زخم تازہ کر گئی باد صبائے قادیاں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍جولائی 2005ء میں قادیان میں اپنی یادوں کے حوالہ سے مکرم منیر احمد بانی صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
٭ 1939 ء کے سالانہ جلسہ پر (جو کہ خلافت ثانیہ کا جوبلی جلسہ تھا) والد صاحب مر حوم (محترم میاں محمد صدیق بانی صاحب) کے ہمراہ جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ چند روز جلسہ کے بعد بھی قیام کیا۔ اس مختصر عرصہ میں ہی بچوں میں ایسی تبدیلی پیدا ہوئی کہ والد صاحب نے عزم کر لیا کہ بچوں کو اس مقدس بستی میں رکھ کر تعلیم دلائی جائے اس فیصلہ پر عمل درآمد 1941ء میں ہوسکا۔ان دنوں قادیان میں رہائش کے لئے الگ مکان مل جانا ایک مسئلہ تھا۔ بمشکل تمام محلہ دارالرحمت میں ایک مشترکہ مکان ملا۔ جس میں محترم مولوی عبدالحئی صاحب مربی انڈونیشیا مع اپنی والدہ اور بھائی بہنوں کے مقیم تھے۔ وہ نماز باجماعت کے لئے اپنے ہمراہ ہمیں لے جاتے۔ ایک روز نماز جمعہ کے لئے مسجد اقصی لے گئے، جب واپس گھر آئے تو اپنے چھوٹے بھائی اور خاکسار سے کہا کہ حضرت صاحب کے خطبہ کا خلاصہ سنائیں۔ میں اس غیر متوقع سوال کے لئے تیار نہ تھا مگر اس کا یہ عظیم فائدہ ہوا کہ اس کے بعد سے میں نے بہت توجہ اور انہماک سے حضور کے خطبات سنے۔ اب بھی جب تاریخ احمدیت کا مطالعہ کرتے کرتے وہ خطبات آتے ہیں جو کہ خود اپنے کانوں سے سنے ہوئے ہیں تو دل پر ایک رقت طاری ہوجاتی ہے۔ حضرت المصلح الموعود کا نورانی چہرہ نظروں کے سامنے آجاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی دلکش آواز میرے کانوں میں رس گھول رہی ہے اور اکثر باوجود کوشش کے خطبات کی ان چند سطور سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ گزرا ہوا زمانہ واپس نہیں آتا دل میں تمنا اور تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ
؎ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
٭ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی چوتھی جماعت میں داخلہ لیا۔ سراپا محبت و شفقت، سبھی اساتذہ کرام اپنے بچوںکی طرح محبت اور محنت سے اپنے شاگردوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے اور تعلیم سے زیادہ تربیت کا خیال رکھتے۔ سکول میں اڑھائی بجے چھٹی ہوتی، گھروں میںجا کرکھاناوغیر ہ کھاتے، عصرکے بعد ماسٹر محمد ابراہیم صاحب ناصر اپنے گھر کلاس لیتے۔ کسی قسم کی فیس یاٹیوشن کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ میاں محمد ابراہیم صاحب مغرب کے بعد اپنے گھر پر انگریزی میں طلبہ کو مشق کرواتے۔ اکثر یہ کلاس رات 11بجے تک جاری رہتی۔ ہمارے یہ روحانی والدین اپنا فرض منصبی سمجھ کر بچوں کو پڑھاتے۔ اور یہ بات ان کا جزو ایمان تھی کہ ہمارے ان عزیزوں نے احمدیت کا سپاہی بننا ہے۔ ماسٹر نذیر احمد صاحب رحمانی نے چھٹی کلاس میں خاکسار کو تحریک کی کہ ابھی سے روزانہ ڈائری لکھنے کی عادت ڈالو۔ میری ڈائری کے آغاز میں انہوں نے یہ ماٹو لکھ کر دیا: ’’آج کا منیر کل کے منیر سے بہتر ہو‘‘۔
میاں محمد ابراہیم صاحب تلقین فرماتے کہ کورس کی کتابوں کے علاوہ مطالعہ کی عادت ڈالو اور روزانہ ایک انگریزی اور ایک اردو اخبار پڑھا کرو۔ حضرت مولوی تاج دین صاحب کے کلاس میں بیان کردہ نکاتِ معرفت اب تک ازبر ہیں۔ صبح اسمبلی میں تلاوت قرآن کے بعد وہ کوئی نہ کوئی دعا طلبہ کے ساتھ دہراتے جو اب بھی یادہیں۔ حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب ہمارے ہیڈ ماسٹر تھے۔ جن دوستوں کو انہیں دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ہے انہوں نے گویا ایک ولی اللہ کا دیدارکر لیا۔ بہت زاہد، عابد اور دعاگو شخصیت تھے۔ ان کے چہرہ پر ہمیشہ ایک خداداد مسکراہٹ رہتی۔ سکول شروع ہونے سے قبل اسمبلی سے ضرورخطاب فرماتے۔ خطاب پند و نصائح کا ایک سمندرہوتا اور بیان کرنے کا انداز انتہائی دلنشین۔ جب موسمی تعطیلات میں سکول دو ماہ کیلئے بند ہوجاتا تو آپ اعلان فرماتے کہ ا ن چھٹیوں میں جوطالب علم قادیان سے باہر نہیں جاتے وہ روزانہ انگریزی میںایک مضمون لکھیں اور مجھ سے اصلاح لیں۔ انہوں نے ساتویں جماعت میں ہر طالب علم کے ذمہ ایک رکوع کا حفظ کرنا کیا ہوا تھا اور اس طرح ساری کلاس کو پورا ایک پارہ یاد کروایا گیا اور سارے سکول نے مل کر پورا قرآن پاک حفظ کیا ہوا تھا۔
٭ سکول سے باہر محلہ کی عام زندگی بھی ایک تربیتی کیمپ تھا۔ فجر سے پہلے صلّ علیٰ کا ورد کرتے، روزانہ پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرتے، بعد نماز مغرب خدام اور اطفال کے اجلاس روزانہ ہوتے۔ ایک رات عشاء کی نماز پڑھ کر ہم چند بچے گھر سے باہر میدان میں کھیلنے لگے تو ایک بزرگ نے نصیحت کی کہ آنحضورﷺ نے عشاء کے بعد بچوں کو بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے سے منع فرمایا ہے، یہ وقت مطالعہ میں صرف کرو اور جلدی سو جاؤ تاکہ صبح نماز کیلئے اُٹھ سکو۔
قریباً دس سال کی عمر میں ایک روز سودا سلف لانے بازار کی طرف مَیں ننگے پاؤں ہی چل دیا۔ محترم حافظ قدرت اللہ صاحب راستہ میں ملے تو فرمایا کہ احمدی بچوں اور دوسرے بچوں میں فرق ہوتا ہے، آپ فوراً گھر جائیں اور جوتا پہن کر بازار جائیں۔ دراصل ہر بزرگ یہ سمجھتا تھا کہ یہ سب ہمارے اپنے بچے ہیں۔
٭ حقیقی دینی معاشرہ تھا۔ محلہ میں کسی کے ہاں شادی ہوتی تو امیر و غریب کا کوئی سوال نہ تھا۔ سب آپس میں بھائی بھائی تھے۔ شادی کی تقریب ایک گھرانہ کی بجائے پورے محلہ کی ذمہ داری سمجھی جاتی۔ ہم نے 1943ء میں محلہ دارالبرکات میں مکان خرید لیا۔ والد صاحب کلکتہ میں کاروبار کرتے تھے۔ گھر میں ہم سب بچے تھے، سودا سلف لاکر دینے والا کوئی نہ تھا۔ ایک دن محلہ کے ایک بزرگ تشریف لائے اور ازخود یہ پیشکش کی کہ آپ کے ہاں بڑا کوئی نہیں ہے، میں صبح سویرے اپنے گھر کا سودا لینے جاتا ہی ہوں آپ کی نوازش ہو گی اگر مجھے خدمت کا یہ موقعہ دیں کہ میں آپ کا بھی سامان لے آیا کروں۔ ہمارا گزشتہ ماحول چنیوٹ اور کلکتہ کا ’’تاجرانہ ماحول‘‘ تھا جس میں ہربات اور ہر عمل کا وزن پیسہ سے تولا جاتا تھا اس لئے ایسی منکسرانہ اور پرخلوص پیشکش کی ہمیں سمجھ ہی نہ آئی۔ کیونکہ ہمارا یقین تھا کہ اس دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا لیکن اس فرشتہ سیرت بزرگ نے بہت اصرار کیا اور ہر موسم میں روزانہ بہت ہی عمدہ صاف ستھرا اور ارزاں قیمت پر سودا سلف لاکر دیتے رہے اور اُن کا یہ معمول 1943ء سے قادیان کے انخلاء تک جاری رہا۔ یہ بزرگ محلہ کے اور بھی بہت سے گھرانوں کا سودا بلا کسی معاوضہ کے لاکر دیا کرتے تھے۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہؓ کی کافی تعداد تھی اور بے شمار برکات کی حامل۔ ہمارے محلہ میں ایک صحابی حضرت مولوی عبداللہ صاحب بوتالویؓ قیام فرما تھے۔ ایک دن محلہ میں تلاوت قرآن کریم کا مقابلہ ہوا تو ہم تینوں بھائی اول، دوم، سوم قرار پائے۔ موصوف نے انتہائی خوشی کا اظہار فرمایا اور ہمارے والد صاحب سے فرمایا کہ میں بچوں کو انعام دینا چاہتا ہوں، میں نے کسی زمانہ میں خوش خطی کا فن سیکھا تھا، آپ کے بچے روزانہ فجر کے وقت تختیاں اور قلم دوات لے کر آجایا کریں، میں انہیں خوش خطی سکھلاؤں گا۔ بعد ازاں محلہ کے اور بھی بہت سے بچوں نے اس کلاس سے استفادہ کیا۔
٭ ایک سال متحدہ پنجاب کی ہیڈ ماسٹرز ایسوسی ایشن کی سالانہ کانفرنس کا انعقاد قادیان میں ہوا۔ ایسوسی ایشن کے صدر لاہور کے کسی آریہ سماج کے ہیڈماسٹر تھے۔ بہت ہی سحر البیان مقرر اور زندہ دل۔ ان کے قیام وطعام کا انتظام اس وقت بورڈنگ تحریک جدید کی عمارت کے قریب کیا گیا تھا۔ خاکسار اور چند دوسرے طلبہ کے ذمہ ان کی خدمت کا فریضہ تھا۔ ایک دن دوپہر کے کھانے کے بعد انہوں نے ایک چھوٹے بچے سے سوال کیا کہ تم بڑے ہوکر کیا بنو گے؟ بہت ہی خوبصورت اور معصوم چہرہ والے بچہ نے فوراً جواب دیا کہ ’’ہر احمدی اسلام کا ایک بہادر سپاہی ہے، اس راہ میں میری زندگی قربان ہوگی۔‘‘ بچے کا یہ فی البدیہہ جواب سن کر ہیڈ ماسٹر صاحب سکتہ میں آگئے۔ بعد ازاں انہوں نے کئی تقاریر میں بڑے تعریفی انداز میں احمدی بچوں کا یہ جذبہ بیان کیا۔
٭ جن احباب کو قادیان میں قیام کاموقعہ تو نہ مل سکا لیکن جلسہ سالانہ پر چند یوم کے لئے جاتے تھے، ان کے دل بھی یہی گواہی دیتے تھے جو میرے دل نے دی تھی۔ 1978ء کے جلسہ پر ایک مالا باری دوست بھی دُوردراز علاقہ سے دیار حبیب میں حاضر ہوئے ۔ اردو زبان سے نا آشنا تھے۔ اُن کی آنکھیں اشکبار دیکھیں توسبب دریافت کیا۔ اس مخلص دوست نے ٹوٹی پھوٹی زبان میں اپنے جو جذبات بیان کئے وہ یوں تھے:
ہر راہ کو دیکھا ہے محبت کی نظر سے
شائد کہ وہ گزرے ہوں اسی راہ گذر سے
مکرم مصلح دین صاحب بنگالی پرنسپل اسلامیہ کالج چٹاگانگ میرے زمانہ کالج کے دوست ہیں۔ گزشتہ دنوں وہ تقسیم ملک کے بعد پہلی مرتبہ قادیان گئے تو واپسی پر میرے نام اپنے خط میں تحریر کیا: ’’زندگی کے بہترین لمحات تھے جو وہاں میں نے گزارے، دنیا کے آلام و فکر سے دُور، آستانہ الٰہی پر سربسجود … اس روحانی ماحول کے تصور سے ہی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں اور طبیعت پر ایک عجیب روحانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ زندگی کے بقیہ ایام بھی دیار محبوب میں گزار دوں…‘‘۔
٭ اُس زمانہ میں سب سے بڑی برکت حضرت مصلح موعودؓ کی ذات والاصفات تھی۔ بعد نماز مغرب مجلس علم و عرفان کی یاد اب بھی دل میں حرارت پیدا کردیتی ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے ظرف اور علم کے مطابق اس سمندر بے کراں سے موتی چنتا۔ روزانہ نئے سے نیا مضمون اچھوتے انداز میں، طرز بیان بہت ہی سادہ، زبان صاف ستھری اور آسان، ہر بات دل میں اتر جاتی تھی۔ حضورؓ کی سوانح حیات اگر ایک ہزار صفحات میں تحریر کی جائے اور اس کا خلاصہ بیان کرنا مقصود ہو تو یہ خدائی سرٹیفیکیٹ کافی ہے:
کَأَنَّ اللہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآء۔
حضرت مصلح موعودؓ کا ہی شعر ہے:
خیال رہتا ہے ہمیشہ اس مقام پاک کا
سوتے سوتے بھی یہ کہہ اٹھتا ہوں ہائے قادیان