خلفائے سلسلہ کی ازواج
امر الٰہی کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ نے ہو شیارپور میں 1886ء میں جو چلّہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی متضرعانہ دعاؤں کو قبول فرمایا اور اسلام کی سربلندی کے متعلق آپؑ کو غیب کی خبروں سے نوازا اور بتایا کہ آپؑ کی مبارک نسل کو بھی اس کارخیر کی خوب توفیق ملے گی۔ چنانچہ فرمایا کہ ’’ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمت تجھ پر پوری کروں گا … تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذرّیت کو بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا ‘‘۔ یہ پیشگوئی خلفائے سلسلہ کی ازواج مبارکہ کے ذریعہ بھی پوری ہوئی۔
جماعت احمدیہ برطانیہ کے ’’خلافت سوونیئر‘‘ کے ایک مضمون میں خلفائے سلسلہ کی زوجیت میں آنے والی مبارک خواتین کا مختصر ذکر شامل ہے۔
حضرت سیّدہ صغریٰ بیگم صاحبہ ؓ
حضرت سیّدہ صغریٰ بیگم صاحبہ حرم سیّدنا حکیم حضرت مولانا نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کو یہ فضیلت حاصل تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے محب خاص کی زوجیت کے لئے آپؓ کا خود انتخاب فرمایا اور بہ نفسِ نفیس مارچ 1889ء میں حضرت اماں جانؓ کے ہمراہ بارات میں شرکت بھی فرمائی۔ آپؓ کی شادی کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ کو ایک خط میں تحریر فرمایاکہ: ’’میں نے اس محلہ میں خاص صاحبِ اسرار اور واقف لوگوں سے اس لڑکی کی بہت تعریف سنی ہے کہ یہ لڑکی طبعاً صالح اور فضائل محمودہ کی جامع ہے۔ اس کی تربیت اور تعلیم کی طرف بھی توجہ رکھیں اور اسے پڑھایا کریں۔ اس کی استعدادیں بہت عمدہ معلوم ہوتی ہیں اور اللہ جل شانہ کا نہایت فضل اور احسان ہے کہ یہ جوڑ بہم پہنچایا ورنہ اس قحط الرّجال میں ایسا اتفاق محالات کی طرح ہے‘‘۔
حضرت سیّدہ محمودہ بیگم صاحبہؓ
حضرت سیّدہ محمودہ بیگمؓ (امِّ ناصر) حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ کی صاحبزادی تھیں۔ آپ سیّدنامرزا محمود احمدصاحبؓ کی پہلی حرم محترم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی بہوتھیں جن کا رشتہ خود حضورؑ نے تجویز فرمایاتھااور جو حضورؑ کی زندگی میں ہی اکتوبر 1903ء میں آپؑ کے گھر کی رونق بنیں۔ خدا کی یہ پیشگوئی کہ
’’اِنَّانُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ نَافِلَۃً لَکَ نَافِلَۃً مِنْ عِنْدِیْ
یعنی ہم ایک اور لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جو نافلہ ہو گایعنی لڑکے کا لڑکا۔ یہ نافلہ ہماری طرف سے ہے‘‘۔ یہ پیشگوئی آپؓ کے ہاں حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کی پیدائش سے پوری ہوئی۔
آپؓ کو خدا تعالیٰ نے نمایاں خدمت دین کی توفیق عطا فرمائی ۔ آپ ؓ لجنہ اماء اللہ کی پہلی صدر منتخب ہوئیںاور قریباً36 سال تک اس عہدہ پر فائز رہیں۔ 1913ء میں الفضل کے اجراء کے لئے اپنا زیور پیش کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ آپؓ کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ نے میر ی بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح حضرت خدیجہ کے دل میں رسول کریم ﷺکی مدد کی تحریک کی تھی … الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گا…اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دئیے جس سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوا اور میرے لئے زندگی کا نیا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبب پیدا کر دیا…میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا نہ کرتا تو میں کیا کرتا اور میرے لئے خدمت کا کونسا دروازہ کھولا جاتا اور جماعت میں روزمرہ بڑھنے والا فتنہ کس طرح دُور کیا جاسکتا‘‘۔
آپؓ بے حد متّقی، سلسلہ کا درد رکھنے والی، صابر و شاکر اور ملنسار تھیں۔ 31جولائی 1958ء کو مری میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔
حضرت سیّدہ امتہ الحیٔ بیگم صاحبہؓ
حضرت سیّدہ امتہ الحیٔ بیگم صاحبہ حضرت حکیم مولوی نورالدینؓ صاحب کی صاحبزادی تھیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ساتھ آپ ؓ کا نکاح 31؍مئی 1914ء کو عمل میں آیا۔ آپ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی دوسری حرم محترم تھیں۔ حضور ؓ نے حضرت موصوفہ سے اپنی شادی کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا کہ ’’میں ان کے ذریعہ سے عورتوں کو تعلیم دے سکوں گا‘‘۔
حضرت خلیفہ اوّلؓ کی وفات پر اپنے والد محترم کی ایک وصیت کہ میراجانشین عورتوں میں بھی درس قرآن جاری رکھے،حضرت سیّدہ امتہ الحی صاحبہؓ نے ہی ایک خط کے ذریعے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ تک پہنچایا۔ چنانچہ حضورؓنے اگلے دن سے ہی مستورات میں درس دینا شروع کر دیا۔ آپؓ کو عشق قرآن ورثہ میں ملاتھا۔ آپؓ ہی نے حضورؓ کو احمدی خواتین کی ترقی کے لئے ایک انجمن یعنی لجنہ اماء اللہ بنانے کی تحریک کی ۔ آپؓ لجنہ اماء اللہ کی پہلی سیکرٹری بھی تھیں۔ آپؓ نے ساری زندگی احمدی خواتین کی تعلیم وتربیت کی طر ف اپنی توجہ مذکور رکھی ۔
شادی کے دس سال بعد 10 دسمبر 1924ء کو آپ ؓ نے وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئیں۔ آپؓ کی وفات پر حضورؓ نے فرمایا: ’’میری روح کو امتہ الحیٔ کی روح سے ایک پیو ستگی حاصل تھی … ان کے اندر ایک ایساایمان تھا،حضرت اقدسؑ پر ایسا یقین تھا،دین حق کی صداقت پر جو ایمان اور یقین بہت کم عورتوں میں پایاجاتاہے… میں ہمیشہ ان کے ایمان کو خلافت کے متعلق ایسا مضبوط پایا کہ بہت کم مردوں میں ایسا ہوتا ہے۔ دین اور اسلام کی اس قدر محبت رکھتی تھیں،سلسلہ کی عورتوں کی علمی ترقی کی ان کے دل میں اس قدر تڑپ تھی کہ میرے نزدیک ساری جماعت میں اس قسم کی کوئی عورت موجود نہیں۔ ‘‘
حضرت سیّدہ مریم بیگم صاحبہؓ
حضرت سیدہ مریم بیگمؓ (اُمّ طاہر) پاک طینت اور پارسا والدین کی چشم وچراغ تھیں جو اوائل 1905ء میں ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں۔ آپؓ کا نکاح 7؍فروری1925 ء کو حضرت مصلح موعودؓ سے ہوا اور 21فروری1925ء کو نہایت سادگی سے تقریب رخصتانہ عمل میں آئی ۔ مارچ 1925ء کو دارالمسیح میں جب مدرسۃالخواتین جاری ہوا تو آپ بھی شریک ِتعلیم ہوئیں اور مدرسۃالخواتین کے مقصد کو آپ نے کما حقّہٗ پورا کیا۔ خدمات سلسلہ کے لئے ہمیشہ تیار رہتیں۔ حضورؓ کی ہدایت پر 1930ء میں نصرت گرلز سکول کی نگرانی کے لئے قائم ہونے والی کمیٹی کی رکن تھیں۔ آپؓ کو خواتین کی اصلاح اور تربیت کا ہروقت خیال تھا۔ 1930 ء تا1937 ء تک جلسہ سالانہ خواتین کی منتظمہ رہیں۔ آپ نے حضورؓ کی ہدایت پر قادیان میں محلّہ وار کمیٹیاں بنائیں۔ آپ نے اپنا مکان خواتین کے اجلاسوں کے لئے وقف کر رکھا تھا چنانچہ آپ کے مکان پر ہی حضرت مصلح مو عود ؓ درس قرآن و حدیث دیتے تھے۔ سیرت النبیﷺ کے جلسے، سیرت پیشوایان مذاہب ، عہدیداران لجنہ اور لجنہ کے عام اجلاس اور مصباح کی قائم شدہ کمیٹی کے اجلاس آپ کے ہی مکان پر ہوتے ۔ آپ نے تحریک جدید کو کامیاب بنانے لئے دیوانہ وار کوشش کی۔ خلافت جوبلی فنڈ میں ذاتی طور پر شرکت کے علاوہ آپ کی مساعی قابل تعریف تھی۔ جلسہ سالانہ جوبلی پر حضورؓ کی خدمت میں لجنہ اماء اللہ قادیان کا تہنیت نامہ بطور جنرل سیکرٹری آپؓ نے پیش کیا۔
آپ کی مالی قربانیاں ہمیشہ اعلیٰ معیار کی تھیں ۔ پہلے چھٹے حصہ کی وصیت فرمائی لیکن 1927ء میں اس کو بڑھا کر تیسرا حصہ کر دیا۔ برلن مسجد کی تعمیر کے لئے ڈیڑھ سو روپیہ ادا کیا۔ 1931ء مسجد فضل لندن کی مرمت کے لئے 25روپے پیش کئے۔ 1936ء میں جلسہ سالانہ کے لئے ایک دیگ فراہم کی۔ 1938ء میں خلافت جوبلی فنڈمیں دو سو روپیہ دیا۔ 1942ء میں غرباء کی امداد کی تحریک پر پانچ من غلہ پیش کیا ۔ آپ نے کئی یتیم بچوں اور بچیوں اپنے گھر میں پالا۔
سیّدہ اُمّ طاہر صاحبہ 5مارچ 1944ء کچھ عر صہ بیمار رہ کر وفات پاگئیں۔ آپؓ نے تین بیٹیاں اورایک بیٹا (حضرت مرزا طاہر احمد صاحب) یادگار چھوڑے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اپنی اس مرحومہ بیوی کو ثواب پہنچانے کے لئے تفسیر کبیر جلد ششم جزو چہارم نصف اوّل کے لئے ایک خطیر رقم بطور صدقہ جاریہ وقف کی۔
حضرت سیّدہ سارہ بیگم صاحبہ
حضرت سیّدہ سارہ بیگم صاحبہ حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری ؓ کی صاحبزادی تھیں۔ علمی خاندان سے تعلق کی بناء پر آپ کو بچپن ہی سے تحصیلِ علم کا خاص شوق تھا اور آخر یہی جذبہ حضرت مصلح موعودؓ سے تعلق قائم کرنے کا ذریعہ بنا۔
حضرت سیّدہ امتہ الحئی کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کو جماعت کی مستورات کی دینی تعلیم و تربیت کے خیال نے بہت بے چین کیا۔ چنانچہ اس اہم دینی ضرورت کے پیش نظر حضور ؓ نے 12 ؍اپریل 1925ء کو آپ کو اپنے عقد میں لے لیا۔ پھر آپ حضورؓ کی زیر تربیت تعلیم حاصل کرنے میں سرگرمی سے مشغول ہو گئیں۔ادیب اور مولوی فاضل کا امتحان پاس کرکے میٹرک کا امتحان اعلیٰ کامیابی سے پاس کیا جبکہ 1933ء میں بوقت وفات F.A. کا امتحان دیا ہو ا تھا۔ آپ نے حضورؓ کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ میں اپنی زندگی حضرت مسیح موعودؑ کے اس فارسی شعر کے مطابق بنانے کا فیصلہ کر چکی ہوں کہ (ترجمہ) ’’اگر تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کو تلاش کر جو خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفس کو کھوچکا ہو۔ اور پھر اس کے دروازہ پر مٹی کی طرح بے خواہش ہوکرگر جا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’آہ !مرحومہ نے جو کچھ کہا تھا اُسے پورا کر دکھایا۔ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی وہ حقیقی معنوں میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے قدموں میں خاک ہوئی پڑی ہیں اور ہمیشہ کے لئے اُس کے آستانہ پر گر چکی ہیں۔‘‘
سیّدہ موصوفہ نہایت متقی،پرہیز گار،صوم وصلوٰۃ کی پابند تھیں۔ اوقات کا اکثر حصہ تحصیل علوم میں صرف کرتیں۔ نہایت کم گو تھیں۔ غرباء کی ہمدردی اور مستورات کی خیرخواہی ان کا مقصد تھا۔ ہر امرِخیر میں نہایت حریص تھیں اور سبقت لینے کی کوشش کرتیں۔ 13 ؍مئی 1933ء کو صرف 26 سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں سپرد خاک کی گئیں۔
حضرت سیّدہ عزیزہ بیگم صاحبہ
حضرت سیدہ عزیزہ بیگم صاحبہ (امّ وسیم) کے والد حضرت سیٹھ ابوبکر یوسف جمال صاحب جدّہ کے ایک مخیّر تاجر تھے۔ حضرت سیدہ یکم فروری 1926ء کو حضرت مصلح موعودؓ کے عقد میں آئیں۔ حضور ؓ اس بارہ میں فرماتے ہیںکہ حضرت مسیح موعودؑ کی یہ خواہش کہ مسلمانوں کی دوسری زبان عربی ہونی چاہئے، پورا کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے کہ عربی بولنے والی عورتوں سے شادی کی جائے تا بچوں میں عربی کا چرچا ہو۔ اس لئے میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ میں اس جگہ ممکن ہوا تو شادی کروں گا۔
حضرت سیدہ لجنہ کے اجلاسات میں باقاعدگی سے شرکت کرتیں۔ درس اور جلسوں کا انتظام بھی ایک عرصہ تک آپ کے ذمہ رہا۔ امیر گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود طبیعت میں بڑی سادگی اور انکساری تھی۔ غریبوں کے ساتھ خاص طور پر بہت محبت اور شفقت کا سلوک فرماتیں اور علالت طبع کے باوجود تشریف لے جا کر ان کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوتیں۔
آپ لمبا عرصہ ذیابیطس اور ہائی بلڈپریشر کی وجہ سے بیمار رہیں اور آخر حضور ؓ کی37 سالہ رفاقت کے بعد 5و6؍دسمبر 1963ء کی شب وفات پاگئیں۔
حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ
حضرت سیّدہ مریم صدیقہ کی پیدائش اکتوبر 1918ء کو ہوئی۔ 1921ء میں آپ کے والد حضرت ڈاکٹرمیر محمد اسماعیل صاحب ؓ نے آپ کو خدا تعالیٰ کے حضور وقف کر دیا۔ چنا نچہ آپ کے والد صاحب نے اس وقت آپ کا دوسرا نام نذرالٰہی بھی رکھ دیا۔ آپکی شادی حضرت مصلح موعودؓ سے ستمبر1935ء میں ہوئی۔ حضورؓ کا آپ سے شادی کرنے کا ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ آپ جماعت کی خواتین کی دینی تعلیم وتربیت کا اہم کام سر انجام دینے میں ان کی مد د کریں ۔ اس لئے آپ نے دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ آپ نے ’’براہین احمدیہ‘‘ اور بخاری شریف سمجھ کر پڑھی۔ علم صرف و نحو اورقرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر آپ نے حضرت مصلح موعودؓ سے سیکھے۔ بعدازاں اس فیض کو ساری عمر جاری رکھا۔ آپ بہت ذہین تھیں اور بلا کا حافظہ تھا۔ حضورؓ کے زیرتربیت آپ نے شادی کے بعد ایم۔اے عربی تک تعلیم حاصل کی۔
30سالہ دور رفاقت میں اپنے عظیم شوہر کی خدمت اور معاونت پر کمر بستہ رہیں۔حضورؓ کی بہت سی تقاریر اور تفسیر صغیر کے ایک حصہ کی املا ء کرنے کی سعادت بھی آپ کو نصیب ہوئی۔ 1942ء میں لجنہ کی جنرل سیکرٹری اور 1958ء میں صدر لجنہ کے عہدہ پر فائز ہوئیں اور 1997ء تک تاریخ ساز خدمت کی توفیق پائی۔ اس دوران نصرت انڈسڑیل ہوم کا قیام ، ربوہ میں فضلِ عمر ماڈل سکول کا اجراء اور جا معہ نصرت میں سائنس بلاک کا آغاز ہوا۔ آپ جامعہ نصرت برائے خواتین کی پہلی ڈائریکٹرس رہیں۔ آپ نے تاریخ لجنہ کی پانچ جلدوں کی تدوین کی۔ خواتین کی تربیت کے لئے کئی کتب شائع کروائیں۔ متعدد تربیتی مضامین اور تقاریر اس کے علاوہ ہیں۔ آپ کے دَور میں کوپن ہیگن (ڈنمارک) اور ہالینڈمیں خواتین کے چندہ سے مساجد بھی تعمیر ہوئیں۔ لجنہ کے جدید دفتر کی عمارت اور ایک وسیع عریض ہال بھی تعمیر ہوا۔ آپ بہترین انتظامی صلاحیتوں کی مالک تھیں۔ حسن اخلاق اور اعلیٰ کردار کے لحاظ سے قابل تقلید نمونہ تھیں۔
حضرت سیّدہ انتہائی نیک ، خداترس ، بااخلاق ، سادہ مزاج، زیرک، معاملہ فہم، اورعاشقِ قرآن تھیں۔ حسن سلوک اور شفقت بے مثال تھی۔ خلافت احمدیہ کی اطاعت اور ادب و احترام حد درجہ بلند مقام حاصل تھا۔ خلیفہ وقت کے ہر حکم پر شرح صدر کے ساتھ لبیک کہتیں۔ آپ نے 3نومبر1999ء کو وفات پائی۔
حضرت سیّدہ بشریٰ بیگم صاحبہ
حضرت سیّدہ بشریٰ بیگم (مہر آپا) 7؍اپریل 1919ء کو بمقام جہلم سیّد عزیزاللہ شاہ صاحبؓ ابن ڈاکٹر سیّدعبدالستارشاہ صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئیں۔ حضر ت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو حضرت سیّدہ اُمّ طاہر کی وفات کے بعد حضرت سیّدہ کے بچوں کی نگہداشت کے لئے شادی کی ضرورت پیش آئی۔ چنانچہ مناسب خیال کیا گیا کہ حضرت سیّدہ اُمّ طاہر کے خاندان سے رشتہ کیا جائے۔ چنانچہ دعاؤں کے بعد الٰہی بشارات کی روشنی میں جب حضرت مہر آپا کے والد محترم سے اس رشتہ کے بارہ میں بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے اللہ نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ بشریٰ بیگم حضورؓ کے لئے ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو ایک رویاء میں خبر دی گئی تھی کہ ایک فرشتہ آواز دے رہا ہے کہ مہر آپا کو بلاؤچنانچہ اس رؤیا کے مطابق آپ کو مہر آپا کہا گیا۔
شادی کے بعد حضرت سیّدہ مہر آپا حضورؓ کے اعتماد پر پوری اتریں اور آپ نے حضرت سیّدہ اُمّ طاہر کے بچوں کا بہت خیال رکھااور ہر ممکن پیار اُن کو دیا۔
1944ء میں میٹرک کے علاوہ دینیات کی دو جماعتیں پاس کیں۔ پھر جامعہ نصرت ربوہ سے F.A. کیا اور اس کے بعد B.A. میں داخلہ لیا۔ مگر حضورؓ کی علالت میں خدمت کی خاطر اپنی تعلیم کا سلسلہ ترک کر دیا۔ آپ دینی خدمت میں بہت مستعد تھیں۔ آپ لجنہ اماء اللہ کی جنرل سیکرٹری ، سیکرٹری خدمت خلق اور سیکرٹری تربیت و اصلاح رہیں۔ 1966ء تا1990ء تک نائب صدر لجنہ مرکزیہ کے عہدہ پر بھی فائز رہیں۔
حضرت سیّدہ مہر آپاکی نمایاں صفت غریبوں اور مسکینوں سے ہمدردی اور مہمان نوازی تھی۔ ایک غریب پرورخاتون تھیں۔ بہت صفائی پسند تھیں۔ صبروتحمل کا پیکر تھیں، قریبی عزیزوں، بھائیوں کے صدمات بڑے صبرو حوصلہ سے برداشت کئے۔ بہت عبادت گزار تھیں۔ تہجداور صوم وصلوٰۃ کی پابند تھیں۔ مطالعہ اور لکھنے کا شوق بھی تھا۔ جلسوں اور اجتماعات پر تقاریر کرتیں۔ آپ کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ آپ نے ساری جائیداداللہ کی راہ میں وقف کردی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے جرمنی میں تعمیر ہونے والی سو مساجد کی تعمیر میں حضرت مہر آپا کی طرف سے ایک خطیر رقم پیش کی۔
حضر ت سیّدہ لمبی بیماری کے بعد 22مئی 1997ء کو وفات پاگئیں۔
حضرت سیّدہ منصورہ بیگم صاحبہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی حرم حضرت سیّدہ منصورہ بیگم صاحبہ، حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی بیٹی تھیں۔ اکتوبر 1911ء میں پیدا ہوئیں۔ آپ کی مذہبی تعلیم کی طرف خاص توجہ دی گئی اور آپ نے ادیب عالم ، میٹرک اور منشی فاضل کے امتحانات بھی پاس کئے۔ علم و ادب سے آپ کو بہت شغف تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کا نکاح اپنے فرزند اکبر کے ساتھ پڑھا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو لجنہ اماء اللہ کی خدمت کی توفیق بھی عطا کی۔ 1945ء میں مجلس عاملہ مرکزیہ قادیان کی ممبر بنیں اور ایک عرصہ تک سیکرٹری خدمت خلق کے فرائض سر انجام دیئے۔ ہجرت کے بعد مہاجر خواتین کے انتظامات کی نگرانی فرماتی رہیں۔ 1952ء سے 1955ء تک لجنہ اماء اللہ لاہور کی صدر رہیں۔
حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ؒکے مسند خلافت پر فائز ہونے کے بعد آپ نے اپنی ذمہ داریوں کو بڑی عمدگی سے نبھایا۔ حضور ؒ کے آرام و ضروریات کا خیال رکھنے کے علاوہ احمدی مستورات کے مسائل حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتیں۔ آپ نے ایک بھرپور، بامقصد، پُروقار اور قابل رشک زندگی گزاری۔ سفر میں حضور کے ساتھ رہتیں اور حضورؒ کی حفاظت کا خاص خیال رکھتیں۔ اس معاملہ میں خدا تعالیٰ نے آپکو غیرمعمولی حس عطا کی ہوئی تھی۔حضورؒ نے آپ کے بارہ میں فرمایا: ’’ان کا میرے ساتھ صرف تعلق ہی نہیں تھا بلکہ ساری جماعت کے ساتھ تعلق تھا۔ اور وہ جو سات دورے میں نے اپنی قیادت جماعت احمدیہ کے دَور میں دُنیا کے کئے ان میں وہ میرے ساتھ رہیں اور میری دینی اور جماعتی ذمہ داریوں کا جو بوجھ تھا وہ انہوں نے میرے ساتھ اُٹھایا۔ میرے وقت کا خیال رکھا۔ میری صحت کا خیال رکھا ، میری حفاظت کا خیال رکھا اور اتنی باریکیوں کے ساتھ میرا خیال رکھتی تھیں کہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے‘‘۔
اجتماعات میں حضرت سیدہ نے جو تقریریں فرمائیں ان میں دینی شعائر کی پابندی کرنے اور تربیت اولاد پر خصوصی زور دیا۔ آپ نے اپنے فرائض کو خوب سمجھا اور نبھایا۔ ایک مثالی زندگی پیش کی۔آپ کی وفات 3؍4 دسمبر 1981ء کی درمیانی شب ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔
حضرت سیّدہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ مدظلہا
حضرت سیّدہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ حضرت عبدالمجید خانصاحب ؓ آف ویرووال (یکے از 313 صحابہ) اور محترمہ ملکہ زمانی بیگم صاحبہ کے ہاں 20؍ فروری 1956ء کو ربوہ میںپیدا ہوئیں۔ جناح میڈیکل کالج سے ڈاکٹری کا امتحان پاس کیا۔ ہاؤس جاب کے دوران ہی آپ کے نکاح کا اعلان 11؍ اپریل 1982ء کو حضورؓ نے مسجد مبارک میں خود فرمایا اور اُسی روز تقریب رخصتانہ نہایت سادگی سے عمل میں آئی۔
حضرت سیدہ فرماتی ہیں کہ شادی سے پہلے میری زندگی بالکل ایک عام انسان والی زندگی تھی اور شادی کے بعد میری مختصر ازدواجی زندگی کا ہر لمحہ حضور ؒکی خدمت اور آپؒ کے معمولاتِ زندگی کی پیروی میں صرف ہونے لگا۔ حضور ؒ کی المناک وفات کے بعد سے میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ حضورؒ کی نصائح کے مطابق اپنی زندگی گزاروں جن کے بنیادی مقاصد یہی دو تھے کہ توحید خالص کے قیام کے لئے حتی الوسع کوشش کرتی رہوں اور دوسرے احمدی خواتین کی اپنے نمونہ اور عملی کوشش سے تربیت کروں۔
1982ء میں حضرت سیدہ کو نائب صدر لجنہ ربوہ کے فرائض سونپے گئے۔ 1992ء میں صدر لجنہ ربوہ منتخب ہوئیں اور دو سال کے وقفہ کے علاوہ دسمبر 2007ء تک اس عہدہ پر فائز رہیں۔ آپ مستقل طور پر لجنہ ربوہ کے ہومیوپیتھک کلینک میں بھی خدمت کی توفیق پا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت والی فعال زندگی عطا کرے۔ آمین
حضرت سیّدہ آصفہ بیگم صاحبہ
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی حرم حضرت سیّدہ آصفہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب اور صاحبزادی امۃالسلام صاحبہ (بنت حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ) کے ہاں جنوری 1935ء میں پیدا ہوئیں۔
1984ء کی ہجرت کے بعدآپ نے نہایت مصروف زندگی گزاری اور حضورؒ کی شب و روز کی مصروفیات میں شریک رہیں۔ ابتداء میں رات گئے تک حضورؒ کے ساتھ ہزاروں خطوط کھولنے کا کام بھی کیا۔ اپنی علالت اور کمزور طبیعت کے باوجود بڑی ہمت سے حضورؒ کے ہمراہ دوروں پر جاتیں اور احمدی خواتین کے مسائل حل کرتیں اور مشورے دیتیں۔ غریب پرور تھیں، طبیعت میں بہت انکسار، سلیقہ، نفاست، اعلیٰ ذوق، نرم گفتاری اور خندہ پیشانی کے علاوہ سادگی بھی تھی۔ حضورؓ کے مقامِ خاص کا بہت احترام کرتیں اور اس بات کا بہت احساس تھا کہ حضورؓ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
حضرت سیدہ 3؍اپریل 1992ء کو لمبی بیماری کے بعد لندن میں وفات پاگئیں۔ حضورؒ نے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے جب ان سے شادی کا فیصلہ کرنا تھا۔ اس سے پہلے استخارہ کیا اور رؤیا کی حالت میں یعنی جاگتے ہوئے نہیں بلکہ رؤیا کی حالت میں الہام ہوا۔ اور اس کے الفاظ یہ تھے’’تیرے کا م کے ساتھ اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔‘‘ اس وقت مجھے بڑا تعجب ہوا کہ میرے کونسے کام ہیں؟ وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ آئندہ خدا تعالیٰ مجھ سے کیا کام لے گا۔ لیکن اس میں یہ عجیب پیغام تھا کہ عملاً کاموں میں ان کو شرکت کی اتنی توفیق نہیں ملے گی لیکن میرے تعلق کی وجہ سے خدا تعالیٰ ان کو میرے کاموں میں شریک فرمادے گا اور ان کو بھی اس کا ثواب پہنچتا رہے گا۔‘‘۔
حضرت سیّدہ امتہ السبوح بیگم صاحبہ مد ظلہا
حضرت سیّدہ امتہ السبوح بیگم صاحبہ مدظلہا 25؍اکتوبر 1950ء کو سندھ میں پیدا ہوئیں جہاں حضرت مصلح موعودؓ کی زمینوں کی نگرانی کے لئے آپ کے والد محترم سیّد داؤد مظفر شاہ صاحب اور والدہ محترمہ امۃالحکیم صاحبہ مقیم تھے۔ تربیت ربوہ میں ہوئی اور بچپن سے ہی جماعتی خدمات کی توفیق ملتی رہی۔ 31؍جنوری 1977ء کو آپ کی شادی حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد (ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) سے ہوئی۔ جون 1978ء میں آپ حضور انور کے پاس غانا تشریف لے گئیں اور 1985ء میں حضور کے ہمراہ واپس ربوہ تشریف لائیں۔ غانا میں اپنے قیام کے دوران دعوت الی اللہ کے علاوہ لاتعداد احمدی بچوں کو قاعدہ یسّرناالقرآن پڑھانے کی سعادت حاصل کی۔
ربوہ میں متعدد خدمات کی توفیق پائی۔ مرکزی مجلس عاملہ لجنہ کی رُکن ہونے کے علاوہ دو سال تک لجنہ ربوہ کی صدر رہیں۔ وقف عارضی کا موقعہ بھی ملا۔ پھر حضورانور کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد حضور کے ہمراہ متعدد ممالک کے دوروں پر تشریف لے گئیں اور وہاں حضور کی راہنمائی میں خواتین اور بچیوں کے مسائل حل کرنے کی توفیق پائی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر و صحت میں برکت دے۔ آمین