دُم دار ستارے کا ظہور
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍مارچ 2005ء میں مکرم صالح محمد الہ دین صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں دُم دار ستارے کے ظہور کا حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت سے تعلق بیان کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود کی تائید میں جو آفاقی نشانات ظاہر فرمائے ہیں ان میں چاند گرہن اور سورج گرہن کے نشانات کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ایک عظیم الشان نشان دم دار ستارہ کا نشان ہے۔ ’’حقیقۃ الوحی‘‘ میں حضرت مسیح موعود ؑ نے کئی نشانات کا ذکر فرمایا ہے جن میں دوسرے نمبر چاند گرہن اور سورج گرہن کا اور تیسرے نمبر پر ستارہ ذوالسنین (دُم دار ستارہ) کے نشان کا ذکر ہے۔ فرماتے ہیں: ’’تیسرا نشان ذوالسنین ستارہ کا نکلنا ہے جس کا طلوع ہونے کا زمانہ مسیح موعود کا وقت مقرر تھا اور مدت ہوئی وہ طلوع ہوچکا ہے۔ اس کو دیکھ کر عیسائیوں کے بعض انگریزی اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ اب مسیح کے آنے کا وقت آگیا ہے‘‘۔
نیز اپنی کتاب ’’چشمۂ معرفت‘‘ میں آپ نے تحریر فرمایا: ’’نواب صدیق حسن خانصاحب نے ’’حجج الکرامہ‘‘ میں اور حضرت مجدد الف ثانی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ احادیث صحیحہ میں لکھا ہے کہ ستارہ دنبالہ دار یعنی ذوالسنین مہدی معہود کے وقت میں نمودار ہوگا۔ چنانچہ وہ ستارہ 1882ء میں نکلا اور انگریزی اخباروں نے اس کی نسبت یہ بھی بیان کیا کہ یہی وہ ستارہ ہے کہ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں نکلا تھا‘‘۔ حضرت مسیح موعود نے مارچ 1882ء میں اللہ تعالیٰ کے الہام کی بناء پر مامور ہونے کا دعویٰ فرمایا تھا اور ستمبر 1882ء میں وہ دم دار ستارہ نمودار ہوا۔
دم دار ستارے (Comets) بہت بڑی تعداد میں نظام شمسی میں پائے جاتے ہیں۔ یہ سورج کے گرد بیضوی مدار میں گھومتے ہیں۔ زیادہ وقت سورج سے دُور ہوتے ہیں اور نظر نہیں آتے۔ جب سورج کے قریب آتے ہیں تو نظر آتے ہیں۔ ہر ستارہ ایک دَور کے بعد دوبارہ نظر آتا ہے مثلاً Encke’s Comet ہر تین سال کے بعد نمودار ہوتا ہے جبکہ Comet West کا درمیانی دَور پانچ لاکھ سال ہے۔ جن دُم دار ستاروں کا درمیانی دَور دو سو سال سے کم ہو، اُن کو Short Period Comets کہتے ہیں اور جن کا درمیانی دَور اس سے زیادہ ہو وہ Long Period Comets کہلاتے ہیں۔ ایسے انتہائی نمایاں دم دار ستارے جو دن کے وقت بھی نظر آسکیں وہ شاید ایک صدی میں اوسطاً صرف دو دفعہ نمودار ہوتے ہیں۔ستمبر 1882ء میں جو دُم دار ستارہ حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا نشان بناوہ اس قسم کے نایاب دُم دار ستاروں میں سے ایک تھا جو دن کے وقت بھی نظر آسکتا تھا۔
ستمبر 1882ء میں جو دُم دار ستارہ نظر آیا اس کو Comet 1882II ، Comet Cruls اور The Great Comet of 1882 کے نام دیئے گئے۔ یہ سب سے پہلے 3ستمبر 1882ء کو جنوبی امریکہ میں دیکھا گیا اور یورپ میں اس کی اطلاع Mr. Curls کے ذریعہ 12ستمبر کو ملی۔ 17ستمبر کو وہ سورج سے قریب ترین تھا اور دن کے وقت بھی دیکھا جاسکتا تھا۔
حدیث میں جو دُم دار ستارہ حضرت مسیح موعودؑ کے لئے نشان بننا تھا اس کو ذوالسنین کہا گیا ہے۔عربی لغات المنجد وغیرہ میں سنّ کے معنی دانت کے لکھے گئے ہیں۔ لہٰذا ذوالسنین کے معنی ہیں دو دانت والا۔ حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے مارچ 1898ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی ایک رؤیا (مورخہ 12؍مارچ 1898ء مطبوعہ تذکرہ صفحہ 296 طبع چہارم) کو پورا کرنے کے لئے ’’مسک المعارف‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا جس میں ذوالسنین کا ترجمہ ستارہ دندانہ دار کیا اور لکھا ’’کیونکہ لفظ سنّ بہ تشدید نون بمعنی دانت کے ہے کیونکہ اس کی صورت بشکل دو دندان کے ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اس کو ذوالسنین کہتے ہیں‘‘۔
آپؓ نے ذکر فرمایا ہے کہ پیشگوئی کا ظہور 1882ء میں ہوچکا ہے اور فرمایا: ’’یہ ستارہ دنبالہ دار یعنی قرن ذوالسنین حسب پیشن گوئی مخبر صادقﷺ کے طلوع ہوچکا۔ مشرق ہی میں طلوع ہوا۔ تمام اخبارات انگریزی و اردو میں اس کا غل وشور مچا تھا۔‘‘
پس ذوالسنین ایسا دُم دار ستارہ ہے جس میں دوئی پائی جاتی ہے۔اس ستارہ کی تصویر میں دو دُم واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ George Chambersنے اپنی کتاب The Story of the Comets میں اس ستارے کی اس بناوٹ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
سورۃالنجم میں یہ پیشگوئی ہے کہ ایک ستارہ گرے گا اور دین کی عظمت دنیا پر ظاہر ہوگی۔
قرآن مجید میں ذوالسنین کی پیشگوئی یوں ہے کہ والنجم اذا ھویٰ۔ ھویٰ کے معنی ہیں گرنا اور ہلاک ہوجانا۔ چنانچہ یہ ذوالسنین سیارہ سورج کے اتنا قریب آیا کہ وہ سورج کو چھونے لگا اور اس نے Sungrazing Comet کا بھی لقب پایا نیز سورج سے اس قدر قریب ہونے کے نتیجہ میں اس کے ٹکڑے ہوگئے۔ بالفاظ دیگر وہ سورج میں گرا اور ہلاک ہوگیا۔