خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍ اگست 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’اصل اور حقیقی دعا کے واسطے بھی دعا ہی کی ضرورت ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر3صفحہ397مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوۃ اور نماز میں کیا فرق ہے؟ جو حدیث میں آیا ہے، صلوۃ ہی دعا ہے، نماز عبادت کا مغز ہے۔ (ملفوظات جلدنمبر4صفحہ283مطبوعہ ربوہ)
پھر فرماتے ہیں کہ’’یاد رکھو۔ یہ نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی‘‘۔ فرمایا: ’’نماز تو وہ چیز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بدعملی اور بے حیائی سے بچایا جاتاہے‘‘۔ فرمایا: ’’اس طرح کی نماز پڑھنا انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی‘‘۔ یعنی ایسی نماز جو بدعملی اور بے حیائی سے بچاتی ہے، بیشک اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے لیکن فرمایا کہ’’یہ اپنے اختیار میں نہیں ہوتی‘‘ اور فرمایا کہ’’یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر5صفحہ403مطبوعہ ربوہ)
ایسی نماز جو بدعملی اور بے حیائی سے بچائے، ایسی عبادت جو صحیح رستے پر ڈالنے والی ہو، بے حیائی سے بچانے والی ہو، وہ بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد کے نہیں مل سکتی۔
یہ تمام باتیں ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلانے کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کہ ہماری عبادتیں اور دعائیں کیسی ہونی چاہئیں۔ دعائیں کرنے کے لئے ہمیں کیا طریق اختیار کرنا چاہئے؟ اُن عبادتوں اور دعاؤں کے ہماری حالتوں پر کیا نتائج مترتب اور ظاہر ہونے چاہئیں؟ یہ عبادتیں اور دعائیں اور نمازیں کس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ پا سکتی ہیں۔ اگر یہ باتیں سمجھ آ جائیں اور انسان اس بات کا فہم و ادراک حاصل کر لے کہ عبادت ہی ہے جو انسان کی پیدائش کا مقصد ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے سے ہی اُس کی دنیا و آخرت سنور سکتی ہے تو تمام دوسری باتوں اور چیزوں کو چھوڑ کروہ اس اہم مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دعا کے واسطے بھی دعا ہی کی ضرورت ہے۔ اور یہ سب کچھ، یہ مقصدِ پیدائش کا حصول خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہم صرف اپنی کوشش سے اپنی پیدائش کے مقصد کو نہیں پا سکتے۔
اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں پر بے انتہا مہربان ہے اُس نے قرآنِ کریم کی پہلی سورۃ میں ہی ہمیں یہ دعا سکھا دی اور پانچ فرض نمازوں اور سنتوں اور نوافل کی ہر رکعت میں اس دعا کا پڑھنا ضروری قرار دیا ہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) کہ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ تیری عبادت کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم اس کا حق ادا نہیں کر سکتے جب تک تیری مدد شاملِ حال نہ ہو۔ پس ایک روح کے ساتھ، ایک دل کی گہرائی کے ساتھ نکلی ہوئی عاجزانہ پکار کے ساتھ جب ایک مومن اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اُس کو توفیق بھی عطافرماتا ہے۔
پھر یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ ہر سال رمضان کا مہینہ لا کر اللہ تعالیٰ اپنے قریب ہونے کا اعلان فرماتا ہے۔ یہ اعلان فرماتا ہے کہ میں نے شیطان کو بھی جکڑ دیا ہے۔ یہ اعلان فرماتا ہے کہ مَیں ہر اُس بندے کی مدد اور استعانت کے لئے تیار ہوں، بلکہ اُس کی مدد کرتا ہوں جو خالص ہو کر میری طرف آتا ہے، میرے پر کامل ایمان رکھتا ہے، میرے حکموں پر عمل کرتا ہے۔ آئندہ سے خالص ہو کر صرف اور صرف میری عبادت کرنے اور میرا خالص عبد بننے کا وعدہ کرتا ہے تو پھرمَیں اپنے ایسے بندوں کی دعائیں قبول کرتا ہوں، سنتا ہوں۔ پس اگرکہیں کمی ہے تو ہم بندوں میں کمی ہے۔ خدا تعالیٰ کے احسانوں اور اعانت میں کمی نہیں ہے۔ پھر اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادے کو ہماری اصلاح کے لئے بھیج دیا ہے جو اُس عبدِ کامل صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کے طور پر آیا ہے جس نے پھر ہمیں خدا تعالیٰ سے ملانے اور اُس کا عبد بننے، اُس کی عبادتوں میں طاق ہونے، اُس کی اعانت حاصل کرنے والا بننے کے طریق سکھلائے ہیں۔ پس اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فرمودات اور ارشادات کی روشنی میں ہی اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) کی کچھ وضاحت کروں گا۔ جس باریکی اور گہرائی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) کا مطلب سمجھایا ہے، اگر ہم اس کو سمجھ کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے بن جائیں، (اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرما دے) تو پھر ہم خدا تعالیٰ کی عبودیت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے بھی بن جائیں گے۔ اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہم اپنی عبادتوں کے بھی معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں اور پھر عاجزی سے اُن معیاروں کو حاصل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اُس کی مدد چاہیں۔ جب یہ ہو گا تو تب ہی ہم اُن لوگوں میں سے کہلا سکیں گے جو عبدِ رحمن کہلاتے ہیں۔ ایمان میں اُس پختگی کو پیدا کرنے والے بن سکیں گے جس کا اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے۔ یا جس کی ایک مومن سے توقع کی جا سکتی ہے یا کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو عرفان عطا فرمایا اس خزانے میں سے جو آپ نے اپنے لٹریچر میں ہمیں مہیا فرمائے ہیں چند جواہر پیش کروں گا۔
آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے جملہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ کو جملہ اِیَّا کَ نَسْتَعِیْن سے پہلے رکھا ہے اور اس میں بندے کے توفیق مانگنے سے بھی پہلے اس (ذات باری) کی (صفت) رحمانیت کے فیوض کی طرف اشارہ ہے گویا کہ بندہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور کہتا ہے اے میرے پروردگار! میں تیری ان نعمتوں پر تیرا شکر ادا کرتا ہوں جو تو نے میری دعا، میری درخواست، میرے عمل، میری کوشش اور جو (تیری) اس ربوبیت اور رحمانیت سے جو سوال کرنے والوں کے سوال پر سبقت رکھتی ہے۔ میری استعانت سے پیشتر تو نے مجھے عطا کر رکھی ہیں۔ پھر میں تجھ سے ہی (ہر قسم کی) قوت، راستی، خوشحالی اور کامیابی اور اُن مقاصد کے حاصل ہونے کے لئے التجا کرتا ہوں جو درخواست کرنے، مدد مانگنے اور دعاکرنے پر ہی عطا کی جاتی ہیں اور تو بہترین عطا کرنے والا ہے۔ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلدنمبر7صفحہ119-120) (ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ189)
پس جب بندہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کی وجہ سے کئے ہیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنتا ہے تو یہ عبادت اور حقیقی عبد بننے کی طرف پہلا قدم ہے۔ جب اس مقام کا ادراک ایک بندہ حاصل کر لیتا ہے تو پھر عبادت میں آگے بڑھنے کی کوشش ہوتی ہے۔ پھر بندہ اپنے خدا سے کہتا ہے کہ یہ جو تُو نے عبدبننے کے معیار حاصل کرنے کے مختلف معیار رکھے ہیں، اُن کو بھی میں حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ تیری ہر قسم کی نعمتوں سے بھی میں حصہ لینا چاہتا ہوں۔ اپنی روحانی اور مادی ترقی کے مزید سامان چاہتا ہوں، لیکن یہ سب کچھ تیری مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ پس میری مدد فرما اور پھر اللہ تعالیٰ کی مدد کے دروازے بھی کھلتے ہیں اور ترقی کی منزلیں بھی طے ہوتی ہیں۔ تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کی وجہ سے جو انعامات دئیے ہیں جب اُن کے شکر گزار بنو گے تو پھر عبادت کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی پھر اُس کی مدد کی طرف حاصل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ پس یہ ہے وہ بنیادی نقطہ اور روح جس کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) کی دعا کرنی چاہئے۔ پھر آپ اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ اس دعا کی طرف کیوں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے، فرماتے ہیں:
’’اور ان آیات میں ان نعمتوں پر شکر کرنے کی ترغیب ہے جو تجھے دی جاتی ہیں اور جن چیزوں کی تجھے تمنا ہو ان کے لئے صبر کے ساتھ دعا کرنے اور کامل اور اعلیٰ چیزوں کی طرف شوق بڑھانے کی (ترغیب ہے) تا تم بھی مستقل شکر کرنے والوں اور صبر کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ۔ پھر ان (آیات) میں ترغیب دی گئی ہے بندے کے اپنی طرف ہمت اور قوت کی نسبت کی نفی کرنے کی اور (اس سے) آس لگا کر اور امید رکھ کر ہمیشہ سوال، دعا، عاجزی اور حمد کرتے ہوئے (اپنے آپ کو) اللہ سبحانہ کے سامنے ڈال دینے کی اور خوف اور امید کے ساتھ اس شیر خوار بچہ کی مانند جو دایہ کی گود میں ہو(اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا) محتاج سمجھنے کی (ترغیب) ہے اور تمام مخلوق سے اور زمین کی سب چیزوں سے موت(یعنی پوری لا تعلقی) کی۔ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلدنمبر7صفحہ120) (ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ189-190)
پس فرمایا کہ اس میں شکر کرنے کی ترغیب دی ہے کہ انسان شکر گزار بندہ بنے۔ صبر، دعا کی ترغیب دی ہے تا کہ تم پھر اس صبر کی وجہ سے، اس مستقل مزاجی سے دعا کی وجہ سے مستقل شکر کرنے والوں اور صبر کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ جن کو پھر اللہ تعالیٰ انعامات سے نوازتا ہے۔
فرمایا کہ’’پھر ان(آیات) میں ترغیب دی گئی ہے بندے کی اپنی طرف ہمت اور قوت کی نسبت کی نفی کرنے کی، اور (اُس سے) آس لگا کر اور امید رکھ کر ہمیشہ سوال، دعا، عاجزی اور حمد کرتے ہوئے (اپنے آپ کو) اللہ سبحانہ کے سامنے ڈال دینے کی۔ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلدنمبر7صفحہ120) (ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ189)
یعنی اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا۔ انسان کے ذہن میں یہ ہونا چاہئے کہ سب طاقتوں کا مالک اور ربّ اللہ ہے۔ اس لئے اُس کے آگے اپنے آپ کو ڈال دو۔ اسی طرح تمام دنیاوی وسیلوں اور رشتوں سے اللہ تعالیٰ سے تعلق کے مقابلے میں لا تعلقی حاصل کر لو۔ جب یہ حالت ہو گی کہ نہ اپنے زورِ بازو پر بھروسہ ہو گا، نہ اپنے نفس اور طاقت پر بھروسہ ہو گا، نہ دنیا کے وسیلوں اور طاقتوں پر بھروسہ ہو گا تو تب ہی انسان سے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) کی حقیقی دعا نکلے گی۔ پھراس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ انسان کو، ایک دعا کرنے والے کو اپنی کمزوری کا مکمل اعتراف ہو تو تبھی وہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) کا حق ادا کر سکتا ہے، فرماتے ہیں:
’’اسی طرح ان (آیات) میں اس امر کا اقرار اور اعتراف کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ ہم تو بہت کمزور ہیں۔ تیری دی ہوئی توفیق کے بغیر تیری عبادت نہیں کر سکتے اور تیری مدد کے بغیر ہم تیری رضا کی راہوں کی تلاش نہیں کر سکتے۔ ہم تیری مدد سے کام کرتے ہیں اور تیری مدد سے حرکت کرتے ہیں اور ہم تیری طرف جلن کے ساتھ ان عورتوں کی طرح جو اپنے بچوں کی موت کے غم میں گھل رہی ہوتی ہیں اور ان عاشقوں کی طرح جو محبت میں جل رہے ہوتے ہیں تیری طرف دوڑتے ہیں‘‘۔ فرمایا ’’پھر ان آیات میں کبر اور غرور کو چھوڑنے کی (پہلی جوبات تھی اس میں تو یہ فرمایا کہ تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کو حاصل کرنے کی ایک جلن اور درد اور تڑپ ہونی چاہئیے اور اس کی مثال دی کہ اس طرح جلن جس طرح کوئی عورت اپنے بچے کی موت میں گھل رہی ہوتی ہے یا ایسے عاشق کی جلن جو اپنے محبوب کے عشق میں، محبت میں جل رہا ہوتا ہے۔ )۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’ان آیات میں کبر اور غرور کو چھوڑنے کی نیز معاملات کے پیچیدہ ہونے اور مشکلات کے گھیر لینے پر محض اللہ تعالیٰ کی (طرف سے ملنے والی) طاقت اور قوت پر بھروسہ کرنے کی اور منکسر المزاج لوگوں میں شامل ہونے کی (ترغیب ہے) گویا کہ (اللہ تعالیٰ) فرماتاہے اے میرے بندو اپنے آپ کومُردوں کی طرح سمجھو اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے قوت حاصل کرو۔ پس تم میں سے نہ کوئی جوان اپنی قوت پر اترائے اور نہ کوئی بوڑھا اپنی لاٹھی پر بھروسہ کرے اور نہ کوئی عقل مند اپنی عقل پر ناز کرے اور نہ کوئی فقیہہ اپنے علم کی صحت اور اپنی سمجھ اور اپنی دانائی کی عمدگی ہی پر اعتبار کرے اور نہ کوئی ملہم اپنے الہام یا اپنے کشف یا اپنی دعاؤں کے خلوص پر تکیہ کرے۔ کیونکہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ جس کو چاہے دھتکار دیتا ہے اور جس کو چاہے اپنے خاص بندوں میں داخل کر لیتا ہے‘‘۔ (پھر فرمایا کہ) ’’اِیَّا کَ نَسْتَعِیْنُ میں نفس امارہ کی شر انگیزی کی شدت کی طرف اشارہ ہے جو نیکیوں کی طرف راغب ہونے سے یوں بھاگتا ہے جیسے اَن سدھی اونٹنی سوار کو اپنے اوپر بیٹھنے نہیں دیتی اور بھاگتی ہے۔ یا وہ ایک اژدہا کی طرح ہے جس کا شر بہت بڑھ گیا ہے اور اس نے ہر ڈسے ہوئے کو بوسیدہ ہڈی کی طرح بنا دیا ہے اور تو دیکھ رہا ہے کہ وہ زہر پھونک رہا ہے یا وہ شیر(کی طرح) ہے کہ اگر حملہ کرے تو پیچھے نہیں ہٹتا۔ کوئی طاقت، قوت، کمائی، اندوختہ (کارآمد)نہیں سوائے اس خدا تعالیٰ کی مدد کے جو شیطانوں کو ہلاک کرتا ہے‘‘۔ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلدنمبر7صفحہ120) (ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ190-191)
یہ ترجمہ آپ کی کتاب کرامات الصادقین کا ہے۔
پس جب دعا کرتے ہوئے یہ سوچ بھی ایک انسان رکھتا ہے یا رکھے کہ نفسِ امارہ مجھے برائیوں میں مبتلا کرنے کی طرف لے جا رہا ہے اور مَیں نے اس سے بچنا ہے تو، یہ سو چ ہونی چاہئے کہ مَیں اپنی کوشش اور طاقت سے نہیں بچ سکتا، اس وقت صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو شیطان کے حملوں سے بچا سکتا ہے اور نیکیوں کی توفیق دے سکتا ہے۔ پس بندہ عاجز ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہو اور دعا کرے کہ اے اللہ! آج مجھے شیطان سے بچانے والا صرف تو ہی ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کے پیارے لوگ جو اس عاجزی سے اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں اور مانگتے چلے جاتے ہیں اور وہ اللہ کی مدد کے بغیر نہیں رہ سکتے تو ایک عام انسان کو کس قدر خدا تعالیٰ سے مانگنا چاہئے؟ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کی مثال دی ہے جب انہوں نے نفسِ امارہ سے بچنے کی دعا مانگی تھی کہ وَمَا اُبَرِّیُٔ نَفْسِی اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوٓءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّیْ۔ اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (یوسف: 54) یعنی اور مَیں اپنے نفس کو غلطیوں سے بَری قرار نہیں دیتا۔ کیونکہ انسانی نفس سوائے اُس کے جس پر اللہ رحم کرے بری باتوں کا حکم دینے پر بڑا دلیر ہے۔ میرا رب بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ پس یہ دعا اور سوچ ہے جو پھر اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) کی دعا سے فیضیاب کرتی ہے۔ جب انسان دل میں یہ خیال کرے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بھی یہ دعا مانگنے والے ہیں تو ہمیں کس قدر دعائیں مانگنی چاہئیں۔ تبھی پھر ایک انسان صحیح عبد بن سکتا ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اورنَعْبُدُ کو نَسْتَعِیْن سے پہلے رکھنے میں اور بھی کئی نکات ہیں جنہیں ہم ان لوگوں کے لئے یہاں لکھتے ہیں جو سارنگیوں کی رُوں رُوں پر نہیں بلکہ قرآنی آیات مثانی (سورۃ فاتحہ) سے شغف رکھتے ہیں اور مشتاقوں کی طرح ان کی طرف لپکتے ہیں اور وہ (نکات) یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایک ایسی دعا سکھاتا ہے جس میں اُن کی خوش بختی ہے اور کہتا ہے اے میرے بندو! مجھ سے عاجزی اور عبودیت کے ساتھ سوال کرو اور کہو اے ہمارے! اِیَّاکَ نَعْبُدُ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں) لیکن بڑی ریاضت، تکلیف، شرمساری، پریشان خیالی اور شیطانی وسوسہ اندازی اور خشک افکار اور تباہ کن اوہام اور تاریک خیالات کے ساتھ ہم سیلاب کے گدلے پانی کی مانند ہیں۔ یا رات کو لکڑیاں اکٹھا کرنے والے کی طرح ہیں اور ہم صرف گمان کی پیروی کر رہے ہیں ہمیں یقین حاصل نہیں‘‘۔ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلدنمبر7صفحہ120-121) (ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ191)
اب یہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ ہے لیکن ان ساری باتوں پر یقین نہیں ہے، ایک پریشان حالی ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے ہماری خوش بختی کا خیال رکھتے ہوئے ایسی دعا سکھائی ہے جس میں عبودیت کا حق ادا کرتے ہوئے دعا کرنے کی طرف ترغیب بھی ہے اور قبولیت کا وعدہ بھی تو کسی قدرا س پر کرکے اس دعا کو کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آگے پھر اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے بعد اِیَّا کَ نَسْتَعِیْن کہا گیا۔ جب شرمساری کی ایسی حالت پیدا ہوتی ہے اور انسان اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا توپھر اِیَّا کَ نَسْتَعِیْن کی دعا کرتا ہے، تب پھر اللہ تعالیٰ پھر مدد کے لئے آتا ہے۔ پھر فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (اور پھر) وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن کہو‘‘۔ (یعنی جب یہ حالت پیدا ہو جائے گی پھر وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن) یعنی ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں ذوق، شوق، حضورِ قلب، بھر پور ایمان (ملنے) کے لئے، روحانی طور پر (تیرے احکام پر) لبیک کہنے (کے لئے) سرور اور نور (کے لئے) اور معارف کے زیورات اور مسرت کے لباسوں کے ساتھ دل کو آراستہ کرنے کے لئے (تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں ) تا ہم تیرے فضل کے ساتھ یقین کے میدانوں میں سبقت لے جانے والے بن جائیں اور اپنے مقاصد کی انتہا کو پہنچ جائیں اور حقائق کے دریاؤں پر وارد ہو جائیں۔ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلدنمبر7صفحہ121) (ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ191-192)
پس یہ دعا روحانیت میں ترقی، عبادت کا شوق اور ذوق اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے اور ایمان میں ترقی کا باعث بنتی ہے۔
اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) میں عبودیت کی معراج کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’پھر اللہ تعالیٰ کے الفاظ اِیَّاکَ نَعْبُد میں ایک اور اشارہ ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اس (آیت) میں اپنے بندوں کو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس کی اطاعت میں انتہائی ہمت اور کوشش خرچ کریں اور اطاعت گزاروں کی طرح ہر وقت لبیک لبیک کہتے ہوئے (اس کے حضور) کھڑے رہیں گویا کہ یہ بندے یہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! ہم مجاہدات کرنے تیرے احکام کے بجا لانے اور تیری خوشنودی چاہنے میں کوئی کوتاہی نہیں کر رہے لیکن تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور عُجب اور ریاء میں مبتلا ہونے سے تیری پناہ مانگتے ہیں اور ہم تجھ سے ایسی توفیق طلب کرتے ہیں جو ہدایت اور تیری خوشنودی کی طرف لے جانے والی ہو اور ہم تیری اطاعت اور تیری عبادت پر ثابت قدم ہیں پس تو ہمیں اپنے اطاعت گذار بندوں میں لکھ لے‘‘۔ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلدنمبر7صفحہ121) (ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ192)
پس جب یہ سوچ اور دعا ہو گی کہ اطاعت اور عبادت پر ثابت قدم ہیں اور رہنا ہے تو پھر احکامات کی بجا آوری اور عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کی کوشش بھی ہو گی۔ ایک نماز کے بعد اگلی نماز کی ادائیگی کی فکر بھی ہو گی، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ایک مومن ایک نماز کے بعد اگلی نماز کی فکر کرتا ہے اور ایک جمعہ کے بعد اگلے جمعہ کی فکر کرتا ہے، ایک رمضان کے بعد اگلے رمضان کی فکر کرتا ہے تا کہ عبادتوں کا حق ادا کر سکے۔ (صحیح مسلم کتاب الطھارۃ باب الصلوات الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ…حدیث نمبر552)
پھر اعلیٰ اخلاق کے حصول کی کوشش بھی ہو گی اور یہی عبودیت کی معراج حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
اور پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ یہ دعا اپنی نسلوں، اور اپنے خاندان اور اپنی جماعت کے لئے بھی ہے تا کہ سب کے سب دھارے ایک ہی طرف بہہ رہے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اور یہاں ایک اور اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ بندہ کہتا ہے کہ اے میرے ربّ! ہم نے تجھے معبودیت کے ساتھ مخصوص کر رکھا ہے اور تیرے سوا جو کچھ بھی ہے اس پر تجھے ترجیح دی ہے پس ہم تیری ذات کے سوا اور کسی چیز کی عبادت نہیں کرتے اور ہم تجھے واحد ویگانہ ماننے والوں میں سے ہیں۔ اس آیت میں خدائے عزوجل نے متکلم مع الغیر کا صیغہ اس امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اختیار فرمایا ہے (’’ہم‘‘ کہہ کے دوسرے کو بھی جواپنے ساتھ شامل کیا ہے تو وہ اس لئے شامل فرمایا ہے) کہ یہ دعا تمام بھائیوں کے لئے ہے نہ صرف دعا کرنے والے کی اپنی ذات کے لئے اور اس میں (اللہ تعالیٰ نے) مسلمانوں کو باہمی مصالحت، اتحاد اور دوستی کی ترغیب دی ہے اور یہ کہ دعا کرنے والا اپنے آپ کو اپنے بھائی کی خیر خواہی کے لئے اسی طرح مشقت میں ڈالے جیسا کہ وہ اپنی ذات کی خیر خواہی کے لئے اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتا ہے۔ (اب اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) کی دعا جب انسان پڑھ رہا ہو تو دوسرے کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی، یہ احساس ہو گا کہ اگرمَیں نے اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق ادا کرنا ہے اور مَیں اپنے لئے، اپنے حقوق کے لئے، یا اپنی روحانی ترقی کے لئے یہ دعا مانگ رہا ہوں تو ساتھ ہی مَیں اپنے بھائی کے لئے بھی وہی سوچ رکھوں۔ تو جب یہ سوچ ہو گی تو ایک حسین معاشرہ پیدا ہو گا۔ فرماتے ہیں کہ یہ سوچ ہو کہ اپنے بھائی کی خیر خواہی کے لئے اسی طرح مشقت میں ڈالے جیسا کہ وہ اپنی ذات کی خیر خواہی کے لئے اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتا ہے۔ پس جب اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) کی صحیح سوچ ہو توپھرکسی کے حقوق غصب کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فرمایا ’’اور اس کی (یعنی اپنے بھائی کی) ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایسا ہی اہتمام کرے اور بے چین ہو جیسے اپنے لئے بے چین اور مضطرب ہوتا ہے اور وہ اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان کوئی فرق نہ رکھے اور پورے دل سے اس کا خیر خواہ بن جائے۔ گویا اللہ تعالیٰ تاکیدی حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے اے میرے بندو! بھائیوں اور محبوں کے(ایک دوسرے کو) تحائف دینے کی طرح دعا کا تحفہ دیا کرو‘‘۔ (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) میں جب جمع کیا گیا ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے مدد مانگتے ہیں تو یہ دعا کا تحفہ ہے اپنے بھائیوں کے لئے۔ فرمایا’’دعا کا تحفہ دیا کرو(اور اُنہیں شامل کرنے کے لئے) اپنی دعاؤں کا دائرہ وسیع کرو اور اپنی نیتوں میں وسعت پیدا کرو۔ اپنے نیک ارادوں میں (اپنے بھائیوں کے لئے بھی) گنجائش پیدا کرو اور باہم محبت کرنے میں بھائیوں، باپوں اور بیٹوں کی طرح بن جاؤ۔ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلدنمبر7صفحہ121-122) (ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ192-193)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ اس دعا میں تدبیر اور دعا کو جمع کر دیا ہے کیونکہ مومن تدبیر اور دعا دونوں سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ بغیر تدبیر کے دعا کوئی چیز نہیں اور بغیر دعا کے تدبیر کوئی چیز نہیں۔ فرمایا ’’تدبیر اور دعا دونوں (کو) باہم ملا دینا اسلام ہے، اسی واسطے مَیں نے کہا ہے کہ گناہ اور غفلت سے بچنے کے لئے اس قدر تدبیر کرے جو تدبیر کا حق ہے اور اس قدر دعا کرے جو دعا کا حق ہے۔ اسی واسطے قرآن شریف کی پہلی ہی سورۃ میں ان دونوں باتوں کو مدنظر رکھ کر فرمایا ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) اِیَّاکَ نَعْبُدُ اسی اصل تدبیر کو بتاتا ہے اور مقدم اسی کو کیا ہے کہ پہلے انسان رعایت اسباب اور تدبیر کا حق ادا کرے مگر اس کے ساتھ ہی دعا کے پہلو کو چھوڑ نہ دے بلکہ تدبیر کے ساتھ ہی اس کو مدنظر رکھے۔ مومن جب اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہتا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو معاً اس کے دل میں گذرتا ہے کہ میں کیا چیز ہوں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں جب تک اُس کا فضل اور کرم نہ ہو۔ اس لئے وہ معاً کہتا ہے اِیَّا کَ نَسْتَعِیْن۔ مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں۔ یہ ایک نازک مسئلہ ہے جس کو بجز اسلام کے اور کسی مذہب نے نہیں سمجھا‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر3صفحہ نمبر521مطبوعہ ربوہ) (الحکم 10؍فروری 1904ء صفحہ 2)
فرمایا کہ ’’مومن… تدبیر اور دعا دونوں سے کام لیتا ہے، پوری تدبیر کرتا ہے اور پھر معاملہ خدا پر چھوڑ کر دعا کرتا ہے اور یہی تعلیم قرآنِ شریف کی پہلی ہی سورۃ میں دی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) (الحکم 10؍مارچ 1904ء صفحہ 7)۔ جو شخص اپنے قویٰ سے کام نہیں لیتا ہے وہ نہ صرف اپنے قویٰ کو ضائع کرتا اور اُن کی بے حرمتی کرتا ہے بلکہ وہ گناہ کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر3صفحہ نمبر569-570مطبوعہ ربوہ)
پوری تدبیر اگر نہیں کرتا اور صرف اس بات پر ہی راضی ہو کہ میں دعا کر رہا ہوں اور دعا سے مسئلے حل ہو جائیں گے تو فرمایا کہ یہ بھی گناہ ہے۔ فرمایا کہ ’’انسان میں نیکی کا خیال ضرور ہے۔ پس اسی خیال کے واسطے اس کو امدادِ الٰہی کی بہت ضرورت ہے۔ اسی لئے پنجوقتہ نماز میں سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کا حکم دیا۔ اُس میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ فرمایا اور پھر اِیَّا کَ نَسْتَعِیْن یعنی عبادت بھی تیری ہی کرتے ہیں اور مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں۔ اس میں دو باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے یعنی ہر نیک کام میں قویٰ، تدابیر، جدوجہد سے کام لیں۔ یہ اشارہ ہے نَعْبُدُ کی طرف۔ کیونکہ جو شخص نری دعا کرتا اور جدوجہدنہیں کرتا وہ بہر یاب نہیں ہوتا۔ جیسے کسان بیج بو کر اگر جدوجہدنہ کرے تو پھل کا امیدوار کیسے بن سکتا ہے اور یہ سنت اللہ ہے۔ اگر بیج بو کر صرف دعا کرتے ہیں تو ضرور محروم رہیں گے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر4صفحہ نمبر174مطبوعہ ربوہ) (الحکم نمبر17۔ 10؍مارچ 1904ء صفحہ 6)
اب زمیندار جانتے ہیں کہ بیج بونے کے بعد کھاد دینی بھی ضروری ہے، پانی دینا بھی ضروری ہے۔ جڑی بوٹیاں بھی نکالنا ضروری ہے۔ جنگلی جانوروں سے حفاظت بھی ضروری ہے۔ پس یہ قانونِ قدرت ہر جگہ پر لاگو ہے اور یہاں بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس کو جس خوبصورتی سے اسلام نے بیان فرمایا ہے کسی اور مذہب نے بیان نہیں فرمایا۔ پھر آپ اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ اس دعا کو مستقل مزاجی سے کرتے رہنا چاہئے کیونکہ دعا کی قبولیت کی بھی ایک گھڑی ہے پتہ نہیں کب دعا قبول ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کو کب کوئی ادا پسند آ جائے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) یعنی جو لوگ اپنے رب کے آگے انکسار سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی عاجزی منظور ہو جائے تو اللہ خود ان کا مددگار ہو جاتا ہے۔ (ملفوظات جلدنمبر3صفحہ نمبر374مطبوعہ ربوہ)
پس بندے کا کام عاجزی اور انکسار سے دعا کرتے چلے جانا ہے، اُس سے مدد مانگتے چلے جانا۔ ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں کہ استعانت کے متعلق یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اصل استمداد کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے اور اسی پر قرآنِ کریم نے زور دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر1صفحہ نمبر340مطبوعہ ربوہ) (الحکم 24؍جولائی1902ء صفحہ 5)
پس یہ نکتہ ہے جس کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ مستقل مزاجی اور تکرار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد اُس کے حضور کھڑے ہو کر مانگی جائے، اُس سے مستقل مانگتے چلے جائیں۔ ایک واقعہ ہے، حضرت مسیح موعود کے ایک صحابی تھے (نام مجھے یادنہیں رہا) لیکن بہر حال لکھنے والے لکھتے ہیں کہ مَیں دیکھ رہا تھا کہ بیس بچیس منٹ سے وہ نماز میں کھڑے ہیں، مسجد اقصیٰ قادیان میں نفل پڑھ رہے تھے، نیت باندھی ہوئی ہے، ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔ تو مجھے شوق پیدا ہوا کہ قریب جا کر دیکھوں کیونکہ ہلکی سی آواز بھی اُن کی آ رہی تھی۔ جب مَیں قریب گیا تو کہتے ہیں پندرہ منٹ وہاں ساتھ بیٹھا رہا ہوں اور ہلکی آواز میں وہ صرف اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن ہی پڑھتے چلے گئے۔ تو یہ عرفان تھا جو ان لوگوں کو حاصل ہوا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کی صحبت پائی۔
پس یہ فہم اور ادراک ہے اور یہ عرفان ہے جو ہر مومن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اسی سے عبودیت کا حق ادا ہوتا ہے۔ پھر آپ یہ بیان فرماتے ہوئے کہ عبودیت کا حق کس طرح ادا ہو سکتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تمام کی تمام سعادت خدائے ربّ العالمین کی صفات کی پیروی کرنے میں ہے (تفسیرحضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 197) (یا اُس کو اپنانے میں ہے)۔
پس جب بندہ تکرار سے یہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک کرتے ہوئے اپنے آپ کو اُس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی بھی ضرورت ہے ورنہ تو یہ دہرانا ہے اور طوطے کی طرح رَٹے ہوئے الفاظ کو بولنا ہی ہو گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بھی اس کا عرفان حاصل کیا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں جو رہے انہوں نے عرفان حاصل کیا، اللہ کے فضل سے جماعت میں اب بھی ہیں جو اس چیز کو سمجھتے ہیں اور اس طرح دعا کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔ ’’پھر چونکہ ان درجات کے حصول میں بڑی روک ریاکاری ہے۔ (درجات کے حصول میں بڑی روک جو ہے ریا کاری ہے) جو نیکیوں کو کھا جاتی ہے اور تکبر ہے جو بدترین بدی ہے اور گمراہی ہے جو سعادت کی راہوں سے دور لے جاتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے(اپنے) کمزور بندوں پر رحم فرماتے ہوئے جو خطا کاریوں پر آمادہ ہو سکتے ہیں اور اپنی راہ میں قدم مارنے والوں پر ترس کھا کر ان مہلک بیماریوں کی دوا کی طرف اشارہ فرمایا۔ پس اُس نے حکم دیا کہ لوگ اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہا کریں تا وہ ریا کی بیماری سے نجات پائیں اور اِیَّا کَ نَسْتَعِیْن کہنے کا حکم دیا تا وہ کبر اور غرور سے بچ جائیں۔ پھر اس نے اِھِدِنَا کہنے کا حکم دیا تا وہ گمراہیوں اور خواہشات نفسانی سے چھٹکارا پائیں۔ پس اس کا قول اِیَّاکَ نَعْبُدُ خلوص اور عبودیت تامہ کے حصول کی ترغیب ہے اور اس کا کلام اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن قوت، ثابت قدمی، استقامت کے طلب کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اور اس کا کلام اِھْدِنَا الصِّرَاط اشارہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم اور ہدایت طلب کی جائے جو وہ ازراہِ مہربانی بطور اکرام انسان کو عطا کرتا ہے۔ پس ان آیات کا ماحصل یہ ہے کہ خدا کا راہ سلوک اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ نجات کا وسیلہ بن سکتا ہے جب تک انتہائی اخلاص، انتہائی کوشش اور ہدایات کے سمجھنے کی پوری اہلیت حاصل نہ ہو جائے بلکہ جب تک کسی خادم میں یہ صفات نہ پائی جائیں وہ درحقیقت خدمات کے قابل نہیں ہوتا‘‘۔ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلدنمبر7صفحہ146) (ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ198-199)
پس یہ مقام ہے عبد بننے کا جو ایک مومن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مقبول دعاؤں یا مقبول عبادت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’واضح ہو کہ اس عبادت کی حقیقت جسے اللہ تعالیٰ اپنے کرم و احسان سے قبول فرماتا ہے (وہ درحقیقت چند امور پر مشتمل ہے) یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی بلند و بالا شان کو دیکھ کر مکمل فروتنی اختیار کرنا نیز اس کی مہربانیاں اور قسم قسم کے احسان دیکھ کر اس کی حمد و ثنا کرنا اس کی ذات سے محبت رکھتے ہوئے اور اس کی خوبیوں، جمال اور نور کا تصور کرتے ہوئے اسے ہر چیز پر ترجیح دینا اور اس کی جنت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے دل کو شیطانوں کے وسوسوں سے پاک کرنا ہے‘‘۔ (اعجاز المسیح روحانی خزائن جلدنمبر18صفحہ165) (ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ201)
جب اس طرح کی عبادت ہو تو پھر فرمایا کہ تب ہی اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) کا حقیقی تصور اُبھرے گا اور انسان ان بندوں میں شامل ہو گا جو عبد الرحمان کہلانے والے ہیں۔ عبادت سے مراد کیا ہے؟ اس بارے میں مزید فرمایا کہ:
’’خداوند کریم نے پہلی سورۃ فاتحہ میں یہ تعلیم دی ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) اس جگہ عبادت سے مراد پرستش اور معرفت دونوں ہیں۔ (یعنی ظاہری عبادت بھی اور اُس کا عرفان حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔) اور دونوں میں بندے کا عجز ظاہر کیا گیا ہے‘‘۔ (الحکم 30جون1899جلدنمبر3شمارہ نمبر23صفحہ نمبر3کالم نمبر2)
یہ دونوں چیزیں جو ہیں، عجز ظاہر کیا گیا کہ یہ پیدا کرو تو عجز پیدا ہو گا یا عجز ہو گا تو یہ چیزیں پیدا ہوں گی۔ پس جب ہم اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) کہیں تو یہ ظاہری عمل بھی ہو اور اس کی معرفت بھی حاصل ہونی ضروری ہے کہ کیوں ہم یہ دعا پڑھ رہے ہیں اور یہ معرفت اُس وقت حاصل ہو گی جیسا کہ مَیں نے کہا اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب مکمل عجزہو گا۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’انسان خدا کی پرستش کا دعویٰ کرتا ہے مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہو سکتی ہے یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیرنے والے پرستارِ الٰہی کہلا سکتے ہیں؟ بلکہ پرستش اُس سے ہو سکتی ہے جس کو خدا کی محبت اس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اس کا اپنا وجود درمیان سے اُٹھ جائے اوّل خداکی ہستی پر پورا یقین ہو اور پھر خدا کے حُسن و احسان پر (اللہ تعالیٰ نے کتنے احسانات ہم پر کئے ہیں ) پوری اطلاع ہو۔ (ہر نعمت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے پتا تو ہے کہ مجھے مل رہی ہے، لیکن یہ پتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے۔ اُس کے حسن و احسان پر پوری اطلاع ہو) اور پھر اُس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزشِ محبت ہر وقت سینے میں موجودہو اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دُنیا اُسکی ہستی کے آگے مُردہ متصوّر ہو اور ہر ایک خوف اُسی کی ذات سے وابستہ ہو اور اُسی کی درد میں لذّت ہو اور اُسی کی خلوت میں راحت ہو اور اُسکے بغیر دل کو کسی کے ساتھ قرار نہ ہو۔ اگر ایسی حالت ہو جائے تو اس کا نام پرستش ہے۔ مگر یہ حالت بجُز خدا تعالیٰ کی خاص مدد کے کیونکر پیدا ہو۔ اِسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ دُعا سکھلائی ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5)۔ یعنی ہم تیری پرستش تو کرتے ہیں مگر کہاں حق پرستش ادا کر سکتے ہیں جب تک تیری طرف سے خاص مددنہ ہو۔ خدا کو اپنا حقیقی محبوب قرار دیکر اس کی پرستش کرنا یہی ولایت ہے جس سے آگے کوئی درجہ نہیں۔ مگر یہ درجہ بغیر اس کی مدد کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اُسکے حاصل ہونے کی یہ نشانی ہے کہ خدا کی عظمت دِل میں بیٹھ جائے۔ خدا کی محبت دِل میں بیٹھ جائے اور دِل اُسی پر توکّل کرے اور اُسی کو پسند کرے اور ہر ایک چیز پر اُسی کو اختیار کرے اور اپنی زندگی کا مقصد اُسی کی یاد کو سمجھے۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ54) (بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 196-195)
پھر عبادت کے اصول کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے۔ ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اسی کی عظمت اور اسی کی ربوبیت کا خیال رکھے۔ ادعیہ ماثورہ اور دوسری دعائیں خدا سے بہت مانگے اور بہت توبہ و استغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تا کہ تزکیہ نفس ہو جاوے اور خدا سے پکا تعلق پیدا ہو جاوے اور اُسی کی محبت میں محو ہو جاوے۔ اور یہی ساری نماز کا خلاصہ ہے اور یہ سارا سورۃ فاتحہ میں ہی آ جاتا ہے دیکھو ایاک نعبد وایاک نستعین میں اپنی کمزوریوں کا اظہار کیا گیا ہے اور امداد کے لئے خدا تعالیٰ سے ہی درخواست کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ سے ہی مدد اور نصرت طلب کی گئی ہے اور پھر اسکے بعدنبیوں اور رسولوں کی راہ پر چلنے کی دعا مانگی گئی ہے اور ان انعامات کو حاصل کرنے کے لئے درخواست کی گئی ہے جو نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے اس دنیا پر ظاہر ہوئے ہیں اور جو انہیں کی اتباع اور انہیں کے طریق پر چلنے سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا مانگی گئی ہے کہ ان لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے تیرے رسولوں اور نبیوں کا انکار کیا اور شوخی اور شرارت سے کام لیا اور اسی جہان میں ہی ان پر غضب نازل ہوا۔ یا جنہوں نے دنیا کو ہی اپنا اصل مقصود سمجھ لیا اور راہِ راست کو چھوڑ دیا‘‘۔ (الحکم24اکتوبر1907جلدنمبر11شمارہ نمبر38صفحہ نمبر11کالم نمبر1)
گناہ سے نفرت ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اس سے بڑھ کر کوئی نعمت انسان کے لئے نہیں ہے کہ اُسے گناہ سے نفرت ہو اور خدا تعالیٰ خود اُسے معاصی سے بچا لیوے مگر یہ بات نری تدبیر یا نری دعا سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ دونوں سے مل کر حاصل ہو گی۔ جیسے کہ خدا تعالیٰ نے تعلیم دی ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) جس کے یہ معنے ہیں کہ جو کچھ قویٰ خدا تعالیٰ نے انسان کو عطا کئے ہیں اُن سے پورا کام لے کر پھر وہ انجام کو خدا کے سپرد کرتا ہے اور خدا تعالیٰ سے عرض کرتا ہے کہ جہاں تک تو نے مجھے توفیق عطا کی تھی اُس حد تک تو مَیں نے اس سے کام لے لیا۔ یہ اِیَّاکَ نَعْبُد کے معنے ہیں اور پھر اِیَّا کَ نَسْتَعِیْن کہہ کر خدا سے مدد چاہتا ہے کہ باقی مرحلوں کے لئے میں تجھ سے استمداد طلب کرتا ہوں۔ وہ بہت نادان ہے جو کہ خدا کے عطا کئے ہوئے قویٰ سے تو کام نہیں لیتا اور صرف دعا سے مدد چاہتا ہے ایسا شخص کامیابی کا منہ کس طرح دیکھے گا؟ (البدریکم مارچ 1904جلدنمبر3شمارہ نمبر9صفحہ نمبر3کالم نمبر1-2)
فرمایا جو شخص دعا اور کوشش سے مانگتا ہے وہی متقی ہے۔ (ملفوظات جلدنمبر3صفحہ487مطبوعہ ربوہ) اُسی کی دعائیں پھر قبول ہوتی ہیں۔ اگر وہ کوشش کے ساتھ دعا نہیں کرتا جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اگر وہ کوششوں کے ساتھ دعا بھی کرتاہے اور پھر اُسے کوئی لغزش ہوتی ہے تو خدا اُسے بچاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر3صفحہ487مطبوعہ ربوہ) (البدر 24؍دسمبر 1903ء صفحہ 384)
جب کوشش بھی ہو اور دعا بھی ہوتو پھر اگر کسی کمزوری کی وجہ سے لغزش ہوتی ہے، کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے یا ہونے لگتا ہے تو فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ اُسے بچا لیتا ہے۔ پس جب اپنی طرف سے پوری کوشش ہو اور اس کے ساتھ دعا ہو تو خدا تعالیٰ گناہوں سے نفرت بھی پیداکرتا ہے اور اُن کے بدنتائج سے بھی بچا لیتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ کی صفات اَلْحَیّ اور اَلْقَیُّوْم کا تعلق اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) سے جوڑتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے قرآن شریف نے دو نام پیش کئے ہیں الحیّ اور القیوم۔ الحیّ کے معنے ہیں خدا زندہ اور دوسروں کو زندگی عطا کرنے والا۔ اَلْقَیُّوم خود قائم ہے اور دوسروں کے قیام کا اصلی باعث۔ ہر ایک چیز کا ظاہری باطنی قیام اور زندگی انہیں دونوں صفات کے طفیل سے ہے۔ پس حَیّ کا لفظ چاہتا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے جیسا کہ اس کا مظہر سورۃ فاتحہ میں اِیَّاکَ نَعْبُدُہے اور اَلْقَیُّوم چاہتا ہے کہ اس سے سہارا طلب کیا جاوے۔ اس کو اِیَّا کَ نَسْتَعِیْن کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے۔ (ملفوظات جلدنمبر2صفحہ160مطبوعہ ربوہ) (ا لحکم۔ 17؍ما رچ 1902ء صفحہ 5)
پس چاہے دنیاوی معاملات اور ترقیات ہیں یا روحانی معاملات اور ترقیات ہیں اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن کر ہی انسان ان سے فیضیاب ہو سکتا ہے۔ دنیا و آخرت کی نعمتوں کا وارث بن سکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا ہے کہ رحمانیت پر شکر گزاری عبادت کی طرف راغب کرتی ہے اور رحیمیت کی طالب ہوتی ہے اور طلب ہی یہ ہے وہ استعانت ہے، مدد ہے۔ اور جیسا کہ مضمون سے ظاہر ہے، یہ دنیاوی معاملات پر بھی حاوی ہے اور روحانی معاملات پر بھی حاوی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے شروع میں بیان کیا تھا کہ نماز جو عبادت کا مغز ہے اُس کی اہمیت کے بارے میں وضاحت فرماتے ہوئے ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’اور سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ انسان التزام کے ساتھ پانچوں نمازیں اُن کے اول وقت پر ادا کرنے اور فرض اور سنتوں کی ادائیگی پر مداومت رکھتا ہو اور حضورِ قلب، ذوق، شوق اور عبادت کی برکات کے حصول میں پوری طرح کوشاں رہے کیونکہ نماز ایک ایسی سواری ہے جو بندے کو پروردگارِ عالم تک پہنچاتی ہے۔ اس کے ذریعے (انسان) ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں گھوڑوں کی پیٹھوں پر بیٹھ کر نہ پہنچ سکتا۔ اور نماز کا شکار، (ثمرات یعنی اُس کے جوپھل ہیں ) تیروں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا راز قلموں سے ظاہر نہیں ہو سکتا۔ (لکھنے سے اور پڑھنے سے نہیں مل سکتا)۔ اور جس شخص نے اس طریق کو لازم پکڑا اُس نے حق اور حقیقت کو پا لیا اور اُس محبوب تک پہنچ گیا جو غیب کے پردوں میں ہے اور شک و شبہ سے نجات حاصل کر لی۔ پس تو دیکھے گا کہ اُس کے دن روشن ہیں، اُس کی باتیں موتیوں کی مانند ہیں اور اس کا چہرہ چودھویں کا چاند ہے، اُس کا مقام صدر نشینی ہے۔ جو شخص نماز میں اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی سے جھکتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے لئے بادشاہوں کو جھکا دیتا ہے اور اُس مملوک بندے کو مالک بنا دیتا ہے‘‘۔ (اعجاز المسیح روحانی خزائن جلدنمبر18صفحہ165-167) (ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ201-202)
یہ بھی اعجاز المسیح کا عربی حوالہ ہے، اس کا ترجمہ ہے۔
نماز بیشک افضل عبادت تو ہے، بندے کو خدا کے قریب کرنے کا ذریعہ بھی ہے لیکن بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ خود ہی فرماتا ہے کہ اُن کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں۔ اس لئے کہ اُس کا حق ادا نہیں ہوتا۔ بعض لوگ خود کہتے ہیں کہ نماز میں مزہ نہیں آتا۔ وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی جو ہونی چاہئے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں لذت نہیں آتی مگر میں بتلاتا ہوں کہ بار بار پڑھے اور کثرت کے ساتھ پڑھے۔ تقویٰ کے ابتدائی درجے میں قبض شروع ہو جاتی ہے اُس وقت یہ کرنا چاہئے کہ خدا کے پاس ایاک نعبد وایاک نستعین کا تکرار کیا جائے۔ شیطان کشفی حالت میں چور یا قزاق دکھایا جاتا ہے اس کا استغاثہ جنابِ الٰہی میں کرے کہ یہ قزاق لگا ہوا ہے تیرے ہی دامن کو پنجہ مارتے ہیں جو اس استغاثہ میں لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں مشغول ہو جاتے ہیں دعاؤں میں شیطان کے خلاف۔ فرمایا جو اس استغاثہ میں لگ جاتے ہیں اور تھکتے ہی نہیں وہ ایک قوت اور طاقت پاتے ہیں جس سے شیطان ہلاک ہو جاتا ہے مگر اس قوت کے حصول اور استغاثے کے پیش کرنے کے واسطے ایک صدق اور سوز کی ضرورت ہے۔ (سچائی بھی ہو اور بڑی درد ہو اس دعا کو مانگنے کے لئے) اور یہ چور کے تصور سے پیدا ہو گا‘‘۔ (یہ درد کس طرح پیدا ہو گا؟ یہ سچائی سے آگے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا کس طرح پیدا ہو گا؟ جب یہ تصور کیا جائے کہ شیطان چور کی طرح میرے پیچھے پڑ گیا ہے۔ ) ’’اور یہ چور کے تصور سے پیدا ہو گا جو ساتھ لگا ہوا ہے۔ وہ گویا ننگا کرنا چاہتا ہے اور آدم والا ابتلاء لانا چاہتا ہے۔ اس تصور سے روح چلا کر بول اُٹھے گی۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن‘‘۔ (الحکم 17فروری1901جلدنمبر5شمارہ نمبر6صفحہ نمبر2کالم نمبر3)
جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے مثال دی کہ صحابہ یا جن لوگوں کو عرفان حاصل ہے وہ کس طرح نماز میں اسی لفظ کو بار بار دہراتے چلے جاتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا بھی حق ادا کریں اور اُس سے مدد چاہتے ہوئے شیطان سے بھی بچیں اور پھر مزید اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں۔ پھرآپ نے ایک جگہ فرمایا نمازوں میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن کا تکرار بہت کرو۔ اِیَّا کَ نَسْتَعِیْن خدا تعالیٰ کے فضل اور گمشدہ متاع کو واپس لاتا ہے جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی مثال دی تھی کہ یہ بار بار کا جوتکرار ہے یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ گمشدہ متاع کو واپس لاتا ہے۔ جو سامان انسان سے کھویا گیا ہے اُس کو اِیَّاکَ نَعْبُدُ واپس لے کے آتا ہے۔ (ملفوظات جلدنمبر2صفحہ469مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان فرمودہ ان شہ پاروں کو، جواہر پاروں کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے والا بنائے اور ہم خدا تعالیٰ کے اُن بندوں میں شامل ہو جائیں جن کو ہر آن اللہ تعالیٰ کی استعانت حاصل رہتی ہے اور جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھتا ہے۔ اور اس رمضان سے ہم بھر پور فائدہ اُٹھانے والے ہوں۔ جوبقیہ دن رہ گئے ہیں ان میں خاص طور پر دعاؤں پر بہت زور دیں۔