خلافت احمدیہ سے عشق و وفا کے نظارے
روزنامہ الفضل ربوہ 24مئی 2012ء میں مکرم راشد مجید صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں خلافت احمدیہ سے عشق و وفا کے والہانہ نظاروں اور خلیفۂ وقت سے محبت اور آپ کی اطاعت، نیز احمدیوں کے ایثار، اخلاص و وفا کے بے نظیر و مثالی نمونوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
٭ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وہی ہے جس نے اپنی نصرت کے ذریعے اور مومنوں کے ذریعے تیری مدد کی اور اس نے ان کے دلوں میں الفت ڈالی۔ اگر تُو وہ سب کچھ خرچ کر دیتا جو زمین میں ہے تب بھی تُو ان کے دلوں میں الفت نہیں ڈال سکتا تھا۔ لیکن یہ اللہ ہی ہے جس نے ان (کے دلوں) میں الفت ڈالی۔ وہ یقیناً کامل غلبے والا (اور) حکمت والا ہے۔ (سورۃ الانفال64,63:)
٭ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے وجود کو خدا کی قدرت اولیٰ کا مظہر قرار دیتے ہوئے یہ پیشگوئی فرمائی: ’’مَیں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اورمیں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔…۔‘‘
٭ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام انبیاء اور اُن کے خلفاء کی مدد کے لئے ان کے تابعین میں سے عشق و وفا کا تعلق رکھنے والے کئی وجود پیدا کئے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت سے فرمایا: یہ خلافت کی ہی نعمت ہے جو جماعت کی جان ہے۔ اس لئے اگر آپ زندگی چاہتے ہیں تو خلافت احمدیہ کے ساتھ اخلاص و وفا کے ساتھ چمٹ جائیں۔ پوری طرح اس سے وابستہ ہو جائیں کہ آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی مضمر ہے۔ ایسے بن جائیں کہ خلیفہ وقت کی رضا آپ کی رضا ہو جائے۔ خلیفۂ وقت کے قدموں پر آپ کا قدم ہو اور خلیفۂ وقت کی خوشنودی آپ کا مطمح نظر ہوجائے۔
٭ اب اس محبت کے چند نظارے دیکھئے جو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے دلوں میں خلیفۂ وقت کے لئے رکھی ہے۔
٭ حضرت مولوی عبداللہ خان صاحبؓ رئیس کھیوا باجوہ سیالکوٹ کو ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا کہ مولوی صاحب میں نہیں سمجھتا کہ کوئی چیز کرنے کی ہو اور آپ کر نہ چکے ہوں، اب تو حفظ قرآن ہی باقی ہے۔ چنانچہ تقریباً 65 سال کی عمر میں انہوں نے قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا اور پھر حفظ بھی کرلیا۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ 18 نومبر 1910ء کو گھوڑے سے گرنے کے نتیجے میں زخمی ہو گئے تھے۔ یہ اطلاع جہاں بھی پہنچی تو احباب جماعت دیوانہ وار اپنے محبوب امام کی عیادت کے لئے کھنچے چلے آئے تھے۔ بکثرت خطوط بھی پہنچے اور جماعتی رنگ میں بھی دعائے خاص کی مسلسل تحریکیں بھی ہونے لگیں۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ جب 1924ء میں سفرِیورپ پر تشریف لے گئے۔ تو اس عارضی جدائی پر بیقراری کا اندازہ ایک خط کے الفاظ سے کیا جاسکتا ہے جو حضرت بابوسراج الدین صاحب سٹیشن ماسٹر نے تحریر فرمایا تھا۔ لکھتے ہیں: میرے آقا! ہم دُور ہیں، مجبور ہیں۔ اگر ممکن ہوتا تو حضور کے قدموں کی خاک بن جاتے تاکہ جدائی کے صدمے نہ سہتے۔ آقا! مَیں چار سال سے دارالامان نہیں گیا تھا۔ مگر دل کو تسلی تھی کہ جب چاہوں گا حضور کی قدم بوسی کرلوں گا لیکن اب ایک ایک دن مشکل ہورہا ہے۔ اللہ پاک حضور کو بخیروعافیت، مظفر و منصور جلدی واپس لائے۔
٭ انگریزی اخبار Tribune میں 3 جون 1930ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی وفات کی جھوٹی خبر شائع ہوئی جو احباب جماعت پر غم و اندوہ کا پہاڑ بن کر گری۔ چنانچہ حضرت یعقوب علی عرفانیؓ فرماتے ہیں: میں جو راستے پر بیٹھا ہوں، اُن آنے والوں کو دیکھتا تھا کہ وہ محبت اور اخلاص کے پیکر ہیں۔ اُنہیں دوران سفر میں اس خبر کا افترا ہونا کھل چکا تھا مگر اُن کی بیقراری ہر آن بڑھ رہی تھی اور یہ صرف اعجازِ محبت تھا۔ یہ دوست اپنی بیقراری میں قصر خلافت کی طرف بھاگے جارہے تھے۔ مَیں نے دیکھا بعض ان میں سے ایسے بھی تھے جنہوں نے اس سفر میں نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ ان طبعی تقاضوں پر بھی محبت کا غلبہ تھا۔ جب تک قصر خلافت میں جا کر انہوں نے اپنے امام کو دیکھ نہ لیا اور مصافحہ اور معانقہ کی سعادت حاصل نہ کرلی، اُن کے دل بیقرار کو قرار نہ آیا۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ خواتین کے اخلاص کی مثال دیتے ہوئے ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ: جب مَیں نے تحریک وقف کی تو ایک عورت اپنا زیور میرے پاس لے آئی۔ مَیں نے کہا کہ میں نے سردست تحریک کی ہے کچھ مانگا تو نہیں … مگر وہ یہی کہتی چلی گئی کہ مَیں نے تو یہ زیور خداتعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا ہے اب مَیں اسے واپس نہیں لے سکتی۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں: فضل عمر فاؤنڈیشن کا جب چندہ جمع ہورہا تھا تو ایک دن ملاقاتیں ہورہی تھیں۔ مجھے دفتر نے اطلاع دی کہ ایک بہت معمر مخلص احمدی آئے ہیں وہ سیڑھی نہیں چڑھ سکتے اور حقیقت یہ تھی کہ یہاں آنا بھی ایک لحاظ سے انہوں نے اپنی جان پر ظلم ہی کیا تھا۔ چنانچہ وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کھڑے بھی نہیں ہوسکتے تھے۔ میں نے کہا مَیں نیچے ان کے پاس چلا جاتا ہوں۔ خیر جب مَیں گیا۔ پتہ نہیں تھا کہ وہ کیوں آئے ہیں۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے بڑی مشکل سے کھڑے ہونے کے لئے زور لگایا تو میں نے کہا نہیں آپ بیٹھے رہیں۔ وہ بہت معمر تھے۔ انہوں نے بڑے پیار سے دھوتی کا ایک پلّو کھولا اور اس میں سے دو سو اور کچھ رقم نکالی اور کہنے لگے یہ مَیں فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے لے کر آیا ہوں۔ پیار کا ایک مظاہرہ ہے۔ پس اس قسم کا اخلاص اور پیار اور اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی کا یہ جذبہ ہے کہ جتنی بھی توفیق ہے پیش کردیتے ہیں۔ اس سے ثواب ملتا ہے۔ رقم سے تو نہیں ملتا۔
٭ پھر ان لوگوں کے اخلاص و وفا کا اندازہ لگایئے جو خلیفہ وقت کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لئے پیش کردیتے ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ایک نوجوان کی مالی قربانی اور اُس کے اخلاص و وفا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ایک نوجوان لکھتے ہیں کہ جب آپ نے یورپین مراکز کی تحریک کی تو میں نے نیت کرلی کہ اس تحریک میں جس شخص کا سب سے زیادہ وعدہ ہوگا اس سے بڑھ کر وعدہ مع ادائیگی کروں گا۔ مسجد پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ایک احمدی تاجر دوست جو یہاں مستقل رہائش پذیر ہیں انہوں نے چالیس ہزار جرمن (ڈَچ) مارک کا وعدہ کیا ہے۔ مَیں نے چالیس ہزار ڈچ مارک جو میرا اندوختہ ہے اور پانچ سو اِس ماہ کی تنخواہ سے مل جائیں گے، کا وعدہ کیا ہے۔ مَیں مجبور ہوں میرا قصور نہیں، میرے بس کی بات نہیں۔ کیا کروں، دشمن کی دن رات کی ذلیل حرکتوں سے جو آپ کو تکلیف پہنچ رہی ہے میرا دل یہ کہتا ہے کہ جو مجھ سے ہوسکے وہ تو کر گزروں۔
(نوٹ: یہ مخلص اور خوشقسمت نوجوان مائنز جرمنی کے رہنے والے مکرم ملک سلطان احمد صاحب ہیں- اللہ تعالیٰ آپ کی عمر اور صحت میں برکت دے اور قربانیوں کو شرف قبولیت بخشے- آمین)
٭ اس تصویر کا دوسرا رُخ وہ محبت ہے جو خلیفہ وقت کو احبابِ جماعت سے ہے۔ کینیڈا کے ایک غیرمسلم پروفیسر ڈاکٹر Gualter کہتے ہیں کہ مَیں نے احمدیوں کے روحانی راہنما سے گفتگو کی تو اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ احمدی ضرور اپنے روحانی سربراہ سے بھرپور محبت کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ اُن کا سربراہ احمدیوں سے ان سے بڑھ کر محبت اور پیار کرنے والا ہے۔
٭ خلافت سے اطاعت و محبت کا ایک نظارہ MTA پر ساری دنیا نے دیکھا کہ جب خلافت خامسہ کا انتخاب ہوا اور مسجد فضل لندن سے بیٹھ جانے کا حکم سنائی دیا تو اس وقت جس کے بھی کانوں میں حضور کی آواز پڑی چاہے وہ مسجد کے اندر تھا یا باہر تھا، غرض جو جہاں کہیں تھا وہیں بیٹھ گیا اور اطاعتِ امام کی زندہ مثال قائم کردی۔
پھر ان لوگوں کی خلیفۂ وقت سے اخلاص و محبت کا اندازہ لگایئے جو دنیا کے مختلف ممالک میں بیٹھے حضور کا خطبہ سن رہے ہوتے ہیں اور اُن کی زبان میں خطبہ کی ٹرانسلیشن نہیں ہوتی لیکن محض خلیفۂ وقت سے محبت کی وجہ سے سارا خطبہ سنتے ہیں ۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مشرقی افریقہ کے دورہ سے واپس آکر وہاں کے ایمان افروز واقعات بیان کرتے ہوئے یہ واقعہ بھی بیان فرمایا کہ: یوگنڈا میں جب گاڑی باہر نکلی تو ایک عورت اپنے دو اڑہائی سالہ بچے کو اٹھائے ساتھ ساتھ دوڑتی چلی جارہی تھی۔ اُس کی نظر میں بھی پہچان تھی، خلافت اور جماعت سے ایک تعلق نظر آرہا تھا، وفا کا تعلق ظاہر ہورہا تھا اور بچے کی میری طرف توجہ نہیں تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا منہ اس طرف پھیرتی تھی کہ دیکھو۔ اور کافی دُور تک دوڑتی گئی۔ اتنا رش تھا کہ اس کو دھکے بھی لگتے رہے لیکن اس نے پروا نہ کی۔ آخر جب بچے کی نظر پڑ گئی تو بچہ دیکھ کے مسکرایا اور ہاتھ ہلایا۔ تب ماں کو چین آیا۔ بچے کے چہرے کی جو رونق اور مسکراہٹ تھی وہ بھی اس طرح تھی جیسے برسوں سے پہچانتا ہو۔
٭ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں: افریقہ میں مَیں گیا ہوں تو ایسے لوگ جنہوں نے کبھی دیکھا نہیں تھا، اس طرح ٹوٹ کر انہوں نے محبت کا اظہار کیا ہے جس طرح برسوں کے بچھڑے ملے ہوتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ جس طرح ان کے چہروں پر خوشی کا اظہار میں نے دیکھا ہے، یہ سب کیا ہے؟ جس طرح سفر کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرکے وہ لوگ آئے، یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیا دنیاوی دکھاوے کے لئے خلافت سے یہ سب محبت ہے جو اُن دوردراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔ تو جس چیز کو اللہ تعالیٰ پیداکررہا ہے وہ انسانی کوششوں سے کہاں نکل سکتی ہے۔ جتنا مرضی کوئی چاہے، زور لگالے۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو باقاعدہ میں نے آنسوؤں سے روتے دیکھا ہے۔ تو یہ سب خلافت کی محبت ہی ہے جو اُن کے دلوں میں قائم ہے۔ بچے اس طرح بعض دفعہ دائیں بائیں سے نکل کر سیکیورٹی کو توڑتے ہوئے آکے چمٹ جاتے ہیں۔
٭ حضور ایدہ اللہ احباب جماعت کی طرف سے خطوط کے ذریعہ محبت و اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: احباب جماعت کے اخلاص، وفا اور پیار کے نمونے اور نظارے روزانہ ڈاک میں آجکل مَیں دیکھ رہا ہوں۔ دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے کہ کس طرح ایک شخص سینکڑوں ہزاروں میل دُور ہے، صرف اور صرف خدا کی خاطر خلیفہ وقت سے اظہار محبت و پیار کررہا ہے اور یہی صورت اِدھر بھی قائم ہو جاتی ہے۔ ایک بجلی کی رَو کی طرح فوری طور پر وہی جذبات جسم میں سرایت کرجاتے ہیں۔
٭ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا: افریقہ میں مصافحے کے لئے لوگ لائن میں تھے ایک شخص نے ہاتھ بڑھایا اور ساتھ ہی جذبات سے مغلوب ہوکر رونا شروع کر دیا۔ کیا یہ تعلق، یہ محبت کا اظہار، ملوک یا بادشاہوں کے ساتھ ہوتا ہے یا خدا کی طرف سے دلوں میں پیدا کیا جاتا ہے۔ ایک صاحب پرانے احمدی جو فالج کی وجہ سے بہت بیمار تھے، ضد کرکے 50,40 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور فالج سے ان کے ہاتھ مڑ گئے تھے، ان مڑے ہوئے ہاتھوں سے اس مضبوطی سے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا کہ مجھے لگا کہ جس طرح شکنجے میں ہاتھ آگیا ہے۔ کیا اتنا تردّد کوئی دنیاداری کے لئے کرتا ہے!۔
٭ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎
محبت کے جذبے ، وفا کا قرینہ
اخوّت کی نعمت ، ترقی کا زینہ
خلافت سے ہی برکتیں ہیں یہ ساری
رہے گا خلافت کا فیضان جاری
نظام خلافت کے تعلق میں مومنین کے لئے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف خود نظامِ خلافت اور اس کے استحکام کی خاطر خدمت کے ہر میدان میں کوشاں رہیں بلکہ اپنی اولاد میں بھی یہی روح اور جذبہ پیدا کریں۔ اسی اہمیت کے پیش نظر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے جماعت سے ایک عہد لیا تھا جس کے الفاظ یہ تھے:
’’ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جدوجہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے … اے خدا تُو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اَللّٰھُمَّ آمین، اَللّٰھم آمین، اَللّٰھم آمین‘‘ ؎
الٰہی ہمیں تُو فراست عطا کر
خلافت سے گہری محبت عطا کر
ہمیں دُکھ نہ دے کوئی لغزش ہماری
رہے گا خلافت کا فیضان جاری