درویش صحابہ کرام:حضرت بھائی عبد الرحمن صاحبؓ قادیانی

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں مکرم تنویر احمد ناصر صاحب کے قلم سے اُن 26 صحابہ کرام کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے جنہیں قادیان میں بطور درویش خدمت کی سعادت عطا ہوئی۔
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحبؓ ولد مہتہ گوراندتہ مل صاحب آف گنجروڑ دتاں تحصیل شکرگڑھ کو 1895ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہونے کی سعادت عطا ہوئی۔ حضرت اقدسؑ نے آپؓ کو اپنے 313 اصحاب میں شامل فرمایا ہے۔ آپؓ کا تفصیلی ذکرخیر قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 16؍اگست 2002ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔
آپؓ کے والد نے آپؓ پر ہر ظلم توڑا لیکن آپؓ ثابت قدمی سے اسلام پر قائم رہے اور لمبا عرصہ کے بعد آخر حضرت مسیح موعودؑ کے قدموں میں دوبارہ پہنچ گئے اور پھر تیرہ سال تک حضور ؑ کی صحبت میں رہ کر خدمت بجا لانے کا شرف حاصل کیا۔ اور حضور ؑ کے وصال کے بعد بھی قادیان میں ہی مقیم رہے۔ تقسیمِ ہند کے وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد سے مجبوراً ہجرت کی۔ لیکن جلد بعد حضور ہی کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے مئی 1948ء میں واپس قادیان پہنچ گئے۔ پھر دورِ درویشی میں تیرہ سال گزار کر آپؓ جب سفر پر پاکستان گئے تو 6جنوری 1961ء کو دورانِ سفر قریباً 85 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ تاہم غیرمعمولی حالات کے باوجود بھی آپ کا جنازہ پہلے ربوہ اور لاہور سے ہوتا ہوا براستہ امرتسر و بٹالہ قادیان پہنچا اور آپ ؓ کی حضرت مسیح موعودؑ سے سچی اور دلی محبت کا معجزانہ ثبوت بہم پہنچایا اور حضورؑ کی آپ کے حق میں اس توقع کو ایک نئی شان سے پورا کیا کہ ’’ ہمارا ہے تو آجائے گا‘‘۔
بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ 2 میں آپؓ کی تدفین ہوئی۔ حضرت بھائی صاحب ؓ کی خواہش تھی کہ آپؓ کی قبر پر یہ الفاظ لکھے جائیں کہ : ’’غلام و خادم سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وخاندان اقدس‘‘۔
1908ء میں حضور ؑ کے آخری سفر لاہور کے موقعہ پر بھی آپؓ کو رفاقت و خدمت کا شرف حاصل ہوا۔ حضور ؑ کے وصال کے بعد جب حضور ؑ کا جسدِ اطہر لاہور سے قادیان لایاگیا تو حضرت بھائی جی عبدالرحمنؓ اس رتھ کے ساتھ ساتھ تھے جس میں حضرت امّ المومنینؓ سوار تھیں ۔
حضرت بھائی جی ؓ نے اپنی عمر عزیز کے 65سال اسی در کی دربانی میں گزار دیئے لیکن اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو دین و دُنیا میں سرفراز کردیا۔ اولاد بھی دی اور جائیداد بھی۔ اور پھر یہ سعادت بھی بخشی کہ زمانہ ٔ درویشی میں بھی قادیان میں رہ کر صدر صدر انجمن احمدیہ، صدر انجمن تحریک جدید اور مجلس کارپرداز مصالح قبرستان بہشتی مقبرہ کے ممبر کی حیثیت سے خدماتِ سلسلہ بجا لاتے رہے۔
ستّر سال کی عمر میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب ؓ نے عزم جوانانہ کے ساتھ ’جنازہ گاہ‘ کی تشکیل کا کام شروع کیا۔ ہر صبح عصا ٹیکتے ہوئے اوزار پکڑے باغ بہشتی مقبرہ میں پہنچتے۔ بوڑھے اور کمزور ہاتھوں سے کھرپا چلا چلاکر صفائی کرتے، جھاڑو دیتے اور بالٹی میں مٹی دُور سے لاکر بھرتی ڈالتے۔ ظہر کے وقت کام ختم کرتے۔ حضرت بھائی جی ؓ کے عزم، جواں ہمتی اور محبت و عمل کی یادگار ’’جنازہ گاہ‘‘ اب مستقل صورت میں موجود ہے۔
آپؓ ایک باکمال مصنّف بھی تھے۔ آپ کے تین مضامین ’’جلسہ اعظم مذاہب 1896ء‘‘، ’’عید قربان 1900ء خطبہ الہامیہ‘‘ اور ’’سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کاآخری سفر لاہور اور وصال‘‘ سیرت المہدی میں آخر پر درج کئے گئے ہیں۔ اسی طرح اخبار بدر میں بھی آپ کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں