داستان درویش بزبان درویش
محترم بشیر احمد مہار صاحب ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں محترم حاجی خدا بخش صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ رسالہ ’’مشکوٰۃ‘‘ قادیان جون 2004ء میں آپ نے اپنی زندگی کے بعض حالات اور درویشی کے ابتدائی زمانہ پر اختصار سے روشنی ڈالی ہے۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ مَیں اپنے گاؤں میں ساتویں تک تعلیم حاصل کرکے والد کے ساتھ کاشتکاری کے کام میں مدد کرنے لگا۔ ہم دو بھائی تھے اور 1942ء میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر ہم دونوں فوج میں بھرتی ہونے کے لئے چلے گئے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ؓ افسر بھرتی تھے۔ انہوں نے ہمیں بھرتی کرلیا تو ایک دوست نے آپؓ سے عرض کیا کہ یہ دو ہی بھائی ہیں، دونوں کو بھرتی کرلیا تو گھر میں ان کے والد کے ساتھ زمیندارہ کام سنبھالنے والاکوئی نہیں رہے گا۔ اس پر حضرت میاں صاحبؓ نے میرے بڑے بھائی کو مستثنیٰ کردیا اور مجھے بھرتی کرلیا گیا۔1942ء تا 1946ء میں نے ملٹری میں سروس کی۔ جنگ بندی ہونے پر جب میں فارغ ہوکر گھر آگیا تو پھر زمیندارہ کا کام کرنے لگا۔
تقسیم ہند کے ساتھ ہی ہزاروں افراد پناہ کی غرض سے قادیان آگئے تو حضورؓ نے ایک بار پھر احمدی خدام کو قادیان میں خدمت کے لئے بلالیا۔ اور مَیں والد صاحب کی ہدایت پر قادیان آگیا۔ میرے ساتھ چھ سات نوجوان اور بھی آئے تھے جو چند دن بعد واپس چلے گئے جبکہ میں اور چوہدری عطاء اللہ صاحب قادیان میں رہ گئے۔ 1954ء میں عطاء اللہ صاحب بھی اپنی خاندانی مجبوریوں کے باعث واپس چلے گئے اور میں اکیلا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنے عہد وفا کو نبھا رہا ہوں۔
1949ء میں میرے بڑے بھائی کی وفات پر بعض احباب نے والد صاحب کو مشورہ دیا کہ اب آپ اکیلے رہ گئے ہیں بشیر احمد کو قادیان سے بلالیں لیکن والد صاحب نے جواب دیاکہ میرے سات لڑکے پیدا ہوئے، ان میں سے صرف ایک ہی ہے جو مسیح پاک کی مقدس بستی میں خدمت کی توفیق پارہا ہے، میں اس کو ہرگز واپس نہیں بلاؤں گا۔
قادیان آنے کے بعد مَیں کئی دیہات میں خدمت خلق کا کام کرتا رہا۔ وہاں کے احباب کو بحفاظت قادیان لانا ہوتا تھا۔ احمدیوں کے ساتھ بعض غیر احمدی بھی شامل ہوجاتے تھے۔ اس وقت کوئی تمیز نہیں تھی، بس دکھی انسانیت کو راحت پہنچانا مدنظر تھا۔ اردگرد کے دیہات خالی ہوگئے تو قادیان میں میری ڈیوٹی بہشتی مقبرہ میں مزار مبارک کے پہرہ پر لگائی گئی۔ وہاںاَور بھی خدام تھے۔ یہ دن بڑے سخت تھے۔ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ اگلا دن ہم پر طلوع ہوگا یا نہیں۔ شہر میں اکثر اوقات کرفیو رہتا تھا۔ شہر اور بہشتی مقبرہ کے درمیان تعلق منقطع تھا اور پُل پر پولیس کا پہرہ ہوتا تھا تاکہ کوئی بھی شہر سے بہشتی مقبرہ کی طرف نہ آجاسکے۔ لنگر خانہ سے کھانا لے جانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ بہشتی مقبرہ میں بس فاقہ کشی کا عالم تھا۔ صرف پانی پر گذارہ تھا۔ کرفیو میں وقفہ کے دوران ناصر آباد کے مکانوں سے کچھ گندم حاصل کرلی گئی تو اس کو ابال کر کھاتے رہے۔ چند یوم ایک چکی میسر آگئی تو روٹی بناکر نمک سے ہی کھاتے رہے۔ آہستہ آہستہ حالات سدھرے اور شہر کے ساتھ رابطہ بحال ہوا تو پھر لنگر خانہ سے کھانا لے جانے کی سہولت میسر آگئی اور چائے بھی ملنے لگی۔
1948ء کا جلسہ سالانہ پرانے جلسہ گاہ کی جگہ پر باب الانوار میں ہوا۔ اس میں شرکت کے لئے ہندوستان کی جماعتوں سے 50؍افراد پولیس کی نگرانی میں آئے تھے۔ 1949ء میں ہندوستان کی جماعتوں کو منظم کرنے کے لئے صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر کی بھی باقاعدہ تنظیم کی گئی۔ابتداء میں مَیں نے نظارت علیاء میں، پھر نظامت جائیداد میں اور ازاں بعد دفتر بیت المال میں اور ایک لمبا عرصہ دفتر بہشتی مقبرہ میں بھی بطور کلرک خدمت کی توفیق پائی۔ تھوڑی تعلیم اور دیہاتی ماحول میں پرورش پانے کے باوجود دفاتر میں خدمت کی سعادت صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہی تھا۔
1954ء میں مَیں پاکستان گیا اور 10مارچ کو مَیں بھی مسجد مبارک ربوہ میں عصر کی نماز میں محراب کے سامنے موجود تھا جب وہ دردناک سانحہ پیش آیا اور حضرت المصلح الموعودؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ مجرم پہلی صف میں چادر اوڑھے بیٹھا تھا۔ جونہی حضورؓ نماز پڑھا کر واپس جانے لگے تو اس نے بڑی پھرتی سے اٹھ کر چاقو سے حملہ کردیا۔ زخم حضورؓ کی گردن میں لگا اور حضورؓ کی پگڑی بھی گر گئی۔ فوری طور پر کچھ دوست حضورؓ کی طرف بڑھے اور کچھ حملہ آور کی طرف۔ حضورؓ نے فرمایا حملہ آور کو مارنا نہیں، کوئی کچھ نہ کہے۔ حملہ آور کا نام محمد حنیف تھا جسے پولیس کے حوالہ کردیا گیا۔ یہ خوفناک حادثہ میرے ذہن پر نقش ہے اور میں اس کو کبھی نہیں بھولا۔