خطبہ عیدالفطر سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26نومبر 2003ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیَّتُھَاالنَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً ۔ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ ۔وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔
الفجر:28تا31
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں آج یہ عید ، عیدالفطر منانے کی توفیق مل رہی ہے ۔ دنیا میں ہر قوم اپنے تہوار مناتی ہے یا دوسرے لفظوں میں ہر قوم میں کسی نہ کسی طریقے سے عید منائی جاتی ہے اور خوشی کااظہار کیا جاتاہے۔ بچے ،بوڑھے ،جوان سب حسب توفیق اچھے کپڑے پہنتے ہیں ، اچھے کھانے کھاتے ہیں ،ایک دوسرے کی دعوتیں بھی کرتے ہیں ، مجلسیں بھی لگاتے ہیں۔شورشرابے بھی کررہے ہوتے ہیں ۔ابھی دیکھیں کچھ دنوں کے بعد اگلے ماہ کرسمس کے دن ہوں گے تو وہ شورشرابا ہوگاکہ الامان۔کئی ملکوں میں تو بہت زیادہ ہوتاہے ۔اور خوشی کا اظہار شرابیں پی کر ،ناچ گانے گا کر کیا جاتاہے۔ اسی طرح اور کاموں میں بھی اورملکوں میں بھی یہی حال ہے۔اس لئے کہ ان کی مذہبی تعلیمات بگڑ گئی ہیں ۔ان کو پتہ ہی نہیں کہ خوشی کا اظہار کس طرح کرناہے لیکن اس کے باوجود یہاں یورپین اقوام میں بھی اور جگہوں میں بھی مختلف بگڑے ہوئے مذاہب کے ماننے والے جوہیں وہ اپنے غریبوں کی امداد کے لئے چندے اکٹھے کرتے ہیں۔کرسمس میں ہی آپ دیکھیں کہ بہت سی رقوم اور تحائف اکٹھے کئے جاتے ہیں اور غرباء کودیئے جاتے ہیں،بچوں کو دئے جاتے ہیں ،ضرورتمندوں کو دیئے جاتے ہیں ۔اس میں ہمدردی ٔخلائق کا عنصر ہو یانہ ہو یا دکھاوا ہو، بہرحال کچھ نہ کچھ تو ہمدردی بھی ہوتی ہے ۔لیکن یہ بہر حال ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا خانہ خالی ہوتاہے ۔ اسلام نے جو چیزیں مقرر کی ہیں یہ شور شرابے اور ناچ گانے اور اپنے ہوش و حواس سے باہر ہونے کے لئے نہیں کیں۔ اچھے کپڑے پہننا، اچھے کھانے کھانا یا خوشیاں منانا تو شادی بیاہوں یا دوسرے فنکشنز پر بھی ہوتاہے اور جو صاحب استطاعت ہیں وہ جب چاہیں یہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ اسلام میں عیدوں کا تصور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر جو قربانیاں کی گئی ہیں اللہ تعالیٰ اُن کے انعام کے طورپر تمہارے لئے خوشی کے سامان بہم پہنچا رہاہے ۔ اور یہ صرف دنیاوی ہائو ہُو کے لئے نہ ہوبلکہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کومدنظر رکھناہوگا اور مدنظررکھناچاہئے۔
یہ عید جو عیدالفطرکہلاتی ہے اس میں ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت رمضان میں تیس یا انتیس روزے رکھتے ہیں اور جائز چیزوں پر بھی صرف اس لئے ایک وقت تک کے لئے یعنی صبح سے شام تک کے لئے پابندی لگاتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر،ا س کی خوشنودی کی خاطر ، اس کے فضلوں کو سمیٹنے کی خاطر اور اس لئے کہ اس کافرمان ہے کہ میرے بندو! میری عبادت بجا لائو اور میری عبادت یہی ہے کہ میرے احکامات پرعمل کرو،میرے حقوق یعنی حقوق اللہ اور میرے بندوں کے حقوق بھی ادا کرو ۔ اس لئے رمضان میں جہاں عبادتوں پر زور دیاگیاہے وہاں یہ بھی تلقین کی گئی ہے کہ ضرورتمندوں کا ، غریبوں کا ، بیوائوں کا ، یتیموں کا بھی خیال رکھو۔ تب ہی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق آتاہے کہ رمضان کے مہینے میں صدقہ و خیرات دینے میں آپ کا ہاتھ اتنا کھل جاتاتھا جوتیز آندھی سے بھی تیز ہوتاتھا۔تو اتنا لمبا عرصہ جو یہ تیس دن کی قربانی جو لمبی سے لمبی قربانی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں پر لاگو کی ہے۔ اس میں ہر جائز چیز کو بھی اس کی خاطر چھوڑناہوتاہے ۔تو جب اللہ تعالیٰ دیکھتاہے کہ اس کے مومن بندے نے اتنے دن نہ صرف میری عبادت کی بلکہ میری خاطر جائز چیزوں کو بھی چھوڑا ، میرے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دی تو پھراللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بدلے میں یہ خوشی کا ، عیدکا دن دکھایاہے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی توجہ دلادی کہ ان تیس یا انتیس دنوں میں تم نے جو اچھی عادتیں پیدا کرلی ہیں اس کا پہلاامتحان تو یہ ہے کہ آج کے دن بھی تم نے میری عبادات کو بھول نہیں جانا بلکہ مسجدوں کو اسی طرح آباد رہنا چاہئے جیسے رمضان کے مہینہ میں تھیں ۔جو نمازیں تم پرفرض ہیں ، جو عبادات تم بجا لاتے ہو ،تم نے ادا کرتے رہناہے۔ یہ نہ سمجھنا کہ چلورمضان گیاہے تو ہر چیز سے چھٹی ہوگئی۔عبادات تم نے بہرحال بجا لانی ہیں ، اسی طرح حقوق العباد کی ادائیگی بھی تم نے کرتے رہناہے۔ ہاںچھوٹ تمہیں صرف یہ ہے کہ جو حلال اور جائز چیزوں کی پابندیاں ان دنوں میں تم پر لگائی گئی تھیں اب تم ان کو استعمال کر سکتے ہو ۔ اب یہ پابندی کوئی نہیں ، جائز چیزوں کا استعمال تم پراب جائز ہے،حلال ہے ۔تو جو سچا مومن ہے ، جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کرتاہے ، اللہ تعالیٰ اس کو اطمینان قلب نصیب کرتاہے ،چین اور سکون بھی عطا کرتاہے ۔
تو پہلی بات جس کی طرف مَیں توجہ دلانا چاہتاہوں یہ ہے کہ عیدکے دن ہر احمدی اپنے ماحول میں جائزہ لے کر ہر احمدی بلکہ مالی لحاظ سے اپنے سے کمتر احمدی یاہرمسلمان جو آج عیدمنارہاہے اور اس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ اپنے بچوں کو اچھا کھلاسکے ، اس کے بچوں کو آج کے دن اچھا کھلانے کا سامان مہیافرمائیں ۔ گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی نظام کے تحت بھی اور انفرادی طورپر بھی احمدی گزشتہ کئی سالوں سے جب سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس طر ف خاص طورپر زور دیا اور تحریک فرمائی بہت توجہ دے رہے ہیں لیکن ابھی بھی میرے خیال میں اس میں بہت گنجائش ہے ۔ بہت سے ملکوں میں ابھی ضرورت ہے کہ اس طر ف اور توجہ دیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ فرماتے ہیں کہ:
’’جس طرح سے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پررحم کرتاہے اور شفقت اور پیار کی نگاہ سے دیکھتاہے تم بھی اس کی مخلوق کے ساتھ سچی محبت اور حقیقی شفقت کرو اور رحم اور ہمدردی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ برتائو کرو۔…خداتعالیٰ کی صفت ہے کہ بدکار اور غافل بھی اس کی ربوبیت سے فیض پاتے ہیں اور حصہ لیتے ہیں۔ پس تم بھی خدا کی مخلوق کے ساتھ مہربانی ، نیکی اور سلوک کرنے میں مسلم، غیر مسلم کی قید اٹھادو اور تمام بنی نو ع انسان سے جہاں تک ممکن ہواحسان کرو ۔خدا رَ بُّ الْعَالَمِیْن ہے ۔یہ بھی رَحِیْمٌ لِّلْعَالَمِیْن ہوجاوے۔ پس یہ تقویٰ ہے ‘‘۔(خطبا ت نور صفحہ 3)
تو یاد رکھیں کہ آج عید کے دن ہی صرف اچھا کھلا کر کام ختم نہیں کردیناکہ ہم نے غریبوں کو اچھا کھلا دیا ۔ بلکہ ہمیشہ کی طرح آج بھی بہت سے احمدی غریبوں کے گھرمیں گئے ہوں گے ، ان کے ساتھ عید کی خوشیاں Share کی ہوں گی یا کر رہے ہوں گے کیونکہ وقت کے لحاظ سے بہت ملکو ں میں عید ہو چکی ہے اور بعض جگہوں میں ہو رہی ہے ۔تو جس طرح آج کے دن آپ نے ان کا خیال رکھاہے یا خیال رکھنے کا ارادہ کیاہے ایسے رابطوں کو توڑیں نہیں۔ ان رابطوں کو قائم رکھیں بلکہ اس طرح قائم رکھیں کہ ان گھروں کا وقتاً فوقتاً جائزہ لے کران کی حتی المقدور مدد بھی کرتے رہیں ۔نظام جماعت کو بھی بتاتے رہیں کیونکہ بعض دفعہ بعض لوگ نظام کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں ۔تو پتہ لگتا رہے کہ نظام بھی جائزہ لے کر ان لوگوں کا خیال رکھتاہے ۔اور حسب وسائل ان کی مدد بھی کی جاتی ہے ۔ کوشش کریں کہ جب ان سے تعلقات قائم ہوں اگر کوئی کم ہمتی کی وجہ سے یا بعض لوگوں کو عادتاً کام نہ کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے، باقاعدگی سے کام نہیں کرتے توایسے لوگوں کو سمجھاکر ان کو کام پر لگوائیں کیونکہ یہ مسلسل رابطوں سے ہی ممکن ہے ۔تو یہ رابطہ جاری رہے گا اور عید کے بعد یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔اس سوچ کے ساتھ ہراحمدی اپنے ماحول میں کم استطاعت والے افراد کو اٹھانے کی کوشش کرے تو وہی شخص جس کی اس سال آپ نے مدد کی ہے اوروہ آ پ کی مدد کا محتاج تھا ۔ ہو سکتاہے کہ اگلے سال عید پر وہ دوسروں کی مدد کررہا ہواوردوسروں کے ساتھ خوشیاں Share کر رہاہو۔ اس طرح معاشی حالات کے ساتھ ساتھ اخلاقی معیار بھی بلند ہوتے چلے جائیںگے کیونکہ بہت ساری اخلاقی برائیاں ،معاشی کمزوریوں کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہیں۔ جب اخلاقی معیار بلند ہوں گے تو ماحول میں بھی نیکیاں جنم لینا شروع کردیں گی ۔ غریب اور ضرورت مند آدمی بعض دفعہ تنگی کے ہاتھوں مجبور ہو جاتاہے جیساکہ مَیں نے کہا کہ معاشرتی برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں توجب تنگ ہوتاہے تو بعض ناجائز کام بھی کر لیتاہے ۔اور اللہ تعالیٰ کے احکاما ت کو ،اس کی عبادت کو بھی بھول جاتاہے ۔ جب نیک آدمی کے ساتھ اس طرح کے تعلقات قائم ہوں گے تو اس نیک آدمی کے ساتھ لگ کر بعض ایسی نیکیاں بجا لانے کی بھی ان کو توفیق ملے گی جن کی طرف وہ پہلے پوری توجہ نہیں کرتے ۔اور اس طرح یہ بھی اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے اور اس طرح آہستہ آہستہ ایک پاک معاشرہ قائم ہوجائے گا۔ نیکی کرنے والوں کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا بھی مضبوط تعلق قائم ہو گا اور جس کے ساتھ نیکی کی جا رہی ہے جیساکہ مَیں نے کہا اس کے زیر اثر ان لوگوں کوبھی جن کو پہلے خیال نہیں آتا اپنے پیدا کرنے والی کی طرف جھکنے کی توجہ پیدا ہوگی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’غرض اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہے۔ میری دانست میں یہی پہلو حقوق العباد کا ہے جو حقوق اللہ کے پہلو کو تقویت دیتا ہے۔ جو شخص نوع انسان کے ساتھ اخلاق سے پیش آتا ہے خدا تعالیٰ اس کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا۔ جب انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک کام کرتا ہے اور اپنے ضعیف بھائی کی ہمدردی کرتا ہے تو اس اخلاص سے اس کا ایمان قوی ہو جاتا ہے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نمائش اور نمود کے لئے جو اخلاق برتے جائیں وہ اخلاق خدا تعالیٰ کے لئے نہیں ہوتے اور ان میں اخلاص کے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اس طرح پر تو بہت سے لوگ سرائیں وغیرہ بنا دیتے ہیں۔ ان کی اصل غرض شہرت ہوتی ہے۔ اور اگر انسان خدا تعالیٰ کے لئے کوئی فعل کرے تو خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ اُسے ضائع نہیں کرتا اور اس کا بدلہ دیتا ہے۔
مَیں نے تذکرۃ الاولیاء میں پڑھا ہے کہ ایک ولی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بارش ہوئی اور کئی روز تک رہی۔ان بارش کے دنوں میں مَیں نے دیکھاکہ ایک اسّی برس کا بوڑھا گبر ہے جو کوٹھے پر چڑیوں کے لئے دانے ڈال رہاہے۔ مَیں نے اس خیال سے کہ کافر کے اعمال حبط ہوجاتے ہیں۔ اس سے کہاکہ کیا تیرے اس عمل سے تجھے کچھ ثواب ہوگا ؟ اس گبر نے جواب دیا کہ ہاں ضرور ہوگا۔ پھر وہی ولی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جو مَیں حج کو گیا تو دیکھا کہ وہی گبر طواف کررہاہے ۔اس گبر نے مجھے پہچان لیا اور کہا کہ دیکھو ان دانوں کامجھے ثواب مل گیا یانہیں؟ یعنی وہی دانے میرے اسلام تک لانے کاموجب ہو گئے ۔
حدیث میں بھی ذکرآیا ہے کہ ایک صحابیؓنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایام جاہلیت میں مَیں نے بہت خرچ کیا تھا۔ کیااس کا ثواب بھی مجھے ہوگا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کاجواب دیاکہ یہ اسی صدقہ وخیرات کاثمرہ تو ہے کہ تُو مسلمان ہوگیاہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ خداتعالیٰ کسی کے ادنیٰ فعل اخلاص کو بھی ضائع نہیں کرتا۔اور یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ مخلوق کی ہمدردی اور خبر گیری حقوق اللہ کی حفاظت کا باعث ہوجاتی ہے‘‘۔(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ281۔282۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
تو دیکھیں جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ اخلاص سے کیا ہوا کام اور اپنے بھائی کی مدد کہ وہ غربت کے دائرے سے باہر نکلے تو ایسے عمل کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرے گا بلکہ ایسے شخص کو مختلف طریقوں سے نوازتا ہے۔
پھر آپ نے فرمایاکہ ایسا شخص اللہ کے حقوق بھی ادا کرنے والا ہوسکتاہے۔نیکی اور پارسائی میں بھی اعلیٰ معیارقائم کرنے والا ہوسکتاہے۔اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے ساتھ ہوتاہے اوراس کے دل کو سکینت ، چین اور طمانیت عطا فرماتاہے ۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’غرض جو کوئی اپنی زندگی بڑھانا چاہتاہے اسے چاہئے کہ نیک کاموں کی تبلیغ کرے اور مخلوق کو فائدہ پہنچاوے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی دل کو ایسا پاتاہے کہ اس نے مخلوق کی نفع رسانی کا ارادہ کرلیا ہے تووہ اسے توفیق دیتااور اس کی عمر دراز کرتاہے ۔ جس قدرانسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتاہے اور اس کی مخلوق کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آتاہے اُسی قدر اس کی عمردراز ہوتی ہے اوراللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا اوراس کی زندگی کی قدر کرتاہے ۔لیکن جس قدر وہ خداتعالیٰ سے لاپروا اور لااُبالی ہوتاہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا‘‘۔(ملفوظات جلد ششم صفحہ 91۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اس کے علاوہ اصل اور بنیادی بات اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے جیسا کہ فرمایا: وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن(الذاریات:57)اس کا ذکر مَیں مختصراًاوپر کر آیاہوں۔تو ہم نے آج اس عید کے دن یہ عہد بھی کرناہے کہ گزشتہ تیس یا انتیس دنو ں میں ہم نے جن نیکیوںکو کرنے کی عاد ت ڈالی ہے ان پر ہم قائم رہیں گے ۔ جن باتوں کی چاٹ ہمیں لگ چکی ہے وہ بڑھے گی کم نہیں ہوگی اور اے اللہ! تیری عبادتوں کے مزے لوٹ کر ہم نے جو اطمینان قلب حاصل کیاہے اس کو ہم ضائع نہیں کرنا چاہتے ۔ ہماری توصرف یہ دعاہے کہ ہمیں اب ان باتوں پرقائم رکھ اور دوام بخش کیونکہ تیری مدد اور تیرے فضل کے بغیر تجھے پانا بھی ممکن نہیں۔اے خدا توہماری روحانیت کو محض اورمحض اپنے فضل سے اس معیار تک لے جا کہ جہاں ہمیںتیرا یہ پیغام ملے کہ اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ جا ، راضی رہتے ہوئے اور رضا پاتے ہوئے۔ پس میرے بندوں میں داخل ہو جا اورمیری جنت میں داخل ہوجا۔ اے خدا اس معیار کا اطمینان ہمیں نصیب کر ۔ تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری رمضان کی قربانی قبول ہوئی اور ہمیں عید کی حقیقی خوشی بھی میسرآگئی۔ جب یہ دعا کرتے ہوئے ہم آج کی عید سے گزریں گے تو ہمیں اپنی آئندہ نمازوں کی حفاظت کرنے کا بھی خیا ل رہے گا۔ ہمیں نظام جماعت کی پابندی کا بھی خیا ل رہے گا۔ ہمیں خلیفہ ٔوقت کی اطاعت کا بھی خیال رہے گا۔ اپنے بھائیوں کے حقوق ادا کرنے کا بھی خیال رہے گا۔ ہمیں عہد بیعت کو نبھانے کا بھی خیا ل رہے گا۔ یہ ساری چیزیں اکٹھی ہوتی ہیں ۔غر ض اس طرح ہرنیکی کی طرف ہمیں قدم بڑھانے کی اورہر بدی کو چھوڑنے کی ہمیں توفیق ملے گی۔اور اس طرح عبادالرحمن بن کر ہم اپنی عیدوں کو زینت بخشیں گے، ان کو پُررونق کریں گے۔اگر عبادالرحمن نہیں بنتے توعیدوں کی خوشیاں تو بالکل عارضی خوشیاں ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایاہے کہ اپنی عیدوں کو کس طرح منائو۔ فرمایا اپنی عیدوں کو خداکی کبریائی بیان کرتے ہوئے سجائو۔ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ؐنے فرمایا کہ تکبیر و تہلیل اورحمدو ثنا کرتے ہوئے اور خد ا کی تقدیس ظاہر کرتے ہوئے اپنی عیدوں کو زینت بخشو۔(حلیہ لابن نعیم)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’اے نفس خدا کے ساتھ آرام یافتہ اپنے ربّ کی طرف واپس چلا آ ۔وہ تجھ سے راضی اور تُو اس سے راضی۔ پس میرے بندوں میں داخل ہو جا اورمیری بہشت کے اندر آجا…… یاد رکھنا چاہئے کہ اعلیٰ درجہ کی روحانی حالت انسان کی اس دنیوی زندگی میںیہ ہے کہ خداتعالیٰ کے ساتھ آرام پا جائے اورتمام اطمینان اور سرور اور لذّت اس کی خدا میں ہی ہوجائے ۔ یہی وہ حالت ہے جس کو دوسرے لفظوں میں بہشتی زندگی کہاجاتاہے ۔اس حالت میں انسان اپنے کامل صدق اور صفا اور وفا کے بدلہ میں ایک نقد بہشت پا لیتاہے اور دوسرے لوگوں کی بہشت موعودپر نظر ہوتی ہے اور یہ بہشت موجود میں داخل ہوتاہے۔ اسی درجہ پرپہنچ کرانسان سمجھتاہے کہ وہ عبادت جس کا بوجھ اس کے سرپرڈالا گیاہے درحقیقت وہی ایک ایسی غذا ہے جس سے اس کی روح نشوونما پاتی ہے اور جس پر اس کی روحانی زندگی کا بڑا بھاری مدار ہے اور اس کے نتیجہ کا حصول کسی دوسرے جہان پرموقوف نہیں ہے۔اسی مقام پریہ بات حاصل ہوتی ہے کہ وہ ساری ملامتیں جو نفس لوّامہ انسان کا اس کی ناپاک زندگی پر کرتاہے اور پھر بھی نیک خواہشوں کو اچھی طرح ابھار نہیں سکتااور بری خواہشوں سے حقیقی نفرت نہیں دلا سکتا اور نہ نیکی پر ٹھہرنے کی پوری قوت بخش سکتاہے۔ اس پاک تحریک سے بدل جاتی ہیں جو نفس مطمئنہ کے نشوونما کا آغاز ہوتی ہے۔ اوراس درجہ پرپہنچ کر وقت آ جاتاہے کہ انسان پوری فلاح حاصل کرے اور اب تمام نفسانی جذبات خود بخود افسردہ ہونے لگتے ہیں اورروح پرایک ایسی طاقت افزاہوا چلنے لگتی ہے جس سے انسان پہلی کمزوریوں کو ندامت کی نظر سے دیکھتاہے ۔اس وقت انسانی سرشت پرایک بھاری انقلاب آتاہے اور عادت میں ایک تبدّلِ عظیم پیدا ہوتاہے اورانسان اپنی پہلی حالتوں سے بہت ہی دُور جا پڑتاہے ، دھویا جاتاہے اورصاف کیاجاتاہے اورخدا نیکی کی محبت کو اپنے ہاتھ سے اس کے دل میں لکھ دیتاہے اور بدی کا گند اپنے ہاتھ سے اس کے دل سے باہر پھینک دیتاہے ۔سچائی کی فوج سب کی سب دل کے شہرستان میں آجاتی ہے اور فطرت کے تمام بُرجوں پر راستبازی کا قبضہ ہو جاتاہے اور حق کی فتح ہوتی ہے اور باطل بھاگ جاتا ہے اور اپنے ہتھیار پھینک دیتاہے ۔اس شخص کے دل پر خدا کا ہاتھ ہوتاہے اور ہر ایک قدم خدا کے زیر سایہ چلتاہے‘‘۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 378۔379)
آج جو مَیں نے تلاوت کی ہے یہ صرف اگلے جہان کے لئے نہیںاس پرعمل کرنے سے اس دنیاکی جنتیں بھی مل سکتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اطمینان قلب نصیب فرمائے ۔اپنے زیر سایہ ہمیں چلائے ،اپنی معرفت ہمیں عطا کرے۔ ہماری عید صرف ظاہری خوشیوں اور شورشرابے والی عید نہ ہو بلکہ اس کا حقیقی عرفان ہمیں میسر آئے اور اللہ تعالیٰ ہمیں دونوں جہان کی جنتوں کا وارث بنائے ۔
ابھی خطبہ ثانیہ کے بعد دعا ہوگی ۔دعامیں کل کے درس کی دعائیں جو تھیں وہ دہرائی تو نہیں جا سکتیں جو یاد رہ سکتی ہیں یاد رکھیں، ذہن میں رکھیں ۔دکھی انسانیت کے لئے ضرور دعاکریں ۔ جماعت ہائے احمدیہ عالمگیر کے لئے دعا کریں اور عالم اسلام کوہمیشہ اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