خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍ جون 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الحمد للہ کہ آج پھر جرمنی کا ایک اور جلسہ سالانہ دیکھنے اور سننے کی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرما رہا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے یہ جلسہ اس لئے ہم منعقد کرتے ہیں کہ اپنے مقصدِ پیدائش کو پہچانتے ہوئے خدا تعالیٰ سے ایک خاص تعلق پیدا کریں اور سال کے یہ تین دن خالصتاً للہ گزارنے کے لئے جمع ہوں۔ علمی، تربیتی اور روحانی ماحول میں یہ دن گزار کر اپنے دینی علم میں ترقی کریں۔ اپنی تربیت کے ازخود جائزے لیں۔ جو یہاں باتیں سنیں اُن کو سن کر پھر اپنی حالتوں پر نظر رکھیں۔ یہ دیکھیں کہ کیا ہم اپنی کمزوریوں پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق قابو پا چکے ہیں یا پانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ جلسے کے روحانی ماحول میں خدا اور رسول کی باتیں سن کر روحانیت میں ترقی کرنے والے بنیں اور بننے کی کوشش کریں۔ بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتیں تربیت اور روحانیت میں ترقی کا باعث بن جاتی ہیں۔ ایک ماحول میں رہ کر دوسرے کی اچھی باتیں احساسات کو جھنجھوڑنے کا باعث بن جاتی ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ بعض بدقسمت روحانی ماحول اور جلسے سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے اور صرف اپنے دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے آتے ہیں۔ ایسے لوگ چاہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بیعت کا دعویٰ کریں لیکن حقیقت میں وہ آپ کی تعلیم سے دور بھاگنے والے ہیں۔ پس دعاؤں اور استغفار کے ساتھ یہ دن گزاریں۔ جن لوگوں کی مَیں نے مثال دی چاہے وہ چند ایک ہی ہوں لیکن اکثریت کی دعائیں بھی بعض دفعہ کمزوروں کے دن پھیر دیتی ہیں۔ جہاں اُن کی اپنی حالتیں بہتر ہوتی ہیں، ان کے ہمسایوں کی بھی حالت بہتر ہو رہی ہوتی ہے۔ پس دعاؤں کے ساتھ یہ دن گزاریں کہ شیطان انسان کو اُس کے نیک مقاصد سے ہٹانے کے لئے ہمیشہ کوشش میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اُس سے محفوظ رکھے۔ تمام شاملینِ جلسہ بھی اور تمام کارکنان بھی جن کی مختلف شعبوں میں کسی خدمت پر ڈیوٹی لگی ہوئی ہے، دعاؤں، درود اور استغفار کے ساتھ شیطان کے شر سے بچنے کی کوشش کریں۔ اس نئی جگہ پر اس سال جماعت احمدیہ جرمنی جلسہ منعقد کر رہی ہے۔ تو جس طرح منہائم میں عمومی طور پر گزشتہ بیس پچیس سال کے عرصے میں یا جو بھی عرصہ ہے اس عرصے میں وہاں جلسہ منعقد کر کے وہاں کے شہریوں اور انتظامیہ پر جماعت کا ایک اچھا نیک اثر قائم ہوا ہے، اُس سے بہتر اثر جماعت کا یہاں کے شہریوں اور انتظامیہ پر چھوڑنے کی کوشش کریں تا کہ یہ نیک نمونے اسلام اور احمدیت کے حقیقی پیغام پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔ مثلاًیہاں کے ہوٹلوں کو بڑی تعداد میں ایشین لوگوں کو ٹھہرانے کا یہ پہلا موقع ہے تو قدرتی بات ہے کہ آج کل جس طرح بعض مسلمان گروپوں کی طرف سے، اسلام کا غلط تصور پیش کیا جا رہا ہے ہوٹلوں کے مالکان کو بھی کچھ تحفظات تھے۔ لیکن میرے علم میں آیا ہے کہ پولیس نے اُنہیں تسلی دی ہے کہ ہماری تحقیق کے مطابق یہ ایک پُر امن جماعت ہے اس لئے کسی قسم کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ پس اِن دنوں میں صرف جلسہ گاہ کے ماحول میں ہی نہیں بلکہ باہر بھی جہاں بھی احمدی رہائش پذیر ہیں یا شہر میں سے گزر کر دوسرے شہروں سے آ رہے ہیں وہاں بھی، عمومی طور پر، بھی ہر جگہ اپنے نیک نمونے چھوڑیں جو احمدیت کی تبلیغ کا باعث ہوں۔ آپ کے ایسے نمونے ہوں جو آپ کے حق بیعت نبھانے کا واضح اظہار کر رہے ہوں۔ اگر کوئی زیادتی کرتا بھی ہے تو ایک سچے احمدی کو پلٹ کر وہی رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔

بعض گزشتہ تجربات سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ چند ایک ایسے لوگ بھی ہیں جیسا کہ مَیں پہلے ذکر کر چکا ہوں جو بظاہر احمدی ہیں جلسے کے دنوں میں اپنے دنیاوی مقاصد کے لئے آتے ہیں یا بعض دفعہ اپنی پرانی رنجشوں کو دلوں میں بٹھائے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف غلط حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں۔ انتظامیہ تو بہر حال ایسے لوگوں سے کسی قسم کی رعایت نہیں کرے گی اور نہ کرنی چاہئے، لیکن ایک فریق کی زیادتی سے دوسرے فریق کو بھی صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اور یہ دن کیونکہ خدا تعالیٰ کی خاطر گزارنے کے لئے آئے ہیں اس لئے اپنے معاملات خدا تعالیٰ پر چھوڑنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہوئے۔ پس اس احسان کی قدر کرنا ہر سچے احمدی کا فرض ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ اس جماعت میں شمولیت اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے قومیں تیار ہو رہی ہیں تو اس بات کو پرانے احمدیوں کو بھی ایک فکر کے ساتھ لینا چاہئے۔ اس جلسے میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی نئے شامل ہونے والے احمدی مختلف ممالک سے شامل ہو رہے ہیں۔ اُن کی نظروں میں، اُن کی حرکات میں ایک اخلاص اور وفا ٹپک رہا ہوتا ہے۔ پس جو پرانے احمدی ہیں اُن کو ایک فکر اپنے ایمان کے لئے بھی کرنی چاہئے اور اُن کے لئے بھی نمونے قائم کرنے چاہئیں۔ یہ نہ ہو کہ نئی قومیں آ کر اور حقیقی مسلمان بن کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بن جائیں اور پرانے احمدی خاندان دنیا میں ڈوب کر، اپنی اَناؤں میں ڈوب کر، اُن فضلوں سے محروم ہو جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پس اس سوچ کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ یہ دن گزاریں۔ اس اہم بات کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب مَیں بعض صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض روایات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو رجسٹر روایات صحابہ سے مَیں نے لی ہیں جن میں مختلف قسم کے مضامین بھی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ عشق و محبت کے واقعات، آپ کی نصائح، صحابہ کے آپ کی نصائح کو سمجھنے کے طریق، آپ کی مہمان نوازی، اس کے جواب میں صحابہ کا ردّ عمل۔ اِن باتوں نے صحابہ کی زندگیوں میں ایک انقلاب پیدا کر دیا جس نے اُن کی روحانی تربیت بھی کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق اور محبت کو مزیدنکھارا بھی اور بڑھایا بھی۔ توجیسا کہ مَیں نے کہا بعض واقعات آپ کی بے تکلف مہمان نوازی کے ہیں۔ بعض مہمانوں کے صبر اور حوصلے کے ہیں، باتوں باتوں میں ہی بعض علمی مضامین بیان ہوئے ہیں، بعض نصائح بھی ہیں۔ پس ان کو غور سے سنیں اور یہ جوڈیوٹی والے کارکنان ہیں اُن کو بھی اِن چیزوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔

ایک روایت ہے۔ حضرت خان صاحب ضیاء الحق صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہم تین احمدی اشخاص، یعنی یہ خاکسار(ضیاء الحق صاحب) اور اُن کے خالہ زاد بھائی سید اکرام الدین صاحب اور اُن کے بہنوئی سیدنیاز حسین صاحب مرحوم سونگڑہ سے روانہ ہو کر کلکتہ ہوتے ہوئے ہم قادیان پہنچے۔ یہ غالباً 1900ء کا واقعہ ہے۔ قریباً دس گیارہ بجے دن کا وقت ہو گیا جب قادیان پہنچے۔ اُسی دن نماز ظہر کے وقت مولوی محمد احسن صاحب مرحوم کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مسجد میں ملاقات ہوئی اور اُسی دن بعدنماز مغرب مسجد مبارک میں، یہ کہتے ہیں کہ، ہم تینوں نے مع دیگر نو وارد حاضرین بیعت کی۔ ملاقات کے وقت حضور نے جب میرا نام دریافت فرمایا تو میں نے اپنا نام ضیاء الحق، ق ؔ کو بولتے ہیں جس طرح خاص انداز میں ادا کیا۔ تو حضور نے فرمایا ضیاء الحق۔ (’ق‘ کے تلفظ کو چھوٹی’ک‘ سے بیان فرمایا) تو کہتے ہیں اُس دن یہ سننے کا میراپہلا موقع تھا کہ پنجاب میں عام بول چال میں ’ق‘ کو ’ک‘ کی طرح بول دیا جاتا ہے۔ بہر حال کہتے ہیں حضور نے مولوی محمد احسن صاحب کو فرمایا کہ اِن تینوں کو سلسلہ کی کچھ کتابیں پڑھنے کی دی جاویں تو مَیں نے عرض کیا کہ فتح اسلام اور توضیح مرام اور ازالہ اوہام کتابیں مَیں نے پڑھ لی ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار فرمایا۔ پھر تاکید کر دی کہ لنگر خانہ میں ہم تینوں اُڑیسہ کے مہمانوں کے لئے چاولوں کا بندوبست کر دیا جائے۔ کہتے ہیں ہم قریباً سات دن قادیان میں ٹھہرے اور ہر روز بعدنماز مغرب حضور کے پیر دبانے والوں میں شریک ہوتے تھے، مگر خدام کی کثرت کی وجہ سے پَیر کا کوئی حصہ ملنا دشوار ہو جاتا تھا۔ حضور کاپَیر خوب مضبوط معلوم ہوتا تھا۔ ہر روز صبح شام، صبح بعدناشتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ سیر میں ہم شریک ہوتے تھے۔ حضور خوب تیز چلتے تھے، حتی کہ بعض ہمراہیوں کو دوڑنا پڑتا تھا۔ حضور کی چھتری برداری کا فخر ایک عرب غالباً مولوی ابو سعید صاحب کو ملتا تھا۔

کہتے ہیں ایک روز کا ذکر ہے کہ مَیں نے حضور سے دریافت کیا کہ ہمارے محلے کی مسجد میں ہم کس طرح نماز ادا کریں۔ حضور نے دریافت فرمایا کہ کیا غیر احمدی نماز ادا کرنے کی اجازت دیں گے؟ تو مَیں نے عرض کیا کہ ہمارے محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنے سے ہم کو کون روک سکتا ہے؟ حضور نے فرمایا کہ اگر کوئی روک نہیں تو علیحدہ نماز ادا کر لی جاوے ورنہ نہیں۔ شروع میں ہم کو خبر نہ تھی کہ مخالفت اس قدر ہو گی کہ محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنا تودرکنار، اس کے اندر جانے کی بھی اجازت نہ ہو گی اور برادری سے قطع تعلق ہو گا۔ ہم کو کافر، ضالّ اور مضلّ کا خطاب دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ (مأخوذ ازروایات حضرت ضیاء الحق صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ 56، 57)

تو شروع شروع میں بعض دفعہ جب لوگ بیعت کرنے آتے تھے، تو یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ مخالفت اس قدر بڑھی ہوئی ہے اور یہ مخالفت تو آج بھی ہے لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے بعد میں وہاں بھی مسجدیں بنانے کی توفیق دی اور دنیا میں آج ہر جگہ مسجدیں بن رہی ہیں۔ جرمنی میں اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو چھ مسجدیں یا چار مساجد باقاعدہ اور دو کو مسجد میں بدلنے کا موقع اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔

پھر ایک بے تکلف مجلس کا ذکر ہے، حضرت نظام الدین صاحب معرفت نظام ایم کو شہر سیالکوٹ۔ یہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جلسہ سالانہ سے رخصت ہو کر گھر واپس جانے کے لئے حضرت اقدس کے حضور اجازت لینے کے لئے حاضر ہوئے تو حضور رخصت دے کر اندرون کی کھڑکی سے اندر جانے لگے۔ تو میرے ہمراہ ایک صاحب ملتان کے رہنے والے بھی تھے، انہوں نے اجازت حاصل کر لینے کے بعد اپنی ملتانی زبان میں کہا، (ملتانی زبان پنجابی اپنا طرز ہے اُن کا) کہا کہ حضرت! ’’مَیں کُو کوئی وظیفہ ڈسّو‘‘ یعنی مجھے کوئی وظیفہ بتائیں۔ تو حضور مسکرا پڑے اور فرمانے لگے کہ درود شریف کثرت سے پڑھا کرو یہی وظیفہ ہے۔ (ماخوذ از روایات حضرت نظام الدین صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ 103)

پس یہ آج بھی ہمارے لئے ان دنوں میں خاص طور پر یہی وظیفہ ہے اس کو بہت زیادہ پڑھنا چاہئے۔

پھر کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بہار کے موسم میں دوستوں کو ساتھ لے کر باغ میں گئے اور خادموں سے کہا کہ توت کی ٹوکریاں بھر کے لاؤ۔ چنانچہ دو ٹوکریاں یا پراتیں توت اور شہتوت سامنے رکھ دیں۔ خود بھی حضور کچھ کھانے لگے۔ اس پارٹی میں بہت صحابی نہ تھے، غالباً پندرہ بیس ہوں گے۔ (مأخوذ ازروایات حضرت نظام الدین صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ 103)

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ڈھاب کا کنارہ بھر کر اس جگہ ایک پلیٹ فارم سا بنوایا گیا تھا اور مٹی ڈلوائی گئی تھی، اور یہ وہ جگہ ہے جہاں آج کل (اُس زمانے کی جو بات کر رہے ہیں ) مرزا مہتاب بیگ صاحب درزی کی دکان ہوتی تھی اور کچھ بُک ڈپو اور گلی والی زمین بھی شامل ہو گی۔ کہتے ہیں یہاں جلسہ سالانہ ہوا تو مولوی برہان الدین صاحب مرحوم مغفور دوستوں کو اپنے لوہے کے لوٹے سے جو اِن دنوں اپنے کندھے پر اُٹھایا کرتے تھے (سماوار ٹائپ چیز ہو گی کوئی) اُس میں پانی پلاتے رہے تھے۔ اب دیکھیں ان کا انداز بھی کیسا پیارا ہے۔ کہتے ہیں مولوی صاحب مرحوم پانی پلاتے پلاتے ناچنے لگ گئے اور دوستوں سے کہا کہ پوچھو مَیں کون ہوں اور کیوں ناچ رہا ہوں؟ دوستوں میں سے کسی نے کہا حضرت خود ہی فرمائیے۔ تو فرمانے لگے کہ میں مسیح دا چپڑاسی ہوں۔ میں اس خوشی میں آ کر ناچ رہا ہوں کہ مَیں مسیح کا چپڑاسی ہوں۔ (مأخوذ ازروایات حضرت نظام الدین صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ 103، 104)

حضرت میاں امیرالدین صاحب احمدی گجراتی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے اپنے قرضدار ہونے کی شکایت حضرت صاحب کے پاس کی۔ آپ نے فرمایا کہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرو۔ اب وہ بہت سارے لوگ جو اپنے مسائل کے بارہ میں لکھتے ہیں، معاشی مسائل کے بارے میں لکھتے ہیں، اُن کو عموماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہی بتاتے تھے کہ پانچ نمازیں پڑھا کرو اور درود شریف پڑھا کرو۔ فرمایا کہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو۔ بس یہی میرا وظیفہ تھا کہ مجھ کو مولیٰ کریم نے برکت دی اور قرض سے پاک ہو گیا۔ اور جب مَیں قادیان میں آتا تھا تو چھوٹی مسجد میں جو اس وقت بڑی ہو چکی تھی (یعنی مسجد مبارک) جبکہ چھ آدمی صف میں اُس میں کھڑے ہوتے تھے۔ اوقاتِ نماز میں اُس مسجد میں مَیں کھڑکی کے آگے بیٹھ رہتا تھا۔ (اُس کھڑکی سے جہاں سے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام تشریف لاتے تھے۔) اس غرض سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس میں سے آتے تھے تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز کے لئے تشریف لاتے تو مَیں فوراً کھڑا ہو جاتا اور نماز میں آپ کے بائیں بازو کے ساتھ کھڑا ہوتا اور یہ وہ وقت تھا جبکہ ساتھ ہی کا کمرہ جو مسجد کے ساتھ ہے اُس میں حضرت صاحب اور چند مہمان جو اُس وقت ہوا کرتے تھے جو پانچ سے زائدنہ ہوتے تھے، اس کمرے میں آپ چاول یا کھانا اپنے ہاتھ سے خود کھلاتے تھے۔ تمام پیشگوئیاں میرے سامنے پوری ہوئیں اور مَیں اُن کا گواہ ہوں۔ (مأخوذ ازروایات حضرت میاں امیر الدین صاحبؓ احمدی گجراتی رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ 189)

کہتے ہیں پھر مَیں یہ بھی ایک موقعہ عرض کئے دیتا ہوں کہ جب طاعون کے متعلق جلسہ ہوا ہے تو مَیں بھی اُس میں شریک تھا اور وہ ’’بوہڑ‘‘ جو قادیان سے مشرق کی طرف جھیل کے کنارے پر ہے اُس کے نیچے جا کر جلسہ ہوا تھا اور آپ نے اس بوہڑ کے نیچے کھڑے ہو کر تقریر فرمائی تھی۔ میرے قیاس میں اس وقت جلسے میں شریک ہونے والے آدمی قریباً تین چار سو تھے، کمی و بیشی وَاللّٰہُ اَعْلَم۔ پھر اس کے بعد مَیں نے جماعت کو بڑھتے ہوئے دیکھا اور وہ وقت آ گیا کہ جب جلسہ دسمبر کے مہینے میں قائم کیاگیا تو بہت خلقت آنے لگی۔ (مأخوذ ازروایات حضرت میاں امیر الدین صاحبؓ احمدی گجراتی رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ 191)

ایک دن شام کے وقت کھانا کھلانے کے واسطے یہ تجویز تھی کہ حضرت صاحب نے حکم دیا ہوا تھا اور اس مکان پر جو کہ چھتی ہوئی گلی کے مغرب کی طرف ہے وہاں کھلایا گیا، اور اس وقت ایک ضلع کے آدمیوں کو بند کر کے کھانا کھلاتے تھے، اُس وقت گوجرانوالہ کے آدمی کھا رہے تھے اور دروازہ بند تھا۔ مَیں بھوک سے تنگ آ کر اُس جگہ گیا، مجھے داخل نہ کیا گیا۔ مَیں واپس آ کر بھوکا سو رہا۔ رات کو حضرت صاحب کو الہام ہوا۔ (انہوں نے جو لکھا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمِ الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ)۔ تذکرہ میں جو الہام ہے اور دوسری روایات میں بھی یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوْاالْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّہے۔ کہ اے نبی! بھوکوں اور محتاجوں کو کھانا کھلا۔ پھر صبح حضرت صاحب نے دریافت فرمایا کہ کھانے کی کیا تجویز ہو رہی ہے۔ تو عرض کیا گیا کہ ایک ضلع کے آدمیوں کو بلا کر دوسرے کو بلاتے ہیں۔ میرے سامنے حضرت صاحب نے یہ فرمایا کہ’’دروازے کھول دو، جو آئے اُس کو کھانے دو‘‘۔ (مأخوذ ازروایات حضرت میاں امیر الدین صاحبؓ احمدی گجراتی رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ 191، 192)

حکیم عبدالصمد صاحب بھی اپنی روایت بیان کرتے ہیں اُس میں بھی اس کا کچھ حصہ آ جائے گا جو عبدالغنی صاحب دہلی کے بیٹے تھے۔ کہتے ہیں کہ مَیں 1907ء میں قادیان میں حاضر ہوا۔ عصر کے بعد کھاناکھانے کے لئے جب ہم لنگر خانہ میں جانے لگے تو کچھ لوگ دروازے میں کھڑے تھے۔ مَیں بھی وہیں کھڑا ہو گیا۔ دروازہ کھلنے پر لوگوں نے اندر جانا چاہا۔ ایک لڑکے نے اُن کو دھکے دے کر دروازہ بند کر دیا۔ وہ لوگ بہت شرمندہ اور نادم ہو کر واپس چلے گئے۔ مَیں پھر تھوڑی دیر کے بعد واپس گیا تو دروازہ کھلا ہوا تھا۔ صبح کی نماز کے بعد معلوم ہوا کہ حضرت صاحب تشریف لائے ہیں۔ مَیں مسجد مبارک کے پرانے زینہ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اوپر سے حضرت صاحب تشریف لے آئے۔ بہت سا مجمع تھا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ کل کوئی قصہ ہوا ہے یا فرمایا کوئی جھگڑا ہوا ہے۔ مجھے صحیح الفاظ یادنہیں۔ حضرت خلیفہ اول نے عرض کیا کہ مجھ کو معلوم ہوا تھا کہ منتظمین کی غلطی تھی، بعض معزز آدمی اندر جانا چاہتے تھے، ایک لڑکے نے دھکا دے کر لنگر کا دروازہ بند کر دیا۔ وہ معزز لوگ تھے وہ ناراض ہو کر اپنی اپنی جگہ پر چلے گئے۔ پھر ان کو کھانا بھیجا گیا۔ بعض نے کھا لیا مگر بعض نے نہیں کھایا۔ اس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ جن لوگوں کی غلطی سے یہ حرکت ہوئی ہے اُن کو شرم کرنی چاہئے اور وہ لوگ بڑے خوش قسمت ہیں جن کی چیخ و پکار کی آواز آسمان پر سنی گئی۔ اس کے بعد فرمایا کہ آج رات اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایسے الفاظ سے مخاطب کیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوْا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ۔ کہ اے نبی! تو بھوکوں اور بیقراروں کو کھانا کھلا۔ حضرت صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ یہ الفاظ تکمیل کے ہیں۔ مَیں اُس وقت اس فقرے کے معنی نہیں سمجھا تھا۔ (یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ رُتبہ بخشا ہے اور یہ خطاب فرمایا ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ۔ ایک پورا ہونے والی بات ہے اور پورا ہو رہی ہے۔) اب مجھے سمجھ آتا ہے کہ اس سے مراد یہ تھی کہ ایک وقت آئے گا جب لوگ حضرت صاحب کا درجہ گھٹانے کی کوشش کریں گے مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کامل نبی تھے۔ یہ جلسہ سالانہ کا واقعہ ہے۔ لنگر خانہ اس وقت اُس مکان میں تھا جہاں آج کل حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ رہتی ہیں۔ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کے بالکل مقابل میں اس کا دروازہ کھلتا ہے۔ (مأخوذ ازروایات حضرت حکیم عبدالصمد صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ 19تا21)

ایک دفعہ مَیں ایک پورا خطبہ اس بات پر بھی دے چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی ہیں اور جن لوگوں کو کسی بھی قسم کی غلط فہمی ہے یا بعض لوگ بزدلی یا مداہنت میں غیروں کے سامنے، بات کرتے ہوئے، بحث کرتے ہوئے، اظہار کر جاتے ہیں اُن کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبی کہہ کر پکارا ہے اور اللہ کے فضل سے آپ نبی ہیں لیکن غیر شرعی نبی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں آئے ہوئے اور آپ سے کامل محبت اور عشق کرنے والے نبی۔ لکھتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ بعض لوگ جن کو دھکا دیا گیا تھا وہ لوگ جو واپس چلے گئے تھے، وہ آبدیدہ ہو گئے اور بے اختیار اُن کی زبان سے نکلا کہ مولیٰ ہم یہاں کھانا کھانے تو نہیں آئے تھے بلکہ تیرے حکم کی تعمیل میں تیرے مسیح کے دَر پر آئے تھے۔ (مأخوذ ازروایات حضرت حکیم عبدالصمد صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ21)

پس کارکنان کو ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

پھر چوہدری عبدالعزیز صاحب احمدی پنشنر نوشہرہ ککے زئیاں لکھتے ہیں کہ دسمبر 1907ء کے سالانہ جلسے پر جو آخری جلسہ حضرت صاحب کی حیاتِ طیبہ کا تھا، مَیں حاضر ہوا تھا۔ نو بجے حضرت صاحب گھر سے اُن سیڑھیوں کے ذریعے نیچے تشریف لائے جو مسجد مبارک سے چھتی ہوئی گلی میں دفتر محاسب کے کونے کے عین مقابل اترتی ہیں۔ حضور دوسری سیڑھی پر کھڑے ہو گئے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کو خاص طور پر بلوا کر فرمایا کہ’’رات جو مہمان دیر سے آئے ہیں اُن کو کھانا نہیں ملا اور وہ بالکل بھوکے رہے ہیں۔ اُن کی فریاد عرشِ معلّٰی تک پہنچی ہے‘‘۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضور درست ہے۔ واقعی اُن کو کھانا پہنچانے میں کوتاہی ہوئی ہے۔ فرمایا’’ایک کمیٹی چار پانچ آدمیوں کی بنائی جائے جو رات بھر مہمانوں کی آمد و رفت کی نگہداشت اور اُن کے کھانے کا بندوبست کرے تاکہ آئندہ دوستوں کو تکلیف نہ ہو‘‘۔ (ازروایات حضرت چوہدری عبدالعزیز صاحب احمدیؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ217)

میاں اللہ دتہ صاحب ولد میاں خیر محمد صاحب سہرانی احمدی سکنہ بستی رِنداں ڈیرہ غازی خان کہتے ہیں کہ 1902ء یا 1903ء کا واقعہ ہے کہ مَیں قادیان شریف گیا۔ موقع عید کا تھا اور لنگر خانے میں لنگر چلا تو عام و خاص کی تجویز ہونے لگی۔ (لنگر چلا تو عام اور خاص کی تجویز ہونے لگی کہ یہ لوگ خاص مہمان ہیں یہ عام مہمان ہیں )۔ کھانے کی تقسیم کے لئے، تو میری نیت میں فرق آنے لگا۔ فوراً مجھے یہ بد ظنی پیدا ہوئی کہ جو مہدی معہود ہو گا وہ حکماً عدل ہو گا مگر اس لنگر خانے میں رِیا ہونے لگا ہے، مساوات نہیں ہے۔ پھر صبح کو مسجد مبارک میں گیا تو حضرت مسیح موعود اذان سے پہلے تشریف لائے تو آتے ہی فرمایا: مولوی نورالدین صاحب کہاں ہیں؟ حضرت مولوی صاحب نے عرض کی کہ حضور! مَیں حاضر ہوں۔ حضرت اقدس نے فرمایا رات اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ تیرا لنگر خانہ ناخن کی پشت برابر بھی منظور نہیں ہوا کیونکہ لنگر خانے میں رات کو ریا کیا گیا ہے اور اب جو لنگر خانے میں کام کر رہے ہیں اُن کو علیحدہ کر کے قادیان سے چھ ماہ تک نکال دیں۔ (اتنی سختی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی کہ جنہوں نے مہمانوں کے درمیان امتیاز کیا تھا، اُن کو نہ صرف فارغ کرو کام سے بلکہ چھ ماہ کے لئے قادیان سے نکال دو) اور ایسے شخص مقرر کئے جائیں جو نیک فطرت ہوں اور صالح ہوں اور فرمایا کہ فجر کی روٹی (یعنی صبح کا کھانا جو ہے ناشتہ) میرے مکان کے نیچے چلایا جائے اور مَیں اور میاں محمود احمد اوپر سے دیکھیں گے۔

اِن کوجو بد ظنی پیدا ہوئی تھی کہ یہ ریاہونے لگ گیا ہے، کہتے ہیں مَیں نے فجر کی نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اور استغفار پڑھی کہ مَیں نے بدگمانی کی، یا اللہ مجھے معاف کر دے۔ یہ کرامات حضرت اقدس کی مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ (مأخوذ ازروایات حضرت میاں اللہ دتہ صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3 صفحہ 194، 195)

پس یہ بدظنیاں ہیں جو بعض دفعہ بہت دور لے جاتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت پر رکھنا چاہے اُس کے لئے فوراً وہ سامان پیدا کر دیتا ہے تا کہ بد ظنیاں دور ہو جائیں، اس سے بچنا چاہئے اور انسان عمومی طور پر استغفار اگر کرتا رہے تو بدظنیوں سے بچتا چلا جاتا ہے۔ ایک شخص کی غلطی سے پوری انتظامیہ کو غلط قرار نہیں دینا چاہئے۔

پھر ایک روایت ہے جناب حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کے بارہ میں ہے۔ مولوی مہر دین شاگرد مولوی صاحب نے بیان کی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب مرزا صاحب نے براہینِ احمدیہ کتاب لکھی (مولوی صاحب نے ان کو بتایا، اِنہوں نے آگے یہ روایت لکھی ہے)۔ تو مَیں نے اس کتاب کو پڑھا تو مَیں نے خیال کیا کہ یہ شخص آئندہ کچھ ہونے والا ہے یعنی اس کو بڑا رُتبہ اور مقام ملنے والا ہے اس لئے مَیں اُن کو دیکھ آؤں۔ مَیں اُن کو دیکھنے کے لئے قادیان پہنچا تو مجھے علم ہوا کہ آپ ہوشیار پور تشریف لے گئے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ بار بار آنا مشکل ہے اس لئے ہوشیار پور جا کر دیکھ آؤں۔ مَیں نے اُن کا پتہ پوچھا تو کسی نے بتلایا کہ اُن کی بہلی کے بیل سفید ہیں (بیل گاڑی جو ہے اُس کے بیل سفید ہیں ) وہ اب واپس آ رہی ہو گی، آپ راستے میں سے پتہ پوچھ لیں۔ جب ہم دریا پر پہنچے تو ہماری کشتی نے بہلی والے کی کشتی سے کچھ فاصلے پر تھی اس لئے کچھ دریافت نہ کر سکا۔ جب مَیں ہوشیار پور پہنچا تو مرزا اسماعیل بیگ حضور کے ہمراہ بطور خادم تھے۔ حضور کو انگریزی میں الہام ہوا تھا، اُس کا ترجمہ کرانے کے لئے وہ جا رہے تھے کہ مجھے راستے میں ملے۔ مَیں نے اُن سے پوچھا کہ مرزا صاحب کہاں ہیں اُنہوں نے کہا کہ شہر میں تلاش کر لیں، بتایا نہیں۔ معلوم نہیں حضرت صاحب نے منع کیا ہوا تھا یا کوئی اور بات تھی۔ آخر مَیں پوچھ کر آپ کے مکان پر پہنچا اور دستک دی۔ خادم آیا اور پوچھا کون ہے؟ مَیں نے کہا برہان الدین جہلم سے حضرت مرزا صاحب کو ملنے کے لئے آیا ہے۔ اُس نے کہا کہ ٹھہرو مَیں اجازت لے لوں۔ جب وہ پوچھنے گیا تو مجھے اُسی وقت فارسی میں الہام ہوا کہ جہاں تم نے پہنچنا تھا، پہنچ گیا ہے۔ اب یہاں سے نہیں ہٹنا۔ خادم کو حضرت صاحب نے فرمایا کہ ابھی مجھے فرصت نہیں ہے اُن کو کہہ دیں کہ پھر آئیں۔ خادم نے جب یہ مجھے بتلایا تو مَیں نے کہا کہ میرا گھر دور ہے مَیں یہاں ہی بیٹھتا ہوں جب فرصت ملے گی، تب ہی سہی۔ (جب حضرت مسیح موعود کو فرصت ہو گی تب مل لوں گا۔ ) جب خادم یہ کہنے کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت صاحب کو الہام ہوا کہ مہمان آوے تو مہمان نوازی کرنی چاہئے۔ اس پر حضرت صاحب نے خادم کو حکم دیا کہ جاؤ جلدی سے دروازہ کھول دو۔ میں جب حاضر ہوا تو حضور بہت خندہ پیشانی سے مجھے ملے اور فرمایا کہ ابھی مجھے یہ الہام ہوا ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ مجھے فارسی میں یہ الہام ہوا ہے کہ اس جگہ سے جانا نہیں۔ (مأخوذ ازروایات حضرت مولوی مہر دین صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ222تا224)

اور اللہ تعالیٰ نے پھر آپ کو بیعت میں آنے کے بعدبہت بڑا مقام عطا فرمایا۔

حضرت مستری اللہ دتہ صاحب ولد صدر دین صاحب سکنہ بھانبڑی ضلع گورداسپور کہتے ہیں کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا دوست اگر تمہارے پاس آیا کرے تو اس کی خاطر تواضع کیا کرو۔ ذمہ دار مہمان قادیان میں آ گئے تھے، گرمیوں کے دن تھے اُس وقت صبح آٹھ بجے کا وقت ہو گا۔ حضرت صاحب نے باورچی سے پوچھا کچھ کھانا اِن کو کھلایا جائے۔ باورچی نے کہا کہ حضور! رات کی بچی ہوئی باسی روٹیاں ہیں۔ حضور نے فرمایا کچھ حرج نہیں لے آؤ۔ یعنی جب بھی کوئی دوست آئیں، اُن کو کھانا کھلایا کرو۔ روٹیاں اگر فوری تیار نہیں ہو سکتیں وہی باسی لے آؤ۔ چنانچہ باسی روٹیاں لائی گئیں۔ حضور نے بھی کھائیں اور ہم سب مہمانان نے بھی کھا لیں۔ غالباً وہ مہمان قادیان سے واپس اپنے گاؤں اٹھوال جانے والے تھے۔ حضور نے فرمایا کہ باسی کھا لینا سنت ہے۔ (ماخوذ از روایات حضرت مستری اللہ دتہ صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 4صفحہ 106)

اب بعض دفعہ بعض لوگ ناراض ہو جاتے ہیں یہاں تو خیر Pita Bread یا جو بڑی بنی بنائی روٹی ملتی ہے وہ ویسے بھی مشینوں کی بنی ہوئی بازاروں میں ہوتی ہے اور باسی ہوتی ہے لیکن پھر بھی سالن وغیرہ کے لئے بعض دفعہ ہوتا ہے` لیکن باسی سالن کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ انتظامیہ باسی سالن سڑا کران کو کھلانا شروع کر دے۔ روایات حضرت محمد علی اظہر صاحب جالندھر، مولوی غلام قادر صاحب کے بیٹے ہیں، کہتے ہیں کہ 1906ء کا جلسہ سالانہ مسجد اقصیٰ میں ہوا تھا جس کا صحن بھرتی ڈال کر بہت وسیع کر لیا گیا تھا۔ اس کے جنوب مشرقی کونے پر اس محلّہ کے ساتھ جس میں آج کل سلسلہ کے دفاتر ہیں کسی ہندو برہمن کا ایک کچا مکان تھا۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے کچھ دوست اس مکان کی چھت پر بھی نماز کے لئے کھڑے ہو گئے تھے۔ اُس پر صاحبِ مکان نے حضرت اقدس کو اور جماعت کو گالیاں دینی شروع کیں۔ ہندو تھا گالیاں دینی شروع کر دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز سے فارغ ہوتے ہی جماعت کو صبر کی تلقین کی اور اس چھت پر جانے سے منع فرمایا۔ مزید احتیاط کے لئے منڈیر پر اونچی دیوار بنوا دی گئی۔ کچھ عرصے کے بعد تار کا جنگلہ لگوا دیا گیا تا کہ کوئی دوست اس چھت پر بھول کر بھی نہ جائے۔ آخر وہ مکان برباد ہوا، وہ بھی ایک الہام تھا اور مالکوں کو اس کو فروخت کرنا پڑا اور جماعت نے وہ خریدا اور اب وہ مسجد اقصیٰ کا ایک جزو ہے۔ (ماخوذ از روایات حضرت محمد علی اظہر صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 5صفحہ 13)

پہلے تو وہ ایک حصہ تھا صحن کے ساتھ دفاتر تھے۔ اب دو سال پہلے اللہ کے فضل سے وہاں جب مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی ہے وہ سارا حصہ اس میں آ گیا ہے اب مسجد کے اُس حصے میں ہی تقریباً دو اڑھائی ہزار آدمی نماز پڑھ لیتا ہے۔

حضرت چراغ محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد چوہدری امیر بخش صاحب کھارے کے رہنے والے تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نے مسجد اقصیٰ میں ایک بڑی لمبی تقریر فرمائی۔ ظہر کے بعد کا وقت تھا۔ مَیں مسجد کی شمالی جانب کی دیوار پر بیٹھا تھا۔ میرے ساتھ گاؤں کا ایک اول درجے کا مخالف تھا جس کے زیرِ سایہ اس وقت گاؤں کا ایک آدمی تھا جو سخت مخالف تھا۔ جوں جوں حضور تقریر فرماتے جاتے تھے وہ بار بار سر ہلاتا اور سُبحان اللہ سُبحان اللہ کہتا تھا اور ساتھ یہ بھی کہتا جاتا تھا کہ میں اب حضور کی مخالفت نہیں کروں گا۔ حضور جو فرما رہے ہیں سب سچ ہے۔ دو چار دن بعد میں اُسے ملا اور دریافت کیا کہ بتاؤ اب کیا رائے ہے؟ کہنے لگا معلوم نہیں، اُس وقت تو مجھے حضور کی ہر بات درست معلوم ہوتی تھی اور اب نہیں۔ (ماخوذاز روایات حضرت چراغ محمد صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 5صفحہ 15)

جن کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دینا چاہے اُن کے دل پھر اس طرح سخت ہو جاتے ہیں۔ حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بقا پوری جب قادیان آئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ قادیان والوں کو کس طرح آزمایا جائے۔ اب آزمانے کا انہوں نے طریقہ جو نکالا، کہتے ہیں مجھے خیال ہوا کہ علماء میں سے ایک بڑے عالم کو دیکھا اور خود مدّعی مسیح اور مہدویت کی بھی زیارت کی۔ اُن کو تو دیکھا، بڑے عالم کو بھی دیکھا، اُن کو علم سے بھرا ہوا پایا، اخلاق میں اعلیٰ پایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا، اور اُن کی تو خیر کوئی مثال تھی ہی نہیں، اخلاق کا ایک سمندر تھے۔ تو اب یہاں کے عام لوگوں کی بھی اخلاقی حالت دیکھنی چاہئے۔ چنانچہ اس امتحان کے لئے کہتے ہیں میں لنگر خانے چلا گیا جو اُس وقت حضرت خلیفہ اول کے مکان کے جنوبی طرف اور بڑے کنوئیں کی مشرق کی طرف تھا۔ لنگر خانے میں ایک چھوٹا سا دیگچہ تھا جس میں دال اور ایک چھوٹی سی دیگچی میں شوربہ تھا۔ میاں نجم الدین صاحب بھیروی مرحوم اُس کے منتظم تھے۔ مَیں نے میاں نجم الدین صاحب سے کھانا مانگا تو انہوں نے مجھے ایک روٹی اور دال دی۔ مَیں نے کہا مَیں دال نہیں لیتا، گوشت دو۔ میاں نجم الدین صاحب مرحوم نے دال اُلٹ کر گوشت دے دیا۔ (دال واپس ڈال دی، گوشت ڈال دیا بغیر کچھ کہے)۔ لیکن مَیں نے پھر کہا کہ نہیں نہیں دال ہی رہنے دو۔ تب انہوں نے گوشت اُلٹ کر دال ڈال دی۔ (پھر واپس کیا گوشت، پھر دال ڈال دی)۔ اور گوشت اور دال کے اس ہیر پھیر سے میری غرض یہ تھی کہ تا مَیں کارکنوں کے اخلاق دیکھوں۔ مطلب یہ نہیں تھا کہ مجھے دال پسند ہے یا گوشت پسند ہے۔ اتنی دفعہ دال اور گوشت کو بدلوایا کہ دیکھنا یہ چاہتے تھے کہ ان کے اخلاق اچھے ہیں کہ نہیں۔ یہ کہیں غصے میں آ کر یہی دال کی پلیٹ تو نہیں میرے اوپر پھینک دیں گے۔ تو مَیں نے بیٹھ کر کھانا کھایا اور وہاں کے مختلف لوگوں سے باتیں کیں۔ منتظمینِ لنگر کی ہر ایک بات خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے والی تھی، یہ فقرہ دیکھیں کہ منتظمینِ لنگر کی (جو بھی کارکنان تھے وہاں اُن کی) ہر ایک بات خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے والی تھی۔ اس سے بھی میرے دل میں گہرا اثر ہوا۔ اب یہ تھی نیکی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے صحابہ میں اپنے ساتھ رہنے والوں میں پیدا کی۔ دوسرے دن صبح قریباً تمام کمروں سے قرآنِ شریف پڑھنے کی آواز آتی تھی۔ فجر کی نماز میں مَیں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور یہ نظارہ بھی میرے لئے بڑا دلکش اور جاذبِ نظر تھا۔ (مأخوذ از روایات حضرت مولوی محمدابراھیم صاحبؓ بقاپوری رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 8صفحہ 10، 11)

پس یہ نظارے ہیں جو اِن دنوں میں بھی، جلسے کے دنوں میں خاص طور پر ہم میں نظر آنے چاہئیں، اور کارکنان کو بھی خاص طور پر نوٹ کرنا چاہئے کہ اُن کی ہر بات، اُن کا ہر عمل ایسا ہو جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ حقیقت میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق پیدا کیا ہے۔ اور پھر یہ باتیں زندگی کا مسلسل حصہ ہونی چاہئیں کہ نمازیں بھی ہوں، قرآنِ کریم کی تلاوت بھی ہو اور پھر نہ صرف اِن تین دنوں میں، بلکہ گھروں میں جا کر بھی ان کو جاری رہنا چاہئے۔

حضرت منشی محبوب عالم صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں لاہور سے قادیان گیا کیونکہ مَیں حضرت صاحب کو روزانہ خط لکھا کرتا تھا اس واسطے حضرت اقدس کو بھی میرے ساتھ بہت محبت ہو گئی۔ جب کبھی میں لاہور سے جاتا فوراً ہی مجھے شرفِ ملاقات بخشتے۔ کبھی مجھے اندر بلاتے، کبھی خود باہر تشریف لاتے۔ ایک دفعہ مَیں قادیان گیا تو حضور مسجد مبارک میں تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ آپ یہاں بیٹھ جائیں مَیں آپ کے لئے کچھ کھانا لاتا ہوں۔ چنانچہ مَیں کھڑکی کے آگے بیٹھ گیا۔ حضور اندر تشریف لے گئے کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد سویّوں کی ایک تھال اپنے دستِ مبارک میں اُٹھائی ہوئی میرے لئے لے آئے اور فرمانے لگے، یہ ابھی آپ کے لئے اپنے گھر والوں سے پکوا کر لایا ہوں۔ مَیں بہت شرمسار ہوا کہ حضور کو تکلیف ہوئی مگر دل میں مَیں خوش بھی ہوا کہ حضرت اقدس کے دستِ مبارک سے مجھے یہ پاکیزہ غذا میسر ہوئی ہے۔ چنانچہ میں نے سویّاں کھائیں اور بہت خدا کا شکر ادا کیا۔ پھر حضور نے مجھے رات کو فرمایا آج آپ یہیں سوئیں، چنانچہ مسجد کے ساتھ کے کھڑکی والے کمرہ میں اکیلا سویا مگر مجھے رات بھر نیندنہ آئی اور میں جاگتا ہی رہا۔ اور دعائیں کرتا رہا اور دل میں خیال کرتا تھا کہ میرا یہاں سونا کسی غفلت کا موجب نہ ہو، تا کہ حضرت کو روحانی طور پر یہ معلوم نہ ہو جائے کہ مَیں سویا رہا ہوں۔ اسی خوف سے مَیں جاگتا رہا اور درود شریف پڑھتا رہا اور دعائیں کرتا رہا اور جب چار بجے تو حضور خود میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ جاگیں اب نماز کا وقت ہونے والا ہے۔ مَیں تو پہلے ہی جاگتا تھا اُٹھ کھڑا ہوا اور مسجد مبارک میں آ گیا۔ اتنے میں اذان ہوئی اور حضرت صاحب بھی اندر سے تشریف لائے۔ (مأخوذ از روایات حضرت منشی محبوب عالم صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 9صفحہ 220تا222)

حضرت میاں وزیر خان صاحب ولد میاں محمد صاحب افغان غوری لکھتے ہیں کہ ایک روز 1895ء یا 1896ء کی بات ہے، حضرت صاحب اور مولوی صاحبان یعنی مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب، مولوی محمد احسن صاحب اور چند دوست جن میں مَیں بھی تھا، گول کمرے میں کھانا کھا رہے تھے کہ کھانے کے وقت قیمہ بھرے ہوئے کریلے آئے۔ حضرت صاحب نے ایک ایک کر کے تقسیم کر دئیے۔ دو رہ گئے اور مجھے کوئی نہیں دیا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے تو نہیں دیا۔ بڑے بڑے مولویوں کو دے دیا ہے، مجھے نہیں دیا۔ حضرت صاحب نے معاً دونوں کریلے اُٹھا کر میرے آگے رکھ دئیے۔ مَیں نے عرض کی حضور بھی لے لیں۔ آپ نے فرمایا نہیں، آپ کھائیں۔ (ماخوذ از روایات حضرت میاں وزیر خان صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 14صفحہ 363، 364)

تو فوراً ایسی صورتحال بعض دفعہ ہوتی تھی کہ خیال آیا اور ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کے خیال کے مطابق، خواہش کے مطابق یا جو بھی اگر کوئی بدظنی پیدا ہوئی ہو تو اُس کو دور کرنے کے لئے فوراً وہ عمل کر دیا۔

حضرت میاں عبد الرحیم صاحب ولد میاں محمد عمر صاحب جو قادیان کے رہنے والے تھے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مولوی کرم الدین صاحب کے مقدمہ میں حضور گورداسپور تشریف لے گئے اور بوجہ روزانہ پیشیوں کے حضور نے وہاں قیام فرما لیا۔ میری عادت تھی کہ مَیں پہلے کھانا نہیں کھایا کرتا تھا بلکہ حضور جب کھانا کھا لیتے تو پھر کھایا کرتا تھا۔ سارے کا سارا کھانا پکوا کر بھجوا دیا کرتا تھا۔ یہ کھانا پکواتے تھے مہمانوں کا بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی، لیکن اپنے لئے نہیں نکالتے تھے، سارا بھجوا دیتے تھے۔ ایک دن مَیں نے حافظ حامد علی صاحب مرحوم کو تاکید کی کہ میرا کھانا یہاں لے آنا مگر اُس دن خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ کئی دوست تھے، وہ سب کھانا کھا گئے اور میرے واسطے کچھ بھی نہیں بچا۔ مَیں حافظ صاحب سے غصے ہو گیا اور یونہی سوگیا۔ صبح حضور نے آواز دی کہ کیا کھانا تیار ہے۔ حافظ حامد علی صاحب نے حضور سے عرض کیا کہ ابھی تو کھانا پکانے والا ہی نہیں اُٹھا اور ہم سے غصّہ ہیں۔ پھر حضور نے کھڑکی کی طرف سے آواز دی۔ کھڑکی چوبارے کی تھی اور باورچی خانے کے سامنے تھی مگر مَیں نے پھر بھی آواز نہ دی۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آواز دے رہے ہیں انہوں نے پھر بھی جواب نہیں دیا)۔ اس پر حضور نے پھر آواز دی مَیں نے پھر بھی جواب نہیں دیا۔ پھر حضور خود تشریف نیچے لے آئے اور فرمایا کہ’کاکا‘آج کیا ہو گیا ہے، کھانا کس طرح تیار کرو گے؟ اس پر حافظ حامد علی صاحب نے دوبارہ عرض کیا کہ حضور! یہ رات سے ناراض ہے کیونکہ اس نے کہا تھا کہ حضور کے کھانے کے بعد میرا کھانا لانا، مگر چونکہ کھانا بچا نہیں تھا اس لئے اس کو نہ دے سکا۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ اس کو پہلے دے دیا کرو۔ اُس نے عرض کیا(حافظ حامد علی نے) کہ یہ پہلے نہیں لیتا۔ پھر حضور نے حافظ صاحب کو کہا کہ اس کے لئے ایک سیر دودھ روزانہ لایا کرو۔ اُس بات کو سن کے مَیں مچلا بنا ہوا سو رہا تھا۔ مَیں فوراً اُٹھا اور عرض کی کہ آدھے گھنٹے کے اندر اندر کھانا تیار ہو جائے گا۔ چنانچہ ہمَ میں نے جلدی جلدی آگ جلا کر آدھا گھنٹہ گزرنے سے پہلے کھانا تیار کر دیا۔ جب حضور کے پاس کھانا گیا تو مَیں بھی اوپر چوبارے پر چلا گیا۔ حضور نے پوچھا تم نے کیا طلسمات کیا ہے؟ کیا جادو کیا ہے؟ مَیں نے عرض کیا پھر بتاؤں گا۔ دوسرے دن صبح جب مہندی لگانے کے لئے گیا تو فرمایا کل کیا جادو کیا تھا کہ کھانا اتنی جلدی تیار ہو گیا۔ چونکہ حضور اکیلے تھے مَیں نے حضور سے عرض کیا کہ دراصل خالی گوشت پک رہا تھا، گوشت رکھ کے تو ہلکی آنچ مَیں نے رکھ دی تھی، اور تیز آگ بند کی ہوئی تھی۔ اُس وقت جب آپ نے کہا تو مَیں نے جلدی سے سبزی ڈالی اور کھانا تیار ہو گیا۔ حضرت صاحب اس سے بڑے ہنسے اور خوش ہوئے۔ (مأخوذ از روایات حضرت میاں عبدالرحیم صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 8صفحہ 228تا230)

حضرت شیخ مشتاق حسین صاحب ولد شیخ عمر بخش صاحب گوجرانوالہ کے ہیں۔ یہ کہتے ہیں 1900ء یا 1901ء کا واقعہ ہے کہ سالانہ جلسے کے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے، نماز ظہر کا وقت تھا اور نمازی جمع تھے۔ حضور نماز ادا کرنے کے بعد تقریر فرما رہے تھے۔ ایک شخص اُس وقت باہر سے آیا اور دوستوں کے سر سے پھاندتا ہوا حضور کے قرب میں چلا گیا۔ (اوپر سے پھلانگتا ہوا آیا، آگے چلا گیا) اُس کی اس جدو جہد میں ایک دوست کی پگڑی اُتر گئی، ٹھوکر لگی جو بیچ میں لوگ بیٹھے ہوئے تھے کسی کی پگڑی اُتر گئی اُس سے، اور اُس نے حضور کو شکایتی رقعہ لکھ دیا۔ حضور اُس کو پڑھ کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور گھر کی کھڑکی کے پاس پہنچ کر حضرت مولانا نورالدین صاحب کو بلایا اور کھڑکی کے پاس چند باتیں کر کے اندر تشریف لے گئے۔ مولوی صاحب واپس آ کر کھڑے ہو گئے اور تقریر شروع کی۔ تقریر تو دس پندرہ منٹ کی کی، مگر شروع کے مطلب کے الفاظ مجھے آج بھی من و عن یاد ہیں۔ حضور نے فرمایا (حضرت خلیفہ اول نے) کہ دیکھو آج مَیں تمہیں ایک خوفناک بات سناتا ہوں۔ خودنہیں، بلکہ مامور کیا گیا ہوں (خودنہیں بتا رہا مَیں، بلکہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے) کہ یہ بات بتا دو۔ تمہیں بتاؤں کہ آج ہمارا امام دعا کر رہا ہے کہ خشک ڈالی مجھ سے کاٹی جاوے‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن کو کہا کہ آج مَیں یہ دعا کر رہا ہوں کہ جو خشک ڈالیاں ہیں وہ مجھ سے کاٹی جائیں۔ جو اپنے ایمان میں مضبوط نہیں ہونا چاہتے وہ مجھ سے کٹ جائیں۔ پھر حضرت خلیفہ اوّل نے کہا یہ بھی آگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ تم دوسروں کے سر کچل کر خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتے، قربِ الٰہی اُس کے فضل سے ملتا ہے۔ (ماخوذ ازروایات حضرت میاں شیخ مشتاق حسین صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 11صفحہ 329)

لوگوں کے سروں سے پھلانگتے ہوئے جاؤ، کسی کو تکلیف دو، کسی کو ٹھوکر مارو کہ قریب پہنچ کر میں زیادہ قرب حاصل کر لوں گا۔ تو فرمایا کہ لوگوں کو تکلیف دینے سے قرب نہیں ملا کرتا، قرب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے اُس فضل کو تلاش کرو۔ پس آج بھی بعض دفعہ مَیں نے دیکھا ہے بعض پڑھے لکھے لوگ بھی پھلانگتے ہوئے آگے آنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کو احتیاط کرنی چاہئے۔ جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائیں۔ کسی دوسرے کی تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ اور جلسے کے دنوں میں کیونکہ رَش ہوتا ہے اس لئے جو پہلے آنے والے ہیں وہ آگے آ کر بیٹھ جایا کریں تا کہ پیچھے سے آنے والے آرام سے بیٹھا کریں، بجائے اس کے کہ بیچ میں جگہ خالی ہو اور پھر لوگوں کو پھلانگ کر آنا پڑے۔

