے ہو کر جلسہ نہیں کر سکے اور تین مختلف جلسے ایک ہی شہر میں ہو رہے تھے۔ تو یہ تو ان کا حال ہے۔

بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’تمہیں وہ کام کرنے کی طاقت ہی کیونکرحاصل ہوسکتی ہے جو دراصل خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ ان متفرق لوگوں کو صرف آسمانی صُور پھونک کر ہی زندہ فرمائے گا۔ اور حقیقی صُور اُن کے دل ہیں جن میں مسیح موعودؑ کے ذریعہ پھونکا جائے گا اور لوگ ایک کلمہ پر جمع ہو جائیں گے۔ یہی خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ جس امت کی اصلاح کا ارادہ کرتا ہے اسی میں سے ایک شخص کو مبعوث کر دیتاہے‘‘۔

فرمایا’’لیکن یہ حل علماء اور تمام قوم کو منظور نہیں ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو محمدی سلسلہ کے مشابہ قرارد یا ہے۔ جس طرح یہودی موسیٰ علیہ السلام پر ایمان کے بعد گمراہ ہوگئے توایک عرصہ کے بعداللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اسی طرح امت محمدیہ میں اسی قدر عرصہ گزرنے کے بعد مسیح موعود کو مبعوث فرمایاہے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا مقام ہے نہ کہ اُس کی اِس نعمت کے کفرکرنے کا۔ مسلمانوں کو تو چاہئے تھا کہ اس خبر کو ایک پیاسے کی طرح قبول کرتے اور اسے خداکی سب سے بڑی نعمت قرارد یتے لیکن وہ قرآن کو چھوڑ کر لوگوں کی باتوں کے پیچھے چل پڑے اور مسیح موعودؑ کا انکار کر بیٹھے جیسے یہودنے عیسیٰؑ کا انکار کر دیا تھا۔ یوں نافرمانی میں بھی دونوں امتیں مشابہ ہو گئیں‘‘۔ (ایضًا صفحہ 360-354)

اللہ کرے کہ مسلم اُمّہ کو اس حقیقت کی سمجھ آ جائے کہ آپؑ ہی وہ وجود ہیں جس نے اس زمانے میں مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لئے آنا تھا اور آئے ہیں۔ مسلم ممالک کے جو حالات ہیں، دنیا میں مختلف ارضی و سماوی آفات ہیں، یہ مسلمانوں کو یہ باور کرانے والی ثابت ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں جس فرستادے کو بھیجنا تھا وہ آ چکا ہے اور اسے قبول کریں اور مخالفینِ اسلام کی اسلام کو بدنام کرنے کی جو مذموم کوششیں ہیں اُن کا مقابلہ کرنے کے لئے اس جری اللہ کا ساتھ دے کر اس جہاد میں حصہ لیں جہاں دوسرے مذاہب کو اسلام نے شکست دینی ہے۔ امریکہ میں بھی اور یورپ میں بھی وقتاً فوقتاً مختلف لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بیہودہ قسم کے الزامات لگاتے ہیں یا آپ کی ہتک اور توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں یا قرآنِ کریم کی ہتک کے مرتکب ہو رہے ہیں، اِن کے خلاف اگر آج کوئی جہاد کرنے والا ہے تو یہی اللہ تعالیٰ کا پہلوان ہے جس کے ساتھ شامل ہو کر، جس کے ساتھ جُڑ کر ہم دنیا میں اسلام کی برتری ثابت کر سکتے ہیں۔ جس کے ساتھ جُڑ کر ہم قرآنِ کریم کی تعلیم کی تمام مذہبی کتب پر برتری ثابت کر سکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ جُڑ کر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت کرتے ہوئے آپ کے بلند مقام کی شان دنیا پر ظاہر کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں