داستانِ درویش – مکرم خورشید احمد پربھاکر صاحب

مکرم خورشید احمد پربھاکر صاحب کو بھی درویشِ قادیان ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ … بیوی کی وفات کے بعد ماتم پُرسی کے ایام ختم ہوئے تو میں نے اپنی ضعیفہ مریضہ والدہ سے قادیان جانے کی اجازت مانگی۔ والدہ نے بحسرت دیکھا، ممتا کے مارے روتے ہوئے پیار دے کر کہا ’’اچھا، بیٹا! جاؤ خدا کے سپرد‘‘۔ دوسرے روز میں نے ماں کی شفقتوں سے محروم 4 ماہ کے بیٹے کے سر پر پیار بھرا آخری ہاتھ پھیرا، چھوٹی ہمشیرہ، چھوٹے بھائی اور چند دن کی مہمان مریضہ والدہ کو روتا ہوا چھوڑ کر قادیان روانہ ہوگیا۔ یہ اکتوبر 1947ء کا مہینہ تھا۔ اس کے بعد میں نے اپنی مشفقہ ماں کو کبھی نہیں دیکھا۔ ایک عرصے بعد مجھے اطلاع ملی کہ میرے گھر سے نکلنے کے 12 دن بعد ان کی وفات ہوگئی تھی۔ …
اس کے بعد وہ سخت مشکل اور نامساعد حالات کی تصویر کشی کرتے ہیں جن سے گزر کر وہ درویشی کی سعادت حاصل کرنے کے لئے قادیان پہنچے۔ اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر قدم قدم پر ان کی حفاظت فرمائی اور انہیں درویشانِ قادیان میں شامل ہونے کی توفیق بخشی۔ یہ ذکر بہت ہی دل پر اثر کرنے والا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں