ربوہ کا ماحول اور بزرگان کی شفقتیں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6 اپریل2012ء میں مکرمہ الف۔لطیف صاحبہ کے قلم سے ربوہ کے ابتدائی زمانہ کی چند یادیں شامل اشاعت ہیں۔
آپ بیان کرتی ہیں کہ مَیں قادیان میں پیدا ہوئی۔ پارٹیشن کے وقت میری عمر 3 سے 4 سال کے لگ بھگ تھی۔ ایک سال لاہور رہے، اس کے بعد ربوہ اس وقت گئے جبکہ ربوہ ایک Tent City کی طرح کا تھا۔ زندگی کافی سخت تھی، بنجر غیرآباد زمین، زندگی کی سہولت کیلئے کوئی آسانی نہ تھی۔ نہ بجلی نہ پانی۔ گرمی کے دنوں میں سخت گرمی اور سردیوں میں سخت سردی۔ Tents میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد کچے مکان بنے۔ میری امّی امتہ الرشید شوکت سکول میں پڑھاتی تھیں۔ عجیب پُرمشقّت زندگی تھی۔ سکول میں آسمان تلے بچے ٹاٹوں پر بیٹھتے تھے اور ٹیچر کے لئے چند اینٹوں سے ایک ذرا اونچی جگہ بیٹھنے کیلئے بنادیتے تھے۔ زمین شورے والی تھی اس وجہ سے مٹی پھول جاتی تھی۔ ہماری ڈیوٹی لگی ہوتی تھی کہ سکول کے بعد جہاں ہم بیٹھتے تھے پوچا پھیر کرجائیں تاکہ اگلے دن ہم بیٹھ سکیں اور مٹی نہ اُڑے۔ گھر میں بھی یہی کرنا پڑتا تھا۔ لکڑیوں اور چھاپوں سے آگ جلاکر کھانا پکایا جاتا تھا۔ دھوئیں سے آنکھیں اشکبار ہوجایا کرتی تھیں اور پھر راکھ کے ساتھ بالٹیوں میں سے پانی لے کر برتن صاف کرنا بھی کوئی آسان کام نہ تھا کیونکہ مٹی بہت ہوتی تھی۔ میلے کپڑوں کو ڈنڈے مار مار کر دھونا پڑتا تھا۔ ہرجگہ پیدل جانا ہوتا تھا۔ جب بارش ہوتی تھی تو پاؤں کیچڑ سے لَت پَت ہوجاتے تھے کیونکہ سڑکیں بھی کچی تھیں۔
اگرچہ زندگی سخت تھی لیکن دوسری طرف اہل ربوہ دنیا کے خوش قسمت ترین باشندے تھے وہ اس لئے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی مبارک زو جہ حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ اور مبشر اولاد ہمارے درمیان رہتے تھے۔ صحابہ اور صحابیات ہمارے درمیان رہتے تھے، عجیب روحانی ماحول تھا۔ یہ سب بزرگ ہستیاں چلتے پھرتے فرشتے تھے۔
ہم اوپر تلے چار بہنیں تھیں۔ ایک مرتبہ حضرت اماں جانؓ سکول آئیں اور وہاں پر موجود سب استانیوں سے ان کا حال احوال پوچھا۔ امّی جان سے پوچھا کتنے بچے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ چار بیٹیاں ہیں تو حضرت امّاں جانؓ نے فرمایا: اب خدا تعالیٰ بیٹے دے گا۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پھر تین بیٹے عطا ہوئے۔
ربوہ کا ماحول بڑا روحانی تھا۔ حافظ محمد رمضان صاحب کی تراویح میں تلاوت اور پانچوں نمازوں کے وقت بلند آواز سے اذان کی آواز خصوصاً بشارت اللہ صاحب (جو بشارت اللہ قصائی کہلاتے تھے) کی آواز نہایت شیریں تھی۔
میں آٹھویں جماعت میں تھی کہ میرے ماموں کی دعوت ولیمہ میں حضرت مرزا بشیر احمدصاحب نے تشریف لانا تھا۔ ان دنوں بمشکل گزارہ ہوتا تھا۔ دعوت ولیمہ کا کھانا نہایت سادہ تھا۔ مجھے کہا گیا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی میز پر رکھنے کیلئے چٹنی بنادوں۔ میں نے ٹماٹر، انار دانہ اور پودینہ کی چٹنی بنائی۔ غالباً اگلے روز حضرت میاں صاحبؓ کی طرف سے ایک رقعہ آیا جس میں لکھا تھا کہ چٹنی بہت مزیدار تھی اور اس کی ترکیب پوچھی ہوئی تھی۔ میں نے تو اندازے سے ہی وہ چٹنی بنائی تھی جو میری سمجھ میں آیا مَیں نے ترکیب لکھ دی۔ اس کے کچھ دنوں کے بعد میری پیاری اُمّی حضرت مرزا بشیر احمد سے ملنے گئیں تو انہوں نے کوئی حکایت ان کو سنائی جس کا مطلب یہ تھا کہ دوبارہ وہ چٹنی بنواکر بھیجو۔ میری کچی عمر تھی، اس بات کی اہمیت اس وقت مجھے سمجھ نہ آئی۔ اُن دنوں ربوہ میں چاول نہیں مل رہے تھے۔ مَیں نے سوچا کہ جب چاول ملیں گے تو پلاؤ کے ساتھ چٹنی بناکر بھیجوں گی۔ بہرحال تقریباً ایک سال کا عرصہ گزر گیا، نہ چاول ملے نہ مَیں نے چٹنی بناکر بھیجی۔ ایک سال کے بعد ایک دن مَیں نے پلاؤ اور چٹنی بناکر بھجوائی تو آپؓ نے بڑے پیار سے فرمایا کہ اچھا یہ وہ چٹنی ہے جس کا مَیں ایک سال سے انتظار کررہا ہوں۔ پھر مَیں نے ایک مرتبہ شامی کباب کے ساتھ چٹنی بناکر بھجوائی لیکن افسوس کبھی خود جاکر پیش نہیں کی۔ بہرحال انہوں نے میرے لئے دعا تو کی ہوگی۔
کئی مرتبہ قصر خلافت جانے کا موقع ملا اور حضرت مصلح موعودؓ کی زیارت کی۔ جب ان کی وفات ہوئی اس وقت مَیں لاہور پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی۔ وفات کی خبرمَیں نے ریڈیو پر سنی، اُسی روز مَیں ایک اَور احمدی لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ بس کے ذریعہ ربوہ گئی۔ شام کا وقت تھا۔ جب اڈّہ سے گھر جارہی تھی تو اعلان ہورہا تھا کہ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃالمسیح منتخب ہوئے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے بیعت میں شامل ہونے کی توفیق دی۔ حضرت مصلح موعودؓ کے آخری دیدار کی توفیق ملی۔ چہرہ نور ہی نور تھا۔
ہم واقفین کے محلّہ میں رہتے تھے۔ کبھی کوئی مبلغ سلسلہ جارہا ہوتا اور کوئی آرہا ہوتاتھا۔ ریلوے سٹیشن پر جانے والوں کو الوداع کرنے لوگ جاتے تھے اور دعاؤں سے رخصت کرتے تھے۔ عجیب نظارہ ہوتا تھا۔ اور جب کسی مبلغ سلسلہ نے آنا ہوتا تھا تو استقبال کے لئے سٹیشن پر جاتے تھے اور اس دن خوشی کا سماں ہوتا تھا۔
ربوہ کی ایک اور بڑی رونق جلسہ سالانہ ہوتا تھا۔ سارا سال انتظار رہتا تھا۔ جلسہ کے دنوں میں گھر کا سارا سامان سٹور میں چلا جاتا تھا اور کمروں میں کسیر بچھا دی جاتی تھی۔ بہت مہمان ٹھہرتے تھے۔ صحن میں ٹینٹ لگتا تھا۔ ابّاجان اپنا بستر لے کر اپنے دفتر چلے جاتے تھے۔
جلسہ سالانہ کی ڈیوٹیاں دینے کا بھی اپنا مزہ تھا۔ ہمارا گھر زنانہ جلسہ گاہ کے بالکل سامنے تھا۔ جلسہ کی تقاریر ہم اپنے صحن میں بیٹھے بھی سن سکتے تھے۔
سکول میں چھٹیاں زیادہ تر ربوہ میں ہی گزرتی تھیں کیونکہ اکثر رشتہ دار ربوہ میں ہی رہتے تھے اور دوسرے واقفین زندگی کے مالی حالات ایسے نہ تھے کہ سیرو تفریح کے لئے اِدھر اُدھر آجاسکیں۔ چند بار لاہور جانے کا موقع ملا تھا۔ ایک مرتبہ ہم لاہور گئے تو شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت لاہور کے گھر واقع ٹیمپل روڈ کے اُس کمرہ میں رہنے کا موقع ملا جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو مصلح موعود ہونے کی بشارت ملی تھی۔
جب میں M.Sc. کے دوسرے سال میں تھی تو میرا نکاح ہوگیا۔ اس وقت میرے میاں کریم امریکہ میں Ph.D کررہے تھے۔ میرا ابھی M.Sc. کا نتیجہ بھی نہیں نکلا تھا کہ میری شادی ہوگئی۔ طرفین واقف زندگی تھے۔ 1966ء میں شادی نہایت سادگی سے ہوئی لیکن کئی برکتیں شامل حال تھیں۔ رخصتانہ کی تقریب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نہ صرف تشریف لائے بلکہ مجھے اپنے گھر سے سسرال کے گھر جانے کے لئے اپنی کار بھی بھجوائی۔ چند ہفتوں بعد مَیں اپنے میاں کے پاس امریکہ آگئی۔