رسول اللہﷺ کا عفوو درگزر

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 16؍ستمبر2024ء)

اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ رسول ﷺ کے اعلیٰ اخلاق کی گواہی دیتے ہوئے فرماتا ہے: تُو (اپنی تعلیم اور عمل میں) نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر قائم ہے۔ (القلم)
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ رسولﷺ کے اعلیٰ اخلاق کی گواہی دیتے ہوئے فرماتا ہے: تُو (اپنی تعلیم اور عمل میں) نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر قائم ہے۔ (القلم)
سعد بن ہشام بیان کرتے ہیں کہ مَیں نےاُمّ المومنین حضرت عائشہؓ سے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہﷺ کے اخلاق کے بارہ میں بتائیے۔ حضرت عائشہؓ فرمانے لگیں:کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کے نبی کے اخلاق قرآن تھے۔ یعنی رسول اللہﷺ کے اخلاق قرآن کریم کی عملی تصویر تھے۔چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ارشاد فرمایا کہ (اے نبی ہمیشہ) درگزر سے کام لے اور مطابق فطرت باتوں کا حکم دیتا رہ اور جاہل لوگوں سے منہ پھیرلے۔ (الاعراف:200)
دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے جہالت سے پیش آنے والوں اور استہزا کرنے والوں کے بارے میں فرمایا: یقیناً ہم استہزا کرنے والوں کے مقابل پر تجھے بہت کافی ہیں۔ (الحجر:96) یعنی انہیں سز ا دینے کے لیے ان سے تیرا انتقام لینے کے لیے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے ۔تُو درگزر سے کام لیتا رہ۔
آنحضورﷺ کے اپنے جانی دشمنوں سے عفو و درگزر کے چند واقعات روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍جنوری 2014ء میں مکرم رانا غلام مصطفیٰ منصور صاحب نے تحریر کیے ہیں۔
سیدنا حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں۔بہت بری طرح ستایا گیا۔ مگر ان کو اَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ، کا ہی خطاب ہوا۔ خود اس انسان کامل ہمارے نبیﷺ کو بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں بدزبانی اور شوخیاں کی گئیں۔ مگر اس خلق مجسّم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا! ان کے لیے دعا کی۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کرلیا تھاکہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح و سلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضورﷺ کے مخالف آپؐ کی عزت پر حرف نہ لاسکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپؐ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے۔ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد4،صفحہ221)
٭…حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کبھی اپنی ذات کے لیے کوئی بدلہ نہیں لیا۔ جب کبھی ایسا مقدمہ آپؐ کے سامنے لایا گیا تو آپؐ نے معاف فرما دیا۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کا کوئی مرتکب ہوتا تو اس سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے بدلہ لیتے۔
٭…دراصل انسان کے ذخیرہ اخلاق میں سب سے زیادہ کمیاب چیز دشمنوں پر رحم اور ان سے عفوو درگزر ہے۔ لیکن سیدنا حضرت محمد رسول اللہﷺ میں یہ خلق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ دشمن سے انتقام لینا انسان کا قانونی حق ہے لیکن رحمت مجسمﷺ نے کبھی بھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا۔
٭…حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ ایک بار خانہ کعبہ میں سجدہ میں تھے کہ اتنے میں عقبہ بن ابی معیط اونٹنی کی بچہ دانی لایا اور نبی کریمﷺ کی پیٹھ پر اسے ڈال دیا تو آپؐ اپنا سر نہ اٹھاسکے۔ اتنے میں حضرت فاطمہؓ آئیں اور انہوں نے آپؐ کی پیٹھ سے وہ اٹھائی۔ اور اسے بددعا دینے لگیں جس نے یہ حرکت کی تھی۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اے میرے اللہ! تُو ہی قریش کے سرداروں سے نپٹ۔ اے میرے اللہ! ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ،عقبہ بن ابی معیط اور امیہ بن خلف فرمایا یا ابی بن خلف سے نپٹ۔ اور اعراض فرمایا۔
٭…حضرت عروہ بن زبیرؓ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے پوچھا کہ مشرکوں نے آنحضرتﷺ کو بہت سخت تکلیف کیا دی تھی؟ انہوں نے کہا: مَیں نے دیکھا کہ آنحضرتﷺ (کعبہ میں) نماز پڑھ رہے تھے۔ اتنے میں عقبہ بن ابی معیط آیا اور اپنی چادر آپؐ کے گلے میں ڈال کر زور سے آپ کا گلا گھونٹا۔ اتنے میں حضرت ابو بکرؓ آن پہنچے۔ انہوں نے عقبہ کو دھکیل دیا اور آنحضرتﷺ کو چھڑا یا۔ پھر کہنے لگے :کیا تم ایک شخص کو اس لیے مارڈالنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلے کھلے نشانات لے کر آیا ہے۔
٭…حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم کو تعجب نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ قریش کی گالیاں اور لعنت مجھ پر سے کیونکر ٹال دیتا ہے۔ وہ مذمم کو برا کہتے ہیں، اس پر لعنت کرتے ہیں۔ جبکہ مَیں تو محمدؐ ہوں۔
٭…حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد مشرکین مکہ نہایت بےرحمی اور بےباکی سے آنحضرتﷺ کو ستاتے تھے۔ یہ ظلم و ستم دیکھ کر آپؐ نے ارادہ فرمایا کہ طائف جائیں اور وہاں تبلیغ فرمائیں۔طائف میں کچھ امراء اور ارباب اثر رہتے تھے۔ان میں عمیر کا خاندان رئیس القبائل تھا۔ یہ تین بھائی تھے۔ عبدیالیل بن عمیر۔مسعود بن عمیر اور حبیب بن عمیر۔ آنحضرتﷺ نے اُن کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے جو جواب دیے وہ نہایت تکلیف دہ تھے۔ ایک نے کہا اگر تجھ کو خدا نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تو تُوکعبہ کا پردہ چاک کر رہا ہے۔ دوسرے نے کہا کیا خدا کو تیرے سوا اَور کوئی نہیں ملتا تھا؟ تیسرے نے کہا مَیں بہرحال تجھ سے بات نہیں کر سکتا۔ تُو اگر سچا ہے تو تجھ سے گفتگو کرنا خلافِ ادب ہے اور اگر جھوٹا ہے تو گفتگو کے قابل نہیں۔ ان ظالموں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ طائف کے اوباشوں کو ابھارا کہ آپ کی ہنسی اڑائیں۔ چنانچہ وہ دو رویہ کھڑے ہوگئے اور جب آپؐ ادھر سے گزرے تو آپ کے پائو ں پر پتھر مارنے شروع کیے یہاں تک کہ آپ کی جوتیاں خون سے بھر گئیں۔جب آپؐ زخموں سے چور ہوکر بیٹھ جاتے تو وہ بازو پکڑ کر کھڑا کر دیتے۔ جب آپؐ پھر چلنے لگتے تو پتھر برساتے، گالیاں دیتے اور تالیاں بجاتے جاتے۔آخر آپؐ نے انگوروں کے ایک باغ میں پناہ لی۔ یہ باغ عتبہ بن ربیعہ کا تھا جو باوجود کفر کے شریف الطبع تھا۔ اس نے آپؐ کو اس حالت میں دیکھا تو اپنے غلام عداس کے ہاتھ انگوروں کا خوشہ ایک طشتری میں رکھ کر بھیجا۔ اس سفر میں زید بن حارثؓ بھی ساتھ تھے۔
فتح مکّہ کے بعد آپؐ نے طائف کا محاصرہ کیا۔ کئی دن کے محاصرہ کے بعد جب آپؐ بغیر حملہ کیے واپس روانہ ہو نے لگے تو صحابہؓ نے عرض کی کہ آپ ان کے حق میں بددعا فرمائیں۔ اس پر رحمت دو عالم نے یوں طائف والوں کے لیے دعا کی: اے خدا! ثقیف کو ہدایت دے اور ان کو میرے پاس لے آ۔ دعائے نبویؐ کا اعجاز تھا کہ پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔
اس واقعہ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ جیسے میں آنحضرتﷺ کو اس وقت دیکھ رہا ہوں۔ آپؐ ایک نبی کی حکایت بیان کر رہے تھے کہ ان کی قوم والوں نے ان کو اتنا مارا کہ لہولہان کر دیا، وہ اپنے منہ سے خون پونچھتے جاتے اور یوں دعا کرتے جاتے: اے میرے ربّ! میری قوم کو بخش دے کہ وہ مجھے پہچانتے نہیں۔
٭…حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی عورت نبیﷺ کے پاس زہرآلودہ بکری لائی۔ آپؐ نے اس میں سے کچھ کھایا۔ پھر اس عورت کو لایا گیا تو آپؐ سے پوچھا گیا کہ کیا ہم اسے قتل نہ کر دیں؟ آپؐ نے فرمایا:نہیں۔
٭…حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ نجد کی طرف جنگ کے لیے نکلے۔ واپسی پر دوپہر آگئی تو ایک وادی میں آپؐ اُترے جس میں کثرت سے ببول کے درخت تھے۔ لوگ اِدھر اُدھر بکھر کر درختوں کے سائے میں چلے گئے۔ آپؐ نے ایک درخت کے نیچے ڈیرہ لگایا اور اپنی تلوار اس درخت سے لٹکا دی۔ اور ہم تھوڑی دیر کے لیے سو گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں بلا رہے ہیں اور آپؐ کے پاس ایک بدوی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اس شخص نے میری تلوار مجھ پر سونت لی جبکہ میں سو رہا تھا۔ مَیں جاگ اٹھا اور وہ تلوار اس کے ہاتھ میں ننگی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ مَیں نے تین بار کہا: اللہ۔ پھر آپؐ نے اس بدوی کو سزا نہ دی اور وہ بیٹھ گیا۔
٭…حضرت انس بن مالکؓ بیان فرماتے ہیں کہ قریش مکہ کے اَسّی(80) آدمی حضرت رسول اللہﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ پر نماز فجر کے وقت اچانک تنعیم کے پہاڑ سے حملہ آور ہوئے۔ ان کا ارادہ یہ تھا کہ حضرت رسول اللہﷺ کو قتل کردیں۔ لیکن وہ سب کے سب پکڑے گئے۔ بعد میں آپؐ نے ان کو معاف فرماتے ہوئے آزاد کردیا۔
٭…حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ واقعہ بدر سے پہلے رسول اللہﷺ ایک چادر ڈال کر گدھے پر سوار ہوئے اور اپنے پیچھے مجھے بٹھایا اور سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جارہے تھے۔ آپؐ ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی بن سلول بیٹھا ہواتھا۔ اس نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ آپؐ نے دیکھا کہ اس مجلس میں مسلمان بھی بیٹھے ہیں، بت پرست بھی اور یہودی بھی۔ اسی مجلس میں عبداللہ بن رواحہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ جب اس مجلس پر گدھے کے پاؤں سے اٹھنے والی دھول پڑی تو عبداللہ بن ابی بن سلول نے اپنی چادر سے ناک کو ڈھانک لیا۔ رسول اللہﷺنے ان سب کو سلام کیا، پھر رُک گئے اور اپنی سواری سے اترے اور ان کو دعوۃ الی اللہ کی۔ ان کو قرآن پڑھ کر سنایا۔ اس پر عبداللہ بن ابی نے کہا: اے صاحب! جو بات تم کہہ رہے ہو۔ وہ اچھی بات نہیں ہے۔ اور اگر یہ حق بات ہے بھی تو ہمیں ہماری مجلس میں سنا کر تکلیف نہ دو۔ اپنے گھر میں جاؤ اور جو شخص تمہارے پاس آئے اُسے قرآن پڑھ کر سنانا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول کی یہ باتیں سن کر حضرت عبداللہ بن رواحہ نے کہا:کیوں نہیں یارسول اللہ! آپ ہماری مجالس میں آکر قرآن سنایا کریں کیونکہ ہم قرآن کو سننا پسند کرتے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ مسلمان اور مشرک اور یہود سب اس طرح بحث میں الجھ گئے کہ لگتا تھا کہ ایک دوسرے کے گلے پکڑلیں گے۔ آنحضرتﷺ ان کو مسلسل خاموش کرواتے رہے۔ جب خاموش ہوگئے تو آپؐ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور سعد بن عبادہ کے پاس پہنچے اور ان کو بتایا کہ ابوحُباب یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول نے کیا کہا ہے۔ تو سعد بن عبادہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس سے عفو اور درگزرکا سلوک فرمائیں۔ اس ذات کی قسم جس نے آپؐ پر قرآن کریم جیسی عظیم کتاب نازل کی ہے۔ اس سرزمین کے لوگوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ عبداللہ بن ابی بن سلول کو تاج پہنا کر اپنا بادشاہ بنائیں اور اس کے دست و بازو کو مضبوط کریں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فیصلے سے اس حق کے باعث جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عنایت فرمایا ہے، انکار کردیا تو اس سے اس کو بڑا دکھ پہنچا۔ اس وجہ سے اس نے آپؐ سے یہ بدسلوکی کی ہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے اُس سے عفو کا سلوک فرمایا۔
٭…حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم کسی غزوہ کے لیے گئے ہوئے تھے۔ مہاجرین میں سے ایک شخص نے ایک انصاری کی پشت پر ہاتھ مارا۔ اس پر اس انصاری نے بآواز بلند کہا کہ اے انصار! میری مدد کو آؤ۔ اور مہاجر نے جب معاملہ بگڑتے ہوئے دیکھا تو اس نے بآواز بلند کہا کہ اے مہاجرو! میری مدد کو آؤ۔ یہ آوازیں سن کر رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا: یہ کیا زمانہ جاہلیت کی سی آوازیں بلند ہو رہی ہیں؟ اس پر بتایا گیا کہ ایک مہاجر نے ایک انصارکی پشت پر ہاتھ مار دیا تھا۔ آنحضورؐ نے فرمایا کہ ایسا کرنا چھوڑ دو۔ یہ ایک بُری بات ہے۔ پھر پانی پینے کے اوپر یہ جھگڑا شروع ہوگیا تھا کہ مَیں پہلے پیئوں گا، اس نے کہا پہلے مَیں۔ بعد میں یہ بات عبداللہ بن ابی بن سلول نے سنی تو اس نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم مدینہ لَوٹے تو مدینہ کا معزز ترین شخص مدینہ کے ذلیل ترین شخص کو نکال باہر کرے گا (نعوذباللہ)۔ اُس کی یہ بات آپؐ کو معلوم ہوگئی۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے کہا: یارسول اللہﷺ! مجھے اجازت دیں کہ مَیں اس منافق کا سر قلم کردوں۔ یہ بات سن کر آنحضورﷺنے فرمایا: اس سے درگزر کرو۔ کہیں لوگ یہ باتیں نہ کہنے لگ جائیں کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔
ابن اسحٰق کہتے ہیں عبداللہ بن ابی بن سلول کا بیٹا ایک فدائی مسلمان تھا۔ اُس نے بھی اپنے باپ کے اس قول کو سنا تو آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یارسول اللہﷺ! مَیں نے یہ بات سنی ہے۔ اگر آپ کا ارادہ ہے کہ میرے باپ عبداللہ بن ابی کو قتل کرنا ہے تو مجھے حکم دیں کہ میں اپنے باپ کی گردن اڑادوں۔ کیونکہ اگر کسی اَور نے اسے قتل کیا یا سزا دی تو پھر کہیں میری زمانۂ جاہلیت کی رگ نہ پھڑک اٹھے اور مَیں اس شخص کو قتل کر دوں جس نے میرے باپ کو قتل کیا ہو۔رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بلکہ فرمایا کہ میں تمہارے باپ کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کروں گا۔
٭…رحمت دو عالمﷺ نے عبداللہ بن ابی بن سلول کی تمام تر گستاخیوں کے باوجود اس قدر احسان کا رویہ اپنایا کہ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی بن سلول مرگیا تو آپؐ کو بلایا گیا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں۔ اس پر مَیں آپؐ کی طرف لپکا اور کہا: یا رسول اللہ! کیا آپؐ ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں اور اس نے تو فلاں فلاں دن یہ بات کہی تھی۔ مَیں اُس کے خلاف اُس کی باتیں گننے لگا۔ آپؐ مسکرائے اور فرمایا: عمر ہٹ جاؤ۔ جب مَیں نے آپؐ سے بہت اصرار کیا تو آپؐ نے فرمایا: مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ سو میں نے اختیار کرلیا ہے۔ اور اگر میں یہ جانوں کہ مَیں ستر بار سے زیادہ اس کے لیے دعائے مغفرت کروں اور وہ بخشا جائے گا تو مَیں ضرور اس سے بھی زیادہ کروں گا۔ چنانچہ آپؐ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ تھوڑے عرصے بعد سورہ توبہ کی آیت 84 نازل ہوئی کہ تُو ان میں سے کسی کی نماز جنازہ نہ پڑھ۔
یہ بھی روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے عبداللہ بن ابی پر اپنا لعاب دہن ڈالا اور اپنا کُرتہ اس کو پہنایا۔
٭…فتح مکہ کے موقع پر حضرت رسول اللہﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا۔ پھر مجمع کی طرف دیکھا تو جبّارانِ قریش سامنے تھے۔ ان میں وہ بھی تھے جو اسلام کے مٹانے میں پیش رَوتھے۔ وہ بھی تھے جن کی زبانیں گالیاں برسایا کرتی تھیں۔ وہ بھی تھے جن کی تیغ وسنان نے آپؐ کے حضور گستاخیاں کی تھیں۔ وہ بھی تھے جن کی تشنہ لبی خونِ نبوت کے سوا کسی چیزسے بجھ نہیں سکتی تھی اور جن کے حملوں کا سیلاب مدینہ کی دیواروں سے آآکر ٹکراتا تھا۔ وہ بھی تھے جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے۔ آپﷺ نے اُن کی طرف دیکھا اورپوچھا تم کو کچھ معلوم ہے مَیں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ یہ لوگ اگرچہ ظالم، شقی اور بےرحم تھے لیکن مزاج شناس تھے۔ پکار اُٹھے کہ اخ کریم وابن اخ کریم آپ ہمارے مہربان بھائی ہیں، مہربان بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:

لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ اِذْھَبُوْا فَانْتُمُ الْطُلَقَاءَ

تم پر کوئی گرفت نہیں ، جاؤ تم سب آزاد ہو۔

اس اعلان کے بعد معافی کا جو سمندر جاری ہوا وہ آنحضوؐر کی صداقت کی ایک عظیم الشان دلیل ہے۔ اس کی داستان بڑی طویل ہے ایک ایک مجرم کا قصہ سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
٭…ایک شخص فضالہ بن عمیر فتح مکہ کے موقع پر جب رسو ل اللہﷺ طواف کر رہے تھے تو آپؐ کے قریب قتل کی نیت سے آیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس کے منصوبے کی خبر کردی۔ آپؐ نے اسے بلایا تو وہ گھبرا گیا۔ پھر آپؐ نے اس سے پوچھا کہ کس نیت سے آئے ہو؟ وہ بہانے بنانے لگا تو آپؐ مسکرائے اور پیار سے اس کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ فضالہ کہتے ہیں کہ جب آپﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھا تو میری تمام نفرت دُور ہو گئی اور مجھے رسول اللہﷺ سے سب سے زیادہ محبت ہو گئی۔
٭…ابوسفیان کی بیوی ہندہ وہ عورت تھی جس نے صحابہ کرام کی لاشوں کے ناک، کان کاٹ کر ہار بنا کر اپنے گلے میں پہنا اور اپنا سارا زیور وحشی (جبیر بن مطعم کے غلام)کو حضرت حمزہؓ کے شہید کرنے کے انعام میں دے دیا۔ حضرت حمزہؓ کا جگر مبارک نکال کر اس نے اپنے منہ میں لے کر چبایا مگر اس کو نگل نہ سکی۔ تب اس کو اُگل دیا۔
حضرت محمد رسول اللہﷺ کو حضرت حمزہؓ کی شہادت کا اس قدر دکھ تھا کہ ہمیشہ اس کا اظہار فرمایا کرتے۔ جب فتح مکہ کے موقع پر ہندہ نقاب اوڑھ کر بیعت کرنے والیوں میں شامل ہوگئی توآنحضورﷺ کو اُس کی آواز اور حرکتوں کا پتا چل گیا کہ یہ کون ہے لیکن آپؐ نے اس کو بھی معاف فرمادیا۔ اگرچہ اس وقت بھی اس نے گستاخیاں کیں مثلاً آنحضورﷺ نے جب بیعت کے الفاظ دہرائے تو کہنے لگی کہ مَردوں سے تو آپ یہ بیعت نہیں لیتے، عورتوں سے کیوں بیعت لے رہے ہیں؟ جب آپؐ نے یہ عہد لیا کہ اپنے بچوں کو قتل نہیں کریں گی توہندہ بولی کہ ہم نے جو بچے پال پوس کر جوان کیے تھے وہ تو جنگ بدر کے دن آپؐ نے قتل کردیے تھے۔ اس پر بھی آپؐ نے جواباً مسکرا کر فرمایا: ہندہ! میں جانتا ہوں تم عتبہ کی بیٹی ہو۔ پھر جب آپؐ نے یہ فرمایا کہ دیکھو چوری بھی نہ کرو۔ تو پھر وہ بولی کہ مَیں تو ابوسفیان کی تھوڑی سی چوری کرلیتی ہوں۔ ابوسفیان بھی وہیں تھا۔ اس نے کہا: مَیں اس کو پچھلی ساری چوریاں معاف کردیتا ہوں، یا رسول اللہ! آپ بھی اس کو معاف فرما دیں۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے، میں اس کو معاف کرتا ہوں۔
٭…عکرمہ بن ابی جہل کو معاف فرما دینے کا واقعہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ وہ ابو جہل جو خباثت اور دکھ دینے میں سب سے آگے بڑھ گیا تھا اُس کا بیٹا عکرمہ بھی ان لوگوں میں سے تھا جس کو آنحضرتﷺ نے شروع میں معاف نہ کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔ یہ وہی عکرمہ ہے جس نے جنگ اُحد میں خالد بن ولید کے ساتھ مل کر غیرمعمولی کردار ادا کیا تھا۔ یہ نہایت تیز طرار اور بڑا قابل جرنیل تھا۔ یہ فتح مکہ کے موقع پر اس خوف سے بھاگ گیا کہ مَیں آنحضرتﷺ کے حلقہ اثر ہی سے نکل جاؤں گا۔ چنانچہ وہ جنوب کی طرف بھاگا اور پھر وہاں سے حبشہ کی طرف جانے کے لیے کشتی میں بیٹھ رہا تھا تو اتنے میں اس کی بیوی وہاں پہنچ گئی اور اسے کہنے لگی تمہارے دماغ کو کیا ہوگیا ہے۔ تم دنیا میں سب سے بڑے محسن اور سب سے زیادہ بخشش کرنے والے سے بھاگ رہے ہو۔ اس نے کہا: کیا رسول اللہؐ مجھے بھی معاف کردیں گے؟ وہ کہنے لگی تم چل کر دیکھو تو سہی۔ رسول اللہﷺ کو معلوم ہوگیا کہ عکرمہ کو اس کی بیوی لینے گئی ہے اور شاید اس کو لے کر واپس آجائے۔ آپؐ نے صحابہ کو نصیحت فرمائی کہ دیکھو! عکرمہ بن ابی جہل نہ کہنا اس سے اس کو دکھ پہنچے گا۔ مُردوں کے دکھ تم زندوں میں کیوں منتقل کرتے ہو!۔ جب وہ آیا اور آنحضرتﷺ کو خبر ملی تو اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور چادر بھی نہیں لی۔ چل پڑے اورفرمانے لگے مرحبا بالراکب المہاجر۔مرحبا با لراکب المہاجر (اونٹنی کے سوار مہاجر کو مرحبا، مرحبا!)۔ رسول اللہﷺ کے معاف فرما دینے پر عکرمہ نے کلمہ شہادت پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔ پھر شرم کے باعث اپنا سرجھکا لیا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے عکرمہ! ہر وہ چیز جو میری قدرت میں ہے اگر تم اس میں سے کچھ مجھ سے مانگو تو میں تم کو عطا کردوں گا۔ عکرمہ نے کہا مجھے میری وہ تمام زیادتیاں معاف کردیں جو مَیں آپ سے کرتا رہا ہوں۔ اس پر آپؐ نے یہ دعا دی کہ اے اللہ! عکرمہ کو ہر وہ زیادتی جو وہ مجھ سے کرتا رہا ہے بخش دے۔ یا آپؐ نے فرمایا کہ اے اللہ! عکرمہ میرے بارہ میں جو بھی کہتا رہا ہے وہ اس کو بخش دے۔
٭…عبیداللہ نے ایک بار وحشی سے کہا کہ حضرت حمزہؓ کے قتل کا قصہ تو بیان کر۔ وحشی جنگ اُحد کا حال بیان کرتے ہوئے حضرت حمزہؓ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ مَیں ایک پتھر کی آڑ میں چھپ کر بیٹھ رہا۔ حضرت حمزہؓ جب میرے قریب آئے تو میں نے اپنا حربہ ان پر دے مارا اور وہ ان کے زیرناف لگا اور حضرت حمزہؓ اسی وقت شہید ہوگئے۔ خیر جب جنگ کے بعد لوگ اپنے گھروں کو لَوٹے تو میں بھی ان کے ساتھ لَوٹا اور مکہ ہی میں ٹھہرا رہا۔ یہاں تک کہ اسلام وہاں پھیل گیا (مکہ فتح ہو گیا)۔ اس وقت مَیں طائف چلا گیا۔ طائف کے لوگوں نے آنحضرتﷺ کے پاس کچھ سفیر بھیجے۔ مجھ سے لوگوں نے کہا تھا کہ آنحضرتﷺ سفیروں کو کچھ نہیں کہتے۔ مَیں بھی ان کے ساتھ گیا اور آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ آپؐ نے مجھے دیکھا اور فرمایا:کیا وحشی تُو ہی ہے؟ مَیں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: حمزہ کو تُو نے ہی قتل کیا تھا؟ مَیں نے کہا: آپ کو تو سب حال معلوم ہے۔ آپؐ نے فرمایا:کیا تُو ایسا کر سکتا ہے کہ اپنا منہ مجھے نہ دکھلائے۔ آپؐ نے مجھے معاف فرما دیا۔
رحمت دوعالمﷺ کے درگزر کی انتہا کا اس بات سے پتا چلتا ہے کہ جب آنحضرتؐ نے وحشی سے حضرت حمزہؓ کی شہادت کے بارے میں تفصیل پوچھی تو آپؐ کی آنکھوں سے اُس چچا کی یاد میں آنسورواں ہوگئے جس نے ابوجہل کے مقابلے میں آپؐ کا ساتھ دیا تھا۔ لیکن قدرت رکھنے کے باوجود اُس سے عفو کا سلوک فرمایا اور معاف فرمادیا۔
سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں:

حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

’’حضرت خاتم الانبیاءﷺ نے مکہ والوں اور دوسرے لوگوں پر بکلّی فتح پاکر اور ان کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر ان کا گناہ بخش دیااور صرف انہیں چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لیے حضرت احدیت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہوچکا تھا اور بجز اُن ازلی ملعونوں کے ہر یک دشمن کا گناہ بخش دیا اور فتح پاکر سب کو لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کہا اور اس عفو تقصیر کی وجہ سے کہ جو مخالفوں کی نظر میں ایک امر محال معلوم ہوتا تھا اور اپنی شرارتوں پر نظر کرنے سے وہ اپنے تئیں اپنے مخالف کے ہاتھ میں دیکھ کر مقتول خیال کرتے تھے، ہزاروں انسانوں نے ایک ساعت میں دینِ اسلام قبول کرلیا۔ اور حقّانی صبر آنحضرتﷺ کا کہ جو ایک زمانہ دراز تک آنجناب نے ان کی سخت سخت ایذائوں پر کیا تھا آفتاب کی طرح ان کے سامنے روشن ہوگیا۔‘‘
(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد1،صفحہ287)

اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ و عَلیٰ آلِ مُحَمَّد
………٭………٭………٭………

اپنا تبصرہ بھیجیں