خطبہ عیدالفطر سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍جولائی 2014ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

رمضان گزر گیا اورآج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے عید منا رہے ہیں۔ ہم میں سے بہت سوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے لئے یہ عید حقیقی عید بن جائے۔ اس کے لئے بہت سے لوگ مجھے لکھتے بھی رہتے ہیں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی عید عطا فرمائے۔ لیکن حقیقی عید کا تصور اکثر کے دل میں یہی ہوتا ہے کہ تمام مشکلات دور ہو جائیں اور دائمی خوشیاں حاصل ہو جائیں۔ بیشک یہ بھی عید ہے۔ ایک مومن کے دل میں دائمی خوشیوں کا خیال جب آتا ہے تو اس سوچ کے ساتھ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے راضی ہونے سے یہ خوشیاں مل سکتی ہیں۔     اللہ تعالیٰ کے انعاموں کو حاصل کرنے سے یہ خوشیاں مل سکتی ہیں۔ لیکن ان دائمی خوشیوں کے حصول کے لئے عید کو مستقل عید بنانے کی ضرورت ہے ورنہ ہر عید دائمی خوشیوں کا خیال آنے سے یا وقتی طور پر یہ دعا کرنے سے کہ دائمی عید ہو جائے، دائمی عید نہیں بنتی۔

               حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس پر بہت تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔ میں نے اس سے بھی  کچھ استفادہ کیا ہے، بعض واقعات ان سے لئے ہیں۔ تو حقیقی عید ایک مومن کے لئے اس طرح بنتی ہے جب اس کے جو لوازمات ہیں وہ بھی پورے کئے جائیں۔ ہم ہر سال عید الفطر بھی مناتے ہیں جو رمضان کے بعد آتی ہے۔ پھر ایک عید، عید الاضحیہ ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کو بھی عید قرار دیا ہے۔

(سنن ابن ماجہ ابواب اقامۃ الصلوات والسنۃ فیہا باب ما جاء فی الزینۃ یوم الجمعۃ حدیث نمبر 1098)

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ: ’’بہت سے لوگ اس عید سے بے خبر ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ 399۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

 یعنی جمعہ کی عید سے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ عید پر جس طرح اہتمام کیا جاتا ہے اور جس طرح حاضری ہوتی ہے جمعوں پر اس طرح حاضری نہیں ہوتی۔ گویا سال کے بعد آنے والی عید کو یا پھر عید الاضحیہ کو اگر شمار کیا جائے تو تقریباً سوا دو مہینے کے بعد دوبارہ عید آئے گی۔ یہ عید منا کر پھر تقریباً دس مہینے کے بعد عید کا اہتمام کیا جاتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہر ساتویں دن عید کا دن مقرر کیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے جمعہ عید منانے کو بھی مستقل عید قرار نہیں دیا۔ اگر ہم جمعہ کے بعد باقی دنوں میں اپنی ذمہ داری کو بھول جائیں اور اپنے روز مرہ کے فرائض جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں ان کو ادا نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے نہیں بن سکتے۔ پس چھوٹی عید، بڑی عید جس کو عید قربانی بھی کہتے ہیں یا جمعہ، یہ سب عارضی عیدیں ہیں۔ اس لئے کہ حقیقی عید کا تقاضا صرف ان عیدوں کے پڑھنے سے پورا نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان عیدوں سے یہ سبق دیا ہے کہ تمہیں روحانی مقام حاصل کرنے کے موقعے دئیے گئے ہیں۔ صرف انہی موقعوں پر خوش نہ ہو جاؤ۔ان کو حاصل کرنے سے خوش نہ ہو جاؤ۔اصل خوشی کا مقام اس وقت ہوتا ہے جب ان وقفوں کے دوران بھی، جو یہ وقفے ہیں ان کے دوران بھی خوشی کے مواقع تلاش کرو۔ جمعہ یا عید پڑھ کر یہ نہ سمجھ لو کہ جو روحانی مقام عید حاصل کرنے والے کو مل سکتا ہے وہ ہمیں مل گیا۔ ایسا خیال بے وقوفی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی طالب علم مثلاً ہفتے کے بعد، جہاں ہفتہ اتوار چھٹی ہوتی ہے یا بعض جگہوں میں مسلمان ممالک میں جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے تو چھٹی کے بعد یہ بھول جائے کہ اس نے سکول بھی جانا ہے۔ پہلے تو اس کے ماں باپ اس سے ناراض ہوں گے اور اسے سکول بھیجیں گے۔ پھر سکول جائے گا تو سکول میں اساتذہ اس سے ناراض ہوں گے اور بعض دفعہ سزا بھی ملتی ہے، مختلف قسم کی سزائیں ہیں۔ اسی طرح اگر انسان سمجھے کہ عید آ گئی، رمضان گزر گیا، اس لئے عبادت سے متعلق یا حقوق العباد کی ادائیگی سے متعلق میری جو ذمہ داریاں تھیں وہ رمضان سے ہی خاص تھیں، اب انہیں بھول جاؤ۔ یا کوئی یہ سمجھ لے کہ ایک رمضان میں نے گزار لیا اور عید بھی منا لی، اب آئندہ نہ کسی رمضان کی ضرورت ہے نہ عید کی اور بس۔ اور نہ اب جمعوں پر جانے کی ضرورت ہے یا جمعہ سے جمعہ کے درمیان جو عرصہ ہے اس میں عبادتوں کی ضرورت ہے۔ تو پھر ایسا شخص اپنے ایمان کو بھی کھو بیٹھے گا اور خدا تعالیٰ کی نظروں میں بھی گر جائے گا۔

               غرض یہ عیدیں صرف خوشیاں منانے کے لئے نہیں آتیں بلکہ اس امر کی طرف توجہ دلاتی ہیں کہ روحانی مقام بھی عارضی مقام ہوا کرتے ہیں۔ روحانیت میں ترقی کے لئے اگر ہر جمعہ اور ہر عید سنگ میل نہ بنے تو وہ عید انسان کے لئے خوشی کے بجائے تباہی کا باعث بن جاتی ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک شخص کی مثال(دیتے ہوئے) فرماتے ہیں کہ ایک پرانے احمدی نے بیان کیا کہ مَیں ان کے پاس چندہ کے لئے گیا کہ سلسلہ کی ضروریات کے لئے چندہ دیں۔ اور باوجود اس کے کہ وہ اچھے مالدار آدمی تھے مگر چندہ کا ذکر سن کے کہنے لگے مَیں پہلے ہی بہت چندے دے چکا ہوں اور اب میں سمجھتا ہوں کہ مجھ پر کوئی چندہ واجب نہیں ہے۔ اور اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ ایک دن دوستوں نے دیکھا کہ وہ مسجد میں نمازوں پر نہیں آتے۔ پوچھنے پر کہنے لگے کہ میں نے بڑی نمازیں پڑھی ہیں ۔ سرکار بھی ایک لمبا عرصہ کے بعد پنشن دے دیتی ہے تو خدا تعالیٰ کیوں نہیں دے گا۔ اس لئے نمازوں سے بھی چھٹی ہو گئی۔

               تو دیکھیں ایک چیز یا ایک برائی انہیں دوسری برائی کی طرف لے گئی بلکہ ایک گناہ کی طرف لے گئی۔ انہوں نے اپنی سابقہ قربانیوں کو ہی سب کچھ سمجھ لیا اور یہ خیال کیا کہ ان قربانیوں کی وجہ سے مجھے کوئی روحانی مقام مل گیا، مَیں بہت اعلیٰ مدارج پر پہنچ گیا ہوں یا جس چیز کو مَیں نے یہ قربانیاں کر کے حاصل کرنا تھا وہ حاصل کر لیا۔ تو اس سوچ کی وجہ سے پھر نمازیں بھی ہاتھ سے نکل گئیں جو ایک بنیادی حکم ہے اور فرض ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رحم کیا کہ تھوڑے عرصے کے بعد ان کی وفات ہو گئی ۔ ورنہ بعید نہیں تھا کہ یہ بھی کہہ دیتے کہ بڑا لمبا عرصہ ہم خدا تعالیٰ پر ایمان لا چکے ہیں اب ایمان کی بھی ضرورت نہیں، یہاں سے بھی پنشن مل جانی چاہئے۔

               پس ایسے بھی لوگ دنیا میں ہوتے ہیں۔ بہر حال گو اس بات سے ان کا عملی حصہ چھن گیا لیکن وفات کی وجہ سے کم از کم ایمان محفوظ رہا۔ ایمان کی حالت میں وہ فوت ہوئے۔(ماخوذ ازخطبات محمود جلد اوّل صفحہ 255-256)

 تو یہ تو ایک کھلی مثال ہے۔ لیکن چھوٹی چھوٹی مثالیں ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ تک لوگ خدمت دین کا شوق رکھتے ہیں، بڑے جوش سے خدمت کرتے ہیں، ہر قسم کی قربانیوں میں حصہ بھی لیتے ہیں لیکن کچھ عرصے کے بعد پھر پیچھے ہٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بعض وجوہات بھی بن جاتی ہیں لیکن چاہے وہ وجوہات عہدیداروں کی وجہ سے بنیں یا کسی وجہ سے بنیں، ان وجوہات کو ایسے لوگوں کو دین کی خدمت سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے والا نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ یہ قربانیاں، یہ خدمات، یہ عمل وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر کر رہے ہیں اور اپنی ذات کے لئے کر رہے ہیں۔ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی مرضی کے مطابق اگر کام نہ ہوں تو پہلے کام سے معذرت کرتے ہیں۔ پھر مالی قربانیوں میں کمزوری دکھاتے ہیں۔ پھر عبادتوں میں یا مسجد میں آنے میں کمزوری دکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ بہر حال اس کی مختلف صورتیں ہیں جب انسان کسی بھی کام میں، عمل میں، نیکی میں، مستقل مزاج نہیں رہتا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے سے اس بے استقلالی کی وجہ سے محروم ہو جاتا ہے۔ عموماً عبادتوں میں کمزوری اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کمزوری تو چند دن یا کچھ عرصے کے بعد اکثر نظر آ جاتی ہے جو پیچھے ہٹنا شروع ہوتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بزرگ کی مثال دی، بعض دفعہ ایمان میں بھی کمزوری ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

               پس یہ عید ہمیں اس لحاظ سے اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے کہ ہم اپنی عید کی خوشیوں کو کس طرح مستقل کر سکتے ہیں۔ کن راستوں کی تلاش کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہمیشہ سمیٹنے والے بناتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ہمیشہ دیتا رہے اور بے انتہا دیتا رہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ابدی جنتوں میں ڈالے، اسے انعامات سے مستقل نوازے۔ اسلام کا خدا نعوذ باللہ وہ خدا نہیں ہے جس کے بارے میں بعض دوسرے مذہب والے یہ تصور رکھتے ہیں کہ وہ ابدی جنت نہیں دے سکتا کیونکہ اس کا خزانہ خالی ہو جائے گا یا جنت میں جگہ نہیں رہے گی۔ اسلام کا خدا تو اس جہان میں بھی جنت دیتا ہے اور اگلے جہان میں بھی جنت دیتا ہے لیکن اس کے لئے مستقل مزاجی شرط ہے۔ پس ہمیں مستقل اور ہمیشہ کی جنت  حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ  وَاَ مَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّۃِ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآئَ رَبُّکَ۔ عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ(ھود:109) اور وہ لوگ جو خوش نصیب بنائے گئے تو وہ جنت میں ہوں گے۔ وہ اس میں رہنے والے ہیں جب تک کہ آسمان اور زمین باقی ہیں سوائے اس کے جو تیرا رب چاہے۔ یہ ایک نہ کاٹے جانے والی جزا کے طور پر ہو گا۔ ایسی جزا جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ایسی جنت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ یہ ہمارا خدا ہے جو کہتا ہے کہ ہم جو کچھ جنتیوں کو دیں گے وہ ہمیشہ کے لئے ہو گا، واپس لینے کے لئے نہیں ہوگا۔ ہمارا انعام تو ہمیشہ چلتا چلا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا ایسی ہے جو عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنتیوں کا انعام نہ کاٹا جانے والا ہے اور یہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔ دراصل مومن کے لئے یہی حقیقی عید ہے جو نہ ختم ہونے والے انعام کی صورت میںہے۔ گویا جو نہ ہٹنے والی عید ہے، ہمیشہ قائم رہنے والی عید ہے اور یہی نہ کٹنے والی عید جو ہے وہ عام مومن کے لئے ہے اور یہ وہ جنت ہے جو ہمیشہ رہنے والی ہے۔ اور حقیقی عید وہی ہے جب مستقل جنت مل جائے۔ ایسی جگہ مومن چلا جائے جو جنت ہے، جو  اللہ تعالیٰ کے ایک حقیقی عبد کا، بندے کا مقام ہے۔ اور یہ جنت مسلسل کام سے ملتی ہے۔ اور جو بندہ اس دنیا میں اپنے روحانی کاموںکو چھوڑ بیٹھتا ہے وہ اس جنت سے محروم ہو جاتا ہے۔ لیکن اس اصل کو دنیا میں بہت سے دنیا والے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں۔ عام مسلمانوں میں تو پیروں فقیروں نے اپنے مقام کی، نام نہاد مقام کی آڑ میں ایسے بہت سے غلط تصورات پیدا کر دئیے ہیں، ایسے بہانے تراشے ہوئے ہیں کہ انہیں اب ان کے مقام کی وجہ سے مسلسل عمل کی ضرورت نہیں ہے، ان کو خدا مل گیا۔ نتیجۃً ان کے مرید اور عامّۃ المسلمین نے بھی یہی تصور پیدا کر لیا ہے کہ اگر کسی کو مقام مل جائے تو پھر اس کو کسی قسم کے عمل کی ضرورت نہیں رہتی یا مسلسل عمل کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب ضرورت ہوئی اپنے پیر صاحب کے پاس جا کر یا کسی نام نہاد مُلّاں یا عالم کے پاس جا کر دعا کروا کر یا تعویذ لے کر اللہ تعالیٰ کے انعاموںکے حاصل کرنے والے ہم بن جائیں گے۔ یہ تصور پیدا ہو گیا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ان کے پیروں کا یہ حال ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ایسے پہنچے ہوئے بزرگ ہیں کہ ہمیں اب کسی عبادت کی ضرورت نہیں۔

               حضرت مصلح موعود ایک ایسے ہی شخص کا واقعہ بیان کرتے ہیں جو ان فقیروں سے، پیروں سے متاثر تھا۔ وہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا میں نے ایک سوال کرنا ہے۔ آپ نے کہا ٹھیک ہے فرمائیں کیا سوال ہے۔ کہنے لگا کہ اگر کوئی دریا کے دوسرے کنارے جانے کے لئے کشتی میں بیٹھ جائے تو کنارے پہنچ کے وہ کیاکرے؟ اب اس سوال کے دو ہی جواب دئیے جا سکتے ہیں کہ اتر جائے یا بیٹھا رہے۔ اب عام حالات میں ایک عقلمند آدمی کا یہی جواب ہو گا کہ جب کنارے پہنچ گیا تو اتر جائے ۔ اب اس شخص نے اپنے خیال میں ایک بہت بڑی پہیلی اور الجھا ہوا سوال ڈالا تھا۔ لیکن حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ظاہری طور پر تو میرا یہی جواب ہونا چاہئے تھا کہ جب کنارہ آ گیا تو اتر جاؤ لیکن اس کے یہ کہنے پر اگر میں اس کو یہ کہہ دیتا کہ اتر جاؤ تو پھر اس نے اگلا سوال یہ کرنا تھا کہ چلو پھر ٹھیک ہے اگر اتر جانے والی بات ہے تو جب انسان کو خدا مل گیا تو پھر مزید عبادت اور عمل کی کیا ضرورت ہے۔ تو آپ کہتے ہیں جب اس نے مجھے یہ سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے سوال کی حقیقت مجھ پر ظاہر فرمائی، میرے دل میں ڈالی۔ میںنے اسے یہ جواب دیا کہ اگر تو اس دریا کا کوئی کنارہ ہے جس میں وہ کشتی پر سوار ہے تو ٹھیک ہے۔ جب کنارہ آئے تو اتر جانا یقینا عقلمندی ہے۔ لیکن اگر اس دریا کا کوئی کنارہ نہیں تو جہاں وہ کشتی سے اترا وہیں ڈوبا۔

               آپ فرماتے ہیں کہ میرے اس جواب پر وہ تھوڑی دیر حیران ہو گیا۔ پھر خاموش رہا، تھوڑی دیر سوچتا رہا۔ پھر وہ کہنے لگا کہ پھر یہ عبادتیں ہمیشہ کرنی پڑیں گی۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا۔ تو وہ شخص دراصل عام فقیروں سے اس قسم کی باتیں سن کر آیا تھا کہ نماز خدا تعالیٰ سے ملنے کے لئے پڑھی جاتی ہے لیکن جسے خدامل گیا اسے نماز کی کیا ضرورت ہے۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد اول صفحہ 257-258)

               اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے بھی اپنی ایک ہمشیرہ کے بارے میں بیان فرمایا کہ اس نے بھی اسی طرح پیروں سے متاثر ہو کے کہہ دیا تھا کہ کسی عمل کی ضرورت نہیں۔ مَیں فلاں پیر کی بیعت میں ہوں اور اگر مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پوچھے تو کہہ دینا میری ساری ذمہ داری پیر صاحب نے لے لی ہے، مجھے کوئی جنت میں جانے سے نہیں روک سکتا۔(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 208-209) تو یہ تصورات ہیں۔

               پس یہ سمجھتے ہیں کہ روزے خدا تعالیٰ سے ملنے کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ نمازیں خدا تعالیٰ سے ملنے کے لئے پڑھی جاتی ہیں۔ لیکن جسے خدا مل گیا اسے نہ نمازوں کی ضرورت ہے، نہ روزوں کی ضرورت ہے، نہ کسی اور عمل کی ضرورت ہے۔ زکوۃ خدا تعالیٰ سے ملنے کے لئے دی جاتی ہے۔ پھر زکوۃ کی بھی ضرورت نہیں۔ جسے خدا مل گیا اسے ان چیزوں کو کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

               بہر حال اسی طرح پھر جو دوسری نیکیاں ہیں ان سے بھی انسان دور ہٹتا چلا جاتا ہے کہ نیکیاں خدا کو ملنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ اگر خدا مل گیا تو پھر نیکیوں کی ضرورت بھی کوئی نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ جب خدا مل گیا تو پھر اپنے آپ کو انسان مستقل مشکل میں ڈالتا چلا جائے۔ یہ نیکیاں تو منزل پر پہنچانے کے لئے سواریوں کا کام دیتی ہیں۔ جب منزل پر پہنچ گئے تو پھر سواری پر بیٹھے رہنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ بڑی بیوقوفی ہو گی کہ انسان گھر پہنچ کر پھر یہ کہے کہ میرا مقصد تو گھر پہنچنا تھا اب میں پہنچ گیا۔ اب گھر کے اندر جانے کی بجائے میں اسی گاڑی میں بیٹھا رہوں گا، باہر نکلنے کی ضرورت نہیں۔ پس جب منزل مقصود محدود ہو تو سواری سے اترنا عقلمندی ہے، جو دنیاوی منزلیں ہیں۔ لیکن جب منزل مقصود لا محدود ہو تو جہاں انسان سواری سے اترے گا وہیں تباہ ہو جائے گا۔

               پس اس طرح کے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو گو پیروں فقیروں کے مرید نہیں ہوتے لیکن ان کے خیالات میں مبتلا ہوتے ہیں، عملاً ان سے یہی کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔وہ چھپے ہوتے ہیں لیکن ایک دن ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ ان کے عمل خود بخود انہیں ظاہر کر دیتے ہیں۔ کچھ دن نماز پڑھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ اب انہیں نمازوں کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ کچھ دن روزے رکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ اب انہیں روزوں کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ چند دن صدقہ و خیرات کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب انہیں صدقہ و خیرات کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ وہ بہت صدقہ دے چکے ہیں۔ لیکن دنیاوی معاملات میں انہیں یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ ہم نے بہت کھا لیا، اب ہمیں کھانے کی ضرورت نہیں رہی۔ ہم نے بہت پانی پی لیا، جوس پی لئے، اب ہمیں نہ پانی پینے کی ضرورت ہے نہ جوس پینے کی ضرورت ہے نہ کسی اور چیز کی اپنی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے ضرورت ہے۔ کچھ دن کپڑے پہن کے یہ نہیں کہتے کہ ہم نے کپڑے پہن لئے، اب کوئی ضرورت نہیں۔ اب چاہے سردی ہو یا گرمی، ہم موسم کے لحاظ سے کپڑے نہیں پہنیں گے۔ اگر وہ ایسی سوچ رکھنے والے ہوں گے تو یا تو خود اپنی جان پر ظلم کر رہے ہوں گے اور یا پھر ان کے عزیز رشتہ دار انہیں دماغی مریض سمجھ کر دماغی امراض کے ہسپتال میں داخل کرا دیں گے۔

               پس جسمانی ضروریات کے پورا کرنے کے لئے اپنی زندگی کے سانس کو قائم رکھنے کے لئے ہر عقلمند کوشش کرتا ہے مگر روح کی طاقت کے لئے یہ کوشش نہیں ہوتی ۔ کہہ دیا جاتا ہے کہ بہت کچھ کر لیا۔ یا توجہ نہیں رہتی، پوری طرح سستیاں ہوتی ہیں۔ کبھی یہ نہیں ہوتا کہ کھانا کھانا بھول جائیں یا کام پہ جانے سے پہلے اب تیار ہو کے اچھے کپڑے پہننا بھول جائیں۔ بھول جاتے ہیں کہ ان کی ذمہ داریاں اور فرائض کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی جنّتوں کا نام لو تو جن کو خدا تعالیٰ پر یقین ہے وہ یہ تو کہتے ہیں کہ خدا بھی ملے خدا تعالیٰ کے انعامات بھی ملیں لیکن ان انعامات کو حاصل کرنے کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔

               پس جس طرح جسمانی غذا اور ضروریات انسانی زندگی کا لازمہ ہیں اسی طرح جوروحانی غذا ہے، نماز ہے، روزہ ہے، صدقہ و خیرات ہے، یہ بھی روحانی زندگی کے لئے ضروری ہیں۔ اسی طرح دوسرے احکام شریعت ہیں، وہ بھی روحانی زندگی کا لازمہ ہے۔ چند خوابیں دیکھ کر بعض لوگ سمجھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرا خدا سے براہ راست تعلق قائم ہو گیا، اب مجھے نہ حقوق العباد کی ادائیگی کی ضرورت ہے اور نہ حقوق اللہ کی ادائیگی کی ضرورت ہے۔ نہ نظام جماعت کی ضرورت ہے، نہ خلافت کی بیعت کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگ پھر روحانی طور پر غرق ہو کر روحانی زندگی سے ہاتھ دھونے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کرتے۔ اپنے زعم میں یہ روحانی مقام تک پہنچے ہوتے ہیں حالانکہ نہیں پہنچے ہوتے۔ یہ لوگ عارضی عید کو مستقل عید سمجھ لیتے ہیں اور روحانی زندگی ضائع کر لیتے ہیں۔ حالانکہ مستقل عید مرنے کے بعد کی عید ہے یا اس شخص کی عید ہے جو اپنی زندگی میں ہی مر گیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی زندگی کا ہر لمحہ گزارنے کے لئے تیار ہو گیا بلکہ گزارنے والا بن گیا یا مسلسل عمل اس کی زندگی کا خاصّہ بن گیا۔ پس یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عمل سزا نہیں بلکہ عمل غذا ہے اور روحانی صحت برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے جس طرح جسمانی صحت کے لئے مادی غذا ضروری ہے۔ ایک پہلوان کو جوں جوں طاقت ملتی ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ خوراک اچھی سے اچھی ہوتی جائے۔ پس روحانی ترقی کے لئے بھی روحانی غذا یعنی وہ اعمال جو اللہ تعالیٰ نے کرنے کے لئے کہے ہیں ان کو کرنے کی ضرورت ہے اور ان میں بڑھتے چلے جانا چاہئے۔ عمل کسی صورت میں بھی ترک نہیں کیا جا سکتا۔ظاہری رنگ میں ہم عبادتوں کی طرف دیکھتے ہیں تو عید والے دن ہمیں عبادت بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ عید والے دن پانچ کے بجائے چھ نمازیں پڑھنی پڑتی ہیں اور پھر خطبہ بھی سننا پڑتا ہے۔

               پس اسلامی اور روحانی عید کام چھوڑنے کا نام نہیں بلکہ کام میں زیادتی کا نام ہے اور یہ مسلسل کام کا سلسلہ اگلے جہان میں بھی چلتا ہے لیکن مومن کے لئے وہاں مستقل عید ہو گی۔ اس کے انعامات ضائع نہیں ہوں گے۔ کام تو وہاں بھی وہ کرے گا لیکن وہی کام کرے گا جو اللہ چاہے گا۔ سورۃ یٰسین میں اس کا بیان اس طرح ہوا ہے کہ

اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فَاکِھُوْنَ(یٰس:56)۔ کہ جنتی لوگ اس دن کام میں مشغول ہوں گے اور  جنتوں میں جا کے خوشی سے ہنس رہے ہوں گے۔ یعنی ذکر الٰہی میں مصروف ہوں گے۔ یہ بھی ان کے لئے ایک کام ہے۔ جنتیوں کے لئے یہی عمل ہیں جو وہ کر رہے ہوںگے اور اس وجہ سے ان کا انعام مستقل ہو گا۔ پس انعام مستقل ہو سکتا ہے اور وہ ایک حقیقی مومن کا اس دنیا میں بھی مستقل ہو سکتا ہے۔ جو لوگ اس دنیا میں زندہ رہتے ہوئے مر جاتے ہیں ان کا انعام اس دنیا میں مستقل ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں پر اس دنیا میں ہی یوم البعث آ جاتا ہے۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ قَالَ اَنْظِرْنِیْ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(الاعراف:15)۔ یعنی شیطان نے کہا کہ مجھے اس دن تک مہلت عطا کر جب وہ اٹھائے جائیں گے۔ اٹھائے جائیں گے سے مراد ہے کہ اس وقت تک میں انہیں ورغلاتا رہوںگا جب تک وہ یوم البعث تک نہیں پہنچ جاتے اور یوم البعث ہر ایک کا مختلف ہے۔ کسی کو اس دنیا میں مل جاتا ہے کسی کو اگلے جہان میں ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کو اس دنیا میں بھی آ جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ یوم البعث اس دنیا میں آ گیا۔ آپ کی مستقل عید اس دنیا میں مل گئی۔ پس کیا اس وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے عمل چھوڑ دئیے؟ ان فرائض کی ادائیگی چھوڑ دی جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے تھے؟ نہیں، بلکہ نوافل میں بھی بڑھتے چلے گئے۔ بلکہ ہر دن آپ کے ہر عمل میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی وہ دن آیا مگر کیا آپ نے اپنے ذمہ جو کام تھے جو اللہ تعالیٰ نے(آپ کے ذمہ) لگائے ان کو چھوڑ دیا؟ کیا عبادتوں میں کمی آ گئی یا چھوڑ دیں؟ کیا اشاعت دین کا کام چھوڑ دیا؟ کیا خدمت خلق کا کام چھوڑ دیا؟( اب یہی آپ نے اپنی بعثت کے مقصد بتائے ہیں)۔ نہیں، بلکہ ان کاموں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور ان کے اضافہ ہوتے چلے جانے سے آپ کی خوشی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ایک عام مومن بھی اگر حقیقی مومن ہے تو عید کے دن ایک زائد نماز پڑھ کر، عید کی نماز پڑھ کر خوشی محسوس کرتا ہے لیکن جس کو عید کا صحیح ادراک اور فہم نہیں، جو عبادتوں کی حقیقت کو نہیں جانتا وہ تو یہی کہے گا کہ کیا مصیبت گلے پڑ گئی۔ کہتے ہیں یہ عجیب مشکل ہے کہ عید والے دن ہمیں کہتے ہیں کہ چھَٹی نماز بھی پڑھو۔ پہلے پانچ نمازیں فرض تھیں اب آج چھ فرض ہو گئیں۔ ہم نے اچھے کپڑے پہن لئے، کھا پی لیا، خوشیاں منا لیں، بازاروں میں پھر لئے، پارکوں میں چلے گئے، بس یہی ہمارے لئے کافی ہے ۔ پس جن لوگوں پر  یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ  والی کیفیت طاری نہیں ہوتی وہ ان باتوں کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ دنیاوی لحاظ سے بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی شخص جس کو اپنے پیشے سے لگاؤ ہے، محبت ہے۔ ڈاکٹر ہیں، انجنیئر ہیں یا دوسرے ہیں وہ رات دن کام کر کے خوش ہوتے ہیں۔ بعض اپنے پیسہ کمانے کے کام کے علاوہ اپنے پیشے کے کام سے خدمت کر کے بھی خوش ہوتے ہیں۔ ہمارے ڈاکٹر خدمت خلق کے کیمپ لگاتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ عام حالات سے زیادہ وقت دیا اور کام کیا اور خدمت خلق کی۔ ہمارے انجینئر افریقہ جاتے ہیں تو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بھی بعض نوجوان کام کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور کام مکمل کر کے پھر اگلے کام کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ اگر خوشی نہ ہو تو کبھی اگلے کام کے لئے تیار نہ ہوں۔

               پس حقیقی خوشی اسی میں ہے کہ انسان نہ تھکے۔ ایک عمل ہو اور مستقل عمل ہو۔ رات دن کام کر کے بھی اس کام کو بوجھ نہ سمجھے بلکہ خوش ہو اور یقینا ایسے لوگ خوش ہوتے ہیں جن کو اپنے کام سے حقیقی خوشی ملتی ہے۔ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے خدمت خلق کی۔ پس یہ اصولی بات ہے کہ بشاشت قلب پیدا ہو جائے تو عمل خوشی کا موجب بن جاتا ہے۔ وہ کام خوشی کا موجب بن جاتا ہے اور اگر بشاشت قلب پیدا نہ ہو، دل میں خوشی پیدا نہ ہو تو ہرعمل، ہر کام جو ہے وہ تکلیف لگتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کا نام ہی بشاشت قلب رکھا ہے۔ یعنی کامل ایمان دل کی خوشی سے، دل کی بشاشت سے پیدا ہوتا ہے۔

                پس حقیقی عید وہی ہے جب انسان عمل میں خوشی محسوس کرنے لگے اور کام بوجھ نہ لگے۔ عبادتوں کی طرف مستقل توجہ اس کے لئے خوشی کا باعث ہو۔ خدا تعالیٰ کے لئے قربانی یا بندوں کے لئے قربانی یا نظام سلسلہ کے لئے قربانی، یہ تمام قربانیاں اس کے لئے راحت پیدا کریں، خوشی اور اطمینان کا موجب ہوں۔یہ چیزیں اسے مشکل نہ لگیں  تو پھر ایسا انسان مستقل عید حاصل کرنے والا بن جاتا ہے۔ ورنہ اس کے بغیر عیدیں جو ہیں یہ عارضی عیدیں ہیں۔

                آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کیسی قربانیاں دیں۔ زبردستی یا اچانک ان سے قربانیاں نہیں لی گئیں بلکہ خوشی سے اور لمبے عرصے تک انہوں نے قربانیاں دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کا ذکر آتا ہے جنہوں نے بچپن میں بارہ تیرہ سال کی عمر میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ وہ اپنے ماں باپ کے اکلوتے بیٹے تھے اور بڑے لاڈلے تھے لیکن مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کے ماں باپ جو بڑے متعصب تھے انہوں نے ان سے بڑا بُرا سلوک کرنا شروع کر دیا۔ جب کھانے کا وقت آتا توان کی ماں اس خیال سے ان کے آگے اس طرح روٹی پھینک کے ڈالتی جس طرح کتّے کو یا کسی جانور کو دیا جاتا ہے کہ اگر میںنے برتن میں دئیے تو برتن پلید ہو جائے گا۔ یہ تو ان کی ماں کا سلوک تھا۔ ہمارے ساتھ، بعض احمدیوں کے ساتھ بھی پاکستان میںیہ سلوک ہوتا ہے لیکن وہ دوسرے کر رہے ہوتے ہیں کہ احمدیوں کو برتن میںکھانا نہیں دینا، ہمارے برتن پلید ہو جائیں گے۔ تو بہر حال یہ صحابی اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہے۔ جب وہ مضبوطی سے قائم رہے تو ماں باپ نے انہیں گھر سے نکال دیا کہ گھر آنا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانا چھوڑ دو۔ انہوں نے مضبوط ایمان ہونے کی وجہ سے گھر تو چھوڑ دیا لیکن یہ گوارا نہیں کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑیں اور غالباً حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ کئی سالوں کے بعد واپس آئے تو ماں نے کہلا بھیجا کہ بیٹا میں ملنا چاہتی ہوں۔ چھوٹی عمر کا بچہ اپنے والدین سے جدا ہوا۔ کئی سال باہر رہنے کی وجہ سے یہ خیال تھا کہ ماں نے بلایا ہے تو شاید اب دل نرم ہو گیا ہو گا۔ اب وہ پابندیاں نہیں لگائے گی۔ اس لئے ملنے چلے گئے۔ ماں نے بھی بڑے پیار سے گلے لگایا اور پھر کہنے لگی بیٹا امید ہے کہ اب تم اس صابی کے پاس نہیں جاؤ گے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا کہ اب ان کے پاس نہیں جاؤ گے۔ تو وہ صحابی فوراً ماں سے علیحدہ ہو گئے اور کہا کہ امّاں! مَیں تو سمجھا تھا کہ میرے دُور جانے کی وجہ سے تمہارا بغض اور کینہ جو تمہارے دل میں ہے وہ دُور ہو گیا ہو گا لیکن تمہاری تو ابھی تک وہی حالت ہے۔ مَیں تمہاری خاطر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ کہہ کر اپنی ماں کے پاس سے آ گئے اور پھر زندگی بھر ماں کا منہ نہیں دیکھا۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد اول صفحہ 264-265)

               پس حقیقی عید وہی ہے جس میں انسان کو عمل میں لذت محسوس ہونے لگے۔ قربانی کر کے بھی لذت محسوس ہو اور قربانیوں کے لئے ہر قسم کی آگ میں کودنے کے لئے وہ تیار ہو جائے اور کبھی عمل ترک کرنے کا سوچے بھی نہ۔ یہ مقام جب کسی قوم یا فرد کو مل جاتا ہے تو حقیقی عید بن جاتی ہے اور دینی اور دنیاوی مقاصد اسے حاصل ہو جاتے ہیں۔ اس حقیقی عید کی حالت پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے اور یہی حقیقی عید ہے جو وہ ہم میں دیکھنا چاہتے تھے۔ جہاں ہم کسی عمل کو بوجھ سمجھ کے ترک کرنے والے نہ ہوں اور نہ کسی قربانی سے دریغ کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اس روح کو سمجھتے ہیں۔ عبادتوں کا سوال ہو تو وہ اپنی عبادتوں کے حق ادا کر تے ہیں۔ کوشش ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کو کسی طرح راضی کیا جائے۔ لیکن جماعت میں عموماً اس کی طرف ابھی بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے جماعتی ترقیاں حاصل کرنی ہیں تو من حیث الجماعت بھی ہمیں یہ کوشش کرنی پڑے گی کہ عید کے بعد وہ ذوق و شوق قائم رہے جو رمضان میں عبادتوں کا ہوتا ہے۔ہم میںسے اکثریت جو ہے وہ باقی قربانیوں کی روح کو تو سمجھتی ہے یا کم از کم صحیح طرح ادراک نہیں بھی ہے تو قربانیاں، خاص طور پر مالی قربانیاں کرتے ہیں اور یہ چیزیں اس لحاظ سے پھر ان کی ایمان میں ترقی کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔ جماعت کی اکثریت وقت کی قربانی اور مالی قربانی میں بہت راحت محسوس کرتی ہے لیکن اپنے وقتوں کو قربان کر کے پانچ وقت نمازوں کی طرف توجہ دے کر اپنی روحانی حالت کو سنوارنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔ اس لئے اس کی طرف توجہ کی بہت ضرورت ہے تا کہ ان جنتیوں میں ہم شامل ہو سکیں جو ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں۔جن کی صبحیں بھی عیدیں ہیں اور شام بھی عیدیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

               مَیں نے مالی قربانی کا ذکر کیا ہے لیکن جان کی قربانی میں بھی جماعت کے افراد پیچھے نہیں ہیں۔ یہ قربانی کر کے وہ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر رہے ہیں۔ آئے دن احمدی جان کے نذرانے پیش کر رہے ہیں خاص طور پر پاکستان میں لیکن ایمان سے نہیں ہٹ رہے۔ گزشتہ دنوں دو بچیوں اور ایک عورت نے بھی یہ قربانی دی۔ مالی قربانی کے لحاظ سے بھی اس علاقے میں رہنے والے جتنے لوگ تھے جن کے وہاں اس علاقے میں گھر تھے ، انہوں نے قربانی دی کہ ان کے گھر لوٹے گئے، جلائے گئے اور اس لحاظ سے بھی وہ پورے کا پورا جو علاقہ تھا یا محلہ تھا اس کے رہنے والے احمدیوں نے قربانی دی۔

               جان کی قربانی کرنے والوں کو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ مرے نہیں ۔بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ(آل عمران:170)۔ بلکہ وہ اپنے رب کے حضور زندہ ہیں۔ انہیں رزق دیا جاتا ہے۔   پس ان کو تو اللہ تعالیٰ نے ایک مقام دے دیا جو شہید ہوئے۔ وہ اس مقام کو پہنچ گئے جہاں ان کے رتبے بلند تر ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس قربانی کے نیک اثرات پیچھے رہنے والے ان کے عزیزوں اور پیاروں پر بھی قائم فرمائے۔ اور ہم پر بھی اس کے اثرات ظاہر ہوں۔ جماعت پر بھی اس کے اثرات ظاہر ہوں۔ اپنوں کی جدائی کوئی معمولی غم نہیں ہوتا۔ خاص طور پر اس ماں کا غم انسان سوچ بھی نہیں سکتا جس کی دو کم سن بچیوں کو ظالموں نے اپنے ظلم کا نشانہ بنایا۔ صبر سے یہ صدمہ برداشت کرنا ماں کے لئے بھی بہت بڑی قربانی ہے۔خاص طور پر عید سے ایک دن پہلے جب وہ ماں اپنے بچوں کے عید کی خوشی میں شامل ہونے کے ارمان لئے ہوئے ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ماؤں کو بچوں کا دکھ دینے والوں سے خود نپٹنے کے جلد سامان پیدا فرمائے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان غمزدوں کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ اور یہ جو ماں ہے جس کو دکھ دیا گیا، اللہ تعالیٰ ان کو نعم البدل بھی عطا فرمائے۔ اسی طرح جو وہاں کے زخمی ہیں ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ ان میں سے ایک خاتون کی حالت کافی نازک ہے۔ ان کے بھی بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔ بچہ اندر فوت ہو گیااور آپریشن کر کے نکالاگیا۔ تقریباً پیدائش کے قریب ہی تھا۔ اسی طرح شہدائے احمدیت کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے جلد تر ہمیں احمدیت کی خارق عادت فتح کے نشان دکھائے۔ اور یہی وہ عید ہے جس کے منانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجاتھا۔

               اسیران کی رہائی کے لئے بھی دعا کریں۔ مالی قربانی کرنے والوں کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ سب قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔ بیماروں، مریضوں اور ضرورتمندوں، واقفین زندگی یا طوعی طور پر خدمت کرنے والے جتنے ہیں ان سب کو عمومی طور پر دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی جو متعلقہ ضروریات ہیں وہ پوری فرمائے اور مشکلات آسان کرے ۔

               یہ دعا بھی خاص طور پر کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احکام پر عمل کرنے والا بنا کر ہمیں حقیقی عید منانے والا اور بنانے والا بنا دے تا کہ ہم اس عید کو دیکھنے والے ہوں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانے والی ہو۔ اصل حقیقی خوشی تو اسی وقت پہنچتی ہے۔ عید منانا تو ایک عارضی وقت کے لئے ہے اسی لئے بنانے کے لئے بھی کہا ہے۔ عید بنانا وہ چیز ہے جو انسان کو مستقل عمل میں رکھتی ہے یعنی عمل کی طرف اس کی توجہ رہتی ہے تبھی حقیقی عید بنائی جاتی ہے اور یہی عید ہمارا مقصد ہے اور ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اس کی بھی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔

               اب اس کے بعد دعا ہو گی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ان سب باتوں کو دعاؤں میں یاد رکھیں اور ساتھ ہی تمام دنیا کے احمدیوں کو، آپ سب کو میں عید مبارک کا تحفہ بھی دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ عید ہمارے لئے بابرکت فرمائے اور ہر غم سے ہمیں نجات دے اور حقیقی خوشیاں ہمیں دکھائے۔

.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کروائی جس میں نہ صرف     بیت الفتوح میں حاضر احباب و خواتین بلکہ ایم ٹی اے کے توسط سے دنیا بھر میں کروڑوں افراد شامل ہوئے

اپنا تبصرہ بھیجیں