دفاع قادیان سے متعلق کچھ یادیں
جماعت احمدیہ کینیڈا کے ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ جولائی 1997ء میں مکرم ڈاکٹر میاں محمد طاہر صاحب اپنے مضمون میں 1947ء میں دفاع قادیان کا نقشہ کھینچتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ جب فسادات شدید ہوگئے تو ایک کمیٹی قائم کردی گئی جس کے اراکین قصر خلافت میں جمع ہوگئے اور ان میں سے اکثر کا قیام حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے گھر میں تھا۔ 3؍اکتوبر کو پو پھٹنے سے پہلے دارالصحت کی طرف سے قادیان کے مرکزی حصے پر حملہ ہوا۔ ایک طرف گلی میں سے حملہ آور بڑھ رہے تھے اور دوسری طرف اجاگر سنگھ کے کئی منزلہ مکان سے گولیوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔ بندوقوں کا رخ مسجد اقصیٰ، قصر خلافت، حلقہ مسجد فضل اور دارالصحت کی طرف تھا اور حملہ آوروں کا مقصد قادیان کے مرکزی حصے پر قبضہ کرنا تھا۔ اس وقت ہمارے نگران حلقہ مرزا محمد حیات صاحب نے مجھے حکم دیا کہ میں قصر خلافت میں جاؤں اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ سے پوچھوں کہ اب ہمارے لئے کیا حکم ہے کیونکہ اس وقت تک ہمیں قادیان کے اندرلڑنے کی اجازت نہ تھی۔ ہم لوگ حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحبؓ کے مکان سے ملحقہ مکان میں جمع تھے۔ میں اسی وقت خان محمد امین خان مبلغ بخارا کے مکاں کی چھت پر سے ہوتا ہوا مرزا گل محمد صاحبؓ کے مکان کی طرف بڑھا تو گولیاں میرا تعاقب کرتی رہیں۔ وہاں سے مسجد مبارک سے ہوتا ہوا قصر خلافت میں داخل ہوگیا۔ سیڑھیوں پر پاؤں رکھا ہی تھا کہ پھر گولیوں کی آواز سنائی دی جو میرے سیدھے ہاتھ والی دیوار پر لگ رہی تھیں۔ میں تیزی سے سیڑھیاں اتر کر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے مکان میں داخل ہوگیا۔ تخت والے کمرے میں میرے والد میاں عطاء اللہ صاحب (ایڈووکیٹ راولپنڈی) ٹہل رہے تھے۔ حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ وہیں تخت پر بیٹھے تھے۔ میں نے سلام کے بعد میاں صاحب کے متعلق پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ تو مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے ہیں اور یہ کہ لڑائی کی اجازت ہوچکی ہے۔… اباجان کے بستر کے قریب ہی بندوق اور کارتوسوں کا تھیلا رکھا تھا، میں نے اٹھایا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھتے ہوئے مسکراتے ہوئے اباجان کو سلام کیا۔ انہوں نے بھی مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا ’’اچھا بیٹا! جاؤ اب قیامت کے دن ملیں گے‘‘۔ چند لمحے بعد میں اپنے ساتھیوں سمیت لڑنے کے لئے مقام دفاع پر پہنچ گیا۔
مضمون نگار مزید لکھتے ہیں کہ 1947ء سے پہلے جب انگریزوں کے خلاف ملک میں آگ بھڑکی ہوئی تھی تو خاندان مغلیہ اور مسلمانوں کے غدر کے زمانے کے حالات پڑھ پڑھ کر میرا خون کھول اٹھتا اور میں سمجھ نہ سکتا کہ آخر حضرت مسیح موعودؑ نے اس انگریز کی تعریف کیوں کی ہے جس نے ایک بادشاہ قوم کو گداگر بنادیا اور اس کے ملک پر قبضہ کرلیا۔ ایک دن میں نے یہ سوال حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ سے کردیا۔ آپؓ نے یہ کہانی سنائی کہ ایک کمزور غریب آدمی جس کے پاس تھوڑا سا سامان خورونوش تھا اور کوئی ہتھیار نہ تھا اور وہ اپنی جوان بیٹی کے ہمراہ ایک جنگل پار کرنا چاہتا تھا جس میں جرائم پیشہ لوگ رہتے تھے۔ وہ جنگل کے کنارے کھڑے ہوکر کبھی اپنی کمزوری کو دیکھتا اور کبھی اپنی جوان بیٹی کو۔ یکایک ایک طاقتور آدمی اسلحہ سے لیس آپہنچا اور اسے بحفاظت اس کے گھر پہنچا دیا… اب بتاؤ کیا اس بوڑھے کو اس آدمی کا شکریہ ادا کرنا چاہئے یا نہیں؟ میں نے کہا خوب شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ اس پر آپؓ نے فرمایا کہ جب پنجاب میں مغلوں کی حکومت کمزور ہوگئی تو سکھوں نے زور پکڑا اور لوٹ مار کا میدان بنادیا۔ کسی مسلمان کی جان، مال اور عزت محفوظ نہ تھی۔ جسے چاہتے لوٹتے، قتل کرتے اور جس کی چاہتے لڑکیاں اٹھا کر لے جاتے۔ مساجد مقفل کردی گئیں، اذان کی اجازت نہ تھی، باجماعت نماز کی اجازت نہ تھی، قرآن پڑھنے اور تہوار منانا ممنوع تھا۔ حضرت سید احمد بریلویؒ اور حضرت اسماعیل شہیدؒ نے سکھوں کے خلاف جہاد کیا لیکن انگریز کے خلاف جہاد نہیں کیا۔ مسلمانوں کی حالت اس بوڑھے بیکس کی تھی جو کہ اپنی جوان بیٹی کو باعزت و بآبرو جنگل کے پار لے جانا چاہ رہا تھا۔ پھر یکایک پنجاب میں انگریز آگیا۔ اس نے نہ صرف امن قائم کیا بلکہ تمام مذہبی حقوق بھی عطا کئے اور تبلیغ کی اجازت بھی دیدی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ جنہیں اسلام اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا وہ کیوں شکرگزار نہ ہوتے؟
ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘کینیڈا اگست 1997ء میں اسی مضمون کی دوسری قسط میں مضمون نگار اپنے والد محترم میاں عطاء اللہ صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ کا ایک خط نقل کرتے ہیں جومحترم میاں صاحب کی وفات کے بعد ان کی خوبیوں کو بیان کرنے اور پسماندگان سے تعزیت کے لئے تحریر کیا گیا۔