خطبہ عیدالاضحی سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍اکتوبر2013ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوْااللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ۔ وَبَشِّرِالْمُحْسِنِیْنَ۔(الحج:38)

               اس آیت کا ترجمہ ہے کہ ہرگز اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون لیکن تمہارا تقوی اس تک پہنچے گا۔ اِسی طرح اس نے تمہارے لئے انہیں مسخّر کردیا ہے تا کہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس بنا پر کہ جو اس نے تمہیں ہدایت عطا کی۔ اور احسان کرنے والوں کو خوشخبری دیدے۔

               آج اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہماری زندگی کی ایک اور عیدالاضحی منانے کی ہمیں توفیق عطا فرمائی۔ عید کہتے ہیں بار بار آنے والی چیز اور خوشی کا موقع۔ (لسان العرب زیر مادہ’’عود‘‘) ’’اَضْحیہ‘‘ کے معنی خوب دن چڑھے کے بھی ہیں اور قربانی کی بکری کے بھی ہیں۔ بہر حال عام زبان میں اس عید کو قربانی کی عید بھی کہتے ہیں۔ اس نام’’قربانی کی عید‘‘ نے عموماً مسلمانوں میں یہ تصور پیدا کر دیا ہے کہ یہ خوشی کا موقع آیا ہے کہ جانوروں کو ذبح کرو اور خوشیاں مناؤ، گوشت کھاؤ۔ پس یہ عید ہو گئی۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیںکہ اس عید پر مسلمان لاکھوں کی تعداد میں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں جانور ذبح کرتے ہیں۔ مکّہ میں جو حج ہوتا ہے وہیں لاکھوں جانور ذبح ہو جاتے ہیں۔ پاکستان وغیرہ اور تیسری دنیا کے بہت سے ایسے ملکوں میں جہاں مسلمان ہیں خاص طور پر برصغیر پاکستان ہندوستان میں، عید سے پہلے امیر طبقہ میں بڑا اور خوبصورت جانور خریدنے کی دوڑ لگی ہوتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ میں نے اتنے لاکھ میں یہ بیل خریدا، کوئی کہتا ہے کہ میں نے اتنے ہزار میں یہ مینڈھا یا دُنبہ یا بکرا خریدا۔ پھر اُنہیں خوب سجایا جاتا ہے، اس لئے کہ یہ بھی حکم ہے کہ خوبصورت قربانی پیش کرو۔ تو ظاہری طور پر بھی اُس کو خوبصورت کرنے کی یہ کوشش کرتے ہیں۔ اور ظاہر پر ہی زیادہ زور ہوتا ہے۔ ایسے ایسے لوگ قربانیاں کرتے ہیں جو عام زندگی میں نہ نماز پڑھتے ہیں نہ روزہ رکھتے ہیں۔ حتی کہ ایسے بھی ہیں جنہوں نے شاید سال میں عید کی نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں پڑھی ہو گی۔ لیکن یہ بڑی بڑی قربانیاں بڑے ذوق اور شوق سے پیش کی جاتی ہیں اور پھر اس قربانی کے بعد بھول جاتے ہیں کہ ہمارے کوئی فرائض بھی ہیں۔ ہماری کوئی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ ہماری زندگی کا کوئی مقصد بھی ہے۔ سارا دن دعوتیں اور غل غپاڑے ہوتے رہتے ہیں۔ اُس دن نمازیں بھی اکثر ادا نہیں کرتے اور بس یہی عید ہو گئی۔

                اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیشک یہ عید قربان ہے، بیشک ایک قربانی ادا کرنے کا حق ادا کرنے والے باپ اور بیٹے کی یاد میں ہر سال منایا جانے والا یہ ایک اسلامی تہوار ہے، لیکن یاد رکھو کہ صرف اس بات پر خوشی منانا کہ ہمارے بزرگوں نے چار ہزار سال پہلے قربانی پیش کی تھی، یا وہ بزرگ اور اللہ تعالیٰ کے فرستادے قربانی کے لئے تیار ہو گئے تھے، یہ کافی نہیں ہے۔ وہ تو اُن اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کا فعل تھا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ان کا یہ فعل تھا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس فعل کو قبول بھی کیا۔ پھر اُن کی مسلسل قربانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے پہلے گھر کی بنیادوں کی نشاندہی فرما کر اُن پر دیواریں استوار کروا کر ایک اور عظیم انعام سے اُنہیں نوازا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا گھر اب تم دونوں، بلکہ تینوں، کیونکہ باپ، ماں اور بیٹا سب اس میں شامل تھے، سب کو آئندہ آنے والے لوگوں کے لئے ہمیشہ یاد رکھا جانے والا بنانے کا انتظام کر دیا اور پھر اس سے بھی عظیم انعام یہ دیا کہ اس گھر کی دیواریں استوار کرتے وقت جو ان دو بزرگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے دعائیں کی تھیں کہ ہماری ذریّت میں سے بھی ایک عظیم نبی مبعوث فرما (البقرۃ:130) اُن دعاؤں کو بھی قبولیت کا شرف عطا فرما کر وہ عظیم نبی مبعوث فرمایا جو اللہ تعالیٰ کا سب سے پیارا تھا اور پیارا ہے۔ جس کے آنے سے اللہ تعالیٰ کے اس گھر کی اہمیت مزید نکھر کر واضح ہو گئی۔ جس نے توحید کا قیام کرنے اور توحید کا قیام کروانے کے اعلیٰ معیار قائم کئے۔ ان دونوں بزرگوں اور ان کی آل کو ہمیشہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمّت کے ذریعہ ہر نماز کے درود میں شامل فرما کر اُنہیں رہتی دنیا تک اُمّتِ مسلمہ کی دعاؤں میں شامل کر لیا۔ پس یہ اُن بزرگوں کی قربانیوں کا پھل تھا جو اُنہیں ملا اور ملتا چلا جا رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم یہ نہ سمجھو کہ یہ انعام اُنہیں ایک مینڈھے کی قربانی کی وجہ سے ملا تھا۔ اور ایک بکرے یا مینڈھے یا گائے کی قربانی سے تم بھی انعامات کے وارث بن جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، نہ اُن کی قربانی کا گوشت اور خون اُن کو یا اُن کی آل کو یہ مقام دلا سکا، نہ میرے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں اور اُس کی آل میں شامل لوگوں کو یہ مینڈھوں اور بکریوں اور گائیوں کی قربانی کچھ مقام دلوا سکے گی۔

                اگر درود میں شامل دعا  اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ  اور  اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کی دعا میں حصہ دار بننا ہے اور حقیقی عید منانے والا بننا ہے تو وہ تقویٰ پیدا کرو جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ وہ تقویٰ پیدا کرو جو آخری اور کامل شریعت لانے والے حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا کرنے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے، فرماتا ہے کہ تمہاری قربانیوں کی ظاہری شکل کوئی نتیجہ نہیں پیدا کرتی بلکہ وہ روح نتیجہ پیدا کرتی ہے جس کے ساتھ قربانی دی گئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یاد رکھو کہ تقویٰ کے بغیر نہ اس قربانی کی روح پیدا ہو سکتی ہے، نہ ہی تقویٰ کے بغیر اس کا نتیجہ پیدا ہو سکتا ہے جو حقیقی قربانی کا مقصد ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے بڑے واضح طور پر فرما دیا کہ تمہاری قربانیوں کے گوشت اور خون ہرگز اللہ تعالیٰ کو نہیں پہنچتے۔ فرمایا  وَلٰکِنْ یَنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔ لیکن تمہارے دلوں کا تقویٰ اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ یہ قربانیاں جو کسی بھی صورت میں ہوں، یہ تمہیں اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ لیکن اُس صورت میں جب یہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کی گئی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے خالصۃً اُس کی بڑائی بیان کرنے سے، اُس کی عبادت کرنے سے۔ جو احکام اللہ تعالیٰ نے دئیے ہیں اُن پر عمل کرنے سے۔ قرآنِ کریم میں جو حکم ہیں اُن پر عمل کرنے سے۔ اسلام کی جو روح اور مغز ہے اُس کو حاصل کرنے سے۔ اگر تم اس سوچ کے ساتھ یہ قربانی کر رہے ہو تو تمہیں بشارت ہو کہ تم خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جاؤ گے۔ احسان کرنے و الوں میں شمار ہو گے، ہدایت پانے والوں میں شمار ہو گے۔ اُن انعامات کو حاصل کرنے والے بن جاؤ گے جو ایک حقیقی مسلمان کے لئے مقدر ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد ہے، ایک حدیث میں آتا ہے کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ  یعنی یقینا اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔

(صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ حدیث: 1)

               پس اگر نیت تقویٰ پر چلنا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش ہے تو یہ قربانی قبول ہو گی۔ پھر اس قربانی کا خون بہانا بھی خداتعالیٰ کی رضا کا باعث بنائے گااُس کا گوشت تمہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنائے گا۔ اللہ تعالیٰ کو تو گوشت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں جب نیت نیک ہو، خدا تعالیٰ کی رضا مطلوب ہو اور قربانی کر کے اُس میں سے غریب بھائیوں کا حصہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی نیت سے دیا جا رہا ہو تو اللہ تعالیٰ جس نے ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس نے بھوکوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیا ہے، اس قربانی کے ظاہری چھلکے یا گوشت کا بھی ثواب دے دیتا ہے۔ ان امیر ملکوں میں رہنے والے، جن کو توفیق ہے ، وہ جماعتی نظام کے تحت یا اپنے طور پر پاکستان اور غریب ملکوں میں بھی قربانی کیا کریںتا کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں۔ کیونکہ ایسے بھی ہیں جن کو مہینوں گوشت کھانے کو نہیں ملتا اور بعض دفعہ عید پر ہی کھا رہے ہوتے ہیں یا مہینے کے بعد کہیں کھاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس کی روح کا بھی ثواب دے رہا ہے اور اس کے چھلکے کا بھی ثواب دے رہا ہے۔ ظاہری طور پر بھی ثواب دے رہا ہے اور اس کی باطنی روح جو ہے اس کا بھی ثواب دے رہا ہے۔

               جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’َبَشِّرِالْمُحْسِنِیْنَ‘‘ تو کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اس نیکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُسے احسان کرنے والوں میں شمار کر رہا ہے۔ مُحسِن کا مطلب دوسروں کو فائدہ پہنچانے والا بھی ہے۔ مُحسن کا مطلب نیکیوں پر چلنے والا بھی ہے اور مُحسِن کا مطلب صاحبِ علم بھی ہے۔ پس یہاں اللہ تعالیٰ اُنہیں بشارت دے رہا ہے  جو علم رکھتے ہیں اور اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ تقویٰ قربانی کی روح ہے، نہ کہ ظاہری قربانی۔ اور اس علم کی وجہ سے نیکیوں میں آگے بڑھنے والے ہیں اور بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا کی بشارت پانے والے ہیں ہدایت پانے والے ہیں، اُس کے انعامات سے حصہ لینے والے ہیں۔

               پس احسان اللہ تعالیٰ کا ہے، بندے کا نہیں کہ اس عمل پر جس کی تقویٰ پر بنیاد ہو، اللہ تعالیٰ بندے کو نواز رہا ہے۔ ہمیشہ ایک حقیقی مومن اپنے سامنے یہ چیز رکھتا ہے اور رکھنی چاہئے کہ تقویٰ کے بغیر کوئی نیکی نیکی نہیں ہے۔ یہ صرف دکھاوا ہے اور دکھاوے کی نمازیں پڑھنے والوں کو بھی خدا تعالیٰ نے بڑی سخت تنبیہہ فرمائی ہے۔ فرمایا  فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ(الماعون:5) کہ نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ (الذاریات:57) یعنی میں نے جنّوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اور عبادت کی انتہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتائی کہ عبادت کا مغز نماز ہے۔ یعنی سب عبادتوں کی معراج نماز ہے۔ آپ نے اپنی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نماز میری آنکھ کی ٹھنڈک ہے۔ (سنن النسائی کتاب عشرۃ النساء باب حب النساء حدیث:3939)  پس وہ نمازیں جو اس روح کے ساتھ پڑھی جائیں جس کااُسوہ حسنہ ہمارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تو یہ آنکھوں کی ٹھنڈک بھی ہیں، عبادت کا مغز بھی ہیں، مقصدِ پیدائش کو پورا کرنے والی بھی ہیں۔ لیکن دوسری طرف اگر اس کے بغیر ہیں اور حقوق العباد کی نفی کرتی ہیں۔ ایک طرف نمازیں ہیں اور دوسری طرف لوگوں پر ظلم ہو رہا ہے تو یہ تقویٰ کے بغیر ہیں اور یہی پھر ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں۔ پس ہماری قربانیاں اور ہماری عبادتیں تقویٰ چاہتی ہیں، وہ معیار چاہتی ہیں یا اُن معیاروں کے حصول کی کوشش چاہتی ہیں جن کا اُسوہ ہمارے سامنے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا۔

               پس ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ تقویٰ کے بغیر نہ عبادتیں کام کی ہیں، نہ قربانیاں کام کی ہیں۔ اس روح کو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام احکامات پر غور کر کے پھر اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔

               پس اس عید کو بھی ہمیں وہ عید بنانے کی کوشش کرنی چاہئے جس کی بنیاد تقویٰ پر ہو، اُن محسنین میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جن کو اللہ تعالیٰ بشارت دیتا ہے۔ جن کی جھولیوں کو اپنے انعامات سے بھرتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ قربانی یا نیکی یا مُحسِنین میں شمار ہونا ایک دن کا کام نہیں ہے۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہا کہ  یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ (الصافات:103) یعنی اے میرے باپ! جو کچھ تجھے خدا کہتا ہے، وہی کچھ کر تووہ صرف گردن پر چھری پھروانے پر رضا مندی دینا ہی نہیں تھا، اُس زمانے میں انسانی جانوں کی قربانی دی جاتی تھی یا لی جاتی تھی۔ اُس زمانے کے لحاظ سے یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔زیادہ سے زیادہ لوگ اور وہ بھی اُس زمانے کے لوگ اس قربانی پر یہی کہتے کہ ابراہیم نے اپنے لاڈلے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کے کہنے پر قربان کر دیا اور بس۔ دنیا پھر بھول جاتی۔ لیکن اُن دونوں باپ بیٹے کو تقویٰ کا ادراک تھا اس لئے خواب کے حوالے سے باپ نے جب عندیہ لیا، تو اُس میں اُس تقویٰ کا حقیقی ادراک رکھنے والے بیٹے نے صرف یہ جواب نہیں دیا کہ اے ابّا! مَیں تیار ہوں۔ تُو میری گردن پر چھری پھیر دے۔ بلکہ جواب دیا ۔یَاَبَتِ اِفْعَلْ مَا تُؤْمَر  کہ جس بات کا بھی تجھے میرے بارے میں حکم ہے، وہ کر۔ چھری پھیرنے کا حکم ہے تو چھری پھیر دے۔ مجھ سے قربانیاں لیتے چلے جانے کا حکم ہے تو اُس کے لئے تیار ہوں۔ چھری پھروا کر جان دینے والوں کی مثالیں تو موجود ہیں، جیسا کہ میں نے کہا، اُس زمانے میں وہ قربانی لی جاتی تھی۔ بیٹا یہ جواب دیتا ہے کہ مَیں تو خدا تعالیٰ کی خاطر قربانیوں کا سلسلہ جاری رکھنے کو بھی تیار ہوں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی یہی فرمایا کہ میں ایک وقتی قربانی نہیں مانگ رہا۔ گو باپ بیٹا اس کے لئے بخوشی تیار ہیں، مَیں تو مسلسل قربانیاں مانگ رہا ہوں، ایسی قربانیاں مانگ رہا ہوں جن کا تسلسل جاری رہے اور پھر وادیٔ غیر ذی ذرع میں، بیابان جگہ پر یہ قربانیوں کا سلسلہ جاری ہوا۔

               پس یہ تقویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر قربانیوں کا ایک سلسلہ جاری ہوا۔ یہ تقویٰ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنے تقوی کے معیار کو بلند کرتے چلے جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنا مطمح نظر بنا لو۔ یہ اسماعیلی صفات ہیں جو آج کی عید ہمارے اندر پیدا کرنے آئی ہے، اور ان صفات کی معراج ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نظر آتی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں خراجِ تحسین پیش کیا کہ فرمایا  قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الانعام:163) تو کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ پس یہ وہ مقام ہے جو ہمارے لئے اُسوۂ حسنہ ہے۔ باقی جیسا کہ مَیں نے کہا ظاہری طور پر بھی اس قربانی کو کیا جاتا ہے۔ بھیڑیں بکریاں، گائیں، بھینسیں ذبح ہوتی ہیں۔ اور ہر اُس مسلمان کو یہ ظاہری قربانی کرنے کا بھی حکم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہوئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے جانوروں کی قربانی کا یہ اُسوہ خود بھی پیش فرمایا۔ پس اس کو ظاہری طور پر پورا کرنا ضروری ہے اور قرآنِ کریم کا بھی حکم ہے۔ لیکن یہ حکم بھی مشروط ہے۔ ہر مسلمان پر قربانی واجب نہیں ہے۔ صاحبِ توفیق پر ہی ہے لیکن تقویٰ پر چلنا اور اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے فرائض ادا کرنا، احکامات پر عمل کرنا ہر ایک پر فرض ہے۔ چاہے وہ غریب ہے، چاہے وہ امیر ہے، چاہے وہ مرد ہے یا عورت ہے یا جوان ہے یا بوڑھا ہے۔ نماز ہر ایک پر فرض ہے۔ پانچ وقت کی نماز اگر ادا نہیں کر رہے تو یہ سال کے بعد کی عید قربانی کچھ فائدہ نہیں دے گی۔ نیک اعمال کی بجا آوری ہے، دین کا علم حاصل کرنا ہے تا کہ اپنی تربیت بھی ہو، اپنے بچوں کی تربیت بھی ہو اور پھر تبلیغ کے راستے بھی کھلیں۔ حقوق العباد کی ادائیگی ہے وہ بھی ہو۔ ان سب چیزوں کے لئے کسی جانور کی قربانی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ مقاصد تو مینڈھے کی قربانی کے بغیر بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ مسلسل عمل ہی قربانی کے مقصد کو پورا کرتا ہے۔ ایک مینڈھا یا ایک گائے کی قربانی یہ مقصد پورا نہیں کرتی۔

               پس جن کو دنبے کی قربانی کی یا مینڈھے کی قربانی کی توفیق نہیں جس سے وہ ظاہری رنگ میں بھی قربانی کا اظہار کر سکیں وہ اپنا وقت تبلیغِ اسلام کے لئے وقف کریں، پمفلٹ تقسیم کریں، اپنے رابطے بڑھائیں، اپنے ساتھیوں کو تبلیغ کریں، اپنے کام کاج کی جگہ پر بھی اپنے رویوں سے، اپنے نمونوں سے اپنی طرف لوگوں کو متوجہ کریں۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا دنیا پر اظہار کریں۔تو یہ مسلسل عمل جو ہے اور نیکیوں پر قائم ہونا جو ہے، یہی ایک قربانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے احمدی ہیں جو مسلسل قربانی دے رہے ہیں۔ جان کی قربانی کی ضرورت پڑتی ہے تو جان بھی قربان کر رہے ہیں۔ آپ میں سے بھی بعض کے عزیزوں نے ایسی قربانیاںدی ہیں جو اب یہاں آئے ہیں۔ اور پاکستان میں تو احمدی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس جان کی قربانی کے لئے ہر وقت تیار ہیں اور کرتے ہیں اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ یقینا یہ قربانیاں بھی ایک دن رنگ لائیں گی انشاء اللہ تعالیٰ اور دشمن دنیا میں بھی اپنا دردناک انجام ضرور اور ضرور انشاء اللہ تعالیٰ دیکھے گا۔ لیکن بہر حال ایک مومن سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان قربانیوں کے لئے تیار رہے۔

               اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا حقوق العباد کی ادائیگی بھی قربانی کا رنگ رکھتی ہے۔ ہم میں سے بہت سے ہیں جو اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر یہ حقوق ادا کرتے ہیں، لیکن وہ بھی ہیں جو دوسروں کے جائز حقوق بھی غصب کر رہے ہیں۔ وہ لاکھ قربانیاں کرتے رہیں، لاکھ نمازیں پڑھتے رہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اُسے تمہاری قربانیوں اور عبادتوں کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیںہے۔ ہاں اگر کسی بھی رنگ میں غریبوں کی خدمت ہے، حقوق کی ادائیگی ہے، بھائیوں کے ساتھ حسنِ سلوک ہے، ایک دوسرے کو معاف کرنے کی عادت ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ سارے کام ہو رہے ہیں تو پھر ان حقوق کی ادائیگی بھی عبادتیں بن جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پا کر انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بن جاتی ہیں۔

               پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سب حاجتوں سے پاک ہے۔ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے۔ اُسے کسی گوشت کی ضرورت نہیں، نہ ہی اُسے لاکھوں جانوروں کے خون بہانے کی کوئی ضرورت ہے۔ یا اُس سے کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ نہ یہ خون بہانا خدا تعالیٰ کے نام پر کسی انسان کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اُس نے بندوں پر احسان کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ہمیشہ کے انعامات کے وارث بننے کے لئے اپنی عیدوں کو دائمی کرنے کے لئے اپنے مقصدِ پیدائش کو پہچاننے کا احساس پیدا کرو اور اس لئے بعض ظاہری قربانیاں بھی رکھی ہیں اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دو۔ اپنی گردنوں کو خدا تعالیٰ کے آگے قرآنِ شریف میں بیان فرمودہ حکم کے مطابق جھکا دو۔ اپنے عملوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناؤ۔

                حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’قانونِ قدرت قدیم سے ایسا ہی ہے کہ یہ سب کچھ معرفتِ کاملہ کے بعد ملتا ہے۔ خوف اور محبت اور قدر دانی کی جڑ معرفتِ کاملہ ہے پس جس کو معرفتِ کاملہ دی گئی اُس کو خوف اور محبت بھی کامل دی گئی۔ اور جس کو خوف اور محبت کامل دی گئی اُس کو ہر ایک گناہ سے جو بیباکی سے پیدا ہوتا ہے نجات دی گئی۔ ‘‘

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ151)

               پس یہ معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا خوف بھی پیدا ہو گا اور محبت بھی پیدا ہو گی۔ کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو بیباکی سے بچاتی ہیں۔ بہت سارے گناہ انسان کرتا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے کر رہا ہوتا ہے۔ اور یہ دل میں خیال نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ ہر وقت مجھ دیکھ رہا ہے۔

                فرماتے ہیں:پس ہم اس نجات کے لئے، یعنی جو معرفت سے پیدا ہو نہ کسی صلیب کے محتاج ہیں، نہ صلیب کے حاجت مند اور نہ کسی کفّارہ کی ہمیں ضرورت ہے۔ بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے جس کی ضرورت کو ہماری فطرت محسوس کر رہی ہے۔ ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے۔ اسلام کے معنی ہیں ذبح ہونے کے لئے گردن آگے رکھ دینا(ماخوذ از لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد 20 صفحہ160) یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی روح کو خدا کے آستانے پر رکھ دینا۔ یہ پیارا نام شریعت کی روح اور تمام احکام کی جان ہے۔ ذبح ہونے کیلئے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے۔ اور کامل محبت کامل معرفت کو چاہتی ہے۔ پس اسلام کا لفظ اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقیقی قربانی کے لئے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے۔ نہ کسی اور چیز کی ضرورت۔ اسی کی طرف خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے۔لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔ (الحج38:)یعنی تمہاری قربانیوں کے نہ تو گوشت میرے تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ خون، بلکہ صرف یہ قربانی میرے تک پہنچتی ہے کہ تم مجھ سے ڈرو اور میرے لئے تقویٰ اختیار کرو۔

               آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے یہ تقویٰ ہی اپنے اندر پیدا کیا تھا جس کا بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہوں نے سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کا کامل نمونہ دکھایا تھا۔ کامل معرفت اُنہیں حاصل ہوئی تھی اور پھر اس وجہ سے کامل عشق کے نمونے انہوں نے دکھائے۔ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول سے کامل محبت کی وجہ سے شراب کے نشہ پر بھی وہ غالب آ گئے۔ یہ محبت شراب کے نشہ پر غالب آ گئی اور انہوں نے شراب کے مٹکے پہلے توڑے پھر پتہ کیا کہ یہ حکم اُن کے لئے ہے یا دوسروں کے لئے۔ یا اس حکم کی حقیقت کیا ہے؟ پس اس روح کی تلاش کی ضرورت ہے۔ اور جب یہ روح پیدا ہو گی تو یہ قربانیوں کے معراج کا حامل بنا کر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنا دے گی۔ پھر یہ بات عید قربان کی روح کو دل میں اجاگر کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا پیارا بناتی ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مقام ہر وقت اس بات کو سامنے رکھے بغیر نہیں مل سکتا کہ خدا تعالیٰ میرے ہر قول و فعل کو دیکھ رہا ہے۔ ہر عمل اگر اس سوچ کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے، اللہ تعالیٰ کا خوف ہے کہ وہ میرے ہر کام کو دیکھ رہا ہے، تو ہر دن ہی قربانی کے ثواب سے نوازنے والا ہے۔

                پس ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کے خوف اور محبت کی معرفت کی تلاش کریں، وہ حقیقی عید منانے کی کوشش کریں جو جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے عہد کی حقیقت ہم پر واضح کرے۔ ہماری ہر عید اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔ اگر یہ سوچ ہو جائے توپھر یہ عید سال کے بعد نہیں آئے گی۔ صرف جانوروں کی گردنوں پر چھریاں پھیرنے کی خوشی کے اظہار کے لئے نہیں ہو گی، صرف اس بات کے اظہار کے لئے نہیں ہو گی کہ میرے جانور سے اتنے کلو گوشت نکلا ہے، بلکہ وہ حقیقی عید ہو گی جو ان سب ظاہری اظہاروں سے بالا ہیں۔ وہ عید ہو گی جو ہر روز آئے گی اور ہر دن جو ہم پر چڑھے گا، خدا تعالیٰ کی رضا کو لئے ہوئے چڑھے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم یہ حقیقی عیدمنانے والے ہوں اور ہم بار بار اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنتے چلے جانے والے ہوں اور یہ انعامات ہم پر ہی ختم نہ ہو جائیں بلکہ ہماری نسلیں تا قیامت اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کرتی چلی جانے والی ہوں۔ اُس کے فضلوں کو حاصل کرتی چلی جانے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرتی چلی جانے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات سے حصہ لیتی چلی جانے والی ہوں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔

اب خطبہ ثانیہ کے بعد دعا ہو گی۔ دعا میں سب شہداء کے درجات کی بلندی کے لئے بھی دعا کریں، اُن کے لئے بھی دعا کریں، اُن کے عزیزوں کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی صبر اور استقامت عطا فرمائے۔  اس وقت، پاکستان کے علاوہ بھی دنیا کی مختلف جگہوں پر،ہمارے اسیران جو ہیں اُن کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ اُن کی جلد رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ احمدی ہونے کی وجہ سے جو جھوٹے مقدمے ہمارے پر قائم کئے گئے ہیں، اُن سے بریّت کے اللہ تعالیٰ سامان پیدا فرمائے۔جو مالی قربانیاں پیش کرنے والے ہیں، اُن کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ اُن کو جزا دے، اُن کے اموال و نفوس میں برکت دے۔ کسی بھی رنگ میں قربانیاں دینے والے ہیں اللہ تعالیٰ اُن سب کی قربانیوں کو قبول فرمائے۔ واقفینِ زندگی ہیں جو دنیا میں اور خاص طور پر اُن علاقوں میں جہاں مخالفت کی آندھیاں چل رہی ہیں، ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اُن کے لئے دعا کریں۔ صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا کے اور ملک بھی ہیں جہاں مخالفت ہے۔ جماعت پاکستان کے لئے بہت دعا کریں، جیسا کہ کئی دفعہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں وہاں حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں، لیکن کسی نہ کسی انتہا پر پہنچ کر پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے سامان بھی ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ جلد وہ سامان پیدا فرمائے۔ انڈونیشیا ہے، وہاں بھی بعض علاقوں میں بہت زیادہ مخالفت ہے۔ احمدی ہونے کی وجہ سے بعض لوگ عرصے سے بے گھر ہیں، اُن کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ اُن کے سکون کے سامان پیدا فرمائے۔ ہر اُس جگہ پر جہاں جماعت کی مخالفت ہے وہاں کے احمدی پریشان ہیں، اُن کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ اُن سب کی پریشانیاں دور فرمائے۔ اور اس کے ساتھ ہی آپ سب کو بھی اور ایم ٹی اے کی وساطت سے ساری دنیا کے احمدیوں کو بھی عید مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ یہ عید ہمارے لئے بے انتہا برکتوں کے سامان لے کر آئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں