دعاؤں کا زندہ معجزہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍فروری 2000ء میں مکرم یوسف سہیل شوق صاحب کے قلم سے ایک واقعہ شائع ہوا ہے جو مکرم ڈاکٹر مسعود الحسن نوری صاحب نے ایک محفل میں یوں بیان کیا کہ چند سال قبل مکرم ثاقب زیروی صاحب کو بھولنے کی بیماری ہوگئی۔ معائنہ کروانے پر پتہ چلا کہ سر کی بیرونی ہڈی اور دماغ کے درمیان خون جم گیا ہے جس کی وجہ سے دماغ سکڑ گیا ہے۔ فوج کے ماہر نیورو سرجن نے آپریشن کا فیصلہ کیا۔ 75 سالہ کمزور مریض جو دل کے عارضے کا شکار چلا آرہا ہو، اُس کا آپریشن کامیاب ہونا بظاہر ناممکن تھا لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا۔
محترم ثاقب صاحب کو جب آپریشن کیلئے راولپنڈی لایا گیا تو آپ کے ہوش پوری طرح بحال نہ تھے۔ آپریشن میں سر کے پانچ مقامات پر سوراخ کرکے خون نکالا گیا۔ سرجن کے مطابق بچے کا دماغ ایسے آپریشن کے بعد اصل جسامت پر واپس آجاتا ہے لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ صلاحیت ختم ہوتی جاتی ہے یعنی اگر آپریشن کامیاب ہوبھی جائے تو بھی مریض اپنی اصلی صحت پر واپس نہیں آسکتا۔ سرجن کا یہ بھی کہنا تھا کہ گزشتہ تین برس میں اُنہوں نے اس قسم کے تیرہ آپریشن کئے تھے جن میں سے کوئی ایک بھی کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔
آپریشن کے دو تین روز کے بعد جب نیوروسرجن نے مکرم ثاقب صاحب کا معائنہ کیا تو وہ آپ کی تندرستی کی رفتار دیکھ کر حیران رہ گئے اور بے ساختہ پوچھا کہ ثاقب صاحب! آپ کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟۔ ثاقب صاحب نے کہا: ’’میرے پیچھے جس کا ہاتھ ہے وہ ہاتھ آسمان تک پہنچتا ہے‘‘۔ سرجن نے کہا کہ اپنا ایک سال پرانا شعر سنائیں۔ جب آپ نے سنادیا تو کہا کہ دس سال پرانا شعر سنائیں۔ پھر اس سے بھی پرانا شعر سنا۔ جب ثاقب صاحب نے تمام شعر پوری صحت کے ساتھ سنائے تو سرجن نے کہا کہ آپ کی یادداشت تو پہلے سے کئی گنا بہتر ہوچکی ہے۔
ثاقب صاحب کہتے ہیں کہ آپریشن سے پہلے مَیں نے تمام کام حتی الوسع نپٹالئے تھے ، آخری ہدایات بھی دیدی تھیں کیونکہ مجھے ہرگز یقین نہیں تھا کہ آپریشن کے بعد زندہ بھی رہ سکوں گا۔
محترم ثاقب صاحب کا وجود دعاؤں کی قبولیت کا ایک زندہ نشان ہے اور بے شک ہر احمدی کے پیچھے وہ ہاتھ ہے جو آسمان تک پہنچتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں