خلفائے احمدیت کی پیاری یادیں
رسالہ ’’الھدیٰ‘‘ سویڈن کے شمارہ اگست تا اکتوبر 2008ء میں مکرم ڈاکٹر عبدالرؤوف خان صاحب نے خلفاء سلسلہ کے حوالہ سے اپنی چند خوبصورت یادوں کو بیان کیا ہے۔
میں قادیان میں محترم عبدالواحد خان صاحب کے ہاں پیدا ہوا جو پٹیالہ سے ہجرت کر کے اپنے چچا حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحب ؓ کے پاس قادیان آگئے تھے۔ میرے والد پہلے حضرت مصلح موعودؓ کی تجارتی کمپنی ایسٹرن ٹریڈنگ کمپنی قادیان میں کام کرتے رہے لیکن جب اس کمپنی کا کام نہ چلا تو حضورؓ نے ایک کمپنی ’’دلکشاء پرفیومری کمپنی قادیان‘‘ کے نام سے بنائی جو حضورؓ کے تجویز کردہ نسخوں کے مطابق عطر، خوشبو دار تیل اور دیگر اشیاء تیار کرتی تھی اور اپنی مصنوعات ہندوستان کی بڑی بڑی نمائشوں اور میلوں میں سٹال وغیرہ لگا کرفروخت کرتی تھی۔ والد صاحب بیان کرتے تھے کہ ان نمائشوں میں سامان کی تیاری میں خود حضرت مصلح موعودؓ بنفس نفیس شامل ہوتے۔ میرے والد اِس خدمت پر قریباً دس سال مامور رہے۔ اور بیان کرتے تھے کہ اس لمبا عرصہ میں ایک بار بھی حضورؓ نے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا۔ کام کے دوران حضورؓ خود بھی شامل ہوتے اور حضورؓ کی بے حد بشاش طبیعت کسی قسم کی تھکن کا احساس تک نہیں ہونے دیتی تھی۔
والد صاحب بعض اوقات مجھے خط دے کر حضورؓ کی خدمت میں بھجوا دیا کرتے تھے۔ ایک بار میں خط لے کر گیا تو حضورؓ سردیوں کی دھوپ میں حضرت اُم وسیم صاحبہؓ کے صحن میں تشریف فرما تھے۔ میری عمر سات آٹھ سال تھی۔ حضورؓ نے اسی وقت خط کھول کر پڑھا جس میں والد صاحب نے میرے بارہ میں لکھا تھا کہ حضورؓ مجھ سے تلاوتِ قرآن کریم سنیں۔ حضورؓ نے فرمایا اچھا تو پھر تلاوت قرآن کریم سناؤ۔ میں نے سورۃ بنی اسرائیل کی چند آیات تلاوت کیں تو حضورؓ نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور کچھ نقدی بطور انعام عطا فرمائی۔
حضورؓ تقریر کے دوران تیز گرم چائے نوش فرماتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی تقاریر کے دوران حضورؓ کیلئے چائے تیار کرنے کی ذمہ داری حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحبؓ کے سپرد تھی اور آپؓ نے اس کام کیلئے اپنے بیٹے کریم احمد نعیم مرحوم اور میری ڈیوٹی لگا دی تھی۔ یہ سعادتِ عظمیٰ ہمارے حصہ کئی سال رہی۔ اس مقصد کیلئے جلسہ سالانہ کے سٹیج کے کونے میں کوئلوں کی انگیٹھی رکھ دی جاتی تھی۔ حضورؓ مٹی کے تیل کے چولہے پر تیار کی ہوئی چائے پسند نہیں فرماتے تھے۔
مئی 1966ء میں مسجد نصرت جہاں کا سنگِ بنیاد صاحبزادہ حضرت مرزا مبارک احمد صاحب نے رکھا۔ سنگ بنیاد کے لئے قادیان کی مسجد مبارک کی ایک اینٹ دعا کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی زندگی میں ہی بھجوادی تھی جو مشن ہاؤس میں موجود تھی۔ اس اینٹ کو میرے پاس موجود ایک احرام کی چادر میں رکھا گیا جسے میں نے 1963ء اور 1964ء کے حج بیت اللہ کے موقع پر باندھا تھا اور اسے آبِ زمزم سے دھو کر لایا تھا۔ اس کے چار کونے مبلغ انچارج صاحب، عبد السلام میڈسن صاحب، نور احمد بولستاد صاحب اور زکریا سن آرکیٹیکٹ نے پکڑے۔ چادر میں سے اینٹ اٹھا کر صاحبزادہ صاحب نے اس جگہ پر نصب کر دی جو اس کے لئے مخصوص کی گئی تھی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ بمع قافلہ 20 جولائی 1967ء کو بذریعہ ٹرین کوپن ہیگن تشریف لائے اور ایک ہفتہ قیام فرمایا۔ اس دوران حضورؒ کے قافلہ کے کھانے کا انتظام میرے سپرد تھا۔ دوسری بار یہ سعادت 1973ء میں نصیب ہوئی جب حضورؒ جرمنی تشریف لائے تو مَیں فرینکفرٹ میں قائد مجلس خدام الاحمدیہ تھا۔ حضورؒ کا قیام مسجد نور میں تھا۔ حضورؒ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ بھی دیا گیا جس میں جرمن معززین کے علاوہ پاکستان کے سفیر مقیم کولون بھی شامل ہوئے تھے۔
میں اور برادرم عبد السلام میڈسن صاحب 1981ء کے جلسہ سالانہ قادیان اور پھر جلسہ ربوہ میں شامل ہوئے۔ ایک موقع پر ہم دفتر وقف جدید میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ سے ملنے گئے تو آپؒ نے مجھے فرمایا کہ کوئی نظم سناؤ۔ میں نے عرض کیا کہ کوئی نظم پوری یاد نہیں۔ تو آپؒ نے اُسی وقت بازار سے درّثمین منگوائی اور ایک نظم نکال کر اُس پر اپنی قلم سے نشان لگائے۔ میں نے وہ نظم سنائی تو آپؒ نے درّثمین مجھے عنایت فرمادی۔ یہ تبرک ا بھی تک میرے پاس موجود ہے۔