سعد اللہ خان – بادشاہی مسجد چنیوٹ کے بانی
ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ اپریل 2004ء میں مکرم میر احمد محمود طاہر صاحب کا سعداللہ خان کے بارہ میں ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے جو بادشاہی مسجد چنیوٹ کے بانی تھے۔
مغل بادشاہ شاہجہان کے وزیراعظم جملۃالملک سعد اللہ خان نے شاہی مسجد چنیوٹ کو غالباً 1646ء تا 1655ء کے دوران تعمیر کروایا ۔وہ چنیوٹ سے 9میل دُور ایک پسماندہ گاؤں ’’پتراکی‘‘ میں ایک غریب کاشتکار امیر بخش کے ہاں 1591ء میں پیدا ہوئے۔ اسی شام ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ پانچ برس کے ہوئے تو والدہ کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا۔ اسی کسمپرسی کی حالت میں گداگری کرتے ہوئے انہوں نے لاہور کا رُخ کیا اور مسجد وزیر خان کے نزدیک ایک چھوٹی سی مسجد میں رہ کر اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے تگ ودو شروع کر دی۔
مسجد کا یہ درویش رات کو بھیگ مانگتا اور دن کو تعلیم حاصل کرتا۔ پھر مزید تعلیم کے لئے اپنے ایک دوست کے مشورہ اور اعانت سے عازم دہلی ہوا۔ جہاں اپنی دینی اور دنیوی تعلیم مکمل کی۔ اب سعد اللہ خان حافظ قرآن، ایک جید عالم اور بلیغ مقرر اور ایک صاحب قلم انسان تھے۔ دہلی میں بہت جلد موصوف کے علم وفضل اور ذہانت وتدبر کا چرچا ہو گیا۔ شاہجہان کو جب اس کا علم ہوا تو اس کے حکم پر 21؍دسمبر 1640ء کو آپ کو شہنشاہ کے حضور پیش کیا گیا۔ شہنشاہ کی مردم شناس نگاہوں نے آپ کا تدبر اور معاملہ فہمی کو بھانپ لیا اور اسی دن شاہی ملازمت کے عہدہ پر فائز کر دیا۔ یکم دسمبر 1645ء کو آپ لیاقت کی بناء پر سلطنت مغلیہ کے وزیراعظم کے عہدہ پر فائز کر دئیے گئے اور علامی فہاجی جملۃ الملک کے خطاب اور اختیارات سے نوازے گئے۔ آپ کا درباری منصب سات ہزاری تھا جو شاہی خاندان کے باہر سب سے بڑا منصب ہوتا تھا۔ 1650ء میں آپ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ایک کروڑ دام انعام عطا ہوا۔
اگرچہ شاہجہان کی تعمیرات یعنی تاج محل آگرہ، موتی مسجد ، شاہجہان آباد (دہلی) لال قلعہ ، تخت طاؤس، جامعہ مسجد دہلی، دیوان خاص لاہور، شالامار باغ مع سومیل لمبی نہر، اس کے علاہ بلخ بدخشاں کا لامتناہی سلسلہ جاری تھا۔ مگر سعداللہ خان کے حسن انتظام اور دُور اندیشی کا یہ نتیجہ تھا کہ 1655ء میں جب اُن کا انتقال ہوا تو خزانہ پُر تھا اور 24؍کروڑ روپیہ نقد اور 16؍کروڑ کا سونا چاندی، جواہرات اور نقرئی برتن موجود تھے۔ مؤرخ الفنٹن لکھتا ہے کہ ہندوستان کے وزیروں میں سے سعد اللہ جیسا کوئی وزیر نہیں ہوا۔ اورنگ زیب نے مختلف عہدیداروں کو لکھے جانے والے خطوط میں سعد اللہ خان کے طریقہ کار کی پیروی کی ہدایت کی۔ سعد اللہ خان نے انتظامی ہی نہیں بلکہ بعض فوجی ذمہ داریاں بھی بہادری قابلیت اور کامیابی سے سرانجام دی تھی۔ 1647ء میں شہزادہ مراد کے ہمراہ بلخ اور بدخشاں فتح کرنے کی مہم سر انجام دی۔ تین سال بعد انہیں فتح قندھار کے لئے متعین کیا گیا۔ مگر یہ مہم شاہی حکم سے چھوڑنا پڑی۔ 1654ء میں قلعہ چتور کو منہدم کرنے کی مہم کو سر کیا۔