خطبہ عیدالاضحی سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13ستمبر 2016ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

ہم اس بات کو قرآن کریم میں پڑھتے بھی ہیں اور اس کو ہماری تقریروں اور خطبات میں بار بار بیان بھی کیا جاتا ہے۔ مَیں نے بھی شاید دسیوں مرتبہ اس حوالے سے بات کی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ  وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن(الذاریات57:)۔  اور نہیں پیدا کیا جنّ و انس کو مگر اس لئے کہ وہ میری عبودیت اختیار کریں۔ یعنی انسان کی پیدائش کا اگر کوئی مقصد ہے تو یہی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کامل بندگی اختیار کرے۔ کامل عبد بنے۔

                عبد بننا کیا ہے؟ یَعْبُدُوْن کے کیا معنی ہیں؟ اس کے معنی ہیں کہ کامل غلامی اور تمام تر طاقتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ خدمت گزاری، عبادت کا حق ادا کرنا۔ یعنی ایسی عبادت جو دل کی گہرائی سے ہو ،اور پیار سے ہو بوجھ نہ بنے۔ ایسا پیار جو سوائے خدا تعالیٰ کے کسی سے نہ ہو۔ کامل فرمانبرداری اور تذلّل اختیار کرنا۔

                ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی بے شمار مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ذمہ مختلف کام لگائے ہوئے ہیں اور وہ سب اپنے اپنے دائرے میں اپنے کام کر رہے ہیں۔ گویا وہ خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کر رہے ہیں  لیکن اس کے مقابلہ میں انسان ہے اس کو بھی خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ مَیں نے تمہارے سپرد ایک کام کیا ہے۔ وہ کام کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ اپنے مقصد پیدائش کو پہچانو۔ اس مقصد کو حاصل کرو جو تمہارے ذمہ لگایا گیا ہے ،جو تمہاری پیدائش کا مقصد ہے۔ لیکن کتنے انسان ہیں جو اس بات پر عمل کرتے ہیں۔ دنیا کے باقی انسانوں کو تو چھوڑیں، ہم مسلمانوں میں سے دیکھتے ہیں کہ کتنے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے کامل فرمانبرداری ،اطاعت اور دل کی گہرائی سے اللہ تعالیٰ کے لئے ایک خاص پیار کا جذبہ لئے ہوئے اس کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر ہم اعداد و شمار اکٹھے کریں تو بہت کم ایسے ہوں گے۔ بلکہ رسمی طور پر اوپرے دل کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے بہت کم ہیں۔ اکثریت تو نمازیں ہی نہیں پڑھتی۔ یہ عجیب بات ہے کہ دوسری اشیاء کے سپرد ایک کام کیا گیا اور وہ اسے سرانجام دے رہی ہیںا ور نافرمانی نہیں کر رہیں۔ لیکن انسان کو واضح طور پر بتایا گیا کہ تمہاری زندگی کا ایک مقصد ہے جو خدا تعالیٰ نے تمہارے سامنے رکھا ہے جسے تم نے پورا کرنا ہے لیکن انسان اس کی نافرمانی اور خلاف ورزی کرتا ہے۔ گویا دوسری مخلوق اور اشیاء اپنے سپرد کام کو فرمانبرداری سے کر رہی ہیں لیکن انسان میں وہ فرمانبرداری نہیں ہے۔ یہ کیوں ہے؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے صرف انسان کو ہی حق دیا کہ وہ اپنی مرضی کر سکتا ہے اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے اپنے مقصد پیدائش کو سمجھے جو کامل تذلل اختیار کرنا اور مکمل طور پر خشوع اور عاجزی دکھانا اور اپنی تمام محبت اپنا تمام پیار اور اپنے تمام تعلقات خدا کے لئے ہی کر دینا ہے۔ برائیوں اور تکبر کو مکمل طور پر چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے آگے جھکنا ہے۔ اس کے نتیجہ میں پھر خدا تعالیٰ بھی انسان پر جھکتا ہے اور اس کی طرف آتا ہے اور اسے اپنی محبت اور پیار سے نوازتا ہے۔ گویا انسان کو پیدا کر کے اللہ تعالیٰ نے نافرمانی اور فرمانبرداری کے دو دائرے دے دئیے۔اور انسان کا مقصد پیدائش بتا کر یہ کہا کہ میری اطاعت اور فرمانبرداری کے دائرے میں رہو گے تو میرے کامل عبد بنتے ہوئے میرے انعامات کے بھی وارث بنو گے جن کی کوئی حد نہیں ہے۔ اس میں بڑھتے چلے جاؤ گے ۔جبکہ دوسری مخلوق کا صرف ایک دائرہ ہے جس کے اندر رہ کر اس نے وہ کام کرنا ہے۔ اس لئے اس کے پاس سوائے فرمانبرداری کے اور کوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں۔ جب کوئی دوسرا راستہ نہیں تو پھر ان کے لئے ثواب اور انعام بھی نہیں ہے۔ ان میں یہ طاقت اور مادہ ہی نہیں کہ دو چیزوںمیں سے ایک کو اختیار کریں۔

               پس اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت صرف انسان میںرکھی ہے کہ اس کے پاس دو راستے ہیں جنہیں وہ اختیار کر سکتا ہے ۔ایک اپنے مقصد پیدائش کو پورا کرنے کا ،خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کا ،اس کے لئے تذلّل اختیار کرنے کا ۔اور دوسرا اس مقصد کو پورا نہ کر کے اور اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں میں شامل ہو کر اس کی عبودیت سے باہر نکل کر عبدِ شیطان بننے کا۔ اور اس کے نتیجہ میں پھر انسان اللہ تعالیٰ کی سزا کا بھی مستحق بنتا ہے۔

               پس اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کر کے، اس کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کر کے انسان اللہ تعالیٰ کا حقیقی عابد بن سکتا ہے اور یہ خصوصیت صرف اور صرف انسان کو دی گئی ہے حتی کہ ملائکہ کو بھی یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے۔ فرشتوں کو بھی یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا انسان پر احسان ہے کہ اس نے اسے ایک ایسا مقصد پیدائش دیا ہے جس کو حاصل کر کے وہ خدا تعالیٰ کے بہت ہی پیاروں میں شامل ہو سکتا ہے بلکہ اس مرتبہ و مقام پر پہنچ سکتا ہے جہاں فرشتے بھی نہیں پہنچ سکتے۔ پس خوش قسمت ہے انسان کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کر کے اپنی باقی مخلوق سے افضل کر دیا۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مَیں نے جو تمہیں طاقتیں اور صلاحیتیں اور استعدادیں عطا کی ہیں اور جو دماغ اور سوچ میں نے تمہیں عطا کی ہے جو کسی دوسری مخلوق کو عطا نہیں کی گئیں اسے میرے پیار، میری فرمانبرداری ،میرے لئے کامل اطاعت، میری عبادت میں خرچ کرو گے اور اپنے مقصد پیدائش کو پورا کرو گے تو میرا پیار حاصل کرنے والے بن جاؤ گے۔

               جیسا کہ مَیں نے کہا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہوا ہے کہ اچھائی اور برائی کے کس راستے کو اس نے چننا ہے۔ برائیاں یا دنیاوی کششیں انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ بعض دفعہ آزمائش کے طور پر یہ سامنے آ جاتی ہیں۔ بعض دفعہ انسان نیکیوں پر چل رہا ہوتا ہے کوئی ایسی چیز راستے میں آ جاتی ہے جو اسے اس راہ سے بھٹکانے والی ہو۔ اور آجکل کی دنیا میں تو قدم قدم پر ایسی چیزیں ہیں جو ایک نیکیوں پر چلنے والے کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں یا کھینچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اگر انسان ان سے بچ جائے اور اسے اپنا مقصد پیدائش یاد آ جائے تو اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں کو بہت نوازنے والا ہے اس دنیاوی کوشش سے بچنے والے کے بھی درجات بڑھا دیتا ہے۔ لیکن انسان کو مقصدِ پیدائش بتا کر سب سے بڑا احسان جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کیا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے فرستادے بھیجتا ہے، اپنے پکارنے والے بھیجتا ہے جو بندوں کو ان کے مقصد پیدائش کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ جو انسانوں کو برائیوں میں گرنے سے بچاتے ہیں اور بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔جو انسانوں کو صراط مستقیم سے پھسلنے سے بچاتے ہیں۔ جو نیکی اور بدی کی تمیز سے انسان کو آگاہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ذکر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یوں فرماتا ہے جو ایک دعا کے رنگ میں بھی ہے کہ  رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ(آل عمران194:)۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے ہمارے ربّ! یقیناً ہم نے ایک منادی کرنے و الے کو سنا جو ایمان کی منادی کر رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ۔ پس ہم ایمان لے آئے۔ اے ہمارے ربّ! پس ہمارے گناہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ موت دے۔

