ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
بہت ہی باہمت وہ لوگ ہیں جو کسی عضو سے محرومی کے باوجود اسے اپنی مجبوری نہیں بناتے اور نہ صرف یہ کہ دوسروں پر بوجھ نہیں بنتے بلکہ دوسروں کے بوجھ بھی بانٹ لیتے ہیں۔ اس کی دو مثالیں مکرمہ آنسہ حمیرا انور صاحبہ کے قلم سے ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ اکتوبر1997ء میں شاملِ اشاعت ہیں۔
پہلی مثال احمد نگر نزد ربوہ سے تعلق رکھنے والی مکرمہ ناظمہ بشریٰ صاحبہ کی ہے جو پیدائشی طور پر ایک بازو سے مکمل طور پر معذور ہیں جبکہ دوسرا بازو بہت چھوٹا اور کمزور ہے اور ہاتھ کی صرف دو انگلیاں ہیں۔ انہوں نے مقامی سکول سے مڈل پاس کرنے کے بعد روزانہ بذریعہ بس ربوہ جاکر جامعہ نصرت سے گریجوایشن تک تعلیم حاصل کی۔ ہاتھوں سے معذور ہونے کی وجہ سے دائیں پاؤں سے نہایت خوشخط لکھتی ہیں۔ گزشتہ 12 سال سے لجنہ اماء اللہ احمدنگر کی جنرل سیکرٹری ہیں اور تمام رپورٹیں وغیرہ پاؤں سے ہی تحریر کرتی ہیں۔ دس سال سے بے شمار بچوں اور بچیوں کو قرآن پاک ناظرہ اور باترجمہ پڑھا رہی ہیں۔ ان کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے جب یہ معلوم ہو کہ وہ اپنی معذوری کے باوجود کپڑے دھولیتی ہیں، گھر کی صفائی کرلیتی ہیں، نلکا چلا کر پانی بھر لیتی ہیں، چارپائیاں اور ان پر بستر بچھا لیتی ہیں۔
ایک ایسی ہی بہن سعیدہ فخر صاحبہ ہیں جن کے ہاتھ پاؤں 3 سال کی عمر میں ٹائیفائیڈ کی وجہ سے ٹیڑھے ہوگئے۔ انہوں نے میٹرک کیا اور پھر مختلف نصابی کتب پڑھنے کے ساتھ ساتھ ادارہ بحالی معذوراں لاہور سے منسلک ہوکر پاؤں والی مشین سے کپڑوں کی سلائی کرنا، کرسیاں بننا، سویٹر بننا اور کئی دوسرے ہنر سیکھے۔ نیز بے شمار لڑکیاں ان سے تعلیمی معاونت لے چکی ہیں اور قریباً 35 بچے جن میں نصف غیرازجماعت ہیں ان کے پاس قرآن کریم پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