خلفائے کرام سے متعلق ذاتی مشاہدات
ما ہنامہ ’’انصار اللہ‘‘ ربوہ جولائی 2008ء میں محترم ڈاکٹر مسعودالحسن نوری صاحب خلفائے کرام سے متعلق اپنے ذاتی مشاہدات کو بیان کرتے ہیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ :
دسمبر 1981ء میں جب حضرت سیدہ منصور ہ بیگم صاحبہ بیمار تھیں، گردے کام کرنا چھوڑ گئے تھے، اُن کی زندگی کے آخری ایام میں قصر خلافت میں حضورؒ کے ذاتی کمرہ کا نقشہ یوں تھا کہ سادہ سا کمرہ ،دو چھوٹے چھوٹے پلنگ، ایک طرف ایک تخت پوش جس پر ایک گاؤتکیہ لگا ہوا تھا، دو کرسیاں جس میں ایک Easy Chair، ایک لیمپ۔ دونوں پلنگوں کے درمیان ایک میز اور اس پر ایک چھوٹا سا لیمپ،اور ایک پیالی پانی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی تھی جس میں سے حضرت بیگم صاحبہ کو وقتاً فوقتاً پانی کی چمچی پلائی جاتی تھی۔یہ وہ دن تھے جب ان کو بے ہوشی کی کیفیت تھی،تکلیف بہت زیادہ تھی ، علاج جہاں تک دنیاوی لحاظ سے ممکن ہے وہ ہورہا تھا ۔لیکن ایک بات جس کا خاص طور پر میرے دل پر بہت اثر تھا کہ حضورؒ جب بھی کرسی پر بیٹھتے اور قریباً قریباً ساری رات جاگے رہتے۔ اُن کا قرآن کے ساتھ عشق ایسا دیکھا کہ اُن کے ہاتھ میں جو ایک کتاب تھی وہ قرآن کریم تھی اور اٹھتے بیٹھتے منہ سے یہی کلمہ نکلتا تھا ’’ اللہ ہی اللہ ہے‘‘۔ بیسیوں دفعہ یہ کلمہ ان کی زبان سے سنا۔
حضرت بیگم صاحبہ کا وصال ہوا تو اس کمرہ کے باہر لاؤنج سا تھا،خاندان کے بیشتر لوگ وہاں موجود تھے اور حضور اس دروازہ کے ساتھ تشریف فرما تھے اور ایک لمحہ کے لئے بھی حضورؒ کی باتوں سے یہ اندازہ نہیں ہوا کہ ایک بہت ہی پرانا تعلق ان سے جدا ہوگیا ہے اور یہ وہ توکّل تھا خدا کی ذات پر۔ جب آخری وقت آخری سانسیں تھیں تو میں نے حضور کی خد مت میں یہ عرض کی کہ حضور دل تو رُک گیا ہے اگر اجازت ہوتو ہم ایک اور عمل ایسا کریں جس سے شاید دل چلنا شروع ہوجائے۔ حضور نے اس کی بھی اجازت مرحمت فرمائی۔ فرمایا کہ ’’ تدبیر بہرحال ضروری ہے‘‘۔ قرآن شریف کے ساتھ محبت ، خدا تعالیٰ پر کامل توکّل اور پھر محبت اور شفقت کا جو سلوک میرے اور دوسرے معالجین کے ساتھ رہا وہ ایک یاد ہی ہے۔
1982ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کو دل کا حملہ ہوا تو وہ مسجد بیت الفضل اسلام آباد میں تھے۔ ہمارے ایک معروف استاد Dr. Steven Jenkin کو بلایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ His Holiness should now occupy himself with some reading material. اور مجھے انہوں نے یہ ہدایت کی کہ کوئی رسالہ ہو، کوئی اخبار ہو۔ حضورؒ نے مسکراتے ہوئے ان کو کہا کہ ’’میرے لئے ریڈنگ میٹریل قرآن شریف ہے‘‘۔ اور وہ جو 10یا 11دن تھے، جب کبھی بھی میں کمرہ میں داخل ہوا یا دوسرے ڈاکٹر صاحبان اندر تشریف لے گئے تو حضورؒ کی زبان پر دعائیں ، قرآن شریف کا ورد خاموشی کے ساتھ اور نمازیں … باوجود سخت بیماری کے ان چیزوں کی طرف اتنی شدت کے ساتھ عمل کرنا ایک خدائی انسان کا ہی کام ہو سکتا ہے۔
جس رات وفات ہوئی، اُس شام حضورؒ کی طبیعت کافی بہتر تھی۔ کرسی پر تشریف فرما تھے اور پوچھ رہے تھے کہ ’’کیا خدام نے کھانا کھالیا ہے‘‘۔ اب یہ شفقت، یہ محبت یہ خیال اپنے خدام کا کہ کیا انہوں نے کھانا کھالیا ہے اور یہ معلوم نہیں تھا کہ ابھی چند گھنٹے بعد ان کا وصال ہوجائے گا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ :
’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 7 مئی 2004ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں محترم ڈاکٹر مسعودالحسن نوری صاحب کے قلم سے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے حوالہ سے مشاہدات پر مشتمل ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ چنانچہ ذیل میں وہ اضافی امور ہدیۂ قارئین ہیں جو نئے مضمون میں بیان کئے گئے ہیں۔
محترم ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ1999ء سے 2003 ء تک اس عاجز کو 13 مرتبہ لندن جانے کا موقعہ ملا اور مجموعی طور پر ساڑھے چھ ماہ کے قریب میں وہاں رہا۔ اکتوبر 2002ء میں حضور کا آپریشن ہوا۔ آپریشن سے پہلے ہم نے حضورؒ سے عرض کی کہ ’’حضور! ساری جماعت آپ کے لئے دعائیں کر رہی ہے‘‘۔ حضور فرمانے لگے کہ ’’میری وجہ سے جماعت کو اتنی تکلیف دی گئی‘‘ ۔ میں نے دیکھا کہ آنسوؤں کی ایک لڑی تھی جو کہ اُن کی آنکھوں سے ہوتی ہوئی نیچے تکیہ کے اوپر ، اور تکیہ کا ایک حصہ بھیگ چکا تھا۔ حضورؒ کو اس بات کا دکھ نہیں تھا کہ ابھی آپریشن ہونے والا ہے، اس میں کیا تکلیفیں ہوں گی، تکلیف اس بات کی تھی کہ میری جماعت کس دکھ اور تکلیف میں ہے میری وجہ سے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو یہ شدت کی خواہش تھی کہ دل کا ایک ادارہ ربوہ میں ہو۔ اور اس vision کو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حقیقت میں تبدیل کردیا۔ دراصل خلفاء احمدیت کو انسانیت کے ساتھ محبت ہے۔ ان چند ماہ میں ایک کثیر تعداد غیر احمدیوں کی بھی یہاں آئی ہے اور جو شفا، جو برکت اور جو سرعت کے ساتھ مریضوں کا ٹھیک ہونا یہاں میں نے دیکھا ہے وہ اپنے 37 سالہ تجربہ بطور ایگزیکٹوڈائریکٹر اور پاکستان کے سب سے بڑے ادارے کا کموڈنٹ ہونے کے، میں نے نہیں دیکھا۔ میں نے کسی سے کہا کہ آپ اپنے آپ کو ضرور طاہر ہارٹ کے ساتھ رجسٹر کرائیں۔ بے شک آپ یہاں سے علاج کروائیں یا نہ کروائیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ہسپتال کو جو کہ فضل عمرہسپتال کا ایک حصہ ہے اور ایک لحاظ سے Independent بھی ہے چار خلفاء کی دعائیں حاصل ہیں۔
ایک غیراحمدی بچہ چودہ پندرہ سال کی عمر کا لایا گیا، اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا دی تو انہوں نے اپنے بچے کا نام تبدیل کردیا اور آخر میں احمد رکھ دیا۔ ایک اور مذہبی تنظیم کے ناظم یا امیر، خوشاب سے یہاں آئے، علاج ہوا، شفا اللہ تعالیٰ نے دی اور انہوں نے واپس جاکر یہ کہا کہ میں سمجھتا تو کچھ اَور تھا لیکن شفا تو یہاں سے ملی۔
اس میں اللہ جانتا ہے ہمارا کوئی ہاتھ نہیں۔ یہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کا فضل اور خلفاء کی برکت کے تحت ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے ایک میٹنگ میں فرمایا تھا: ’’اللہ تعالیٰ ادارے سے احمدیت کے لئے نئے راستے کھولے گا‘‘۔ خدا کرے کہ وہ نئے راستے جلد کھلیں۔