خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 9؍ ستمبر 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

سچائی ایک ایسا وصف ہے کہ جس کے اپنانے کے بارے میں صرف مذہب ہی نے نہیں کہا بلکہ ہر شخص جس کا کوئی مذہب ہے یا نہیں اس اعلیٰ خُلق کے اپنانے کا پُر زور اظہار کرتا ہے۔ لیکن اگر ہم جائزہ لیں تو اس اظہار کے باوجود سچائی کے اظہار کا حق نہیں ادا کیا جاتا۔ جس کو جب موقع ملتا ہے اپنے مفاد کے حصول کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک میں سچائی کا خُلق اپنانے کا جس شدت سے اظہار کیا جاتا ہے اُسی شدت سے وقت آنے پر اُس کی نفی کی جاتی ہے۔ اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے روزمرہ کے معمولی معاملات میں بھی جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اور وہ حقیقی سچائی جسے قولِ سدید کہتے ہیں اُس کی نفی ہو رہی ہوتی ہے۔ کاروباری معاملات ہیں تو دنیا کا ایک بہت بڑا طبقہ اِن میں جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ معاشرتی تعلقات ہیں تو ان میں بسا اوقات جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ملکی سیاست ہے تو اس میں سچ کا خون کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سیاست اور تعلقات ہیں تو اِس کی بنیاد بھی جھوٹ پر ہے۔ اکثر دفعہ تو یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ حتی کہ مذہب جو خالصتاً سچائی کو لانے والا اور پھیلانے والا ہے اس میں بھی مفاد پرستوں نے جھوٹ کو شامل کر کے سچ کی دھجیاں بکھیر دی ہیں یا کوشش کرتے ہیں کہ سچ کو اس طرح چھپا دیں کہ سچ کا نشان نظر نہ آئے۔ بعض لوگ تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ جو ہے وہ جھوٹ بن جائے اور جھوٹ جو ہے وہ سچ بن جائے۔ یہ بے خوفی اور بیباکی سچائی کو ہر سطح پر پامال کرنے کی اس لئے پیدا ہو گئی ہے کہ خدا تعالیٰ پر یقین نہیں رہا۔ اگر خدا تعالیٰ پر یقین ہو تو ہر سطح پر جھوٹ کا سہارا اس طرح نہ لیا جائے جس طرح اس زمانے میں لیا جاتا ہے یا اکثر لیا جاتا ہے۔ ذاتی زندگی میں گھروں میں ناچاقیاں اس لئے بڑھتی ہیں کہ سچائی سے کام نہیں لیا جاتا اور اس سچائی سے کام نہ لینے کی وجہ سے میاں بیوی پر اعتمادنہیں کرتا اور بیوی میاں پر اعتمادنہیں کرتی اور جب بچے دیکھتے ہیں کہ ماں باپ بہت سے موقعوں پر جھوٹ بول رہے ہیں تو بچوں میں بھی جھوٹ بولنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ نئی نسل جب بعض غلط کاموں میں پڑ جاتی ہے وہ اس لئے کہ گھروں کے جھوٹ اُنہیں برائیوں پر اُبھارتے ہیں۔ یوں لا شعوری طور پر یا شعوری طور پر اگلی نسلوں میں بجائے سچائی کی قدریں پیدا کرنے کے اُسے بعض گھر زائل کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کو برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر باقی معاشرے سے تعلقات کا بھی یہی حال ہے۔ اسی طرح کاروباری جھوٹ ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا بدقسمتی سے مسلمان ممالک میں یہ زیادہ عام بیماری ہے۔ سچائی اور صداقت کا جتنا شور مچایا جاتا ہے اتنا ہی عملاً اس کی نفی کی جاتی ہے۔ اسی طرح ملکی سیاست ہے اس میں عموماً جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن مسلمان کہلانے والے ممالک جن کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچائی پر قائم رہنے اور جھوٹ سے نفرت کرنے کی تلقین کی ہے، بڑی شدت سے ہدایت دی ہے وہ اُتنا ہی جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں کراچی اور سندھ کے حالات پر جب ایک سیاستدان نے اپنے لوگوں سے ناراض ہو کر اندر کا تمام کچا چٹھابیان کیا تو بعض سیاستدانوں اور تبصرہ نگاروں نے یہ تبصرہ کیا کہ سچائی کا اظہار سیاستدان کا کام نہیں ہے۔ سیاستدان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ کبھی سچ بولے۔ یہ اگر سچ بول رہا ہے تو یہ سیاستدان نہیں ہے بلکہ پاگل ہو گیا ہے۔ اس کا انکار نہیں کیا کہ جو باتیں ہیں وہ غلط ہیں، تبصرہ ہو رہا ہے تو اس بات پر کہ یہ سچ بول رہا ہے اس لئے پاگل ہے۔ تبصرے والے کہتے ہیں کہ اس نے اپنی سیاسی زندگی اور دنیاوی منفعت کو داؤ پر لگا دیا ہے، جو صرف ایک پاگل ہی کر سکتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک یہ سچائی اور صداقت زوال کا ذریعہ بنے گی۔ یہ تو ان کا حال ہے۔ پس ان کی نظر میں سیاست اور حکومت خدا کے قول پر حاوی ہے۔ اللہ اور اُس کا رسول کہتے ہیں جھوٹ نہ بولو۔ لیکن یہ کہتے ہیں کہ سیاست اور حکومت کے لئے جھوٹ بولو، اگر نہیں بولو گے تو تم غلط کرو گے۔ اس کے باوجود یہ لوگ پکے مسلمان ہیں اور احمدی غیر مسلم ہیں جو سچائی کی خاطر اپنے کاروباروں، منفعتوں اور جانوں کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں اس لئے کہ وہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں جس نے کہا ہے کہ جھوٹ شرک ہے اور اُس نبی کو ماننے والے ہیں جس پر آخری شرعی کتاب قرآنِ کریم نازل ہوئی اور جن کا فرمان ہے کہ تمام برائیوں کی اور گناہوں کی جڑ جھوٹ ہے۔

پھر بین الاقوامی سیاست ہے تو اس میں مسلمان حکومتیں ہوں یا مغربی حکومتیں ہوں اِن سب کا ایک حال ہے۔ اِن ملکوں کو جو آپس کے تعلقات میں عموماً سچائی کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ ان میں سچ ہے۔ جب دوسرے ممالک کا سوال پیدا ہو، مسلمان ممالک کا سوال پیدا ہو، دوسری حکومتوں کا سوال پیدا ہو تو ان کی سچائی کے نظریے بالکل بدل جاتے ہیں۔ ان کا حال تو پہلے عراق پر جو حملے انہوں نے کئے اُسی سے پتہ چل گیا۔ جب صدام حسین کو اُتارنے کے لئے عراق کو تباہ و برباد کر دیا، اُس کے وسائل پر قبضہ کر لیا تو پھر کہہ دیا کہ ہمیں غلطی لگی تھی۔ جتنا ظلم اور خوفناک منصوبہ بندی اور خطر ناک ہتھیاروں سے دنیا کو تباہ کرنے اور ہمسایوں کو زیرِ نگیں کرنے کی ہمیں اطلاعیں ملی تھیں کہ صدام حسین کرنا چاہتا ہے، اُتنا کچھ تو وہاں سے نہیں نکلا۔ پھر لیبیا کو نشانہ بنایا گیا تو اب کہتے ہیں کہ اصل میں غلط اطلاعیں تھیں۔ اتنا ظلم وہاں عوام پر نہیں ہو رہا تھا۔ تو یہ سب باتیں مغربی پریس ہی اب دے رہا ہے۔ انہی کے تبصرے آ رہے ہیں۔ پس پہلے جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے حملے کئے جاتے ہیں۔ پھر سچا بننے کے لئے اپنے میڈیا کے ذریعے سے ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ ہمیں غلطی لگی۔ جتنا کچھ ہمیں بتایا گیا تھا اُتنا کچھ ثابت نہیں ہوا۔ اصل میں تو یہ سچائی بھی جھوٹ چھپانے کے لئے ہے۔ مقصد وسائل پر قبضہ کرنا تھا جو ہو گیا لیکن اس کا موقع بھی مسلمان ہی مہیا کرتے ہیں۔ اگر سینکڑوں بلین ڈالرز کی ملک کی دولت عوام پر خرچ کی جائے تو نہ کبھی ملک کے اندر ایسے فتنے فساد اُٹھیں، نہ ان لوگوں کو دخل اندازی کی جرأت ہو۔

بہر حال خلاصہ کلام یہ کہ بین الاقوامی جھوٹ اور صداقت کو نہ صرف چھپانے بلکہ اس کی دھجیاں بکھیرنے میں عموماً تمام دنیا کی حکومتیں ہی اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بچ جائیں گے۔ اگر اس دنیا میں بچ بھی جائیں تو ایک آئندہ زمانہ بھی آنا ہے، ایک آئندہ زندگی بھی ملنی ہے، ایک آئندہ دنیا بھی ہے جس میں تمام حساب کتاب ہونے ہیں۔ پھر ان دنیا داروں پر ہی بس نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کے نام پر مذہب کے نام نہاد علمبردار سچائی کو رَد کرتے ہیں اور جھوٹ کو فروغ دیتے ہیں۔ اس میں اسلام دشمن طاقتیں بھی ہیں جو اسلام کے خلاف ہیں اور اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے مخالفین بھی ہیں یعنی مسلمان بھی شامل ہیں جو اسلام دشمن طاقتوں کا ہی کردار ادا کر رہے ہیں۔ سچائی کو جانتے ہیں لیکن اپنے مفادات اور منبر کی خاطر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ عوام الناس کے ذہنوں کو بھی زہر آلود کرنے میں ایک دوسرے سے بڑھ رہے ہیں۔ کئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور جماعت کی کتب اور لٹریچر پڑھ کر درس دیتے ہیں، اُسی سے تقریریں تیار کرتے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ ان کے پاس مخالفینِ اسلام کا منہ بند کرنے کے لئے کوئی دلائل نہیں ہیں، کوئی موادنہیں ہے، لٹریچر نہیں ہے۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں جنہوں نے اسلام کا دفاع ایسے پُر زور اور پُر شوکت رنگ میں کیا ہے اور ایسے دلائل کے ساتھ کیا ہے کہ جس کو کوئی رَدنہیں کرسکتا۔ لیکن عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ یہ شخص جھوٹا ہے۔ پہلے بھی میں ایک دفعہ ذکر کر چکا ہوں اور ایک دو دفعہ نہیں، مختلف لوگوں کے بارے میں، علماء کے بارے میں جو ٹی وی پر آ کربڑے درس بھی دیتے ہیں اور تقریریں کرتے ہیں کسی نے بتایا ہے کہ خود اُنہوں نے اُن کے گھروں میں تفسیرِ کبیر کی اور کتب کی جلدیں دیکھی ہیں اور اس لئے نہیں کہ صرف اعتراض تلاش کریں۔ وہ تو ظاہر کرنے کے لئے کرتے ہی ہیں، لیکن خود انہوں نے بتایا کہ اس سے فائدہ اُٹھا کر یہ اپنے درسوں وغیرہ میں دلائل استعمال کرتے ہیں۔ تو ان لوگوں کو اسلام کی برتری ثابت ہونے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس لئے عوام الناس کو بھی سچائی کے راستے دیکھنے کے طریق کبھی نہیں بتائیں گے کہ کہیں اس سے ان کے منبر و محراب ہاتھ سے نہ نکل جائیں۔ اُس سے ہاتھ نہ دھونے پڑ جائیں۔ لیکن بہر حال یہ ان کی کوششیں ہیں اور ہر زمانے میں جب بھی اللہ تعالیٰ اپنے کسی فرستادے کو بھیجتا ہے تو مخالفین یہی کوششیں کرتے ہیں لیکن ایک اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی چلتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ سچائی کو ہی اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے غالب کرنا ہے اور اسی لئے ہمیشہ خدا تعالیٰ دنیا میں انبیاء بھیجتا آیا ہے کہ جب جھوٹ اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے جب فساد اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے، سچائی کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو اُس وقت یہ اللہ تعالیٰ کے فرستادے اور انبیاء آتے ہیں جو سچائی کو پھر دنیا میں قائم کرتے ہیں، جو مخالفت کے باوجود سچائی کا پرچار کرتے ہیں اور آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اُن کے راستے میں دشمن لاکھ روڑے اٹکائے مگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب ہو کر رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہمیشہ ان انبیاء کے ساتھ رہتی ہے، اُس کے فرستادوں کے ساتھ رہتی ہے، اُن کی مدد کرتی رہتی ہے۔ یہی اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ اس کو پورا فرماتا چلا جا رہا ہے۔ یہ جلسے کرتے ہیں جلوس نکالتے ہیں ظلم کرتے ہیں۔ اب سات ستمبر کے حوالے سے پاکستان میں جلسے ہوئے، ربوہ میں بھی جلسہ ہوا۔ بڑے بڑے علماء، جو ان کے چوٹی کے علماء آتے ہیں، آئے اور جلسوں کا نام رکھا ہوتا ہے ’تاجدارِ ختمِ نبوت کانفرنس‘، اور وہاں سوائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دینے کے جماعت کے خلاف یاوہ گوئی کرنے کے اور کچھ نہیں ہو رہا ہوتا۔ ساری رات اسی طرح کی بیہودہ گوئی کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر اللہ اور رسول کے نام پر۔ تو بہرحال یہ تو ان کا حال ہے لیکن اُس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی تقدیر چل رہی ہے اور جماعت کے قدم آگے سے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اگر اپنے وعدوں کو پورا نہ کرے اور اُس کے بھیجے ہوئے غالب نہ آئیں تو پھر اللہ تعالیٰ تو نعوذ باللہ اپنے وعدوں میں غلط ثابت ہو اور دین پر سے انبیاء پر سے خدا تعالیٰ پر سے دنیا کا ایمان اُٹھ جائے۔ پس اللہ تعالیٰ تو اس ایمان کو قائم رکھنے کے لئے نیک فطرتوں کے ایمانوں کو بڑھانے کے لئے ایسے نظارے دکھاتا ہے جو ہر لمحہ اُن کے ایمان میں تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ کچھ پرانے قصوں میں سچائی کے واقعات بیان کر کے اپنے ماننے والوں کے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں، کچھ تازہ واقعات بیان کر کے اپنے دین کے بانی اور ان کے سچے ہونے کے واقعات سے متاثر کرتے ہیں اور اُس کے ماننے والے متاثر ہوتے ہیں، کچھ کو اللہ تعالیٰ اپنے بھیجے ہوئے کی سچائی کے بارے میں اطلاع دے کر رہنمائی فرماتا ہے۔ بہر حال مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی سچائی اور صدق ہی اُسے اپنے وقت میں، اپنی زندگی میں یعنی اُس نبی کی زندگی میں اُس فرستادے کی زندگی میں لوگوں کی توجہ کھینچنے کا ذریعہ بناتا ہے اور کچھ بعد میں دین کی ترقیات دیکھ کر، ماننے والوں کے عمل دیکھ کر، اُس جماعت کو دیکھ کر جو اُس نبی کے ساتھ جُڑی ہوتی ہے، خدا کی طرف سے رہنمائی پاکر ہدایت پاتے ہیں۔ بہر حال جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر غور کرتے ہیں تو آپ کو لوگ، اُس زمانے کے کفار بھی صدوق و امین کے نام سے ہی جانتے تھے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، حدیث بنیان الکعبۃ… صفحہ 155، ما دار بین رسول اللہﷺ وبین رؤساء قریش صفحہ 224 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی ہی تھی کہ جب آپ نے اپنے عزیزوں اور مکّہ کے سرداروں کو جمع کر کے کہا کہ اگر مَیں تمہیں کہوں کہ اس ٹیلے کے پیچھے ایک فوج چھپی ہوئی ہے جو تمہیں نظر نہیں آ رہی تو کیا یقین کر لو گے۔ جو بظاہر ناممکن بات تھی کہ اُس کے پیچھے کوئی فوج چھپی ہو یہ ہو نہیں سکتا کہ نظر نہ آئے۔ لیکن اس کے باوجود سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) تُو نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اس لئے ہم یقین کر لیں گے۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر، سورۃ تبت یدا ابی لہب باب 1/1 حدیث نمبر 4971)

پھر آپ نے اُن لوگوں کو تبلیغ کی۔ لیکن یہ دنیا دار لوگ تھے۔ جو پتھر دل تھے اُن پر تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، اُن کے انجام بھی بد ہوئے، کچھ بعد میں مسلمان ہوئے۔

تو بہر حال انبیاء اپنی سچائی سے ہی دنیا کو اپنی طرف بلانے کے لئے قائل کرتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تبلیغ کے ذکر کو بیان فرماتے ہوئے قرآنِ کریم میں آپ کے یہ الفاظ محفوظ فرمائے ہیں کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُراً مِّن قَبْلِہِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ (سورۃ یونس: 17) یعنی پس میں اس سے پہلے بھی تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں کیا تم عقل نہیں کرتے۔ یہ وہ دلیل ہے جو نبوت کی سچائی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جانے کے متعلق دی کہ مَیں نے ایک عمر تمہارے درمیان گزاری ہے کبھی جھوٹ نہیں بولا اب بوڑھا ہونے کو آیا ہوں تو کیا اب جھوٹ بولوں گا اور وہ بھی خدا تعالیٰ پر؟ جس نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے اور یہ بھی میری تعلیم میں درج ہے۔ اور مَیں تو آیا ہی توحید کے قیام کے لئے ہوں۔ پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا۔ پس انبیاء کی تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ اور ہتھیار اُن کی سچائی کا اظہار ہوتا ہے۔ اُن کی زندگی کے ہر پہلو میں سچائی کی چمک ہوتی ہے جس کا حوالہ دے کر وہ اپنی تبلیغ کرتے ہیں اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی یہ الہام ہوا کہ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ۔ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ اور مَیں ایک عمر تک تم میں رہتا رہا ہوں کیا تم کو عقل نہیں۔ اس بارے میں ’’نزول المسیح‘‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’قریباً 1884ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس وحی سے مشرف فرمایا کہ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُراً مِّن قَبْلِہِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ۔ اور اس میں عالم الغیب خدا نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ کوئی مخالف کبھی تیری سوانح پر کوئی داغ نہیں لگا سکے گا۔ چنانچہ اس وقت تک جو میری عمر قریباً پینسٹھ سال ہے (جب آپ نے یہ لکھا فرمایا کہ میری عمر پینسٹھ سال ہے) کوئی شخص دُور یا نزدیک رہنے والا ہماری گزشتہ سوانح پر کسی قسم کا کوئی داغ ثابت نہیں کرسکتا بلکہ گزشتہ زندگی کی پاکیزگی کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود مخالفین سے بھی دلوائی ہے جیسا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے نہایت پُرزور الفاظ میں اپنے رسالہ اشاعۃ السنۃ میں کئی بار ہماری اور ہمارے خاندان کی تعریف کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس شخص کی نسبت اور اس کے خاندان کی نسبت مجھ سے زیادہ کوئی واقف نہیں اور پھر انصاف کی پابندی سے بقدر اپنی واقفیت کے تعریفیں کی ہیں۔ پس ایک ایسا مخالف جو تکفیر کی بنیاد کا بانی ہے پیشگوئی وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ کا مصدق ہے‘‘۔ (نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 590)

پس سچائی ایک ایسی چیز ہے جو نبی کے سچا ہونے کے لئے اور تبلیغ کے لئے ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، تبھی تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے انبیاء کی اس بات کو کہ مَیں ایک عمر تک تم میں رہا ہوں کبھی جھوٹ نہیں بولا کیا اب بولوں گا، اس بات کو اپنے پیاروں کی ایک بہت بڑی خاصیت اور صفت کے طور پر پیش فرماتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں یہ اقتباس بھی جو پڑھا ہے، آپ نے سنا۔ جب آپ کی سیرت پر دشمن بھی داغ نہیں لگا سکے تو سچائی جو سیرت کا سب سے اعلیٰ وصف ہے اس کے بارے میں کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ جھوٹے ہیں۔ آجکل کے مولوی یا جو بھی اعتراض کرنے والے ہیں جو مرضی کہتے رہیں۔ ہاں منہ سے بَک بَککرتے ہیں کرتے رہیں لیکن کسی بات کو ثابت نہیں کر سکے۔ اور آج بھی جو لوگ نیک نیت ہیں اور نیک نیت ہو کر خدا تعالیٰ سے ہدایت اور مدد مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی ثابت فرماتا ہے۔

ابھی گزشتہ جمعہ پر مَیں نے بعض واقعات بیان کئے تھے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کی تصدیق فرمائی جن لوگوں نے خالص ہو کر نیک نیت ہو کر اللہ تعالیٰ سے مدد اور دعا مانگی۔ پس یہ سچائی ہے جس کو انبیاء لے کر آتے ہیں جس کا اظہاراُن کی زندگی کے ہر پہلو سے ہوتا ہے اور یہ سچائی ہی ہے جس کو ہم نے (جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والے ہیں ) دنیا پر ظاہر کرنا ہے۔ کیونکہ انبیاء کے ماننے والوں کا بھی کام ہے کہ جس نبی کو وہ مانتے ہیں اُس کی سچائی کے بارے میں بھی دنیا کو بتائیں۔ اُنہیں بھی ہدایت کے راستوں کی طرف لائیں اور اس زمانے میں اسلام ہی وہ آخری مذہب ہے جو سب سچائیوں کا مرکز ہے۔ یہی وہ واحد مذہب ہے جو اپنی تعلیم کو اصلی حالت میں پیش کرتا ہے۔ یہی وہ واحد مذہب ہے جس میں ابھی تک خدا تعالیٰ کی کتاب اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور انشاء اللہ قیامت تک موجود رہے گی۔ یہ قرآنِ کریم کا دعویٰ ہے جو سچائی اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ باقی سب مذہبی کتب میں کہانیوں اور قصوں اور جھوٹ کی ملونی ہوچکی ہے۔ پس اس سچائی سے دنیا کو روشناس کروانا ایک مسلمان کا فرض ہے۔ لیکن مسلمانوں کی اکثریت تو خود غلط کاموں میں پڑی ہوئی ہے جیسا کہ پہلے بھی میں نے بیان کیا وہ کسی کو سچائی کا کیا راستہ دکھائیں گے۔

ایک موقع پر غیروں کے ساتھ ایک مجلس ہو رہی تھی۔ اکثریت عیسائی تھے، اکثریت کیا بلکہ تمام ہی عیسائی تھے۔ تو یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ پیغام لے کر آئے ہیں اور تمام دنیا کے لئے پیغام ہے، مسلمانوں کے لئے بھی ہے، عیسائیوں کے لئے بھی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ جو نیک فطرت ہیں وہ آپ کے ہاتھ پر جمع ہوں گے، چاہے وہ عیسائی ہوں یا ہندو ہوں یا کوئی ہو۔ تو اُس عیسائی نے ایک بات کی غالباً کسی یونیورسٹی کا پروفیسر تھا لیکن مذہب سے اُس کا کافی تعلق تھا۔ مجھے کہنے لگا پہلے مسلمانوں کی اصلاح کر لیں پھر ہماری عیسائیوں کی اصلاح کریں۔ تو بہر حال اُس کو جواب تو میں نے اُس وقت دیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اصلاح ہونا ضروری ہے اور مسلمانوں کی وجہ سے ہی بعض دفعہ شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے۔ لیکن بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو اس لئے آئے تھے تا کہ مسلمانوں کی بھی اصلاح کریں اور مسلمانوں کے لئے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی حکم فرمایا تھا کہ جب وہ امام مہدی آئے تو تم اُس کوماننا، چاہے برف کی سِلوں پر جا کر ماننا پڑے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی حدیث نمبر 4084)

لیکن ہم احمدی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہم نے یہ سچائی کا پیغام دنیا کو پہنچانا ہے، لیکن کس طرح؟ پہلے تو ہمیں اپنے آپ کو سچا ثابت کرنا ہو گا۔ انبیاء نے اپنی سچائی کی دلیل اپنی زندگی میں سچ کی مثالیں پیش کرکے دی کہ روزمرہ کے عام معاملات سے لے کر انتہائی معاملات تک کسی انسان سے تعلق میں، Dealing میں کبھی ہم نے جھوٹ نہیں بولا۔ پس یہ سچائی کا اظہار ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں کرنا ہو گا۔ اور یہی کام ہے جو انبیاء کے ماننے والوں کا ہے کہ جس طرح انبیاء اپنی مثال دیتے ہیں اُن کے حقیقی ماننے والے بھی اپنی سچائی کو اس طرح خوبصورت کر کے پیش کریں کہ دنیا کو نظر آئے۔ ہمیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنے کا حکم ہے۔ پس اس اسوہ پر چلتے ہوئے سچائی کے خُلق کو سب سے زیادہ ہمیں اپنانا ہو گا۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو تبھی پورا کر سکتے ہیں جب اس خُلق کو اپنائیں گے۔ تبھی ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ لیکن سچائی کے یہ معیار تبھی حاصل ہوں گے جب ہم ہر سطح پر خود اپنی زندگی کے ہر لمحے کو سچائی میں ڈھالیں گے۔ ہماری گھریلو زندگی سے لے کر ہماری باہر کی زندگی اور جو بھی ہمارا حلقہ اور ماحول ہے اُس میں ہماری سچائی ایک مثال ہو گی، تبھی ہماری باتوں میں بھی برکت ہو گی، تبھی ہمارے اخلاق اور سچائی دوسروں کو متأثر کر کے احمدیت اور اسلام کے قریب لائیں گے۔ پس اس کے لئے ہمیں ایک جدوجہد اور کوشش کرنی ہو گی۔ اپنے عملوں کو سچائی سے سجانا ہو گا۔ اگر ہم چھوٹے چھوٹے مالی فائدوں کے لئے جھوٹ کا سہارا لینے لگ گئے تو پھر ہماری باتوں کا کیا اثر ہوگا۔

جیسا کہ پہلے مَیں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں اگر ہم غلط بیانی کر کے مثلاً حکومت سے، کونسل سے مالی مفاد حاصل کر رہے ہیں، اگر ہم اپنے ٹیکس صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے تو پکڑے جانے پر پھر جماعت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ احمدی کا ہر ایک کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ احمدی ہے اور جب بدنامی ہو جائے تو پھر تبلیغ کیا ہو گی؟ کس طرح ثابت کریں گے کہ جس جماعت سے آپ کا تعلق ہے جس کا دعویٰ ہے کہ احمدی برائیوں میں ملوث نہیں ہوتے، قانون کے پابند رہتے ہیں، باقی مسلمانوں سے مختلف ہیں کیونکہ انہوں نے اس زمانے میں اُس شخص کی بیعت کی ہے جو دنیا کی رہنمائی کے لئے آیا ہے تو یہ ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ پس یہ ثابت کرنے کے لئے ہمیں اپنے عملوں کو درست کرنا ہو گا، چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ ہم کس طرح ثابت کریں گے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو قرآن و سنت پر عمل کرنے والے ہیں۔ پس ہمیں اس کام کو پھیلانے کے لئے جماعت کی نیک نامی کے لئے اپنی ذاتی اصلاح کی طرف بھی بہت کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ جھوٹ پکڑے جانے پر نہ صرف ہم اپنے آپ کو مشکل میں ڈالتے ہیں بلکہ جماعت اور اسلام کی بدنامی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ پھر بعض دوسری بداخلاقیاں ہیں۔ بعض نوجوانوں کا غلط قسم کی صحبت میں اُٹھنا بیٹھنا ہے۔ پھر میاں بیوی کے گھریلو جھگڑے ہیں، پہلے بھی مَیں نے عرض کیا، جن میں بعض اوقات پولیس تک معاملے پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں پھر کوئی نہ کوئی فریق غلط بیانی سے کام لیتا ہے۔ تو بہر حال یہ سب چیزیں جماعت کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں اور معاشرے میں غلط اثر قائم ہو کر تبلیغ میں روک کا بھی باعث بنتی ہیں۔ پھر اس کے علاوہ اگر غلط بیانی کی عادت پڑ جائے تو جماعت کے اندر بھی اپنے معاملات میں جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اور پھر اس جھوٹ سے ہر معاملے میں بے برکتی پڑتی چلی جاتی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس سے گھروں میں بھی بچوں پر بُرا اثر پڑ رہا ہوتا ہے۔ بات کا اثر نہیں ہوتا۔ کئی بچے بچیاں مجھے لکھ بھی دیتے ہیں کہ ہمارا باپ باہر بظاہر بڑا نیک شریف اور سچا اور کھرا مشہور ہے۔ خدمت کرنے والا بھی ہے لیکن گھروں کے اندر ہمیں پتہ ہے غلط باتیں کرنے والا ہے اور سچائی سے ہٹا ہوا ہے۔ تو ایسے باپوں کا بچوں پر کیا اثر ہو گا یا ایسی ماؤں کا بچوں پر کیا اثر ہو گا جو غلط بیانی سے کام لیتی ہیں؟ اگر پوچھو تو پھر جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے کہ ہم ٹھیک ہیں۔ سب ٹھیک ہے۔ تو پھر ایسے لوگوں کی تبلیغ کا اور بات کا بھی اثر نہیں ہوتا۔ جن کے گھروں کے بچوں پر ہی اثر نہیں ہو رہا جن کے گھروں کے بچے ہی اُن سے غلط اثر لے رہے ہیں، اُن پر غلط اثر قائم ہو رہا ہے وہ باہر کیا اصلاح کریں گے؟

پس اس بات کا ہر احمدی کو بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم میں یہ باتیں پیدا ہو رہی ہیں اور بڑھ رہی ہیں تو پھر تو ہم اُن لوگوں میں شمار ہوں گے جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ ہم یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ احمدیت سچی ہے، حقیقی اسلام ہے۔ ہم یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ’محبت سب کے لئے ہے نفرت کسی سے نہیں‘ لیکن سب سے پہلے تو ہم نے اپنے گھروں کو محبت دینی ہے وہاں سچائی قائم کرنی ہے۔ اپنے عزیزوں، رشتے داروں کو محبت دینی ہے، اپنی جماعت کے افراد کو محبت دینی ہے، اپنے ماحول کو محبت دینی ہے، تبھی ہماری محبت وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جائے گی، تبھی سچائی سے آگے سچائی پھیلتی چلی جائے گی۔ ورنہ ہمارا یہ نعرہ کھوکھلا ہے۔ ہم جھوٹے نعرے لگا رہے ہیں۔ ہمارے گھروں میں تو بے چینیاں ہوں اور ہم دوسروں کو بلا رہے ہوں کہ آؤ اور سچائی کو پا کر اپنی بے چینیوں کو دور کرو۔ ہم دوسروں کو جا کر تو محبت کی تبلیغ کر رہے ہوں اور اپنے ہمسایوں سے ہمارے تعلقات اچھے نہ ہوں جس کا سب سے زیادہ حق ہے۔ قرآنِ کریم میں ہمسائے کا سب سے زیادہ حق لکھا ہے۔ اسلام میں سب سے زیادہ حق ہمسائے کو دیا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تمہارا دینی بھائی بھی تمہارا ہمسایہ ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلدچہارم صفحہ 215مطبوعہ ربوہ) یہ صرف گھر سے گھر جڑنا ہمسائیگی نہیں ہے بلکہ ہر دینی بھائی جو ہے وہ تمہارا ہمسایہ ہے اُس کا حق ادا کرو۔ پس اگر ہم سچے ہیں تو آپس کے تعلقات کو بھی مضبوط جوڑنا ہو گا ورنہ ہماری تبلیغ بے برکت ہو گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْن (الصف: 3) (کہ اے وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ کیونکہ اگر تمہارے عمل تمہارے قول کا ساتھ نہیں دے رہے تو یہ منافقت ہے اور اس میں کبھی برکت نہیں پڑ سکتی۔ اس سے ہمیشہ بے برکتی پیدا ہو گی۔ ایمان کو اپنے قول و فعل کے تضاد سے داغدار نہ کرو۔ جس سچے اور کامل نبی کے عاشقِ صادق کے ساتھ تم جُڑ گئے ہو یا جڑنے کا دعویٰ کرتے ہو اُس کے ساتھ حقیقت میں جڑنا تو تبھی ہو گا جب کوئی تم پر یہ کہہ کر انگلی نہ اُٹھائے کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔ اگر یہ جھوٹا ہے تو ہر کہنے والا یہی کہے گا کہ یہ خود جھوٹا ہے تو جس کے ساتھ جڑ کر یہ سچائی کا اعلان کر رہا ہے تو اس کی سچائی بھی محلِ نظر ہو گی۔ تبھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہمارے ساتھ جڑ کر ہمیں بدنام نہ کرو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ 145۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ احمدیت کی فتح کے لئے سچائی کا ہتھیار ہے جو ہم نے استعمال کرنا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی تعلیم سچی ہے، قرآنِ کریم سچا ہے اور اس تعلیم نے تاقیامت رہنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شرعی نبی ہیں اور اب کوئی نئی شریعت، کوئی نئی سچائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں اُترنی۔ نبوت کے تمام کمال آپؐ پر ختم ہو چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کا دعویٰ سچا ہے۔ آپ ہی وہ مسیح و مہدی موعود ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی تھی اور اب اسلام کی ترقی احمدیت کی ترقی سے وابستہ ہے لیکن اس ترقی کا حصہ بننے کے لئے، اس سچائی کے پھیلانے کے لئے جو احمدیوں کی ذمہ داری ہے اُس کو ادا کرنے کے لئے ہمیں اپنے عمل بھی سچے کرنے ہوں گے۔ اُس تعلیم کے مطابق ڈھالنے ہوں گے جس تعلیم کی ہم تبلیغ کر رہے ہیں۔ پس اگر ہم نے اُس غلبے کا حصہ بننا ہے جو اسلام کے لئے مقدر ہے انشاء اللہ، اگر ہم نے اُس غلبے کا حصہ بننا ہے جس کا وعدہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے ساتھ بھی کیا ہے تو پھر ہمیں ہر آن اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم سچے ہیں؟ اپنے گھروں میں، اپنے ماحول میں، اپنے جماعتی معاملات میں، اپنے کاروباری معاملات میں ہمیں جائزے لینے ہوں گے۔ اگر جائزے بے چینی پیدا کرنے والے ہیں تو پھر ہمیں فکر کی ضرورت ہے۔ بیشک احمدیت کا غلبہ تو یقینی ہے انشاء اللہ اور اس غلبے کو ہم ہر روز مشاہدہ بھی کر رہے ہیں، لیکن سچائی کا حق ادا نہ کرنے والے اس غلبے کا حصہ بننے سے محروم رہیں گے۔

پس یہ لمحہ فکریہ ہے، غور کرنے کا مقام ہے، اس بات کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ سچائی کو پا کر ہم کس طرح اپنے عملوں کو جھوٹ سے پاک کرنے والے بنیں۔ ہمیشہ ہمارے پیشِ نظر رہنا چاہئے کہ جھوٹ شرک ہے۔ جن احمدیوں نے سچائی کے اظہار اور اسے قائم رکھنے کے لئے قربانیاں دی ہیں یا دے رہے ہیں وہ اصل میں شرک کے خلاف قربانیاں دے رہے ہیں۔ وہ خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ وہ جابر انتظامیہ اور حکومت اور ظالم مُلّاں کی اس بات کے خلاف قربانیاں دے رہے ہیں کہ اگر تم زندگی چاہتے ہو، اگر تم اپنے مالوں کو محفوظ کرنا چاہتے ہو، اگر تم اپنے بچوں کا سکون چاہتے ہو تو پھر سچائی کو چھوڑ دو اور جھوٹ کو اختیار کر کے ہمارے پیچھے چلو۔ پس یہ قربانیاں کرنے والے جو مقصد ادا کر رہے ہیں ہم باہر رہنے والوں کا بھی فرض ہے کہ ہر وہ احمدی جو نسبتاً سکون سے زندگی گزار رہا ہے اُس کا یہ فرض ہے کہ سچائی کے معیار کو اتنا بلند کرے کہ جھوٹ اپنی موت آپ مر جائے۔ اور جب ہم نیک نیتی سے اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کر رہے ہوں گے تو یقینا جھوٹ کو فرار اور موت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہو گا۔

ابوسفیان نے فتح مکّہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی عرض کیا تھا کہ اگر ہم سچے ہوتے اور ہمارے معبود سچے ہوتے اور طاقتور ہوتے، کسی قدرت کے مالک ہوتے تو جس کسمپرسی کی حالت میں آپ مکّہ سے نکلے تھے اور آپ کے ختم کرنے کی جو کوششیں ہم نے کی ہیں اُس کی وجہ سے آج آپ کی جگہ ہم بیٹھے ہوتے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح یہ ثابت ہو گیا کہ جس طرح آپ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں سچائی کا اظہار کرتے رہے اور جس طرح آپ کے منہ سے ہمیشہ سچی بات کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلا آج یہ ثابت ہو گیا کہ آپ کا اعلان کہ سچ اور صدق یہی ہے کہ اس عالَمِ کون کا ایک خدا ہے، اُس کی عبادت کرو اُس کی بندگی کا حق ادا کرو وہی سچا خدا ہے۔ یقینا آپ کا یہ اعلان بھی سچا تھا اور سچا ہے اور اسلام کا خدا یقینا سچا خدا ہے اور اُس کے ماننے والے بھی سچے ہیں۔ اس لئے ابوسفیان نے اعلان کیا کہ مَیں بھی کلمہ پڑھتا ہوں اور اسلام میں داخل ہوئے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد از علامہ محمد بن یوسف صالحی جلد 5صفحہ 217 فی غزوۃ الفتح الاعظم دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

پس یہ تھے وہ سچائی کے نمونے جو دنیا نے دیکھے۔ جس نے سخت ترین دشمنوں کو بھی حق کی دہلیز پر لا ڈالا۔ پس جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو عظیم فساد کی حالت میں دیکھا اور سچائی کے نور سے اس فساد کو ختم کر کے باخدا انسان بنا دیا۔ مشرکوں کو توحید پر قائم کر دیا۔ کفارِ مکہ کے تکبّر اور جھوٹ کو سچائی نے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں نے پارہ پارہ کر دیا آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بھی یہی وعدے ہیں اور جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آپ کے ذریعہ بھی اسلام کا غلبہ ہونا ہے لیکن ہمیں باخدا بننے کی ضرورت ہے۔ سچائی کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ سچائی پر قائم رہتے ہوئے اپنے ایمانوں کو قوی کرنے کی ضرورت ہے تا کہ یہ نظارے دیکھ سکیں۔ ہم ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر عہدِ بیعت کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے، سچائی کو قائم کریں گے اور جھوٹ اور شرک کا خاتمہ کریں گے۔ پس آج سچائی کا اظہار اور صداقت کا قائم کرنا احمدیوں کا کام ہے۔ کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے صادقِ کامل صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کی بیعت کر کے سچائی کو دنیا میں قائم کرنے کا عہد کیا ہے اور عَہدوں کے پورا کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہم پوچھے جائیں گے۔ پس بڑے فکر اور خوف کا مقام ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم نے اپنے آپ کو سچائی کا نمونہ نہ بنایا تو پھر ہم کبھی توحید کو قائم کرنے اور اُس صدق کو پھیلانے والے نہیں بن سکتے جس کی تکمیل و اشاعت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے تھے۔ وہ صدق جو آج سے چودہ سو سال پہلے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا لیکن مسلمانوں کی ہی شامتِ اعمال کی وجہ سے وہ صدق آج دنیا سے مفقود ہے اور دنیا ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم: 42) کا نمونہ بنی ہوئی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں پر بے انتہا احسان کرنے والا ہے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اور آپ کے ذریعے ایک جماعت کو قائم کر کے اس کے دُور کرنے کے سامان بھی پیدا فرما دئیے ہیں۔ خلافت علیٰ منھاج نبوت کے ذریعے ایک جماعت کا قیام کر کے ہمیں سچائی کے قائم کرنے کی اُمیدیں بھی دلا دی ہیں۔ پس ہر سطح پر اس فساد کو دور کرنا اور سچائی کو قائم کرنا اور اس کے لئے کوشش کرنا ہر اُس احمدی کا کام ہے جو اپنے آپ کو جماعت سے منسوب کرتا ہے۔ ہمیں اس فساد اور جھوٹ کو گھروں سے بھی ختم کرنا ہے جو گھروں میں فتنے کا باعث بنا ہوا ہے۔ ہمیں اس فساد کو محلّوں سے بھی ختم کرنا ہے۔ ہمیں اس فساد اور جھوٹ کو شہروں سے بھی ختم کرنا ہے اور ہمیں اس فساد اور جھوٹ کو اس دنیا سے بھی ختم کرنا ہے تا کہ دنیا میں پیار اور محبت اور امن اور صلح کا ماحول قائم ہو جائے۔

ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس رسول کے ماننے والے ہیں جو تمام دنیا کے فتنوں اور فسادوں کو ختم کرنے آیا تھاجودنیا کے لئے ایک رحمت بن کے آیا تھا، جس کے بارے میں خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (سورۃالانبیاء: 108) کہ ہم نے تجھے دنیا کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ پس دنیا میں سچائی کا بول بالا کرکے اور فسادوں کو دُور کر کے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت کا باعث بننا ہے۔ پس آج یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس اصدق الصادقین اور رحمۃ للعالمین کی سنت پر قائم ہوں۔ اپنوں کو بھی سچائی کے اظہار سے اپنا گرویدہ کریں، پیارومحبت کا پیغام پہنچائیں اور غیروں کو بھی صدق کے ہتھیار سے مغلوب کریں۔ پستول، بندوقیں، رائفلیں اور توپیں تو گولیاں اور گولے برسا کر زندگیوں کو ختم کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں لیکن جو سچائی کا ہتھیار ہم نے اپنے عملوں اور اظہار سے چلانا ہے اور کرنا ہے یہ زندگی بخشنے والا ہتھیار ہے۔ پس اس ہتھیار کو لے کر آج ہر احمدی کو باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ اللہ کرے کہ ہم سچائی کے پھیلانے کا یہ روحانی حربہ استعمال کر کے دنیا کے سعید فطرتوں اور نیکیوں کے متلاشیوں کو جمع کر کے ان کے ذریعہ صدق کی ایسی دیواریں کھڑی کرنے والے بن جائیں جس کو کوئی جھوٹی اور شیطانی طاقت گرا نہ سکے۔ اور پھر یہ صدق کا نور جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہے وہ نور جو خدا تعالیٰ کے نور کا پرتَو ہے دنیا میں پھیلے اور پھیلتا چلا جائے، انشاء اللہ، اور دنیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو کر توحید کے نظارے دیکھنے والی بن جائے، اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔

آج بھی ایک افسوسناک خبر ہے۔ مَیں جمعہ کے بعد انشاء اللہ ایک جنازہ بھی پڑھاؤں گا۔ ہمارے فیصل آباد کے ایک احمدی بھائی نسیم احمد بٹ صاحب ابن مکرم محمد رمضان بٹ صاحب کو دو تین دن ہوئے فیصل آباد میں شہید کر دیا گیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

اِن کے دادا کے ذریعے سے اِن کے خاندان میں احمدیت آئی تھی جن کا نام غلام محمد صاحب تھا۔ اُن کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بیعت کی سعادت حاصل ہوئی۔ نسیم احمد بٹ صاحب 1957ء میں فیصل آباد میں پیدا ہوئے اور پیدائشی احمدی تھے۔ 4؍ستمبر بروز اتوار کو نامعلوم افراد آپ کے گھر دیوار پھلانگ کرآئے اور فائرنگ کر کے شہید کر دیا، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ تین اور چار ستمبر کی رات کو یہ آئے تھے۔ آپ باہر صحن میں سوئے ہوئے تھے، آپ کو اُٹھایا اور نیند کی حالت میں آپ پر فائرنگ کر دی۔ دوفائر پیٹ میں لگے دوسرا کمر میں لگا، زخمی حالت میں آپ کو ہسپتال پہنچایا گیا اور چار ستمبر کو صبح نو بجے آپ کی ہسپتال میں وفات ہوئی۔ شہادت سے قبل گولیاں لگنے کے بعد خود کو سنبھالا اور اپنی بیوی کو حوصلہ اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔ آپ کے چھوٹے بھائی وسیم احمد بٹ صاحب 1994ء میں اور پھر آپ کے تایا زاد بھائی نصیر احمد بٹ صاحب ولد اللہ رکھا صاحب کوگزشتہ سال شہید کیا گیا تھا۔ اس موقع پر بھی آپ نے بڑے صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ شہادت کے وقت مکرم نسیم بٹ صاحب کی عمر 54سال تھی۔ ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ بااخلاق اور باکردار شخصیت کے حامل اور بڑے بہادر نڈر انسان تھے۔ جماعتی کاموں میں حصہ لیتے تھے۔ جماعتی چندوں کی ادائیگی میں باقاعدہ تھے۔ مسجد گھر سے کچھ فاصلے پر ہونے کے باوجودنمازِ جمعہ باقاعدگی کے ساتھ مسجد میں جا کر ادا کیا کرتے تھے۔ نظامِ جماعت اور خلافت کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق تھا۔ طبیعت میں سادگی تھی۔ بیوی بچوں کے ساتھ بہت محبت اور شفقت کا سلوک کیا کرتے تھے۔ ہمدردی خَلق اور غریب پروری نمایاں خُلق تھا۔ ان کے لواحقین میں اہلیہ آسیہ نسیم صاحبہ کے علاوہ چار بیٹیاں سندس ناز شادی شدہ ہیں غلام عباس صاحب کی اہلیہ۔ زارا نور صاحبہ یہ بھی شادی شدہ ہیں۔ سارہ کوثر صاحبہ یہ بھی شادی شدہ ہیں۔ شمائلہ کنول بعمرپندرہ سال، یہ نویں کلاس میں پڑھ رہی ہیں اور بیٹا عزیزم سافر رمضان گیارہ سال کا ہے، چوتھی جماعت میں پڑھ رہا ہے۔ ایک بیٹا ان کا پچھلے سال بیماری کی وجہ سے بائیس سال کی عمر میں وفات بھی پا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ نمازِ جمعہ کے بعد جیسا کہ مَیں نے کہا ان کی نمازِ جنازہ ادا ہوگی۔

(خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:)

یہ جو شہید ہوئے ہیں ان کے دو دن بعد فیصل آباد میں ہی ہمارے جماعت کے سیکرٹری امور عامہ تھے اُن کے اوپرفائرنگ کی گئی اور چار گولیاں اُن کو لگی ہیں۔ ہسپتال میں داخل ہیں۔ کل تک کریٹیکل (Critical) حالت تھی۔ اللہ کے فضل سے اب کچھ بہتر ہیں۔ اُن کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ اُن کو شفائے کاملہ و عاجلہ سے نوازے۔ ا ُنہیں پیٹ میں اور گردن پر اور بازو پر گولیاں لگی تھیں۔ ان کی انتڑیوں کو کافی زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ مرمت کی گئی ہیں اور کچھ کاٹی ہیں۔ اسی طرح کل ہی لاہور میں ایک احمدی کو کار روک کے فائرنگ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ایک گولی مِس (Miss) ہوئی دوسری چل نہیں سکی۔ بہر حال مخالفت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ پاکستان کے احمدیوں کے لئے خاص طور پر بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اُن سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں