خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 2؍ ستمبر 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے سلسلہ بیعت میں آنے والوں کو جو نصائح فرمائیں ان میں بنیادی اور اہم نصیحت یہی ہے کہ بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرو۔ اپنے خدا سے تعلق جوڑو، اپنے اخلاق کے معیار اعلیٰ کرنے کی کوشش کرو۔ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’وہ جو اس سلسلے میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلن اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجے تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی اُن کے نزدیک نہ آ سکے۔ وہ پنج وقت نماز باجماعت کے پابند ہوں۔ وہ جھوٹ نہ بولیں وہ کسی کو زبان سے ایذاء نہ دیں۔ وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنے کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔ غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور ناکردنی اور نا گفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بے جا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں اور کوئی زہریلا خمیر اُن کے وجود میں نہ رہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ 220مطبوعہ ربوہ)

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جن لوگوں نے زمانہ کے امام کو مانا ہے یا مان رہے ہیں وہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ یہ پاک تبدیلیاں ہم میں پیدا ہوں اور قائم رہیں۔ ایک انقلاب ہے جو اُن لوگوں میں پیدا ہوا ہے اور ہو رہا ہے جنہوں نے بیعت کی حقیقت کو سمجھا۔ مَیں اس وقت اُن لوگوں کے چند واقعات پیش کروں گا جو اپنے اندر بیعت کے بعد ایک انقلاب پیدا کرنے والے بنے ہیں۔ دنیا کی مختلف قوموں، مختلف نسلوں کے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے میں ترقی کی ہے۔ نیکیوں کے بجا لانے اور اعلیٰ اخلاق میں ترقی کی ہے۔ اپنے نفس کی خواہشات کو مارنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پابند رہنے میں ترقی کی ہے۔ اپنی روحانیت کے بڑھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ کا خوف اور محبت دنیا کے خوفوں اور محبتوں پر حاوی ہے۔ یہ واقعات مَیں نے جلسہ کے دوسرے دن کی (جو رپورٹ پیش کی جاتی ہے اُس) رپورٹ میں سے لئے ہیں۔ یہ واقعات ہیں جو وقت کی کمی کی وجہ سے اُس وقت بیان نہیں ہوئے تھے اور عنوان بھی بیان نہیں ہوا تھا۔ عنوان یہ ہے کہ ’’احمدیت قبول کرنے کے بعدنو مبائعین میں غیر معمولی تبدیلی‘‘ تو جیسا کہ مَیں نے اُس وقت بھی کہا تھا کہ بعد میں بیان کروں گا تو آج مَیں یہ بیان کروں گا۔ یہ بڑا اہم عنوان ہے جو پرانے احمدیوں کو بھی ایمان میں بڑھانے اور اصلاح کا باعث بن جاتا ہے اور نئے بھی جب یہ سنتے ہیں تو مزید ایمان میں ترقی کرتے ہیں۔ امیر صاحب جماعت احمدیہ دہلی لکھتے ہیں کہ جو لوگ احمدی ہو رہے ہیں اُن میں نمایاں تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔ لکھتے ہیں کہ:

’’عثمان صاحب جو جلسہ سالانہ قادیان 2010ء کے موقع پر بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے، بیان کرتے ہیں کہ بیعت کرنے سے پہلے مَیں کبھی کبھار نماز پڑھتا تھا لیکن بیعت کے دن سے ہی نہ صرف پانچوں وقت کی نماز ادا کرتا ہوں بلکہ اکثر تہجد ادا کرنے کی توفیق ملتی ہے۔

خدا کرے کہ ان نومبائعین جن کے اکثر یہ واقعات ہیں اور لکھتے بھی رہتے ہیں ان کا بھی یہ سلسلہ مستقل مزاجی سے چلتا رہے اور جو پرانے احمدی ہیں ہم میں سے جو بعض دفعہ نمازوں میں سستیاں دکھا جاتے ہیں، اُن کو بھی احساس پیدا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے جو بہت اہم ذمہ واریاں ہیں جس کے بغیر ہمارا بیعت کرنا صرف نام کا بیعت کرنا ہے اور سب سے بڑی اور اہم چیز جوہے وہ نمازوں کی ادائیگی ہے، اس کی طرف توجہ ہے اور اس کے بعد پھر نوافل کی ادائیگی ہے۔ پس ہر ایک کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ نئے آنے والے کس طرح اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پھر ہمارے ایک مبلغ ہیں طارق محمود صاحب اپر ایسٹ ریجن گھانا کے، وہ لکھتے ہیں کہ:

’’گزشتہ دنوں گمباگا کے مقام پر نو احمدیوں کی ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس موقع پر ایک نو احمدی امام نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم لوگ مسلمان تھے۔ (یہ گھانا کا نارتھ کا علاقہ ہے، اکثریت اُن میں مسلمانوں کی ہے اور وہاں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعتیں ہو رہی ہیں۔ پھر اُس زمانے میں جب احمدیت گھانا میں پھیلی ہے تو سمندر کے ساتھ ساتھ کے علاقے میں پھیلی، ساؤتھ کے علاقے میں پھیلی جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ عیسائیت سیاحمدیت میں شامل ہوئے اور بڑی تیزی سے جماعت نے اُس علاقے میں ترقی کی۔ اور جو مسلمانوں کا علاقہ تھا وہاں مخالفت بہت زیادہ بڑھی ہوئی تھی سوائے چند ایک کے یا ایک جماعت قائم ہوئی جو وا (wa) کی جماعت تھی جہاں آج سے پچاس ساٹھ ستر سال پہلے، بلکہ شروع میں ہی کہنا چاہئے جب احمدیت وہاں گئی ہے تو احمدیت کا پودا لگا اور پھر جماعت بڑھتی گئی لیکن باقی علاقہ میں نارتھ میں مسلمان ہونے کی وجہ سے شدید مخالفت رہی ہے۔ اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند سالوں سے نارتھ میں بھی بڑی تیزی سے احمدیت کا نفوذ ہو رہا ہے)۔ تو لکھتے ہیں کہ ہمارے جو نو احمدی امام تھے (جو اُن کے ماننے والے ہیں وہ بھی اللہ کے فضل سے اُن کے سمیت جماعت میں شامل ہو رہے ہیں ) کہ ہم لوگ مسلمان تھے مگر اسلام کی حقیقی تعلیم سے بے خبر تھے۔ احمدیت نے ہمیں اسلام کی صحیح تعلیم سے روشناس کروایا۔ وہ امام صاحب کہتے ہیں کہ مَیں پہلے لوگوں کو تعویذ لکھ کر دیا کرتا تھا مگر احمدیت کی برکت سے یہ کام چھوڑ دیا ہے اور اب اسے غیر اسلامی سمجھتا ہوں۔ یہ جوتعویذ گنڈے کا کاروبار ہے یہ مسلمانوں میں عام رواج ہے۔ یہ دنیا میں ہر جگہ ہے۔ صرف ہندوستان پاکستان میں ہی نہیں ہے بلکہ عربوں میں بھی ہے اور دوسرے لوگوں میں بھی ہے۔ یہ بدعات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود  علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آ کر دور فرمایا اور فرمایا کہ جو اصل اور حقیقی اسلامی تعلیم ہے کہ خدا سے تعلق پیدا کرو، براہِ راست تعلق پیدا کرو اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کرو۔ اس پر تمہیں عمل کرنا چاہئے۔

پھرلوکوسا ریجن کے ایک گاؤں کے صدر جماعت سوسوگاجی صاحب بیان کرتے ہیں کہ پہلے مجھے بہت جلد غصہ آ جاتا تھا اور اس حالت میں بیوی اور بچوں کو مارنا شروع کر دیتا تھا اور گالی گلوچ میرا معمول تھا۔ جب سے میں نے بیعت کی ہے نمازوں کی طرف توجہ ہو گئی ہے اور مَیں محسوس کرتا ہوں کہ مجھ میں صبر اور برداشت پہلے سے بہت زیادہ ہو گئی ہے۔

تو یہ افریقہ کے دور دراز علاقے کے نئے احمدی ہونے والے کی پاک تبدیلی ہے جو اُس میں پیدا ہوئی اور اُس کی وجہ یہ کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوا، نمازوں کی طرف توجہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجا لانے اور اُس پر عمل کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہوئی۔ جرمنی کے دورے میں جومیرا گزشتہ دورہ ہوا ہے، اُس میں ایک جرمن نوجوان احمدی ہوئے، اُس نے مجھے یہی بات کہی (مَیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں ) کہ مَیں سخت قسم کا غصیلہ انسان تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر مجھے غصہ آ جاتا تھالیکن احمدی ہونے کے بعد ایک ایسی تبدیلی پیدا ہوئی ہے مجھے لگتا ہے کہ احمدیت نے مجھے صبر اور تحمل اور برداشت سکھائی ہے اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق پیدا ہوا اور جب اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوا تو اپنی طبیعت پر کنٹرول بھی پیدا ہوا اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہوئی۔

پھر ایک اور نو مبائع دوست نے کہا کہ ہم شراب پیتے تھے، سگریٹ نوشی کرتے تھے، احمدیت قبول کرنے سے ہم نے یہ دونوں چیزیں چھوڑ دی ہیں، بلکہ اگر نمازیں باقاعدہ ہوں، (وہ خود وہ لکھتے ہیں کہ اگر نمازیں باقاعدہ ہوں ) تو ان فضول چیزوں کی طرف توجہ ہی نہیں رہتی۔

تو یہ تعلق ہے جو اللہ تعالیٰ سے ان لوگوں نے قائم کیا کہ نمازوں کی طرف توجہ پیدا ہوئی، اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھا اور ان سب فضولیات سے، لغویات سے اور گناہوں سے توبہ کرنے والے بنے۔ پس حقیقی نمازیں ہیں جو ان برائیوں سے چھڑانے والی ہو جاتی ہیں اور ہونی چاہئیں۔ جماعت احمدیہ صرف پرانے قصے پیش نہیں کرتی بلکہ آج بھی، اس زمانہ میں بھی، بندے کا خدا سے تعلق جوڑنے کے بیشمار واقعات ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے سے، آپ کی تعلیم پر عمل کرنے سے ایک انقلاب کی صورت میں لوگوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ قرآنِ کریم کا جو یہ اعلان ہے، یہ دعویٰ ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ(العنکبوت: 46) کہ یقینا نماز بری اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے، آج بھی اپنی پوری آب و تاب سے پوری ہو رہی ہے اور اپنی سچائی کا اعلان کر رہی ہے۔ یہ اعلان کہ جو لوگ خالص ہو کر نمازیں پڑھتے ہیں، جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں، یہ نمازیں یقینا اُن کو برائیوں سے اور فحشاء سے اور ناپسندیدہ باتوں سے روکنے والی ہیں۔ بلکہ قرآنِ کریم کا ہر دعویٰ ہر پیشگوئی جس طرح اس زمانے میں صحیح ثابت ہو رہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے لوگ ہیں اُن کے ذریعہ سے پوری ہو رہی ہیں وہ غیروں کو چاہے وہ مسلمان ہوں نظر نہیں آ سکتیں۔ پھر ایک نومبائع کے تبلیغ کے شوق کے بارہ میں امیر صاحب غانا تحریر کرتے ہیں کہ جب ہم تبلیغ کے لئے اَپر ایسٹ گئے تو بمباگو (Bimbaago) نامی جگہ پر ایک ٹیچر نے احمدیت کی تعلیم سے متاثر ہو کر بیعت کر لی۔ اس کے اخلاص کا یہ عالم تھا کہ کچھ عرصے کے بعد بولگا (Bolga) (وہاں پر ایک شہر کا نام ہے، نارتھ میں بڑا شہر ہے)، بولگا میں خدام کا نیشنل اجتماع ہوا، (وہ جو ٹیچر تھا جس نے بیعت کی) اپنے ساتھ بیس اساتذہ کو لے کر اس اجتماع میں شامل ہوا اور سب لوگ پہلے ہی اُس کی تبلیغ سے احمدی ہو چکے تھے۔ تو دیکھیں کہ نہ صرف یہ کہ بیعت کی اور اپنی اصلاح کی بلکہ اُن لوگوں میں تبلیغ کا بھی ایک شوق ہے، ایک لگن ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتیں بڑھ رہی ہیں۔ پھر برکینا فاسو کے ریجن کوپیلا میں سانہ سلیمان ایک احمدی خادم اور اُن کے تین بھائی احمدیت کی آغوش میں ہیں، اِن کے والد جماعت کے شدید مخالف ہیں اور اکثر جماعت کی مخالفت میں اندھے ہو جاتے ہیں اور اپنے بچوں کو گالیاں دیتے ہیں اور گھر سے نکال دیتے ہیں۔ وہاں برکینا فاسو میں ہماری جماعت کے کئی ریڈیو سٹیشن بھی چل رہے ہیں اور جو دوسرے ریڈیو سٹیشن ہیں اُن میں بھی جماعتی پروگرام کچھ گھنٹوں کے لئے نشر ہوتے ہیں۔ تو ایک روز ان کے(ان تین بچوں کے والدنے) ریڈیو لگایا تو اسلام کی تعلیم پر ایک خوبصورت درس جاری تھا۔ اس درس کو سننے کے بعدان بچوں کے والد اتنے متأثر ہوئے کہ سب بچوں کو بلایا اور کہا کہ دیکھو تم جو کافروں کے ساتھ ملے ہوئے ہو، (یعنی احمدیوں کو کافر کہا) کہ باز آ جاؤ اور اس پروگرام کو سنو جو ریڈیو پر آ رہا ہے۔ کتنا خوبصورت پروگرام ہے، یہ ہیں اصل اللہ والوں کے الفاظ۔ والد صاحب کہنے لگے کہ یہ اصل اللہ والوں کے الفاظ ہیں جو دل میں گھر کر جاتے ہیں، دل میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ یہ پیغام سنو، یہ اللہ والوں کا پیغام ہے تم کیوں احمدیوں کی طرف جھکے ہوئے ہو اور اُن کی باتیں سنتے ہو اور اُن سے متاثر ہو کر اُن میں شامل ہو گئے ہو۔ پھر اِن کے والد صاحب کہتے ہیں سنو یہ ہے اسلام۔ تویہ والد صاحب اس بات کو بالکل نہیں جانتے تھے کہ یہ وقت جماعتی ریڈیو پر جماعتی پروگرام کا ہے۔ پروگرام گورنمنٹ کے ریڈیو پر آ رہا تھا۔ لیکن جب پروگرام کے آخر پر تعارفی نظم احمدیت زندہ باد، احمدیت زندہ باد گونجی تو یہ سننا تھا کہ فوراً موصوف نے ریڈیو بند کر دیا۔ اس پر بچوں نے اُن کو کہا کہ ابا جان! واقعی آپ صحیح کہتے تھے یہی اصل اللہ والے لوگ ہیں جن کے الفاظ دل میں گھر کر جاتے ہیں اس لئے ہم آج پہلے سے بھی زیادہ احمدیت کے ساتھ مضبوط رشتے میں جڑ گئے ہیں۔ پس ان لوگوں کے لئے کوئی راستہ ہی نہیں ہے سوائے اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیروں اور تعلیم کے مطابق اسلامی احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور وہ تفسیریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآنِ کریم کی بیان کی ہیں، اُن کو سنیں۔ کیونکہ آج دنیا میں اس سے بہتر کوئی اور علم دے ہی نہیں سکتا۔

