خطبہ عیدالاضحی سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 9؍دسمبر 2008ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے عیدالاضحیہ منانے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ہمارے علاقوں میں ،پاکستان ، ہندوستان میں اسے قربانی کی عید اور بڑی عید بھی کہا جاتا ہے۔گو یہ قربانی کی عیدکہلاتی ہے لیکن اگر غور کیاجائے تو عیدالفطر بھی ایک قربانی کی عید ہے۔جس کے منانے سے پہلے انسان اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور اس کی رضا کے حصول کے لئے ایک مہینہ تک اپنے آپ کو خاص اوقات میں جائز کاموں سے بھی روکے رکھتاہے۔ اپنے بہت سے حقوق کی قربانی کر رہا ہوتاہے ۔اپنی عبادتوں کے معیار بہتر کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے اس قربانی کا حق ادا کرنے کے لئے مدد مانگ رہاہوتاہے۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر ایسے لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا رہے ہوتے ہیں جو عام حالات میں شاید فجر کی نماز کے لئے ہی جاگتے ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ نے قربانی کے عرصہ کے اختتام پر اس ماہ کے آخر میں جو رمضان کا مہینہ کہلاتاہے عید منانے کا حکم دیاہے کہ اچھے کپڑے پہنو، کھاؤ پیو ، ایک جگہ جمع ہواور دو رکعت عید کی نماز ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاؤ۔ اس دن وہ لوگ(عیدمناتے ہیں) جو ایک مہینہ تک اپنے جائز حقوق کی بھی قربانی کر رہے ہوتے ہیں۔ دن کے ایک حصہ میں بھوک پیاس اور دوسرے جذبات کی قربانی دے رہے ہوتے ہیں جو مختلف موسموں کے لحاظ سے روزانہ دس سے اٹھارہ گھنٹے تک کی قربانی ہے ۔ پھر راتوں کو خاص ا ہتمام کے تحت عبادتیں کر رہے ہوتے ہیں۔اپنی راتوں کو زندہ کر رہے ہوتے ہیں ۔اس قربانی سے پھر مومنوں کی زندگیوں میں ایسے انقلا ب آ جاتے ہیں جو انہیں خدا تعالیٰ کے قریب کر دیتے ہیں اور ایک نئے دو ر اور ایک نئی دنیا میں وہ چلے جاتے ہیں۔اپنے نفس کی قربانی کرنے کی انہیں عادت پڑ جاتی ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے نفس کی اصلاح کے لئے اس اہتمام سے قربانی نہیں کی ہوتی جس اہتمام سے ایک مومن کرتاہے لیکن پھر بھی وہ لوگ اسی طرح عید منارہے ہوتے ہیں جس طرح حقیقی قربانی صرف انہی لوگوں نے کی ہے۔بہرحال ان کی عید ایک تہوار منانے کے علاوہ کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔حقیقی عید انہی کی ہوتی ہے جو قربانی کے فلسفہ کو سمجھ کر ایک ماہ کی ذاتی قربانی کے دور سے گزرکر عید مناتے ہیں ۔بہرحال مَیں ذکر کررہا تھا کہ یہ عید جو ہم آج منارہے ہیں یہ قربانی کی عید کہلاتی ہے ۔عیدالفطر بھی ایک قربانی کی عید ہے لیکن و ہ ایک ذاتی قربانی کی عید ہے۔ اور یہ جو عیدالاضحیہ ہے یہ جماعتی اور قومی قربانی کی خوشی میں ہے۔ جو ذات یا جو چند لوگ اس عید کا سبب بننے میں شامل تھے ان کا مقصد بھی ایک قومی اور بین الاقوامی انقلاب لانا تھا۔پس جس طرح حقیقی عیدالفطر انہی کی ہوتی ہے جو روحانیت میں ترقی کے لئے ذاتی قربانی کرتے ہیں (گو اس کا آخری نتیجہ بھی جماعت کا روحانی معیار بلند ہونے کی صورت میں نکلتاہے)۔اسی طرح حقیقی قربانی کی عید بھی انہی کی ہے جو اس روح کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیںجوحضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام ، حضر ت اسماعیل؈ اور حضرت ہاجرہ؈نے اپنی قربانی کرکے کی ۔جو روح ان تینوں کی قربانی کے پیچھے کارفرما تھی اس کو سمجھنے کی ایک مومن کوشش کرتاہے ۔ ہم تبھی حقیقی عید منانے والے ہوں گے جب یہ روح سمجھنے والے ہوں گے ۔ورنہ بکرے ،دنبے ،گائے وغیرہ ذبح کرکے ان قربانی کرنے والوں کی اکثریت تو صرف اپنی امارت کا اظہار کر رہی ہوتی ہے۔ لوگوں کے گھروں میں گوشت بھیجنا یا قربا نی کرنا ،جانور ذبح کرنا ،لوگوں کی دعو ت کرنا یہ اس قربانی کا مقصد نہیں ہے۔ بکروں ،دنبوں،گائیوں یا اونٹوں کی قربانی سے کیا مقصد حاصل ہو رہاہے سوائے اس کے کہ جانور ذبح ہو رہے ہیں۔ کیا ان قربانیو ں سے اسلام کی خدمت ہوتی ہے؟اسلام کی ترقی میں یہ ذبح کرنا کیا کردار ادا کر رہا ہوتاہے۔ اگر یہ کہیں کہ اس قربانی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ غریب کو کھانے کے لئے گوشت مل جاتاہے ۔پھرسال میں ایک دفعہ غریب کو گوشت کھلاکر باقی سارا سال اس کی بھوک مٹانے کی طرف توجہ ہی نہ دینا کون سے ثواب کا مستحق بنا دیتاہے؟بہت سے ملک ایسے ہیں جہاں گوشت کھلانے کے لئے یا گوشت دینے کے لئے کوئی ملتا ہی نہیں۔یااتنی قربانی ہو جاتی ہے کہ اس کاڈسپوزل (Disposal)بھی مشکل ہو جاتاہے۔ حج پر جانے والے حاجیوں کی جوقربانیاں ہیں یہ بھی سنبھالی نہیں جاتیں۔ گو کہ غریب ملکوں کو یہ گوشت بھجوانے کا انتظام ہوتاہے لیکن پھر بھی کتنے غریبوں کی بھوک مستقل طورپر مٹ جاتی ہے۔مَیںافریقہ میں بھی رہا ہوں ۔غریب کو دو وقت کی روٹی کا محتاج ہی دیکھاہے۔پاکستان میں بھی بے شمار غریب ہیں۔لاکھوں کی تعداد میںہیںجو بھوکے سوتے ہیں ۔پھر یہ گوشت جو بظاہر اتنا وافر نظر آتاہے دنیا کی بھوک نہیں مٹا سکتا۔ ہاں عید کے قریب جو جانور بیچنے والے ہیں ان لوگوں کے اس سے کاروبار چمک جاتے ہیں اور ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں ۔ وہ منہ مانگی قیمت اپنے جانوروں کی مانگ رہے ہوتے ہیں اور خریدنے والے لوگوں کو اپنی امار ت اور پیسہ دکھانے کے لئے اداکر رہے ہوتے ہیں۔

               عید کے دن جانوروں کی ظاہر ی قربانی جو ہم کرتے ہیں دراصل ہمیں اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے کہ جس انقلاب لانے کے لئے جانوروں کی قربانی کاحکم ہوا یا جس کی یاد میں جانوروں کی قربانی کا حکم ہوا و ہ صرف حضرت اسماعیل؈کا ذبح ہونے سے بچنا نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک انقلاب لانے والی روح کارفرما تھی۔صرف یہی نہیں کہ حضرت اسمٰعیل؈کے ذبح ہونے سے بچنے کی یاد ہے جس کی خوشی میںہم بکرے یا بھیڑیں یا دوسرے جانور ذبح کر رہے ہیں ،اچھے کھانے بھی کھا رہے ہیں اوراچھے کپڑے بھی پہننے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ اس سے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حقوق العباد ادا کرنے کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے، کوشش کرنی چاہئے ۔ کیونکہ اسلام کا ہر حکم بے شمار مقاصد اپنے اندر لئے ہوتاہے ۔ جب فرمایاکہ قربانی کرو تو اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس کے تین حصے کرو اوراس میںسے ایک حصہ غریبوں کے لئے اور ایک حصہ رشتہ داروں کے لئے رکھو ۔یہ حکم اس لئے ہے تاکہ یاد رہے کہ صرف اپنے نفس کے ہی حقوق نہیں ہیں بلکہ تمہارے

 رشتہ داروں کے جو تم پر حق ہیں ان کی ادائیگی بھی ضروری ہے ۔ غرباء کے بھی حقوق ہیں جن کی ا دائیگی تم پر ضروری ہے ۔یہ حقوق عام حالات میں بھی ادا کرنے ہیں۔غمی میں بھی ادا کرنے ہیں اور خوشی میں بھی ادا کرنے ہیں۔ایک امیر آدمی عام حالات میںبعض دفعہ یہ خیال نہیں رکھتاکہ غریب کا بھی حق اداکرناہے تاہم خوشی کے موقع پردکھاوے کے لئے خرچ کر دیتاہے۔ لیکن حق کی ادائیگی کی طرف اکثر توجہ نہیں رہتی ۔تو اس میںیہ بتایا کہ تمہاری قربانی جوتم ا س قربانی کی یاد میں کررہے ہوجو ابوالانبیاء حضرت ابراہیم؈ اور حضرت اسمٰعیل؈ نے کی تھی، اس وقت حقیقی قربانی کہلائے گی جب دوسروں کے حقوق بھی ادا کروگے اور معاشرے کے غریب اور کمزور طبقہ کے حقوق بھی ادا کروگے۔اور اس کے لئے خاص طورپر قرآ ن کریم میں اللہ تعالیٰ نے غریبوں کی بھوک کا مستقل خیال رکھنے کے لئے کئی جگہ حکم دیاہے ۔ جیساکہ فرمایاوَلَا یَحُضُّ عَلَی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡن(الحاقۃ:35)  یعنی جو اللہ سے دور ہٹے ہوئے لوگ ہوتے ہیں وہ غریبوں کو کھانے کھلانے کی دوسروں کوترغیب نہیں دیتے ۔ نہ آپ کھلاتے ہیںنہ دوسرو ں کو ترغیب دیتے ہیں۔پس غریب کی بھوک مٹانا ایک مستقل حکم ہے نہ کہ سال کے سال بڑی عید کی خوشی میں گوشت کھلا دینا ۔جیساکہ مَیں نے بتایا کہ آنحضرت ﷺ نے گوشت کا ایک حصہ غریبوں کو دینے کا حکم دیاہے وہ اس لئے ہے کہ تمہاری خوشیاں تمہیں غریبوں کے حقوق کی ادائیگی سے دور نہ لے جائیں ۔اس لئے تمہاری قربانیوں میں تیسرا حصہ غریب کا ہے۔ زکوٰۃ میں ایک امیر آدمی کے لئے ایک خاص شرح  سے رقم کی ادائیگی ہے اور اس کے لئے خاص شرائط ہیں۔اسی طرح صدقہ خیرات ہے جوہماری صوابدید پر چھوڑاگیاہے کہ جتنا آسانی سے دے سکتے ہو دو ۔لیکن عید پر جانور کی قربانی میں یہ حکم ہے کہ جتنا تمہارا حصہ ہے اتنا ہی غریب کا حصہ ہے ۔اس لئے کہ بھوک مٹانا ہر مسلمان کافرض ہے۔اپنے بھائی کا خیال رکھنا، اس کا حق اداکرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ بعض دفعہ ایک عام آدمی بھی جس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی قربانی کرلیتاہے۔تو اسے یہ حکم ہے یہ یاددہانی ہے کہ امیر آدمی یاکوئی بھی ایسا شخص جسے قربانی کی توفیق ہے اپنے سے کم مالی حیثیت والے اور بھوکے کا خیال رکھے تا کہ قربانی کا وہ جذبہ قائم ہو جو حقوق العباد کی ادائیگی کی وجہ سے جماعت کی ترقی کا باعث بنتاہے ۔ جماعت کی بے چینیاں دور ہوتی ہیں ۔ پس قربانیاں اور قربانی کی یہ عید رُحَمَآئُ بَیْنَھُم(سورۃ الفتح:30) کی روح کو مستقل قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے ۔جس غریب کو گوشت دیں گے اس کے حالات کا بھی علم ہوگااور اس کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ  بھی پیدا ہوگی۔غریب ملکوں میں ،پاکستان ،ہندوستان یاافریقہ کے ممالک میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جب انہیں آپ گوشت بھجواتے ہیں تو پتہ ہی نہیں چلتاکہ ان کی حالت کیا تھی۔ پہلے تو کوئی پتہ نہیں ہوتا لیکن جب رابطہ ہو تو تب پتہ چلتاہے کہ یہ گھر تو چوبیس گھنٹے یا اڑتالیس گھنٹے سے فاقے پر تھا۔یا کئی ہفتے سے انہوں نے گوشت کی شکل نہیں دیکھی تھی اور گوشت جانے سے ان کے گھرمیں چولہا جلا ہے۔ اس وقت جب آپ تحفہ دیتے ہیں تو بعض دفعہ ایسا ہوا کہ گھر والوں کی حالت دیدنی ہوتی ہے۔ ان کی عجیب حالت ہو رہی ہوتی ہے۔ اور آج کل کے دور میں جب دنیا میں مالی بحران اور لڑائی  زوروں پر ہے ۔ مزدوریاں اور ملازمتیں بھی نہیں ملتیں ۔اپنے بچوں کوکھانا کھلانا ایک غریب آدمی کے لئے اتنا مشکل ہو گیاہے کہ اخباروں میں خبریں آتی ہیںکہ اس کی وجہ سے بعض لوگ خود کشی پر مجبور ہو گئے ہیں۔پس یہ قربانی کی عید ایک تو یہ سبق دینے والی ہونی چاہئے کہ غریبوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ ہو، تاکہ بھوک مٹے اور صرف ایک وقت کے گوشت پر ہی اکتفا نہ کرو کہ غریب کوتھوڑا سا گوشت بھیج دیا اوریہ کافی ہوگیا بلکہ اگر اپنے آپ کو مستقل قربانی میں بھی ڈالنا پڑے تو ڈالو اور حقوق العباد کی مستقل ادائیگی کی طرف توجہ رکھو۔ تقویٰ سے کام لو کہ یہی ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والاہے۔ورنہ اللہ تعالیٰ کو تو اس گوشت اور خون کی ضرورت نہیں ہے۔

               جماعتی نظام میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مستقل صدقات اور امداد کی مدیں ہیں۔ اس حوالہ سے ایک تو مَیں اس کی بھی تحریک کرتاہوں کہ تمام دنیا کے صاحب حیثیت احمدیوں کو توجہ دینی چاہئے اوراس کا خیال رکھنا چاہئے ۔ ورنہ جیساکہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کوتو خون اور گوشت کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ یہ خون اور گوشت کوئی انقلاب لا سکتے ہیں اگر صحیح طرح حقوق العباد کی ادائیگی نہیں ہوگی۔جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے کہ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ(سورۃ الحج آیت 38:)کہ یاد رکھوان قربانیوں کے خون اور گوشت ہرگز اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچتے اور نہ پہنچ سکتے ہیں لیکن تمہارے دل کا تقویٰ اللہ تعالیٰ تک پہنچتاہے۔پس یہ روح ہے جو ہماری قربانیوں کے پیچھے ہونی چاہئے ۔

               حقوق العباد کے ضمن میں ایک پہلو مَیں نے بھوک مٹانے کا بیان کیاہے ۔ اور بھی بہت سارے حقوق ہیں ۔ جیسا کہ مَیں نے کہا جماعت میں اس کے لئے مختلف مدات ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے مدد ہوتی بھی ہے اور احباب جماعت کو اس طرف توجہ بھی دینی چاہئے۔ بہرحال حقوق العباد کئی ہیںاور اگر یہ حقوق ادا کئے جائیں تو تبھی جماعتی زندگی کا پتہ چلتاہے ۔تبھی احساس ہوتاہے کہ ہم ایک جماعت ہیں،ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس کرنے والے ہیں ۔ ایک دوسرے کے حقوق اد ا کرنے والے ہیں اور پھر اس کے علاوہ قربانی کا جو سب سے بڑا مقصد ہے وہ ،وہ انقلاب لاناہے جس نے دنیا کی کایا پلٹنی ہے۔ ورنہ حضرت ابراہیم؈نے حضرت اسمٰعیل؈ کو قربانی کے لئے تیار کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے کہاکہ نہیں ا س بیٹے کی جگہ مینڈھا قربان کردو۔ تو نہ اس قربانی سے کوئی فرق پڑ سکتاتھا نہ ایک مینڈھے کی قربانی سے کوئی انقلاب آ سکتاتھا۔یہ مینڈھے کی قربانی اس قربانی کی یاد دلانے کا ایک اظہار تھا اور آج تک ہے تاکہ کبھی مومن اپنے مقصد کو نہ بھولے ۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:

                ’’دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے، گوشت اور خون سچی قربانی نہیں۔ جس جگہ عام لوگ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں۔مگر خدا نے یہ قربانیاں بھی بند نہیں کیں تا معلوم ہو کہ اِن قربانیوں کا بھی انسان سے تعلق ہے۔ ( پیغام صلح۔ روحانی خزائن۔ جلد 23۔ صفحہ 482)

                پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں:

               ’’خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں۔ چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے۔

(چشمۂ معرفت ۔روحانی خزائن جلد 23۔ صفحہ 99۔ حاشیہ)

                تو یہ ہے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان۔پس یہ قربانی کا مادہ ہے جو ہم نے اپنے اندر پیدا کرناہے۔ اور پھر ذاتی طورپر نہیں بلکہ اپنے گھرکے ہرفرد کو اس کا فہم وادراک کروانا ہے اور پھر جماعتی سطح پر ہر شخص کواس قربانی کا ادراک ہونا چاہئے۔ اس سمت کا تعین کر کے جب اس طرف چلیں گے تو تبھی وہ تمام قربانیاں جو ہم کرتے ہیں انقلاب لانے کا باعث بنیں گی۔

               اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہونا کیاہے؟ اس کے ا حکامات کی تعمیل ۔ اپنی تمام صلاحیتوں اور قوتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناناہے۔ حضرت ابراہیم؈نے خواب دیکھی تھی کہ بیٹے کو قربان کر رہے ہیں۔ تو اس وقت تک انتظار کیا جب تک بیٹا خود اس قربانی میں حصہ دار بننے کے لئے تیار نہ ہوگیا۔اس زمانہ میں اگر حضرت ابراہیم؈حضرت اسمٰعیل؈کے گلے پر چھری پھیر دیتے جب وہ اپنے شعور کو نہ پہنچے تھے اور وہ قربانی ہو بھی جاتی تو کوئی ایسی بات نہیں تھی کیونکہ اس زمانہ میں انسانی قربانی کا تصور اور رواج تھا۔جس طرح دوسرے باپ اپنے بچوں کو قربان کر دیتے تھے حضرت ابراہیم؈ اپنے بیٹے کو قربان کر دیتے اور پتہ بھی نہ لگتا۔بلکہ آج تک بعض مذاہب میں انسانی قربانی کا تصور ہے۔ صرف خدا یا بتوں پہ قربان نہیں کئے جاتے بلکہ بعض مذاہب اور روایات میں عورتیں اپنے خاوندوں کے لئے قربان کر دی جاتیں۔مثلاًہندوؤں میں ایک رسم ہے جو ابھی بھی بعض جگہ پر قانون سے بچ کر جاری ہے۔خاوند کے مرنے پر بیوی کو اس کے ساتھ ستی کر دیا جاتاہے۔لیکن کیا وہ قربانیاں جو اس وقت کی جاتی تھیں یا اب بھی بعض مذاہب یا افریقہ میں جیساکہ مَیں نے کہا انسانی قربانی کا تصو رہے ،کی جاتی ہیں ۔یہ قربانیاں کسی انقلاب لانے کا باعث بنتی ہیں؟یا اس قربانی کی یاد میں جو کی جاتی ہیں خوشی منائی جاتی ہے؟ نہیں بلکہ ان قربانیوں سے تو بے چینیاں پھیلتی ہیں۔کبھی قانون بنائے جاتے ہیں کہ قربانی نہ کی جائے ۔لیکن حضرت ابراہیم؈ اور حضرت اسمٰعیل؈ نے جو قربانی کی وہ ایک مومن میں جذبہ پیدا کرتی ہے ۔ ایک بیٹا باپ کی بات سن کر کہتاہے  یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ اِنْشَائَ اللّٰہُ مّنَ الصّٰبِرِیْنَ(الصفت:103) کیا خوبصورت جواب ہے۔ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور اس کی ذات کا فہم وادراک رکھنے والے بیٹے کا یہ جواب ہے کہ اے میرے باپ جو کچھ تجھے خدا کہتاہے وہی کر ۔انشاء اللہ تُو مجھے صبر کرنے والوں اور ایمان پر قائم رہنے والوں میں پائے گا۔تو یہ قربانی تھی جس کے لئے باپ اور بیٹے نے خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے بغیر کسی تردّد کے عملی قدم اٹھایا ۔حضر ت ابراہیم؈ جو ابو الانبیاء کہلاتے ہیں انہوں نے بیٹے کے بڑے ہونے کا انتظارکرنے تک جووقت گزرایا انتظار کیاوہ کسی تردّد کا ا ظہار نہیں تھا بلکہ وہ چاہتے تھے کہ جو کام مَیں خدا کی ذات کے لئے کرنا چاہتاہوں اس میں بیٹا بھی اپنی مرضی سے شامل ہو۔        ان کو پتہ تھاکہ یقینابیٹے کاجواب ہاں میں ہی ہوگا۔یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ بیٹے کوبھی خدا تعالیٰ کی ذا ت کا فہم و ادراک ہے ۔بیٹے کو اس ثواب میں زیادہ سے زیادہ حصہ دار بنانا چاہتے تھے جو اس قربانی کے نتیجہ میں باپ بیٹے کو ملنا تھا۔ لیکن خداتعالیٰ کی مرضی کچھ اورتھی ۔ اس واقعہ کے ساتھ، اس انسانی قربانی کے حکم ساتھ یا جو خوا ب دکھائی اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اصل میں بغیر کسی مقصدکے انسان کی قربانی کی جو بدرسم جاری تھی اس کو بھی ختم کرنا چاہتاتھا۔ جب باپ نے بیٹے کو لٹا دیا تو اللہ تعالیٰ نے آواز دے کر ، دونوں باپ بیٹے پر اپنے پیار کی نظر ڈالتے ہوئے کہاکہ رُک جاؤ۔قَدْصَدَّقْتَ الرُّئْ یَا (الصّٰفٰت :106)یقینا تُو اپنی رؤیا پوری کر چکا۔جو خواب تھی وہ پوری کرچکا۔ اب آج سے کوئی انسانی جان بلا مقصد جانوروں کی طرح ذبح نہیں کی جائے گی بلکہ اس قربانی کے رواج کو آج سے ہم ایک نیا اور خوبصورت رنگ دیتے ہیں۔ اس قربانی کو ظاہری رنگ میں پورا کرنے کے لئے یہ حکم ہوا کہ مینڈھا ذبح کر دو اور اپنی قربانی ایک بامقصد قربانی بناؤ ۔ جس کی ابتداء حقیقت میں اے ابراہیم تو اس وقت پوری کرچکاہے جب حضرت ہاجرہ علیہا السلام کو بچے کے ساتھ بے آب و گیاہ جگہ پہ چھوڑ آیا تھاتاکہ خداتعالیٰ کا نام بیابانوں میںبھی پھیل جائے۔تاکہ دنیا یہ گواہی دے کہ صرف باپ نہیں ، صرف بیٹا نہیں بلکہ ماں بھی اس قربانی میں شامل ہے  تا کہ دنیا یہ معجزہ دیکھے کہ اللہ تعالیٰ بیابانوں کو بھی شہروں میں بد ل دیتاہے۔ تاکہ دنیا یہ معجزہ دیکھے کہ یہ جگہ جو آج جنگل ہے اور کسی کو اس سے دلچسپی نہیں مرجع خلائق بن جانے والی ہے ۔اور دنیا یہ معجزہ دیکھے کہ اس قربانی کرنے والے خاندان سے اللہ تعالیٰ نے وہ انسان پیدا کرناہے جس نے دنیا کو حقیقی اور بامقصد قربانی کے طریق سکھانے ہیں۔ جس نے اپنی قربانی کی ایسی مثالیں قائم کرنی تھیں جو نہ دنیا نے اس سے پہلے دیکھی اور نہ اس کے بعد دیکھ سکتی ہے۔وہ کامل اسوہ حسنہ ہے ۔ کامل نمونہ ہے ۔ جس کا ا وڑھنا بچھونا ،مرنا جینا ، صرف اور صرف خداتعالیٰ کے لئے ہے۔مالی قربانی کی مثالیں ہیں ، جان کی قربانی کی مثالیں ہیں۔وقت کی قربانی کی مثالیں ہیں۔عزت کی قربانی کی مثالیں ہیں  ۔مال کی قربانی ہے۔ جو گھر میں آتاہے خدا کی مخلوق کے لئے ،غریبوں کی بھوک مٹانے کے لئے ،ضرورتمندوں کے لئے فوری تقسیم کر دیا جاتا ہے اور جو دینی ضروریات کے لئے خرچ ہے اس کی توکوئی انتہاہی نہیں۔ صدقہ و خیرات کی بھی کوئی حد نہیں۔ تالیف قلب کا کوئی مقابلہ نہیں ۔جانوروں سے بھری ہوئی وادی بغیر کسی فکر کے کھڑے کھڑے  ایسے شخص کو تحفہ دے دی جو ابھی مسلمان بھی نہیں ہوا اس لئے کہ دنیا اسلام کی حقیقت کوسمجھے ، اس مقصد کو سمجھے جواسلام اور آنحضرت اکی آمد کاہے۔ جان خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کا سوال ہے تو اسلام کے خلاف جنگوں میں آپ ہمیشہ ایسے مقام پر ہوتے تھے جو خطرناک ترین ہوتا تھا۔ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے سب سے زیادہ  بہاد ر اور نڈراور جان کی پرواہ نہ کرنے والا وہی سمجھاجاتا تھاجومیدان جنگ میں آنحضرت اکے سب سے زیادہ قریب ہوتاتھا۔بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق ہر خطرہ سے بچایا لیکن آپ نے اپنے عمل سے صحابہ کو یہ سبق دے دیا کہ جان کی قربانی پیش کرنی ہے تو یہ طریق ہے  ا ور یہ مقصد ہے کہ اسلام کے دفاع کے لئے پیش کرو۔اپنی زندگی کوایک اعلیٰ مقصد کے لئے قربان کرو کہ اسی سے دائمی زندگی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نام کی سربلندی کے لئے اپنی زندگی کو حقیر شے سمجھو۔

               پھر وقت کی قربانی ہے تو وہ بھی آپ کا ہرلمحہ حتی کہ نیند بھی خدا کی یاد میں قربان۔لوگوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے وقت دیا جا رہاہے ۔ کوئی وقت ایسانہیں جو بلا مقصد ضائع ہو ۔

               پھر عزت ہے تو اَلْعِزَّۃُ لِلّٰہِ جَمِیْعًا کے مضمون کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے اپنے جذبات کو اس طرح مسل دیاجیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ دنیا نے جذبات کی قربانی کا وہ بلند معیار صلح حدیبیہ کے وقت دیکھا جب رؤیا کوپورا کرنے کے لئے آپ ﷺ اپنے صحا بہ کے ساتھ مکّہ تشریف لائے اوروہاں آنے کے باوجود جب دیکھاکہ آج اپنے جذبات کی قربانی میں ہی خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو بظاہر نظر ایسی شرائط پر معاہدہ کرلیا جس سے کمزوری ظاہر ہوتی تھی۔ صحابہ بے چین تھے ۔ حضرت عمر ؓجیسے صائب الرائے اور پختہ ایمان والے بھی جوش میں آنحضرت اسے پوچھتے ہیں کہ یارسول اللہ کیا آپ اللہ کے سچے رسول نہیں ۔ صحابہ ؓ کی زبانیں غم سے گنگ ہیں۔ اس دن صحابہ جان کی قربانی دینے کے لئے تو تیار تھے جیسا کہ  آنحضرت انے  بیعت لی تھی لیکن اپنی عزت اور جذبات کی قربانی دینے کے لئے تیار نہیں تھے ۔لیکن اس  رسول ،ہاں کامل رسول ، اس کوہ وقار و عظمت رسول جن کا اوڑھنا بچھونااللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول تھااور ا س کی خاطرہر قربانی کرنے کے لئے تیار تھے ۔سمجھتے تھے کہ یقینا مَیں اللہ تعالیٰ کا سب سے پیارا اور سچا رسول ہوں لیکن یہ معاہدہ جو بظاہر ذلت کاباعث لگ رہاہے اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق فتح مبین کی صدائیں دے رہاہے اورپھر  اپنی قربانی کے جانور کی گردن پرچھری پھیرکرجو ظاہری طورپر اس جذباتی قربانی کے اظہار کے لئے ضروری تھا اس کی بھی اعلیٰ ترین مثال آپ ؐنے قائم کی۔ صحابہ کو اس قربانی نے جھنجھوڑ دیا۔ وہ جوپہلے اپنی قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے کے لئے تیار نہیں تھے وہ بھی آپؐ  کی قربانی کرنے کے بعد اس بامقصد قربانی کی حکمت کو سمجھتے ہوئے اپنے جذبات کی قربانی کرنے والے بن گئے ۔پس حضرت ابراہیم ؑ،حضرت ہاجرہ ؑاور حضر ت اسمٰعیل ؑکی قربانیوں نے اصل میں وہ قربانیاں کرنے والا انسان پیدا کیا جو انسان کامل کہلایا۔اور ہر قسم کی قربانیوں کے اعلیٰ ترین معیارقائم کرکے رہتی دنیا تک اپنا اسو ہ حسنہ چھوڑ گیا ۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ  وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔

               پس آج کی عید ہمیں یہ معیار سکھانے کے لئے اس اسوہ پر چلنے کی طرف رہنما ئی کرنے کے لئے ہے ، یاددلانے کے لئے ہے۔ حقو ق اللہ اور حقوق العباد کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے ہے۔ ہمیں اپنے عہدوں کی یاددہانی کروانے کے لئے ہے کہ مَیں اپنی جان ،مال،وقت اور عزت کوقربا ن کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہوںگا۔یہ رسول ا   جس نے ہر قسم کی قربانیوں کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں تاکہ اپنی پیدائش کا مقصد پورا کرسکیں ، اس رسول اکے عاشق صادق اور غلام صادق کی جماعت میں ہونے کا ہمارا دعویٰ ہے ۔ پس اٹھیں اور آج یہ عہد کریں کہ اسلام کی عظمت دنیا میں قائم کرنے کے لئے ،آنحضرت اکی عزت دنیا میں قائم کرنے کے لئے ، خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا جھنڈا دنیا میں لہرانے کے لئے ہر اس قربانی کے لئے تیار رہیں گے جس کے لئے مسیح محمدی کو خدا تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا ہے ۔ان بامقصد قربانیوں کے لئے آج ہراحمدی ایک نئے عزم کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کرے تاکہ خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم ہو اور آنحضرت اکا جھنڈا دنیا میں لہرائے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ نے اپنی تاریخ کے گزشتہ قریباً ایک سو بیس سال میں اپنی بامقصد قربانیوں کوجو جان کی صور ت میں بھی ہیں ،مال کی صورت میں بھی ہیں ،وقت کی صورت میں بھی ہیں اور عزت وجذبا ت کی قربانی کی صورت میں بھی ہیں کبھی کم نہیں ہونے دیا ۔ آج بھی یہ عہد کریں کہ ان قربانیوں کی لَو کو نہ ہم کبھی اپنے دلوں سے بجھنے دیں گے اور نہ ہی اپنی نسلوں کے دلوں میں بجھنے دیں گے ۔اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہی ہمارا مقصد ہوگا۔ اور اس کے آگے جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے ہم اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیاکے ا ُسوہ کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں گے ۔

               گزشتہ دنوں مَیںقادیان کے لئے یہاں سے نکلا تھالیکن ابھی ہندوستان کے سفر پہ ہی تھاجو جنوبی ہندوستان کا سفر تھا ،اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ سفر بھی جو دو ہفتے کا تھا بڑا کامیاب رہا، لیکن قادیان پہنچنے سے پہلے ہی ایسے

 حالا ت  پید ا ہوئے کہ دہلی سے واپس آنا پڑا اورمجھے ایک بہت مشکل فیصلہ کرنا پڑا ۔لیکن جماعت کے مفاد کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اسی میں سمجھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ۔اس کے بعد کئی لوگوں نے مجھے لکھا ۔ہر ا حمدی اپنے اپنے ذوق کے مطابق(بات) کرتاہے لیکن ا س طرف بہت سو ں کی نظر گئی کہ یہ حدیبیہ کے واقعہ سے ملتی جلتی بات ہے ۔ بہرحال نہ تو مَیں یہ کہتاہوں نہ یہ میرا مقام ہے ۔نہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ واقعہ اس واقعہ  پر کسی طرح بھی چسپاں ہوتاہے۔ جس طرح مَیں نے کہا کہ ہر ایک کا اپنا اپنا ذوق ہے۔ احمدی بھی اس کے مطابق مثالیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ا س کے نتائج کامیابی کی صورت میں نکالے ۔کیونکہ یہاں چسپاں کرنے کی جوبات ہے، جب ایک موقع پر چسپاں کرتے ہیں توپھر یہ بھی سمجھا جاتاہے کہ اس کا نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا،یا اسی عرصہ میں نتیجہ نکلنا چاہئے۔ اور پھر کمزور ایمان والے ٹھوکر بھی کھا سکتے ہیں۔ نتیجہ تو اللہ تعالیٰ نے انشاء اللہ تعالیٰ نکالنا ہی ہے اور بہتر نکالے گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ ا لصلوٰۃ والسلام سے وعدہ ہے لیکن وہ بہتر جانتاہے کہ کب یہ نتیجہ نکالناہے۔پس اگر کوئی مشابہت ہے تو ہمیںاس کے نتیجہ کی مشابہت کے لئے دعا کرنی چاہئے ۔ لیکن بہرحا ل یہ ضرور ہے کہ جو جذبات کی قربانی قادیان کے احمدیوں نے اور پاکستان کے ان احمدیوں نے دی جو ویزے حاصل کر چکے تھے اور جلسہ پر آنے کااور مجھ سے ملنے کا ان کو بہت اشتیاق تھاوہ یقینا قابل قدر ہے ۔لیکن ا س کے ساتھ مَیں کہوں گا کہ حدیبیہ کے واقعہ کے بعد جیسے مَیںنے پہلے بھی اشارہ کیا صحابہ نے جو نمونہ دکھایا اس کی ہم احتراماً ضرو ر تتبع کر سکتے ہیںکہ اس جذباتی اور بعض لوگوں کے خیال میں عزت کی قربانی کی وجہ سے صحابہ کی جودعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہوئی تھی وہ سلوک اپنے پر لاگو کریں۔ اپنی آہیں اور فریادیں اور بکائیں اس زور سے اور تڑپ سے خدا تعالیٰ کے حضور پیش کریں کہ خداتعالیٰ ہماری حقیر قربانیوں اور ہماری عاجزانہ دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے ہر مخالف اور دشمن کے شر کو الٹادے اور ہمارے لئے ایسے سامان پید افرمائے کہ راستے کی تمام روکیں اورمخالفین کی تمام کوششیں اور مکر کرنے والوں کے تمام مکرخس و خاشاک کی طرح اڑ جائیں ۔ ہمارے جلسے  ربوہ ،پاکستان میں بھی ہوں ۔ ہندوستان میں بھی ہماری رونقیں ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی پہلے سے بڑھ کر برسات ہو ۔اے ہمارے خدا ہم کمزور اور گنہگار ہیں۔ہم پر ہمیشہ اپنا رحم اور فضل فرما۔ہماری حقیر قربانیوں کو قبو ل فرما او رہمیں ہمیشہ اپنے فضلوں سے نوازتا چلا جا۔

                اس کے بعد اب عید کی مناسبت سے قادیان کے ا حمدی جو بڑا انتظار کر رہے تھے اور آج عید پہلے پروگرام کے مطابق وہیں پڑھی جانی تھی ان سب کومَیں عیدمبارک اور محبت بھراسلام پہنچاتاہوں۔خطوط بھی ان لوگوں کے بہت ساروں کے آ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد اپنا فضل فرمائے گا اور رونقیں بحال ہوںگی انشاء اللہ۔ربوہ اور پاکستان کے احمدیوں کوبھی عیدمبارک اور محبت بھرا سلام۔آپ لوگوں کے درد کو مَیںبھی سمجھتا اور پہچانتاہوں۔ جس دور میں سے آپ گزر رہے ہیں اس دور سے مَیں بھی جب پاکستان میں تھا گزرا ہوں ۔ اور آج اس سے بڑھ کر ایک دور سے گزر رہاہوں۔پاکستان کے احمدی وہ ہیں جنہوں نے ہر طرح کی قربانی کے معیار قائم کئے ہیں اور مسلسل کئے ہیں اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جس طرح درویشان قادیان نے ایک لمبا عرصہ کئے،قربانیاںدیں اور قربانیوں کے ا علیٰ معیار قائم کئے اور ابھی تک کر رہے ہیں ۔ ان قربانیوں کی قبولیت کے لئے ایک ہی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے چلے جائیں ۔اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ۔

               آپ لوگ جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں آپ سب کو بھی عیدمبارک ہو اور تمام دنیا کے احمدیوں کو بھی عید مبارک اور محبت بھرا سلام۔جو امن سے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو ہمیشہ امن سے رکھے ۔ ایسی حالت میں بھی جو ا من کی حالت ہے آپ لوگ ہمیشہ اپنی قربانیوں کے جائزے لیتے رہیں اور اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی کوشش کرتے رہیں تاکہ ہم اپنی زندگیوں میں ہی فتح مبین کے نظارے دیکھنے والے بن جائیں ۔

               اس کے بعداب دعا ہوگی ۔دعاؤں میں واقفین زندگی ، جماعت کے کارکنان ، خدمت گار،واقفین نو ، مالی قربانیا ں کرنے والے یاکسی بھی رنگ میں جو قربانیاں کرنے والے ہیں،  ان سب کو ، تمام جماعت کو یاد رکھیں۔

                اللہ تعالیٰ سب پر اپنا فضل فرمائے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں