داستان درویش از مکرم چودھری محمود احمد عارف صاحب
ماہنامہ ’’مشکوٰۃ‘‘ قادیان ستمبر،اکتوبر 2003ء میں مکرم چودھری محمود احمد صاحب عارف درویش نائب ناظم وقف جدید بیرون (و سابق ناظر بیت المال) کی خودنوشت داستان شائع ہوئی ہے۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار 1925ء میں ضلع شیخوپورہ کے گاؤں موضع نواں کوٹ میں محترم میاں شیر محمد صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جنہیں سارے خاندان سمیت حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کے عہد میں قبول احمدیت کی توفیق عطا ہوئی تھی۔ میرے والد کی دو بیویاں تھیں جن سے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھے۔ ہمارے بچپن میں ہی والدین کی وفات ہوگئی تو ہمارے تایا مکرم حکیم میاں غلام احمد صاحب نے ہمیں اپنی کفالت میں لے لیا اور ہم کو یتیمی کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ آپ مقامی کوآپریٹو بنک کے منتظم اعلیٰ تھے اور حکمت کا کام بھی کرتے تھے۔
1938ء میں مڈل تک پڑھنے کے بعد مزید تعلیم کی خاطر قادیان بھجوادیا گیا۔ 1939ء میں جنگ عظیم دوم کے آغاز پر حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر جو نوجوان فوج میں بھرتی ہوئے اُن میں مَیں بھی شامل تھا۔ میری رجمنٹ کو ہندوستان کے مختلف مقامات پر جانے کا موقع ملا لیکن محاذ جنگ پر نہیں بھجوائی گئی۔ فوج کے دوران مجھے انڈین آرمی کلاس تک پڑھنے کا موقع ملا جو B.A. کے برابر ہے۔ جنگ ختم ہونے پر یہ رجمنٹ ختم کردی گئی۔ اس سے قبل 1944ء میں مَیں نے حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر وقف کردیا تھا۔ 1945ء میں حضورؓ کا ارشاد موصول ہوا کہ ملازمت چھوڑ کر قادیان آجاؤں۔ چنانچہ 1946ء میں کوشش کرکے فوج سے فراغت حاصل کی اور جنوری 1947ء میں قادیان پہنچ گیا۔ حضورؒ سے ملاقات ہوئی اور حضورؒ نے شعبہ حفاظت مرکز میں تعینات فرمادیا۔
1947ء کی ہجرت کے وقت میری ڈیوٹی تھی کہ قادیان سے ہجرت کرکے جانے والوں کی مدد کروں۔ چنانچہ جماعتی انتظام کے تحت یہ ڈیوٹی ادا کرتا رہا اور بعد میں خاکسار اُن درویشوں میں شامل ہوا جو قادیان میں رہ گئے اور حقیقت یہ ہے کہ مقامات مقدسہ نے ہماری حفاظت فرمائی۔ میری شادی 1945ء میں ہوچکی تھی۔ 1950ء میں میری فیملی پاکستان سے قادیان آگئی۔ اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔
ہجرت سے قبل جب حالات خراب ہوتے گئے تو قادیان کے دور دراز مضافات کے افراد بھی اپنے گاؤں اور گھر چھوڑ کر اپنی جانوں کی حفاظت کے لئے قادیان آنا شروع ہوگئے جن میں کثیر تعداد غیرازجماعت مسلمانوں کی تھی۔ احمدیوں نے بڑی فراخدلی سے اُن کو پناہ دی۔ قادیان کی سڑکیں بھی مہاجرین سے بھر گئیں۔ جماعت کی طرف سے خورونوش کا انتظام کیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد حضورؓ نے لاہور تشریف لاکر ان مہاجرین کو پاکستان منگوانے کے انتظامات فرمائے۔
حالات سازگار ہونے پر جب حضرت مصلح موعودؓ نے صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر قائم کرنے اور مقامی جماعتوں کو آرگنائز کرنے کا ارشاد فرمایا تو مجھے دفتر بیت المال آمد اور دفتر محاسب میں تعینات کیا گیا۔ پھر کئی دفاتر میں خدمت کا موقع ملتا رہا۔ 1982ء میں بطور نمائندہ بھارت و صدر انجمن قادیان مجلس انتخاب خلافت کے اجلاس میں بھی شامل ہوا۔