حضرت غلام محمد صاحب، یہ نارووال کے تھے پولہ مہاراں کے۔ وہ کہتے ہیں کہ جلسہ 1904ء میں شمولیت کے لئے خاکسار بمع دیگر احمدیان چوہدری محمد سرفراز خان غیر مبائع سکنہ بدو ملہی اومیاں چراغ دین صاحب مرحوم ستواڑو، چوہدری حاکم سکنہ منگولہ اور یہ سارے لوگ بہت سارے جو تھے رات کو امرتسر گاڑی پر پہنچے۔ کہیں رات کو کسی جگہ بٹالے میں اترے۔ کسی سید کی مسجد میں رات گزاری۔ پھر صبح قادیان پہنچ گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دالان میں تقریر فرما رہے تھے حضرت میاں بشیر احمد صاحب کا گھر ہے جہاں آج کل، یہیں پہلے مہمان خانہ ہوتا تھا۔ تقریر سورۃ بقرۃ کے رکوع نمبر ایک اور سورۃ دھر کی تفسیر تھی۔ نفسِ امّارہ، نفسِ لوّامہ، نفسِ مطمئنہ کی تشریح تھی۔ یعنی نفسِ امارہ وہ ہوتا ہے جب انسان گناہ ہی کرتا ہے۔ تو نفسِ امّارہ غالب ہوتا ہے۔ نفسِ لوّامہ گناہ بھی کرواتا ہے اور نیک کام بھی، اور بعض بعض دفعہ نفسِ امّارہ اور نفسِ لوّامہ کی باہمی لڑائی رہتی ہے۔ کبھی گناہ کی حالت غالب کر لیتی ہے، کبھی نیکی کی۔ نیکی غالب ہو جانے پر، اگر مکمل طور پر نیکی غالب آ جاتی ہے جب اور گناہ دور بھاگ جاتا ہے تو پھر نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جاتا ہے۔ انسان گناہ نہیں کرتا بلکہ نیکی سے ہی واسطہ رہتا ہے۔ اُس صورت میں پھر جب نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جائے۔ نفسِ امارہ و نفسِ لوامہ کی کُشتی ہوتی ہے۔ یعنی برائی کو ابھارنے والا نفس اور پھر اس پر ملامت کرنے والا نفس جو ہے وہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ جیت گیا، کبھی وہ جیت گیا۔ کبھی وہ اوپر ہوتا ہے کبھی وہ نیچے، کبھی وہ اوپر کبھی وہ نیچے۔ پھر کہتے ہیں کہ اس کے بعد آیت اِنَّ الْا َبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا (الدھر: 6) تلاوت فرمائی کہ خدا کے نیک بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کو ایسے پیالے پیش کئے جائیں گے جن میں کافور کی خاصیت ملی ہوئی ہو گی۔ اس تلاوت فرمانے کے بعد فرمایا کہ جس طرح کافوری شربت ٹھنڈک پیدا کرتا ہے، اسی طرح جب نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جاوے، اطمینان ہو جاتا ہے۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی کہ وَیُسْقَوْنَ فِیْھَا کَاْسًا کَانَ مِزَاجُھَا زَنْجَبِیْلًا(الدھر: 18) کہ اور اس میں ان پیالوں میں پلایا جاتا ہے جس میں زنجبیل ملی ہوئی ہو گی۔ پھر فرمایا کہ جس طرح زنجبیل کا شربت لذیذ ہوتاہے ایسا ہی نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جانے پر نیکی کی لذت حاصل ہو جاتی ہے۔ بدی کی طرف خیال بھی نہیں جاتا۔ (مأخوذ از روایات حضرت غلام محمد صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ 172، 173)

پس یہ روایت مَیں نے خاص طور پر اس لئے بھی لی تھی کہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتوں کو کس طرح سنتے تھے؟ کس طرح اُن سے استفادہ کرتے تھے؟ اور کس طرح اُن کو یاد رکھتے تھے؟ پھر بڑے سادہ الفاظ میں آگے بیان بھی کر دیا کہ دوسروں کو سمجھ بھی آ جائے۔ پس اسی سوچ کے ساتھ ہمارے یہاں جلسے پر آنے والے ہر شخص کو جلسے میں شامل ہو کر تقاریر کو سننا بھی چاہئے اور اُن سے علمی فیض بھی حاصل کرنا چاہئے، روحانی فیض بھی حاصل کرنا چاہئے اور یاد بھی رکھنا چاہئے، تا کہ پھر آگے اس علم اور روحانیت کو پھیلانے والے بھی بنیں۔ حضرت ڈاکٹر محمد دین صاحب بنوں ہسپتال کے انچارج تھے، یہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1905ء میں بذریعہ خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی تھی۔ دستی بیعت دسمبر 1905ء میں کی۔ بذریعہ خط اپریل 1905ء میں اور دستی دسمبر 1905ء میں۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر کی تھی یہ بیعت۔ اُس وقت میری عمر بیس سال کی تھی اور مَیں میڈیکل کالج لاہور میں سب اسسٹنٹ سرجن کلاس میں پڑھتا تھا۔ بیعت کرنے کے بعد بہت سے لوگ تھے چنانچہ ایک لمبی پگڑی پھیلا دی گئی تھی جس پر لوگوں نے ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔ بیعت کنندگان میں شیخ تیمور صاحب بھی تھے۔ شیخ صاحب نے پہلے بھی بیعت کی ہوئی تھی مگر ہمارے ساتھ بھی شامل ہو گئے۔ حضور (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) کے ہاتھ پر شیخ صاحب کا ہاتھ تھا اور شیخ صاحب کے ہاتھ پر میرا ہاتھ تھا۔ حضور الفاظ بیعت فرماتے جاتے تھے اور ہم سب بیعت کنندگان اُن کو دہراتے جاتے تھے۔ بیعت کے بعد حضور علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی۔ جلسے کے اختتام پر ہم پانچ ڈاکٹر کلاس کے طالب علموں نے حضور سے واپسی کے لئے اجازت چاہی تو حضور نے فرمایا کہ ٹھہرو۔ رسالہ الوصیت اُس وقت چھپ کر آیا تھا۔ ابھی گیلا ہی تھا کہ ہم کو اُس کی ایک ایک کاپی عنایت کر دی گئی اور ساتھ ہی حضور نے ہمیں واپسی کی اجازت بھی دے دی۔ چنانچہ ہم رسالہ الوصیت لے کر واپس لاہور آ گئے۔ لاہور میڈیکل کالج کے ہسپتال اسسٹنٹ کلاس نے جن میں مَیں بھی شامل تھا، 1906ء کے آغاز میں بعض شکایات کی بنا پر سٹرائک کر دی(ہڑتال کر دی) اس میں احمدی میڈیکل طلباء بھی شامل تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب اس کا علم ہوا تو حضور نے ازراہِ کرم ایک تاکیدی حکم ہمیں بھیجا کہ ایسی تحریکات میں حصہ لینا اسلام کے خلاف ہے اور جماعت احمدیہ کی بھی روایات کے خلاف ہے اس لئے تم سب پرنسپل صاحب سے معافی مانگ کر کالج میں پھر داخل ہو جاؤ۔ ساتھ ہی پرنسپل صاحب میڈیکل کالج کو بھی لکھا اور ساتھ ہی سفارش بھی کی کہ ہماری جماعت کے طلباء کو معافی دے کر پھر داخل کر لیویں۔ چنانچہ ہم پانچوں احمدی طلباء معافی مانگ کر پھر داخل ہو گئے۔ اس پر پیسہ اخبار لاہور نے مسیح کے پانچ حواری کے عنوان سے ایک مضمون لکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور احمدی جماعت پر بہت اعتراض کئے۔ لیکن پھر بھی اثر نہیں ہوا، باقی لڑکے بھی اُس کے بعد معافی مانگ کر داخل ہو گئے۔ کہتے ہیں حضور کے بہت سارے خطوط میرے پاس ہیں۔ لیکن جنگِ عظیم کی وجہ سے باہر تھے، وہ گم گئے۔ (مأخوذ ازروایات حضرت ڈاکٹر محمد دین صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 1صفحہ 53، 54)

تو بہر حال ہڑتال کے بارے میں سٹرائکوں کے بارے میں ہمارا کیا مؤقف ہے اس بارے میں مَیں بڑے واضح طور پرخطبات دے چکا ہوں۔ چوہدری غلام رسول صاحب بسراء 99شمالی سرگودھا کہتے ہیں کہ دسمبر 1907ء جلسہ سالانہ کا واقعہ ہے کہ جمعرات کی شام کو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صبح باہر سیر کو جائیں گے۔ اس وقت دستور یہ تھا کہ جب بہت بھیڑ ہو جاتی تھی تو آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ باندھ لیا جاتا تھا اور آپ اس حلقے کے بیچ چلتے تھے۔ (جس طرح چین(Chain) بنا لیتے ہیں بازو پکڑ کے) چنانچہ مَیں نے اپنے ہمرائیوں مولوی غلام محمد گوندل امیر جماعت احمدیہ چک 99شمالی، چوہدری میاں خان صاحب گوندل اور چوہدری محمد خان صاحب گوندل مرحوم سے صلاح کی کہ اگر خدا نے توفیق دی تو صبح جب آپ باہر سیر کو نکلیں گے تو ہم آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ بنائیں گے، اس طرح پر ہم حضور کا دیدار اچھی طرح کر سکیں گے۔ صبح جب نماز فجر سے فارغ ہوئے تو تمام لوگ حضور کے انتظار میں بازار میں اکٹھے ہونے شروع ہو گئے۔ یہ مکمل پتہ تو نہیں تھا کہ حضور کس طرف سے باہر تشریف لے جائیں گے لیکن جس طرف سے ذرا سی بھی آواز اُٹھتی کہ آپ اس طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے لوگ اُسی طرف ہی پروانہ وار دوڑے جاتے تھے۔ کچھ دیر اسی طرح ہی چہل پہل بنی رہی۔ آخر پتہ لگا کہ حضور شمال کی جانب سے ریتی چھلا کی طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے۔ ہم لوگوں نے جو آگے ہی منتظر تھے کپڑے وغیرہ کَس لئے اور تیار ہو گئے کہ جس وقت حضور بازار سے باہر دروازے پر تشریف لے آئیں، اُسی وقت ہم بازؤوں کا حلقہ بنا کر آپ کو بیچ میں لے لیں گے۔ ہم اس تیاری میں تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بہت بڑے جمّ غفیر کے درمیان میں (اس جمگھٹے کے) آپ آ رہے ہیں۔ اس جمگھٹے نے ہمارے ارادے خاک میں ملا دئیے اور یہ جمگھٹا جوتھا ہمیں روندتا ہوا چلا گیا۔ ریتی چھلے کے بڑے مغرب کی طرف ایک لسوڑی کا درخت تھا۔ آپ اُس لسوڑی کے درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے اور وہاں ہی آپ لوگوں سے مصافحہ کرنے لگے۔ کسی نے کہا حضرت صاحب کے لئے کرسی لائی جاوے تو آپ نے فرمایا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے کہا ہے کہ لوگ بہت بڑی کثرت سے تیرے پاس آئیں گے لیکن (پنجابی میں باتیں ہو رہی تھیں شایدتو فرمایا)’تُوں اَکّیں نہ اور تھکیں نہ‘۔ (ماخوذ ازروایات حضرت چوہدری غلام رسول بسراء صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 1صفحہ 71)

دیکھیں کس شان سے آج بھی آپ کا یہ الہام پورا ہو رہا ہے۔ اس ملک میں بیٹھے ہوئے کثرت سے لوگ جلسہ سننے کے لئے آ رہے ہیں۔ اصل میں تو یہ عربی کا الہام ہے جس کا ترجمہ انہوں نے کیا ہے۔ یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح بیان فرمایا۔

حضرت مولوی محمد جی صاحب ولد میر محمد خان صاحب کہتے ہیں کہ جلسے پر مَیں نے حضرت اقدس کو تقریر کرتے دیکھا ہے۔ کوئی وقت معین نہیں ہوتا تھا جب ارادہ آپ فرماتے تھے تو اعلان کیا جاتا۔ میاں بشیر احمد صاحب کے مکان میں جلسہ ہو رہا تھا۔ آپ لکڑی کی سیڑھی سے اُتر کر آئے جو دالان کے اندر لگی ہوئی تھی اور زندگی وقف کرنے کا ارشاد کیا۔ (اُس وقت زندگی وقف کرنے کا ارشاد فرمایا جلسے کی تقریر میں )۔ مسجد اقصیٰ میں ایک جلسے میں آپ کے لئے کرسی رکھی گئی اور بیٹھ کر تقریر کی۔ تقریر میں فرمایا، ہر ایک آدمی جو یہاں ہے وہ میرا نشان ہے، پس اس وقت بھی جو اس وقت یہاں بیٹھے ہیں جلسے پہ، دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے، یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا نشان ہیں۔ اور اس صداقت کے نشان کو ثابت کرنے کے لئے ہمیں اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں بھی پیدا کرنی ہوں گی جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ حضرت اقدس کی تقریر میں تسلسل ہوتا تھا، شروع میں کچھ دھیمی آواز ہوتی تھی پھر بلند ہو جاتی تھی۔ مقرر اپنی تقریروں میں بعض فقروں پر زور دیا کرتے ہیں، آپ کی یہ عادت نہیں تھی۔ قرآنِ مجید کی آیت بھی سادہ طرز سے پڑھتے تھے، نہ ہاتھ سے اور نہ انگلی سے اشارہ کرتے۔ لاٹھی ہاتھ میں لے کر کھڑے ہوتے تھے کبھی دونوں ہاتھ اس پر رکھ لیتے۔ آپ کی تقریر نہایت دلکش ہوتی، بالکل اطمینان سے آپ تقریر فرماتے گویا قدرتی مشین ہے جس کو قدرت کے ہاتھ نے کام لینے کے لئے کھڑا کیا ہے۔ (مأخوذ ازروایات حضرت مولوی محمد جی صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 8صفحہ145، 146)

حضرت صوفی نبی بخش صاحب روایت کرتے ہیں کہ 27دسمبر 1891ء کے جلسے پر جس میں حاضرین کی تعداد اسّی (80)کے قریب تھی مَیں بھی حاضرِ خدمت ہوا اور دن کے دس بجے کے قریب چائے پینے کے بعد ارشاد ہوا کہ سب دوست بڑی مسجد میں جو اَب مسجد اقصیٰ کے نام سے مشہور ہے تشریف لے جائیں۔ حسب الحکم سب کے ساتھ میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ زہے قسمت کہ میرے لئے قسّامِ ازل نے اس برگزیدہ بندے کی جماعت میں داخل ہونے کے لئے یہی دن مقرر کر رکھا تھا۔ اُس وقت مسجد اتنی وسیع نہ تھی جیسی آج نظر آتی ہے۔ سب کے بعد حضرت صاحب خود تشریف لائے اور مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو’آسمانی فیصلہ‘سنانے کے لئے مقرر کیا۔ لیکن میرے لئے یہ ایک حیرت کا مقام تھا کیونکہ مَیں نے حضرت اقدس کے رُوئے مبارک اور لباس کی طرف دیکھا تو وہ وہی حلیہ تھا اور وہی لباس تھا جس کو ایامِ طالب علمی میں مَیں نے دیکھا تھا۔ حاضرین تو بڑی توجہ سے آسمانی فیصلہ کو سننے میں مشغول تھے اور مَیں اپنے دل کے خیالات میں مستغرق تھا اور فیصلہ کر رہا تھا کہ یہ تو وہی نورانی صورت ہے جس کو طالب علمی کے زمانے میں مَیں نے عالمِ خواب میں دیکھا تھا۔ (روایات حضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد5 1صفحہ109)

حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب روایت کرتے ہیں کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کی وفات کے متعلق الہامات ہو رہے تھے اُنہی دنوں کا واقعہ ہے کہ جلسہ سالانہ مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوا۔ حضور نے اس جلسہ میں نماز کے بعد متعلق تقریر فرماتے ہوئے سورۃ فاتحہ کی تشریح فرمائی اور عبودیت کے معنی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ عبد جب صحیح طور پر عبودیت کے رنگ سے رنگین ہوتا ہے تو اُس کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسے ایک لوہے کا ٹکڑا آگ میں پڑ کر آگ کا انگارہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح صفاتِ الٰہیہ سے عبد متصف ہو جاتا ہے جس طرح کہ وہ لوہا کا ٹکڑا آگ نہیں ہوتا بلکہ اپنی ماہیت میں لوہا ہوتا ہے اور عارضی طور پر آگ کی کیفیت اُس میں سرایت کرتی ہے۔ اسی طرح عبد اپنی حقیقت میں انسان ہوتا ہے لیکن اس میں صفاتِ الٰہیہ کام کر رہی ہوتی ہیں ایسے عبد کا ارادہ اپنا نہیں ہوتا بلکہ الٰہی ارادے کے ساتھ اُس کی تمام حرکات و سکنات وابستہ ہوتی ہیں۔ (روایات حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد4 1صفحہ50)

پس ایسی عبودیت کی تلاش کی کوشش ہر احمدی کو کرنی چاہئے اور یہی حقیقی مومن ہونے کی نشانی ہے اور یہی چیزیں پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے۔

حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری روایت کرتے ہیں کہ غالباً 1906ء کے سالانہ جلسہ کے موقع پر آپ نے اپنی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: میری موت اب قریب ہے اور مَیں جب اپنی جماعت کی حالت دیکھتا ہوں تو مجھے اُس ماں کی طرح غم ہوتا ہے جس کا دو تین دن کا بچہ ہے اور وہ مرنے لگے لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر مجھے کامل یقین ہے کہ وہ میری جماعت کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ یہ ایک دل کا اطمینان ہے۔ (روایات حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 8صفحہ 68)

پس اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کو پورا فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت روزانہ بڑھ رہی ہے اور بڑھتی چلی جا رہی ہے لیکن صرف تعداد میں بڑھنا ہی کافی نہیں، ہمیں اپنے ایمانوں کی بھی فکر کرنی چاہئے، اپنی روحانیت کی بھی فکر کرنی چاہئے اور اس میں بھی بڑھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ اور اپنے ایمانوں کو اور اپنی نسلوں کے ایمانوں کو بچانے کے لئے ہر وقت اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ نہ صرف یہ ایمان ہمارے تک ہی محدود رہیں بلکہ اپنی اگلی نسلوں میں بھی ہم یہ ایمان پیدا کرنے والے بنیں اور اس کے لئے نیک نمونے قائم کریں تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں سے ہمیشہ فیض پانے والے بنتے چلے جائیں اور آپ کی فکروں کو دور کرنے والے بنتے چلے جائیں۔ اور یہی چیزیں ہیں جو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھائیں گی اور یہ جو صحابہ کے واقعات میں نے بیان کئے ہیں یہ اصل میں تو اس لئے کئے ہیں تا کہ ہمارے سامنے کچھ نمونے ہوں اور ہمیں مختلف ذریعوں سے پتہ لگے کہ کس طرح صحابہ اپنے عشق و محبت کا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کرتے تھے، کس طرح کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کے ساتھ تھا اور کیا وہ روحانی انقلاب تھا جس کے لئے وہ پروانے ہر وقت شمع کے گرد اکٹھے رہتے تھے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے ایمانوں میں بڑھتے چلے جانے والے ہوں اور کبھی کسی بھی قسم کی ایسی حرکت ہم سے سرزدنہ ہو جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں