خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ09؍ مئی 2025ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
جنگ مُؤتہ کی مزید تفصیل
اس طرح بیان ہوئی ہے۔ حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں کے ہمراہ سفر میں شامل ہوا جو حضرت زید بن حارثہؓ کے ساتھ نکلے تھے۔ مجھے اہلِ یمن میں سے ایک شخص ملا۔ اس کے پاس صرف تلوار تھی۔ ایک مسلمان نے اونٹ ذبح کیا۔ اس شخص نے اس سے کچھ جلد مانگی۔ وہ اس نے اسے دے دی۔ اس کی کھال مانگی اور اسے اس نے ڈھال کی طرح بنا لیا۔ پھر کہتے ہیں ہم سفر پہ روانہ ہوئے۔ ہماری رومی لشکر سے مڈھ بھیڑ ہوئی۔ ان میں سے ایک شخص تھا جو بھورے گھوڑے پر سوار تھا۔ اس پر سنہری زین اور سنہری اسلحہ تھا وہ رومی مسلمانوں کو للکارنے لگا۔ وہ یمنی شخص اس کی طرف چٹان کے پیچھے سے آیا۔ دشمن کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دیں۔ جنگ ہوئی۔ رومی نیچے گر پڑا۔ وہ تلوار لے کر اس پر سوار ہو گیا اور اسے قتل کردیا۔ مسلمان نے اس کو قتل کر دیا۔ اس کا گھوڑا اور اسلحہ لے لیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا کی تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے اس کی طرف پیغام بھیجا اور اس سے کچھ سامان لے لیا یعنی اس شخص کو جس نے اس رومی کو مارا تھا یہ پیغام بھیجا کہ تم سامان جمع کراؤ۔ حضرت عوف بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت خالدؓ کے پاس آیا میں نے کہا کہ آپ کو علم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے سامان کے بارے میں کیا فیصلہ کیا تھا؟ خالد بن ولیدؓ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اس لیے ان کا خیال تھا کہ شاید ان کو پتہ نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے کیا فیصلہ کیا ہے کہ وہ قاتل کے لیے ہو گا یعنی جس نے دشمن کو مارا ہے اس دشمن کا سامان، مال غنیمت اسی کے پاس رہے۔ خالد بن ولیدؓ نے کہا کہ ہاں مجھے پتا ہے مگر میں نے اسے زیادہ سمجھا تھا۔ جو سامان اس نے لیا ہے وہ اس سے زیادہ تھا جو اس کو ملنا چاہیے تھا۔ یہ کہتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا کہ یہ سامان اس شخص کو واپس کردیں ورنہ میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کروں گا۔ حضرت خالدؓ نے سامان واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت عوفؓ نے کہا کہ پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مَیں نے اس شخص کا واقعہ عرض کیا۔ حضرت خالد کا رویہ بھی عرض کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالدؓ سے پوچھا تم نے کیا کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اسے کثیر مال سمجھا۔ میں نے زیادہ سمجھا اس لیے میں نے کچھ اس میں سے واپس لے لیا۔ آپؐ نے فرمایا جو کچھ اس سے لیا تھا اسے واپس کر دو۔ حضرت عوف کہتے ہیں کہ میں نے کہا خالد اب اس سے لو۔ یعنی اب تم یہ کس طرح لو گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ واپس کرو۔ کیا میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ یہ واپس کرو۔ بہرحال جب حضرت خالد کو حضرت عوف یہ کہہ رہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا ہوا؟ کہتے ہیں میں نے پھر سارا واقعہ سنایا۔ پہلے یہ بات پوری نہیں بتائی تھی اب بتایا کہ میں نے ان کو کہا تھا یہ واپس کرو لیکن انہوں نے نہیں کیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے۔ آپؐ نے فرمایا خالد اسے سامان واپس نہ کرنا۔ آپ نے پہلے جو فرمایا تھا کہ واپس کر دو اب فرمایا کہ واپس نہ کرنا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت کے لیے فرمایا کہ کیا تم میرے امراء کو اس حالت میں چھوڑنا چاہتے ہو کہ تمہارے لیے معاملے کا نکھرا ہوا حصہ ہو اور ان کی گندگی ان پر ہو۔ کہ جب ایک امیر بن گیا تو پھر تم لوگوں کا یہ کہنا کہ تمہارا فیصلہ صحیح نہیں ہے اور اس طرح جو اس کی پاکیزگی ہے یا صفائی ہے وہ تمہارے پاس آ جائے اور اگر اس کا کوئی برا پہلو ہے تو وہ امراء کو مل جائے یہ تو غلط بات ہے۔ اب تم نے مجھے بات بتا دی ہے تو پھر اب میں یہ پہلا حکم واپس لے رہا ہوں اور جو خالد نے کیا وہ ٹھیک کیا۔
اب یہاں امیر کا وقار قائم کرنا تھا تو آپؐ نے فرمایا اس طرح تم امیر کو طعنہ دے رہے ہو کہ تم نے پہلے غلط کام کیا۔ اس لیے آپؐ نے پہلا فیصلہ واپس لیا۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ
غزوۂ مُؤتہ میں بعض مسلمان شہید ہو گئے۔
مسلمانوں کو مشرکین کا کچھ حصہ بطور مال غنیمت ملا۔ اس سامان میں ایک انگوٹھی بھی تھی۔ ایک شخص نے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا۔ مَیں نے اسے کہا کہ وہ انگوٹھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا کر دی ہے۔ حضرت خُزَیْمَہ بن ثابتؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے مُؤتہ کی جنگ میں شرکت کی۔ رومیوں میں سے ایک شخص نے مجھے دعوتِ مبارزت دی۔ مَیں نے اس کا کام تمام کر دیا۔ اس نے خَود پہن رکھا تھا جس میں یاقوت لگے ہوئے تھے۔ میرا ارادہ وہ یاقوت تھے۔ میں نے انہیں لیا۔ جب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچا تو میں نے آپؐ کی خدمت میں یاقوت پیش کر دیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مجھے عطا کر دیے۔ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں انہیں ایک سو دینار میں بیچا۔ میں نے ان سے ایک نخلستان خریدا۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ان روایات سے عیاں ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے مال غنیمت بھی حاصل کیا تھا۔ صرف شکست نہیں کھائی تھی، مال غنیمت حاصل کیا تھا اور شکست کا کوئی سوال نہیں تھا۔ یہ تو ایک فوجی حکمت عملی تھی جو انہوں نے اختیار کی جس سے وہ واپس ہوئے تھے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ انہوں نے ان کے سرداروں سے مال چھینا اور ان کے امیروں کو قتل کیا۔
حضرت خالد بن ولیدؓ بیان کرتے ہیں کہ مُؤتہ کے دن میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹیں اور صرف ایک یمنی چوڑی تلوار ہی میرے ہاتھ میں رہ گئی۔
علامہ محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے مشرکین کو خوب قتل کیا تھا ورنہ وہ مشرکین سے نجات نہ پاسکتے۔ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار جبکہ مشرکین کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ تھی۔ یہ تنہا ہی مسلمانوں کی فوقیت کی ایک مستقل دلیل ہے۔ واللہ اعلم۔
ابن اسحاق نے روایت کیا ہے کہ حضرت قُطْبَہ بن قتادہ مسلمانوں کے میمنہ کے امیر تھے انہوں نے مالک بن رَافِلَہ پر حملہ کیا وہ عیسائی بدوؤں کا امیر تھا انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ حضرت قُطبہ اس پر فخر کرتے ہوئے عربی اشعار میں کہتے تھے کہ میں نے رافلہ بن اراش کے بیٹے کو ایسا نیزہ مارا جو اس کے اندر دور تک چلا گیا پھر وہ نیزہ ٹوٹ گیا۔ جب میں نے اس کی گردن پر کاری ضرب لگائی تو وہ جھک گیا جیسے سلم درخت جو ایک کانٹے دار درخت ہے اس کی شاخ جھکتی ہے۔ ہم نے اس کے چچا زادوں کی خواتین کو یوں ہانکا جیسے جانوروں کو ہانکا جاتا ہے۔ حضرت اَسماء بنتِ عَمِیسؓ نے بیان کیا کہ جس روز حضرت جعفرؓ اور ان کے ساتھی شہید ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے۔ آپؐ نے فرمایا: میرے پاس جعفر کے بیٹوں کو لے کر آؤ۔ میں نے انہیں آپؐ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ساتھ لگایا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے والدین آپؐ پر نثار آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا آپؐ کو حضرت جعفر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں کچھ علم ہوا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں آج ان کے سروں پر شہادت کا تاج سج گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں اٹھ کر رونے لگی۔ خواتین میرے پاس جمع ہو گئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہلِ خانہ کے پاس تشریف لے گئے۔ آپؐ نے فرمایا: آلِ جعفر سے غافل نہ ہو جانا ان کے لیے کچھ کھانا بنانا۔ آج ان کے خاوند کی وفات نے انہیں مشغول کر دیا ہے۔ یعنی لوگوں کو تلقین کی کہ آج ان کے گھر میں کھانا بھجوا دینا۔
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منبر پر تشریف لائے اور حضرت زیدؓ، حضرت جعفرؓ اور ابنِ رَوَاحَہ ؓ کی شہادت کی خبر دی وہ اس روز ہی شہید ہوئے تھے حالانکہ ظاہری طور پر ان کی شہادت کی خبر نہیں آئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب حضرت زیدؓ نے اسلام کا جھنڈا اٹھا لیا ہے۔ جب آپؐ بیان کر رہے تھے۔ وہ شہید ہو گئے۔ پھر حضرت جعفرؓ نے اسلام کا جھنڈا اٹھا لیا۔ وہ بھی شہید ہو گئے۔ پھر اسلام کا جھنڈا حضرت عبداللہؓ نے تھام لیا۔ وہ بھی شہید ہوگئے۔ آپؐ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے حتٰی کہ اسلام کا جھنڈااللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے پکڑ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا کی۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت یَعْلیٰ بن اُمَیَّہؓ اہل مُؤتہ کی خبر لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم پسند کرو تو تم مجھے بتا دو۔ اور اگر تم پسند کرو تو میں تمہیں ان کے بارے میں بتا دیتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے بھی اللہ نےخبر دے دی ہے۔ تم پہلے بتانا چاہتے ہو یا میں تمہیں بتاؤں کہ کیا ہوا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ مجھے بتا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سارا واقعہ بتا دیا۔ انہوں نے عرض کی مجھے اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان واقعات میں ایک لفظ بھی نہیں چھوڑا۔
آپؐ نے فرمایا: اللہ نے میرے لیے زمین کو بلند کیا یہاں تک کہ مَیں نے ان کا معرکہ دیکھا۔
مَیں نے خواب میں انہیں دیکھا وہ سونے کے بستروں پرتھے۔ میں نے حضرت عبداللہ بن رَوَاحَہ کا بستر دیکھا ان کے بستر میں ذرا ٹیڑھا پن تھا۔ میں نے پوچھا اس کی کیا وجہ ہے؟ مجھے کہا گیا کہ یہ دونوں سیدھے گئے لیکن عبداللہ نے کچھ تردّد کیا تھا پھر آگے گئے۔ اس کے تردّد کا ذکر پچھلے خطبہ میں ہوا ہے۔ انہوں نے خود کہا ہے کہ مجھے پہلے خیال گزرا تھا کہ میں نہ لڑوں۔
ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جعفرؓ، زیدؓ اور ابن رواحہؓ کو میرے سامنے پیش کیا گیا، وہ موتٰی کے خیمے میں تھے۔ میں نے حضرت زیدؓ اور حضرت ابن رواحہؓ کو دیکھا ان کی گردنوں میں خم تھا لیکن حضرت جعفرؓ سیدھے تھے ان میں خم نہ تھا مجھے بتایا گیا کہ جب ان دونوں پر موت چھا گئی تو انہوں نے اس سے اعراض کیاگویا کہ اس سے روگردانی کی مگر حضرت جعفرؓ نے اس طرح نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بازوؤں کے بدلے دو پَر عطا کیے وہ ان کے ذریعہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ حضرت جعفرؓ کے بیٹے عبداللہ کو سلام کرتے تو کہتے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ابْنَ ذِی الْجَنَاحَیْنِ۔کہ اے دو پروں والے کے بیٹے! تم پر سلامتی ہو۔
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد6صفحہ 151تا154دار الکتب العلمیۃ بیروت)
بعض مسائل بیان کرتے ہوئے ایک تفصیل میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’جو مشکل مسائل ہوتے ہیں ان کو بعض لوگ سمجھتے ہیں اور بعض نہیں سمجھتے اور اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ جو باخبر ہیں انہیں وہ مسائل سمجھائیں خواہ اس وجہ سے کہ وہ خود غور نہیں کرتے‘‘ اس لیے نہیں سمجھتے ’’یا اس وجہ سے کہ ان کا دل کسی گناہ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا فضل جذب کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہ مشکل مضامین بالعموم دو طرح کے ہوتے ہیں ایک علمی مضامین جو باریک فلسفے پر مبنی ہوتے ہیں مثلاً توحید ہے اس کا اتنا حصہ تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ خدا ایک ہے مگر آگے یہ صوفیانہ باریکیاں کہ کس طرح انسان کے ہر فعل پر خدا تعالیٰ کی توحید کا اثر پڑتا ہے اس کے لیے ایک عارف کی ضرورت ہو گی اور یہ مسائل دوسرے کو سمجھانے کے لیے کوئی عالم درکار ہو گا۔ ہر شخص یہ باریکیاں نہیں نکال سکتا لیکن اتنی بات ضرور سمجھ لے گا کہ قرآن دوسرے خدا کا قائل نہیں۔‘‘اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے خدا ایک ہے۔
’’دوسرے یہ مشکلات ایسے مطالب کے متعلق پیدا ہوتی ہیں جو علمی تو نہ ہوں مگر وہ اس زبان میں بیان کیے گئے ہوں جسے تشبیہ اور استعارہ کہتے ہیں ‘‘۔ بعض علمی مسائل نہیں ہیں۔ بعض اہم فقرے اورمحاورے ہوتے ہیں جن کو لوگ سمجھ نہیں سکتے۔ وہ اگر بیان کیے جائیں تو بعض اس کاالٹ مطلب لے لیتے ہیں۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ’’… عوام الناس اس زبان کو نہ جاننے کی وجہ سے اس کے ایسے معنی کر لیتے ہیں جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے۔ ‘‘مثال دی ہے آپ نے کہ ’’مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک واقعہ پیش آیا جب شام کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ کو سالار لشکر بنا کر بھیجا اور فرمایا کہ اگر زیدؓ مارے جائیں تو جعفر بن ابی طالب کمان لے لیں اور اگر جعفرؓ مارے جائیں تو عبداللہ بن رواحہؓ کمان لے لیں۔ تو جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ویسا ہی وقوع میں آیا اور حضرت زیدؓ اور حضرت جعفرؓ اور حضرت عبداللہؓ تینوں شہید ہو گئے اور حضرت خالد بن ولید لشکر کو اپنی کمان میں لے کر بحفاظت اسے واپس لے آئے۔ جس وقت مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو جن عورتوں کے خاوند مارے گئے تھے یا جن والدین کے بچے اس جنگ میں شہید ہوئے تھے انہوں نے جس حد تک کہ شریعت اجازت دیتی ہے رونا شروع کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اظہار افسوس کے لیے نہ اس لیے کہ عورتیں جمع ہو کر رونا شروع کر دیں فرمایا جعفرؓ پر تو کوئی رونے والا نہیں۔‘‘رشتہ دار تھے آپ کے۔ آپ نے افسوس کا اظہار کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ ’’میرے نزدیک اس فقرہ سے آپ کا یہ منشاء ہرگز نہیں تھا کہ کوئی جعفر کو روئے بلکہ مطلب یہ تھا کہ ہمارا بھائی بھی آخر اس جنگ میں مارا گیا ہے جب ہم نہیں روئے تو تمہیں بھی صبر کرنا چاہیے۔‘‘ یہ سمجھانا چاہتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’کیونکہ حضرت جعفرؓ کے رشتہ دار وہاں یا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے یا حضرت علیؓ تھے اور یہ جس پایہ کے آدمی تھے اس کے لحاظ سے ان کی چیخیں نہیں نکل سکتی تھیں۔‘‘نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چیخیں نکل سکتی تھیں نہ حضرت علیؓ کی۔ ان کو پتہ تھا۔ صحیح ادراک تھا۔ ’’پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباً اس بات کے اظہار کے لیے کہ میرا بھائی جعفرؓ بھی مارا گیا مگر میں نہیں رویا۔ فرمایا جعفرؓ پر تو کوئی رونے والا نہیں۔ انصار نے جب یہ بات سنی تو چونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو پورا کرنے کا بےحد شوق رکھتے تھے اس لیے انہوں نے اپنے اپنے گھر جا کر عورتوں سے کہنا شروع کیا کہ یہاں رونا دھونا چھوڑو اور جعفرؓ کے گھر چل کر روؤ۔ چنانچہ جب سب عورتیں حضرت جعفرؓ کے گھر میں اکٹھی ہو گئیں اور سب نے ایک کہرام مچا دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ آواز سنی تو فرمایا کیا ہوا؟ انصار نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے جو فرمایا تھا کہ جعفرؓ پر کوئی رونے والا نہیں۔ اس لیے ہم نے اپنی عورتیں حضرت جعفرؓ کے گھر بھیج دی ہیں اور وہ رو رہی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا میرا یہ مطلب تو نہیں تھا جاؤ انہیں منع کرو۔‘‘میرا مطلب تو یہ تھا ہم نہیں روئے تم لوگ بھی صبر کرو۔’’چنانچہ ایک شخص گیا اور اس نے انہیں منع کیا۔ وہ کہنے لگیں تم ہمیں کون روکنے والے ہو؟‘‘اس شخص کو انہوں نے کہا۔ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو آج افسوس کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جعفرؓ کو رونے والا کوئی نہیں اور تُو ہمیں منع کرتا ہے۔ وہ یہ جواب سن کر پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کیونکہ بعض لوگوں کو دوسروں کی ذرا ذرا سی بات پہنچانے کا شوق ہوتا ہے‘‘حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں انہوں نے یہ کہا تو فوری طور پر آ کر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کردیا ’’اور عرض کیا کہ وہ مانتی نہیں ‘‘بات میری۔’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کے سروں پر مٹی ڈالو۔‘‘یہ محاورہ ہے۔ ’’مطلب یہ تھا کہ چھوڑو اور انہیں کچھ نہ کہو۔ خود ہی رو دھو کے خاموش ہو جائیں گی۔ مگر اس کو خدا دے۔ اس نے اپنی چادر میں مٹی بھر لی‘‘وہ ظاہری طور پر پورا کرنے لگ گیا ’’اور ان عورتوں کے سروں پر ڈالنی شروع کر دی۔ انہوں نے کہا پاگل! کیا کرتا ہے ؟ وہ کہنے لگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مٹی ڈالو اس لیے میں تو ضرور ڈالوں گا۔‘‘اب ایک تمثیلی زبان ہے اس کو اس نے عملاً پورا کرنا شروع کر دیا۔ ’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اسے ڈانٹا اور فرمایا تُو بات کو تو سمجھا ہی نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء تو یہ تھا کہ ان کا ذکر چھوڑو اور جانے دو۔ وہ خود ہی خاموش ہو جائیں گی۔ یہ مطلب تو نہیں تھا کہ تم مٹی ڈالنا شروع کر دو۔ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک استعارةً کلام تھا مگر وہ واقع میں مٹی ڈالنے لگ گیا۔ تو بعض دفعہ لوگ استعارہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔’’اب یہاں دیکھیں ایک مرد تو نہیں سمجھا کیونکہ اس میں اتنی عقل نہیں تھی لیکن حضرت عائشہؓ نے اس کو سمجھایا۔ ‘‘اور بعض دفعہ لفظی معنے ایسے لے لیتے ہیں جو حقیقت کے خلاف ہوتے ہیں اور اس طرح بات کہیں کی کہیں پہنچ جاتی ہے۔‘‘
(فضائل القرآن(6) انوارالعلوم جلد14صفحہ351تا 353)
اس واقعہ سے
صحابہؓ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا اظہار
بھی ہوتا ہے جس کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ واقعہ ایک اَور جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جب صحابہ نے اپنی عورتوں کو رونے کے لیے حضرت جعفر کے گھر بھیجا تو اس واقعہ سے صحابہ کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو محبت تھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ کے الفاظ نے انہیں یہ سوچنے کا موقع نہیں دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا چاہتے ہیں بلکہ انہوں نے فوراً عورتوں سے کہہ دیا کہ اپنے غم کو بھلا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غم میں شریک ہو جاؤ اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ ان کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیسا عشق تھا کہ وہ یہ فقرہ سن کر ہی کہ جعفر کے گھر سے تو رونے کی کوئی آواز نہیں آ رہی یہ خیال کر لیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں کی شہادت پر رو کر غلطی کی اصل غم تو وہی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بظاہر یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے مگر جذبات کے اظہار کے لیے اس سے بہتر واقعات بہت کم مل سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی خدمات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھیں۔ جن کی قربانیاں ہر لمحہ اور ہر آن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے ہوا کرتی تھیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ لوگ ایسی محبت رکھتے تھے کہ جس کی نظیر کسی دنیوی رشتہ میں نہیں مل سکتی۔ پس اگر دنیا کے لحاظ سے دیکھا جائے، اگر احساسات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کے خیالات کی پاسداری زیادہ ہونی چاہیے تھی اور ہماری نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کم ہونی چاہیے تھی۔ یعنی ہم جو اس زمانے کی، بعد کے زمانے کی پیداوار ہیں۔ ہمارے سے تو بہت کم ہونی چاہیےتھی وہ تو ہر وقت محبت کا اظہار کرنے والے تھے۔ آپؓ کے سامنے تھے لیکن آپ فرماتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر محدود محبت نے جہاں تک انسانی محبت غیر محدود ہو سکتی ہے یہ پسند نہ کیا کہ وہ تمہاری ہمتوں کو پست ہونے دیں۔ یعنی اس زمانے کے ہم لوگ جو ہیں ہماری ہمتوں کو بھی پست نہیں ہونے دیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے یہ بھی پسند نہ کیا کہ وہ درمیانی امت کی ہمت کو پست ہونے دیں۔ چنانچہ ایک مجلس میں آپ نے بعد میں آنے والے لوگوں کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا کہ میرے بھائی جو میرے بعد آنے والے ہیں وہ ایسے ہوں گے۔ صحابہ ؓکو یہ سُن کر رشک پیدا ہو ا اور انہوں نے عرض کیا کہ وہ بھائی ہوئے اور ہم نہ ہوئے ہم آپؐ کے ساتھ رہتے ہیں ہمیں آپ نے بھائی نہیں کہا اور ان کو جو بعد میں آنے والے ہیں ان کو آپ اپنا بھائی کہہ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم صحابہ ہو اور وہ میرے بھائی ہیں۔ تم میرے صحابی ہو وہ میرے بھائی ہیں۔ تمہیں کیا یہ کم نعمت حاصل ہے کہ تم مجھے دیکھ رہے ہو اور میرے ساتھ رہ کر خدماتِ دینیہ بجا لا رہے ہو؟ یہ بہت بڑی نعمت ہے جو تمہیں ملی ہوئی ہے اور وہ لوگ جو مجھے نہیں دیکھیں گے، بعد میں آنے والے ہیں اور وہ لوگ جو میرے بعد آئیں گے مجھے کوئی لفظ ان کے متعلق بھی تو بولنے دو۔ ان کے متعلق بھی تو مجھے کہنے دو۔ ان کے متعلق کیا لفظ استعمال کروں تا انہیں بھی تسلی ہو اور ان کے حوصلے بھی بلند ہوں۔ یہ اس طرح بعد میں آنے والوں کے حوصلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند کیے۔ چنانچہ
دیکھ لو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے حوصلے کس قدر بڑھا دیے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: میں نہیں جانتا میری امت کا پہلا حصہ بہتر ہے یا آخری حصہ بہتر ہے۔
(ماخوذ از خطبات شوریٰ جلد دوم صفحہ505تا 507،اختتامی خطاب مجلس مشاورت 24 مارچ 1940ء)
شہدائے مُؤتہ کے بارے میں
مزید اَور روایات ہیں۔ علامہ ابن کثیر کی کتاب بدایہ والنہایہ میں شہدائے مُؤتہ کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ان شہداء کی تعداد بارہ تھی۔ بعض روایات میں شہداء کی تعداد زیادہ بھی بیان ہوئی ہے لیکن بہرحال یہ بہت بڑا معجزہ ہے کہ دو لشکر آمنے سامنے ہوں۔ ایک کی تعداد تین ہزار ہو جو خدا کی راہ میں لڑرہا ہو۔ جبکہ دوسرے لشکر کی تعداد دو لاکھ ہو جو مخالف ہے۔ ایک لاکھ آدمی رومی اور ایک لاکھ عیسائی۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ معرکہ آزما ہوں۔ پھر بھی مسلمانوں کے صرف بارہ افراد شہید ہوئے ہیں یا بہت تھوڑی تعداد میں افراد شہید ہوئے اور مشرکین کی کثیر تعداد واصل جہنم ہو۔ حضرت خالد تنہا کہتے ہیں کہ اس روز میرے ہاتھوں میں نوتلواریں ٹوٹیں ایک یمنی تلوار تھی جو میرے ہاتھوں میں ٹھہر سکی۔ ان ساری تلواروں سے کتنے مشرکین واصلِ جہنم ہوئے ہوں گے۔
مسلمانوں کے مدینہ واپس آنے کے بارے میں اور
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے بارے میں
لکھا ہے کہ مسلمان واپسی میں ایک بستی کے پاس سے گزرے جس کا ایک قلعہ تھا۔ جاتے ہوئے یہاں کے باشندوں نے ایک مسلمان کو شہید کر دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس کا محاصرہ کر لیا حتیٰ کہ انہوں نے اسے فتح کر لیا۔ حضرت خالدؓ نے اس کے سرداروں کو قتل کیا۔جب مسلمان مُؤتہ سے واپس آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے ان کااستقبال کیا۔ جب آپ واپس آ گئے تو بعض لوگ جو تھے ان کو بڑا غصہ تھا کہ یہ شہید ہو کے کیوں نہیں آئے، یہ تو کوئی فتح نہیں ہوئی اور بعض لوگ لشکر پر مٹی پھینکنے لگے اور کہنے لگے کہ اے راہ فرار اختیار کرنے والو! تم اللہ کی راہ سے بھاگ نکلے ہو۔انہوں نے طعنہ دیا ان کو۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یہ فرار ہونے والے نہیں بلکہ کَرَّار ہیں یعنی پلٹ کر حملہ کرنے والے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب مسلمان مُؤتہ سے واپس آئے تو مَیں بھی واپس آگیا۔ دوسری روایت میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم شرمندہ تھے کہ ہم نے راہِ فرار اختیار کی ہے۔ ہمارا یہ خیال تھا کہ ہم وہاں چھوڑ کے آ گئے۔ حالانکہ دشمن تو وہاں سے خود ہی پیچھے ہٹ گیا تھا اور انہوں نے ان کا پیچھا نہیں کیا بلکہ انہوں نے موقع غنیمت جانا اور واپس آ گئے اور یہ حکمت عملی تھی اچھی لیکن اس کو بھی بعض لوگوں نے راہِ فرار سمجھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم شرمندہ تھے کہ ہم نے راہِ فرار اختیار کیا۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ ہم نے کہا کہ اگر ہم مدینہ گئے تو ہمیں قتل کر دیا جائے گا۔ ہم رات کے وقت مدینہ میں داخل ہو کر چھپ گئے۔ بعض اتنے شرمندہ تھے کہ رات کو داخل ہوئے اور چھپ گئے مگر کہتے ہیں کہ ہم نے کہا کہ کاش! ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو جائیں۔ آپؐ کی خدمت میں معذرت پیش کریں۔ اگر تو وہ توبہ قبول ہو گئی تو بہتر ورنہ ہم چلے جائیں گے یعنی پھر جنگ کے لیے تیار ہو کر چلے جائیں گے یا وہاں سے چلے جائیں گے۔ ہم نماز فجر سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ آپ نے دریافت کیا کون ہے؟ ہم نے جواب دیا راہ فرار اختیار کرنے والے۔ شرمندہ تھے خود ہی کہہ دیا ہم وہ ہیں جو وہاں سے دوڑ آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تم پلٹ کر حملہ کرنے والے ہو۔ مَیں تمہارا گروہ ہوں یا فرمایا: میں ہر مسلمان کا گروہ ہوں۔ اس پر ہم نے آپؐ کے ہاتھوں کو چوم لیا۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 6صفحہ 154تا 156دار الکتب العلمیۃ بیروت)(غزوات النبیؐ ازابوالکلام آزاد صفحہ177ناشر سٹی بک پوائنٹ کراچی)بڑی شفقت کا سلوک فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
پھر ایک سریہ کا ذکر ہے یہ
سریّہ حضرت عمرو بن عاصؓ
کہلاتا ہے۔ یہ سریہ جُمَادی الثانی آٹھ ہجری میں ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سریہ سات ہجری میں ہوا۔ ابن اسحاق کے علاوہ سب اس پر متفق ہیں کہ یہ سریہ غزوہ مُؤتہ کے بعد ہوا اور غزوہ مُؤتہ جُمَادَی الْاُولیٰ آٹھ ہجری میں ہوا تھا۔
اس سریّہ کا سبب
یہ بنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ بنو قُضَاعَہکا ایک گروہ مدینہ کے اطراف میں حملہ کرنے کے لیے اکٹھا ہو رہا ہے۔ بنو قُضَاعَہ، قحطانیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ سے دس دن کے فاصلے پر وادی القرٰی سے آگے آباد تھا۔
اس کے بارے میں مزید بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سرکوبی کے لیے حضرت عمرو بن عاصؓ کو روانہ فرمایا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ مکہ کے ایک سردار عاص بن وَائِل کے بیٹے تھے انہوں نے سات ہجری میں یا دوسری روایت کے مطابق آٹھ ہجری میں اسلام قبول کیا تھا۔
حضرت عمرو ؓکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پیغام بھیجا کہ میں اپنے کپڑے اور ہتھیار لے لوں اور فرمایا کہ اے عمرو! میں چاہتا ہوں کہ تمہیں ایک لشکر پر امیر بنا کر بھیجوں۔ اللہ تمہیں مال غنیمت بھی دے گا اور تمہاری حفاظت بھی کرے گا۔ حضرت عَمروؓ نے عرض کیا کہ مَیں نے مال کی غرض سے تو اسلام قبول نہیں کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیک آدمی کے لیے حلال مال کا ہونا کیا ہی اچھا ہے۔ تم نے تو نہیں قبول کیا لیکن اللہ تعالیٰ دے تو بہت ہی اچھی بات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو کی زیر قیادت مہاجرین اور انصار پر مشتمل تین سو افراد کا لشکر تیار کیا جن میں تیس گھڑ سوار تھے۔ آپ نے حضرت عمروؓ کے لیے ایک سفید رنگ کا جھنڈا باندھا اور ساتھ ایک سیاہ رنگ کا جھنڈا بھی دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو کو نصیحت فرمائی کہ رستے میں بنو بَلِیّ،عُذْرَہ،بَلْقَیْنمیں سے کوئی ان کے پاس سے گزرے تو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کریں۔
حضرت عمرو جنگ میں خاص مہارت رکھتے تھے اور فنونِ حرب سے بھی آگاہی رکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کی جنگی مہارت کی وجہ سے امیر بنایا تھا۔
(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد3صفحہ357تا 359، 361دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(اسد الغابہ جلد4صفحہ 232دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ237زیر لفظ قضاعہ)
حضرت عمرو کو اس سریہ پر بھیجنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چونکہ ان کی دادی کا تعلق قبیلہ بَلِیّ سے تھا۔ اس لیے بنو بَلِیّ سے اچھے تعلقات استوار کرنے کے لیے آپ ایک اچھا ذریعہ ہو سکتے تھے۔
(سیرۃ ابن ہشام صفحہ 879دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اسلامی لشکر روانہ ہوا۔ یہ رات سفر کرتا تھااور دن کے وقت چھپ جاتا تھا یہاں تک کہ وہ قبیلہ جُذَام کے علاقے میں سَلَاسِلْ نام کے ایک چشمہ کے قریب پہنچ گیا۔ اس چشمہ کی مناسبت سے اس سریہ کو سریہ ذات سَلَاسِلْ بھی کہا جاتا ہے۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ167دارالکتب العلمیۃ بیروت)
مدینہ سے مزید کمک منگوانے کا ذکر
بھی ملتا ہے کہ چشمہ کے قریب پہنچنے پر مسلمانوں کو علم ہوا کہ دشمن کا لشکر بہت بڑا ہے۔ حضرت عمروؓ نے مزید امداد کے لیے حضرت رافع بن مَکِیْث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعُبَیْدہ بن جَرَّاحؓ کے لیے جھنڈا تیار کیا اور دو سو مہاجرین اور انصار کا لشکر ان کے ساتھ روانہ کیا۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓبھی ان میں شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہؓ کو روانہ کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ پہنچنے کے بعد حضرت عمروؓ کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ایک ہی لشکر بن جائیں اور باہم اختلاف نہ کریں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ دونوں اتفاق سے رہیں اور آپس میں اختلاف نہ ہو اور حضرت عمروؓ ہی کمانڈر ہوں گے۔
اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ اس موقع پر ایک دفعہ مسلمانوں نے آگ جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کیں تاکہ وہ سردی سے بچنے کے لیے آگ تاپ سکیں لیکن حضرت عمرو نے انہیں منع کر دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت عمرو نے آگ جلانے سے منع کیا تو حضرت عمر ؓکو غصہ آیا اور ان کے پاس جانا چاہا لیکن حضرت ابوبکرؓ نے انہیں روک دیا اور بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کی جنگی مہارت کی وجہ سے ہی امیر بنایا ہے۔
(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد 3صفحہ 359تا 361دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 6صفحہ168دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت عمروؓ جب واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے آگ جلانا اس لیے ناپسند کیا کہ دشمن ہماری کم تعداد دیکھ کر مزید کمک منگوا کر ہم پر حملہ نہ کر دے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف کی۔
(السیرۃ الحلبیہ جلد 3صفحہ 269دارالکتب العلمیۃ بیروت)
بہرحال تفصیل میں لکھا ہے کہ مسلمان وہاں سے چل پڑے یہاں تک کہ دشمن کے علاقے میں پہنچ کر اسے روند ڈالا اور اس پر غالب آ گئے۔ یہاں تک کہ جب مسلمان اس جگہ پہنچے جہاں انہیں دشمن کے جمع ہو نے کی خبر ملی تھی تو دشمن مسلمانوں کی خبر پاکر بھاگ گئے اور منتشر ہو گئے۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا تو دشمن کے ایک چھوٹے سے گروہ سے ان کا مقابلہ ہوا جس پر انہوں نے حملہ کر کے انہیں شکست دی اور باقی سب بھاگ گئے۔ مسلمان چند دن یہاں ٹھہرے رہے اور جہاں بھی دشمن کے کسی گروہ کے متعلق سنتے تو اس سےمقابلہ کے لیے گھڑ سوار بھیجتے جو ان سے مقابلہ کرتے اور بکریاں اور اونٹ لے کر واپس آتے۔ مسلمان واپس مدینہ آنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ حضرت عمرو نے عوف بن مالک اشجعی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگے روانہ کیا تاکہ ان کی واپسی، سلامتی اور جنگ کے حالات کے متعلق آپؐ کو آگاہ کریں۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 6صفحہ168دارالکتب العلمیۃ بیروت )
پھر ایک
سریّہ حضرت ابوعُبَیْدہ بن جَرّاحؓ
ہے۔ یہ سریہ رجب آٹھ ہجری میں ہوا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی کتاب کے آخر میں مجوزہ عناوین درج کیے ہیں اس کے مطابق سریہ حضرت ابوعبیدہ رجب آٹھ ہجری بمطابق نومبر 629ء میں ہوا۔
(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 840)
اس سریہ کے دیگر نام بھی ہیں۔ اس سریہ کو سریہ سِیْفُ الْبَحْر اور سریہ خَبَطْ بھی کہا جاتا ہے۔ سِیْفُ الْبَحْرکے معنی ساحل سمندر کے ہیں۔ اس سریہ میں چونکہ صحابہ بحیرۂ احمر Red Sea کے ساحل پر جا کر ٹھہرے تھے اس لیے اسے سریہ سِیْفُ الْبَحْرکہا جاتا ہے۔ اسے سریہ خَبَطْ یعنی پتے کھانے والا لشکر اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس سریہ کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ صحابہ درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔
اس سریہ کے امیر حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تین سو مہاجرین اور انصار صحابہ کا ایک لشکر دے کر بنو جُہَیْنَہ کی ایک شاخ کی طرف بھیجا اس لشکر میں حضرت عمر بھی شامل تھے۔ بنو جُہَیْنَہقبیلہ مقام پر آباد تھے۔ قبیلہ مدینہ سے پانچ راتوں کی مسافت پر ساحل سمندر کے قریب ایک مقام ہے۔ اس سریہ کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قریش مکہ کا ایک قافلہ جو اناج لے کر ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ شام سے مکہ جا رہا تھا اس پر جُہَیْنَہ کے ایک قبیلہ کی طرف سے حملہ کا خطرہ تھا۔ یہ صلح حدیبیہ کا زمانہ تھا اور چونکہ جُہَیْنَہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف تھے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے ایک حفاظتی دستہ بطور احتیاط ان کی طرف بھیج دیا تا کہ شام سے آنے والے قریشی قافلے سے تعرض نہ ہو اور قریش کو نقض معاہدہ کا بہانہ نہ مل جائے۔ ان کی حفاظت کے لیے یعنی قریش کے قافلے کی حفاظت کے لیے بھیجا تھا تا کہ یہ کہیں اس قبیلہ پر جو وہاں رستے میں آباد ہے حملہ نہ کر دے کیونکہ صلح حدیبیہ ہو چکی تھی اور ان کی حفاظت بھی فرض تھا۔آپ نےعہد کی پابندی کرنی تھی اس لیے آپؐ نے یہاں سےتین سو آدمیوں کا فوجی وفد بھیجا کہ ان کی حفاظت کریں تا کہ وہ یعنی قریش کا قافلہ آرام سے وہاں سے گزر جائیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اصحاب کسی سے لڑنے کے لیے نہیں گئے تھے۔ اس لیے پندرہ دن سے زائد عرصہ کے قیام میں کسی لڑائی کا ذکر نہیں ملتا۔
(ماخوذ از سبل الھدیٰ و الرشاد جلد6صفحہ 176 دارالکتب العلمیۃ بیروت )
( بخاری جلد 9 صفحہ 239، شائع کردہ نظارت اشاعت )
اس سریہ پر روانگی اور زادِ راہ کے ختم ہو جانے کے بارے میں ایک تفصیل
اس طرح بیان ہوئی ہے کہ حضرت جابرؓ اس سریہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھیجا۔ ہم تین سو سوار تھے۔ ہمارے امیر حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ تھے۔ ہم نکلے اور ابھی کچھ راستہ ہی طے کیا تھا کہ زادِ راہ ختم ہو گیا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے حکم دیا کہ سب توشے اکٹھے کیے جائیں۔ جو جو تمہارے پاس کھانا سٹاک ہے وہ لے آؤ۔ چنانچہ وہ اکٹھے کیے گئے تو وہ کل دو تھیلے کھجوروں کے بنے۔ حضرت ابوعبیدہ ہمیں ہر روز تھوڑا تھوڑا کھانے کے لیے دیتے یہاں تک کہ وہ بھی ختم ہو گیا۔ پھر ہمیں ایک ایک کھجور ملتی تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر سے پوچھا کہ ایک کھجور تمہاری کیا بھوک دور کرتی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ بھی نہ رہی تو ہم نے اس وقت ایک کھجور کی عدم موجودگی محسوس ہوئی۔ اس وقت جب بالکل کچھ نہ رہا تو ہمیں وہ ایک کھجور بھی غنیمت محسوس ہونے لگی۔ ایک روایت کے مطابق حضرت جابر نے بتایا کہ ہم سارا دن اسی ایک کھجور کو چوستے رہتے اور پھر پانی پی لیتے۔ ہمارے لیے رات تک یہی کافی ہوتی تھی۔
حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ ہم قریش کے تجارتی قافلے کی حفاظت کے لیے نگرانی میں بیٹھ گئے۔ سمندر کے کنارے ہم آدھا مہینہ ٹھہرے رہے اور ہمیں سخت بھوک لگی یہاں تک کہ ہم نے پتے بھی کھائے۔ اسی لیے اس فوج کا نام جیش الخَبْط یعنی پتے کھانے والا لشکر رکھا گیا۔کہتے ہیں ہماری اس خوراک کی وجہ سے ہم بہت کمزور ہو چکے تھے اور ہمارے ہونٹ اور منہ کے اطراف زخمی ہو گئے تھے حتی کہ ایک شخص نے کہا کہ اگر اس حالت میں ہمارا دشمن سے مقابلہ ہو جاتا تو ہم اس مشقت کی وجہ سے جو ہمیں کرنی پڑتی اس کی طرف حرکت بھی نہ کر سکتے، کوئی مقابلہ نہ کر سکتے۔
خوراک کے لیے ایک جگہ یہاں اونٹوں کے ذبح کرنے کا ذکر بھی بیان ہوا ہے۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ لشکر میں ایک شخص تھا جس نے لوگوں کے کھانے کے لیے تین دن تین تین اونٹ ذبح کیے۔ پھر حضرت ابوعبیدہؓ نے اس کو روک دیا۔
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 6 صفحہ 176 دارالکتب العلمیۃ بیروت )
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ سیف البحر روایت 4360، 4361، 4362)
(صحیح البخاری کتاب الشرکۃ باب فی الطعام … حدیث 2483 )
کتب سیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص حضرت قیس بن سعدؓ تھے۔ حضرت قیس بن سعد نے کہا کہ کون مجھ سے ایک اونٹ کے بدلے کھجوریں خریدے گا۔ اونٹ تو میں یہیں پر ذبح کر دوں گا لیکن اس کی قیمت مدینہ جاکر ادا کروں گا۔ یعنی صحابہ کی بھوک کی حالت دیکھ کر انہوں نے کہا کہ مَیں اونٹ خریدتا ہوں اور یہاں ذبح کرکے تمہارے کھانے کا انتظام کرتا ہوں۔ حضرت عمرؓ موجود تھے انہوں نے کہا کہ اس لڑکے پر تعجب ہے کہ اپنے پاس مال تو کچھ ہے نہیں اور دوسرے کے مال میں تصرف کرتا ہے۔ گھر جا کےیہ کہاں سے دے گا ؟ اپنا تو باغ کوئی نہیں۔ حضرت قیس کو جُہَیْنہ کا ایک شخص ملا انہوں نے اس شخص سے کہا کہ مجھے اونٹ بیچو۔ وہاں جو قبیلہ تھا اس سے پھر انہوں نے اونٹ خریدے کہ مَیں اس کی قیمت تمہیں مدینہ میں کھجوروں کی صورت میں دے دوں گا۔ اس آدمی نے کہا کہ میں تو جانتا نہیں کہ تم کون ہو؟ حضرت قیس نے کہا کہ میں قیس بن سعد بن عبادہ ہوں۔ اس شخص نے کہا کہ تم نے اپنے نسب سے یعنی خاندانی تعارف سے مجھے کتنی پہچان کروا دی ہے۔ میرے اور یثرب کے سردار سعد کے درمیان تو دوستی ہے۔ ہم دونوں کے درمیان دوستی ہے۔ حضرت قیس نے اس سے پانچ وسق کھجور کے بدلے پانچ اونٹ خرید لیے یعنی کُل تقریباً کوئی ساڑھے سات سو کلو کھجوریں تھیں۔ اس نے کہا کہ مجھے گواہ دے دو۔ کوئی ضامن بھی ہونا چاہیے۔ اس پر چند مہاجرین اور انصار صحابہ ان کے گواہ بن گئے۔ حضرت عمر نے گواہ بننے سے انکار کر دیا کہ کھجوروں کی بات کر رہا ہے اور یہ مال تو اس کا ہے ہی نہیں بلکہ ان کے والد کا ہے۔ کھجوروں کے باغ تو اس کے والد کے ہیں یہ کہاں سے دے گا؟ بہرحال جب یہ لشکر مدینہ واپس آیا تو حضرت سعدؓ نے حضرت قیسؓ سے پوچھا کہ جب صحابہ کرام ؓبھوکے تھے تو تم نے کیا کیا؟ انہوں نے کہا میں نے اونٹ ذبح کیا۔ حضرت سعد نے پوچھا پھر کیا کیا؟ حضرت قیس نے کہا میں نے پھر اونٹ ذبح کیا۔ حضرت سعدؓ نے پوچھا پھر کیا کیا؟ حضرت قیس نے کہا میں نے پھر اونٹ ذبح کیا۔ حضرت سعد نے پوچھا پھر کیا کیا؟ حضرت قیس نے کہا پھر مجھے منع کر دیا گیا۔ حضرت سعد نے پوچھا کس نے منع کیا تھا؟ حضرت قیس نے بتایا کہ حضرت ابو عبیدہ نے۔ پھر پوچھا کہ کیوں منع کیا تھا؟ تو حضرت قیس نے بتایا کہ ان کا کہنا تھا کہ میرا کوئی مال نہیں بلکہ میرے والد کا ہے۔ حضرت سعد نے کہا کہ میں تمہیں چار باغ دیتا ہوں۔ اس پر ان کے والد خوش ہوئے۔ انہوں نے کہا میں تمہیں چار باغ دیتا ہوں ان میں سے سب سے کم درجہ باغ جو ہے وہاں سے بھی تمہیں پچاس وسق کھجوریں ملیں گی۔ کافی بڑی تعداد ہے، کئی سو کلو ہیں۔ حضرت سعد نے ایک تحریر لکھ دی اور حضرت ابوعبیدہ وغیرہ کو اس پر گواہ بنا دیا۔ بنو جُہَیْنہکا شخص بھی حضرت قیس کے ساتھ مدینہ آیا تھا۔ حضرت سعد نے اسے کھجوریں دیں۔ اسے سواری دی اور پوشاک پہنائی۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپؐ نے فرمایا: سخاوت تو اس گھرانے کی جبلت میں شامل ہے۔
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 6 صفحہ 177، 178دارالکتب العلمیۃ بیروت )
(لغات الحدیث جلد 2 صفحہ 648، جلد 4 صفحہ 487 )
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اس واقعہ کے متعلق تشریح میں لکھتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کا شدت بھوک میں غایت درجہ صبر سے کام لینا اور کسی قافلے یا بستی سے خوراک کے لیے تعرض نہ کرنا دلیل ہے کہ غزوہ مذکور کا تعلق کسی جنگ سے نہ تھا اور نہ ان کے نفوس زکیہ چیرہ دستی جائز سمجھتے تھے یعنی پاک نفس جو تھے وہ کوئی ظلم اور زبردستی کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔
(بخاری جلد 9 صفحہ 240، شائع کردہ نظارت اشاعت)
بہرحال
اللہ تعالیٰ نے بھی اس دوران میں اُن کی بھوک کو مٹانے کا یہاں ایک انتظام کیا۔
اس کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت جابر اس سریہ کے مزید حالات بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے ہی بیان کیا ہے کہ سمندر نے ہمارے لیے ایک بڑے ٹیلے جیسی مچھلی جسے عنبر کہتے ہیں سمندر سے باہر پھینک دی۔ یہ عنبر بڑی مچھلی ہے۔ وہیل مچھلی کہہ لیں اس کو۔ علامہ ازہری کہتے ہیں کہ عنبر سمندر کی ایک بہت بڑی مچھلی ہے جس کی لمبائی پچاس گز تک پہنچ جاتی ہے۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ ہم اس کا گوشت آدھا مہینہ اور دوسری روایت کے مطابق اٹھارہ دن یا ایک ماہ تک کھاتے رہے۔ وہاں رہنے اور واپس آنے تک کھاتے رہے اور اس کی چربی بدن پر ملا کرتے یہاں تک کہ ہمارے جسم پھر ویسے کے ویسے تازہ ہو گئے۔ بھوک کی وجہ سے جو کمزوری ہو گئی تھی وہ دور ہو گئی۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ اس مچھلی کی آنکھیں بڑے بڑے مٹکوں کی طرح تھیں۔ ہم نے اس سے کئی مٹکے تیل نکالا اور اس کے جسم کے بڑے بڑے ٹکڑے کاٹ لیے اور اس کا کچھ گوشت بازاروں میں جا کر بھی بیچا۔
(کتاب العطمۃ جزء 4 صفحہ 1398 روایت نمبر914 از علامہ ابوالشیخ الاصبھانی)
اس مچھلی کی آنکھ میں بیٹھنے کے حوالے سے دو طرح کی روایات
ہیں۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ ہم کل چھ افراد مچھلی کی آنکھ میں بیٹھ گئے جبکہ ایک روایت میں تیرہ افراد کے بیٹھے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ حضرت ابوعبیدہ نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی اور ایک روایت کے مطابق دو پسلیاں لیں اور ان کوکھڑا کیا اور سب سے لمبے شخص حضرت قیس کو سب سے اونچے اونٹ پر بٹھایا اور وہ دونوں اس کے درمیان سے گزر گئے اور ان پسلیوں کو چھوا تک نہیں۔
مدینہ واپسی کے بارے میں لکھا ہے حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ جب ہم مدینہ آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم نے اس مچھلی کا ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا جو رزق اللہ تعالیٰ نے نکالا ہو اسے تم کھاؤ اور اگر تمہارے پاس کچھ ہو تو اس میں سے ہمیں بھی کھلاؤ۔ ان میں سے کسی نے آپؐ کو ایک حصہ دیا اور آپ نے اس کو کھایا۔
(ماخوذ از سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 6 صفحہ 177-178دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ سیف البحر روایت 4360، 4361، 4362)
(نعمۃ الباری جلد 7 صفحہ 747 ضیاءالقرآن پبلیکیشنز کراچی)
(فتح الباری جلد 8 صفحہ 100 قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)
(سیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 270 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اس کا یہ ذکر یہاں ختم ہوا۔ کوشش تو میری یہ تھی کہ یہ جلدی ختم ہو جائے تا کہ دوسرے مضامین بھی شروع ہوں لیکن کچھ جنازوں کا، شہداء کا ذکر آتا رہا اس لیے اس میں سے ابھی بھی کچھ حصہ رہتا ہے پھر آخر میں فتح مکہ کا بھی ذکر آئے گا۔ بہرحال یہ ذکر ابھی چل رہا ہے لیکن آج میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں، گذشتہ جمعہ بھی میں نے کہا تھا کہ
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو جنگ کی صورتحال ہے اس بارے میں بہت دعا کریں کہ آپس میں صلح اور امن کی فضا قائم ہو جائے
کیونکہ جنگوں میں آجکل جو ہتھیار استعمال ہو تے ہیں اس سے شہری بھی مارے جاتے ہیں اور اب جو جنگ کی نئی صورت بن رہی ہے اس میں مارے جا رہے ہیں۔ پس
دعا کرنی چاہیے کہ دونوں فریقین صلح پر راضی ہوں اور بڑے نقصان سے بچ جائیں۔
اس حوالے سے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ
آجکل سوشل میڈیا پر یا انٹرنیٹ کے اَور جو ذرائع ہیں، الیکٹرانک میڈیا جو بھی ہے، میسجز ہیں۔ اس پر ہر ایک بڑے آزادانہ تبصرے کر دیتا ہے اور اپنی مرضی سے جو چاہے وہ کہہ دیتا ہے جس سے فائدہ کم ہے اور نقصان زیادہ ہے۔
اپنی طرف سے بڑا اظہار ہو رہا ہوتا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔
احمدیوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ یہ اظہار جو ہے اس کا فائدہ کم ہے اور نقصان زیادہ ہے۔ اگر کسی کو پیغام دینے کی بہت زیادہ خواہش ہے تو امن اور سلامتی کا پیغام دیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی اپنی زندگی کے آخر میں جو پیغام صلح تصنیف فرمائی تھی اس میں آپؑ نے یہی پیغام دیا تھا کہ امن اور صلح کا پیغام تھا۔ اس لیے اسے ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہیے اور اسی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سب کو معصوم جانوں کے نقصان سے بچائے۔ بعض بڑی طاقتیں بھی لگتا ہے اسے ہوا دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ دونوں طاقتیں لڑیں اور کمزور ہوں اور ان کا اسلحہ بھی بکے۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے بھی بچائے۔
اسی طرح
فلسطین کے عوام کے لیے بھی دعا کریں۔
اللہ تعالیٰ ان کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرے اور یہ امن سے اپنے ملک میں رہ سکیں لیکن بظاہر یہ لگتا ہے کہ امن کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ کوشش یہی ہے کہ ان کو کسی طرح یہاں سے نکالا جائے اور اس میں سب طاقتیں شامل ہو رہی ہیں۔
مسلم ممالک کو اللہ تعالیٰ عقل دے اور وہ ایک ہو جائیں۔ اگر وہ ایک ہو جائیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
اگر عالمی جنگ ہوئی تو بعض لوگوں کا، بعض ملکوں کا یہ خیال غلط ہے کہ وہ بچ جائیں گے۔ یہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
پس اس غلط فہمی سے ہر ایک کو بچنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے۔ بہرحال
اس کا حل صرف اور صرف جیسامیں ہمیشہ کہتا ہوں یہی ہے کہ
خدا تعالیٰ کی طرف جھکیں اور وہی ایک راستہ ہے جو ان کو بچا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔
اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