               پس یہ مُنادی وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اور انسان کو اس کا مقصد پیدائش بتانے کے لئے آتے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے راستے دکھانے کے لئے آتے ہیں۔ پس خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو پکارنے والے کی آواز کو سنتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے ایک پکارنے والے کی آواز کو سنا، وہ پکارنے والا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس مُنادی نے ،اس پکارنے والے نے کیا آواز دی ،کس طرف بلایا؟کیا کسی تجارت کی طرف بلایا ؟کیا کسی دنیاوی مفاد کی طرف بلایا ؟کیا مال و اسباب دینے کی طرف بلایا؟نہیں ۔بلکہ وہ ایک ایسے مُنادی کی آواز ہوتی ہے جو یہ اعلان کرتا ہے کہ لوگو تم مان لو ۔کیا مان لو ؟کس کی مان لو؟ وہ کہتا ہے کہ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ۔ اپنے رب کو مانو۔ اس کو مان لو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے، تمہاری پرورش کی ہے، تمہیں ادنیٰ حالت سے اوپر لا کر ترقی دینے کے انتظام کئے ہیں ،تمہیں بڑے درجے تک ترقی بھی دی ہے۔ اس کے احکامات کو قبول کرو۔ اللہ تعالیٰ کے شکرگزار بندے بنتے ہوئے اس کے حکم کو مانتے ہوئے اپنے مقصد پیدائش کو پورا کرو۔ پس اس مُنادی کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ فَاٰمَنَّا۔ پس ہم ایمان لے آئے۔ اور ساتھ ہی اپنے رب سے یہ دعا بھی مانگتے ہیں، عاجزی سے اس کے حضور عرض کرتے ہیں کہ رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا۔ کہ اے ہمارے ربّ! ہمارے گناہ بخش دے۔ ہمارا ماننا اور اس پر قائم رہنا تیرے خاص فضل کے بغیر ممکن نہیں۔ تیرے احکامات پر چلنا ،ان پر عمل کرنا تیرے فضل اور تائید کے بغیر بہت بھاری ہے ،بہت مشکل ہے۔ تیری مدد نہ ہو تو ہم اس بھاری بوجھ کو اٹھا نہیں سکتے۔ ہم تو ہمیشہ سے غلطیاں کرتے آئے ہیں ۔بیشمار غلطیاں کر چکے ہیں ۔تیری ستّاری اور تیرا غفّار ہونا ہی ہمیں بدانجام سے بچا سکتا ہے اور بچاتا رہا ہے۔ تیری رحمت جو ہر چیز پر حاوی ہے وہ ہمیشہ ہم پر بھی سایہ فگن رہی ہے۔ ہم میں اتنی طاقت نہیں کہ غلطیوں اور لغزشوں سے از خود محفوظ رہ سکیں۔ اے اللہ تُو ہمارا رب ہے۔ نیکیوں کی توفیق دینا اور ان میں ترقی کرنا، ایمان پر قائم رہنا اور اس میں بڑھنا تیرے فضل کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم از خود یہ کام نہیں کر سکتے ۔اپنے آپ کو شیطان کے کسی حملے سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ پس تُو ہی ہے جو ہمیں ایمان پر بھی قائم رکھے اور اس میں بڑھاتا بھی رہے۔ پس ہمیں ایمان میں بڑھا دے۔ یہ دعا ہونی چاہئے اے اللہ ہمیں ایمان میں بڑھا دے تا کہ ہمارے گناہ معاف ہوں۔ ہم ان لوگوں میں شامل ہو جائیں جو حقیقی ایمان لانے والے ہیں۔ وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا۔ ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے۔ ہماری برائیوں کو دور کرنے میں جتنی روکیں ہیں وہ سب دور ہو جائیں بلکہ ہماری بدیوں کو اس طرح مٹا دے کہ جیسے کبھی واقع ہی نہیں ہوئیں۔ ہمیں ہر سزا سے بچا ۔جب ہم تیرے حضور حاضر ہوں تو ان لوگوں میں شامل ہوں جو نیکیوں میں بڑھے ہوئے ہیں، جن کو تُو نے یہ مقام حاصل کرنے کے لئے یہ دعا سکھائی ہے کہ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ۔  کہ ہمیں نیکوں میں شامل کر کے وفات دے ۔یہ نہ ہو کہ ہم ایمان تو لے آئیں لیکن پھر ہم ایمان سے دُور ہٹ جائیں۔ زمانے کی اصلاح کے لئے ہر زمانے میں تو مُنادی بھیجتا ہے۔ ایک دفعہ اس کو قبول کرنے کے بعد پھر اپنی اَنا میں گرفتار ہو کر ،خود ساختہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو کر اپنے ایمان کو ضائع کرنے والے نہ ہو جائیں اور ہمارا کہیںانجام بد نہ ہو جائے ۔ اس لئے اے ہمارے خدا ہم دعا کرتے ہیں کہ ہمارا انجام کبھی بد نہ ہو اور جب ہماری وفات کا وقت آئے تو ہم ایمان پر قائم ہوں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جو ابرار ہیں، جو نیکیوں میں بڑھنے والے ہیں۔ ہماری حرکتیں ،ہماری عقلیں، ہمارے علم، ہمیں صراط مستقیم سے ہٹانے والے نہ بن جائیں۔

               پھر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں فرمایا کہ مُنادی کو ماننے کے بعد یہ دعا بھی کرو کہ رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ(آل عمران195:)۔کہ اے ہمارے رب اور ہمیں وہ وعدہ عطا کر دے جو تو نے اپنے رسولوں پر ہمارے حق میں فرض کر دیا تھا اور ہمیں قیامت کے دن رُسوا نہ کرنا۔ یقیناً تُو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ اپنے رسولوں سے جو تُو نے وعدے کئے ہیں وہ وعدے ہمارے لئے بھی پورے کر دے۔ ہم بھی ان تمام فیضوں سے فیضیاب ہونے والے ہوں جن کا وعدہ تو نے اپنے رسولوں سے، اپنے منادوں سے کیا ہے۔  وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کہ ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کرنا۔ بلکہ ہمارے اعمال ایسے ہوں جو تیرے احکامات کے تابع ہوں۔ صرف اعتقادی باتیں ہی نہ ہوں بلکہ ہمارے اعمال بھی تیری رضا کو حاصل کرنے والے ہوں۔ ہمیں ایسا اپنے احکامات کا پابند کر دے کہ قیامت تک ہم صحیح راستے سے ہٹنے والے نہ ہوں۔ ہم کسی سزا کا مورد نہ بنیں۔ کوئی سزا ہم پر واجب نہ ہو جائے۔ تیرے حضور ہم شرمندہ ہو کر حاضر نہ ہوں۔ ہماری زندگی کا ہر لمحہ اپنے مقصد پیدائش کو سامنے رکھتے ہوئے گزرنے والا ہو۔ حقیقی عبادت کے بھی ہم نمونے قائم کرنے والے ہوں اور حقیقی بندگی کو بھی ہم پانے والے ہوں۔ اطاعت اور فرمانبرداری سے بھی ہم کبھی پیچھے ہٹنے والے نہ ہوں۔

               پس جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے جس کی کچھ تفصیل مَیں نے بیان کی ہے، یہ آواز ہے جو منادی دیتے ہیں اور یہ باتیں ہیں جو اس منَّاد کو، اس مُنادی کو، پکارنے والے کو قبول کرنے والے کرتے ہیں۔ پس جب ایسی رہنمائی کا زمانہ ہو تو یہ سب سے بڑھ کر عید کا دن ہوتا ہے۔

                ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار سال کے اندھیرے زمانے کے بعد پھر اپنے وعدے کے مطابق ایک مُنادی ہم میں مبعوث فرمایا اور ہمیں اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ اسلام کی حقیقی خوبصورت تصویر دنیا کو دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے۔ اس نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے مجھے بھیجا ہے۔ آنے والے نے ہمیں بتایا کہ مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ کا صحیح عبد بننے کا راستہ دکھاؤں جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی کامل فرمانبرداری سے ان پر عمل کرنے سے ملتا ہے۔ آپ علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ :

               ’’خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا مَیں حلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ ِراست پر چلاؤں۔ ‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 143)

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں صحیح عبد بننے کے لئے کیا نصائح فرمائی ہیں؟ ہم سے آپ کیا چاہتے ہیں ؟ہم نے جب اٰمَنَّا کہا تو ہمیں اپنی حالتوں کو کس طرح بنانا چاہئے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو جو نصائح فرمائی ہیں ان میں سے چند ایک مَیں بیان کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا :

               ’’ہماری جماعت کے لئے اسی بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ایمان بڑھے ۔خدا تعالیٰ پر سچا یقین اور معرفت پیدا ہو۔ نیک اعمال میں سُستی اور کسل نہ ہو ۔کیونکہ اگر سستی ہو تو پھر وضو کرنا بھی ایک مصیبت معلوم ہوتا ہے چہ جائیکہ وہ تہجد پڑھے۔ اگر اعمال صالحہ کی قوت پیدا نہ ہو اور مسابقت علی الخیرات کے لئے جوش نہ ہو (نیکیوں میں آگے بڑھنے کے لئے جوش پیدا نہ ہو) تو پھر ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنا بے فائدہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 439۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                آپ نے فرمایا’’ اطاعت کوئی چھوٹی سی بات نہیں اور سہل امر نہیں‘‘۔ کوئی آسان کام نہیں ہے۔’’ یہ بھی ایک موت ہوتی ہے جیسے ایک زندہ آدمی کی کھال اتاری جائے ویسی ہی اطاعت ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 74 حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

               آجکل قربانی کی عید ہے ہم جانور کو ذبح کرتے ہیں۔پھر اس کی بھی جب کھال اتارتے ہیں اگر ہلکی سی اس میں جان ہو تو شاید اس کو تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن فرمایا کہ اطاعت تو اس طرح ہے جس طرح زندہ آدمی کی کھال اتاری جائے جو اس سے بھی بڑی قربانی ہے۔ فرمایا’’ جو شخص پورے طورپر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلہ کو بدنام کرتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 4 صفحہ 74۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                پھر آپ نے فرمایا ’’آدمی کو بیعت کر کے صرف یہی نہ ماننا چاہئے کہ یہ سلسلہ حق ہے اور اتنا ماننے سے اسے برکت ہوتی ہے۔… صرف ماننے سے اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہوتا جب تک اچھے عمل نہ ہوں ۔کوشش کرو کہ جب اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہو تو نیک بنو ۔متقی بنو۔ ہر ایک بدی سے بچو۔… دعا ،تضرع، صدقہ  خیرات کرو۔ زبانوں کو نرم رکھو۔ استغفار کو اپنا معمول بناؤ ۔نمازوں میں دعائیں کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 274۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                فرمایا ’’نماز اور استغفار دل کی غفلت کے عمدہ علاج ہیں۔ نماز میں دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ مجھ میں اور میرے گناہوں میں دوری ڈال۔ صدق سے انسان دعا کرتا رہے تو یہ یقینی بات ہے کہ کسی وقت منظور ہو جائے۔‘‘(ملفوظات جلد 4 صفحہ 245۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                آپ نے فرمایا ’’نماز ہی ایک ایسی نیکی ہے جس کے بجا لانے سے شیطانی کمزوری دُور ہوتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ انسان اس میں کمزور رہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس قدر اصلاح اپنی کرے گا وہ اسی ذریعہ سے کرے گا۔‘‘(ملفوظات جلد 4 صفحہ 398۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)یعنی نماز کے ذریعہ سے اصلاح ہو گی۔

               پس ان بے شمار خزائن میں سے جو زمانے کے امام اور منادی نے ہمیں دئیے یہ چند باتیں ہیں جو مَیں نے آپ کے سامنے رکھیں۔

               ایک عید اُس وقت تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ اُس وقت دنیا بے چین تھی۔ دین کا درد رکھنے والے پریشان تھے۔ عیدیں مسلمان مناتے تھے لیکن ان عیدوں میں بھی وہ جو اسلام کا درد رکھنے والے تھے وہ بے چین تھے اور کسی مسیحا کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ آئے تو دین کے بیماروں کو شفا دے تا کہ وہ عید کی حقیقی خوشیاں منا سکیں۔ اس کا اظہار ہماری تاریخ میں ایک بزرگ منشی احمد جان صاحب کے حوالے سے بھی ہوتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خاص تعلق رکھتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تقویٰ اور عبادت اور مقام کا انہیں اِدراک حاصل ہو چکا تھا۔ آپ کے دعویٰ سے پہلے ہی انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے یہی لکھا کہ ؎

ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر

تم مسیحا بنو خدا کے لئے

تا کہ ہم حقیقی عیدیں منا سکیں۔ ان بزرگ کی، منشی احمد جان صاحب کی وفات تو آپ کے بیعت لینے سے پہلے ہو گئی تھی۔(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 25 صفحہ 23-24 خطبہ بیان فرمودہ مورخہ 14 جنوری 1944ء) لیکن جنہوں نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جب بیعت کی تھی اور بعد میں بھی تو حقیقی عیدیں ان کی اُس وقت ہوئیں۔ یقیناً حقیقی عید تو اسی کی ہو سکتی ہے جو صحتمند بھی ہو اور اپنے پیاروں میں خوش باش بھی ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے روحانی مریضوں کے علاج کے لئے، اسلام کی ڈولتی کشتی کو سنبھالنے کے لئے جب مسیحا بھیجا تو اس نے بہت سوں کو روحانی شفا بھی عطا کی اور اس کے بیشمار واقعات ہیں ،جماعت کی تاریخ میں محفوظ ہیں بلکہ اب تک ہو رہے ہیں۔ بعض واقعات مَیں وقتاً فوقتاً مختلف موقعوں پر بیان بھی کرتا رہتا ہوں۔کئی لوگ لکھتے ہیں کہ صداقت پا کر ہمیں چین اور سکون حاصل ہوا ہے اور حقیقی عید تو دل کا چین اور سکون ہی ہے۔ جو ہمیں آج خوشی پہنچی ہے اس سے پہلے کبھی آج تک نہیں پہنچی۔

                حضرت مصلح موعود نے ایک دفعہ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے یہ مثال دی تھی کہ دیکھو مجمع میں بہت سارے لوگ ہوں اگر کسی کا بچہ گم ہو جائے اور جب ایک دو گھنٹے کے بعد جب وہ بچہ باپ سے ملتا ہے تو بچے کو اور باپ کو کس قدر خوشی ہوتی ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ سے بھٹکا ہوا بندہ جب خدا تعالیٰ سے ملتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور پہنچتا ہے تو بندے کو بھی خوشی پہنچتی ہے اور خدا تعالیٰ بھی راضی ہوتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ پس حقیقی عید اگر ہے تو یہی عید ہے۔ یہ عید اور جو ہماری ظاہری عیدیں ہیں، یہ اس حقیقی عید کی طرف رہنما ہے۔ عید بھی گھر میں اور وطن میں اچھی لگتی ہے۔ لوگ مسافر ہوں گھر سے باہر ہوں ان کی عیدیں بڑی پھسپھسی ہوتی ہیں۔ ایک شخص اگر جنگل میں ہو چاروں طرف درندے، ڈاکو ہوں، جان خطرے میں ہو اسے عید کی کیا خوشی ہو سکتی ہے۔ عید تو اسی کی ہے جو گھر میں بھی ہو، اپنے بچوں کے ساتھ ،بیوی کے ساتھ، رشتہ داروں کے ساتھ عید منا رہا ہو۔ دوستوں میں ہو خطرات سے محفوظ ہو اسی کی عید ہو سکتی ہے۔ جو انسان خدا کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے، ضلالت اور گمراہی کے جنگل میں مارا مارا پھر رہا ہے اس کی حقیقی عید کیا ہو سکتی ہے۔ عید تو خوشی کا نام ہے اور خوشی دل کے اطمینان، دل کی راحت سے پیدا ہوتی ہے۔ تمام محبتوں کا مرکز تو اللہ تعالیٰ ہے اور ہونا چاہئے۔ ایک مومن کے لئے اس سے کامل محبت چاہئے۔ پس خوشی بھی اسی کو حاصل ہو گی اور حقیقی عید بھی اسی کی ہو گی جو اپنے مولیٰ کے حضور پہنچا ہو گا کیونکہ تمام قسم کی راحتوں، خوشیوں، عیدوں کا سرچشمہ تو وہی پاک ذات ہے۔ پس یہی سچائی ہے جس کو ہمیں اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔

(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 2 صفحہ 10 خطبہ بیان فرمودہ مورخہ 20 اکتوبر 1915ء)

               حقیقی عید اگر ہم نے منانی ہے تو اپنی روحانی صحت کا علاج کرتے ہوئے، اپنے آپ کو راستے سے بھٹکنے سے بچاتے ہوئے جس کے لئے ہم سب کو کوشش کرنی چاہئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو شیطان سے بچانے والا اور صحیح راستے پر چلانے والا ہے اس لئے اس سے دعا کرتے رہنا چاہئے۔ زمانے کے امام کو مانا ہے پھر اس کی باتوں پر عمل کرنے کی بھی ضرورت ہے تا کہ ہم اپنے آپ کو خدا تعالیٰ سے بھی جوڑ سکیں اور اس طرح اپنی پیدائش کی غرض پوری کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

               خطبہ ثانیہ کے بعد دعا ہو گی ۔دعا میں ان لوگوں کو خاص طور پر یاد رکھیں جو اُمّت مسلمہ کے فرد ہونے کے باوجود گمراہی اور ضلالت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور اس گمراہی میں پڑے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے، ہدایت کے سامان کرے۔حکومتیں ،حکومتی سربراہ عوام پر ظلم کر رہے ہیں اور مفاد پرست نام نہاد مذہبی لیڈر عوام کے جذبات غلط طور پر ابھار کر ان سے بھی ظلم کروا رہے ہیں اور ان پر بھی ظلم کروا رہے ہیں۔ عوام دونوں طرف سے پِس رہے ہیں ۔پس اللہ تعالیٰ ان کو ان ظلموں سے بھی نکالے، اس گمراہی سے اس ضلالت سے نکالے۔ یہ لوگ جو اپنی عید کی خوشیاں برباد کر رہے ہیں اور دوسروں کی عید کی خوشیاں بھی برباد کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مُنادی کی آواز نہ سن کر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی مول لے رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو عقل دے اور یہ صحیح راستے پر چلنے والے ہو جائیں۔

               پھر اسیران راہِ مولیٰ بھی ہیں۔ ان کے لئے دعا کریں جو بلا وجہ بعض دفعہ دشمنی کی وجہ سے اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کے بھی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ ان سب احمدیوں کے لئے دعا کریں جن پر احمدی ہونے کی وجہ سے دنیا کے کسی بھی ملک میں سختیاں کی جا رہی ہیں۔ مریضوں کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ مریضوں کو بھی شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ بعض بڑے نافع وجود ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو مزید توفیق دے کہ وہ انسانیت کی خدمت کرنے والے ہوں۔ دنیا کی عمومی بے چینیاں دور ہونے کے لئے بھی دعا کریں ۔کسی بھی رنگ میں ،کسی بھی مشکل میں گرفتار لوگوں کے لئے دعا کریں ۔اللہ تعالیٰ سب کی مشکلات دور فرمائے۔ واقفین زندگی جو دنیا کے مختلف ممالک میں دین کی خدمت کر رہے ہیں ان سب کے لئے دعا کریں۔

               خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا: دعا کرلیں۔

               دعا کے بعد پھر فرمایا:آپ سب کو عید مبارک ہو اور دنیا میں رہنے والے سب احمدیوں کو عید مبارک۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں