اس کے علاوہ کچھ اَور لوگ ہیں، یہ دونوں قسمیں جو بیان کی ہیں ایک وہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم بھی عید منا رہے ہیں یعنی خدا رسیدہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ عید منا رہے ہیں اور دوسرے نیک لوگ بھی جو حقوق کوادا کر رہے ہیں وہ بھی سمجھتے ہیں ہم عید منا رہے ہیں۔ اور اسی طرح دوسری قسم بھی ہے جو میں نے بیان کی جنہیں حقیقی عید نصیب نہیں ہوئی اور دھوکے میں سمجھتے ہیں کہ ہم عید منا رہے ہیں ۔لیکن ایک تیسری قسم بھی ہے۔ یہ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو ان دونوں سے بالکل مختلف ہیں، الگ قسم ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ ہم گناہ گار ہیں، ان کو احساس ہے، جو دل میں خیال کرتے ہیں کہ روزے تو رکھے لیکن روزوں کا حق ادا نہیں کیا، دل میں ایک شرمندگی ہے۔ جو نمازیں بھی پڑھتے ہیں لیکن دل میں شرمندہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی شرطوں کے مطابق نماز نہیں ادا کر سکے۔ ایسے لوگوں میں سے ہر ایک یہ سمجھتا ہےکہ آج بھی عید پر شاید ایک رسم اور لوگوں کو دکھانے کے لیے عمدہ لباس پہن کر مجلس میں آگیا ہوں اور عمدہ کھانا بھی کھا رہا ہوں مگر اس کا دل رو رہا ہوتا ہے، اس کا دماغ پریشان ہے۔ اس کی ایک نظر اپنے بھائیوں پر پڑتی ہے اور ایک نظر اپنے تاریک دل پر ڈالتا ہے۔ ہر تَر لقمہ، ہر وہ لقمہ جس کو اپنے مزے میں کھانے کے لحاظ سے بھرپور لقمہ کہہ سکتے ہیں اسے جھنجھوڑتا ہے اور اس کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ اچھے سفید کپڑے تو پہنے ہوئے ہیں لیکن انہیں دیکھ کر اس کا دل روتا ہے کہ کاش میرا اندرونہ بھی ایسا ہی صاف ہوتا۔ اپنے بھائی پر نظر پڑے تو اپنی کمزوریاں اَور اُبھر کر سامنے آ جاتی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کو دیکھ کر جن کا اللہ تعالیٰ سے خاص قرب ہے اور سمجھتا ہے کہ میری حالت کی چوری پکڑی گئی۔ شاید میرے گناہ اسے نظر آ گئے ہیں، شاید میرے نقائص اسے نظر آ گئے ہیں۔ ہر دفعہ جب اپنے بیوی بچوں اور دوستوں اور ہمسایوں پر نگاہ دوڑاتا ہے اور پھر اپنے نفس پر غور کرتا ہے تو شرمندہ ہو جاتا ہے اور ندامت سے اپنا سر جھکا لیتا ہے۔ ظاہر میں تو مجلس میں شامل ہوتا ہے لیکن دل اپنے گناہوں کی وجہ سے ندامت اور شرمندگی سے پُر ہوتا ہے۔ خیال کرتا ہے کہ شاید اس مجلس میں مَیں ہی ایسا ہوں جو حقیقی عید سے محروم ہے اور ضمیر ملامت کرتا ہے کہ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔ نہ اُن میں شامل ہوں جو غفلت اور نادانی سے عید منا رہے ہیں اور نہ ان میں شامل ہوں جو وصالِ الٰہی کی خوشی میں عید منا رہے ہیں۔ پھر سوچتا ہے کہ خدا تعالیٰ بڑا ستار ہے اگر میں ظاہر میں عید منا لوں تو کیا تعجب کہ خدا تعالیٰ مجھے باطن میں بھی عید منانے کی توفیق دے دے۔ جس طرح خدا تعالیٰ نے میرے ظاہر کی ستاری کی ہے میرے باطن کی بھی ستاری کر دے، میری اندرونی حالت کی بھی ستاری کر دے۔ اللہ تعالیٰ جو بندوں پر بہت رحم کرنے والا اور بخشنے والا ہے اپنے بندے کو مایوس نہیں کرتا۔ جب بندہ سوچتا ہے کہ اصل عید تو خدا تعالیٰ کے ملنے سے ہے یہ مجھے میسر نہیں آ رہی۔ نفس بار بار اسے ملامت کرتا ہے کہ کیا تمہارے عمل ہیں۔ توبہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے، ندامت محسوس کرتا ہے اور پھر جب پشیمانی اس کو بے چین کر دیتی ہے تو خدا تعالیٰ بھاگ کر اس کے پاس آتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا کوئی شخص صحرا میں ہو اور اس کی اونٹنی گم ہو جائے جس پر اس کی خوراک اور پانی بھی ہو اور پھر اچانک وہ اسے مل جائے اور اس اونٹنی کو دیکھ کر اس کی خوشی کی انتہا نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی حسرت اور ندامت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ جس کے پاؤں تھے، جو نیک عمل کرنے والا تھا وہ چل کے میرے پاس آ گیا، نیک لوگ تھے ان کو اتنی توفیق اللہ تعالیٰ نے دی ہوئی تھی، ان کے پاؤں تھے جن سے چل کے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس چلے گئے ۔اور دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں ان کے بھی پاؤں تھے اور ان کے عمل تھے لیکن ان کے عمل دکھاوے کے تھے۔ وہ چل کر شیطان کے پاس چلا گیا ۔مگر وہ بندہ جس کے پاؤں نہیں ہیں ،جو کہیں جانے کی طاقت نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چلو میں اس کے پاس جاتا ہوں وہ بہت زیادہ ندامت اور پشیمانی کا اظہار کر رہا ہے، توبہ اور استغفار کر رہا ہے۔ یہ گرا ہوا ہے تو اسے اٹھاتا ہوں اپنے پاس لے آتا ہوں۔

پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اگر پہلی قسم میں سے نہیں تو ہم اس تیسری قسم سے ہی بن جائیں کہ یہ بھی تحقیر کا مقام نہیں ہے، یہ بھی کوئی کم چیز نہیں ہے، یہ بھی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے انسان کا مقام گر رہا ہو۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کامل حسرت، کامل عجز، کامل انابت، کامل غم اور کامل دکھ جو انسان پر طاری ہو جائے وہ خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دیتا ہے۔ پس ہمیں چاہیے کہ ہم دوسری قسم کی عید کرنے والوں میں سے نہ بنیں جن کا کام صرف کھانا پینا ہے اور دنیا کی ہا ہو ہے بلکہ ان میں سے بننے کی کوشش کریں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو پا لیا یا کم ازکم ان میں سے بنیں جو خدا تک ابھی نہیں پہنچے مگر وہیں گر گئے اور ندامت اور پریشانی کی وجہ سے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور اپنی جان کو رنج و الم کی وجہ سے ایسا ہلاک کیا کہ ان کی حالتِ زار کی وجہ سے عرشِ الٰہی ہل گیا اور عرش کا مالک خود چل کر ان کے پاس آیا اور انہیں اٹھا کر محبت کے مقام پر بٹھایا۔

(ماخوذ از خطباتِ محمود خطباتِ عید الفطر جلد 1 صفحہ 196 تا 208 بیان فرمودہ مورخہ 9 فروری 1932ء)

پس ہمیں ہمیشہ یہ دعا اور کوشش کرنی چاہیے کہ یا پہلی قسم کی عیدیں ہمیں ملیں یا تیسری قسم کی عید ہمیں ملے اور یہی عید ہے جو حقیقی خوشیاں دینے والی عید ہے۔ یہی عید ہے جو خرچ کروانے کے بجائے انعامات سے نوازتی ہے بلکہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جو دوسری قسم کی عید کو عید سمجھے ہوئے ہیں انہیں بھی حقیقی عید کا ادراک دلوانے کی کوشش کریں۔ دنیا کو اس حقیقی پیغام کے پہنچانے کی کوشش کریں جو اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ذریعہ سے ہمیں ملا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کا صحیح فہم و ادراک دلوائیں تا کہ دنیا سے تاریکی کے بادل چھٹ جائیں۔ ہدایت کا سورج دنیا کو اپنی نورانی کرنوں سے جگمگا دے۔ خدا کی حقیقی بندگی دنیا میں قائم ہو جائے تبھی ہماری عیدیں حقیقی عیدیں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ عید دیکھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔

ان تمام احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں جن کو مذہب کے نام پر تکلیفیں دی جا رہی ہیں، جن کو قیدو بند کی صعوبتوں میں رکھا گیا ہے۔ ان اسیران کی جلدرہائی کے لیے دعا کریں تا کہ وہ بھی آزادی سے عید یںکر سکیں۔ امّت مسلمہ کے لیے دعا کریں۔ دنیا کے امن کے لیے بہت دعا کریں۔ دنیا کے لیڈر جیسا کہ پہلے بھی مَیں کہہ چکا ہوں اپنی عارضی تسکین کے لیے دنیا کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں اور اس وباکی وجہ سے بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو اپنی حرکتوں سے اس کے غضب کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔ پس دنیا کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کی کوشش اور اس کے ساتھ دعاؤں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہر احمدی کو اپنے اس فرض کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور اسے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دعا کر لیں۔ (آمین) دعا کے بعد فرمایا: سب کو عید مبارک ۔ دنیا میں رہنے والے سب احمدیوں کو عید مبارک۔ کچھ لوگ گھروں میں عیدیں کر رہے ہیں۔ کچھ مسجد میں چند پابندیوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھ رہے ہیں اور پڑھیں گے۔ سب کو اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے۔ اورسب کو عید مبارک ہو۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔

٭…٭…٭