پھر ہمارے ایک مبلغ ہیں ارشد محمود صاحب قرغزستان سے یہ بیان کرتے ہیں کہ جماعت قرغزستان کے نیشنل صدر سلامت صاحب کے ذریعہ Jildiz Abdullaeva صاحبہ (جو بھی نام ہے اِن کا) نام کی ایک لڑکی نے بیعت کی۔ وہ لڑکی قرغزستان میں موجود امریکن بیس میں کام کرتی ہے۔ وہاں اُس کے ساتھ کام کرنے والے ایک امریکن عیسائی نوجوان نے لڑکی کے نیک چال چلن اور باحیاء ہونے کی وجہ سے اس سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ لڑکی نے کہا کہ مَیں احمدی مسلمان ہوں اور اپنی جماعت سے پوچھ کر آپ کو کوئی جواب دوں گی۔ چنانچہ وہ مشن ہاؤس آئی اُسے بتایا گیا کہ ایک مسلمان لڑکی غیر مسلم سے شادی نہیں کر سکتی۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ چنانچہ اس غیرت مند اور نیک فطرت نومبائع بچی نے غیر مسلم امریکن کی شادی سے انکار کر دیا۔ اُس کی پیشکش ٹھکرا دی۔ اس عیسائی نوجوان نے جو اُس کا بڑا گرویدہ ہوا ہوا تھا، کہا کہ اگر مَیں اسلام قبول کر لوں تو کیا پھر ہم شادی کر سکتے ہیں؟ تو لڑکی نے جواب میں کہا کہ اگر اسلام قبول کرنا ہے تو سچا دین سمجھ کر قبول کرو۔ شادی کی خاطر قبول کرنا جو ہے یہ مجھے منظور نہیں ہے، یعنی اگر تم اس لئے قبول کر رہے ہو تو تب مَیں شادی نہیں کروں گی۔ ایک غریب ملک ہونے کی وجہ سے کرغزستان کی لڑکیاں غیر ملکیوں سے شادی کو ترجیح دیتی ہیں۔ لیکن اس بچی نے احمدی ہونے کی وجہ سے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ اس کیتھولک عیسائی نوجوان نے مسلسل چھ ماہ تک تحقیقات کرنے اور جماعتی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد یکم جولائی 2011ء کو اسلام قبول کر کے، بیعت کر کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شمولیت اختیار کی۔ اس تحقیق کے سفر کے دوران (جب تحقیق کر رہا تھا یہ نوجوان) اس نوجوان نے احمدیت مخالف ویب سائٹس کو بھی دیکھا، وہاں جا کر بھی مطالعہ کیا۔ اور آخر کار احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر ہی اس کا دل مطمئن ہوا اور اُس کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت کی توفیق عطا فرمائی۔ پس یہ پاک تبدیلی ہے اور یہی استقامت ہے جس کے لئے دعا کی جاتی ہے، دعا کی جانی چاہئے۔ یہ لڑکی جو ہے نئی احمدی ہوئی، غربت بھی تھی، اچھا رشتہ مل رہا تھا اُس کے لحاظ سے، دنیا داری کے لحاظ سے، لیکن اُس نے دین کی خاطرٹھکرا دیا۔ اس میں اُن لوگوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ جب بعض بچیاں جو ایسے غیروں میں شادی کو پسند کرتی ہیں جو صرف شادی کی خاطر بیعت کر کے سلسلے میں شامل ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ قاعدہ بنا ہوا ہے کہ جب تک بیعت میں ایک سال نہ گزر جائے اور لڑکے کا اخلاص نہ دیکھ لیا جائے ہماری لڑکیوں کو عموماً نئے نومبائعین سے شادی کی اجازت نہیں دی جاتی۔ تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ کہیں شادی کی خاطر تو بیعت نہیں کی؟

بعض کمزور ایمان والوں کو، کم علم کو (پہلے بھی جس کا مَیں گزشتہ دنوں میں دو د فعہ ذکرکرچکا ہوں )۔ بعض ویب سائٹس نے وسوسوں میں ڈالا ہوا ہے۔ گومتأثرہونے والے ایسے چند ایک لوگ ہیں لیکن لوگوں کے دلوں میں بہر حال وسوسے پیدا ہوتے ہیں، بے چینی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ امریکن نوجوان جو عیسائی تھا اس نے مخالف ویب سائٹس بھی دیکھیں پھر جماعت کی ویب سائٹ دیکھی اور موازنہ کیا، پھر دعا کی اور اس کے بعد اُس کے حقیقت سامنے آئی اور اُس نے احمدیت کے ذریعے سے اسلام قبول کر لیا۔ تو ہمارے نوجوانوں کو، بچوں کو خاص طورپر جو نئے نئے ابھی ٹین ایج (Teenage)میں ہوتے ہیں بعض دفعہ لوگ انہیں بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو دوستیوں کی وجہ سے اُن کو بھڑکایا جاتا ہے، اُن کو بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہئے اور پھر دنیاوی لحاظ سے بھی کسی کمپلیکس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی تعلیم دلائل سے بھری ہوئی ہے کیونکہ یہ حقیقی اسلام کی تعلیم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں بھی اپنے دعوے کی سچائی کو ثابت کیا ہے کسی بھی پہلو سے ثابت کیا ہے وہاں دلیل سے ثابت کیا ہے، اس لئے کوئی کمپلیکس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ضرورت ہے تو ہمیں دینی علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح انصر عباس بھٹی صاحب مبلغ بینن لکھتے ہیں کہ آلاڈا (Alada) ریجن کے گاؤں لوکولی (Lokoli) میں جلسہ نومبائعین رکھا اور اس میں دورانِ تقریر لوگوں کو ایک مسلمان کی ذمہ داریاں بتانی شروع کیں۔ جلسے کی اختتامی تقریب کے بعد ایک غیر احمدی مولوی وہاں آیا اور لوگوں کو بہکانے اور پھسلانے کی کوشش کی کہ اگر تم نے ان لوگوں کومان لیا ہے، یہ جولو گ احمدی ہیں تم سب نے آگ میں چلے جانا ہے۔ یہ سب لوگ جہنمی ہو جائیں گے۔ فوراً توبہ کا اعلان کرو اُس نے کہا کہ تمام ائمہ مسلمہ ان کو جہنمی قرار دیتے ہیں (مسلمان علماء جو ہیں، پڑھے لکھے لوگ جو ہیں، امام جو ہیں، اور مسلمانوں کے جولیڈر ہیں، وہ احمدیوں کو جہنمی قرار دیتے ہیں ) تو تم کس جہنم میں گرنے لگے ہو؟ یا گر گئے ہو۔ تم لوگ سب ان لوگوں کے ساتھ جہنمی ہو جاؤ گے۔ پھر کہنے لگا کہ پاکستان کے مسلمان ان کو پسندنہیں کرتے، وہاں بھی ان کو غیر مسلم قرار دیا گیاہے۔ اس پر ہمارے معلم صاحب نے سارے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ مولوی صاحب ہمارے مہمان ہیں۔ ہم ان کی عزت کرتے ہوئے ان سے صرف یہ پوچھتے ہیں کہ جو یہ کہہ رہے ہیں کیا خدا کے پاک کلام قرآن کریم سے یہ ثابت کر سکتے ہیں؟ کیا قرآنِ کریم اس کی تصدیق کرتا ہے۔ قرآن کو بنیاد بنا کر ہم بات کرتے ہیں۔ اگر قرآن ان کا ساتھ دیتا ہے تو ہم سب ان کی بات مان لیں گے۔ ہاں اگر قرآن ہمارے ساتھ رہتا ہے تو پھر ہم قرآن کو نہیں چھوڑ سکتے۔ تو یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ مولوی صاحب جھٹ بولے، کہنے لگے کہ قرآن کو کیوں لیں۔ بینن کے تمام ائمہ آپ کو غلط کہتے ہیں تو ہمیں قرآن کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ غلط ہیں بس کافی ہیں غلط ہیں کوئی دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ لوگ جہنمی ہیں (دیکھیں خود ہی فیصلہ کردیا۔ گویاخدا بن بیٹھے ہیں)۔ اس کو دیکھ کر ہمارے نومبائعین جو تھے وہ جوش میں آ گئے۔ وہاں اکثریت نومبائعین کی تھی کہ اگر تمہیں قرآن کی ضرورت نہیں ہے تو ہمیں تمہاری بھی ضرورت نہیں ہے اور یہاں سے نکل جاؤ اور اُسے مسجد سے نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔ ہمارے معلم صاحب نے بڑا اُن کو سمجھایا کہ یہ ہماری جگہ پر آئے ہیں ذرا تحمل سے، ذرا برداشت سے کام لو، اخلاق سے کام لو، یہ طریق اچھا نہیں ہے لیکن لوگوں میں اس بات کو سُن کر اتنا جوش پیدا ہوا کہ اُنہوں نے اُس مولوی کو مسجد سے نکال دیا۔

تو یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے ہی ملاؤں اور نام نہاد علماء کا طریق چلا آرہا ہے۔ پرانے واقعات بھی کئی ایسے ملتے ہیں کہ جب احمدی قرآن کے ذریعہ سے کوئی دلیل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، آیات کے ذریعہ سے، تو ہمیشہ یہ لوگ حدیث اور دوسری باتوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ حدیثیں جن کی اپنی مرضی سے interpretation کرتے ہیں یا دوسرے علماء کی باتیں۔ ایک صحابی کا پرانا واقعہ بھی اس طرح ہی ملتا ہے کہ انہوں نے جب بیعت کی ہے تو ایک بڑے عالم کو انہوں نے کہا کہ میں نے احمدی مولوی صاحب کو اس بات پر منا لیا ہے کہ وہ قرآنِ کریم سے وفاتِ مسیح ثابت کر دیں۔ وہ عالم صاحب کہنے لگے کہ میں ان لوگوں کو کھینچ کھینچ کر قرآن سے باہر لا رہا ہوں، دوسری طرف لے کر جا رہا ہوں، تم اُنہیں پھر اُسی طرف لے آئے ہو، قرآنِ کریم سے تو ہم حیاتِ مسیح ثابت ہی نہیں کرسکتے۔ تو یہ تو ان کے پرانے طریقے کار ہیں۔ (ماخوذ از تذکرۃ المہدی مولفہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ 155تا158مطبوعہ قادیان ایڈیشن1915)

انصر عباس صاحب مبلغ بینن لکھتے ہیں کہ آجاجی ذنبومے (Ndjadji Zimbomy) میں 12؍جولائی 2011ء نمازِ مغرب کے بعد تبلیغی پروگرام شروع ہوا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد اور آپ کے ذریعے سے اسلام کی ترقی بتائی گئی تو گاؤں والوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہم بھی اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں، وہیں جانا چاہتے ہیں جہاں اسلام کی ترقی ہو رہی ہے۔ جن کے ذریعہ سے اسلام کی ترقی ہو رہی ہے، چنانچہ اُس مجلس میں 167افرادنے بیعت کی توفیق پائی۔ تو واپس جانے سے قبل ہمارے مربی صاحب نے، معلم نے کہا کہ ہم پرسوں آئیں گے کیونکہ پرسوں جمعہ کا دن ہے اور آپ لوگوں کے ساتھ جمعہ پڑھیں گے۔ یہ لوگ جنہوں نے بیعت کی یہ لوگ پہلے مسلمان تھے اور ان کی حالت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ جب ہم نے کہا کہ پرسوں آئیں گے اور جمعہ پڑھیں گے، تواس بات پر گاؤں والوں نے بڑی حیرت سے پوچھا کہ جمعہ کیا ہوتا ہے؟ ہم نے توکبھی جمعہ نہیں دیکھا، نہ کبھی پڑھا ہے، پندرہ سال سے ہم مسلمان ہیں، آج تک کسی مولوی نے ہمارے کسی بڑے مذہبی لیڈر نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ جمعہ بھی پڑھا جاتا ہے۔ چنانچہ جمعہ والے دن وہاں جا کر جمعہ پڑھایا گیا۔ پھر ان لوگوں کا ریفریشر کورس بھی کیا۔ اُنہیں سمجھایا گیا کہ اصل اسلام کی تعلیم کیا ہے، جمعہ کیا ہے؟ نماز کیا ہے؟عیدین کیا ہیں؟باقی کیا عبادتیں ہیں، قرآنِ کریم کی کیا تعلیم ہے؟ بلکہ یہ لکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ والے گاؤں میں بھی لوگ احمدی ہوئے تھے، اُنہیں بھی یہاں جمعہ پڑھنے کا کہا گیا کہ اگلی دفعہ یہاں جمعہ آ کر پڑھیں تو یہ جواب ملا کہ ہمارے سالہا سال سے ان گاؤں والوں سے اختلافات چل رہے ہیں۔ (پہلے گاؤں میں جہاں 167 آدمی بیعت کر کے شامل ہوئے، اُن سے ہمارے اختلافات چل رہے ہیں) نہ ہم کبھی وہاں گئے ہیں اور نہ ہی یہاں اُن کا آنا ہم پسند کرتے ہیں۔ دونوں گاؤں کے بڑے پرانے اختلافات تھے۔ پھر دونوں گاؤں والوں کو جو احمدی ہوئے تھے الگ الگ کر کر سمجھایا گیا کہ ہم احمدی ہو گئے ہیں، احمدی ہونے سے ہمارے اختلافات ختم ہو گئے ہیں، آج ہم دوبارہ ایک ہو گئے ہیں اور ہمیں ایک ہونا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو ہر ایک کوجمع کرنے آئے ہیں، اکٹھا کرنے آئے ہیں، ایک بنانے کے لئے آئے تھے تا کہ ہم مسلمان ایک ہو کر اسلام کی ترقی کے لئے آگے بڑھیں اور اس لئے بہر حال ہمیں اکٹھا ہونا چاہئے اور مل کے جمعہ پڑھنا چاہئے۔ چنانچہ دونوں پہ اس کا اثر ہوااورجو مدتوں کے بچھڑے ہوئے تھے آپس میں لڑائیاں تھیں ہو سکتا ہے قبائلی لڑائیاں ہوں جمعہ کے ذریعہ پھر مل گئے اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جماعت کے ذریعہ سے یوم الجمعہ کا مضمون بھی ایک نئے طریقے سے پورا ہوا۔ پندرہ سال کے بعد ان لوگوں نے جمعہ پڑھا اور پھر اس جمعہ کی برکت سے دونوں گاؤں کے آپس کی رنجشیں بھی ختم ہو گئیں۔ بس جب یہ باتیں ہوتی ہیں تو پھرصرف رنجشیں ختم نہیں ہوتیں، پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کا ایک مضمون شروع ہوتا ہے۔ پھر ایک دوسرے کی خاطر رحم کے جذبات اُبھرتے ہیں، قربانی کے جذبات اُبھرتے ہیں اور یہی ایک مومن کی شان ہے اور یہی وہ پاک تبدیلیاں ہیں جن کو پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے۔

پھر امیر صاحب جماعت احمدیہ دہلی تحریر کرتے ہیں کہ محمد مرسلین صاحب 2008ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ بیعت کرنے کے تین دن بعد خواب میں دیکھا کہ آپ کسی پروگرام میں گئے ہیں اور وہاں ایک پرانی سی عمارت کے ایک کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ اس کمرے میں دو لوگ اور بھی تھے جو اندھیرا ہونے کی وجہ سے پہچانے نہ جا سکے۔ یہ لکھتے ہیں امیر صاحب، کہ مرسلین صاحب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے ہیں اور جب یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ اور بھی ہیں توآنحضور صلی اللہ علیہ وسلمؐ کو چھُو چھُو کر دیکھتے ہیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی چھت کی طرف اُٹھائی اور یوں لگا کہ پورا آسمان پھٹتا چلا گیا۔ اور یہ لکھتے ہیں کہ مجھے بہت خوبصورت اور دلکش نظارہ جس میں پھولوں کے باغات وغیرہ تھے نظر آنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انگلی گھمائی اور یہ نظارہ بند ہو گیا۔ آپ کہتے ہیں کہ مَیں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں ممبئی جا رہا ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ پنجاب کیوں نہیں جاتے؟ اس کے بعد کہتے ہیں میری آنکھ کھل گئی۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے یہ واقعہ قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کو جو اُن کے واقف تھے سنایا، اُنہوں نے کہا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے اس لئے ہم قادیان چلتے ہیں۔ تو قائد صاحب کے ساتھ یہ پہلی دفعہ قادیان گئے۔ وہاں دارالمسیح کی زیارت کی، لکھتے ہیں کہ جب مَیں بیت الریاضت میں کیا گیا تو مَیں نے اُس کمرے کو ویسا ہی پایا جیسا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا تھا۔ اس سے میرے ایمان کو بہت تقویت ملی اور دل کو بہت سکون ملا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت میں بھی شامل ہوئے اور ایمان میں بھی ترقی کر رہے ہیں۔ ان نئے شامل ہونے والوں کو ایمان میں ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ دعاؤں کی قبولیت کے نشانات بھی دکھاتا ہے۔ اس کے چند واقعے پیش کرتا ہوں جو ان دور دراز رہنے والے احمدیوں کے لئے بھی ازدیادِ ایمان کا باعث بنے ہیں اور ہمارے لئے بھی یقینا بنیں گے۔

امیر صاحب برکینا فاسو بیان کرتے ہیں کہ سیے تِینگا) (Seytenga کے رہائشی اور ڈوری ریجن کے ریجنل زعیم انصاراللہ الحاج بُنتی(Bunty) چند ماہ قبل شدید بیمار ہو گئے اور جب اُنہیں ہسپتال لایا گیا تو مقامی ڈاکٹر نے ان کے گھر والوں کو بلا لیا اور کہا کہ اس مریض کا علاج بے سود ہے، یہ اب چند لمحوں کا مہمان ہے، اس لئے اُسے گھر لے جاؤ۔ اس پر ان کو واگا ڈوگو (شہر کا نام ہے) جو وہاں کا کیپیٹل (Capital) ہے وہاں لایا گیا۔ یہاں کے سرکاری ہسپتال میں بھیجا گیا تو وہاں بھی ڈاکٹر نے علاج کرنے سے انکار کر دیا کہ مریض بس چند گھنٹوں کا مہمان ہے جس سے سب گھر والے مایوس ہو گئے۔ اس پر امیر صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے اُن سے کہا کہ یہ بات ناممکن ہے۔ ڈاکٹر صرف ظاہری کیفیت پر نظر رکھتے ہیں۔ زندگی تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ بھی خلیفۂ وقت کو خط لکھیں اور اسی روز انہوں نے خط لکھا اور مجھے بھی یہاں بھجوایا۔ اور پھر خود بھی سارے ان دعاؤں میں لگ گئے۔ تو کہتے ہیں کہ اس خط کے لکھنے کے بعد اور دعاؤں میں شدت پیداکرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ صحت واپس آنا شروع ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے الحاج بُنتی صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحت یاب ہو گئے اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارے کام کر رہے ہیں۔ سب میٹنگز میں شامل ہوتے ہیں اور انصار اللہ کا کام بڑی مستعدی سے کررہے ہیں۔ اس کے بالمقابل ایک اور گاؤں چَلّے (Challe) کے ایک رہائشی کا نام بھی الحاج پنتی ہی تھا۔ وہ جماعت کا شدید مخالف تھا اور ہر وقت جماعت کے خلاف لوگوں کو اُکساتا رہتا تھا لیکن صحت کے لحاظ سے بہت اچھا تھا اور کوئی بیماری نہ تھی۔ ایک روز گاؤں میں لوگ احمدیہ ریڈیو پر جاری تبلیغ سُن رہے تھے کہ ان صاحب کا وہاں سے گزر ہوا۔ بہت شدید غصے میں آ کر اس نے جماعت کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور کہا کہ یہ لوگ کافر ہیں ان کی تبلیغ نہ سنو۔ لوگوں نے کہا کہ آپ ان سے راضی نہیں تو نہ سہی مگر گالیاں تو نہ دیں، ان کی ہتک کرنا چھوڑ دیں۔ مگر اس نے کہا کہ وہ ایسا ہی کرتا رہے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا۔ تو اُس رات مکمل صحت کی حالت میں وہ شخص سویا ہے تو اگلے دن اپنے بستر پر مردہ پایا گیا۔ رات کو نامعلوم کس وقت اُس کو کسی قسم کی بیماری کا حملہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اُس کو وفات دے دی۔

پورتونووو (Porto Novo) ریجن بینن کے معلم رائمی زکریا صاحب بتاتے ہیں کہ حفیصو صاحب نامی احمدی کا بچہ گم ہو گیا۔ اس پریشانی میں انہوں نے سارے علاقہ کی خاک چھان ماری۔ ریڈیو پر کئی دفعہ اعلانات بھی کرواتے رہے مگر بچہ نہ ملا۔ پریشانی اور بے بسی کی حالت میں اُن کا فون آیا کہ میرا نہیں خیال کہ بچہ ملے۔ معلم زکریا صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے اُنہیں کہا کہ مایوسی گناہ ہے۔ ہم تو ایسے امام کو ماننے والے ہیں جس کا دعویٰ ہے کہ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اس نسخے کو آزما کر دیکھو اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ تم بھی دعا کرو مَیں بھی دعا کرتا ہوں، ہم سب مل کے دعا کرتے ہیں تو بچے کے والد حفیصو صاحب کہتے ہیں کہ مَیں سجدے میں پڑ گیا، معلم صاحب کی یہ بات سننے کے بعد اور واسطے دینے لگ گیا کہ اے اللہ! اس علاقہ میں باقی تو کسی نے تیرے امام کو قبول نہیں کیا صرف میں ہی ہوں اکیلا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کیاہے اور تیرا امام ضرور سچا ہے۔ مَیں تجھے اس کی سچائی کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے میرا بچہ دے دے۔ کہتے ہیں کہ مَیں کافی دیر دعا میں روتا رہا اور اپنے ربّ سے بچے کی واپسی کی دعا کرتا رہا۔ دعا ختم کرنے کے بعد مَیں اُس راستے سے گھر لوٹ رہا تھا کہ جہاں سے بچہ گم ہوا تھا، ابھی راستے میں ہی تھا کہ اچانک جنگل سے میرا بیٹا مجھے نظر آ گیا۔ تو کہتے ہیں کہ میرے لئے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی صداقت کا زندہ معجزہ تھا جو خدا تعالیٰ نے مجھے دکھایا۔

پھر امیر صاحب نائیجر بیان کرتے ہیں کہ یہاں ایک دوست محمد ثالث بینک میں ملازم ہیں۔ احمدیہ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آتے تھے۔ (مسلمان تھے، نماز پڑھنے آتے تھے، ، ابھی تک بیعت نہیں کی تھی)۔ ایک روز انہوں نے بیعت کر لی۔ اُن کے بینک کے افسران اور ساتھی اُنہیں تنگ کرنے لگ گئے کہ جماعت نے اُنہیں کوئی پیسے دئیے ہیں جس کی وجہ سے وہ احمدی ہوئے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہیں اس بات کا بڑا دُکھ ہوا کہ یہ لوگ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں کہ میں پیسے لے کر احمدی ہوا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُس رات مَیں نے جماعت کی سچائی کے حوالے سے بہت دعا کی کہ اے اللہ! تُو خود میری رہنمائی فرما۔ بظاہر تو یہ جماعت اسلام کی خدمت میں سب سے آگے ہے مگر اندر کی بات تو مجھے سمجھا دے۔ مَیں تو ظاہری بات کو دیکھ کر بات کر رہا ہوں۔ تو وہ کہتے ہیں کہ رات مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا اجتماع ہے، جہاں تک نظر جاتی ہے لوگ ہی لوگ نظر آ رہے ہیں اور سب سے سفید کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سٹیج پر اُنہوں نے مجھے دیکھا (لکھ رہے ہیں، اپنے امیر صاحب کو) خلیفہ المسیح الخامس کو دیکھا، سٹیج پر میں کھڑا ہوں اور کہتے ہیں آپ نے بھی سفید کپڑے زیب تن کئے ہوئے ہیں اور اونچی آواز میں آپ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ دہرا رہے ہیں اور لوگ بھی آپ کے ساتھ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ دہرا رہے ہیں اور ایک عجیب سرور کی سی کیفیت ہے۔ محمد صالح صاحب کہتے ہیں کہ ایسی حالت میں میری آنکھ کھل گئی اور میری زبان پر لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ جاری تھا۔ اس پر یہ بات میرے دل میں میخ کی طرح گڑھ گئی کہ اس دور میں لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو عطا فرمائی ہوئی ہے۔ اس خواب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے مجھے تسلی دلائی کہ میرا جماعت میں شامل ہونے کا فیصلہ درست ہے لہٰذا اب مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں ایمان میں مزید پختہ ہو گیا ہوں۔ تو یہ تھے چند واقعات جو مَیں نے بیان کئے۔ کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ بیعت کر کے ایمان میں پختگی حاصل کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی اُن کو بعض نظارے ایسے دکھاتا ہے جن سے مزید ایمان میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منھاجِ نبوت کا اور کس نے پایا؟ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا۔ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور بدزبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اُٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اُٹھا۔ وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں۔ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسؤوں سے تر کرتے ہیں۔ بہتیرے ان میں سے ایسے ہیں جنہیں سچی خوابیں آتی ہیں۔ بعضوں کو الہام ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یاد رکھتے اور دلوں کے نرم اور سچے تقویٰ پر قدم مار رہے ہیں۔ وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن اُن کے دلوں کو پاک کر رہا ہے۔ اور اُن کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور آسمانی نشانوں سے اُن کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ جیسا کہ صحابہ کو کھینچتا تھا۔ غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو آخَرِیْنَ مِنْہُمْ (الجمعۃ: 4) کے لفظ سے مفہوم ہو رہی ہیں اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا‘‘۔ (ایام الصلح روحانی خزائن جلدنمبر14صفحہ306-307)

اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ایمان و ایقان میں ترقی و مضبوطی پیدا فرمائے۔ ہمارا خالص تعلق اپنے پیدا کرنے والے خدا سے بڑھتا چلا جائے اور کبھی ہمارے ایمان میں لغزش نہ آئے۔

آج جمعہ کے بعد ایک جنازہ حاضر میں پڑھاؤں گا جس کی تدفین آج ہی ہونی تھی اس لئے جمعہ کے بعد پڑھانا ضروری ہے۔ یہ محترمہ خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم عبدالمنان دین صاحب مرحوم کا جنازہ ہے۔ اس کا شاید پہلے اعلان بھی ہو چکا ہے27؍ اگست کی صبح وفات پائی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحومہ مکرم بابو قاسم دین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بھتیجی اور بابو عزیز دین صاحب کی بہو تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے درجات بلند فرمائے، لواحقین کو صبر کی توفیق عطا فرمائے۔ جمعہ کے بعد ان کا جنازہ ہو گا انشاء اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں