ذُوالنُّورَین – حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ کے بارہ میں ایک مضمون مکرم فرید احمد نوید صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’خالد‘‘ مارچ 1999ء کی زینت ہے۔
حضرت عثمانؓ اپنے دوست ابوبکرؓ سے ملنے اتفاقاً اُن کے گھر کی طرف آ نکلے اور بے تکلّفانہ ماحول میں گفتگو کا سلسلہ جاری ہوا تو اچانک موضوعِ بحث حضرت ابوبکرؓ کا قبولِ اسلام بن گیا۔ حضرت عثمانؓ نے ابھی تک اسلام کے پیغام کو اس لئے اہمیت نہیں دی تھی کہ اسلام کے بارے میں مثبت کلمات کسی نے بھی آپؓ سے بیان نہ کئے تھے اور اس لئے بھی کہ آنحضرتﷺ کا تعلق بنوہاشم سے تھا اور حضرت عثمان کا خاندان ’’بنوامیہ‘‘ تھا۔ دونوں خاندانوں میں گہری رقابت تھی اور بنوامیہ کو خطرہ تھا کہ اگر اسلام نے عرب میں نفوذ کرلیا تو بنوہاشم اپنی ساکھ میں اُن سے آگے بڑھ جائیں گے۔
ابھی حضرت عثمانؓ اور حضرت ابوبکرؓ باتیں کر ہی رہے تھے کہ آنحضرتﷺ بھی وہاں تشریف لے آئے اور آپؐ نے حضرت عثمانؓ سے فرمایا: ’’اے عثمان! خدا کی جنت کو قبول کرو۔ مَیں تمہاری اور تمام مخلوق کی ہدایت کیلئے مبعوث کیا گیا ہوں‘‘۔ یہ سنتے ہی آپؓ نے آگے بڑھ کر قبول اسلام کی سعادت حاصل کرلی۔ آپؓ کی عمر اُس وقت چونتیس برس تھی۔
حضرت عثمانؓ کا تعلق بنو امیہ سے تھا اور آپؓ کے والد عفان کا شمار قریش کے رؤساء میں ہوتا تھا۔ آپؓ کے قبولِ اسلام نے اموی خاندان کو لرزا کر رکھ دیا اور آپؓ پر اسلام کو ترک کرنے کیلئے بے انتہاء دباؤ ڈالا گیا اور اذیتیں دی گئیں۔ ایک موقعہ پر آپؓ کے چچا نے آپؓ کو رسیوں سے باندھ کر خوب مارا لیکن آپؓ نے جن راہوں پر قدم رکھا تھا، وفا کے ساتھ اُن پر آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔
آپؓ کا شمار عرب کے دولتمند لوگوں میں ہوتا تھا اور آپؓ اپنی فیاضی کے سبب غنی مشہور تھے۔ جب آپؓ کے خاندان نے آپؓ سے لاتعلّقی اختیار کرلی تو آپؓ کی نجابت، صبر اور اعلیٰ نمونہ کو دیکھ کر آنحضورﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہؓ کا نکاح آپؓ کے ساتھ کردیا۔ آپؓ پانچ سال تک مکہ میں رہ کر کفار کے ظلم کو صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہے اور آخر آنحضورؐ کی اجازت اور ہدایت پر اپنی اہلیہ کے ساتھ حبشہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپؓ امّت مسلمہ کے پہلے شخص تھے جنہیں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی توفیق عطا ہوئی تھی۔ … چند ہی سال گزرے تھے کہ حبشہ میں افواہ پھیل گئی کہ اہلِ مکہ نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ یہ سُن کر جو مہاجرین کشاں کشاں واپس مکہ آگئے اُن میں حضرت عثمانؓ اور آپکے اہل و عیال بھی شامل تھے۔ لیکن مکہ میں تو ظلم و تعدی کا بازار پہلے سے بھی زیادہ گرم تھا۔ چنانچہ کئی مہاجرین واپس حبشہ چلے گئے البتہ حضرت عثمانؓ نے اللہ تعالیٰ کی مشیئت سمجھ کر واپسی کا ارادہ ترک کردیا۔
کچھ عرصہ بعد جب مدینہ کی طرف مسلمانوں کی ہجرت شروع ہوئی تو آنحضورﷺ کی اجازت سے آپؓ مع اہل و عیال مدینہ تشریف لے گئے۔ وہاں اوس بن ثابت نے آپؓ کا استقبال کیا اور آپؓ کو اپنے گھر پر رکھا۔ بعد میں وہی مؤاخات کے نتیجہ میں آپؓ کے بھائی بن گئے۔ مدینہ میں مسلمانوں کو پانی کی تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں صرف ایک کنواں تھا جس کا پانی پینے کے قابل تھا اور وہ ایک یہودی کی ملکیت تھا جو کنویں کا پانی فروخت کیا کرتا تھا۔ حضرت عثمان نے بیس ہزار درہم کی منہ مانگی قیمت ادا کرکے وہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کردیا۔
ہجرت کے دوسرے سال حضرت رقیہؓ شدید علیل ہوئیں۔ اسی دوران غزوہ بدر کا موقعہ بھی آگیا۔ آنحضورﷺ نے حضرت عثمانؓ کو مدینہ میں ہی ٹھہر کر حضرت رقیہؓ کی تیمارداری کرنے کا ارشاد فرمایا۔ نیز فرمایا کہ اس کے نتیجہ میں تم غزوہ میں شرکت کے اجر اور مال غنیمت، دونوں میں شامل ہوگے کیونکہ تمہاری یہ غیرحاضری کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ حکم رسولؐ کی وجہ سے ہے۔ … غزوہ بدر کا معرکہ ابھی جاری تھا کہ حضرت رقیہؓ کی وفات ہوگئی۔ آنحضورﷺ کو واپسی پر جب یہ تکلیف دہ خبر ملی تو آپؐ نے بڑی محبت سے خود اپنے غلام کو حوصلہ دیا اور اپنی دوسری صاحبزادی حضرت امّ کلثومؓ کا نکاح آپؓ سے کر دیا۔ رسول اللہﷺ کی یکے بعد دیگرے دو صاحبزادیاں آپؓ کے عقد میں آئیں اور اس لئے آپؓ ’’ذوالنورین‘‘ یعنی دو نوروں والے کہلائے۔
غزوہ بدر کے علاوہ دیگر غزوات میں حضرت عثمانؓ شامل ہوتے رہے۔ 6؍ھجری میں جب آنحضورﷺ حج کے ارادہ سے روانہ ہوئے تو آپؓ بھی ہمراہ تھے۔ جب کفار نے مسلمانوں کے مکہ میں داخلہ کو طاقت سے روکنے کا ارادہ ظاہر کیا تو حدیبیہ کے مقام پر آنحضورﷺ نے قیام فرماکر حضرت عثمانؓ کو مسلمانوں کا سفیر بناکر کفار سے بات چیت کیلئے بھیجا۔ کفار نے سفارتی آداب کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے آپؓ کو مکہ میں ہی روک لیا۔ اسی دوران مسلمانوں میں افواہ پھیل گئی کہ آپؓ کو شہید کردیا گیا ہے۔ اس پر آنحضورﷺ نے اپنے سفیر کی حرمت کے خیال سے مشرکین کو سخت سزا دینے کا فیصلہ کیا اور ایک درخت کے نیچے صحابہؓ سے بیعت لی کہ وہ ہر قربانی کے لئے تیار رہیں گے۔ اس بیعت کو ’’بیعت رضوان‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر آنحضورؐ نے اپنا دوسرا ہاتھ بڑھا کر آپؓ کی طرف سے نمائندگی کی۔ مشرکین کو اس بیعت کے بارہ میں علم ہوا تو انہوں نے سفارتی طریق پر صلح کرلی ۔ یہ صلح تاریخ میں ’’صلح حدیبیہ‘‘ کے نام سے معروف ہے اور قرآن کریم نے اسے ’’فتح‘‘ قرار دیا ہے۔
حضرت عمرؓ نے اپنے آخری ایام میں جن چھ صحابہؓ کے نام پیش کرکے مسلمانوں سے فرمایا تھا کہ ان میں سے جسے چاہو خلیفہ منتخب کرلینا، اُن میں حضرت عثمانؓ کا نام بھی شامل تھا۔ 4؍محرم 24ھ کو حضرت عثمانؓ تمام مسلمانوں کے اتفاق سے تیسرے خلیفہ منتخب ہوگئے۔ اسلامی افواج کی فتوحات کا سلسلہ آپؓ کے دَور میں بھی جاری رہا۔ طرابلس، الجزائر، مراکش اور قبرص وغیرہ آپؓ کے دَور میں فتح ہوئے۔ ایسے میں کئی ایسی اقوام نے بھی اسلام قبول کرلیا جو مسلمانوں کی دنیاوی ترقیات اور مال و دولت سے حصہ پانے کی متمنی تھیں۔ انہی قوموں نے چند سال بعد نظام کے خلاف بغاوت پیدا کردی اور یہودیوں، مجوسیوں اور عیسائیوں کی سازشیں اس کے سوا تھیں۔ حضرت عثمانؓ اپنی فطری نرمی کی وجہ سے ان سازشوں کو کچلنے کے روادار نہ تھے۔ ان سازشوں کی تفصیل سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے تفصیل سے اپنی کتاب ’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘ میں بیان فرماتے ہوئے ثابت فرمایا ہے کہ مفسدین مسلمان نہیں تھے اور انہوں نے سادہ لوح مسلمانوں کو اپنا آلہ کار بنایا ہوا تھا۔
دراصل ان سازشوں کا مرکز مصر تھا اور ایک یہودی نومسلم عبداللہ بن سبا اس تحریک کو اندر ہی اندر ہوا دے رہا تھا۔ وہ یمن کا رہنے والا ایک بدباطن انسان تھا اور نیکی کے پردہ میں بدی کی تحریک کرتا تھا اس لئے کئی سنجیدہ لوگ اُس کے دھوکہ میں آگئے۔ اُس نے تمام بلاد اسلامیہ کا دورہ اس غرض سے کیا کہ ہر جگہ کے حالات سے واقفیت پیدا کرکے سزایافتہ اور ناخوش لوگوں سے رابطہ کرے۔ وہ مدینہ، مکہ، بصرہ، کوفہ اور شام سے ہوتا ہوا مصر پہنچا اور یہاں اپنا مرکز قائم کیا۔ بصرہ اور کوفہ میں اُس کے منتخب لوگ اُس کا کام آگے بڑھا رہے تھے۔ مدینہ میں اُس کو دو اشخاص میسر آگئے۔ ایک محمد بن ابوبکرؓ جو حضرت ابوبکرؓ کا چھوٹا بیٹا تھا۔ دوسرا محمد بن ابی حذیفہ جو ایک یتیم تھا اور جسے حضرت عثمانؓ نے ہی پالا تھا۔
جلد ہی کوفہ کے والی سعید بن العاص کے خلاف علی الاعلان بغاوت کا اظہار ہوگیا۔ حضرت عثمانؓ کے حکم سے باغیوں کو شام بھجوادیا گیا تاکہ حضرت امیر معاویہؓ اُن لوگوں کی تربیت کرسکیں۔ حضرت امیر معاویہؓ نے اپنی سی کوشش کر دیکھنے کے بعد اپنی فراست سے پہچان لیا کہ یہ باغی اگرچہ مسلمانوں کے بھیس میں ہیں لیکن مسلمان نہیں ہیں۔ چنانچہ آپؓ نے انہیں شام سے نکال دیا اور سعید بن العاص کو بھی اس کی اطلاع کردی۔
اس عرصہ میں سازشی گروہ کی اندرونی کارستانیاں جاری رہیں۔ عبداللہ بن سبا نے اپنے کارندوں کو جو احکام دیئے تھے وہ یہ بھی تھے کہ پہلے شریعت کے امور لوگوں کے سامنے پیش کرو اور پھر اُنہیں امراء کے خلاف بھڑکاؤ۔ اُس نے یہ خطرناک تدبیر بھی کی کہ مختلف جگہوں پر آباد مسلمانوں کو دوسرے علاقوں میں مقرر کئے جانے والے حاکموں کے خلاف خطوط کے ذریعہ بھڑکایا۔ جب یہ خطوط حضرت عثمانؓ کے علم میں لائے گئے تو آپؓ نے مسلمانوں کے مشورہ سے اپنے نمائندوں کو بصرہ، کوفہ، شام اور مصر کی طرف تحقیق کیلئے بھجوایا۔ ہر جگہ سے یہی پیغام آیا کہ مکمل امن ہے۔ تاہم حضرت عثمانؓ نے اطمینان کی خاطر تمام علاقوں کے والیوں کو اپنے پاس بلایا اور خطوط میں لگائے جانے والے الزامات اُن کے سامنے پیش کئے۔ سب نے بتایا کہ یہ ایک سازش ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
والی شام حضرت امیر معاویہؓ نے مدینہ سے روانہ ہونے سے پہلے حضرت عثمانؓ سے خصوصی ملاقات کی اور آپؓ کو شام کی طرف چلے جانے کا مشورہ دیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ مَیں رسول کریمﷺ کی ہمسائیگی کو کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا۔ تب حضرت معاویہؓ نے مشورہ دیا کہ شامی فوج کا ایک دستہ آپؓ کی حفاظت کیلئے مدینہ بھجوادیا جائے۔ آپؓ نے فرمایا کہ نہ مَیں عثمانؓ کی جان کی حفاظت کیلئے اس قدر بوجھ بیت المال پر ڈال سکتا ہوں اور نہ یہ پسند کرتا ہوں کہ مدینہ کے لوگوں کو فوج رکھ کر تنگی میں ڈالوں۔ پھر معاویہؓ نے عرض کیا کہ صحابہؓ کی موجودگی میں لوگوں کو جرأت ہے کہ اگر عثمانؓ نہ رہے تو اِن میں سے کسی کو کھڑا کر دیں گے اس لئے اِن کو مختلف ملکوں میں پھیلا دیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ جن لوگوں کو رسول کریمﷺ نے جمع کیا ہے مَیں اُن لوگوں کو کیسے پراگندہ کردوں!۔ اس پر معاویہؓ رو پڑے اور عرض کی کہ اگر کوئی تجویز بھی منظور نہیں تو اتنا اعلان کردیجئے کہ اگر میری جان کو کوئی نقصان پہنچے تو معاویہ کو میرے قصاص کا حق ہوگا، شاید وہ لوگ اسی خوف سے باز رہیں۔ آپؓ نے جواب دیا کہ معاویہ! جو ہونا ہے ، ہوکر رہے گا۔ مَیں ایسا نہیں کر سکتا۔ چونکہ آپکی طبیعت میں سختی ہے، ایسا نہ ہو کہ آپ لوگوں پر سختی کریں۔ اس پر معاویہؓ روتے ہوئے اٹھے اور کہا کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ آخری ملاقات ہو۔ باہر نکل کر معاویہؓ نے صحابہؓ کو حضرت عثمانؓ کی حفاظت کی تلقین کی اور شام کی طرف روانہ ہوگئے۔
عبداللہ بن سبا کے ساتھیوں کی ہمّت حضرت عثمانؓ کی نرمی دیکھ کر بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ آپؓ کی خلافت کے بارھویں سال وہ سازش کی منصوبہ بندی کرکے حج کے بہانہ سے بصرہ، کوفہ اور مصر سے قافلوں کی صورت نکلے اور مدینہ پہنچ گئے۔ عبداللہ بن سبا خود بھی اُن مفسدین میں شامل تھا۔والیٔ مصر عبداللہ بن ابی سرح نے اس سازش کی اطلاع پہلے ہی مدینہ بھجوادی تھی۔ چنانچہ جب یہ قافلہ مدینہ کے قریب پہنچا تو مدینہ میں صحابہ ؓ نے اپنے مختصر سے لشکر کے دو حصے کئے۔ ایک حصہ شہر سے باہر سازشیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بھیجا جبکہ دوسرا حضرت عثمانؓ کی حفاظت کیلئے مدینہ میں ٹھہر گیا۔ اگرچہ مفسد تعداد میں دو تین ہزار تھے لیکن انہیں مدینہ پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور انہوں نے اپنے بعض مطالبات پیش کئے اور دھوکہ دیتے ہوئے بظاہر واپس روانہ ہوگئے۔ لیکن اپنے منصوبہ کے مطابق چند ہی روز بعد پوری طاقت سے مدینہ پر اچانک حملہ آور ہوئے اور مسجد اور شہر کے ناکوں پر قبضہ کرکے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ مدینہ کے مسلمان اس اچانک حملہ پر اپنا دفاع بھی نہ کرسکے۔ جب بعض لوگوں نے مفسدوں کو سمجھانے کی کوشش کی تو جواب میں اُنہیں سخت نتائج کی دھمکیاں دے کر خاموش رہنے کا کہا گیا۔
اگرچہ بظاہر مدینہ پر باغیوں نے قبضہ کرکے خلافت کو موقوف کردیا تھا لیکن حضرت عثمانؓ باقاعدہ نماز پڑھانے کیلئے مسجد میں تشریف لاتے رہے۔ آپؓ نے خطبہ جمعہ میں مفسدوں کومخاطب کرکے فرمایا کہ ’’اے دشمنانِ اسلام! خدا تعالیٰ کا خوف کرو، تمام اہل مدینہ اس بات کو جانتے ہیں کہ تم لوگوں پر رسول کریمﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔ …‘‘۔ جب محمد بن مسلمہؓ انصاری نے کھڑے ہوکر حضرت عثمانؓ کی تصدیق کی تو مفسدوں نے سوچا کہ ہماری جماعت کو اگر معلوم ہوا کہ رسول کریمﷺ نے ہماری نسبت خاص طور پر پیشگوئی فرمائی تھی تو عوام شاید ہمارا ساتھ چھوڑ دیں۔ چنانچہ محمد بن مسلمہؓ کو جبراً بٹھادیا گیا۔ حضرت زیدؓ بن ثابت تصدیق کیلئے کھڑے ہوئے تو اُن کو بھی بٹھادیا گیا۔ پھر ایک مفسد نے حضرت عثمانؓ کے ہاتھ سے وہ عصا، جو آنحضورﷺ اور آپؐ کے بعد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زیر استعمال رہا تھا، چھین کر توڑ دیا۔ پھر مسجد نبویؐ پر کنکروں کی بارش کردی تاکہ مسلمانوں کا اجتماع منتشر ہوجائے۔ حضرت عثمانؓ پر اتنے کنکر برسائے گئے کہ آپؓ بیہوش ہوکر منبر پر سے گر گئے اور چند آدمی آپؓ کو اٹھاکر گھر لائے۔
مفسد بیس روز تک زبانی کوشش کرتے رہے کہ حضرت عثمانؓ خلافت سے دستبردار ہو جائیں لیکن آپؓ نے فرمایا کہ جو خلعت مجھے خدا تعالیٰ نے پہنائی ہے، مَیں اُسے اتار نہیں سکتا اور نہ امّت محمدیہؐ کو بے پناہ چھوڑ سکتاہوں …آج یہ لوگ فساد کرتے ہیں اور میری زندگی سے بیزار ہیں مگر جب مَیں نہ رہوں گا تو خواہش کریں گے کہ کاش عثمان کی عمر کا ایک ایک دن ایک ایک سال سے بدل جاتا …کیونکہ میرے بعد سخت خونریزی ہوگی…۔
بیس روز کے بعد مفسدوں نے حضرت عثمانؓ کا گھر سے نکلنا بند کردیا اور کھانے پینے کی چیزوں کا اندر جانا بھی روک دیا۔ تاہم حضرت عثمانؓ کے حکم نے مسلمانوں کو مفسدین کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے روک رکھا تھا تاکہ مسلمانوں کا خون نہ بہے۔ تاہم آپؓ نے مختلف والیان کو خطوط کے ذریعہ ان حالات کی اطلاع دی اور مکہ آنے والے حاجیوں کے نام اپنے خط میں مدینہ کے مسلمانوں کی مدد کرنے کی تحریک فرمائی۔ حجاج کرام کو ان حالات کی اطلاع سے سخت افسوس ہوا اور انہوں نے حج کے بعد مدینہ جاکر سازشیوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا۔ مفسدوں کے جاسوس جب یہ خبر اپنے ساتھیوں کے پاس لائے تو مفسدوں نے اپنی کارروائی تیز کردی اور بزور حضرت عثمانؓ کے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ لیکن مٹھی بھر صحابہؓ نے سخت لڑائی کے بعد یہ کوشش ناکام بنادی۔ حضرت عثمانؓ کو اس لڑائی کا علم ہوا تو اگرچہ آپؓ نے مسلمانوں کو لڑائی کرنے سے منع فرمایا لیکن صحابہؓ نے ایسے حالات میں حضرت عثمانؓ کو اکیلا چھوڑ دینا ایمانداری اور اطاعت کے حکم کے متضاد خیال کیا اور اپنے گھروں کو لَوٹنے سے انکار کردیا۔
آخر حضرت عثمانؓ ڈھال ہاتھ میں پکڑے باہر تشریف لائے اور صحابہؓ کو اپنے ہمراہ اپنے مکان کے اندر لے گئے اور دروازے بند کرکے نصیحت فرمائی کہ ’’یہ دنیا فانی ہے اور آخرت اصل چیز ہے۔ خدا تعالیٰ کی ملاقات کو یاد رکھو اور جماعت کو پراگندہ نہ ہونے دو …۔خدا تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو‘‘۔ پھر آپؓ نے دیگر صحابہؓ کو بھی بلوایا خصوصاً حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کو۔ آپؓ نے فرمایا کہ اہل مدینہ! مَیں تم کو خدا تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ میرے بعد تمہارے لئے خلافت کا کوئی بہتر انتظام فرمادے۔ آپؓ نے صحابہ ؓ اور دیگر اہلِ مدینہ کو قسم دی کہ وہ آپؓ کی حفاظت کرکے اپنی جانوں کو خطرہ میں نہ ڈالیں اور اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔
جب لوگ حج سے فارغ ہوکر واپس آنا شروع ہوئے تو باغیوں کی گھبراہٹ بڑھ گئی اور انہوں نے یہ سُن کر کہ بصرہ سے مسلمانوں کی مدد کیلئے آنے والا لشکر ضرار کے مقام پر پہنچ چکا ہے، فیصلہ کیا کہ اپنا مدعا جلد پورا کیا جائے۔ چونکہ خلافت کے عاشقوں نے باوجود حضرت عثمانؓ کے کہنے کے آپؓ کی حفاظت سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا تھا لیکن اپنی تعداد کی قلّت کی وجہ سے وہ گھر کے اندر رہ کر اپنا فرض سرانجام دے رہے تھے اسلئے باغیوں کیلئے گھر کے دروازہ تک پہنچنا مشکل نہ رہا تھا چنانچہ انہوں نے دروازہ کے سامنے لکڑیوں کے انبار جمع کرکے آگ لگادی تاکہ دروازہ جل جائے اور اندر جانے کا راستہ بن جائے۔ لیکن جانثارانِ خلافت نے اس وار کو بھی اپنے سینوں پر روکا اور دشمن پوری کوشش کے باوجود گھر میں داخل ہونے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ پھر بعض مفسد ایک ہمسایہ گھر سے دیوار پھاند کر حضرت عثمانؓ کے کمرہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ جب سے محاصرہ ہوا تھا تب سے آپؓ کا یہی شغل تھا کہ نماز پڑھتے رہتے یا قرآن کریم کی تلاوت میں وقت گزارتے۔ آپؓ اُس وقت بھی قرآن کریم پڑھ رہے تھے جب مفسد گھر میں داخل ہوئے۔ ایک رات پہلے ہی آپؓ کو رؤیا میں رسول کریمﷺ نظر آئے تھے اور آپؐ نے فرمایا تھا کہ عثمان! آج شام کو روزہ ہمارے ساتھ کھولنا۔ اس رؤیا سے آپؓ کو یقین ہوگیا تھا کہ آج مَیں شہید ہو جاؤں گا۔ پس آپؓ نے اپنی ذمہ داری کا خیال کرکے دو آدمیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ خزانہ کے دروازہ پر پہرہ دیں تاکہ کوئی خزانہ لوٹنے کی کوشش نہ کرے۔
جب مفسد کمرہ میں داخل ہوئے تو اُن میں محمد بن ابی بکر بھی تھا۔ اُس نے آگے بڑھ کر حضرت عثمانؓ کی داڑھی پکڑلی اور زور سے جھٹکا دیا۔ آپؓ نے اُس سے فرمایا کہ میرے بھائی کے بیٹے! اگر تیرا باپ اس وقت ہوتا تو تُو کبھی ایسا نہ کرتا۔ اس پر وہ شرمندہ ہوکر واپس لَوٹ گیا لیکن دوسرے لوگ وہیں موجود رہے۔ اُن میں سے ایک بدبخت نے آگے بڑھ کر لوہے کی ایک سلاخ آپؓ کے سر پر ماری اور آپؓ کے سامنے رکھے ہوئے قرآن کو لات مار کر پھینک دیا۔ آپؓ کے سر سے جاری خون کے قطرے قرآن کریم کی جس آیت پر گرے وہ تھی: فَسَیَکۡفِیۡکَھُمُ اللّٰہ وَھُوَا السَّمِیۡعُ العَلِیۡم ۔ پس اللہ تُجھے اُن سے (نمٹنے کے لئے) کافی ہو گا۔ اور وہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
پھر سودان نامی نے ایک بدبخت مفسد نے آپؓ پر تلوار سے وار کیا جو آپؓ نے اپنے ہاتھ سے روکا تو آپؓ کا ہاتھ کٹ گیا۔ آپؓ نے فرمایا: خدا تعالیٰ کی قسم یہ وہ ہاتھ ہے جس نے سب سے پہلے قرآن کریم لکھا تھا۔ اسی اثناء میں آپؓ کی اہلیہ حضرت نائلہ بھی وہاں آگئیں اور سودان اور حضرت عثمانؓ کے درمیان آکر کھڑی ہوئیں تو سودان نے پھر وار کیا جس سے حضرت نائلہ کی انگلیاں کٹ کر دُور جاگریں۔ پھر اُس مفسد نے ایک اَور وار کرکے حضرت عثمانؓ کو شدید زخمی کردیا۔ آپؓ بیہوش ہوگئے اور شدّت درد سے تڑپنے لگے۔ اُس بدبخت نے آپؓ کا گلا گھونٹنا شروع کیا اور اُس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک آپؓ کی روح عالمِ بالا کو پرواز نہیں کر گئی۔ انّا للّٰہ و انّا الیہ راجعون۔
جونہی حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر دوسرے اسلامی علاقوں میں پہنچی تو خلافت سے محبت رکھنے والے جانثار تڑپ اٹھے۔ خصوصاً شام کے گورنر امیر معاویہؓ کے جذبات نے غلط رنگ اختیار کرلیا اور شام کی سڑکوں پر بپھرے ہوئے جلوس انتقام کا نعرہ لگانے لگے۔
حضرت عثمانؓ نے اپنے مال و دولت کے ذریعے غزوات کے دوران بڑی بڑی خدمات کی توفیق پائی۔ خلیفہ بننے کے بعد مسجد نبوی کی توسیع اور پختہ عمارت کی تعمیر، قرآن کریم کو ایک صحیفے کی شکل دینا اور تمام علاقوں میں پھیلانا، فوجی خدمات و فتوحات بے شمار ہیں۔