سر سید احمد خان صاحب کے آخری ایام
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍مارچ 2005ء میں میر ولایت حسین صاحب کی زبانی سرسید احمد خان صاحب کے آخری ایام کا کھینچا ہوا نقشہ (مرتبہ:مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب) شامل اشاعت ہے-
میر ولایت حسین، ایم اے او کالج علیگڑھ میں استاد اور ہاسٹل کے پراکٹر تھے۔ آپ نے سرسید، محسن الملک، وقار الملک اور دیگر زعماء کے ساتھ کام کیا تھا۔ سر سید کے صاحبزادے سید محمود کے ساتھ دوستی تھی۔ انہوں نے اپنی خودنوشت سوانح حیات کا نام ’’آپ بیتی یا ایم اے او کالج علی گڑھ کی کہانی‘‘ رکھا ہے۔
میر ولایت حسین نے اپنی تعلیم علی گڑھ کالج میں 1882ء سے شروع کی تھی اس لئے وہ اس کے بہت ابتدائی لوگوں میں سے تھے۔ سر سید کو آخری عمر میں جو صدمات اٹھانے پڑے ان کی مستند تفصیل اسی خودنوشت میں ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ 1895ء میں کالج میں غبن معلوم ہوا۔ سر سید نے کالج کا تمام سرمایہ بینک میں جمع کر دیا تھا۔ دفتر کا ہیڈ کلرک شام بہاری لال تھا وہ اپنے ہاتھ سے انگریزی میں چیک لکھ کر سید صاحب سامنے پیش کرتااور ان سے دستخط کرا لیتا تھا۔ اس پر اعتماد رکھتے تھے اس لئے انہوں نے کبھی آمدو خرچ کا مقابلہ نہیں کیا۔ اس نے سات ٹرسیٹوں کی طرف سے ایک جعلی مختار نامہ بھی بنایا ہوا تھا۔ غرض اس نے سر سید کے اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ایک لاکھ ستر ہزار روپیہ بینک سے لیا۔ اتفاق سے وہ اچانک فالج میں مبتلا ہوگیا اور بینک سے خطوط آئے تب غبن کے متعلق معلوم ہوا۔ اُس پر مقدمہ چلا اور وہ حوالات میں فوت ہوگیا۔ اس واقعہ سے سر سید کو اس قدر صدمہ پہنچاکہ آخر دم تک فراموش نہیں ہوا۔
اس کے ساتھ ایک اور صدمہ پیش آیا جو سید محمود کا دماغی مرض تھا۔ سید محمود کی ناگفتہ بہ حالت سید صاحب کے واسطے بہت تکلیف دہ تھی۔ ان کو نہ رات کو چین تھا اور نہ دن کو۔ چونکہ نواب وقار الملک مولوی مشتاق حسین نے قانون ٹرسٹیاں میں سید محمود کی جانشینی کی بابت اعتراض کیا تھا اور بعد ازاں اُن کے اسٹنٹ سیکرٹری ہونے پر معترض ہوئے تھے اس لئے سید محمود ان سے ناخوش تھے اور سید صاحب کو مجبور کرتے تھے کہ وہ نواب وقار الملک کو جماعت ٹرسٹیاں سے نکال دیں۔ اُن کو یہ بھی اصرار تھا کہ ’’میری کوٹھی میں اسسٹنٹ کا دفتر ہے اس کا کرایہ مجھ کو نہیں ملتا۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کے کرایہ کا حساب کر کے میری جانب سے کالج کے چندہ میں جمع کر دیا جائے۔‘‘
آخر میں سید محمود کی یہ حالت ہوگئی کہ جو وہ چاہتے سید صاحب کو اس کے کرنے پر مجبور کرتے چنانچہ ٹرسٹیوں کی جو جگہیں خالی تھیں ان کو سر سید نے سید محمود کے اصرار سے پُر کر دیا۔ بعد میں انہی صاحبوں نے سید محمود کے پریذیڈنٹ بننے کے خلاف رائے دی۔ آخر کو سید صاحب 1898ء میں اپنی کوٹھی چھوڑ کر بورڈنگ ہاؤس میں ایک چھوٹے بنگلہ میں مقیم ہوگئے۔ لیکن چند روز بعد محمودہ بیگم آکر سید صاحب کو واپس لے گئیں۔ پھر چند روز بعد ہی سید صاحب کو کوٹھی چھوڑ کر پھر حاجی اسماعیل خان صاحب کے ہاں منتقل ہونا پڑا۔ اُس وقت سید صاحب نے ایک آہ کھینچی اور کہا ہائے افسوس ہم کو کیا معلوم تھا کہ سید محمود اس عمر میں ہم کو گھر سے نکال دیں گے ورنہ ہم کیا اس قابل نہ تھے کہ اپنے لئے ایک جھونپڑا بنا لیتے۔ سر سید کا انتقال 28؍مارچ 1898ء کی شب گیارہ بجے وہیں ہوا۔ مَیں کوٹھی پہنچا تو اس بات پر بحث تھی کہ کاغذات اور الماریوں کی کنجیاں کس کے پاس رہیں۔… بیگ صاحب اور پٹنگ صاحب چھوٹے صندوقچے اپنی گاڑی میں رکھوارہے تھے اور الماریوں کو مقفل کر کے ان کی کنجیاں اپنی جیب میں رکھ لی تھیں۔ حاجی اسماعیل خاں صاحب کی کوٹھی پر حاجی صاحب تو سید صاحب کے جنازہ کے پاس بیٹھے قرآن مجید پڑھے رہے تھے اور ان کے عزیز سو رہے تھے۔ میں یہ کیفیت دیکھ کر بورڈنگ ہاؤس چلا آیا اور سو رہا۔ دو تین بجے کے درمیان میں نے سید عبد الباقی سے کہا کہ کچھ رقم اپنی میں لیتے چلو تاکہ تجہیزو تکفین کا کچھ بندوبست نہ ہوا تو ہم کر دیں گے۔ بورڈنگ سے نکلتے ہی مولوی زین الدین صاحب ملے۔ کہنے لگے کہ سید صاحب کا نوکر عظیم میرے پاس آیا تھا اور اُن کی تجہیز وتکفین کے لئے کچھ روپیہ مانگتا تھا۔ میرے پاس تو کچھ تھا نہیں۔ میں نے اس کو نواب محسن الملک کے پاس بھیج دیا ہے۔ہم دونوں نواب محسن الملک کی کوٹھی پر گئے تو وہاں سے دلی آئے ہوئے مولوی ذکاء اللہ صاحب اور مولوی نذیر احمد صاحب موجود تھے۔ نواب صاحب ہم کو دیکھ کر خوش ہوئے اور کہا کہ عظیم کہتا ہے کہ محمد احمد کے ملازم سے دس روپیہ قرض لے کر وہ سامان لینے آیا ہے مگر محمد احمد اپنے نوکر پر خفا ہوئے۔ میں نے کہا ہم تو یوں چپ تھے کہ سید صاحب کے عزیزاور دوست سب موجود ہیں، اگر ہم ان کی تجہیز وتکفین کے بارہ میں کچھ پیش قدمی کریں گے۔ اگر آپ اجازت دیں تو ہم ان کی تجہیز و تکفین کا انتظام کریں گے۔ نواب صاحب نے فرمایا: نہیں تم کو انتظام کرنے کی ضرورت نہیں۔ عظیم سے دریافت کیا کہ کس قدر روپیہ کی ضرورت ہوگی؟ عظیم نے پچاس روپیہ بتائے اور نواب صاحب نے فرمایا کہ ’’یہ سید صاحب کا آخری چندہ ہے پھر کب چندہ مانگنے آویں گے‘‘۔ پچاس روپیہ عظیم کو دیدئیے۔ اس کے بعد سید صاحب کی تجہیز وتکفین ہوگئی۔