زمین پھیلائی گئی
سورۃالحجر آیت 20 میں تین باتیں بیان کی گئی ہیں یعنی زمین کو پھیلایا گیا، اس میں پہاڑ ڈالے گئے اور اس میں ہر موزوں چیز کو پیدا کیا گیا۔ اسی طرح کا ذکر سورۃ قٓ آیت 8 اور سورۃالرعد کی آیت 4 میں بھی ہے۔ اس بارے میں سائنسی شواہد کے حوالہ سے مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کا ایک تحقیقی مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍ نومبر1998ء کی زینت ہے۔
ایک عرصہ تک سائنسدان غور کرتے رہے ہیں کہ اگر براعظم امریکہ، آسٹریلیا اور بہت سے جزائر باقی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں تو ان جگہوں پر پودوں، درختوں، کیڑوں اور جانوروں کی ملتی جلتی اقسام کیسے پائی جاتی ہیں۔ اس صدی کی ابتدا میں ایک ماہر ارضیات Wegener نے یہ نظریہ پیش کیا کہ آغاز میں زمین پر صرف ایک ہی براعظم تھا جس کی حدود کے باہر صرف سمندر ہی موجود تھا۔ پھر اس خشک زمین کے نیچے جمع ہونے والی حرارت نے اس وسیع براعظم میں شگاف ڈالنے شروع کئے اور کروڑوں سال کے عمل سے یہ شگاف بڑھتے بڑھتے نئے سمندر بن گئے اور زمین کے ٹکڑے کرہ ارض کی سطح پر پھیلتے پھیلتے ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔یہ سب کچھ اتنی آہستگی سے ہوا کہ خطہ زمین ایک سال میں محض چند سینٹی میٹر کا فاصلہ طے کرتا تھا۔ آج بھی سمندر کی تہہ میں آتش فشاں پہاڑوں کے لمبے سلسلے موجود ہیں جو ہر سال لاوا اُگل کر سمندر کے فرش کو مزید وسیع کر دیتے ہیں چنانچہ بحر اوقیانوس کی چوڑائی میں اضافہ ہو رہا ہے یعنی اس کے دونوں اطراف کے براعظم پرے دھکیلے جا رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق تمام سمندروں کے فرش اسی طرح کم موٹائی کے ہوتے جائیں گے اور آخر کروڑوں سال بعد خشکی کے سارے ٹکڑے ایک بار پھر آپس میں مل جائیں گے۔ ایک اور نظریہ کے مطابق خشکی کا پھٹنا اور پھر اکٹھے ہونے کا عمل زمین کی تاریخ میں بار بار دہرایا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ابتداء میں جب مختلف براعظم علیحدہ ہوکر اپنے سفر پر روانہ ہوئے تو اُن میں سے بعض کا ٹکراؤ بھی ہوا۔ اس تصادم کے دباؤ کے نتیجے میں آپس میں ملنے والے حصوں کی زمین بلند ہونے لگی اور یہ ابھار عظیم الشان پہاڑی سلسلوں کی صورت میں آج موجود ہیں۔
ماہرین کے مطابق دنیا کا واحد براعظم جب ٹکڑوں میں تقسیم ہوا تو نئے سمندر وجود میں آئے اور اس تبدیلی کے نتیجہ میں زندگی میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہوئی اور سمندروں میں کیمیاوی عوامل کے ساتھ آکسیجن کی سطح بلند ہونی شروع ہوئی جس کے بعد زندگی کی بڑے سائز کی اقسام وجود میں آئیں ۔… مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ قرآن کریم کا اس بارہ میں ایک ترتیب کے ساتھ بیان گہری حکمت کا مظہر ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:- ’’طفیلی طور پر یہ سب علوم خدمت دین کے لئے بطور خارق عادت قرآن شریف میں اس عجیب طرز سے بھرے ہوئے ہیں جن سے ہر یک درجہ کا ذہن فائدہ اٹھا سکتا ہے‘‘۔