خطبہ عیدالاضحی سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍اکتوبر2014ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے عید الاضحی منا رہے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں آج ہی عید منائی جا رہی ہے اور بعض ممالک میںپہلے ہو چکی ہے۔ اس عید پر قربانیاں دی جاتی ہیں اور لاکھوں جانور ان دنوں میں قربان کر دئیے جاتے ہیں۔ پھر حج کا فریضہ بھی ہے۔ لاکھوں مسلمان یہ فریضہ بھی ادا کرتے ہیں اور ان حاجیوں کی قربانیوں کی تعداد بھی لاکھوں میں پہنچ جاتی ہے۔ لیکن ہم میں سے اکثر یہ سوچتے نہیں کہ ان قربانیوں یا عید کی خوشی منانے کا فائدہ کیا ہے؟ کیا صرف گوشت کھانے کے لئے، دعوتیں کرنے کے لئے ہم نے یہ قربانیاں کی ہیں۔ کیا دنیا کو بتانے کے لئے ہم نے یہ قربانیاں کی ہیں کہ ہم اتنی حیثیت رکھتے ہیں کہ بکری، بھیڑ، گائے کی قربانی کر سکیں۔ اگر ہم میں سے بعض لوگ حج کے لئے گئے ہیں تو اس مقصد کے لئے گئے ہیںکہ دنیا کو بتایا جائے کہ ہم حج پر ہو کے آئے ہیں۔ دنیا کو بتانے کے لئے گئے ہیں کہ حج کر کے آنے کے ساتھ اب ہمارے نام کے ساتھ حاجی لگ گیا ہمیں حاجی کہو۔ یا اپنے کاروباری شریکوں کے مقابلے پر ہم نے بھی کاروباری کارڈوں اور بورڈوں پر چھاپنے کے لئے حاجی کا لفظ لکھنے کے لئے حج کیا ہے۔ کیا صرف اتنا ہی کافی ہے جس کی وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں اور اس کے حکموں کو بجا لانے والوں میں شامل ہو جائیں گے؟ یہ سوچ ایسی ہے کہ اس کی اللہ تعالیٰ نے بڑی سختی سے نفی فرمائی ہے اور ایک اصولی بات فرما دی کہ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔(الحج:38)کہ ان قربانیوں کے گوشت اور خون ہرگز اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچتے لیکن تمہارے دل کا تقویٰ اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ پس جو قربانیاں تقویٰ کو مدّ نظر رکھ کر کی جائیں، خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے کی جائیں، جو عیدیں اس لئے منائی جائیں کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ عید مناؤ۔ اس لئے کہ یہ قربانی کی عید تمہیں قربانی کے اسلوب سکھاتی ہے۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ ان حکموں پر غور کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہے جو تقویٰ کے معیار بلند کرتے ہیں۔ ان ماں بیٹا اور باپ کی قربانیوں کی طرف توجہ دلاتی ہے جنہوں نے اپنے جذبات کو قربان کیا۔ جو صرف چھری پھروانے اور پھیرنے کے عارضی نمونے دکھانے والے نہیں تھے بلکہ مسلسل لمبا عرصہ قربانیاں دینے والے تھے۔ جنہوں نے دنیا کو امن اور سلامتی کے اسلوب سکھانے کے لئے نہ صرف اپنے جذبات کو قربان کیا، اپنے آرام کو قربان کیا، اپنے وطن کو قربان کیا بلکہ ان دعاؤں میں مسلسل لگے رہے کہ خدا تعالیٰ آئندہ آنے والی نسلوں میں بھی ایسا انتظام کر دے جو دنیا کے لئے امن اور سلامتی دینے والے بن جائیں۔ جو تقویٰ کی وہ راہیں دکھانے والے ہوں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو ہر چیز پر مقدم کرتے ہوئے تقویٰ کا اعلیٰ معیار قائم کر دیں۔ جن کے نمونے دنیا کے لئے ہمیشہ کے لئے رہنما بن جائیں۔
پس حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی بیوی اور بیٹے کی قربانی کی یاد میں جو ہم عید قربان مناتے ہیں اور مناسک حج ادا کرتے ہیں یہ ظاہری قربانیاں اور اظہار نہیں ہیں بلکہ ایک بہت بڑے مقصد کی طرف توجہ دلانے والے ہیں۔ ہماری قربانیاں جو بکروں، بھیڑوں اور گائیوں کی ہم کرتے ہیں یہ صرف ہماری بڑائی کے اظہار یا لوگوں پر اپنی نیکیاں ظاہر کرنے کے لئے نہیں کہ فلاں شخص نے بڑا خوبصورت اور مہنگا دنبہ قربان کیا یا فلاں نے بڑی خوبصورت اور مہنگی گائے قربان کی۔ اگر تقویٰ سے عاری یہ قربانیاں ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خواہش اور دعا کے بغیر یہ قربانیاں ہیں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ ردّ کرنے کے قابل ہیں۔ یہ اسی طرح ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں جس طرح نمازیں ہلاکت کا باعث بنتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نہیں پڑھی جاتیں بلکہ صرف دکھاوے کی ہوتی ہیں۔ حج بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں ردّ ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نہ کئے جائیں۔
روایات میں آتا ہے کہ ایک بزرگ نے کشفی رنگ میں فرشتوں کو یہ باتیں کرتے دیکھا کہ اس سال کس قدر لوگوں کے حج قبول ہوئے ہیں۔ تو انہیں بتایا گیا کہ ان حاجیوں میں سے جو یہاں آئے ہیں کسی ایک کا بھی حج قبول نہیں ہوا۔ ہاں ایک شخص ہے جو فلاں جگہ رہتا ہے اس کا حج یہاں نہ آنے کے باوجود قبول ہو گیا ہے ۔ ان بزرگ کو جستجو پیدا ہوئی کہ جا کر دیکھوں کہ اس شخص نے کون سا ایسا عمل کیا ہے جو تقویٰ کا ایسا معیار حاصل کر گیا کہ حج نہ کرنے کے باوجود بھی اس کا حج قبول ہو گیا اور یہاں آنے والے حاجیوں کا حج قبول نہیں ہوا یا شاید ہوا بھی تو اس کے طفیل ہوا۔ یہ بزرگ جب تلاش کرتے ہوئے اس شخص کے پاس پہنچے اور اسے بتایا کہ اس طرح میں نے رؤیا یا کشف دیکھا ہے کہ تمہارا حج قبول ہو گیا۔ وہ کون سا عمل ہے جو خدا تعالیٰ کو اس قدر پسند آیا کہ گھر بیٹھے بیٹھے تم حاجی بن گئے۔ اس نے کہا کہ مَیں ایک غریب آدمی ہوں پیسہ پیسہ جوڑ کر مَیں نے حج کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے زادِ راہ جمع کیا۔ جب حج کی تیاری کر رہا تھا تو ایک دن ہمسائے کے گھر سے گوشت پکنے کی خوشبو آئی۔ میری بیوی جو حاملہ تھی اس کو گوشت کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ بعض دفعہ حاملہ عورتوں کو کھانے کی بعض خواہشیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس نے کیونکہ دیر سے گوشت نہیں کھایا تھا اور ہمارے ایسے حالات نہیں تھے کہ گوشت پکا سکیں۔ اس نے کہا کہ ہمسائے کے گھر گوشت پک رہا ہے خوشبو آ رہی ہے اس سے مانگ لو۔ مَیں جب اس گھر میں تھوڑا سا گوشت کا سالن لینے گیا۔ اس ہمسائے سے اچھے تعلقات تھے اس لئے سالن مانگنے میں عار نہیں سمجھا۔ یہ نہیں کہ اس کے گھر نہ جانتے ہوئے پہنچ گئے ۔ جب دروازہ کھٹکھٹا کر گھر والوں کو بلایا تو اس گھر والے کی بیوی دروازے پر آئی۔ میں نے اسے اپنی بیوی کا پیغام دیا تو وہ کہنے لگی کہ یہ گوشت ہمارے لئے تو جائز ہے لیکن تمہارے لئے نہیں۔ اس لئے مَیں تمہیں نہیں دے سکتی۔ مَیں نے اسے کہا یہ کیا بات ہے کہ گوشت تمہارے لئے جائز ہے اور ہمارے لئے نہیں؟ اس نے کہا کہ کئی روز سے ہم پر فاقے آ رہے تھے۔ بچے بھوک سے تڑپ رہے تھے۔ میرا خاوند باہر گیا تو اس کو ایک مرا ہوا گدھا نظر آیا۔ اس نے اس کا گوشت کاٹا اور گھر لے آیا جسے میں اب پکا رہی ہوں۔ یہ اضطراری حالت ہماری تو ہے تمہاری نہیں کہ تمہیں یہ حرام گوشت دیا جائے۔ پس یہ گوشت تمہارے لئے جائز نہیں۔ وہ شخص کہنے لگا کہ میں نے جب ہمسائے کی حالت کا یہ حال سنا تو میں فوراً اپنے گھر گیا اور حج کے لئے جو زادِ راہ جمع کیا تھا وہ لا کر ہمسائے کو دے دیا اور اسے کہا کہ تم بھی وہ حرام پھینک دو اور حلال کھاؤ۔ تو یہ شخص کہنے لگا کہ یہ میری کہانی ہے۔ (ماخوذ از تذکرۃ الاولیاء از حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ صفحہ 165ناشر ممتاز اکیڈمی لاہور)
پس اللہ تعالیٰ نے تقویٰ پر مبنی اس سوچ اور ہمسائے کے حق کی ادائیگی پر حج پر نہ جانے کے باوجود اس کا حج قبول کیا۔ پس ہر عبادت اور قربانی تقویٰ کی روح کو چاہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو چاہتی ہے۔ اس کے بغیر یہ سب عبادتیں اور قربانیاں منہ پر ماری جاتی ہیں۔
حج پر جانے والوں کا جو حال ہے اس کا بیان حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک جگہ فرمایا۔ آپ نے فرمایا کہ جب میں حج پر گیا تو ایک نوجوان بھی غالباً سفر کے دوران ہی واقف بن گیاوہ بھی ہندوستان سے ہی گیا تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ وہاں حج کے دوران مَیں نے دیکھا کہ وہ بجائے دعائیں کرنے کے تسبیح اور تلبیہ کرنے کے فلمی گانے گا رہا تھا۔ تو میں نے اسے کہا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ یہ دعاؤں کا وقت ہے۔ بجائے دعاؤں میں مصروف ہونے کے تم کس بیہودگی میں پڑے ہوئے ہو۔ کہنے لگا کہ مجھے تو نہ نماز آتی ہے نہ دعاؤں کا پتا ہے۔ میرا تو ہندوستان کے فلاں شہر میں کاروبار ہے۔ کپڑے کی بڑی دکان ہے۔ ہمارے مقابل پر ایک اور کپڑے کا تاجر ہے۔ وہ حج کر کے آیا ہے اور اس نے اپنی دکان پر نام کے ساتھ حاجی کا بورڈ لگا دیا ہے۔ اب لوگ اس کی دکان پر بہت جاتے ہیں۔ تو میرے باپ نے کہا کہ تم بھی مکّہ جاؤ۔ کچھ پتا ہے یا نہیں کم از کم حاجی کا بورڈ تو ہم لگا لیں گے۔ تو مَیں تو اس لئے آیا ہوں کہ میری(دکان پر) حاجی کا بورڈ لگ جائے۔
(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد6 صفحہ35)
پس ایسے بھی حاجی ہوتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں ۔واپسی کے سفر پر جب اسے پتا چلا کہ مَیں احمدی ہوں اور بعض لوگوں نے مخالفت شروع کی تو وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا کہ تم قادیانی کافر ہو۔ نہ نماز کا پتا، نہ اللہ کا پتا، نہ رسول کا پتا، لیکن فتوے دینے میں سب سے آگے۔ آج کل اکثر حج پر جانے والوں کا یہی حال ہے۔ نہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے والے ہیں۔ نہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے والے ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے پر ظلم، قتل و غارت ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا ہیں لیکن یہ مسلمان ہیں اور احمدیوں کو حج پر پابندی ہے کیونکہ احمدی کافر ہے۔ پس یہ تقویٰ سے عاری لوگ ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کیا سلوک کرے گا یہ خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ماننے والے ہیں ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اس روح کی تلاش کریں جو اِن قربانیوں کی روح ہے۔
اس کی وضاحت ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئی جگہ فرمائی ہے۔ اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ قربانی کی حقیقت کیا ہے اور اس کا معیار کیا ہے؟ آپؑ نے فرمایا کہ:
’’ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے۔‘‘ پھر فرمایا کہ: ’’ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے۔‘‘ حقیقی مسلمان وہی بنتا ہے جو نفس کی قربانی کرے۔ فرمایا کہ ’’ اسلام کے معنی ہیں ذبح ہونے کے لئے گردن آگے رکھ دینا۔ یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی روح کو خدا کے آستانہ پر رکھ دینا۔‘‘ فرمایا کہ ’’یہ پیارا نام ‘‘(یعنی اسلام) ’’تمام شریعت کی روح اور تمام احکام کی جان ہے۔ ذبح ہونے کے لئے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے اور کامل محبت کامل معرفت کو چاہتی ہے۔ پس اسلام کا لفظ اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقیقی قربانی کے لئے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے نہ کسی اور چیز کی ضرورت۔ اسی کی طرف خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے کہ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔(الحج:38)یعنی تمہاری( قربانیوں) کے نہ تو گوشت میرے تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ خون بلکہ صرف یہ قربانی مجھ تک پہنچتی ہے کہ تم مجھ سے ڈرو اور میرے لئے تقویٰ اختیار کرو۔ ‘‘
(لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد20 صفحہ151,152)
پس اسلام نام ہے تقویٰ کا اور تقویٰ یہ ہے کہ کامل عشق اور کامل محبت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ اس کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرنا۔ اور پھر یہ بھی بڑا واضح طور پر آپ نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد دو باتوں پر ہے۔ گزشتہ جمعہ بھی مَیں نے ابتدا میں ذکر کیا تھا۔ ایک اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا اور دوسرے اس کی مخلوق کا حق ادا کرنا اور یہی وہ دو حقوق ہیں جن کے قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سے قربانی لینے کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر نَوکروائی تھی اور اس مقصد کی اپنی نسلوں میں جاری رہنے کے لئے ان دونوں بزرگ نبیوں نے دعا کی تھی کہ یہ حق اس وقت اعلیٰ معیار پر اور مستقل قائم ہو سکتے ہیں جب کوئی ایسا شخص پیدا ہو جو اِن حقوق کے قائم کرنے کے لئے بے مثال نمونوں پر خود بھی قائم ہو۔ پس انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ کی باتوں سے بھی لگتا ہے، شواہد بھی یہی کہتے ہیں کہ ایسا شخص دنیا میں آنا تو ہے۔ ہماری یہ دعا ہے کہ ہماری اس حقیر قربانی اور دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے اسے ہماری نسل میں سے پیدا فرما۔ یہ حضرت اسماعیل اور حضرت ابراہیم کی دعا تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نبیوں کی دعاؤں کو سنا اور وہ عظیم رسول حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں مبعوث ہوا جس نے اپنا اُسوہ حسنہ حقوق اللہ کی ادائیگی کے لئے بھی قائم فرمایا اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے بھی قائم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حقِّ عبادت کے وہ معیار قائم کئے کہ عرش کے خدا نے فرمایا کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔(الانعام:163)تُو کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا گیا کہ تُو لوگوں کو کہہ دے کہ میری تمام عبادتیں خدا کے لئے ہیں یعنی نفس کو اور مخلوق کو اور اسباب کو میری عبادت سے کوئی حصہ نہیں‘‘۔عبادت نہ نفس کے لئے ہے، نہ مخلوق کے لئے اور نہ بظاہر ایسے لوگوں کے لئے جو قریبی بھی ہوتے ہیں ۔ نہ اسباب پر بھروسہ ہے، نہ ان کو حاصل کرنے کے لئے ہے۔ ’’اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ میری قربانی بھی خاص خدا کے لئے ہے ۔ اور میرا جینا بھی خدا کے لئے اور میرا مرنا بھی خدا کے لئے ‘‘۔ فرمایا کہ: نَسِیْکَہ لغت ِعرب میں قربانی کو کہتے ہیں اور لفظ نُسُک جو آیت میں موجود ہے اُس کی جمع ہے‘‘۔(نُسُک جو لفظ ہے یہ جمع ہے۔) ’’اور نیز دوسرے معنی اس کے عبادت کے بھی ہیں‘‘۔ اس لفظ کے ایک معنی قربانی ہیں دوسرے معنی عبادت ہیں۔’’ پس اس جگہ ایسا لفظ استعمال کیا گیا جس کے معنی عبادت اور قربانی دونوں پر اطلاق پاتے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کامل عبادت جس میں نفس اور مخلوق اور اسباب شریک نہیں ہیں درحقیقت ایک قربانی ہے اور کامل قربانی درحقیقت کامل عبادت ہے‘‘۔ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جو عبادت کی جائے وہ قربانی مانگتی ہے۔ اور جو کامل قربانی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے جو قربانی کی جائے، تقویٰ پر چلتے ہوئے جو قربانی کی جائے وہ پھر عبادت بن جاتی ہے۔ پس یہ وہ معیار تھا جو اس کامل نبی کو حاصل ہوا۔ اور پھر اس کامل اُسوہ نے ایسے صحابہ پیدا کئے جو اس اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرنے والے تھے۔ انہوں نے بھی اپنے معیارِ قربانی اور معیارِ عبادت بلند کئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مزید یہ بھی اس کے بارے میں فرمایا کہ آپ کی دعاؤں سے مخلوق باہر نہیں چلی جاتی۔ ایک حالت ایسی ہے جس میں نہ اسباب ہیں نہ مخلوق ہے نہ نفس ہے۔ دوسری حالت ایسی ہے جس میں مخلوق کے لئے بھی آپ قربانی کر رہے ہیں اور دعا دے رہے ہیں۔
پھر اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ میرا جینا اور مرنا کیا ہے آپ فرماتے ہیں کہ : ’’میرا جینا اور مرنا اُس خدا کے لئے ہے جو تمام جہان کی پرورش میں لگا ہوا ہے۔‘‘( یعنی رب العالمین ہے۔)’’ اس میں یہ اشارہ ہے کہ میری قربانی بھی تمام جہان کی بھلائی کے لئے ہے۔‘‘
(عصمت انبیاء علیہم السلام ۔روحانی خزائن جلد 18صفحہ 665۔666)
میری عبادتیں بھی، میری قربانی بھی کسی خاص مخلوق کے لئے یا مخلوق کی مدد حاصل کرنے کے لئے یا جتھے بنانے کے لئے نہیں ہے۔بلکہ تمام مخلوق کی بھلائی کے لئے میری قربانی بھی ہے اور میری عبادت بھی ہے۔ پس جس کی قربانی اور عبادتیں تمام جہان کی بھلائی کے لئے صرف اس لئے ہوں کہ کسی بھی غرض کے بغیر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کی جائے۔ ایسے شخص کی دل کی کیفیت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے جو مخلوق کے درد کے لئے اس دل میں تھا۔ یعنی سب سے زیادہ تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تھا ۔ اور یہی کیفیت تھی جس نے آپ کی راتوں کی عبادتوں کو مخلوق کے درد میں اس قدر تکلیف کی حد تک مبتلا کر دیا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ(الکہف:7)۔ کیا تُو ان لوگوں کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلاک کر لے گا؟ یہ وہ قربانی کا اعلیٰ ترین معیار تھا جو جہاں ایک طرف خدا تعالیٰ کے لئے تھا، اپنی عبادتوں کو خالصتاً اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو کر کرنے کے لئے تھا تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے درد نے بھی بے چین کیا ہوا تھا۔ پس قربانی کا یہ حق تھا جو اس عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا کہ دنیا کی اصلاح کے لئے اپنی جان کو ہلکان کر دیا۔ پھر حقوق العباد کی ادائیگی کا آپ نے وہ نمونہ قائم کیا۔ حقوق العباد کے لئے تو یہی ایک بہت بڑا نمونہ تھا کہ اپنی جان کو ہلکان کر لیا کہ ان کی اصلاح ہو جائے۔ پھر اور نمونے بھی ملتے ہیں۔ اس کی بھی کہیں اور کسی جگہ مثالیں نہیں ملتی ۔
آپ نے مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون…حدیث نمبر 10)
اور اس کو وسعت دیں تو یہ مطلب ہو گا کہ ہر وہ شخص محفوظ رہے جو امن سے رہنے والا اور سلامتی بھیجنے والا ہے۔ جب آپ نے ایک دفعہ ایک مجلس میں یہ فرمایا کہ دین تو خیر خواہی کا نام ہے۔ صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ کس چیز کی خیر خواہی؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ اللہ، اس کے رسول، مسلمان ائمہ اور عوام الناس کی خیر خواہی۔
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان ان الدین النصیحۃ حدیث نمبر196)
پس اسلام تو اس قدر خیر خواہی اور لوگوں کی بھلائی چاہتا ہے۔ اسلام کے اوپر یہ الزام کہ یہ بربریت کا مذہب ہے اسلام کی بنیادی تعلیم کے ہی خلاف ہے۔ اور اس میں نام نہاد مسلمانوں کے لئے بھی سبق ہے بلکہ کہنا چاہئے کہ حکم ہے جو اسلام کے نام پر ظلم اور بربریت کرتے ہیںکہ یہ بھی اپنی حالتوں پر غور کریں۔ غریبوں کی ہمدردی اور خیر خواہی کا اور ان کے حق ادا کرنے کا اس قدر احساس تھا کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے پاس اُحد کے برابر بھی سونا آ جائے تو تیسرا دن چڑھنے سے پہلے مَیں اسے تقسیم کر دوں۔
(صحیح البخاری کتاب فی الاسقراض و اداء الدین…باب اداء الدین حدیث نمبر 2389)
جنگ کے اصولوں پر آپ نے سختی سے عمل کروائے کہ کسی معصوم کو قتل نہیں کرنا۔ عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کرنا ۔ راہبوں کو قتل نہیں کرنا۔ درختوں کو نہیں کاٹنا کیونکہ یہ حرکات امن کو برباد کرنے والی اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے والی ہیں۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی جزء 9 صفحہ104کتاب السیر باب ترک قتل من لا قتال فیہ حدیث18666مکتبۃ الرشد ناشرون، ایڈیشن2004ء)
خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو خود سلامتی ہے، سلام ہے۔ یہ اس کی صفات کے خلاف ہے کہ اس قسم کی حرکت اس کے ماننے والے کریں۔ اس مقصد سے دُور لے جانے والی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کروائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کے متعلق فرمایا کہ وَاِذْ جَعَلْنَاالْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۔(البقرۃ:126) اللہ تعالیٰ کانام اَلسّلام بھی ہے کہ یہ جو آسمان پر السَّلام خدا کی خواہش ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو جیسا کہ مَیں نے کہا، اس کے لئے ضروری تھا کہ ہم ایک مرکز قائم کرتے جو دنیا کو امن دینے والا ہو۔ اور وہ جیسا کہ مَیں نے آیت کا یہ حصہ پڑھا ہے ہم نے بیت اللہ کو وہ جگہ بنا دیا، وہ ادارہ بنا دیا جہاں چاروں طرف سے لوگ جمع ہوں اور امن کا سبق سیکھیں۔ لیکن بدقسمتی ہے آجکل کے مسلمان علماء کی اور مسلمانوں کی حکومتوں کی بھی، لیڈروں کی بھی اور عوام الناس کی بھی اکثریت کی حالت جو ہے اس کے بالکل برعکس ہے۔ لاکھوں لوگ ہر سال یہاں حج کے لئے جمع ہوتے ہیں ان دنوں میں بھی بعض دفعہ ایسی رپورٹیں آتی ہیں کہ وہاں بھی لڑائیاں جھگڑے ہو جاتے ہیںلیکن وہاں سختی سے بعض دفعہ حکومت روک بھی دیتی ہے۔ جب حج کر کے باہر نکلتے ہیں تو پھر اس ادارے سے کچھ سبق سیکھنے کے بجائے صرف حاجی کا label لگاکر واپس آتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے مثال دی ہے۔ یہ لوگ وہاںجاتے ہیں ۔ لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک تو کہتے ہیں لیکن صرف زبانی۔ اور حج پر جانے والے یہی لوگ ہیں جن کے لئے یہ آزادی ہے کہ وہ حج پر جائیں ان میں سے اکثریت اسلام اور خدا کے نام پر ظلم و بربریت کر رہے ہیں۔ کتنی بدقسمتی ہے اس قسم کے مسلمانوں کی جو اللہ اور رسول کے حکم پر چلنے کے بجائے اس سے دُور ہٹ رہے ہیں۔ قربانیاں دینے کے اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلتے ہوئے، اس کی روح کو سمجھتے ہوئے جیسا کہ مَیں نے وضاحت کی ہے اپنی عبادتیں اور اپنی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے لئے کرنے کی بجائے اور پھر مخلوق کی بھلائی کے لئے اپنی دعائیں اور اپنی صلاحیتیں اور مال قربان کرنے کی بجائے یہ لوگ ظلم و بربریت کر رہے ہیں ۔ امن قائم کرنے کے لئے جو ادارہ اللہ تعالیٰ نے بنایا جیسا کہ میں نے ابھی بتایا خانہ کعبہ یہ ادارہ ہے۔ پھر اس کا استاد اپنے اس پیارے نبی کو بنایا جس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اور اس کے نام پر یہ سب ظلم ہوتے ہیں۔ نہ خانہ کعبہ کا پاس، نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا پاس ۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا کہ قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اﷲِ نُوْرٌ وَکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ(المائدۃ:16)یعنی تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ایک کتاب مبین ہے جو ہر قسم کے مسائل کو بیان کرنے والی ہے۔ پس تم اس کتاب سے ہدایت حاصل کرو لیکن تم خود ان باتوں کو سمجھ نہیں سکتے۔ اس لئے اس کو سمجھنے کے لئے اس رسول کی طرف دیکھو جو اس کا کامل نمونہ ہے جس کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا تھا کہکَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰن۔
(مسند احمد بن حنبل جلد8 صفحہ144 مسند النساء مسند عائشۃ الصدیقۃ حدیث 25108)
پس کیا آپ کی سیرت پر کوئی ایسا دھبہ لگا سکتا ہے کہ آپ نے کسی کا حق غصب کیا ہو، کسی پر ظلم کیا ہو۔ یتیموں، بیواؤں، کمزوروں اور بچوں کے حق مارے ہوں۔ نہیں بلکہ آپ تو ان سب کی پناہگاہ تھے۔ کیا اس استاد کی تعلیم پر آج مسلمانوں کی اکثریت عمل کرنے والی ہے۔ وہ لوگ جو آپ کے قتل کے درپے تھے جو اسلام کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ جنہوں نے آپ پر حملے کئے، جنگیں ٹھونسیں آپ نے ان کے قیدیوں سے بھی نرمی کا سلوک کیا۔ آپ نے انصاف قائم کرنے کے لئے دوست دشمن سے برابری کا سلوک کیا کہ یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے۔ آپ کی رحمت و شفقت تمام لوگوں پر حاوی تھی۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃٌ للعالَمین بنایا تھا۔ ان لوگوں کے کیا کرتوت ہیں۔عام اخباری نمائندے کو پکڑتے ہیں، ایک جرنلسٹ کو پکڑتے ہیں، کسی معصوم کو پکڑتے ہیں اور اس کا سر تن سے جدا کر دیتے ہیں، قتل کر دیتے ہیں۔ یہ کون سا اسلام ہے جس پہ آجکل یہ عمل ہو رہا ہے اور اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔ آپ نے تو اپنی رحمت کو اس قدر وسعت دی کہ آخر کار اس عمل کو دیکھتے ہوئے آپ کی جان کے دشمن بھی آپ کے غلام بن گئے۔ آپ نے اپنی رحمت کو وسیع کرنے کے لئے قربانی دی اور قربانی کے اسلوب اپنے صحابہ کو سکھائے۔ یہ صرف بکروں، بھیڑوں اور گائیوں کی قربانیاں نہیں تھیں۔ یہ نفس کی قربانیاں تھیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اگر دشمن کی طرف سے جنگ کی حالت پیدا کی گئی تو وہاں بھی آپ نے ہر معصوم کی جان کی ضمانت دی۔ جنگی قیدیوں سے نرمی کا سلوک کر کے انہیں آزاد کیا۔ کیا یہ وہ تعلیم ہے جس پر آج یہ شدت پسند گروہ عمل کر رہے ہیں۔ اپنے معصوموں کی، کلمہ گوؤوں کی جانیں بلا وجہ لئے چلے جا رہے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ ہم قربانیاں دے کر دشمن کو ختم کر رہے ہیں۔ بچوں کے دماغوں کو زہر سے بھر کر ان کو خود کش حملوں پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ قربانیاں ہیں؟ کہتے یہ ہیں کہ یہ قربانیاں ہیں جو ہم دیتے ہیں۔ یہ وہ حرکتیں ہیں جو سوائے اللہ تعالیٰ کی لعنت سہیڑنے کے اور کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ ایک کلمہ گو کی جان لینا جہنم میں پہنچاتا ہے۔(النساء: 94) یہ کس قسم کی جنت کی تلاش میں ہیں۔ یاد نہیں رکھتے کہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر کیا فرمایا تھا؟ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری الفاظ کا بھی یہ لوگ پاس نہیں کرتے اور پھر بھی مسلمان ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ جو مشعل راہ ہے جو ہر مسلمان کو حقیقی مسلمان بناتا ہے۔ روایت پیش کرتا ہوں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا کہ اے لوگو! یہ کون سا دن ہے؟ لوگوں نے عرض کیا یہ عرفہ کا قابل احترام دن ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ یہ کونسا شہر ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ مکّہ کا قابل احترام شہر ہے۔ پھر آپ نے فرمایا یہ کون سا مہینہ ہے؟ لوگوں نے عرض کیا۔ یہ ذی الحجہ کا قابل احترام مہینہ ہے۔ اس سوال و جواب کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سنو! تمہارے اموال اور تمہارے خون اور تمہاری آبروئیں اسی طرح قابل احترام اور مستحق حفاظت ہیں اور ان کی ہتک تمہارے لئے حرام ہے۔ جس طرح یہ دن، یہ شہر اور یہ مہینہ تمہارے لئے قابل احترام اور لائق ادب ہے اور جس کی ہتک تم پر حرام ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو کئی بار دہرایا۔ پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا اے میرے اللہ! کیا مَیں نے تیرا پیغام پہنچا دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ھَلْ بَلَّغْتُ کے الفاظ بھی کئی بار دہرائے پھر آپ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو جو یہاں موجود ہیں وہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچا دیں جو اس موقع پر موجود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ یاد رکھو کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرو اور خون ریزی کا ارتکاب کرنے لگو۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کے حضور اس بات کا برنگِ حقیقت یہ کھلا اظہار تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریضہ تبلیغ بڑے عمدہ رنگ میں ادا کر دیا ہے اورلوگوں کو ان کا اصل فرض اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ انسان کے بنیادی حقوق کا ہمیشہ خیال رکھنا۔ان کے اموال ان کی جانوں اور ان کی آبروؤں کے لئے کبھی خطرہ نہ بننا۔(ماخوذ از تفسیر ابن کثیر جلد3 صفحہ137 سورۃ المائدہ آیت67 یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت طبعہ اولیٰ1998ء)
یہ ہے وہ آپ کا آخری پیغام اپنی اُمّت کو۔ کہاں ہے اس میں کہ تم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جانا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک دوسرے کی گردنیں مار کر کافر نہ ہو جانا۔ ہمیں تو یہ کافر کہتے ہیں۔ ان کو اس تعریف کی رو سے آپ اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔
پس یہ وہ قربانی کرنے کی نصیحت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے جس کی وضاحت ابن عباس نے یقینا صحیح کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو کھول کر فرمادیا کہ بنیادی حقوق کا ہمیشہ خیال رکھنا۔ اگر اپنوں کے ساتھ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ(الفتح:30) کے سلوک کا حکم ہے تو غیروں بلکہ دشمنوں تک کے ساتھ یہ حکم ہے کہ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔(المائدۃ:9)اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ پس کہاں ہیں وہ مسلمان حکومتیں اور گروہ جو اس انصاف کو قائم کر کے دنیا کے امن کو مضبوط کر رہے ہیں۔ کوئی ایک بھی ہے ان میں سے؟ ان احکامات میں کسی القاعدہ کی یا طالبان کی یا افریقہ میں باکو حرام ہے یا اور تنظیمیں ہیں یا اسلام کے نام پر ظالمانہ حکومت اور خلافت قائم کرنے والوں کی کہاں گنجائش ہے؟ چاہئے تو یہ تھا کہ امن قائم کرنے والے ادارے امن کے بادشاہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور امن اور پیار اور محبت کی تعلیم دینے والی کتاب سے فائدہ اٹھا کر امّت واحدہ بنتے۔ دنیا میں امن اور سلامتی کو پھیلاتے اور پھر اس زمانے میں تو یہ اور بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل مؤاخذہ بن جاتے ہیں جب صرف خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وارننگ ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اس استاد کامل کے شاگرد کامل اور عاشق صادق کا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظہور ہو چکا جس کو اللہ تعالیٰ نے امّت واحدہ بنانے کے لئے پھر مسلمانوں پر احسان کرتے ہوئے بھیجا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راتوں کی دعاؤں کا، راتوں کی بے چین دعاؤں کا کہنا چاہئے اس زمانے کے مسلمانوں کے لئے ثمرہ ہے۔ جو قربانیوں کا حقیقی ادراک پیدا کرنے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ پس جب تک اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے کو مسلمان قبول نہیں کریں گے یونہی بھٹکتے رہیں گے۔ گردن زدنیاں ہوتی رہیں گی۔ اللہ اور رسول کے نام پر ظلم کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لیتے رہیں گے۔ اللہ کرے کہ ان کو عقل آ جائے۔ یہ حقیقی ادراک مسلمانوں میں پیدا ہو کہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام کی قربانی خانہ کعبہ کی تعمیر اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد اپنی قربانی کے معیار کو بلند کرتے ہوئے حقو ق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا قیام اور سلامتی اور امن کو دنیا میں قائم کرنا تھا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حقیقی رنگ میں اس قربانی کا ادراک عطا فرمائے اور ہم ظاہری بھیڑ بکریوں کی قربانی کے بجائے قربانی کی روح کو سمجھتے ہوئے اپنے حق ادا کرنے والے بنیں۔ دنیا کو امن اور سکون اور سلامتی دینے والے بنیں۔
اب خطبہ ثانیہ کے بعد دعا ہو گی۔ دعا میں ہمارے شہداء کے خاندانوں کو بھی یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ شہداء کے بھی درجات بلند کرے اور ان کی قربانیاں بھی جلد رنگ لائیں۔ گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر قربانی جو ہے نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ جماعت کی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان علاقوں میں بھی جہاں یہ قربانیاں ہو رہی ہیں ہمارے لئے آسانیاں اور سہولتیں پیدا فرمائے اور وہاں کے لوگوں کو عقل عطا فرمائے۔ اسیران کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ مالی قربانیاں کرنے والوں کے لئے بھی دعا کریں۔ واقفین زندگی جو میدان عمل میں ہیں ان کے لئے بھی دعا کریں۔ وقت کی قربانی دینے والے جو احمدی والنٹیئرز کام کرتے ہیں ان کے لئے دعا کریں۔جو ضرورتمند اور غریب لوگ ہیں ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو دُور فرمائے۔ پاکستان کے احمدیوں کے لئے دعا کریں۔ انڈونیشیا کے احمدیوں کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو ہر تکلیف سے بچائے۔ دنیا میں بسنے والے تمام احمدیوں کے لئے دعا کریں۔ مشکلات سے اللہ تعالیٰ انہیں نجات دے۔ مظلوم مسلمانوں کے لئے دعا کریں۔ مسلمانوں میں بہت سے مظلوم طبقے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی ظلموں سے نجات دلوائے۔ بعض مجبور ہیں کہ مظلومیت کی وجہ سے یا سختیوں اور پابندیوں کی وجہ سے حق کو قبول نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی یہ سختیاں بھی ختم کروائے۔ فلسطین کے مسلمانوں کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو بھی حل فرمائے اور دُور فرمائے۔ اُمّت مسلمہ کے لئے عمومی طور پر دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو عقل سمجھ دے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ اسلام کے نام پر ظالمانہ حرکتیں کرنے والی جو تنظیمیں ہیں ان کے خاتمے کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ جلد ان سے نجات دلوائے اور اسلام کی حقیقی تعلیم دنیا پر صحیح طرح واضح بھی ہو جائے اور دنیا اس کی آغوش میں بھی آنے والی ہو۔
٭٭٭خطبہ ثانیہ۔ دعا٭٭٭