دمقراط
یونان کے ایک ساحلی شہر ’’آب درہ‘‘ میں 460 قبل مسیح میں مشہور فلسفی اور سائنسدان دمقراط ایک دولتمند گھرانے میں پیدا ہوا۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد اس نے ورثہ میں ملنے والی جاگیر اپنے بھائیوں میں تقسیم کردی اور خود نقد روپیہ لے کر تحصیل علم کے لئے طویل سفر پر روانہ ہوگیا اور مصر، حبشہ، عراق، ایران اور پاک و ہند کی سیاحت کے بعد واپس وطن پہنچا تو وہ ایک بوڑھا مفکر بن چکا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر اسکے عزیز اور دوست اسے دیوانہ سمجھنے لگے چنانچہ اس کے علاج کے لئے بقراط کو بلوایا گیا۔ بقراط جب دمقراط سے ملا تو اس نے ’’آب درہ‘‘ کے لوگوں سے کہا کہ جو شخص دمقراط کو دیوانہ سمجھتا ہے اسے خود اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہئے۔ دمقراط کے بارے میں مکرم عمران بدر ہاشمی صاحب کا مضمون ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ اکتوبر 1997ء میں شامل اشاعت ہے۔
دمقراط کو اس کے ایٹم کے نظریے نے نامور سائنسدان بنادیا۔’ایٹم‘ کا نام اسی کا وضع کردہ ہے جس کا مطلب ہے ’’ناقابل تقسیم‘‘۔اس کا کہنا تھا کہ دنیا کی ہرچیز ایٹم سے بنی ہوئی ہے اور ہلکی اشیاء کے ایٹم ہلکے اور بھاری اشیاء کے بھاری ہوتے ہیں۔ روح کے کچھ ایٹم جب جسم سے نکل جائیں تو نیند آ جاتی ہے اور اگر سارے ایٹم نکل جائیں تو موت واقع ہو جاتی ہے۔
دمقراط کا انتقال 92 سال کی عمر میں ہوا۔