دعا کی تاثیر اور قبولیت کے طریق
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍مئی 2006ء میں دعا کی تاثیر اور قبولیت کے طریق سے متعلق مکرم اشرف کاہلوں صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:۔
’’دعا اور تدبیر انسانی طبیعت کے دو طبعی تقاضے ہیں کہ جو قدیم سے اور جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے دو حقیقی بھائیوں کی طرح انسانی فطرت کے خادم چلے آئے ہیں اور تدبیر دعا کے لئے بطور نتیجۂ ضروریہ کے اور دعا تدبیر کے لئے بطور محرک اور جاذب کے ہے اور انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ تدبیر کرنے سے پہلے دعا کے ساتھ مبدء فیض سے مدد طلب کرے تا اس چشمۂ لازوال سے روشنی پاکر عمدہ تدبیریں میسر آسکیں‘‘۔
(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد14 ص231)
فرماتے ہیں ’’ہمارا سوچنا ہمارا فکر کرنا اور ہمارا طلب امر مخفی کے لئے خیال کو دوڑانا یہ سب امور دعا ہی میں داخل ہیں‘‘۔
(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد14 ص230)
دونوں امور میں فرق یہ ہے کہ ایک میں دعا کا رنگ عارفانہ ہوتا ہے کیونکہ وہ آداب معرفت سے تعلق رکھتی ہے جبکہ دوسری قسم کی دعا محجوبانہ انداز میں ہوتی ہے جو بصیرت اور معرفت سے تہی دست ہوتی ہے۔ آداب معرفت دعا کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان اپنی عقدہ کشائی کے لئے خدا تعالیٰ کے مقرب بندوں کی جانب رجوع کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اللہ متقیوں کا دوست ہوتا ہے۔
چند واقعات پیش ہیں:
٭ دعا کی برکات کے حصول کا ایک بہت بڑا اور بنیادی وسیلہ خلافت کی شکل میں ہمارے پاس ہے۔ احمدی خوش نصیب ہیں جو اس شجرہ طیبہ سے پیوستہ ہیں اور شیریں ثمرات سے فیضیاب ہوتے ہیں۔
مکرم محمد شفیع صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک رشتہ دار مولوی عبدالرحمٰن صاحب سکول ماسٹر کو ڈسٹرکٹ بورڈ کی طر ف سے ریٹائرمنٹ کا نوٹس ملا اور ایک مدرس چارج لینے کے واسطے پہنچ گئے۔ اس پر مولوی صاحب کو بڑا فکر ہوا کہ اب گھر کا گزارہ کیسے چلے گا کیونکہ اُن لڑکا بھی بیروزگار تھا۔ اسی فکر میں وہ قادیان حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں دعا کے لئے گئے اور وہاں تین روز تک ٹھہرے مگر حضورؓ سے ملاقات نہ ہوسکی۔ اس سے وہ اور بھی گھبرائے مگر اچانک انہیں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ تو جانتا ہی ہے کہ میں کس مقصد کے لئے یہاں حاضر ہوا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے چٹھی لکھ دی اور واپس گھر آگئے۔ رات کو خواب میں دیکھا کہ حضور پُرنور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ ایک کرسی پر رونق افروز ہیں۔ سامنے ایک میز پر کتاب ہے۔ حضور اس کتاب کے ورق کبھی ایک طرف کو الٹتے ہیں کبھی دوسری طرف کو اور مولوی صاحب سے فرمایا آپ کیا چاہتے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: حضور! میں نوکری سے علیحدہ کیا جارہا ہوں۔ ان دنوں میرا لڑکا بھی بیروزگار ہے، گھر کا گزارہ کیسے چلے گا۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا: جبکہ حکام فیصلہ کرچکے ہیں، اب کیا ہوسکتا ہے۔ عرض کیا حضور میں آپ کے پاس اسی لئے آیا ہوں، آپ کوئی تجویز بتائیں اور دعا بھی کریں۔ حضورؓ نے فرمایا اچھا جاؤ، لاہور ایک درخواست بھیج دو۔ آپ بحال رہیں گے۔
صبح اٹھ کر مولوی صاحب نے اس مدرس سے جو چارج لینے کے واسطے آیا ہوا تھا کہا کہ میں بحال رہوں گا اور دفتر میں بھی جا کر اسی طرح کہا۔ اس پر ان سب نے حیرت کا اظہار کیا اور بعض نے تو یہاں تک کہا کہ مولوی صاحب کے دماغ میں خلل ہوگیا ہے۔ خیر مولوی صاحب نے ایک درخواست حسب الحکم حضورؓ لاہور بھیجی۔ تو وہاں سے حکم آگیا کہ 55 سال کی عمر سے کم کے مدرس ریٹائر نہ کئے جائیں۔ اس طرح مولوی صاحب کے 6 یا 7 سال اَور بڑھ گئے۔ مولوی صاحب اس کے بعد ریٹائر ہوئے اور خدا کے فضل سے ان کا لڑکا بھی برسر روزگار ہوگیا۔
٭ حضرت ماسٹر عبدالرحمٰن صاحبؓ (مہرسنگھ) کی قبولیت دعا کا واقعہ یوں ہے کہ حکیم مولوی محمد اسماعیل صاحب واقف زندگی نے حضرت ماسٹر صاحبؓ سے کہا کہ میں مولوی فاضل کی تیاری پوری طرح نہیں کرسکا اور جامعہ احمدیہ کے پرنسپل نے میرا داخلہ اس لئے نہیں بھیجا تاکہ فیل ہوجانے سے جامعہ کا نتیجہ خراب نہ ہو۔ آپؓ استخارہ کریں تا خواہ نخواہ داخلہ ضائع نہ ہو۔ حضرت ماسٹر عبدالرحمٰن صاحبؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دعا کی۔ ایک رات میں نے تکیہ پر ابھی سر نہیں رکھا تھا کہ مجھے الہام ہوا کہ اَور کوئی پاس ہو یا نہ ہو مگر محمد اسماعیل ضرور پاس ہوجائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے داخلہ بھیج دیا۔ لیکن ان کے پرچے اچھے نہیں ہوئے اور وہ بد دل ہو کر کام کاج کے سلسلہ میں قادیان سے باہر چلے گئے۔ نتیجہ یونیورسٹی سے آیا جو کئی مقامات سے چکر کھاتا ہوا انہیں ملا اور وہ اپنی کامیابی پر حیران ہوئے۔
٭ ملک عبدالرحمٰن صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1929ء میں میرے ہیڈ کلرک ہونے پر سپیشل رپورٹ ہونی تھی۔ میں نے حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا۔ اس کے بعد جب میں قادیان جلسے پر پہنچا تو حضرت مولوی صاحب نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا کہ میں نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ بہت کامیاب کرے گا۔ چنانچہ ہر قسم کے ناموافق حالات کے باجود اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے کامیابی عطا فرمائی۔