ساحلوں کے اسرار
درج بالا موضوع پر مکرم محمد نعمان صاحب کا دلچسپ مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ اگست 1995ء میں شامل اشاعت ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سندھ کے ساحلی علاقے نرم مٹی کے ہیں جبکہ بلوچستان کے ساحل پتھریلے ہیں۔ یہاں جھیلوں کی بھی بڑی تعداد ہے جن پر ہر سال سردیوں میں سائبیریا سے خوبصورت پرندے آتے ہیں جو گرمیوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔ ساحل سے کچھ فاصلہ پر بھنبور کا شہر ہے جہاں کئی تہذیبوں کے آثار دریافت ہوئے ہیں۔ ایک خیال کے مطابق دیبل کا قلعہ جسے محمد بن قاسم نے تسخیر کرکے فتح سندھ کی بنیاد رکھی تھی ، یہیں واقع تھا۔ کہا جاتا ہے کہ 237 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے یونان واپس جاتے ہوئے ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کیا تھا چنانچہ اس کے فوجیوں کی قبریں بھی ایک مقام پر موجود ہیں اور وہ جگہ ’’رومیوں کا قبرستان‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح ’’گنز‘‘ نامی ایک گاؤںکے باشندے جو مقامی آبادی سے خد و خال میں مختلف ہیں، سکندر اعظم کے پیچھے رہ جانے والے فوجیوں کی نسل کہلاتے ہیں۔ ایک ساحلی قصبہ ’’بیلا‘‘ میں ایک عرب جرنیل ہارون کا مقبرہ ہے جو محمد بن قاسم کی آمد سے بہت پہلے مکران کا گورنر تھا۔ بلوچستان کے ساحلی پانی میں ایک خاص چمک ہے اور ساحل پر سنہری ریت پھیلی ہوئی ہے۔ یہ حسین علاقے قابلِ دید ہیں۔