سفرنامۂ عشق

سفرنامۂ عشق
از ازل چون عشق باجان خوی کرد
شور عشقم این چنین پُر گوی کرد
(عطار)
چونکہ ابتداء سے عشق نے میری جان سے وابستگی پیدا کر لی تھی
جس کے شور اور خروش کی وجہ سے میں پُر گو ہوگیا ہوں
عشق بولتا ہے
شش جہت چودھویں کے چاند کی کرنیں ہر شئے روشن کرر ہی تھیں۔ اور میں وفور شوق سے چاند کی طرف ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔ چاند سے مجھے محبت تو تھی مگر ایسا مسحور کن تو کبھی نا تھا جیسا آج لگ رہا تھا۔ سارے ماحول میں ایک ایسی خوشبو موجود تھی جس کو بیاں کرنا لفظوں سے باہر ہے۔ مگر یہ بات حق ہے کہ ایسی خوشبو کا پہلے کبھی سامنا نہ ہوا تھا۔
یہ تمام منظر ایک خواب کا حصہ تھا وہ خواب جو میرے ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک مجھ میں بس رہا تھا بقول شاعر ’’ اک خواب ہے اور مستقل ہے‘‘ ۔ اور مجھے اب تک اپنی خوش نصیبی پر یقین نہیں ہو رہا کہ میرا یہ ’’مستقل خواب‘‘ حقیقت کا روپ دھار گیا ہے۔ اللہ اللہ کہیں میری آنکھ ہی نہ کھل جائے ۔ کہیں میری گردشِ لہو رک نا جائے۔ پھر دل میں تسلی اُبھری کہ ساری عمر گزر گئی پلکوں سے درِ یار پہ دستک دیتے ، تو اب یہ خوش نصیبی ہی ہے کہ یار نے بڑی محبت سے بڑی شفقت سے اپنےگھر کے دروازے مجھ پہ کھول کر مجھے اندر بلا لیا ہے۔ الحمدللہ

اے پیاروں کے پیارے، اے میرے حبیبؐ میں ناتواں آپ کے در پر آیا ہوں میرا لباس گرد آلود اور پھٹا ہوا ہے میرا کشکول خستہ اور چھید وں والا ہے۔ مگر میری نگاہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان آپؐ اور صرف آپؐ پر ہے۔ آپؐ کبھی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے آپؐ نے کبھی سوال کرنے والے کو نہیں جھڑکا۔ تو بس میرےکشکول میں ایک سکہ ڈال دیں۔ میں جو کبھی آپؐ کو بابا اور کبھی جانِ جاں پکارتا ہوں مجھے لباسِ محبت عطا کریں اور مجھے قبول کر کے اپنی محبت کی تختی عطا کر دیں میری آنکھیں سبز کر دیں۔
دیکھ لینا ایک دن خواہش بر آئے گی میری
میرا ہر ذرہ محمدﷺ پر فدا ہو جائے گا
ہدیہ عقیدت
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
بحضور دربارِ محبت وعقیدت رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم بصد احترام
سب یادوں میں بہتر ہے وہ یاد کہ کچھ لمحے
جو اُس کے تصور کے قدموں میں گزار آئی
یا ابوالقاسم!
بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے قلموں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعت ادا ہوئی۔ جن کے لفظوں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحمت کی یاد نکلی وہ صفحے مقدس ہیں جن پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نامِ مبارک لکھا گیا وہ گھر بابرکت ہیں جنکی چار دیواری میں بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان کتابوں میں محفوظ کی گئی وہ آنکھیں جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر کرتے برساتوں روئیں وہ دل جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان عظمت و فضائل کے تذکرے میں دریا نرم ہوئے وہ روحیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نسبت مسرت و شادمانی میسر ہوئی۔
اے فنا فی اللہ شاہ مدینہ، اے ابوالخیر!
میں تو اِس قابل نہیں کہ خود کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا غلام آپ کے نعلین مبارک کی مٹی لکھ سکوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حیاتِ جاودانی کا وہ فرحت افزاء جھونکا ہیں جو میدانِ حشر کی ہولناکیوں میں یاد آئے تو ہر معاملہ آسان ہو جائے۔ میری جبیں بارگاہِ ایزدی میں اظہرِ تشکر کے لئےجُھک جُھک جاتی ہےکہ میرا دل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذکر سے ،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعت سے چین پاتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نبی الزماں ہیں سرورِ کائنات ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ مطہر نافع الناس وجودِ کامل ہیں جس سے جُڑ کر انسان “عبدالرحمٰن” ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ اقدس کا ہر لمحہ اِک کائنات کا سفر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دستِ رحمت حمدِ الٰہی کا پرچم تھامے ہوئے ہیں، عرش و فرش آپ پر نازاں ہیں۔
میرے ماحی!
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نغماتِ حُسن کی صدا ، اُن کی بازگشت جب میرے نفسی کائنات کے نہاں خانوں میں پہنچتی ہے تو میرے تخیل چین پاتے ہیں۔ میرے ذوق و شوق وجد و حال کے شبستانِ عشق میں نورِ حُسن کی شعاعیں رقص کرتی ہیں۔
اے پیکرِ نور علیٰ نور! میں اللہ تعالیٰ کی شانِ کبریائی کے مضبوط قلعے کی فصیل سے ٹیک لگائےتپتی سخت دھوپ میں بیٹھا مثلِ موسیٰ پکار رہا تھا
رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ
اے میرے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دِکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں۔
اب حریمِ ناز نے میرے عشق کی بیتابی دیکھ کر مجھ پر مجھ پر رحم کیا اور نقاب اُلٹ دیا، حُسن میری سامنے کیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں پیارے ہادی! آپ میں شانِ خداوندی ہے۔ عاشقانِ صادق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حُسن کا نقشِ کامل عالمِ ہست و بود میں نظارہ کرتے ہیں۔
آپ کے حضور میری التجا ہے اے محسنِ انسانیت! طیب و طٰہٰ
اے یٓس کے بستر پہ لیٹے مزمل و مدثر!
میری تلاش میری مُراد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ بس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اولادِ آدم کی آخری اُمید، آپ کو خِلعتِ سرداری عطا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دم سے رگوں میں روشنی جسم میں حرارت ہے، آپ کا مقام مقامِ شفاعت ہے۔
مجھ حقیر پر تقصیر کو، گناہ گار، ناکام کرمِ خاکی کو اپنی شفاعت سے محروم نہ رکھئیے گا، میرا ہاتھ پکڑلیں اور مجھ گِرتے کو تھام لیجئے گا۔ اِس بزمِ ہستی میں مبارک حُسنِ صورت اور حُسنِ سیرت آپ ہیں میری آنکھ میں جرات نہیں قلم میں طاقت نہیں کہ میرے آقا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھ اور لکھ سکوں۔
بس التجا ہے رحیق المختوم کو میرے حبیب محروم نہ رکھنا۔
میں وہ الفاظ کہاں سے لاؤں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت کا حق ادا کر سکوں میرا روم روم آپ کے عشق کے شہد میں ڈوبا ہوا ہے تو آپ اے والئی مسکین میری التجا رب کے حضور پہنچا دیں کہ وہ میری آنکھیں آپکی محبت و عشق میں ’’سبز‘‘ کر دے اور روح کو اویس قرنی سے نسبت ہو جائے۔ آمین
جسمي يطير اليك من شوق عل
ياليت كانت قوة الطيران
پہلی خواہش
مجھے یاد ہے میرے دل میں مکہ مدینہ کی چاہت کب پڑی ان گلیوں سے عشق کی داغ بیل ربوہ میں پڑی ۔ جب گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں سب گھر والے قیلولہ کر رہے ہوتے تھے تب میں سب سے ہٹ کر ایک کونے میں حضرت مصلح موعودؓ کی تصنیف لطیف ’’دیباچہ تفسیر القرآن‘‘ پڑھ رہا ہوتا۔ اس کتاب میں میری دل چسپی اس کا وہ حصہ تھی جہاں سیرت النبیؐ کا ذکر ہے۔ زندگی میں پہلی مرتبہ سیرت النبیؐ اسی معرکتہ الآرا کتاب میں پڑھی تھی۔ پھر یہ کتاب اتنی مرتبہ پڑھی کہ اُس کے صفحات جگہ جگہ سے اُکھڑنے شروع ہو گئے۔ یہ کتاب میرے عشق کی پہلی اینٹ تھی اور یہ انہی دنوں میری پہلی خواہش دُعا بنی کہ یا اللہ مجھے بھی کبھی اس مقدس وجود کا گھر دکھا۔ مجھے بھی ریاض الجنتہ میں چند گھڑیاں عطا فرمااور توفیق دے کہ روزہ رسولؐ کے پاس اپنا مدعا بیان کر سکوں۔
اور آج سر پر چودھویں کا چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے میرا رواں رواں خدا کے حضور سجدہ ریز ہے۔میرے سامنے گنبد خضریٰ ہے جس کے عقب میں چاند ہے جس کی دودھیا روشنی میں میں نہلایا جا رہا ہوں دل میں حمد ہے لبوں پہ درود اور آنکھیں ملن کی گھڑیوں میں برسات برسا رہی ہیں۔۔
یا رب صلی علی نبیک دائما
فی ھذہ الدنیا وبعث ثان
لندن
دوہزار چودہ میں اپنے دوست مدثر کو کہا کہ یار چلو عمرہ کر کے آتے ہیں۔ مگر یہ کہتے ہوئے دل میں ایک خوف بھی تھا کہ کہیں مدثر مان ہی نا جائے۔ اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ مدثر نے جواب دیا کہ فی الحال ممکن نہیں۔ اس کے بعد وہ بھی اور میں بھی کاروبارِ زندگی میں مصروف ہو گئے ۔
کئی سالوں بعد اکتوبر دوہزار اکیس میں مدثر نے کہا کہی چلو عمرہ کر کے آتے ہیں مگر ان دِنوں میرا جانا بوجوہ ممکن نہ تھا۔ سو اب کی بار بھی یہ خواہش پروان نہ چڑھی ۔ مگر عشق کا گھوڑا سینے کے پنجرے میں میں بار بار سر ٹکراتا رہا ہلچل مچاتا رہا۔
گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
پھر رشیا اور یوکرائن کی جنگ کی خبریں دیکھتے دیکھتے اچانک ایک دن مدثر کو کال کی کہ چلو یار چلتے ہیں۔ مگر اب کی بار دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی کہ یا اللہ مدثر مان جائے۔ اس نے ایک کمزور سا ایک عذر پیش کیا جس کو نظرانداز کر کے زور دیا کہ اب کی بار جانا ہے اور وہ راضی ہو گیا۔جلدی اس خوف کی وجہ سے تھی کہ رشیا اور یوکرائن کی جنگ اللہ نہ کرے کہ پھیل کر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور تمام راستے کہیں بند نا ہو جائیں اور یہ کہ پتا نہیں جنگ میں زندہ بھی بچتے ہیں یا نہیں اور جانے جنگ کتنی دیر رہے اور بعد از جنگ حالات کیسے ہوں توہمارے پاس یہی بہترین موقع ہے کہ جایا جائے۔ تو مدثر کے حامی بھرنے کے بعد تیاری شروع کر دی۔سعودیہ میں مقیم ایک واقف کار سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ اگر ہم مکہ جائیں گے تو سعودی قانون کے مطابق ہمیں تین دن قرنطینہ میں رہنا ہوگا اور ان تین دنوں میں ہمیں حرم جانے کی اجازت نہیں ملے گی جبکہ اگر ہم مدینہ آجائیں تو تین دن قرنطینہ تو ابھی بھی کرنا پڑے گا مگر ان دنوں میں ہمیں نماز پڑھنے کے لیے مسجد نبوی جانے کی اجازت ہوگی۔ اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں۔ تو صاحب یہی پلان بنا کہ لندن سے جدہ اور جدہ ائر پورٹ سے ہی مدینہ بذریعہ ٹرین جایا جائے اور مدینہ چند دن ٹھہرنےکے بعد مکہ بذریعہ کار جایا جائے گا۔
ویزہ اپلائی کرنے سے پہلے جب اپنا پاسپورٹ دیکھا تو اس کی مدت آٹھ ماہ میں ختم ہو رہی تھی میں نے فوراً نئے پاسپورٹ کے لئے آن لائن اپلا ئی کر دیا جب ہوم آفس اپنا پرانا پاسپورٹ ارسال کر دیا تو نئی پریشانی لاحق ہو گئی کہ اگر نیا پاسپورٹ آنے میں دیر ہو گئی تو کیا ہوگا۔ خیر اللہ اللہ کر کے دو ہفتے میں نیا پاسپورٹ آگیا جو کہ میرے لئے ایک معجزے سے کم نہ تھا۔
جس دن پاسپورٹ آیا اُسی شام ویزہ اپلائی کردیا۔ میسیج آیا کہ چوبیس گھنٹوں میں ویزہ ای میل ہو جائے گا۔ اگلے دن مدثر نے گلف ایئر کی ٹکٹس بک کر لیں اور اب ویزہ کا انتظار۔ تین دن گزر گئے مگر ویزہ ندارد۔ مدثر کہنے لگا کہ اس ویب سائٹ پہ دیے گئے ای میل ایڈریس پر ای میل کی جائے کہ ویزہ کا کیا بنا؟ پہلے مدثر نے ای میل کی تو فوراً انکا جواب آیا کہ ’’تاخیر کی معذرت ‘‘ اور دوسری ای میل میں ویزہ مل گیا ۔میں نے بھی اس کے بعد ای میل پر ویزہ کی بابت دریافت کیا تو فوراً معذرت والی ای میل کے بعد ویزہ والی ای میل مل گئی۔
جب ویزہ پرنٹ کر کے ہاتھ میں پکڑا تو مانویقین ہی نا آیا کہ یہ سچ میں جانے کا پروانہ ہے۔ آنکھوں سے آنسوؤں نے نکل کر یقین دلایا کہ یہ سچ ہے اور ہم واقعی حبیب کبریاؐ کے شہر مدینہ جارہے ہیں۔
ساری زندگی تن ڈھانپنے اور پیٹ بھرنے کی کوشش کرتے گزر گئی مگر قریبی تعلق داروں، دوستوں، کبھی سجدوں میں سرگوشیوں، اشاروں کنایوں او ر کبھی ویران جگہوں پر بآواز بلند مدینہ کی خواہش کا اظہار کر چکا تھا مگر ہاتھ کشادہ نہیں ہورہے تھے۔ کوئی سبیل نہیں بن رہی تھی۔ کبھی کوئی مجبوری آڑے آجاتی اور کبھی کوئی ضرورت راستے کی رکاوٹ بن جاتی۔ والدہ محترمہ نے گئے برسوں اپنی ایک ہی خواہش کااظہار کیا تھا کہ ’’کبھی موقع ملے تو عمرہ ضرور کرنا‘‘ ۔ ان کی خواہش کی تکمیل ہونے والی تھی۔ ویزہ کی خبر انکو جب دی تو ان کی آنکھوں کی چمک بھی بڑھ گئی مجھے فوراً گلے لگایا اور شکر کے کلمات ادا کئے کہ اللہ نے ان کی سن لی۔
لندن میں ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی، میری آنکھیں بھی برسات برسا رہی تھیں مگر دل میں سکون کا پرندہ اُتر رہا تھا۔ میں وضو کر کے دو رکعت شکرانے کے نفل ادا کرنے کے لئے جائے نماز پر کھڑا ہوگیا۔
سکونِ قلب ملا۔۔۔لذت حیات ملی
درِ حبیب ملا تو ساری کائنات ملی
اے عشق مجھے آپؐ کی سرکار میں لے چل
خداخدا کر کے وہ د ن آگیا کہ جب ہمیں ارضِ مقدس کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اس سے پہلے ہر مرحلے پر امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کو خطوط لکھنے اور صدقہ دینے کا سلسلہ جاری تھا اور آج بھی خط دعائیہ خط لکھا اور ساتھ ہی اجازت چاہی کہ خلیفۃ المسیح کی طرف سے عمرہ کرنے کی خواہش ہے سو اجازت دی جائے۔ ویزہ ملنے کے بعد سے آج کے دن تک جس بے چینی اور بے تابی کا سامنا تھا اس کی جگہ ہاتھ پیروں سے جان نکلی جا رہی تھی۔ ایک عجیب سی کیفیت کا شکار ہو رہا تھا ایک خوف تھا کہ کہیں یہ کرمِ خاکی لوٹا نہ دیا جائے۔ کیا ہو کہ اگر قبولیت کا پروانہ نا ملے ؟ کیا ہو کہ عین وقت پہ کوئی روک آجائے؟یا وہاں جا کر صحت کو مسئلہ نہ ہوجائے؟ الغرض ہزاروں اندیشوں نے گھیر رکھا تھا مگر درود پاک کاورد جاری تھا جس کی وجہ سے بڑا حوصلہ مل رہا تھا ۔ خود کولاکھ کوشش سے پرسکون رکھ رہا تھا مگر آنکھیں بات بات پہ چھلک رہی تھیں۔ بقول شاعر’’آنکھوں کے ساحلوں پہ ہے اشکوں کا اک ہجوم‘‘
ہماری فلائٹ رات ساڑھے نو بجے کی تھی اور پلان یہ تھا کہ میں مدثر کو اس کے گھر سے ساتھ لونگا اور ہم وہاں سےہیتھرو کے لیے جائیں گے۔ گاڑی ائیر پورٹ پر پارکنگ کے لئے دے دیں گے جو واپسی پر ہمیں مل جائے گی۔ اب رخصت کی گھڑی آگئی تھی محترمہ والدہ کو اور بہنوں بھائی کو ویڈیو کال پہ رخصت چاہی اور جانے انجانے میں جو زیادتیاں غلطیاں ہوئیں انکی معافی مانگی اور ساتھ ایک خواہش کا اظہار کیا کہ اگر مکہ یا مدینہ میں اجل آگئی تو خدارا مجھے وہیں رہنے دینا (میری شدت سے دعا بھی ہے کہ کاش مدینہ میں دم نکلے۔ آمین )
سب کو سلام کر کے صدقہ دیا اور اجتماعی دعاکے بعد گھر سے نکل آیا۔ شام کے ساڑھے چار ہو رہے تھے اور بارش زوروں پہ تھی ۔ اور جب مدثر کے گھر کی طر ف جا رہا تھا تو ٹریفک بارش کی وجہ سے معمول سے زیادہ آہستہ چل رہی تھی۔ اسکا گھر میرے گھر سے چالیس منٹ کی مسافت پہ ہے۔ اور یہ چالیس منٹ ایک گھنٹے میں کٹے۔ وہاں سے اسے بٹھایا اور ہیتھرو کی طرف چل نکلے۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب خیر رہی اور سفر آرام سے کٹ گیا۔ قریباً شام چھ بجے ہیتھرو پہنچے اور امیگریشن کے معاملات سے ساڑھے سات بجے تک فارغ ہو کر ویٹنگ ایریا میں آبیٹھے۔ بار بار یہ مصرعہ زبان پر رواں تھا
’’اے عشق مجھے آپ کی سرکار میں لے چل‘‘۔
مرحلے شوق کے دشوار بہت
جہاز پر جب سوا نو بجے بیٹھے تو ایک مرحلہ طے ہونے پر سکھ کا سانس ملا۔چھ گھنٹے کی بحرین تک پرواز سوتے جاگتے گزری اور پھر بحرین کے ویٹینگ ایریا میں چار گھنٹے انتظار کا عرصہ شاید پون صدی جاری رہا۔ بار بار وقت پہ نظر دوڑا رہا تھا اور دل کر رہا تھا کہ جلدی سے اگلی فلائٹ اڑنے کا اعلان ہواور ہم معشوق کے محلے کی طرف سفر شروع کریں۔ آخر جہاز پر سوار ہونے کا اعلان ملا اور دل حلق میں آگیا۔ وہ گھڑی جس کا انتظار تھا جب آئی تو ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے۔ بحرین سے جدہ دو گھنٹے کی فلائٹ تھی جو میری زندگی کے سب سے لمبے دو گھنٹے تھے جب جہاز سعودی عرب کی فضاوں میں داخل ہوا تو میں نے جہاز کی کھڑکی کے پردے گرا دیے مبادا کعبہ نظر آجائے او ر پہلی نظر کی دعا کا صحیح موقع نہ مل پائے۔ جدہ جہاز سے بارہ بج کر پینتالیس منٹ پر اتر کر موبائل فون سم خریدی اور ساتھ کھانا کھایا، ہماری ٹرین ساڑھے پانچ بجے تھی سارا ائیرپورٹ ایئرکنڈیشن کی بدولت ٹھنڈاٹھار تھا مگر مجھے مدینہ کا سوچ کر پسینے آرہے تھے۔ نمازوں سے فارغ ہو کر ہم دونوں ٹرین اسٹیشن پر آ بیٹھے پونے پانچ بجے ٹرین پر سوار ہونے کا اعلان ہوا۔ باہر نکلے تو عرب کی تپتی ہوا نے استقبال کیا۔ یہ ہوا ناگوار ہرگز نہ لگی۔ یہ میرے محبوب میرے آقا کےپیارے دیس کی ہوا تھی۔اس ہوا کے آباء نے سید بادشاہ کے پاکیزہ وجود کو چھوا تھا میں نے نئی بستی میں داخل ہونے کی دعا کی اور اس کے تمام بزرگوں کو السلام علیکم کہا۔ پھر ٹرین میں سوار ہوئے اور تھوڑی دیر بعد ٹرین جدہ سے مدینہ کہ طرف روانہ ہو گئی یہ ایک گھنٹے اڑتالیس منٹ کا سفر تھا۔۔ اب ہم قریب تھے۔ آقا میرے آقا ہم آرہے ہیں۔ اے غریبوں کےوالی اے دکھوں کا مداوہ کرنے والی ہستی ہم آرہے ہیں۔ اے نوازے والے میرے ماحی ہم آرہے ہیں۔
ہواؤ ہم پہ مہربان رہنا، اےوقت جلد گزرنا۔ اے اللہ ہم پہ مہربان رہنا اور اپنے پیارے کو ہماری اطلاع دینا۔ بقول شاعر۔
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب ِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ
مدینہ میرا مدینہ
اب ٹرین مدینہ پہنچ چکی تھی۔ حسب معمول نئی بستی میں داخل ہونے کی دعا پڑھی اور اس بستی کے تمام بزرگوں کو سلام کہا اور پھر دل ہی دل میں اپنے محبوب اپنے آقا ﷺ کو بصد عجز منت بصد احترم مخاطب ہوا کہ ’’اے طٰہٰ ،اے ابوالقاسم ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ اے محبوب الٰہی حاضر ہوں ۔ کمی کوڑھی ہوں مگر آپ کا ہوں آپ کے در پر جنم جنم سے بیٹھا ہوں میرے ماں باپ سب آپؐ پر قربان، مجھے آپؐ سے بڑی محبت ہے مجھے اپنی محبت عطا کیجیے مجھے قبول کرلیجیے اور میری جھولی بھر دیجیے۔ میری آنکھیں سبز کر دیں۔آمین
اللھم صلی علی محمد وبارک وسلم
ڈرائیور آیا اور ہم اپنے ہوٹل کو چل دیے۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ پلیز مسجد نبوی کی طرف سے ہو کر ہوٹل جانا۔ کہنے لگا ہم اسی طرف سے جا رہے ہیں اور جب مسجد کے مینار نظر آنے لگے تب میں آپ کو بتا دوں گا۔ وفور شوق سے پوری کھلی آنکھوں سے مدینہ کی شاہراہوں کو دیکھ رہا تھا۔اس بستی سے محبت ہر ایمان والے کو ہے۔ اس میں وقت گزارنا سب کی خواہش ہے اور رب کرے کہ سب کو یہ موقع ملے۔ اچانک ڈرائیور نے کہا حاجی صاحب (وہاں سب کو حاجی صاحب یا پھر محمد کے نام سے پکارا جاتا ہے) وہ سامنے دیکھیں مینارے نظر آرہے ہیں۔
ہائے ہائے میری خوش نصیب آنکھیں۔ مجھے سبز روشنی میں نہلائے مینارے نظر آئے وہ مینارے جو ساری عمر ٹی وی یا تصاویر میں دیکھتے رہے وہ مجھے نظر آرہے تھے۔ مجھے یقین ہوگیا کہ میں مدینہ میں ہوں۔ واللہ میں اپنے مدینہ میں ہوں
اِس شہر کی گلیوں کو مرکز کردے
تُو سبز مری آنکھوں کی رنگت کردے
(فاروق)
ہوٹل پہنچ کر تھوڑا ہاتھ منہ دھویا اور باہر کھانا کھایا۔ پھر واپس ہوٹل آگئے۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ مدثر کو کمرہ میں چھوڑ کر میں مسجد نبوی کی طرف نکل آیا۔ ہوٹل سے دس منٹ کی مسافت پہ مسجد تھی۔ جوں جوں مسجد قریب آرہی تھی میری سسکیاں مکمل بآواز رونے میں بدل چکی تھیں۔ راستے میں کسی نے حیران نظروں سے نہ دیکھا کہ روتے سائل یہاں عام تھے۔داخلی دروازے پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ اندر نہیں جا سکتے ۔ مسجد بند ہے اور صرف انہیں کو اندر داخل ہونے کی اجازت ہے جنہوں نے بذریعہ موبائل ایپلیکیشن وقت بک کیا ہوا ہے۔ اور ہماری بدقسمتی کہ بہت سے اور لوگوں کی طرح ہماری ایپ چل نہیں رہی تھی۔ ہائے مجھ پیاسے کی قسمت کہ لبِ آب آکر بھی پیاسا رہا۔
اے محبت عجب آثار نمایاں کردی
زخم و مرہم برہِ یار تو یکساں کردی
اے محبت تیرے آثار و نشانات کتنے عجیب و غریب ہیں تو نے محبوب کے رستہ میں زخم و مرہم (یعنی بیماری و علاج) کو ایک جیسا بنا رکھا ہے۔
حضرت اویس قرنیؓ جب ایک مرتبہ مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ ﷺ کے گھر دستک دی، مگر آپؐ اس وقت موجود نہ تھے اور حضرت اویسؓ یمن واپس لوٹ گئے۔ مجھے اس وقت مسجد نبوی کے دروازے پر جب میں کھڑا تھا اور اندر نہ جاسکتا تھا تب حضرت اویس قرنیؓ کی کیا حالت ہوئی ہوگی مجھے کچھ اندازہ ہوا،مجھے انکا سوچ کر بھی دل بھرآیا کہ کیسے وہ واپس روتے سسکتے بلکتے اور تڑپتے واپس لوٹے ہونگے۔ اللہ اللہ
ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ جمعرات فقیروں کا دن ہوتا ہے اور لو گ بالخصوص جمعرات کو صدقہ خیرات کیا کرتے ہیں۔ آج مدینہ میں جمعرات ہے مگر سخی کادربان مجھے سخی کے پاس جانے نہیں دے رہا میرے قبلوت کا کشکول خالی ہے۔ یہ کیسی جمعرات ہےمالکا۔ میں حضرت اویسؓ تو کیا کسی کے بھی مقابلے پہ کچھ نہیں مگر جب واپس ہوٹل جا رہا تھا تب میری کیا حالت تھی یہ میں جانتا ہوں یا میرا مولا کریم۔ ہاں مجھے ایک دلاسا ضرور تھا کہ صبح پھر آسکتا ہوں انشاءاللہ ۔ اور صبح ہونے میں دیر ہی کتنی تھی۔ چند گھنٹے اور یہ چند گھنٹے سیکنڈز کی طرح گزر گئے۔
عید سعید
آج جمعہ کا مبارک دن ہے بے شک فقیر کو جمعرات کو خیر نہیں ملی مگر اس کے بدلے عید والا دن عطا ہوگیا۔ ہم دونوں مسجد نبوی میں پہنچ گئے۔ دروازے سے داخل ہوتے ہوئے ایک کپکپی سی طاری ہوئی ۔ ایک جلدی تھی کہ جلد از جلد سبز گنبد کے پاس پہنچا جائے۔ مگر اس سے پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کیے اور کچھ تلاوت کی پھر جی بھر کر وہاں موجود کولرز سے ٹھنڈا ٹھا ر زم زم پیا۔ شکر خدا کا کیا۔ پھر مسجد گھوم کر دیکھی۔ اور پھر روضہ رسولؐ کی طرف چل دیے۔ باب السلام کے پاس پہنچے تو پتا چلا کہ ابھی جا نہیں سکتے۔ خیر روضہ رسول کی طرف منہ کر کے سلام کیا اور ہاتھ اُٹھا کر دعا کی۔ آپ کی خدمت میں تمام امت کا، خلیفہ وقت کا ، سب احمدیوں کا اپنی فیملی کا تمام دوستوں ، عزیزوں رشتہ داروں کا ،اور جو جو ذہن میں نام آیا ان کا سلام حضور پاکؐ کو پہنچایا۔ کافی دیر چپ چاپ باب النبی کے سامنے کھڑے رہے جب تک کہ شرطے نہ وہاں سے ہٹنے کا اشارہ نہ کر دیا۔ وہاں سے جنت البقیع کی طرف گئے جو کہ بند تھا۔ مگر دیوار کے پاس اس طرف منہ کر کے السلام یا اھل القبور کہا اور دل کی تسلی کے لئے دعا پڑھ لی۔ ہماری آج عید تھی اور ہم بہت خوش تھے۔آنکھیں ہر جگہ چوم رہی تھی۔ مسجد کا ٹھنڈا ٹھار فرش روح تازہ کر رہا تھا۔ ساری توجہ سبز گنبد کی طرف تھی اور آنکھیں اس طرف ہر لمحہ لوٹ جاتی تھیں۔ رحمت اللعالمینﷺ کے دامن کی چھاوں میں سکون ہی سکون تھا۔ نہ کوئی غم دنیا نا کوئی فکر نہ کوئی اور سوچ۔سوائے ایک سوچ کے کہ کب روضہ رسول کے روبرو ہونگے ۔
باقی کا دن ادھر ادھر پھرتے رہے ، کھانا کھایا اور پھر رات کو دوبارہ واپس مسجد لوٹ آیا۔ چودھویں کا چاند جیسے مسکرا رہا تھا۔ میرے لیے خوش تھا کیونکہ تھوڑی دیر میں میرے ساتھ کچھ انہونی ہونے والی تھی۔ میں جنت البقیع کی طرف سبز گنبد کو یک تک دیکھ رہا تھا کیونکہ اس کے نیچے روضہ رسول ہے۔ اچانک مسجد کے دوسرے حصے کی طرف لوگ بھاگنا شروع ہو گئے۔ میں نے بھی اس طرف بھاگنا شروع کر دیا اور ایک بندے سے پوچھا کیوں بھاگ رہے ہیں کہنے لگا روضہ رسولؐ پر حاضری ہو رہی ہے۔ لوگ وہاں جا رہے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ میرے پیر الف ہو گئے۔ میرے سے پہلے بہت سے لوگ داخلی دروازے پر جمع تھے۔ میری باری آنے پر میں سر جھکا کر اندر داخل ہوگیا۔
دیہاتی بھائی زاہر اور میں زائر
زاہر بن حرام نامی ایک دیہاتی اکثر آنحضرتﷺ کے لئے گاوں کی چیزیں تحفہ کے طور پر لایا کرتا تھا اور آپؐ بھی اُس کی واپسی پر شہر کی کوئی نہ کوئی سوغات ضرور عنایت کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا کہ ’’زاہر ہمارا دیہاتی بھائی ہے اور ہم اس کے شہری بھائی‘‘
آپؐ کو زاہر سے بے حد انس تھا زاہر کی شکل و صورت اچھی نہ تھی ایک دن وہ اپنا سودامدینہ کے بازار میں بیچ رہا تھا کہ حضورﷺ پیچھے سے آئے اور بے خبری میں اس کی آنکھیں موند لیں۔ اس نے کہا کون ہے مجھے چھوڑ دے۔ مگر جب مڑ کر دیکھا تو آنحضرت ﷺ تھے ۔ جس پر زاہر زور سے سے اپنی کمر حضورﷺ کے سینہ مبارک پر ملنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا ’’ یہ غلام کون خریدتا ہے؟‘‘ زاہر کہنے لگا یا رسول اللہﷺ ! تب توآپ مجھے ناقص مال پائیں گے۔ آپؐ نے فرمایا ’’مگر اللہ کے نزدیک تو تُو ناقص مال نہیں ہے‘‘۔
لوگوں کے ہجوم میں شامل ہوکر میں اب روضہ رسولؐ کی جالیوں کے سامنے کھڑا ہوں۔ بس چلتا تو دو زانوں حالت میں ہاتھ جوڑ کر سلام پیش کرتا ۔ مگر موقع نہیں تھا۔ آپؐ اور آپؐ کے پیارے اصحاب رضوان اللہ علیھم اجمعین پر سلام کے بعد دل کا حال کہنے کا موقع ملا۔ ’’ یا رسول اللہ! میں زاہر کی طرح خوش نصیب نہیں مگر زائر بہرحال ہوں۔ غریب ہوں کم شکل ہوں زاہر کی طرح آپ کا دیہاتی بھائی نہیں ہوں بلکہ میں تو کرمِ خاکی ہوں میرے بس میں ہوتا تو آپ کے کے نعلین مبارک کے نیچے لگی خاک کا سب سے ادنیٰ ذرہ ہوتا تو بھی تمام کائنات مجھ پہ رشک کرتی۔میرے پاس زاہر کی طرح مدینہ میں بیچنے کو کچھ سامان نہیں اور میری شکل نا عقل مگر آپکے دربارمیں اپنا آپ لیکر حاضر ہوں سب آپ کے قدموں میں حاضر ہے۔ قبول فرمالیں۔ مجھ ناچیز غلام ابن غلام کو اپنی محبت عنایت کردیں۔ مجھ فقیر کی جھولی میں اپنی نسبت کے سکے دان کر دیں اور میری آنکھیں سبز کر دیں۔ مجھ دیوانے کو اپنی چادر میں سمیٹ لیں کہ میری طلب بس آپ ہیں‘‘۔
’’شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں لے جلدی خبر
خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا‘‘
روضہ کے سامنے عموماً چند پل کھڑے ہونے کا موقع ملتا ہےکیونکہ محافظ ہرایک کو مسلسل آگے بڑھنے کا بول رہے ہوتے ہیں۔ مگر میرے ساتھ انہونی ہوئی کہ میں کوئی آدھ گھنٹہ یا اس کے قریب ایک سائیڈ پر قریباً عین سامنے ہاتھ اٹھائے مناجات و سلام کرتا رہا اور کسی نے مجھے آگے بڑھنے کو نا بولا۔ الحمدللہ
حسن نثار کی نعت بے اختیار درود و سلام کے ساتھ خواہش بن رہی تھی کہ
تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
کوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتا
خاک ہوتا میں تیری گلیوں کی
اور تیرے پاؤں چومتا ہوتا
تیرے حجرے کے آس پاس کوئی
میں کوئی کچا راستہ ہوتا
وہاں کھڑے ہو کر جتنی دعائیں یا د تھیں وہ سب بھول گئیں اور بس ایک ہی خواہش دعا بنی لبوں پہ مچلتی رہی کہ مجھے محبت مل جائے۔ آپؐ کی محبت ۔ یعنی ’’ صدیق کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس‘‘
زیارات ِ مدینہ
میرے لئے مدینہ منورہ سارے کا سارا بابرکت ہے کہ ان تمام جگہوں پر کبھی نہ کبھی پیارے آقاؐ نے وقت گزارا ہوگا۔ مگر جو پرانی یادگاریں موجود ہیں ان کو دیکھنا لازمی تھا سو اس کام کے لیے ایک دن مخصوص رکھا تھا۔ مسجد نبوی کے بلکل قریب مسجد غمامہ، مسجد ابوبکر، مسجد علی، مسجد بلال پہلی فرصت میں دیکھ لیں۔
مسجد نبوی۔ ایتھے میرا سوہنا وسدا
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ رونق افروز ہوئےتو مسلمان عورتیں اور لڑکیاں خوشی کے جوش میں اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ چڑھ کر گانا گا رہے تھے
طَلَعَ البَدْرُ عَلَیْنَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِنْ ثَنْیَّاتِ الْوَدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا۔۔۔۔۔۔۔ مَا دَعٰی لِلہِ دَاعِ
(ہم پر کوہِ وداع سے چودھویں کا چاند طلوع ہوا ہے اب ہم پر ہمیشہ کے لئے خدا کا شکر واجب ہو گیا ہے)
لوگ جوشِ محبت سے آپؐ کی اونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تھے تاکہ انکے گھر آپؐ رہائش پذیر ہوں۔ مگر آپؐ نے فرمایا کہ ’’میری اونٹنی کو چھوڑ دو یہ اس وقت مامور ہے۔‘‘
اونٹنی تھوڑی دور خراماں خراماں چلتی ہوئی موجودہ مسجدِ نبوی کی جگہ پر بیٹھ گئی پھر اُٹھ گئی اور چند قدم چلنے کے بعد پھر واپس لوٹ آئی اور بیٹھ گئی۔ آپؐ نے فرمایا ھٰذَا اِن شَاءَ اللہُ الْمَنْزِلُ۔
تو جس جگہ آپ کی اونٹنی بیٹھی وہ دو یتیم بھائیوں سہل اور سہیل کی تھی۔ اس جگہ کہ آپؐ نے اپنے حجرات اور مسجد کے لیے پسند فرمایا ۔ دونوں بھائیوں کے انکار کے باوجود انہیں اس زمین کی قیمت جو کہ قریباً دس دینار تھی ادا کی گئی۔ اور پھر اس جگہ مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی۔ اس مسجد کی شان کی کیا بات ہے اللہ اللہ۔اس کی تعمیر کے دوران صحابہ کبھی حضرت عبداللہ بن رواحہؓ انصاری کا یہ شعر پڑھتے۔
ھٰذَا الحِمَالُ لَا حِمَالَ خَیبَر
ھٰذَا اَبَرُّ رَبَّنَا وَاَطھَر
ترجمہ: یہ بوجھ خیبر کا تجارتی مال کا بوجھ نہیں جو مویوشیوں پر لدا آتا ہے۔بلکہ اے ہمارے رب! یہ تو تقویٰ اور طہارت کا بوجھ ہے جو ہم صرف تیری رضا کے لیے اُٹھا رہے ہیں۔
اور کبھی یہ شعر پڑھتے:
اللھم ان الاجر اجر الاخرۃ
فارحم الانصارو المہاجرۃ
یعنی : اے ہمارے اللہ! اجر تو صرف آخرت کا اجر ہے ۔ پس تو انصار اور مہاجرین پر اپنے فضل سے رحمت نازل فرما۔
آنحضرت ﷺ بھی بعض اوقات اپنےاصحاب کے ساتھ ہم آواز ان اشعار کو دہراتے۔
ہم جب اس مسجد میں داخل ہوئے تو لگا ہی نہیں کہ پہلی دفعہ یہاں حاضر ہوئے ہیں۔ اس میں ایک ایسی اپنایت ہے جیسے بچپن سےیہاں حاضر ہوتے رہے ہیں۔اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنے کے متعلق حدیث ہے کہ سوائے کعبہ کے دوسری تمام مسجدوں میں ایک ہزار نمازوں سے بہتر ہے۔ مسجد کے اندر پرندے اڑتے آتے ہیں اور وہاں زائرین یا بعض اوقات خدمت گار انکے لئے گلاس میں پانی رکھ کے سامنے کر دیتے ہیں۔ اور پرندے آرام سے اپنی پیاس بجھا کر اُڑ جاتے ہیں۔
ہم بھی تو پرندے تھے جو اپنی پیاس بجھانے آئے تھے۔ اور یہ خواہش تھی کہ یہ پیاس کبھی نہ بجھے۔ ہمیں بار بار یہاں اپنی پیاس لےکر آنے کا موقع ملتا رہے۔ اور ہم بار بار یہاں اپنے آپ کو سیراب کرنے آتے رہیں۔
اسی مسجد میں روضہ رسول کے ساتھ اصحاب صفہ کا چپوترہ ہے اور ریاض الجنتہ ہے۔ مگر فی الحال ہم وہاں سے دور تھے۔ ہماری موبائل ایپ کام نہیں کر رہی تھی کہ ہم اس پر ٹائم بک کر لیتے ۔
اسی مسجد میں پہلی مرتبہ ہمارے سردار حضرت بلال ؓ کی آواز میں اذان گونجی تھی۔ اور آج وہی اذان دنیا کے چاروں کونوں میں خدا کی توحید اور محمد مصطفیٰﷺ کی رسالت کا اعلان کر رہی ہے۔ یہ مسجد ایوانِ حکومت کا کام کرتی تھی۔ تمام ریاستی امور یہیں طے ہوتے تھے۔ یہ مہمان خانہ بھی تھا اور جنگی قیدیوں کو بھی یہیں رکھا جاتا تھا۔ اسی جگہ حضور پاک ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے ہمراہ رہائش پذیر تھے۔
اوراسی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان اپنے رفیق اعلیٰ کے حوالے کی۔ اسی جگہ آپ اپنے دو پیارے ساتھیوں کے ہمراہ مدفون ہیں ۔ اس مسجد کی شان و محبت کو لکھتے ہوئے ایک سرشاری بھی ہے اور ایک طلب اور اداسی بھی ۔ کاش میں اس میں مزید اپنا وقت گزار سکتا۔
مسجد نبوی کے صحن میں لوگ بعض جگہ ٹولیوں کی صورت میں بیٹھ جاتے ہیں۔ قریباً آٹھ بجے صبح مسجد کے صحن کی چھتریاں کھول دی جاتی ہیں۔ چھتریاں کھلنے کا منظر بہت دیدہ زیب ہے۔ ننھے بچے ادھر اُدھر بھاگتے پھرتے ہیں۔ فیملیز کہیں بیٹھی کھا نا کھا رہی ہوتی ہیں۔ کہیں کوئی زائرین میں کچھ چیزبانٹ رہا ہوتا ہے۔ الغرض ایک محبت بھرا ماحول ہوتا ہے۔ کبھی کبھی گمان ہوتا ہے جیسے اس جگہ کوئی فکر پر بھی نہیں مارتی
مجھے سمجھ نہیں ہے کہ کیسے اس جگہ سے محبت کو لفظوں میں اتاروں؟ کیسے اس کے ٹھنڈے فرشوں کی ٹھنڈک الفضل کے قارئین تک پہنچاوں۔ وہاں پیے آب زم زم کی تازگی کیسے بیان کروں ۔
نزار قبانی نے کیا خوب کہا ہے کہ
’’لیس کل شیی ء فی القلب یقال، لذلک خلق اللہ التنھیدۃ، الدموع، النوم الطویل، الابتسامۃ الباردۃ، ورجف الیدین‘‘
دل کی ہر بات نہیں کہی جا سکتی، شاید اسی واسطے ہی ’’اللہ‘‘ نے خاموش آہیں اور سسکیاں بنائیں، آنسو پیدا کیے، طویل نیند بنائی، اور اسی خاطر ہی بے کیف مسکراہٹ اور وقتِ الوداع ہاتھوں کو ہلانے کا سامان پیدا کیا‘‘
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس جگہ جانے اور اس جگہ کی محبت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مسجد غمامہ
تاریخ اسلام کے مطابق مسجد غمامہ اس جگہ بنائی گئی ہے جہاں نبی کریم ﷺ نے پہلی دفعہ عید کی نماز ادا فرمائی تھی ۔ اسی جگہ ایک مدینہ میں قحط اور خشک سالی کی وجہ سے حضور پاکؐ نے نماز استسقاء بھی پڑھائی تھی اور اسی وقت بادل نمودار ہو ئے اور بارش شروع ہو گئی تھی۔ یہاں بعد میں یادگارکے لئے مسجد تعمیر کر دی گئی ۔ بادل آنے کی وجہ سے اسکا نام غمامہ رکھا گیا یعنی بادل والی مسجد۔
مسجد غمامہ اور مسجد ابوبکر میں نماز باجماعت ادا نہیں کی جاتی کیونکہ یہ مسجد نبوی کے بلکل قریب واقع ہیں۔ اکثر اوقات یہ مساجد بند رہتی ہیں ۔ البتہ کبھی کبھار زائرین کے لیے ان کو کھول دیا جاتا ہے۔ ہمیں ایک مرتبہ موقع مل گیا کہ مسجد غمامہ میں دو رکعت نفل ادا کر لیے۔
مسجد علی شیعہ زائرین کی وجہ سے مستقل بند کر دی گئی ہے۔ مگر شیعہ زائرین کا وہاں ہر وقت جھمگٹا رہتا ہے۔
مسجد نبوی سے بیس منٹ کی پیدل مسافت پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک مسجد ہے۔ یہ تین منزلہ عمارت ہے جس کی پہلی دو منزلوں پر مارکیٹ اور بازار واقع ہیں جبکہ تیسری منزل پر مسجد بلال ہے۔ جب ہم وہاں گئے تب یہ بند تھی اور پوچھنے پر بتایا کہ صرف فرض نماز کے لیے کھلتی ہے۔ اس کے اردگرد جو بازار ہے وہاں ضرورت کی تمام اشیاء سستے داموں مل جاتی ہیں ۔ دکان دار عموماً آپ کے اصل قیمت سے دگنا تگنا بتاتے ہیں مگر آپ کو وہاں نرخ کم کروانے چاہیں۔ ہم نے وہاں سے بعد میں احرام خریدے تھے۔
مسجد قبا
ایک یہودی کسی بلند مقام پر کھڑا تھا تیز دھوپ میں دور سے اس نے دو سفید لباس چمکتے دیکھے تو وہ بلند آواز میں چلایا: ’’یا معاشرالعرب! جس کی تُم راہ دیکھتے ہووہ آرہے ہیں‘‘
اہلِ مدینہ جوش اور خوشی سے دیوانے ہوکر بھاگتے ہوئے اپنے پیارے حبیب کے استقبال کے لئےشہر سے باہرنکلے۔
ڈرائیور سے ہم نے پوچھا کہ زیارات کرانے کا کیا پلان ہے۔ کہنے لگا ’’جیسے آپ کہیں‘‘ میں نے کہا کہ آپ کو کیا مناسب لگتا ہے؟ کہنے لگا پہلے مسجد قبلتین جائیں گے پھر اُحد پھر وہاں سے مسجد قبا۔
قبا کا نام سن کر باقی سارا پلان اُڑ گیا۔ اور قبا ہی روشن ہوا۔ میں نے عرض کی ۔ اے چار پہیوں والی مشینری ڈاچی کے مہار۔۔ہمیں پہلے قبالے چل۔
اور اب ہم قبا میں تھے کہ قبا میں ہونا بھی تو ایک نعمت ہی ہے۔
مسجد نبوی سے تین کلومیٹر دور انصار کی ایک بستی واقع ہے۔ جس کا نام قبا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اسلام کی پہلی مسجد کی تعمیر ہوئی تھی او راس مقام کی نسبت سے اس کو مسجد قبا کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد خالصتاً تقویٰ پر تعمیر کی گئی جس کی شہادت قرآن پاک میں سورہ التوبہ آیت ۱۰۸ میں موجود ہے۔ اسی نسبت سے اسے مسجد تقویٰ بھی کہتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ’’جو شخص اپنے گھر سے وضو کر کے مسجد قبا میں ۲ رکعت نماز ادا کرے تو اسے ایک عمرہ کا ثواب ملے گا‘‘۔
ہم نے بمطابق اس حدیث کے مسجد قبا میں بار بار عمرہ کیے۔ اس مسجد سے ایک خاص محبت محسوس ہو رہی تھی ، یہ وہ مسجد تھی جس کی بینادوں میں پہلا پتھر خود رسول اللہ ﷺ نے رکھا پھر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے ایک ایک پتھر رکھا۔ اسکے بعد تمام انصار و مہاجرین نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔اس مسجد کو دراصل مسلمانوں نے ایک قومی عبادت گاہ کے طور پر تعمیر کیا تھا۔
عالمِ تصور میں وہ مناظر گھوم رہے تھے کہ جب صحابہ اس مسجد کو بنا رہے ہونگے تو کیسے جوش و جذبہ ان کے چہروں سے چھلک رہا ہوگا۔ ان کو مکہ میں دارِ ارقم بھی یاد آرہا ہوگا کہ کیسے وہ چھپ چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے وہاں۔ انکو خانہ کعبہ میں عبادت کی وجہ سے پڑنے والی مار بھی یاد آرہی ہوگی۔ اور ان اصحاب رضوان اللہ کے دل اللہ تعالیٰ کے حضور شکرانے کے گیت گا رہے ہونگے کہ اب انہیں روئے زمین پر کوئی عبادت سے روکنے والا نہیں ہوگا۔ چند دن کی محنت سے تیار ہونے والی اِس مسجد سے رسول اللہ ﷺ کو آخر دم تک بڑی محبت رہی آپ قبا سے مدینہ چلے جانے کے بعد ہر ہفتے کبھی پیدل اور کبھی سواری پر اس مسجد میں عبادت کے لئے تشریف لایا کرتے تھے۔
سفید رنگ کی یہ عظیم الشان مسجد قدرے اونچائی پر واقع ہے۔ موجودہ سعودی حکومت نے اس میں اچھی خاصی توسیع کی ہے ۔ یہ دور ہی سے نظرآجاتی ہے۔ ہمارے بس میں ہوتا تو ہم مسجد میں زیاہ سے زیادہ وقت گزارتے مگر مسجد نبوی ہمیں زیادہ دیر دور رہنے نہیں دیتی تھی۔
انصارِ مدینہ کا خلوص اور ایک لطیفہ
جب میرے پیارے حضورﷺ مدینہ تشریف لائے تو بقول براء بن عازب ’’جو خوشی انصار کو آپؐ کے مدینہ تشریف لانے کے وقت ملی ویسی خوشی کی حالت میں میں نے انہیں کبھی کسی اور موقعہ پر نہیں دیکھا۔ ‘‘
آپؐ کلثوم بن الہدم کے مکان پر ٹھہرے۔ زیادہ تر اہلِ مدینہ نےآپؐ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جب آپؐ سے ملنے آتے تو بہت سوں نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کوہی رسول اللہ سمجھا۔ مگر جب محفل میں دھوپ چھائی تو حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اپنی چادر سے حضور ﷺ پر سایہ کر دیا۔ جس سے اہلیانِ مدینہ کی غلط فہمی دور ہو گئی۔
مسجد جمعہ
مقام قبا قیام کے دوران رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ کے ہمراہ انصار و مہاجرین کی ایک بڑی تعداد تھی۔ محلہ بنو سالم بن عوف پہنچ کر آپ نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور جمعہ کی نماز ادا کی۔ تاریخ اسلام کے مطابق گو جمعہ مکہ میں فرض ہو چکا تھا۔ مگر یہ پہلا جمعہ تھا جو آپؐ نے خود ادا کیا ۔ اس تاریخی مقام پر اب ایک نہایت دیدہ زیب مسجد موجود ہے۔
ہمیں معلوم ہوا کہ مسجد جمعہ سوائے فرض نمازوں کے بند رہتی ہے۔ ابھی فرض کا وقت نہیں تھا اور جمعہ بھی نہیں تھا۔ اس لئے ہم خاموش ہو گئے۔ ہم وہ گداگر نہیں تھے جو بھیک نہ دینے والے کو اگر برا بھلا نا کہیں تو کم ازکم گھوریاں ضرور دیتے ہیں۔ ہم تو نہایت سادہ اور مسکین سے گداگر تھے جو کہتے تھے کہ ’جو دے اسکا بھی بھلا، جو نا دے اسکا بھی بھلا‘‘
جبلِ اُحد
پھر ڈرائیور ہمیں اُحد لے آیا۔ اور اُحد آکر زخم تازہ ہوگئے۔
تاریخ ِ اسلام کا ایک دردناک مقام کہ جب آنحضرتﷺ کے بہت سے جانثار جام شہادت نو ش کر چکے تھے ۔ آپؐ کے عزیز از جان رضاعی بھائی اور چچا جان حضرت حمزہؓ بھی وحشی کے نیزے کا نشانہ بن چکے تھے۔ خود حبیبِ خداؐ بھی زخموں سے چور چور پہاڑ کے حصے پر پناہ گزین تھے اور دُشمن نام لے لے کر کہہ رہا تھا ہم نے ابوبکرؓ کو مار دیا، ہم نے عمرؓ کو مار دیا، محمدؐ بھی نہ رہے اور جواب میں خامشی پا کر ’’ہبل کی جے ہو، ہبل کی جے ہو‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے تب غیرتِ محمدیؐ جوش میں آئی اور اپنے تھکے ماندے رفقا کو حکم دیا کہ اللہ اکبر کے نعرے لگاؤ اب ان کے مردہ خدا کے سامنے اپنے زندہ پروردگار کی وحدانیت کا سوال ہے اب خاموش نہیں رہنا ۔تو چشمِ فلک نے دیکھا کہ تھکے ماندے زخموں سے چور نورانی وجودوں نے اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہا اور اس زور سے نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے کہ لشکرِ کفار پر سناٹا چھا گیا۔
یہ مقام اُحد تھا۔ اور ہم اُحد کے پہاڑ پر کھڑے تھے۔ اور دل درد محسوس کر رہے تھے۔
ہم اس درے پر کھڑے تھے جہاں سے خالد بن ولید نے پلٹ کر مسلمانوں پر وار کیا تھااور مسلمانوں کی جیتی ہوئی جنگ کو ہار میں بدل دیا تھا۔
ہم اُس پہاڑ پر تھے جس پر ایک رسولِ خداﷺ نے پاؤں مار کر فرمایا تھا کہ اُحد ٹھہر جا ، تم پر ایک نبی، ایک صدیق اور د و شہید ہیں۔
جب ہم اُحد پرپہنچے تو سورج غروب ہونے والا تھا۔ سب سے پہلے ہم شہدائے اُحد کے قبرستان پر گئے۔ ان قبروں کو جنگلہ لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ تاہم اندر قبریں دکھائی دیتی ہیں۔ اندر حضرت حمزہ بھی دفن ہیں جن کی ۷۰ مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی تھی۔
مکہ اور مدینہ ایسی جگہیں ہیں جہاں قدم قدم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یادیں ہیں۔ اور ہر جگہ سے ایسی محبت دل سے نکلتی ہے کہ لگتا ہے جیسے اس مقام سے زیادہ کوئی اور عزیز ہی نہیں ۔ مگر پھر اس مقام سے ہٹ کر دوسری جگہ جائیں تو وہی اُنس اس جگہ آن لپیٹتا ہے۔؎
زفرق تا بقدم ہر کجا کہ می بینم
کرشمہ دامنِ دل می کشدکہ جا اینجا ست
’’محبوب کے چہرے سے اس کے قدموں تک، میرا دل ہر مقام پر یہ گمان کرتا ہے کہ اصل حسن کا جادو تو یہاں چل رہا ہے‘‘
ہم جنگلے پر کھڑے تھے اور ہاتھ دعا کے لیے بلند تھے۔ آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں اور تخیل میں جنگ اُحد کی ایک فلم چل رہی تھی۔ تصور کی آنکھوں سے ہم دیکھ رہے تھے کہ کس طرح رسول اللہ اس مقام پریہ فرماتے آئے کہ ’’جب نبی ہتھیار باندھ لے تو پھر اتارتا نہیں جب تک جنگ نہ ہو جائے‘‘
کیسے جنگ ہوئی ہوگی، جیتی جنگ دیکھ کر کیسے درے سے سپاہی نیچے آئے ہونگے اور خالد بن ولید کو موقع مل گیا ہوگا۔ ہمارے ڈرائیور نے ایک دوسرے پہاڑ کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس جگہ رسول اللہ ﷺ زخمی حالت میں گئے تھے اپنے اصحاب کے ہمراہ۔ اور وہ جگہ جانے کی اب بلکل اجازت نہیں سعودی حکومت نے وہاں سختی سے جانا ممنوع کر رکھا ہے اور وہاں تک جانے کے تمام راستے بند ہیں۔
اُحد کے مقام پر ایک خوبصورت مسجد تعمیر ہے یہاں ہم نے نمازِ مغرب ادا کی۔ واپس لوٹتےہوئے ایک مرتبہ پھر ہم شہدائے اُحد کی قبروں کی طرف گئے۔ اور بھیگی آنکھوں سے الوداعی سلام کہا۔
سبعہ مساجد
جب خندق پر پہنچے تو سورج سوا نیزے پر تھا۔ خندق اسلامی تاریخ میں احزاب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اور ہم یہاں پہنچے تو سورج سوا نیزے پر تھا۔
یہاں کا نظارہ کرتے ہوئے تاریخِ اسلام کے گوشے ذہن میں اُبھر رہے تھے۔ سخت سردیوں کے دن تھے۔ اور اسلام کا ایسا دور تھا جب قبائلِ عرب کی دشمنی عروج پر تھی۔ مدینہ پر حملہ آورقریش کا لشکر بعض روایات کی رو سے چوبیس ہزار کفار پر مشتمل تھا۔ کیسے خندق کی کھدائی ہوئی کیسے ایک سخت پتھر آیا جو صحابہ سے ٹوٹ ہی نہیں رہا تھا اور رسول اللہ ؐ نے جب کدال سے اس پتھر کو توڑا تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہا اور فرمایا کہ مجھے شام کے محلات کی چابیاں دی گئیں فارس کے محلات کی چابیاں بھی دےدی گئیں اور یمن کے محلات بھی مجھے عطا کر دیے گئے۔
مجھے رسول اللہ ﷺ کی پیٹ مبارک یاد آرہا تھا کہ اس پر دو پتھر باندھے ہوئے تھے تا بھوک کا اثر کم محسوس ہو جبکہ صحابہ کرام نے ایک ایک پتھر باندھا ہوا تھا۔ ایک طرف خطرناک دشمن کا خطرہ اور دوسری طرف بدعہد یہودی قبائل بنو قریظہ کی بغاوت۔ تاریخ میں بیان ہے کہ اس غزوہ سے زیادہ بڑی مسلمانوں پر آنحضرت ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں کوئی مصیبت نہیں آئی۔
اب یہاں اس خندق کا تھوڑا سا حصہ موجود ہے جو غزوہ خندق کے موقع پر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے پر کھودا تھا۔ یہاں چھ مساجد موجود ہیں جو کہ مختلف صحابہ کے نام پر ہیں۔ اور ساتویں مسجد جو کہ ’’مسجد قبلتین‘‘ ہے یہاں سے کوئی دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اسے بھی ان مساجد کی گنتی میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ تمام ’’سبعہ مساجد‘‘ کہلاتی ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں۔ مسجد الفتح، مسجد سلمان فارسی، مسجد ابوبکر، مسجد عمر، مسجد علی اور مسجد فاطمہ۔ چار مساجد پتھروں سے تعمیر ہیں اور نہایت سادہ ہیں۔ لوگوں نے ان کے محرابوں کے اندر اپنے نام لکھ چھوڑے ہیں جو کہ ایک اچھا تاثر نہیں چھوڑتے۔ جبکہ خندق کے بلکل ساتھ دو مساجد کو جوڑ کر جدید طرز پر ایک نہایت خوبصورت اور کشادہ مسجد تعمیر کر دی گئی ہے۔
پتھروں سے بنی ایک حجرہ نما مسجد ابوبکرؓ میں دو رکعت نفل ادا کیے اور کچھ دیر اردگر کا نظارہ بھی کیا۔
مسجد قبلتین
یہ ہجرت کا دوسرا سال تھا مدینہ میں مسلمان آزادانہ اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرا تھے، مسجد کی تعمیر بھی ہو چکی تھی مگر رسول اللہ ﷺ کی ایک دلی خواہش ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔ ابھی تک حضورﷺ اور تمام مسلمان بیت المقدس فلسطین کی طرف منہ کر کے نمازیں ادا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ کعبہ کو قبلہ بنایا جائے کیونکہ کعبہ خدا کی عبادت کا پہلا گھر تھا جو دنیا میں تعمیر ہوا تھا۔ اور یہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور عربوں کے جدِ اعظم حضرت اسماعیل ذبیح اللہؓ کی یادگار بھی تھا۔ پھر چونکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مولد و مسکن بھی مکہ ہی تھا اس لیے قبلہ ہونے کا حق بھی مکہ کے کعبہ کا ہی بنتا تھا۔
ہجرت کا دوسرا سال اور مہینہ شعبان کا تھا میرے حضورﷺ اپنے اصحاب کے ہمراہ مدینہ کے محلہ بنو سلمہ میں ایک جگہ نماز ادا کر رہے تھے کہ دورانِ نماز اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو مخاطب فرمایا ’’یقیناً ہم دیکھ چکے تھے تیرے چہرے کا آسمان کی طرف متوجہ ہونا۔ پس ضرور تھا کہ ہم تجھے اس قبلہ کی طرف پھیر دیں جس پر تو راضی تھا۔ پس اپنا منہ مسجدِ حرام کی طرف پھیر لے‘‘ (سورہ البقرہ۱۴۵)
اللہ تعالیٰ کی رسول اللہ ﷺ سے محبت کے انوکھے انداز ہیں اور یہ اپنے محبوب کو اجازت کے لیے الفاظ بھی انوکھے ہیں۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ ہمیں اے رسولؐ تمہاری خواہش کا بحوبی علم ہے اور وہیں رسول اللہ ﷺ کا اپنے اللہ کی طرف اطاعت کا جذبہ بھی نظر آتا ہے کہ خود اپنے لبوں سے اپنی خواہش کا ذکر تک نہیں کیا بلکہ راضی برضا رہے۔ اللہ اللہ
تاریخ کے مطابق آپﷺ ظہر کی نماز ادا کر رہے تھے اور اسی دوران آپ نے اپنا رُخ بیت المقدس سے بدل کر کعبہ کی طرف موڑ دیا۔ اور آپ کے پیچھے تمام نمازیوں نے اپنے رُخ بدل دیے۔ا سی واقعہ کی مناسبت سے اس مسجد کو مسجد قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد کہاجاتا ہے۔
ہم اس مسجد میں ایک عجیب شوق سے گئے۔ کہ یہاں ایک لافانی محبت کا ثبوت پیش ہوا تھا۔ یہاں رسول اللہ ﷺ کی خواہش کی تکمیل ہوئی تھی۔ اس طرف جاتے ہوئے دل و جان اپنے رب کے حضور شکر کے کلمات ادا کر رہے تھے۔ موسم میں خوشگوار تبدیلی ہو رہی تھی اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ یہاں دو رکعت شکرانے کے نفل ادا کئے۔ یہ سفید رنگ کی ایک دیدہ زیب دو منزلوں پر مسجد ہے۔ اسکی مزید توسیع کی جا رہی ہے۔
مدینہ میں ایک پاکستانی ڈرائیور مل گیا جو ہمیں مسجد شیخین لے گیا۔ یہ مسجدپتھروں سے بنی نہایت سادہ سی اور جحم میں چھوٹی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب غزوہ اُحد کے لیے رسول اللہﷺ نکلے تو یہاں کچھ دیر قیام فرمایا تھا اور جنگ کے لیے زرہ زیب تن فرمائی تھی۔ یہ مسجد شاید مستقل طور پر بند ہے۔ کچھ وقت گزارنے کے باوجود یہاں دیکھ بھال کے لیے کوئی آدمی نظر نہ آیا۔ ہم نے صرف باہر سے اسکا نظارہ کیا۔
جنت البقیع
یہ بہت بابرکت قبرستان ہے۔ اور مسجد نبوی کے صحن سے ہی یہاں جانے کا رستہ جاتا ہے۔ روایت ہےکہ رسول اللہﷺ کی صحت جب کمزور ہو رہی تھی اور ضعف کے آثار تھے تو ماہِ صفر کی ایک رات آپؐ نے اپنے خادم ابو مُوَیہبہ کو جگایا او راسے ساتھ لیکر جنت البقیع تشریف لے گئے جہاں آپؐ نے قبروں کے پاس کھڑے ہوکر دُعا کی کہ ’’اے میرے اللہ! مدفونینِ بقیع کی مغفرت فرما‘‘
آپﷺ نے ابو مویہبہ سے فرمایا’’ میرے سامنے دنیا جہان کے خزانوں کی چابیاں اور غیر معمولی لمبی زندگی پیش کی گئی تھی اور اس کے مقابل پر جنت رکھی گئی تھی ۔ میں نے ان میں سے اپنے رب سے ملنے اور جنت کو اختیار کیا (ابن سعد ، ذکر خروج )
حضرت عائشہؓ نے آپؐ سے رات کو جنت البقیع جانے کے بارہ میں پوچھا تو آپؐ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کو حکم ملا تھا کہ آپؐ جنت البقیع جائیں اوروہاں کے مکینوں کے لئے دُعا کریں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جن آپﷺ جنت البقیع سے واپس لَوٹے تو آپکے سر مبارک میں شدید درد تھا۔
یہاں بہت سے بزرگ اور کبائر صحابہ، ازواج مطہرات مدفون ہیں گو کسی بھی قبر پر کوئی نام حسب نسب نہیں مگر جو اہم قبریں ہیں انکے گرد اینٹوں کا چھوٹا سا احاطہ بنا دیا گیا ہے۔ اس قبرستان میں عورت کی قبر پر دونوں طرف ایک ایک اینٹ نشانی کے طور پر رکھ دی جاتی ہے جس سے لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ عورت کی قبر ہے جبکہ مرد کی قبر پر سرہانے کی طرف ایک اینٹ یا پتھر رکھا جاتا ہے۔
کسی اہم قبر کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ ہر اہم قبر پر ایک سپاہی کھڑا ہوتا ہے۔ قبرستان کے شروع ہوتے ہی قبروں کے دو تین اہم احاطے ہیں جن پر بہت سے سپاہی پہرہ دے رہے ہوتے ہیں اور زائرین کو زیادہ دیر کھڑا نہیں ہونے دیتے ۔ مقامی لوگوں کے مطابق ان قبروں میں حضرت عائشہ و دیگر امہات المومنین ہیں۔
عموماً یہ قبرستان بند رہتا ہے اور یہاں اندر جانے کا سب سے بہترین وقت کسی بھی نماز کے بعد کا ہے۔ کیونکہ مسجد نبوی میں ہر نماز کے بعد نماز جنازہ حاضر ادا ہوتی ہے۔ اور جب جنازے کو دفن کرنے کے لیے جنت البقیع لے جایا جاتاہے ۔ لوگ اس جنازے کے ساتھ چلے جاتے ہیں اور زیارت کرلیتے ہیں۔ مجھے دو دفعہ جنت البقیع اندر جا کر فاتحہ کا موقع ملا۔
دوہزار تین میں جب لندن آیا تو مسجد فضل میں واقع بک اسٹور کے نگران مکرم محمد احمد درویش صاحب سے ملاقات ہوئی اور یہی سے ان کے ساتھ سلام دعا کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو اُن کی وفات ۲۰۰۸ء تک قائم رہا۔ مجھے یاد ہے کہ انکی ربوہ میں شاید گھڑی سازی کی دکان بھی ہوا کرتی تھی۔ مرحوم ایک سادہ درویش اور نہایت دعا گو محبت کرنے والا وجود تھے۔ جب بھی ملتے نہایت شفقت سے پیار کیا کرتے تھے۔ ۲۰۰۸ میں کچھ دن نظر نہیں آئے ایک دن معلوم ہوا کہ ان کی وفات ہو گئی ہے۔ تحقیق پہ پتا چلا کہ بزرگ عمرہ کی ادائیگی کو گئے تھے۔ اور مدینہ میں ان کی وفات ہوگئی۔ مدینہ کا قانون ہے کہ جو مسلمان بھی مدینہ میں وفات پائے گا اسے جنت البقیع میں لازمی دفنایا جائے گا۔ مرحوم کو یہ سعادت ملی کہ انہیں مسجد نبوی کے صحن سے ملحقہ اس قبرستان میں دفنایا گیا۔
ریاض الجنتہ اور اصحاب صفہ کا چپوترہ
پھر ہماری موبائل ایپ چل پڑی اور ہم نے فوراً ریاض الجنتہ حاضری کا وقت بک کر لیا۔ ریاض الجنتہ کیا ہے؟ یہ دراصل اس جگہ کو کہتے ہیں جو روضہ رسول ﷺ اور آپ کے منبر کے درمیان ہے۔ ہم نے صبح دس بجے کا وقت بک کیا تھا اور ساڑھے نو بجے مسجد نبوی میں پہنچے تو ایک نہایت لمبی قطار ہماری منتظر تھی۔ گھنٹہ بھر قطار میں رینگتے رہے۔ پھر روضہ رسول کے خارجی دروازے کے سامنے ایک جگہ گروپ کی شکل میں بٹھا دیا گیا۔ وہاں قریباً آدھ گھنٹے بیٹھے رہے۔ پھر دوبارہ قطار میں لگے اور ریاض الجنتہ کے داخلی دروازے کی طرف چل دیے۔ داخلی دروازے سے گزرے ہوئے ایک عجب کیفیت تھی۔سب سے پہلے اصحاب صفہ کے چپوترے کے پاس سے گزرے۔ ہمارے گروپ سے پہلے والا گروپ ابھی دو رکعت نفل ادا کر رہا تھا سو ہمیں اس چپوترے کے پاس بٹھا دیا گیا۔ میں بھی یہی چاہتا تھا کہ اس چپوترے کے پاس چند گھڑیاں مناجات پیش کرنے کی اجازت مل جائے۔ میری کمر کی طرف یہ چپوترہ تھا اور بائیں طرف چند فٹ کے فاصلے پر روضہ رسول کی جالیاں تھیں۔ سپاہی ہمہ وقت مستعد تھے کہ کوئی بھی زائر دل کش کفر نہ کر سکے۔ اگر بے حرمتی کا ڈر نہ ہوتا تو اس جگہ ایک آدھ دل کش کفر تو میں کر ہی لیتا۔
خیر یہاں بیٹھے بیٹھے خواہش تھی یہ کہ پل یہ گھڑیاں کبھی ختم نہ ہوں کجا کہ ہم نہ رہیں۔ خیر ہر خواہش پوری ہونے کے لیے تو نہیں ہوتی نا!
یہاں بیٹھ کر قصیدہ حضرت مسیح موعودؑ یا عین فیض اللہ والعرفان پڑھنے کی توفیق ملی اور اسکے علاوہ جتنی اردو پنجابی عربی دعائیں یاد تھی وہ سب بارگاہِ رسالت میں پیش کر دیں۔ مالی دا کم پانی لانا بھر بھر مشکاں لاوے۔ یہاں ہم نے خوب اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیں۔
جب پہلے والا گروپ فارغ ہوگیا تو اب ہماری باری تھی ریاض الجنتہ میں نفل کی۔ میرے بائیں طرف منبر رسول اور دائیں طرف روضہ رسول کی جالیاں تھیں۔ مسجد نبوی میں کل آٹھ ستون ہیں جن کو مختلف نام دیے گئے ہیں۔ اور ہر ستون کی ایک کہانی ہے جو رسول اللہ ﷺ سے منسوب ہے۔ ان ستونوں کے نام کچھ یوں ہیں۔
المخلقہ ستون۔ یہ نبی پاک کے مصلیٰ کی جگہ پر موجود ہے۔
اسطوانہ عائشہؓ۔یہ منبر رسول، روضہ رسول اور قبلہ کی جانب موجود ہےیہاں حضرت ابوبکر و عمؓ نوافل ادا کیا کرتے تھے۔
اسطوانہ السیر۔ اس جگہ رسول پاکﷺ کا بستر ہوتا تھا۔ اور اسے توبہ کا ستون بھی کہتے ہیں۔ یہ روضہ کی کھڑکی کے پاس ہے۔
اسطوانہ الحرس۔ یہ حضرت علی سے منسوب ہے۔ یہاں حضرت علی مسجد کی پہرے داری کے لیے بیٹھا کرتے تھے۔
اسطوانہ الوفود۔ یہاں رسول اللہ ﷺ مدینہ آنے والے وفود سے ملاقات فرمایا کرتے تھے۔اور صحابہ کی محفلیں بھی یہاں لگا کرتی تھیں۔
اسطوانہ مقام جبریل۔یہ مسجد نبوی کے شمال مغربی کونے پر ہے۔ یہ حجرہ رسول کی دیوار میں بنایا گیا۔
اسطوانہ تہجد۔یہ حضرت فاطمہؓ کے حجرہ کے عقب میں ہے۔ یہاں رسول اللہﷺ اکثر تہجد ادا کیاکرتے تھے۔
ہمیں یہاں قریباً بیس منٹ دیے گئے کہ دو رکعت نفل ادا کیے جا سکیں۔ صدیوں صحرا کا سفر کرنے والے پیاسے کو دو گھونٹ جیسے دے دیے گئے ہوں۔ یہاں گزارے چند لمحے ابھی بھی سوچ میں ہیں۔ اور ایک سرشار کیفیت ہے۔ مگر پیاس ہنوز قائم است۔ بلکہ بڑھ چکی ہے۔ یہاں سجدے لمبے اور قیام مختصر ہوتا ہے۔ ایک مخصوص دعا جو اس سفر کے شروع سے دل میں گڑھ چکی تھی وہی اپنے لیے مانگی گئی۔ اپنی پھٹی بوسیدہ جھولی سامنے رکھ دی گئی۔ اپنی گناہگار روح پیش کر دی گئی۔ اور ماتھا جب زمین پہ لگایا اور کہا ’’ مالکا ۔ غلام حاضر ہے۔ جو چاہے سلوک کر،تو زبردست ہے اور زبردست جب قابو پا لیتا ہے تو اسکی شان بدلہ نہیں رحم و بخشش ہے۔ تو اپنی شان کے مطابق سلوک کر۔ ہاں اپنےسلوک میں اپنے محبوب کا لحاظ ضرور رکھنا۔‘‘
مدینہ میں جاکر دل میں کسی کے خلاف کینہ اور بغض نہیں رہتا، ہر طرح کا گلہ دل سے نکل جاتا ہے۔ سو اپنے ہر جاننے والے، پیارے ، عزیز دوست رشتہ دار تو دعاؤں میں تھے ہی۔ مگر ان لوگوں کے نام بھی زبان پر دعا کی صورت میں آئے جنہوں نے کبھی تکلیف دی یا جن کی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں میری کوئی کوشش نہیں تھی یہ خودبخود نکلے۔ ایسے ایسے بھولے بسرے نام بھی جنکو بھولے ایک زمانہ ہوگیا ۔
ہماری مناجات و التجاؤں کا سلسلہ جاری تھا کہ سپاہیوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئی کہ اب وقت ہوچکا نماز ختم کی جائے۔ او رہم نے اپنی نماز ختم کی۔ اور نم دیدہ آنکھوں سے روضہ رسول ﷺ سے باہر نکل آئے۔ باہر نکل کر دوبارہ موبائل ایپ کے ذریعہ وقت حاصل کرنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ ایک ماہ بعد اب دوبارہ وقت مل سکتا ہے اور ہمیں کل مدینہ سےرخصت ہونا تھا۔
سلامِ مسیح پاک علیہ السلام
جس کسی کو مسجد نبوی اور ریاض الجنتہ اور مکہ جانے کا موقع ملے وہ وہاں جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سلام اور آپؓ کے لئے دعا ضرور کرنی چاہیے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت منشی احمد جانؓ کو بموقع حج بطور خاص دعا کے لئے فرمایا تھا۔
اس کے علاوہ اپنی زبان میں بحضور دربارِ محبت و عقیدت یہ عرض کریں کہ ’’یا رسول اللہ ہم نے آپؐ کے حکم کو مان کر آپؐ کی اتباع میں آنے والے مسیح کو مان لیا ہے۔ آپؐ کا سلام پہنچاچکے ہیں۔ آپؐ کی اطاعت و عشق کی وجہ سے آپ کی امت کے ناعاقبت اندیش لوگوں نے اس مسیح کو دجال وکافر کے لقب دیے ہیں۔ اس مسیح کے خلاف ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہے۔ جگہ جگہ اس مسیح کے ماننے والوں کو کافر کہا جاتا ہے۔ ہمارے خون کو ارزاں کر دیا گیا ہے۔ اس مسیح کی اطاعت کی وجہ سے ہم احمدیوں کے قتل کے فتوے جاری ہو چکے ہیں۔ اے پیارے نبیؐ ہم احمدی آپؐ کی خدمت میں آپؐ کی امت کی شکایت نہیں کر تے نا انکے خلاف کوئی بدعا کرتے ہیں کیونکہ آپؐ کے عاشق آپؐ کے مسیح نے ہی فرمایاتھا کہ
تیرے منہ کی ہی قسم ہے میرے پیارے احمدؐ
تیری خار سے یہ سب بار اُٹھایا ہم نے
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے رُخِ روشن کے صدقے اس امت کو عافیت کے حصار میں داخل کر دے اور مسیح موعودعلیہ السلام کو ماننے والا بنا دے۔ تمام ظالم لوگوں سے جنہوں نے اس پیارے دین کے نام پر ظلم کیا ہے نجات عطا کرے۔ آمین‘‘
مدینہ طیبہ کے کنویں
مدینہ میں ایک تاریخی کنواں ہے جسے بئرِ غرس کہتے ہیں۔ اور ابن ماجہ کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے وصیت فرمائی تھی کہ آپﷺکو اس کنویں کے پانی سے بوقت وفات غسل دیا جائے۔ اپنی حیاتِ پاک میں بھی آپؐ نے بارہا اس کنویں کا پانی نوش فرمایا۔ہمیں اس کنویں کے متعلق کچھ علم نہ تھا مگر ہمارا ایک پاکستانی ڈرائیور جو ہمیں مدینہ گھوما رہا تھا ایک دن بنا بتائے یہاں لے گیا۔ اور یہ ہمارے لیے بن مانگی نعمت تھا۔ یہ پرانے بڑے پتھروں سے بنا کنواں مسجد قبا کے نزدیک قریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کنویں کے اردگرد لوہے کا جنگلہ لگا کر اسے بند کر دیا گیا ہے اور ایک سائیڈ پر ایک نل لگایا گیا ہے جسے کنویں کا خادم بوقت ضرورت کھول دیا کرتا ہے ۔ ہم عصر کے وقت یہاں پہنچے تھے مگر اس وقت یہاں کوئی نہیں تھا۔ ڈرائیور کا ہم نے دل سے شکریہ ادا کیا اگر ہمیں وہ یہاں نا لاتا اور بعد میں ہمیں اسکا علم ہوتا تو بہت افسوس ہوتا۔
ایک اور کنواں جو ہم نے خود تاریخ میں پڑھا ہوا تھا وہ تھا بئر رومہ ۔ اسے بئر عثمان بھی کہتے ہیں۔ اور مقامی طور پر اسے جنتی کنواں بھی کہتے ہیں۔ پہلے یہ کنواں ایک یہودی کے نام تھا جو مہنگے داموں مسلمانوں کو پانی بیچا کرتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو یہ کنواں خریدکر مسلمانوں کو دے گا اسے جنت میں بہتر انعام ملے گا۔ حضرت عثمانؓ کو جب یہ خبر پہنچی آپ نے ایک لاکھ درہم کے برابر رقم دے کر یہودی سے یہ کنواں خرید لیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ہمارا ڈرائیور ہمیں یہاں لے گیا اب یہ کنواں زائرین کے لیے بند ہے جبکہ اس سے ملحقہ ایک کھجوروں کا باغ ہے جس کو اس کنویں کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔
ہم اس باغ میں کچھ دیر چہل قدمی کرتےرہے ۔حضرت عثمانؓ نے اپنے مال سے مسلمانوں کی بےشمار خدمت کی ہے۔ ہم نے سنا کہ کسی سعودی بنک میں انکی جائیداد سے ہونے والی آمدن انکے نام پر سعودی حکومت کی طرف سے بنائے بنک اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے اور وہ ساری رقم بیواؤں یتیموں اور مسجد نبوی کی خدمت میں خرچ کی جاتی ہے۔ ہمیں یہ بات کسی طور پہ کنفرم نہیں ہوئی مگر دروغ بہ گردنِ راوی یہ قارئین کی خدمت میں پیش کر دی گئی ہے
تاریخ میں بیان مزید کنویں یا تو سعودی حکومت کی طرف سے مسجد نبوی کی حدود میں شامل ہونے کی وجہ سے مسمار کر دیے گئے ہیں یا پھر انہیں مستقل طور پر بند کر دیا گیا ہے جن میں ایک کنواں حضرت سلمان فارسیؓ کی طرف منسوب بھی کیا جاتا ہے۔
تبوک اور ’’سائے اچھے لگتے تھے‘‘
مدینہ میں اکثر سڑکوں پرشہر تبوک کی طرف جانے والے سائن بورڈ پڑھتا اور دل ہمکتا کہ ایک دفعہ تبوک جایا جائے۔ مگر چھ سو سترکلومیٹر کا سفر بہت طویل تھا۔ اور ہمارے مہربان نے بتایا تھا کہ وہاں کوئی یادگارِ نبیؐ موجود بھی نہیں ہے۔ مگر اسے نہیں پتا تھا کہ تبوک کے حوالے سے میرے دل کے بہت نزدیک ایک یادگارِ نبی ؐ ہے جس کا ایک جملہ ’’سائے اچھے لگتے تھے‘‘ مجھےایسا مزہ دیتا ہے جیسے پیاسے کو ٹھنڈا پانی۔
بھگت کبیر سے کسے نے پوچھا کہ ’’محبت کیا ہے؟‘‘
بھگت نے کہا ’’محبت کو بیان کرنے کی کوشش کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی گونگے کو آم کھلا کر پوچھا جائے کہ ذائقہ کیسا ہے؟‘‘
ہمارے گھر میں ایک کتاب حدیقتہ الصالحین ہوا کرتی تھی۔ میں اور والدہ محترمہ بڑے شوق سے اسے پڑھا کرتے تھے۔ اِس میں ایک صحابی حضرت کعب بن مالکؓ کا غزوہ تبوک کے حوالے سے ایک واقعہ ہے اور مجھے یہ واقعہ بے انتہا سے بھی زیادہ پسند ہے۔ جب جب پڑھا دل نرم ہو جاتا ہے۔
میرا گمان ہے کہ اگر بھگت کبیر کو یہ واقعہ معلوم ہوتا تو اسُے گونگے کی مثال دینے کی ضرورت نا پیش آتی، بلکہ وہ کہتا کہ جاؤ ’’کعب بن مالکؓ کا واقعہ پڑھو اور جان لو کہ محبت کیا ہے‘‘
یہ واقعہ ایک کائنات ہےمحبت کی۔ محبوب سے نافرمانی بھی ہے اور اسکی سزا بھی، مگر محبوب کی خوشنودی ہرحال میں مقدم رکھنے کا جذبہ بھی ہے اور محبوب کی خاطر ہر تکلیف و تنگی سہہ لینے کی طاقت کا ذکر بھی ہے۔
دھیان کریں کہ جب کعبؓ محبوبِ خدا کی طرف چور نظروں سے دیکھتے ہونگے تو کیسے ترستے ہونگے کہ محبوب ایک محبت بھری نظر دیکھ لے۔ اور اپنے سلام کرنے کے بعد کیسے سر تا پا کان ہوجاتے ہونگے کہ محبوب کی آواز کا امرت کانوں سے روح میں گھول سکیں۔
میرا پیارا کہتا ہے کہ حسین چہرہ ٹوٹے دلوں کا مرہم ہوتا ہے اور کعبؓ کے ٹوٹے دل کو ایک ہی حسینوں کے حسین سے مرہم ملتی تھی اور تبھی وہ اپنے بائیکاٹ کے دوران بھی بازاروں میں جاتے، مسجد میں حاضر ہوتے۔غرض ہر اُس جگہ پہنچ جاتے جہاں وہ حسینوں کے حسین چہرے والے معتبر وجود کے موجود ہونے کا امکان ہوتا۔
حدیقتہ الصالحین کے صفحہ ۱۶۲ سے ۱۶۸ تک پڑھا جاسکتاہے کہ کیسے نبیٔ خداﷺ کے سامنے پیچھے رہ جانے والوں نے عذر پیش کیے اور انکے عذر قبول کر لیے گئے۔ اور کیسے کعب بن مالکؓ کے اقرارِ خطا کےبعد انکا بائیکاٹ ہوا کیسے شہر ِ مدینہ انکے لیے اجنبی ہوگیا اور کیسے ان کے حق میں اللہ کے نبیؐ کی دعا قبول ہوئی او راللہ تعالیٰ نے انکی توبہ قبول کرتے ہوئے قرآنی آیت اتاری اور کیسے اس قرآنی خوشخبری کی وجہ سے اللہ کے نبیؐ کا چہرہ مبارک خوشی سے تمتما اُٹھا۔
ہم مدینہ میں تھے او رسورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا ہمیں بھی مدینہ کے ’’سائے اچھے لگتے تھے‘‘ کیونکہ رسول اللہؓ تبوک سے واپس مدینہ میں موجود تھے اور ہمیں تبوک نہیں جانا تھا۔ اس لئے ہم نہیں گئے
تبوک شہر کی خاصیت ہے کہ یہاں آپ کو صحرا بھی سمندر بھی اور پہاڑ بھی ملیں گے۔ جنوری دوہزار بائیس میں برف باری بھی ہوئی تھی۔
ابواء کا مقام
رسول اللہ ﷺ اپنے بچپن میں اپنی والدہ ماجدہ کے ہمرا مدینہ آئے ، مدینہ کے قریب جب والدہ کی وفات ہوگئی توانہیں ابواء کے مقام پر دفن کیا گیاتھا۔ حضرت آمنہ کے وفات کے واقعہ کے متعلق
کانسٹنٹ ورجل جیورجیو جو کہ رومانیہ کا رہائشی اور بین الاقوامی امور کا ماہر رہا ہے اپنی مشہور سیرت النبیؐ کی کتاب ’’محمد پیغمبر اسلام‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’رشتہ دار عورتوں نے بی بی آمنہ کی میت کو غسل دیا محمدﷺ نے دیکھا کہ والدہ کو کفن پہنادیا گیا ہےاور پھر جنازہ لے جایا گیا اور ان کے جسدِ خاکی کو قبرستان (ابوا) میں دفن کر دیا گیا۔
قبر پر مٹی ڈال دی گئی۔ رشتہ دار احباب جب لوٹے تو دیکھا کہ محمد ﷺ ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ فوری واپس گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ محمدﷺ قبر پر بیٹھے ہوئے قدرے بلند آواز میں والدہ کو پکار کر کہہ رہے ہیں : آپ گھر کیوں نہیں چلتیں۔کیا آپ کو معلوم نہیں کہ میرا آپ کے سوا کوئی نہیں ہے؟ محمد ﷺ ماں اور باپ دونوں کو کھو چکے تھے اور آپ کا ذہن اس المیہ سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ آپ ایک گوشے میں بیٹحے رہا کرتے ، یہاں تک کہ بچے اُنہیں کھیلنے کی دعوت دیتے تو وہ کہتے : مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ میں تم سے کھیلنے کی خود میں ہمت نہیں پاتا۔‘‘
میری بہت خواہش تھی کہ ابواء کے اس قبرستان کی جگہ جایا جائے۔ اپنی خواہش کا ذکر جب ایک ڈرائیور سے کیا تو ا سنے کہا کہ وہاں جانا ممکن نہیں کیونکہ سعودی حکومت نے وہاں فوجی حفاظتی کیمپ لگایا ہوا ہے۔ جو وہاں جانے والی ہر ٹیکسی کے شیشے وغیرہ توڑ دیتے ہیں جبکہ مہمان کو کچھ نہیں کہتے مگر ڈرائیور کے اقامے ضبط کر لیے جاتے ہیں اور بھاری جرمانے کیے جاتےہیں۔ سو ہم نے اپنی خواہش دل میں ہی دبائے رکھی۔
مساجدِ مدینہ اور میری مسجد اقصیٰ
پاکستان میں اور بعض دفعہ انگلستان میں چند ایک بارمختلف فرقوں کی غیراحمدی مساجد میں جانے کا اتفاق ہوا ہے مگر ہر دفعہ یہ احساس بڑی شدت سے ہوا کہ یہ مساجد سکون سے خالی ہیں۔ مگر مدینہ کی جس مسجد میں بھی جانے کا موقع ملا ہر دفعہ ایسا لگا جیسےکہ ربوہ کی کسی مسجد میں ہوں۔ ایک جیسا احساس ایک جیسا سکون۔ شائد اس لیے کہ یہ مساجد تفرقہ سے پاک ہیں کوئی کیسے عبادت کرتا ہے کسی کو پرواہ نہیں۔ پرواہ ہے تو بس یہ کہ لوگ نماز پڑھیں بس طریقہ جیسے چاہے مرضی ہو۔

ہر مسجد میں جاکر مجھے میرے ربوہ کی مسجد اقصیٰ بہت یاد آئی۔ مسجد اقصیٰ سے بہت حسین یادیں وابستہ ہیں۔ ہوش سنبھالنے کے بعد جمعہ کے دن میری عادت تھی کہ جلدی مسجد چلا جایا کرتا تھا اور محراب کے سامنے پہلی یا دوسری صف میں بیٹھا کرتا تھا۔ مولانا سلطان محمود انور، حضرت دوست محمد شاہد،حافظ مظفر ، مولانامبشر کاہلوں صاحبان جیسے جلیل القدر مقررین کے خطباتِ جمعہ سننے کا موقع ملتا۔ بہت سے دیگر جید بزرگانِ دین سے ملاقات ان کے ساتھ مصافحے کی صورت ہو جایا کرتی تھی۔
مگر اب ایک عرصے سے وہ پیار ی مسجد اقصیٰ بند ہے لوگ جمعے کے لئے جمع نہیں ہو سکتے عیدین کے لئے بھی مسجد اقصیٰ کے دروازے بندرہتے ہیں۔ کسی ملک میں کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کا بند ہونا کوئی نیک شگون نہیں ہوتا۔اور جس جگہ خدائے لم یزل واحد و یگانہ کی عبادت ہو ذکر ہو اسے بند کرنا گویا رحمتِ خداوندی کو اپنے ہاتھوں سے روکنے کے مترادف ہے۔ ایسے میں ملک پر اندھیروں کا راج ہوتا ہے، بے چین کر دینے والے عذاب کی ہوائیں چلتی ہیں جس سے کوئی ذی روح نہیں بچ سکتا۔
دوہزار سولہ میں جب پاکستان جانا ہوا تو کوشش کی کہ کسی طرح مسجد اقصیٰ جا کر دو رکعت نفل ادا کیے جائیں۔مگر اسکیورٹی کے سبب اندر نا جا سکا۔ پھر اپنے دوست مرزا عرفان سعید کی وساطت اندر جانے کی اجازت ملی تو اندر جانے اور نفل ادا کرنے کا موقع مل گیا۔ اندر ایک کائنات بستی ہے، میری بہت سی یادیں زندہ ہو گئیں بہت سے لوگ مسجد کے اندر اپنی مخصوص جگہوں پر اپنے اپنے انداز میں بیٹھے نظر آئے۔ مسجد اقصیٰ کے درویش درختوں کی چھاؤں تلے جو سکون محسوس ہوتا تھا وہی سکون مدینہ کے درختوں کی چھاؤں تلے محسو س ہوتا ہے۔ مسجد نبوی میں اکثر نماز پڑھتے ہوئے گمان ہوتا کہ ابھی کہیں سے مولانا سلطان محمود انور کا مخصوص انداز میں خطبہ ثانیہ پڑھنے کا انداز سنائی دے گا، ابھی مولانا مبشرکاہلوں صاحب کی کراری آواز میں سادہ تقریر شروع ہوگی یا پھر فجر کے بعد حافظ مظفر صاحب کی مشہور تلاوت سنائی دے گی۔
مسجد اقصیٰ میں جب جانا ہوا تو اس کے درخت ایسے محسوس ہو رہے تھے جیسے ہجر کی آگ میں جل رہے ہوں اور ابھی ان کے پیچھے سے آواز آئے گی ’’ اِنِّیٓ اَناَ اللہُ رَبُّ العٰلَمِینِ‘‘
تب بھی یہی دعا کی تھی کہ یا اللہ۔ اس مسجد کو لوگوں کی پیشانیوں سے زیادہ دور نا رکھ اور بھر دے اس کی صفیں لوگوں کی پیشانیوں سے ،ان کے آنسوؤں سے تر کر دے۔
مدینہ منورہ کی ہر مسجد میں یہی دعا نکلی کہ یا اللہ۔ تیری مسجدوں کے تیری عبادت گاہوں کے صدقے !
میری مسجد اقصٰی پر بھی نظر کراسے اپنے ذکر کرنے والوں کے روشن وجودوں سے بھر دے اور امن دے، امن دے اپنے حبیبؐ کی مسجد کے سبز میناروں کے صدقے۔
تیرے مسیح کو ماننے والوں کو تیرے نام کی خاطر مسجد آباد کرنے والا بنا ۔
مدینہ کی ہر مسجد میں مجھے ربوہ کی مسجد کا احساس ہوا۔ ہوتا کیوں نا؟ یہ مساجد ایک ہی شجرِ طیبہ کی شاخیں ہی تو ہیں۔ انکا قبلہ ایک ہی تو ہے ۔ ایک وقت آئے گا کہ انکا امام بھی ایک ہی ہوگا بس دیر ہے کل یا پرسوں کی
متفرق یادیں
مدینہ کی کھجوریں پوری مسلم دنیا میں مشہور ہیں، خاص طور پر عجوہ کھجور۔ عجوہ کھجور سے منسوب کئی روایات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ حضورﷺ کو عجوہ کھجور بطور خاص پسند رہی ہے۔ اور ہمارے لیے یہ نسبت کافی تھی۔ اس لیے ہم نے سوائے عجوہ کے اور کوئی کھجور نہیں کھائی۔ دو قسم کی عجوہ ہمارے مشاہدے میں آئی ایک کھارے پانی کی عجوہ اور ایک عجوہ عالیہ ۔عجوہ عالیہ میٹھے پانی کی کھجور ہے جس کی وجہ سے دونوں کے ذائقے میں واضح فرق ہے ۔ہم نے حضرت سلمان فارسی ؓ کے باغ والی عجوہ عالیہ خریدی۔ اسکے علاوہ دکانوں پر آپکو انواع اقسام کی کھجوریں مل سکتی ہیں اور آپ اپنے ذوق کے مطابق خریدسکتے ہیں۔
مسجد نبوی کے پاس کی مارکیٹس میں شوارمے ملتے ہیں۔ کے ایف سی بھی موجود ہے اور عرب کا مشہور البیک چکن بھی ۔ مگر ہم نے اپنے کھانے کے لیے لوکل گلیوں میں موجود پاکستانی ریسٹورینٹس کا انتخاب کیا۔ جہاں کم خرچ پر اچھے کھانے میسر ہوتے تھے۔ صبح کے وقت پراٹھا چائے اور دن میں جو میسر ہو کھا لیا جاتا۔ جیسے کہ بکرے کی بھنی ران، کدو دال، بریانی، کڑھی پکوڑہ،قیمہ مٹر وغیرہ۔ اور عرب کی مشہور ڈش مندی بھی کھائی۔ مدینہ میں ہم نے دو دو جبے خرید لیے جنہیں مقامی توپ کہتے ہیں یہ ٹخنوں تک لمبی قمیضیں ہوتی ہیں جن کے ساتھ شلوار پہنی جاتی ہے۔ نہایت آرام دہ اور عرب کے موسم میں مناسب ترین لباس۔ ہم نے پھران سے بھرپور استفادہ کیا۔
مسجد نبوی کے عین سامنے ایک دیدہ زیب عمارت میں سعودی حکومت کی طرف سے ایک میوزیم بنایا گیا ہے۔ جو کہ پورے کا پورا سیرت طیؐبہ کے لیے مختص ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس میں سیرت مبارکہؐ کے ہر پہلو کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ میوزیم ابھی نامکمل ہے۔اسکا مکمل ٹور ایک گھنٹے میں ہوا ۔ اور بہت دلچسی کا حامل سارا ٹور تھا۔
مدینہ میں بہت سی جگہوں پر معمربرقعہ پوش عورتیں زمین پر کپڑا بچھائے جائے نماز تسبیح اور کپڑے وغیرہ بیچ رہی ہوتی ہیں۔ بعض جگہ چھوٹے بچے ٹشوز پکڑ کر لوگوں کو پکڑا رہے ہوتے ہیں بدلے میں لوگ انہیں کچھ ریال دے جاتے ہیں۔
مدینہ میں ہی جب ہماری موبائل ایپ کام کرنا شروع ہو گئی تو سب سے پہلے ہم نے اپنے عمرہ کرنے کا وقت بک کر لیا کہ کہیں ایسا نا ہو کہ ہمیں بعد میں ایپ کام چھوڑ دے اور عمرہ کا وقت ہی ناملے۔
الوداع مدینہ
رخصت کا لمحہ ہمیشہ سے ہی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر محبوب سے رخصت ہونے کا۔ اور ہم آج مدینہ سے رخصت ہو رہے تھے۔ رخصت ہونے سے پہلے ہم مسجد نبوی حاضری کے لیے گئے۔ نفل پڑھے اور روضہ رسول کے سامنے سلام کیا۔ ایک مرتبہ پھر اپنے پیاروں کا سلام رسول اللہﷺ او ر آپکے خلفاء کو پہنچایا اور ایک درخواست عرض کی کہ ’’ یا رسول اللہ۔ اپنے گھر ہمیں دوبارہ بھی بلائیےگا اور بار بار بلائیےگا‘‘ پھر جب رخصت ہونے لگے تو بار بار ہم مڑ کر مسجد نبوی کو دیکھ رہے تھے اور ہر منظر کوآنکھوں کے رستے دل میں اتار رہے تھے۔ مدینہ کے ہی ہم نے دو رکعت نماز ادا کر کے احرام باندھ لیے تھے ۔مدینہ سے مکہ جانے کے دو راستے ہیں۔ نیا اور پرانا۔ نیا رستہ کم وقت میں مکہ پہنچا دیتا ہے اور پرا نا رستہ لمبا ہے۔ مگر پرانا رستہ مقامِ بدر سے ہو کر جاتا ہے۔ اور ہم نے پرانے رستے سے ہی جانا تھا کیونکہ ہم نے بدر دیکھنا تھا۔
ڈرائیور دس بجے کے قریب ہوٹل آگیا۔ ہم کار میں سوار ہوئے اور ڈرائیور کو کہا کہ پلیز مسجد قبا کی طرف سے ہو کر جانا تا ہم جاتے جاتے وہاں دو رکعت الوداعی نفل ادا کر کے مدینہ سے رخصت ہوں۔
ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ہم نے مسجد نبوی کی طر ف منہ کر کے ہوائی بوسہ کیا اور خدا حافظ کہہ کر چل دیے۔ دونوں کچھ دیر خاموش رہے کہ اپنے اپنے انداز میں رخصت کے دکھ کو ہضم کر رہے تھے ۔ مسجد قبا پہنچ کر دو رکعت نفل ادا کیے اور مدینہ کی طرف آخری نظر دوڑائی۔ اس وقت جب یہ حال لکھ رہا ہوں تو بلکل وہی حالت ہے جب قبا سے نکلتے تھی۔ ایک تکلیف اور ایک ایسا احساس جیسے کہ رمضان کاآخری روزہ ہو اور روزہ دار کو رمضان کے گزرنے کا دکھ ہو اور یہ ملال بھی ہو کہ پتا نہیں دوبارا رمضان ملے گا یا نہیں۔
ہمارا بھی یہی حال تھا کہ جانے دوبارا مدینہ کا موقع ملتا ہے یا نہیں۔ مگر دعا یہی کہ یا اللہ جب تک زندہ ہیں ہمیں بار بار مدینہ آنے کی توفیق عطا کر اور ہماری آخری سانس ہمیں اس بابرکت شہر میں عطا کر جس میں تیرے نبیﷺ کی خوشبو مہکتی ہے۔۔ آمین
خدا حافظ مدینہ منورہ
مدینہ سے ہمارا سفر شروع ہوا ۔مدینہ نکلتے ہی خشک اور بنجر پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ پہاڑ اپنی ذات میں بہت پیارے لگ رہے تھے۔ سڑکوں پر زیادہ آمد و رفت نہیں تھی۔ سڑک کے دونوں اطراف مین ہمیں بتایا گیا تھا کہ مدینہ سے بدر جاتے ہوئے دو کنویں آتے ہیں جن میں سے ایک میٹھے پانی کا او رایک کھارے پانی کا کنواں ہے ۔ ایک کنوا ں جس کو بئر روحا یا بئر شفا کہتے ہیں روایت کے مطابق یہاں لشکر نبی نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ یہ ٹھنڈا ٹھار اور نہایت میٹھے پانی کا کنواں ہے۔ ہم نے یہاں سے ایک پلاسٹک بوتل پانی کی بھری او روضو کیا۔ ڈرائیور نے بتایا کہ پہلے یہ کھارے پانی کا کنواں ہوتا تھا مگر رسول اللہ ﷺ نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا تو اس کا پانی معجزانہ طور پر میٹھا ہوگیا تھا۔ دوسرا کنواں جو کچھ مزید فاصلے پر واقع ہے کھارے پانی کا کنواں ہے۔ ہم نے یہاں سے بھی پانی کی ایک بوتل بھری۔ پھر ہم بدر کی طرف چل دیے۔ راستے میں بہت سے پرانے اور بے آباد گھروں کی شکستہ دیواریں دکھائی دیں۔ ڈرائیور نے بتایا کہ ا ن میں بعض گھرکبھی صحابہ کرام کے ہوا کرتےتھے۔کافی دیر سفر کے بعد ہم بدر کی وادی میں داخل ہوگئے۔
بدر
اللہ تعالیٰ نے جنگِ بدر کے دن کو ’’یوم الفرقان‘‘ کہا ہے۔ تاریخ اسلام بدر کے بغیر ادھوری ہے۔سترہ رمضان دو ہجری کو بدر میں حق و باطل کا ایسا معرکہ ہوا جو ساری دنیا کے لیے مثال ہے۔ ایک طرف نہتے تین سو تیرہ مسلمان اور دوسری طرف ایک ہزار کفار کا لشکر۔؎
نہتے تین سو تیرہ بشر ذوقِ شہادت میں
خدا کے نام پر نکلے محمدؐ کی قیادت میں
یہ کثرت تھی نہ شوکت تھی نہ کچھ سامان رکھتے تھے
فقط اخلاص رکھتے تھے فقط ایمان رکھتے تھے
حضرت قاضی عبدالرحیم ؓ نے ۱۷ فروری ۱۹۰۴ء کو اپنی ڈائری میں بیان کیا کہ ا’’ آج رات حضرت مسیح موعودؑ نے خواب بیان کیا کہ انہیں کسی نے کہا کہ جنگِ بدر کا قصہ مت بھولو‘‘ (اصحاب احمد جلد ششم ص ۱۳۳) اسی مناسبت سےان بابرکت تین سو تیرہ بدری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تفصیلی ذکر ایک عرصے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبات جمعہ میں بیان فرما رہے ہیں اور آجکل حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ذکرِ خیر ہو رہا ہے۔
ان خطبات کی وجہ سے میدان بدر کو دیکھنے کا شوق مزید بڑھ چکا تھا۔ مقام بدر کو تفصیل سے لکھنا ایک الگ کتاب کا متقاضی ہے۔ اس لیے ہم یہاں تفصیل میں نہیں جائیں گے۔
جس جگہ جنگ لڑی گئی وہاں اب کھجوروں کے بکثرت درخت ہیں۔ ایک جگہ چاردیواری کر دی گئی ہے اور بتایا جاتا ہےکہ اس چار دیواری کے اندر شہداء بدر کی قبریں موجود ہیں۔ مگر یہاں بھی قبروں کا کوئی نشان نہیں ہے ہاں اس کے عین سامنے دو سٹرکوں کے درمیان ایک آہنی بورڈ نصب ہے جس پر بدر کے چودہ شہداء کے نام لکھے ہوئے ہیں۔
میں اک ٹک شہدائے بدر کی قبروں والی جگہ کیطرف دیکھ رہا تھا کہ ایک ہاتھ میرے کندھے پر آیا اور ایک نوجوان مسکراتا ہوا چہرہ مجھے سلام کر رہا تھا۔ میں اسے بلکل نہیں پہچان پایا۔ مجھے انگریزی میں پوچھنے لگا ہاؤ آر یو؟ اور جب اسے اندازہ ہوا کہ میں اُسے پہچان نہیں پایا تو کہنے لگا آئی نو یو فرام لندن۔ پھر یک دم میرے ذہن میں جھماکا ہوا اور مجھے یاد آیا کہ اُسے میں نے دیکھا ہوا ہے۔ مگر نام ذہن میں نہیں ہے۔ ہم نے کھڑے کھڑے علیک سلیک کی۔ دریافت پر پتا چلا کہ وہ اپنے والد کے ہمراہ عمرہ کی سعادت کے لیے حاضر ہوئے ہیں اور اب مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہیں۔ انہیں الوداعی سلام کہا ۔ اور وہ مدینہ کی طرف چل دیے اور ہم مکہ کی طرف۔
ہجرت مدینہ اور اُمِ معبد کا حُسنِ بیاں
مختلف صحابہ کرامؓ نے آنحضرت ﷺ کے حلیہ مبارک کا بیان کیا ہے۔ مگر اُم معبد خزاعیہ نے ہجرت مدینہ کے موقع پر اپنے خاوند کے سامنے حضورﷺ کو بیان کیا ہے اسکی ایک علیحدہ ہی شان ہے۔ اور فنِ قصیدہ میں اِس نثر کو بہت منفرد مقام ہے۔
اُمِ معبد ایک صحرا نشین عورت تھیں۔ میرے حضورﷺ اپنے یارِ غار حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ اس کے خیمے کے پاس سے گزرے تو وہاں قیام کیا اور خاتون سے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی کھانے پینے کو ہے؟ تو امِ معبد نے کہا کہ افسوس کچھ پیش کرنے کو نہیں ۔ بکریاں صحرا میں چرنے گئی ہوئی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ایک بکری کی طرف اشارہ کیا کہ اس بکری کا دودھ ہی کافی ہوگا۔ اس پر اُمِ معبد نے کہا کہ یہ تو ایک کمزور بکری ہے اور اسی وجہ سے ریوڑ کے ساتھ نہیں گئی۔
آنجناب ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اجازت دو تو میں اس کا دودھ دوہ لوں؟
اس نے کہا کہ ضرور کوشش کرلیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ پڑھ کر بکری کے تھن پر ہاتھ رکھا تو اس کا دودھ بھر گیا۔ آپؐ نے برتن مانگا اور اسکا دودھ لبریز ہوکر زمین پر گرنے لگ گیا۔ آپﷺ نے خود بھی دودھ نوش فرمایا اور اپنے ساتھی کو بھی دیا۔ اور بہت سا باقی ماندہ اُمِ معبدکو دے دیا۔ پھر کچھ دیر بعد آپؐ رخصت ہوگئے۔ کچھ دیر بعد امِ معبد کا خاوند جب واپس آیا تو دودھ دیکھ کر استفسار کیا کہ کہاں سے آیا؟
اُمِ معبد نے کہا کہ: ’’میں نے ایک انسان دیکھا، پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ،پسندیدہ خو، ہموار شکم، سر میں بھرے ہوئے بال ، زیبا، صاحبِ جمال، آنکھیں سیاہ و فراخ، بال لمبے اور گھنے، آواز میں مردانگی و شیرینی، گردن موزوں، روشن اور چمکتے ہوئے دیدہ سرمگیں آنکھ، باریک اور پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگھریالے گیسو، جب خاموش ہوتے ہیں تو چہرہ پروقار معلوم ہوتا ، جب گفتگو فرماتے تو دل ان کی طرف کھنچتا، دور سے دیکھو تو نور کا ٹکڑا، قریب سے دیکھو تو حسن و جمال کا آئینہ، بات میٹھی جیسے موتیوں کی لڑی، قد نہ ایسا پست کہ کم تر نظر آئے، نہ اتنا دراز کہ معیوب معلوم ہو۔ بلکہ ایک شاخِ گل ہے جو شاخوں کے درمیان ہو۔ زیبندہ نظر، والا قدر، ان کے ساتھ ایسے جو ہمہ وقت ان کے گردوپیش رہتے ہیں، جب وہ کچھ کہتے ہیں تو یہ خاموش سنتے ہیں۔جب حکم دیتے ہیں تو تعمیل کو جھپٹتے ہیں، مخدوم و مطاع نہ کوتاہ سخن اور نہ فضول گو۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ؎
فلِذا يُحَبُّ ويَستَحِقُّ جَمالُهُ
شَغَفاً به من زُمرَةِ الأخدانِ
سو اسی لئے تو آپؐ سے محبت کی جاتی ہےاور آپؐ کا ہی جمال اس لائق ہے کہ دوستوں کے گروہ میں صرف آپؐ ہی سے بے پناہ محبت کی جائے۔
سُجُحٌ كريم باذلٌ خِلُّ التُقى
خِرقٌ وفاقَ طوائفَ الفِتيانِ
آپؐ خوش خلق، معزز، سخی، تقویٰ کے سچے دوست، فیاض اور جواں مردوں کے گروہوں پرفوقیت رکھنے والے ہیں۔
فاقَ الورى بكمالهِ و جَمالِهِ
و جلالِهِ و جنانهِ الريّانِ
آپؐ ساری خلقت سے اپنے کمال اور اپنے جمال اور اپنے جلال اور اپنے شاداب دل کے ساتھ فوقیت لے گئے ہیں۔
لا شَكَّ أن مُحمـدًا خيرُ الْوَرى
رَيْقُ الْكِـرامِ ونُخْبةُ الأعيـانِ
بے شک محمد ﷺ خیرالورٰی، معززین میں سے برگزیدہ اور سرداروں میں سے منتخب وجود ہیں۔
مدینہ میں میں نے چند ایک لوگوں سے پوچھاکہ جس مقام پر ام معبد کا خیمہ تھا کیا کسی کو اسکا علم ہے یا تاریخ میں کسی جگہ درج ہے کہ وہ کس جگہ موجود تھا مگر سب اسکے متعلق لا علم تھے۔ میں جب مدینہ سے مکہ کے لیے چلا تو سارے راستے ایک شوق سے باہر دیکھتا رہا کہ یہیں کہیں اس مبارک وقت میں ام معبد کا خوش نصیب خیمہ تھا جہاں رسول اللہؐ اپنے رفیق کے ہمراہ تھوڑی دیر رکے اور اپنی پیاس بجھائی تھی اور یہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل کش قصیدہ کہا گیا تھا۔ اے کاش کہ میں وہاں جا سکتا، تمام راستے یہ سوچ دل میں رہی کہ انہیں پتھریلے راستوں میں بہت سے خوش نصیب پتھر ہونگے جن پر رسول اللہﷺ کے قدم مبارک پڑے ہونگے۔کاش میرے ہاتھ کوئی ایک آدھ پتھرلگ جاتا۔مگرہر دعا لفظ بہ لفظ قبول تھوڑی ہوتی ہے۔
مکہ مکرمہ
مکہ جو بستیوں کی ماں ہے جہاں امن ہے اور جسکی قسم قرآن میں اللہ سبحان وتعالیٰ نے کھائی ہے۔ مکہ کے ہر درخت کو امن حاصل ہے اسکے ہر پتھر کو امن ہے ہر گلی کو امن ہے۔ ہر شکار کو امن ہے۔آنحضرت ﷺ کی محبوب بستی ہے۔ اور اس نسبت سے ہمیں بھی اس بستی کے ہر گوشے سے شدید محبت ہے۔
ڈرائیور کے مطابق ہم اس امن والی بستی سے تین گھنٹے کی مسافت پر تھے، اور میرا دل ایسے تھا جیسے حلق میں دھڑک رہا ہے۔
آخر مکہ ٹاور ہمیں نظر آنے لگ گیا ۔مکہ کےہرطرف پہاڑ ہی پہاڑ ۔ گاڑیوں کا بہت شور، گرمی کی شدت اور ہماری شوق سے پھیلی آنکھیں۔ جب گاڑی والے نے ہمیں ہوٹل اتارا تو ایک لحظہ کو دل میں خیال آیا کہ کہیں یہ خواب تو نہیں ۔ اور ابھی آنکھ کھل جائے گی۔ یہ کیفیت مدینہ پہنچنے کی کیفیت سے بلکل الگ تھی۔ مدینہ کی فضا میں محبت اور نرمی نے استقبال کیا تھا۔ جبکہ مکہ مکرمہ کی فضا میں ایک جلال تھا ایک رعب کی کیفیت تھی اور آنکھیں خوب بخود جھکی جاتی تھیں۔ ہم نے فیصلہ کیا چیک ان کر کے فریش ہونگے اور پھر بیتِ عتیق کے اردگرد گھوم پھر لیں گے۔ ہم نے ہوٹل میں جب چیک ان کیا تو ہمیں خبر ہوئی کہ ہرخاص و عام کے لیے عمرہ کرنا کھول دیا گیا ہے اور ٹائم لینے والی کوئی پابندی نہیں رہی اب۔ یہ ہمارے لئے من سلویٰ کی مانند خبر اتری اور ہم الف ہوگئے۔ جلدی جلدی کمرے میں گئے۔تر و تازہ ہوئے اور مقدس خانہ کعبہ کے لیے ہوٹل سے نکل آئے۔
اِنِّیْ اَنَا رَبُّكَ ۔میں تیرا رب ہوں
(مجھے لگتا ہےیہاں میں اپنی کیفیت لکھوں تو لگے گا کہ لفاظی ہے مگر بتاتا چلوں کہ میری سب لفاظی اس کیفیت کے سامنے ذرہ برابر بھی نہیں جو مجھے پہلے عمرہ اور اسکے بعد جتنے عمرے کرنے کی توفیق ملی کو ادا کرتے ہوئے ہوتی رہی۔ )
ہمارا ہوٹل ذرا اونچائی پر تھا۔ او وہاں سے ایک ڈھلوان تھی جو دو حصوں پر مشتمل تھی یعنی کچھ ڈھلوان اتر کر بائیں طرف تیز موڑ کاٹتی تھی پھر دائیں طرف ایک ڈھلوانی موڑ جو کہ سیدھا بیت اللہ کیطرف جاتا تھا۔ ہم جب پہلے حصے سے نیچے کی طرف آرہے تھے تو جہاں پہلا موڑ بن رہا تھا وہاں کچھ لوگ کھڑے ایک طرف سامنے دیکھ رہے تھے۔
میں نے مدثر سے کہا یار مجھے لگتا ہے ہم جب اس موڑ پہ مڑیں گے تو ہمیں بیت اللہ نظرآجائےگا۔ وہ میرے آگے آگے چل رہا تھا پیچھے مڑ کر کہنے لگا چلو دیکھتے ہیں۔ ہم کچھ اور آگے چلےتو اس نے کہا ہاں مجھے بھی لگتا ہے کہ اب بیت اللہ نظر آئے گا۔
یک دم میرا دل بیٹھ گیا۔ میں رک گیا۔ مدثر کہنے لگا رکے کیوں ہو؟
میں نے ایک پست سی آوازمیں کہا کہ میرے دل کو کچھ ہونے لگا ہے۔ مجھے ذرا ہمت کر لینے دو۔ اور سائیڈ پہ موجود فٹ پاتھ کی چھوٹی دیوار کا سہارا لیا اور بیٹھ گیا۔ میرے ذہن سے ہر طرح کی سوچ نکل گئی۔ بس یہ سوچ اور شرم کہ کہاں میرے جیسا گناہگار کرمِ خاکی ۔ نافرمان دُنیا میں پھنسا ہوا بندہ جو قدم قدم پر پھسلتا ہے گرتا ہے توبہ کا ارادہ کرتا ہے توڑ دیتا ہے۔ مجھے خوف نے ایسا جکڑا کہ مجھے لگا میرا دل پھٹ جائے گا۔
میری چالیس سال کا ہر گناہ ہر کمزوری ہر خلش میری آنکھوں کے سامنے آگئی۔
پھرمیری اپنی بے بسی نے مجھے بتایا کہ رب سے کہاں چھپوں؟ کہاں جاؤں اور کوئی در بھی نہیں ۔میری ہر ڈور رب کے ہاتھ بندھی ہوئی ہے۔ جیسا بھی ہوں جو بھی ہوں۔ہوں اپنے رب کی تخلیق اور اسکے عیال میں سے ایک ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر جب آگ دیکھ کر اپنے گھر والوں کے لیے آگ لینے گئے تو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُنہیں تسلی دی گئی کہ ’’ اِنِّیْ اَنَا رَبُّكَ ۔میں تیرا رب ہوں‘‘
میرے رب کی یہ تسلی صرف ایک کے لئے تو مخصوص نہیں اور اسی تسلی نے مجھے کہا کہ یہ میرے رب کا گھر ہے۔ اب اسکے دروازے پہ آیا ہوا ایک گدا ہوں وہ بادشاہ ہے تو جو چاہے سلوک کرے۔
میں کوئی جان بوجھ کرباقاعدہ پلاننگ سے نہیں رکا تھا۔ یہ بے اختیار رکاوٹ تھی۔ جیسے اچانک سکتہ طاری ہو جائے۔ میرا یہ اچانک سکتہ ٹوٹا اور میں
لرزتے قدموں کھڑا ہوا اور ڈھلوان اترنے لگا۔ میرے جوتے اُتر چکے تھے۔ جب موڑ پر پہنچا تو سامنے ہی اللہ تعالیٰ کے سب سے قدیم او رمعتبر گھر ہمارے قبلہ کا داخلی دروازہ تھا۔ اُس دروازے کو دیکھ کر میری سانس رُک گئی دھڑکن تیز ہو گئی ، آنسو اپنا بند توڑ کر نکل آئے اور ہاتھ خود بخود دُعا کے لیے اُٹھ گئے۔ وہ دُعا میرے ہونٹوں پہ تھی جو چند ہفتے پہلے میں نے خواب میں کعبہ کو دیکھتے ہوئے کی تھی!
خواب
اے مجھے اپنا پرستار بنانے والے
جوت اک پریت کی ہردے میں لگانے والے
مجھ سے بڑھ کر میری بخشش کے بہانوں کی تلاش
کس نے دیکھے تھے کبھی ایسے بہانے والے
میں کہاں اور کہاں حرف شکایت آقا!
ہاں یونہی ہول سے اُٹھتے ہیں ستانے والے
مارچ ۲۰۲۲ کے شروع کی بات ہے اپنے ایک مہربان دوست کو میں نے فون ملایا اور ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد میں نےکہا کہ ایک خواب دیکھا ہے جس نے مجھے پریشان کر دیا ہے وہ آپ کو سنانا ہے ۔کہنے لگے سناؤ!۔ عرض کی ’’ خواب دیکھ جیسے میں کار کے ذریعے مکہ گیا ہوں اور ڈھلوان سے اتر کر بیت اللہ میں داخل ہوا ہوں اور ابھی کعبہ پر میری نظر نہیں پڑی مگر کعبہ طواف کی دوسری اور تیسری منزل پر میں گھوم رہا ہوں اور جیسے کہ مجھے علم ہوتا ہے کہ کعبہ میرے ایک طرف ہے مگر میں اُس کی طرف دیکھتا نہیں ہوں کیوں کہ میں چاہتا ہوں کہ جب کعبہ کو دیکھوں تو بھرپور دیکھوں یعنی جب وہ پورا کا پورا میرے سامنے ہو۔مگر اچانک ایک چھوٹی سی درز سے مجھے کعبہ نظر آجاتاہے اور میں ہاتھ اٹھا کر ایک دعا کرنا شروع کر دیتا ہوں۔‘‘
انہوں نے اس کی خیر والی تعبیر بتائی جس سے دل کو تسلی ہوئی۔بیت اللہ کےداخلی دروازے کو جب دیکھا تو وہی خواب والی دعا میرے ہونٹوںپہ تھی مگر خواب کا پہلا حصہ ابھی باقی تھا۔
گھونگھٹ چک لے سجنا وے
بیت اللہ کو دیکھ کر دعا کر کے ہم مزید ڈھلوان اترنے لگے ۔ ابھی ہم نے کعبہ کو نہیں دیکھا تھا۔ ہم جب چل رہے تھے تو ہماری بائیں طرف بیت اللہ تھا اور دائیں طرف مارکیٹس اور ہوٹلز۔ مجھے اندازہ ہوا کہ کعبہ بھی ہمارے بائیں طرف ہی آئے گا۔ تو میں نے مدثر سے کہا کہ اب جو مرضی ہو جائے یا تو نظر بلکل نیچی رکھنی ہے یا ہم نے اپنے بائیں طرف نہیں دیکھنا کجا کہ ہمیں کعبہ پورے کا پورا نظر آجائے۔ (ہمیں اس وقت تک علم نہیں تھا کہ بیت اللہ داخل ہو کر ہی ہمیں کعبہ پورے کا پورا نظر آئے گا)
ہم اپنی نظریں نیچے کیے اور رُخ دائیں طرف رکھے ہوئے چل رہے تھے جب داخلی دروازے سامنے ایک جگہ پہنچے تو ایسے مجھے لگا کہ جیسے کسی نے میرا سر ایک زور کے ساتھ بائیں طرف موڑ دیا ہے۔ اور میری نظر ایک چھوٹی سی درز سے ہوتی ہوئی ڈائریکٹ کعبہ پر جا ٹکی۔ ہائے میرے ربا!
یہ کیا ہوگیا۔ میری آنکھوں میں ایسی مجال کیسے آگئی۔ میرے قدم ساکت ہوگئے اور ہاتھ دعا کےلیے بلند ہوگئے۔ میرے ہونٹوں پہ میرے خواب والی دعا تھی اور میرا خواب پورا ہو چکا تھا۔اور حجاب اتر چکا تھا۔ الحمدللہ
اج مک جان حسرتاں دید دیاں
تُوں گھنڈ نوں اُٹھا کے بیٹھا رہ
ساڈی جان جاندی اے تے پئی جاوے
تُوں زلف سجا کے بیٹھا رہ
ہوئیاں مدتاں نمازاں نیتیاں نُوں
پر سجدہ کرن نُوں ترس گئے آں
قضا ہوئیاں نمازاں ادا ہوون
ساڈے سامنے آکے بیٹھا رہ سجنا
گھونگھٹ چک لے سجنا وے
ہن شرماں کاہنوں رکھیاں وے
ابابیل اور گلاب
ہم داخلی دروازے کی طرف چل دیے۔ قدم گو تیزتھے مگر فاصلہ کم ہی نہیں ہورہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ عالمِ مدہوشی میں چلتے ہوئے اچانک سر پرکانوں کو شناسا شور سا سنائی دیا ااور جب سر اُٹھا کر دیکھا تو ایک بار پھر قدم رُک گئے۔ہزاروں ابابیلیں اُڑ رہی تھیں اور میں ربوہ پہنچ گیا۔
گرمیوں میں عصر کے بعدہم گراؤنڈ میں جب کھیل رہے تو مغرب کی اذان سے کچھ لمحے پہلے آسمان اکثر لاتعداد چھوٹے چھوٹے پرندوں سے بھر جایا کرتا تھا اور میں گیم چھوڑ کر ہمیشہ انکی طرف دیکھنے لگ جایا کرتا تھا۔ سرمئی شاموں میں ان ابابیلوں کا منظر اور انکا شور ایک ناقابلِ بیان حسین منظر اور جذبات پیدا کیا کرتا تھا۔ یہ ابابیلیں مغرب کی نماز کے بعدتک آسمان تک رہتی تھیں ۔
اسلامی کیلنڈر کے حساب سے مغرب سے دن کا آغاز ہوتا ہے۔ یہاں کعبہ کے داخلی دروازے پر محوِ پرواز ہزاروں لاکھوں ابابیلیں شاید ہر سچے دل سےخدا کے گھر کا طواف کرنے والے کو اسکی زندگی کےاک نئے دن ، اک نئے آغاز کی خوشخبری سنا رہی ہوتی ہیں۔
میں ان ابابیلوں میں جانے کتنی دیر کھویا رہا، پھر گلاب کی تیز اور انتہائی دل فریب خوشبو نتھوں سے ٹکرائی اور میں مکہ واپس لوٹ آیا۔ یہ خوشبو بیت اللہ میں ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔ بعد میں جب میں نے کسی سے پوچھا تو پتا چلا کہ یہ ایک خاص قسم کا عطر ہے جسے بن لادن گروپ ایک خاص فیکٹری میں تیار کرتا ہے جو صرف اور صرف کعبہ کے لئے یہ عطر تیار کرتی ہے۔
میرا بعد میں دل کیا کہ اپنے احرام اس عطر سے دھلا لوں۔ اس مقصد کے لیے میں نے کعبہ کے ایک بنگالی خادم سے پوچھا کہ بابا یہ مجھے عطر کہاں سے مل سکتا ہے؟ تو وہ کہنے لگا حاجی یہ خوشبو کسی دکان سے نہیں ملے گی۔ پورے عرب میں اگر کسی دکان سے یہ عطر ملے تو سعودی پولیس اس دکان کو ہمیشہ کے لیے بند کردےگی اور کسی دکاندار کو اجازت نہیں کہ وہ اس کو بیچ سکے۔
میں نے ایسے ہی مذاق میں کہا کہ بابا کیا تم مجھے یہ عطر ایک شیشی میں لا کے دے سکتے ہو؟ تو وہ ہنس پڑا کہنے لگا حاجی کیوں مروانا ہے۔
ہاں یہ حقیقت ہے کہ گلاب کی وہ خوشبو بیت اللہ میں زیادہ جچتی ہے۔ اس میں ایک خاص قسم کی لطافت ہے۔ جو شائد بیت اللہ کے باہر اپنا اثر کھو دے۔
ہرذرہ فشاند از تو نُورے
ہم اپنے پہلے عمرے کی ادائیگی کے لیے داخلی دروازے سے ہوتے ہوئے بیت اللہ میں داخل ہوگئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ سے میری پہلی ملاقات سن دوہزار چار کے شروع میں ہوئی تھی۔میں مسجد فضل میں ویٹنگ ایریا میں عصر کی نماز کے بعد اپنی باری کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد میرانام پکارا گیا اور میں پرائیویٹ سیکریٹری صاحب کے دفتر میں آکر بیٹھ گیا۔ یہاں میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں سجدے میں گر جاؤں مجھ میں ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ حضرت صاحب کے کمرے میں جا سکوں۔ پرائیویٹ سیکریٹری صاحب نےمجھے اشارہ کیا کہ اندر چلا جاؤں میں دروازے پر رک گیا تو انہوں نے کمر پہ تھپکی دی کہ کچھ نہیں ہوتا چلے جاؤ۔ اندر داخل ہوتےہیں ایک ہلکی سی نظر حضرت صاحب کے چہرے پہ رکی اور اسکے بعد نظر نیچے اور قدم ساکت۔
تب ایک پیار بھری جانی پہچانی آواز نے کہا ’’آجاؤ کچھ نہیں ہوتا‘‘۔ اس آواز میں ایک حوصلہ افزائی تھی، اورجب انکی طرف بڑھا تو میرے حضور نے ہاتھ آگے بڑھایا ۔اس نرم اور خوشبودار ہاتھ سے میرا پورا وجود لپٹ گیا اور میں بے خود ہوگیا۔ اور یہی کیفیت میرے حضور سے ہر ملاقات کے وقت ہوا کرتی ہے۔
بیت اللہ میں جب داخل ہوا تو بالکل یہی احساس طاری ہوگیا۔ تھوڑا سا ٹھٹکا اورمیرے ہی دل نے مجھے تسلی دی ’’آجاؤ کچھ نہیں ہوتا‘‘ ۔ بس نہیں چل رہا تھا کہ ہر قدم پرسجدہ کروں۔ کعبہ کی طرف جاتے اس رستے پہ اپنی پلکوں سے جھاڑوں دوں اور لپٹ لپٹ جاؤں۔ میری آنکھوں کے سامنے کالا غلاف تھا۔ داخلی دروازے سے ایک ہال نما راہداری شروع ہوتی ہے جس کے اردگرد دونوں اطراف میں نماز پڑھنے کے لیے جگہیں مخصوص ہیں۔ رستے کے دونوں اطراف میں زم زم سے بھرے ٹھنڈے کولر رکھے ہوئے ہیں۔ جہاں سے ہم نے خوب جی بھر کر زم زم پیا۔ وہاں سے ہم برقی سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے نچلی منزل پر آئے جہاں سے ہم سیدھا مطاف میں داخل ہوئے جہاں ہماری دُنیا بدل گئی۔
اے دلبر و دلستان و دلدار
واے جانِ جہان و نُورِ اَنوار
اے میرے دلبر محبوب اور دلدار اور اے جانِ جہاں اور نوروں کے نور
لرزاں زِتجلیّت دل و جان
حیراں زِ رخت قلوب و ابصار
جان و دل تیرے جلال سے کانپ رہے ہیں۔ قلوب اور نظریں تیرے رُخ کو دیکھ کر حیران ہیں
حسنِ تو غنی کند زِ ہر حُسن
مہرِ تو بخود کَشدزِ ہر یار
تیرا حسن ہر حسن سے بے نیازکردیتا ہے اور تیری محبت ہر دوست کو چھڑا کر اپنی طرف کھینچ لاتی ہے
ہر ذرہ فشاند از تو نُورے
ہر قطرہ براند از تو انہار
ہر ذرہ تیرا نور پھیلاتا ہے۔ ہر قطرہ تیری توصیف کی نہریں بہاتا ہے
لبیک اللھم لبیک
کعبہ کے اردگرد مطاف میں زائرین عمرہ میں مصرف لبیک اللھم لبیک کے ورد ، مختلف عربی دعاؤں اور دیگر اذکار کو بآواز بلند دہراتے ہوئے طواف میں مشغول تھے۔
ہم نے یوٹیوب پر عمرہ کی ادائیگی کے متعلق مختلف ویڈیوز دیکھ رکھی تھیں او ر میں دو مرتبہ سید حسن خان صاحب سے بھی مل چکا تھا جنکی چھوٹی سی پاکٹ بک ’’عمرہ کی دعائیں اور مقاماتِ مقدسہ‘‘ چھپی موجود ہے۔ سید صاحب کو اللہ تعالی ٰ نے بہت مرتبہ عمرہ کی سعادت عطا فرمائی ہے اس لیے ان سے تفصیل سے عمرہ کی ادائیگی کی رہنمائی حاصل کی تھی۔
طواف کا پہلا چکر اور ہر چکر حجر اسود کی طرف ہاتھ کے اشارے سے سلام اوربسم اللہِ اللہ اکبر کہہ کر شروع ہوتا ہے۔
ہم لبیک اللھم لبیک دہراتے حجرِ اسود کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ عمرہ شروع کرنے سے پہلے ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگی ۔ میری ایک منت تھی کہ زندگی میں کبھی رب نے عمرہ کی توفیق دی تو سب سے پہلا عمرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ادا کرونگا۔میں نے اسکے متعلق کسی سے کوئی رائے یا مشورہ نہیں لیا کبھی اور نا ضرورت محسوس ہوئی۔ بس یہ دل کی بات تھی۔ یہ باباجانؐ اور انکے غلام کا معاملہ تھا۔
حجر اسود کے سامنے کھڑے ہوکر جتنی دعائیں کر سکتے تھے ہاتھ اُٹھائے اللہ تعالیٰ کے حضور رکھ دیں۔
’’کشکول میں بھر دے جو میرے دل میں بھرا ہے‘‘
اور پھر حجر اسود کی طرف ہاتھ کھڑا کرکے سلام کا اشارہ کیا بسم اللہ اللہ اکبر کہ پہلے طواف کا آغاز کر دیا۔کعبہ کے گرد سات چکر لگانے تھے۔ یہ اینٹی کلاک وائز یعنی الٹے چکر ہیں۔ یعنی گرددش زمانہ کے الٹ۔ جب ساتواں چکر ختم ہوتا ہے تو مقامِ ابراہیم کے سامنے دو رکعت ادا کرنے ہوتے ہیں۔
پہلے تین چکر تیز تیز اور پھر چار چکر اپنی مرضی سے آہستہ پورے کرنے ہوتے ہیں۔لوگ آہستہ اور بلند آواز میں بھی دعائیں کرتے طواف کر رہے تھے۔ ہم دونوں کچھی سفید احراموں والے ہجوم کا حصہ بن کر ہجر اسود کے قریب چلے جاتے اور کبھی جدا ہوکر باہر آجاتے۔ بقول حضرت عمر ؓ تھا تو ایک پتھر ہی مگر اسکی نسبت میرے آقا ﷺ سے تھی اور میری بھی خواہش تھی کہ اس کو چھو لوں۔ مگر کووڈ پابندیوں کی بنا پر اسکے قریب جانا بھی ممکن نا تھا کہ سپاہیوں کا سخت پہرہ تھا۔ یہی حال حطیم کا تھا وہاں جانا بھی ممکن نا تھا او ر میزابِ رحمت تو تھا ہی ہمارے سروں سے بہت بلند کعبہ کی چھت سے منسلک۔ ہاں مقامِ ابراہیم چونکہ طواف کے عین رستے میں آجاتا تھا تو اسکو جتنی چاہے مرتبہ قریب سے دیکھ لیں۔ اور ہم نے بار بار اسے دیکھا۔ مقامِ ابراہیم دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقش پا کو کہتے ہیں جنہیں مضبوط شیشے کے جار اور اسکے باہر آہنی پنجرے میں محفوض کر لیا گیا ہے۔
میرا یہ عمرہ چونکہ رسالت مآب ﷺ کے نام پر تھا تو سوائے درود ابراہیمی کے یا ایک قرآنی دعا کے اور کوئی بھی دعا سات چکروں میں دہراتا رہا۔ ساتواں چکر جب ختم ہوا تو مقامِ ابراہیم کے سامنے والے حصے میں جا کر دو رکعت نفل ادا کیے۔ہمارا طواف مکمل ہو چکا تھا اب سعی کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگانے تھے۔
صفا کی طرف جاتے ہوئے راستے میں زم زم سے اپنی مزید پیاس بجھائی اور کچھ سر پر انڈیلا اور جسم پر ملا۔ صفا اور مروہ کے چونکہ اب حرم کی چاردیواری میں آچکی ہیں اس لیے انکے اوپر اب چھت ہے اور پنکھے بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں گرمی کا احساس تک نہیں ہوتا ۔
خیر صفا پر پہنچ کر کعبہ رُخ ہو کر کچھ دیر دعا کی اور پھر صفا سے مروہ سعی کا پہلا چکر شروع ہوا۔کل سات چکر لگانے تھے جن کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ صفا سے مروہ ایک چکر مکمل ہوتا ہے۔ یوں مروہ کے مقام پر سات چکر مکمل ہوتے ہیں۔ ان چکروں میں قرآن کی تلاوت، ادعیہ یا اذکار جس مرضی زبان میں کر سکتے ہیں۔ اور ہم یہی کرتے رہے۔
ساتواں چکر مروہ پر جب مکمل ہوا تو ہم مروہ کے خارجی دروازے سے حرم سے باہر نکل آئے اب ہم نے بال منڈوانے تھے اور بال منڈوائے بغیر ہم احرام کی حالت سے نکل نہیں سکتے تھے۔ اس کے لئے قریبی مارکیٹ میں حجام کی لاتعداد دکانیں موجود تھیں تقریباً نوے فیصد حجام پاکستانی تھے۔ ہم نے ایک مناسب دام والی دکان سے بال منڈوالیے۔اور ہم احرام کی پابندی سے نکل آئے۔ ہمیں قریباً سوا تین گھنٹے لگے اس سارے عمل میں۔
ہماری زندگی کا پہلا عمرہ مکمل ہو چکا تھا الحمدللہ
تیرے کرم سے یارب میرا بر آیا مطلب
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
واپس ہوٹل جاکر اب ہمیں فریش اپ ہونا تھا اور اس کے بعد رات کا کھانا کھانا تھا۔ مگر ایک عجیب سی مسکینی طاری تھی جو بار بار اشکوں کو آنکھوں کے دروازے چھوڑنے پر مجبور کر رہی تھی۔
(یا اللہ! حاضر ہوں اور صرف تیرے پاس حاضر ہوں۔ اپنے سب سے دور ہوں، جسم پر دو سفید چادروں کے سوا کچھ باقی نہیں،جسم کا جوڑ جوڑ درد کر رہا ہے اور بال منڈوا کر بلکل گنجا ہوگیا ہوں۔ میری ’’میں‘‘ باقی نہیں رہی۔ بس تُو قبول کرلے۔ مجھ سے تعلق قائم کر لے۔ مجھے ظاہری بھی اور باطنی بھی پاکیزگی اور طہارت عطا کر اور ایسا کر کہ میں تجھے پسند آجاؤں۔آمین)
اے خداوندِ من گناہم بخش
سوئے درگاہِ خویش راہم بخش
روشنی بخش دردل و جانم
پاک کُن از گناہِ پنہانم
دلستانی و دلربائی کن
بہ نگاہے گرہ کشائی کُن
در دو عالم مرا عزیز توئی
و آنچہ می خواہم از تو نیز توئی
(کلام حضرت مسیح موعودؑ)
اس کے بعد جتنے دن مکہ میں رہے سوائے دو دنوں کے ہر روز صبح شام یہی روٹین رہی۔
پہلا عمرہ ادا کرکے ہوٹل واپس آیا تو گھر سے ایک دکھی خبر ملی جس نے طبیعت پر بڑا اثر کیا مگر چونکہ میں مکہ کی مقدس وادی میں اپنے جوتے اتار چکا تھا اس لیے سب کچھ مزید اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیا۔ اس خبر نے سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سب کرنے اور راضی بہ رضا ہونے کا اصل مطلب کیا ہے۔
کوہِ صفا پر ایک واقعہ
ایک دن اکیلا عمرہ کر رہا تھا۔ او ر طوافِ کعبہ سے فارغ ہو کر کوہ صفا پر قبلہ رُخ کھڑا دعا کر رہا تھا۔کہ اچانک میرے دونوں کندھوں پر دو ہاتھ آٹھہرے۔ میرارتکاز ٹوٹ گیا۔ میں نے اپنے پہلو پر دیکھا تو ایک باریش جوان مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ مجھے یاد نہیں آیا کہ میں نے اسے کہاں دیکھا ہےیا کب اس سے ملا ہوں۔
مجھے اپنی طرف دیکھ کر مسکراتا ہوا عربی میں کچھ کہنے لگا۔ میں نے اسے جواباً ’’لاتکلم عربی‘‘بولا اور ساتھ ہی انگریزی میں کہہ دیا کہ سوری آئی کانٹ سپیک عریبک۔
تو اس نے مجھے گلے لگایا اور ٹوٹی پھوٹی انگلش میں کہنے لگا :
I pray for you, please pray for me.
میں نے اپنی طرف اشارہ کر کے کہا ’’انا محمد فاروق سعید‘‘ اور اس کی طرف انگلی سے پوچھا ’’اسم اسم‘‘ تو اس نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے ایک مشکل سا نام جو ش سے شروع ہوتا تھا بتایا۔ مجھے جب دہرانے پر بھی نام کہنا نہ آیا تو کہنے لگا ’’انا محمد‘‘ یعنی مجھے محمد کہہ لو۔ اور پھر وعدہ لے کر چلا گیا کہ میں اس کے لئے کوئی دعا کروں۔ جب وہ جا رہا تھا تو اُس نے مجھے پلٹ کر ایک بار پھر دیکھا، مجھے شائد اسکی روشن آنکھیں اور مسکراہٹ کبھی نہ بھول پائے۔ ہاں اسکی بدولت کوہِ صفا پر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ دعا کی توفیق عطا کی۔ اور اب جب کہ یہ سطریں لکھ رہا ہوں اس کے لیے ابھی بھی دعا ہی جاری ہے۔ اللہ اس کو وہ دے جو اس کا مطلوب ہے۔ آمین
کعبہ
گر مہرِ خویش برکنم از روئے دلبرم
آن مہر بر کہ افگنم آں دل کجابرم
’’اگر میں اپنی محبت کو اپنے دلبر کی جانب سے ہٹا لوں تو اس محبت کو کس سے لگاؤں اور اس دل کو کہاں لے جاؤں‘‘
کائناتِ محبت میں روحِ انسانی ہر وقت محبوب کے در پہ دھونی رمائے رہتی ہے۔ اپنے محبوب کی ذات کے گرد طواف میں رہتی ہے۔ اسکے آستانے پر اپنے بوسوں سے عقیدت اور محبت کا اظہار کرتی ہے۔ یعنی عاشق اپنی لگن اور عمل سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انکا محبوب ایک نظر قبولیت کی ڈالے اور وہ کوئلے سے ہیرا ہو جائیں۔ کعبہ بھی عاشقانِ الہٰی کے لئے ایسا ہی مقام ہے۔ جہاں اپنے رب کے عاشق اسکی محبت میں کبھی کعبہ کو چومتے ہیں۔ کبھی رکن یمانی سے لپٹتے ہیں۔ کبھی حطیم کی طر ف آس کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔کبھی مقامِ ابراہیم پر مجذوبوں کی طرح لپکتے ہیں۔ طوافِ کعبہ کے دوران کبھی بے قراری سے بھاگتے ہیں کبھی رکتے ہیں۔کبھی اپنے ماتھے اور ناک کو اپنے محبوب کی راہ میں زمین پر رکھتے عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ غرض صرف ایک ہوتی ہے کہ کسی طرح انکا مطلوب انکا رب ان سے راضی ہو جائے۔ وہ جب حجرِ اسود کو چومتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ یہ پتھر انکی مرادیں پوری کرے گا۔ انکا چومنا صرف اس لئے ہوتا ہے کہ وہ کالا پتھر ربِ تعالیٰ سے منسوب ہے۔ ہے تو یہ ایک اینٹوں سے بنا ہوا بڑا سا کمرا جس پر سونے سے آیتیں لکھا کالا غلاف ہے مگر درحقیقت یہ ایک سمبل ہے خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا۔ اور اسی وحدانیت کی فرمانبرداری کرتے ہوئے لوگ اسکی محبت میں دور دور سے اس مقام پر آتے ہیں۔ یہ اللہ کا خاص فضل ہی ہوتا ہے جو یہاں آتے ہیں اور اپنی مرادیں پاتے ہیں۔
نامم زِ کارخانئہ عُشاق محو باد
گر جز محبتِ تُو بود شغل دیگرم
(کلام حافظ)
’’خدا کرے کہ عاشقوں کے کارخانے سے میرا نام مٹ جائے اگر تیری محبت کے سوا میرا کوئی دوسرا شغل ہو‘‘
یہ اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر ہے جو خاص اس کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس کو بیت اللہ، بیت العتیق، کعبہ، قبلہ، اور بیت المعمور بھی کہتے ہیں۔ یہ گھر ہر لحاظ سے انسان کو یقین دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں کی گئی کوئی بھی قربانی کبھی ضائع نہیں کرتا۔ کعبہ کا چپہ چپہ ربِ کعبہ کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے۔ کعبہ میں گزارا ہر لمحہ ہمیں بہت قیمتی لگا۔ یہاں وقت بہت جلد گزر جاتا ہے۔ ہر وقت لوگ بیت اللہ کے اندر اور بیت اللہ کے باہر کھلے آسمان تلے کعبہ کی طرف منہ کیے بیٹھے رہتے ہیں۔ سعودی حکومت پوری کوشش کرتی ہے کہ زائرین کعبہ کو ہر طرح کی سہولت مل سکے مگر انکی پوری کوششیں کبھی بھی پوری نہیں ہوتیں۔
کعبہ ایک چرخہ ہے جسکا مالک یار سجن ہے۔ یہ رنگلا چرخہ نہیں ہے۔یہ شوخ کوک نہیں نکالتا۔ یہ سیاہ ہے غم و حزن سے۔ یہ دراصل تب کوکتا ہے جب روح میں برہوں کی رڑک سے خون سڑتا ہے۔ عشق کی آتش پہ جب قلبوت کی ہنڈیا پکتی ہےتو اس چرخے کی تند بندھتی ہے۔
رفیقِ اعلیٰ نے یہ چرخہ اپنے عیال لوگوں کی آسانی کے لئے دُنیا میں تعمیر کرایا کہ اس کے گرد اپنے عشق اپنی لگن کا کمزور تاگا باندھنا پڑتا ہے۔ پھر اپنی لگن سے اس تاگے کو کاتنا پڑتا ہے۔ خاص خیال رکھنا پڑتا ہے چرخا چلاتے ہوئے رفتار ایسی ہو جو قابو میں رہے۔ اتنی تیز نا ہو کہ تاگا صحیح سے بن ہی نا پائے اور نا اتنی آہستہ کہ تاگے کا ایک چکر بھی پورا نا ہو پائے۔ نا ایسی اناڑی کہ تاگا ٹوٹ جائے۔ صفا و مروہ اس چرخے کی ’’ منیاں ‘‘ ہیں جن پر اپنی آہنی لگن کو منسلک کرنا ہوتا ہے تا یہ چرخہ گھوم سکے۔ اس پر اپنے وقت کا ’’تکلا‘‘ لگانا پڑتا ہے پھر درود شریف کا ’’ہینڈل‘‘ پکڑنا پڑتا ہے۔روئی ایسی ہو جس میں دنیا داری اور دکھاوے کا ’’بنولہ‘‘نا ہو۔ پھر کبھی آہستہ ، کبھی تیز اور کچھ حصہ دوڑ کر اپنی پونی کا ٹانکہ لگایا جاتا ہے۔
میں اپنی روئی ساتھ لایا تھا جو میں نے اپنے جوتے اتار کر اکٹھی کی تھی۔ اور مجھے اس چرخے پر سوت کاتنا تھا۔ اپنا تاگا بُننا تھا۔ اناڑی نا تجربہ کار اور کمزور۔ مجھے نا اپنے سوت پہ اعتبار تھا نا اپنےکَتنے پر ۔ مگر اک آس تھی ایک امید اور ایک یقین۔
یہی میری کل جمعی پونجی تھی جو میں لایا تھا۔ باقی جانے رب رحمٰن!
کعبہ کےگر د پھیلےا پنا اپنا تاگا بنتے یہ سب لوگ مجھے بہت پیارے لگے۔ اور کیوں نا لگتے کہ ہر ایک اپنے لباسِ تقویٰ کے لئے تاگا بنتا دکھائی دیا۔ یہ اپنے مطلوب کی راہ میں سرگرداں تھے ۔ اللہ ان کا بھلا کرے۔ آمین
بیت اللہ کی چار دیواری کےاندر جو مشہور مقامات ہیں برکت کی خاطر کچھ انکا ذکر کرتا ہوں۔
مقامِ ابراہیم
خانہ کعبہ کے دروازے کے عین سامنے ایک ایک پتھر جس پر پیروں کے نشانات ہیں ایک شیشے اور سنہری جنگلے میں بند ہے ۔ کہتے ہیں کہ یہ پیروں کے نشانات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہیں۔ اس پتھر پر چڑھ کر حضرت ابراہیمؑ و حضرت اسماعیلؑ نے اپنے قد سے بلند کعبہ کی دیواریں تعمیر کی تھیں۔ اس جگہ کو مصلےٰ کا درجہ حاصل ہے۔
بہت سے لوگ اس سے لپٹ رہے تھے ہاتھ لگا لگا کر عقیدت کا اظہار کر رہے تھے اور بعض ان میں سے اس شیشے کو چوم رہے تھے۔ کعبہ کے اندر متعین سپاہی انہیں بار بار روک رہے تھے اور ہمہ وقت لوگوں کو چلتے رہنے کی تلقین کر رہے تھے۔
حجرِاسود
یہ ایک سیاہ رنگ کا پتھر ہے جو کعبہ کے مشرقی کونے میں چاندی کے ایک فریم میں نصب ہے۔ اِس پتھر کو سعادت حاصل ہے کہ اسے خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوا ہوا ہے۔ آپؐ کے بعد آپ کے خلفاء نے بھی برکت کی خاطر اسے چھوا اور چوما ہوا ہے۔
حضرت ابراہیم نے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مل کر اذنِ الہٰی کے ماتحت کعبہ کی از سرِ نو تعمیر شروع کی تو حجرِ اسود کو دیوار کے ایک کونے پر ایک نشان کے طور پر لگایا کہ یہاں سے طواف شروع کیا جائے۔ اِس پتھر کے حوالےسے آنحضرتﷺ کی سیرت کا ایک مشہور واقعہ ہے برکت کی خاطر اسکا ذکر اختصار سے کرتا ہوں کہ ’’قریش نے جب کہ رسول اللہﷺ ابھی کم سن ہی تھے کعبہ کی از سرِ نو تعمیر کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے پرانی عمارت کو گرا کر نئی عمارت تعمیر کرنا شروع کر دی۔ مگر مکمل طور پر ابراہیمی بنیادوں پر کعبہ کو دوبارہ کھڑا نہیں کرسکے بلکہ ایک طرف کچھ جگہ چھوڑ دی (اس جگہ کا ذکر آگے چل کر آئے گا)۔یہ کام ایک تسلسل سےنہیں بلکہ پیسے اور سہولیات کی کمی کی وجہ سے رک رک کر ہوتا رہا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ جواب ہوگئے۔ تعمیر کے دوران جب حجرِ اسود کی جگہ پر پہنچے تو قریش کے ہر قبیلےکے درمیان جھگڑا شروع ہوگیا سب کی یہ خواہش تھی کہ ان کو حجر اسود کو نصب کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ حتیٰ کہ لوگ لڑنے مرنے کو تیار ہو گئے۔ آخر ابو امیہ بن مغیرہ نے صلاح دی کہ اگلے دن جو شخص سب سے پہلے حرم میں داخل ہوگا حجر اسود کو وہی نصب کرےگا یا وہ فیصلہ کرےگا کہ حجرِ اسود کے متعلق کیا ہو۔
سب لوگوں نے یہ تجویز قبول کر لی۔ اور ساری رات کعبہ کے گرد بیٹھ گئے۔ اگلے دن وہ کیا دیکھتے ہیں کہ میرے پیارے حضورﷺ تشریف لا رہے ہیں۔ سب بے ساختہ پکار اُٹھے ’’امین آگیا، امین آگیا‘‘ اور سب نے اتفاق کیا کہ محمدؐ جو فیصلہ کریں گے وہی منظور ہوگا۔
آپ نے کمال فراست سے ایک چادر لی اور اس چادرکے کونے رؤسا قریش کو پکڑا دیے اور ان کو چادر اوپر اُٹھانے کو کہا۔ جب چادر مطلوبہ بلندی پر اُٹھ گئی تو آپؐ نےا پنے دست مبارک سے حجر اسود اُٹھا کر اسکی مقررہ جگہ پر رکھ دیا۔ یوں نا صرف آپ کی حکمت سے مکہ خون ریزی سے بچ گیا بلکہ قریش کے ہر قبیلے کی شکایت دور ہو گئی ۔سب لوگ دنگ رہ گئے اور آفرین آفرین کہنے لگے۔
حجرِ اسود بذاتِ خود کوئی مقدس چیز نہیں ، مگر اس کو بوسہ دینا ہر گز شرک بھی نہیں بلکہ صرف اور صرف اسکی نسبت سے باعثِ برکت ہے۔ جیسا کہ ایک دفعہ اپنی خلافت کے دور میں حضرت عمرؓ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے توآپ نے حجر اسود کی طرف منہ کر کے فرمایا کہ ’’ اے پتھر میں جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے اور تجھے نفع نقصان کی کوئی طاقت نہیں ہے اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نا دیکھا ہوتا تو تجھے ہرگز بوسہ نہ دیتا۔‘‘
میں بھی موقع کی تلا ش میں تھا کہ اس خوش نصیب پتھر کو چوم سکوں یا کم از کم ہاتھ ہی لگا سکوں مگر کرونا پابندیوں نے جہاں اور نقصان کیے وہاں ایک یہ بھی نقصان ہوا کہ کعبہ کی دیواروں کے پاس کوئی نہیں جا سکتا تھا۔ کم از کم ۵ فٹ کا حفاظتی حصار قائم تھا جس کو پار نہیں کی جا سکتا تھا۔
رکنِ یمانی
کعبہ کے جنوب مغرب کا ایک زمینی طرف کا کونہ جس پر غلاف نہیں چڑھا ہوتا ۔اس سے کعبہ کی دیوار کا سیمینٹ نظر آرہا ہوتا ہے۔ اسکا رُخ ملک یمن کی طرف ہے اس مناسبت سے اسے یمانی کہتے ہیں۔ روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رکن یمانی کو چھونے کے بعد حجر اسود کی طرف آتے اور یہ دُعا کرتے ’’ ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘
حطیم
یہ دراصل کعبہ کا ہی حصہ ہوا کرتا تھا مگر جب اسلام سے قبل قریش نے کعبہ کی تعیرِ نو کی تو ناکافی رقم ہونے کی وجہ سے اس حصے پر تعمیر نہیں ہو سکی۔ یہ کعبہ کے شمال میں نصف دائرے کی شکل کی دیوار اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اسکو حجر بھی کہتے ہیں۔ دورانِ طواف اسکے باہر سے گزرا جاتا ہے۔ آج کل اس کے تین اطراف سبز رنگ کے لیمپ لگائے ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ ’’ اے عائشہؓ! اگر تیری قوم نئی نئی مسلمان نا ہوئی ہوتی اور مجھے ان کے ایمان کا خطرہ نہ ہوتا تو میں ان کی تعمیر کردہ کعبہ کی عمارت کو گرا کر ابراہیمی بنیادوں پر دوبارا ساری عمارت بناتا اور حطیم کو اس کے اندر شامل کر کے اسکا دروازہ نیچا کر دیتا اور اس کے موجودہ دروازہ کے مقابل پر ایک اور دروازہ بھی لگاتا‘‘
تاریخ میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے جب وہ مکہ کے حاکم تھے آپؐ کی اس خواہش کو پورا کیا اور نا صرف حطیم کو کعبہ میں دوبارہ شامل کر دیا بلکہ کعبہ کے اندر چھ کی بجائے تین ستون کر دیے۔ مگر عبدالمالک بن مروان نے جب مکہ پر غلبہ پایا تو اس کے حکم سے حجاج بن یوسف نے دوبارا کعبہ گرا کر اسکی پہلے والی حالت بحال کر دی اور حطیم کو بھی قبل از اسلام والی حالت میں کر دیا ۔ صرف کعبہ کے اندر تین ستون برقرار رکھے۔ حطیم کے اندر نماز پڑھنا بھی باعث برکت ہے۔
میزابِ رحمت
خانہ کعبہ کے شمال کی طرف حطیم کے عین اوپر کعبہ کی چھت سے منسلک ایک پرنالے کا نام ہے۔ اس سے بارش کا پانی جو کعبہ کی چھت پر جمع ہو وہ حطیم میں گرتا ہے ۔ بارش کے دوران بعض دفعہ لوگ اس پرنالے سے گرنے والا پانی تبرک کے طور پر پی لیتے ہیں یا اسکے نیچے کھڑے ہو جاتےہیں۔
غلافِ کعبہ
شروع میں کعبہ پر کوئی غلاف نہیں ہوا کرتا تھا۔ تاریخ میں درج ہے کہ یمن کے ایک بادشاہ تبع اسد نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ وہ کعبہ پر غلاف چڑھا رہا ہے۔ چنانچہ اس نے کعبہ پر غلاف چڑھوا دیا ۔ اس کے بعد یہ رسم باقاعدہ جاری ہوگئی۔ قریش سے ہوتی ہوئی یہ رسم اسلام میں آض بھی قائم ہے۔ یہ کالے رنک کا خاص طور پر تیار کپڑا ہوتا ہے جس پر سونے سی تاروں سے آیاتِ قرانی اور کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہوتا ہے۔
سعودی حکومت نے اس کو بنانے کے لئے ایک خاص فیکٹری قائم کی ہے جہاں ہر سال پورے تزک و احتشام سے غلاف ِ کعبہ تیار کیا جاتا ہے۔ اس غلاف کی تیاری میں ۶۷۰ کلو خالص سفید ریشم لگتا ہے جسے سیاہ رنگ میں رنگنے کے لیے ۷۲۰ کلو رنگ اور اسکے لوازمات استعمال ہوتے ہیں حج کےمہینے کے شروع میں اس غلاف کو نصف بلندی تک اٹھا دیا جاتا ہے۔ ۹ ذی الحجہ کو جب مطاف خالی ہوتا ہے تو نیاغلاف کعبہ پر ڈال کر اسے نصف بلندی تک اٹھا دیا جاتا ہے۔ اسکے بعد محرم کے شروع میں پورا غلاف لٹکا دیا جاتا ہے۔ پرانے غلاف کے ٹکڑے سربراہِ مملکت یا مقامی سعودی معززین یا حاجیوں میں بانٹ دیے جاتےہیں۔
ملتزم
خانہ کعبہ کے دروازے اور حجرا سود کے درمیانی حصے کو ملتزم کہتے ہیں۔ ایک روایت کی بنا پر اس جگہ کو بوسہ دینا گال لگانا اور چمٹنا سنت ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن صفوانؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کیا تو میں نے کہا ’’ میں اپنا لباس پہنونگا کیونکہ میرا گھر راستے میں ہے اور میں دیکھوںگا کہ رسول اللہ ﷺ کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ میں گیا تو دیکھا کہ رسول کریم ﷺ اور آپؐ کے صحابہ کعبہ کے اندرسے باہر آئے، انہوں نے کعبہ کے دروازے سے لیکر حطیم تک استلام کیا ور بوسہ دیا۔ اور انہوں نے اپنے رخسار بیت اللہ پر رکھے ہوئے تھے اور رسول کریم ﷺ ان کے درمیان میں تھے۔ (ابو داؤد۔مسند احمد)
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے لپٹ کر کوئی بھی دعا کریں وہ قبول ہوتی ہے۔
زم زم
بیت اللہ میں مقامِ ابراہیم سے چند گز کے فاصلے پر ایک میٹھے پانی کا کنواں ہے جسے ’’زم زم‘‘کہا جاتا ہے۔ اسلام سے پہلے بھی اس کنویں کی بہت اہمیت تھی۔ قریش میں آنحضرت ﷺ کے وقت میں یہ پانی پلانے کی بنو ہاشم کی ذمہ داری تھی اور بنو ہاشم نے عباس بن عبدالمطلب کو یہ سونپ رکھا تھا کہ وہ حاجیوں اور طواف کرنے والوں کو پانی پلانے کا بندوبست کرے۔
زم زم کا کنواں مکہ کی آبادکاری کا پہلا سبب تھا۔ اورتاریخ میں ہے کہ ایک وقت میں یہ بند ہوگر گم گیا تھا۔ حضرت عبدالمطلب (آنحضرت کے دادا ) کے ہاتھ جب حاجیوں کو پانی پلانے کا کام آیا تو آپ نے اپنے ایک خواب کی بنا پر اس کھوئے ہوئے کنویں کی تلاش اپنے بیٹے حارث کے ہمراہ شروع کر دی، مگر دیگر قریشی قبائل میں سے کسی نے ان دونوں کا ساتھ نا دیا۔ بلکہ انہیں مذاق کا نشانہ بنایا ۔ عبدالمطلب اس وقت افرادی قوت ک ےلحاظ سے کمزور تھے آپ نے غیرت میں آکر منت مانی کہ اگر خدا انہیں دس بیٹے دے اور وہ سب ان کی آنکھوں کے سامنے جوان ہوئے تو وہ ایک بیٹا خد اکی راہ میں قربان کر دیں گے۔
کچھ عرصے کی محنت کے بعد بالآ خر پرانا چشمہ نکل آیا اور اس غیر مترقبہ واقعہ نے تمام قریش پر عبدالمطلب کا سکہ بٹھا دیا اور بالآخر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عبدالمطلب کو تمام قریش نہایت واجب الاحترام سردار ماننے لگ گئے۔
کہتے ہیں کہ ایامِ طفلی میں فرشتوں نےشقِ صدر کے واقعہ آنحضرت ﷺ کا دل بھی زم زم سے ہی دھویا تھا۔
حضرت حاجرہؑ کی بیقراری اور حضرت اسماعیل ؑ کے رونے کے نتیجے میں جاری ہونے والے اس بابرکت چشمے کا پانی نہایت میٹھا اور فرحت بخش ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب وہ پرانا چشمے کا پانی ختم ہو چکا ہے اورکسی دوسری جگہ سے اس کنویں میں پا نی ڈالا جاتا ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ پانی بے شک ختم ہو جائے مگربرکت کبھی ختم نہیں ہوتی اور اس کنویں سے منسلک برکت ہی تو ہےجو لوگوں کو احساسِ تازگی بخشتی ہے۔ اس بابرکت کنویں کے پانی کو ہم نے جی بھر کر پیا۔ اور بار بار پیا۔کبھی کھڑے ہو کر کبھی بیٹھ کر پیا، سر پر گرایا، سینے پر لگایا، وضو کیا غرض جب جب موقع ملا زم زم سے خوب فائدہ اٹھایا۔
سچ تو یہ ہے کہ میں نے جو اپنی زندگی میں پانی پیا ہے ان سب سے ذائقے اور لذت کے لحاظ سے یہ پانی بہت اونچے درجے پر ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو زم زم عطا فرمائے۔ آمین
مَولِدُالنبِی
پھر ہم ایک زرد رنگ کی چھوٹی سی عمارت کے سامنے کھڑے تھے۔
مکہ پر ابراہہ ہاتھی والے کے حملے سے پچیس دن بعد کی بات ہے،کہتے ہیں ان دنوں میں آسمان پر کثرت سے ستارے ٹوٹ رہے تھے۔اور جس جگہ کے سامنے ہم کھڑے تھے یہاں نوعِ انسانی کے سب سے عظیم اور معتبر معجزے نے جنم لیا تھا۔ جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب واقعہ گزرا…‘‘
بیت الحرم کے دروازے باب الفتح کے سامنے مروہ پہاڑی کے خارجی دروازے سے نکلتے ہوئے بائیں طرف ایک مکتبہ مکہ کے نام سے ایک لائبریری ہے ۔ یہ دراصل وہ مبارک جگہ ہے جہاں فخرِ موجودات، شاہِ لولاک بندۂ کامل حبیبِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک جائے پیدائش ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش حالات اور زمانے کے مختلف ہاتھوں مختلف مراحل سے گزر کر اب ایک لائبریری کی شکل میں زائرین کے دیدار کے لئے موجود ہے۔
ہم نے گوگل میپ سے اس کی لوکیشن ڈھونڈی اور پیدل جانے کی کوشش کرنے لگے۔ اپنی طرف سے ہم نے شارٹ رستے کا انتخاب کیا تھا مگر وہ طویل ہوتا گیا۔ ہار کر ہم نے سڑک کے کنارے ایک ٹیکسی والے سے کہا کہ بھائی ہمیں لے چلو مولودِ نبی۔ شومئی قسمت وہ ٹیکسی والا پاکستانی بلوچی النسل تھا جس کو اردو اتنی آتی تھی جتنی ہمیں فرنچ اور اسپینیش۔ یعنی دو چار لفظ ۔
اور مزے کی بات ہے اس نے بھی مولد جانے کے لیے گوگل کا ہی سہارا لیا مگر کافی دیر ہمیں مختلف سڑکوں کی سیر کراتے ہوئے آخر کار حرم کی انتہائی دوسری جانب اتارکر کہتا ’’ھذا صراط المستقیم فی مولد النبی‘‘ ہم سمجھ گئے کہ یہ ایک تو ہم سے جان چھڑا رہا ہے اور دوسرا شائد اسی علاقے میں کہیں ہماری مطلوبہ منزل ہے۔
کچھ دیر آگے گئے تو سامنے ایک زرد رنگ کی چھوٹی سی عمارت تھی جس پر بڑا بڑا لکھا ہوا تھا ’’مکتبہ مکہ‘‘۔ اس کے سامنے بہت سے سپاہی ایک ٹینٹ تلے زم زم پی رہے تھے۔ ہم نے وہاں زم زم پیا اور لائبریری کے باہر کھڑے ہو کر تصویریں بنائیں۔ اور کچھ دیر اپنی عقل پر افسوس کیا کہ اپنے ہوٹل سے حرم کی طرف اگرکسی سے پوچھتے پچھاتے سیدھے آجاتے تو یہ دس منٹ کی مسافت پر واقع ہے جبکہ گوگل اور ٹیکسی سے ہمیں یہاں تک پہنچتےپہنچتے تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔
جبل رحمت
مکہ کی زیارات میں سب سے پہلے جس جگہ پر گئے وہ تھی جبلِ رحمت۔ یہ ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے۔ کہا جاتا ہے حضرت آدم و حوا علیہم السلام جب جنت سے نکلے تو دو سو سال بعد اس پہاڑ پر دوبارا دونوں کی ملااقات ہوئی تھی۔ انکی یاد میں پہاڑ پر ایک ستون سا بنا دیا گیا ہے جس پرلاتعداد لوگوں نے اپنے نام لکھے ہوئے ہیں۔
جماعتِ احمدیہ کی تعلیم قصہ آدم و حوا کے متعلق گو کہ مختلف ہے مگر پھر بھی ہم اس مقام کو دیکھنے گئے۔یہ عرفات کے میدان میں ہے۔ اور اس پہاڑ پر کھڑے ہو کر پورے عرفات کو دیکھا جا سکتا ہے۔
عرفات
عرفات کی شان کیسے بیان ہو؟اس کو عرفہ بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک بابرکت میدان ہے جہاں ہر حاجی ۹ ذولحج کو جمع ہوتے ہیں۔ تاریخ اسلام اور احادیث میں یومِ عرفہ کی بہت شان بیان ہوئی ہے۔ مسند احمد میں علامہ البانی نے بیان کیا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ یومِ عرفہ کی شام فرشتوں سے میدانِ عرفات میں وقوف کرنے والوں کے ساتھ فخر کرتے ہوئے کہتے ہیں میرے ان بندوں کو دیکھو میرے پاس گردوغبار میں اٹے ہوئے آتے ہیں۔ ‘‘
ٹیلی ویژن پر حج ٹرانسمیشن دیکھتے ہوئے جب عرفات میں حاجیوں کو دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے سفید کبوتر غول در غول آسمان سے اپنے رزق کی تلاش میں جمع ہوئےہیں اور جلد ہی پرواز کرتے ہوئے کائنات کی وسعتوں میں گم ہو جائیں گے۔ وقوفِ عرفات حج کا رُکنِ اعظم کہلاتا ہے۔ بعض پرانے بزرگوں کے مطابق اسی میدان میں روزِ حشر ہوگا۔ یہاں میزان ہوگا اور یہی سے جنت اور دوزخ کی خبر روحوں کو دی جائے گی۔
مسجد نمرہ
یہ عرفات کا ایک اہم ترین مقام ہےاور یہ مسجد اس جگہ پر بنائی گئی ہے جہاں پر رسول اللہﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر اونٹنی پر بیٹھ کر خطبہ حج ارشاد فرمایا تھا۔یہ مسجد حرم کے بعد مکہ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ یہ سال میں صرف ایک مرتبہ حج کے موقع پر کھلتی ہے یہاں خطبہ حج دیا جاتا ہے اور ظہر عصر کی نمازیں جمع کی جاتی ہیں۔
ہم اس مسجد میں گئے تو حسبِ معمول بند تھی۔ اسکے برآمدے میں دو رکعت نماز ادا کی اور وہاں کے بنگالی خادم سے درخواست کی کہ یہ مسجد کھول دے تا ہم اندر ایک جھلک نظر ڈال سکیں ۔مگر وہ بات نا مانا۔
مسجد مشعر الحرام و مزدلفہ
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورہ البقرہ آیت ۱۹۹ میں فرماتا ہے کہ ’’پھر جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر الحرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو‘‘
ہمارے ڈرائیور یونس نے بتایا کہ جب عرفات میں غروبِ آفتاب کا وقت ہوتا ہے تو ایک سائرن سا بجایا جاتا ہے جس پر تمام حجاج مزدلفہ کی طرف بھاگتے ہیں ۔ اور بعض دفعہ اس موقع پر بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ کیونکہ غروبِ آفتاب کے بعد عرفات چھوڑنا لازمی ہوتا ہے سو ہر حاجی کی کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد مزدلفہ کی طرف روانہ ہو ا جائے۔
عرفات اور منیٰ کے درمیان واقع یہ ایک وسیع و عریض میدان ہے۔ کسی زمانے میں یہ کچا میدان ہوتا تھا اب اس پراینٹوں والی بہت کشادہ سڑکیں بنا دی گئیں ہیں۔ یہاں ایک پہاڑی ہے جسے مشعرِ حرام کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پہاڑی پر رات گزاری تھی۔ حاجیوں نے بھی یہاں رات کھلے آسمان تلے گزارنی ہوتی ہے۔ اسی میدان میں تمام حاجی شیطانوں کو مارنے کے لیے کنکر جمع کرتے ہیں۔
یہاں سے واپسی پر بائیں طرف پہاڑ کی جانب اشارہ کر کے ڈرائیور نے بتایا کہ اُس طرف وہ جگہ ہے جہاں تاریخ کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنے خواب کی بنا پر ذبح کرنے لائے تھے اور اللہ تعالیٰ نے بچھڑا بھیج دیا تھا۔ اس جگہ کی نشاندہی کرنے کے لیے پہاڑ کے اوپر ایک چھوٹا سا مینارہ بنا دیا گیا ہے۔
ہمارے لئے وہاں جانا بھی ممکن نہ تھا کہ وہاں تک پہنچنے کے تمام داخلی اور خارجی راستے بند تھے۔ اور ہمارے پاس کچھ نہ تھا سوائے افسوس کے سو وہ ہم نے جی بھر کر کیا۔
منیٰ
منیٰ ایک مبارک میدان ہے اور تاریخ میں درج ہے کہ اس میدان میں بہت سے روحانی واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھم السلام کی آزمائش اسی میدان میں ہوئی تھی۔ یہاں سورۃ کوثر نازل ہوئی۔ اسی میدان میں مسجد عقبہ موجود ہے جہاں اہلِ مدینہ نے دو بیعتیں کیں تھیں۔
اسے حاجیوں کی بستی کہتے ہیں۔ یہاں تاحد نگاہ سفید رنگ کے خیمے ہی خیمے تھے جو ایک الوہی منظر پیش کر رہے تھے۔
جب لندن سےچلے تو میں نے ارادہ کیا تھا کہ منیٰ میں موجود ’’مسجد خیف‘‘ میں موقع ملا تو نمازیں ادا کرونگا۔ کیونکہ تاریخ میں میں نےپڑھا ہوا تھا کہ جس جگہ مسجد خیف موجود ہے وہاں قریباً ستر انبیاءمدفون ہیں۔ مگر یہ مسجد بھی بند تھی۔ اور سوائے حج کے موقع پہ اسکے کھلنے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں تھے،
منیٰ میں جمرات کے تین مقام بھی آتے ہیں۔ جہاں شیطان کو کنکر مارے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں شیطان نے منیٰ میں جن تین مقامات پر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ورغلانے کی کوشش کی وہاں اب پتھر کے تین ستون بنائے گئے ہیں جنہیں شیطان سے نسبت دی جاتی ہے ۔ ایک ستون دوسرے دو ستونوں کی نسبت بڑا ہے اسے بڑا شیطان یعنی ’’جمرہ الاولی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے کچھ فاصلے پر دوسرا ستون ہے جسے ’’جمرہ وسطی‘‘ اور منیٰ کے تقریباً اختتام پر موجود تیسرے ستون کو ’’جمرہ عقبہ‘‘ کہتےہیں۔
میں نے ارادہ کیا ہوا تھا کہ موقع اگر ملا تو نا صرف شیطانوں کو پتھر مارونگا بلکہ برا بھلا بھی کہونگا مگر شیطانوں کی قسمت اچھی تھی کہ ان تک میری رسائی بوجہ راستے بند ہونے کے نا ہوسکی۔
صفا و مروہ کی پہاڑیاں
یہ پہاڑیاں توسیع حرم کی وجہ سے اب حرم کے اندر آگئی ہیں اور انکی یادگار کے طور پر انکا کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے ۔ صفا پہاڑی کے متعلق ہی تو رسول اللہ ﷺ نے قریش سے پوچھا تھا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرےگا تو کیا تم مان لو گے۔ اور قریش نے یک زبان اقرار کیا تھا کہ ’’ ہاں کیونکہ تم صادق ہو اس لئے ہم مان لیں گے‘‘
گویا کہ اسی پہاڑی مقام سے رسول اللہ ﷺ نے اپنی باقاعدہ تبلیغ کا آغاز کیا تھا۔
صفا و مروہ وہ بابرکت پہاڑیاں ہیں جن پر حضرت حاجرہ ؑ اپنے پیاسے بیٹے کی مدد اور پیاس بجھانے کے لئے کبھی بھاگتی اور کبھی بےقراری سے چلتی ادھر اُدھر پھرتی رہیں تھیں۔ اور اسی بیقراری کو پسند فرما کر اللہ تعالیٰ نے حضرت حاجرہ ؑ کی صفا مروہ کے درمیان چکر لگانے کی یاد میں ہر زائر کعبہ پر عمرہ اور حج کے دوران چکر لگانا فرض کر دیا ہے۔
اسلام پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ عورت کو حقوق نہیں دیتا۔ مگر دیکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عورت کی ایسی تعظیم فرمائی ہے اس عظیم عورت کی سنت کو رہتی دُنیا تک زندہ کر دیا ہے۔ صفا مروہ کے درمیان سات چکر لگانے کو مسعیٰ کہتے ہیں۔
میلین اخضرین
ان صفا و مردہ دونوں پہاڑیوں کے درمیان کچھ حصہ ایسا ہے جہاں مردوں کو دوڑنا پڑتا ہے۔ سبز روشنی سے ا س مخصوص حصے کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہےکہ صفا و مروہ کے درمیان یہ وہ حصہ ہے جہاں حضرت حاجرہ بے قراری سے بھاگتی تھیں۔ ایک ماں کی تڑپ اور شفقت کی قبولیت کی وجہ سے ہر مرد جو صحت مند ہو اس کے لیے لازم ہے کہ اس حصے کو دوڑ کر عبور کرے۔ مگر عورتوں پر یہ لازمی نہیں ہے ۔
مزار حضرت میمونہؓ
ایک دن ہم نے مسجد عائشہ سے احرام باندھا اور وہاں سے سیدھا مکہ سے کچھ مزید دور واقع ام المومنین حضرت میمونہؓ کے مزار پر حاضری کے لیے چلے گئے۔ میرے پیارے حضورﷺ نے اپنا آخری نکاح حضرت میمونہؓ سے کیا۔ یہ نکاح مکہ سے باہر مقامِ سرف پر ہوا تھا۔ حضرت میمونہؓ کا پہلے نام ’’برہ‘‘ تھا جسے بدل کر رسول اللہﷺ نے میمونہ رکھ دیا۔ حضرت میمونہؓ کی والدہ ’’ہندہ بنت عوف‘‘ کو دامادوں کے لحاظ سے ’’اکرام الناس‘‘ کہا جاتا ہے۔ ابن قتیبہ نے ’’معارف‘‘ میں لکھا ہے کہ روئے زمین میں ہند بنت عوف سے زیادہ کوئی عورت اپنے دامادوں کے لحاظ سے بزرگ اور خوش قسمت عورت اور کوئی نہیں۔یعنی ہند بنت عوف کے دامادوں میں حضرت ابوبکرصدیق، حضرت سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب، حضرت عباس، حضرت جعفر طیار، حضرت علی، حضرت شداد رضوان اللہ علیھم اجمعین شامل ہیں۔ اس لحاظ سے حضرت میمونہؓ کی بہت سے صحابہ سے رشتہ داریاں تھیں۔
آپ سے بعض صحیح احادیث بھی مروی ہیں۔ جب آپ قریب الوفات ہوئیں تو آپ نے فرمایا کہ مجھے مکہ سے باہر لے جاو ٔ کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ میری وفات مکہ میں نہیں ہوگی۔ تو آپ کو مکہ سے باہر سرف کے مقام پر لایا گیا جہاں آپ کی نکاح رسول اللہﷺ سے ہوا تھا۔
آپ کی وفات کے بعد آپ کو آپ کے بھتیجے حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے لحد میں اتارا اور جنازہ پڑھایا۔
آپؓ کا مزار مبارک انتہائی سادہ سا ہے ۔ قبرِ مبارک کے گردچاردیواری ہے ایک دروازہ ہے دروازے کے ذریعے آپ کی قبر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ہم نے بھی اسی دروازے سے اندر دیکھا۔ نا کوئی بہت بڑا تعارفی کتبہ ہے اور نا ہی پکی قبر مبارک۔
ہم نے باہر سے ہی ام المومنینؓ پر فاتحہ پڑھی۔
غارِ حرا
اپنے مشہور خطاب ’’تعلق باللہ‘‘ میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’صحابہ۔ وہ اس مقام سے بھی برکت ڈھونڈتے تھے جہاں رسولِ کریم ﷺ نے کبھی پیشاب کیا ہو۔ ‘‘
اور اسی برکت کی تلاش مجھے مکہ و مدینہ کے ہر اُس مقام سے تھی جو رسول اللہﷺ سے منسوب تھا۔ اور میری یہ تلاش غارِ حرا پر جائے بغیر ادھوری رہتی۔یہ عظیم الشان مقام ’’جبلِ نور‘‘ پر واقع ہے ۔ اگر ہم یہاں نا جاتے تو ہم زندگی کا سب سے بڑا نقصان کرتے۔یہ غارطلوعِ نبوت کا عینی شاہد ہے اور اسی مقام پہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول کریمﷺ سے بے ساختہ محبت کا عملی اظہار کیا تھا۔
اُتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
(حالی)
ہم نے فجر کی نماز کےفوراً بعد یہاں جانا تھا۔اسکی دو وجوہات تھیں ایک تو یہ کہ تب رش کم ہوتا ہے اور دوسرا کہ گرمی بھی زیادہ نہیں ہوتی۔ ڈرائیور یونس ہمیں فجر کے بعد لینے آگیا اور اس پہاڑ کے عین پاس چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ طے یہ ہوا تھا کہ ہم جب یہاں سے فارغ ہو جائیں گے تو اسے کال کر لیں گے اور ہمارے واپس اترنے تک وہ بھی پہنچ جائے گا۔
ہم جب پہاڑ کے آغاز میں پہنچے تو سر اُٹھا کر جو دیکھا تو خوف آیا کہ اتنا بلند فاصلہ کیسے طے کریں گے۔ خیر بسم اللہ پڑھ کر چڑھنا شروع کیا۔ تمام راستے میں اینٹوںسے بنی چھوٹی چھوٹی سیڑھیاں بنادی گئیں ہیں۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر لوگ چھوٹے چھوٹے اسٹالز لگا کر پانی ، اسکنجبین، یا کچھ کھانے پینے کا سامان بیچ رہے ہوتے ہیں۔ بعض لوگ اپنی مدد آپ کے تحت سیمنٹ ، ریت سے سیڑھیاں تعمیر کر رہے ہیں۔ اور ساتھ انکا مدعا یہ بھی ہوتا ہے کہ زائرین انکو کچھ پیسے دے جائیں۔ اور لوگ نبی کی عقیدت میں دیتے بھی ہیں۔ بعض لوگ کبوتروں کو ڈالنے والا دانہ بھی بیچ رہے ہوتےہیں۔ ہم ہر پانچ منٹ چڑھنے کے بعد کچھ دیر رک جاتے، سانس درست کرتے اور پھر چل پڑتے۔ہمیں اوپر جاتے جاتے تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔ انتہائی بلندی تک جا کرہمیں معلوم ہوا کہ ابھی ’’عشق کے امتحاںاور بھی ہیں۔‘‘ اور ہمیں ابھی دوسری طرف کچھ نیچے اترنا ہے۔ نیچے اترے اور پھر وہاں سے ایک انتہائی تنگ کھوہ کے ذریعے غارِ حرا کے عین سامنے پہنچ گئے۔ صبح کے تقریباً ساڑھے سات بج رہے تھے مگر یہاں پیر رکھنے کو جگہ نہیں تھی۔
لوگ یہاں ساری رات سے بیٹھے ہوئےتھے۔ اور ہر ایک کی یہی خواہش تھی کہ کسی طرح اس چھوٹے سے غار میں دو رکعت نماز ادا کرسکیں۔
یہ انتہائی چھوٹا سا غار ہے جہاں مکمل کھڑا بھی نہیں ہوا جا سکتا ہاں اس غار کے سامنے کچھ جگہ ہموار ہے اور شاید رسول اللہ ﷺ یہیں زیادہ وقت گزارتے ہوں۔ بیٹھے ہوئے لوگوں کا صبر اور جوش دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا کہ ہماری باری نہیں آنے والی۔ سو ہم نے وہیں کچھ دعا کی اور واپسی کا سفر اس امید کے ساتھ شروع کر دیا کہ انشاءاللہ مستقبل میں کبھی موقع ملا تو اپنی خواہش پوری کرنے کی دوبارہ کوشش کریں گے۔
اَنْتَ الْمُرَادُو وَاَنْتَ مَطْلَبُ مُھْجَتِیْ
وَعَلَیْکَ کُلُّ تَوَکُّلِیْ وَرَجَائِیْ
تو ہی مراد ہے اور تو ہی مری روح کا مطلوب ہے اور تجھ پر ہی میرا سارا بھروسہ اور اُمید ہے
ہم اللہ اللہ کرکے غارِ حرا سے اتر چکے تھے اور اب ہمیں بھوک اور سر درد نے ستایا ہوا تھا۔ ہمیں طلب تھی ایک اسٹرونگ قسم کی چائے کی۔ ہمارا ڈرائیور ابھی نہیں پہنچا تھا ۔ مگر ہمیں ایک ہوٹل نظر آگیا جس کا نام سیالکوٹ ہوٹل تھا۔ اور صرف یہی ہوٹل کھلا ہوا تھا۔ ہم اندر گئے تو اند ر کافی رش تھا۔ یہ ایک سادہ سا ہوٹل تھا ۔پاکستانی مزدور طبقہ یہاں بیٹھا ہوا تھا۔ ہم بھی ان میں جگہ دیکھ کر بیٹھ گئے۔
مدینہ اور مکہ کے دیگر پاکستانی ہوٹلز سے ہمیں کافی برا تجربہ ہو رہا تھا۔ اس لیے ہم یہاں بھی کوئی پراُمید نہیں تھے، ہم نے ناشتہ آرڈر کیا اور ساتھ ویٹر سے درخواست کی کہ یار پلیز چائے ذرا کڑک اور پاکستانی اسٹائل کی بنا کر دینا۔
حیرت انگیز طور پر کھانا بہت اچھا تھا مگر چائے انتہائی بہترین اور ہمارے مکہ مدینہ قیام کی سب سے بہترین چائے تھی۔ میں نے دو کپ چائے بھی جس نے طبیعت پر بہت خوشگوار اثر کیا۔
مواقیت
اللہ تعالیٰ نے خطہ عرب کے ایک خاص حصے کو حرم بنایا ہے۔ اور اس کی حد بندی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے معین علم پا کر فرمائی تھی۔ جس کی بنا پر آپ علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے اردگرد مختلف جگہوں پر مختلف علامات سے اس کی نشاندہی کی تھی۔ مکہ کی حد بندی کے متعلق دو مشہور کتب ہیں ایک محمد بن اسحاق الباس الفاکہیی کی ’’اخبار المکہ فی قدیم الدھر و حدیثہ‘‘ اور دوسری ابوا لولید محمد بن عبداللہ بن احمد الازرقی کی ’’اخبار مکہ وماجآ ء فیھا من الاثار‘‘
یہ دونوں کتب تیسری صدی ہجری میں تصنیف ہوئیں اور حدودِ مکہ پر حرف آخر سمجھی جاتی ہیں۔
غزوہ حنین سے واپسی پر جب رسول اللہﷺ مقام جعرانہ میں قیام پذیر تھے تو آپ نے شعائر اسلام کی تجدید فرمائی اور حدودِ حرم کے نئے نشانات لگائے۔
عمرہ کرنے کے لیے حدودِ حرم سے باہر جا کر احرام باندھ کر نیت کرنا اور دو رکعت نفل ادا کرنا لازمی ہوتا ہے۔ان حدود کو مواقیت یا میقات کہتے ہیں۔ میں نے زیادہ تر عمروں کی نیت مسجد عائشہ سے ہی باندھی تھی مگر اسکے ساتھ بعض اورمیقات سے بھی نیت باندھ کر عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی۔یہ مکہ کے چارو ں طرف مختلف مقام ہیں۔
جن مواقیت سے مجھے عمرہ کی نیت باندھنے کا موقع ملا ان کا اختصار سے ذکر قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔
مسجد عائشہ
یہ مسجد مکہ سے تقریباً بیس منٹ کے گاڑی کے سفر پر تعنیم کے مقام پر واقع ہے۔ حضرت عائشہؓ حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہﷺ کے ہمراہ تھیں مگر پھر اپنی مخصوص نسوانی وجوہات کی بنا پر طواف نہ کر سکیں۔ حج کے بعد آپؓ نے اپنی خواہشںِ عمرہ کا اظہار رسولﷺ سے کیا۔ توآپؐ نے انہیں ان کے بھائی حضرت عبدالرحمنؓ کے ہمرا اس مقام پر احرام باندھنے کے لیے بھجوایا جہاں آج مسجد عائشہ قائم ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے جب کعبہ کی از سر نو تعمیر کرائی تو سب لوگوں کو فرمایا کہ تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ کے لیے آئیں۔
زیادہ تر لوگ جو ایک دن میں ایک سے زائد عمرہ ادا کرتے ہیں کومسجد عائشہ سے احرام باندھنا آسان لگتا ہے کیونکہ یہ حرم سے بہت قریب ہے ۔
مسجد الشمیسی حدیبیہ
مسجد حدیبیہ اس جگہ موجود ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو صلح حدیبیہ کی صورت میں فتح مبین عطا فرمائی تھی۔ صحابہ نے اس جگہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی افواہ سن کر رسول اللہﷺ کے ہاتھ پر دوبارا بیعت کی تھی جسے ’’بیعتِ رضوان‘‘کہا جاتا ہے۔ اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ نے یہ بیعت کرنے والوں سے اپنی رضا کا اظہار فرمایا ہے۔
یہ مکہ سے قریباً پچیس کلومیٹر دور واقع حدیبیہ کی بستی جسے اب شمیسی کہا جاتا ہے میں واقع ہے۔ ہمیں ہمارے ڈرائیور واصف نے بتایا کہ یہاں سے بھی احرام باندھ کر عمرہ کی نیت کی جاسکتی ہے۔ ہمیں اور کیا چاہیے تھا۔ ہم نے اگلے دن صبح یہاں جانے کا ارادہ باندھا۔ تقریباً ۳۵ منٹس میں ہم یہاں پہنچ گئے۔ یہاں زیادہ رش نہیں تھا مگر بیری کے چند درخت ضرور موجود تھے۔ اور حدیبیہ کی پرانی بستی کی کچھ تصاویر پوسٹرز کی شکل میں لگائی گئیں تھیں۔ ایک چھوٹا سا بازار بھی موجود ہے۔
اِس جگہ ایک کیکر کے نیچے کھڑے ہوکر ذہن میں وہ واقعات گھومنے لگے جب مسلمان مدینہ سے رسول اللہ ﷺ کے ایک خواب کی بدولت عمرہ کی نیت کر کے رسول اللہ ﷺ کی قیادت مبارک میں چلے اور یہاں مکہ والوں نے انہیں روک دیا تھا۔
میں ایک سائیڈ پر کھڑا ہوگیا، ایک ایک کر کے صلح حدیبیہ کے واقعات ذہن پر اترنے لگے۔ یہ اسلامی تاریخ کانہایت اہم دور تھا۔ اور اسی صلح کے نیتجے میں کفارِ مکہ اور مسلمانوں کے درمیاں تلوار واپس میانوں میں چلی گئیں اور دُنیا نے دیکھا کہ اسلام کی اصل طاقت جنگ میں نہیں بلکہ صلح اور امن میں ہے۔
یہی تو وہ بابرکت جگہ تھی جہاں قریشِ مکہ کے ایک سردار عروہ بن مسعود نے آنحضرت ﷺ کی پرنور محفل کا نقشہ اس طرح کھینچا تھا کہ ’’مسلمانوں کے جوش و محبت و عقیدت و اخلاص کا یہ عالم ہے کہ اگر محمد ﷺ کے منہ سے پانی پیتے ہوئے ایک قطرہ بھی گرتا تو مسلمان اسے شوق سے اپنے ہاتھوں پر لیتے اور برکت کے لیے اپنے منہ اور جسم پر ملتے۔ اور جب محمدﷺ کسی چیز کا ارشاد کرتے تومسلمان اس شوق سے آپکی آواز پر لپکتے کہ گویا ایک مقابلہ ہورہا ہے۔ مسلمان اس قدر جوش سے محمدﷺ کو وضو کروانے کےلیے آگے آتے ہیں کہ گویا اِس خدمت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے۔محبت اور رُعب کی وجہ سے اِن مسلمانوں کی نظریں محمدﷺ کی طرف اُٹھ نہیں سکتیں۔ (بخاری کتاب الشروط)
عروہ نے ہی بعد میں کفارِ مکہ کے سامنے گواہی دی تھی کہ ’’میں نے قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے دربار دیکھے ہیں مگر خدا کی قسم جس طرح میں نے محمدﷺ کے لوگوں کو محمدﷺ کی عزت کرتے دیکھا ہے ایسا میں نے کبھی کسی کے لیے کہیں نہیں دیکھا‘‘
حدیبیہ ایک بابرکت مقام ہے اور اسکے واقعات ہمیشہ رونگٹے کھڑے کردیتے ہیں۔ اور جتنی بار دہرائے جائیں کم ہیں۔ اور میں یہی واقعات دہرا رہا تھا کہ کیسے آنحضرت ﷺ نے سفارت کے لیے حضرت عثمانؓ کو مکہ بھیجا اور مکہ کے شریروں نے انہیں مکہ میں روک لیا اور کیسے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ کفار نے حضرت عثمان بن عفانؓ کو شہید کر دیا ہے۔ اس خبر سے مسلمان سخت مشتعل ہوگئے اور مسلمان ایک بیری کے نیچے رسول اللہ ﷺ کے گرد جمع ہوگئے۔ اور عثمانؓ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے ایک بیعت کی جس میں اس قدر جوش و ولولہ تھا کہ صحابہ ایک دوسرے پر گرتے پڑے جاتے۔ یہ پندرہ سو کے قریب کل مسلمان تھے اور یہی اس وقت مسلمانوں کی کل پونجی تھی جس کا ایک ایک فرد رسول اللہﷺ کےحکم پر اپنی جان دینے پر آمادہ تھا۔
پھر میں نے دیکھا کہ کیسے سہیل بن عمرو کو دیکھ کررسول اللہ ﷺ راضی ہوئے ہونگے اور کہا ہوگا کہ ’’اب معاملہ سہل ہو جائے گا‘‘
اور کیسے ابوجندل بیڑیوں میں جکڑے مکہ سے بھاگ کر مسلمانوں سے ملے ہونگے اور کیسے معاہدے کی شقوں کی رو سے سہیل نے اپنا بیٹا واپس مانگا ہوگا اور کیسے رسول اللہ نے دل پر پتھر رکھ کر ابوجندلؓ کو واپس مکہ جانے کا کہا ہوگا۔ یہ تمام واقعات میرے ذہن کے پردوں پر فل کی صورت چل رہے تھے اور آنکھوں سے ابو جندلؓ کی مکہ واپسی کا منظر درد بن کے آنسوؤں کی صورت بہہ رہا تھا۔ اور جب معاہدہ ہو گیا تو سہیل بن عمرو ابو جندلؓ کو واپس مکہ لے گیا اور فیصلہ ہوگیا کہ اس سال مسلمان عمرہ کیے بغیر واپس مدینہ چلے جائیں گے اور اگلے سال عمرہ کے لیے مکہ آئیں گے۔
پھر میرے کانوں میں حضرت عمربن الخطابؓ کا رسول اللہﷺ سے مکالمہ بھی گونج رہا تھا جب حضرت عمرؓ اپنے جوش کے ہاتھوں مجبور ہوکر کانپتی آواز کے ساتھ میرے پیارے رسول اللہ ﷺ فداہ امی و ابی سے پوچھ رہے تھے کہ ’’کیا آپ خدا کے برحق نبی و رسول نہیں‘‘ تو آپؐ نے کمال شفقت سے فرمایا ’’ہاں ہاں ضررور ہوں‘‘ تو عمرؓ گویا ہوئے کہ ’’کیا آپؐ نے ہمیں نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف کریں گے؟‘‘
آپؐ نے جواب دیا ’’بے شک میں نے کہا تھا مگر میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ ضرور اس سال ہی طواف کریں گے۔‘‘
بے شک یہی تو وہ مکالمہ تھا جس کے نتیجے میں حضرت عمرؓ نے توبہ کے رنگ میں بہت سے نفلی اعمال کئے روزے رکھے صدقات دیے اور غلام آزاد کیے تا ان کی کمزوری کا اثر دھل سکے۔
میں حدیبیہ کے ایک کیکر تلے بیٹھا صحابہ کرام ؓ کے اس اضطرابی خامشی کو بھی سوچ رہا تھا جو اس معاہدے کے نتیجے میں ان پر طاری ہوئی اور سب سمجھ رہے تھے کہ شائد ان کو شکست ہو گئی ہے۔ جب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اپنے جانور ذبح کرو اور مدینہ واپس لوٹ چلو تو کسی صحابی نے کوئی حرکت نا کی ، شیہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ غم سے اپنے خیمے میں گئے اور پھر ام المومنین ام سلمہؓ کے مشورے پر خیمہ سے باہر آئے اور اپنے جانور ذبح کیے اور سر کے بال منڈوائے۔ تب ان عجیب دیوانوں ،فرزانوں ،عاشقوں کو ایسے ہوش آیا جیسے کوئی اچانک گہری نیند سے جاگ گئےاور پھر دیوانہ وار اپنے جانور ذبح کرنے لگے اور ایک دوسرے کے بال اپنے غم میں یوں مونڈنے لگے کہ ڈر ہوگیا کہ کہیں ایک دوسرے کےگلے ہی نا کاٹ دیں۔
پھر مجھے ہوش آیا ۔ او ر ہم واپس مکہ کو ہو لئے۔ مجھے حدیبیہ سے محبت ہے بڑی محبت ہے اور کیوں نا ہو ہر ایک کو حدیبیہ سے محبت ہے۔ کیونکہ رسول اللہﷺ نے اس سے واپسی پر عسفان کے مقام پر فرمایا تھا کہ ’’ آج رات مجھ پر ایک سورۃ نازل ہوئی ہے جو مجھے دُنیا میں سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے‘‘ یعنی سورہ الفتح اِنَّا فَتَحنَا لَکَ فَتحاً مُّبِیناً
حدیبیہ آکر احساسِ شکر سے بھی دل بھر گیا کہ جانےکب کس گھڑی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے میری مکہ حاضری قبول فرمائی ہوگی۔ وگرنہ کہاں میں کہاں مکہ مدینہ کی پاک مٹی۔
گر نہ او خواندے مرا از فضل وجود
صد فضولی کردمے بے سود بود
اگر وہ خود اپنے فضل و کرم سے مجھے نہ بُلاتا۔ تو خواہ میں کتنی ہی کوششیں کرتا بے فائدہ تھیں
مسجد الجعرانہ
مکہ سے تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور ایک بستی جعرانہ ہے۔ جہاں غزوہ حنین اور طائف کے محاصرہ سے واپسی پر رسول اللہﷺ نے قیام فرمایا تھا اور مالِ غنیمت تقسیم فرمائے تھے۔ اس جگہ پر ایک مسجد یادگار بنی ہوئی ہے جسے مسجد جعرانہ کہتے ہیں۔ پاس ہی ایک کنواں ہے جس کے متعلق مشہور ہے یہاں رسول اللہ ﷺ نے غسل فرمایا تھا۔
مالِ غنیمت کی تقسیم کے دوران آپؐ نے مکہ کے بہت سے نو مسلم لوگوں کو انکی دل جوئی کی خاطر پچاس پچاس اونٹ دیے اور مکہ کے کئی رؤسا کو اس سے بھی کہیں زیادہ حصہ دیا۔
اس تقسیم کو دیکھ کر انصار صحابہ کے دل میں احساسِ محرومی پیدا ہوا کہ شاید قریش کے مقابلے میں انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اور بعض انصار نے گلہ بھی کیا جس کا علم جب رسول اللہﷺ کو ہوا توآپؐ نے انصار ساتھیوں کو ایک سائبان تلے جمع کیا اور انصار کے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا۔ جس سب انصار جمع ہوئے تو آپؐ نے انصار سے انکی شکایت کے متعلق استفسار فرمایا۔ بزرگ انصار صحابہ نے عرض کی کہ امر واقعہ یہی ہے مگر یہ انصار نوجوانوں کی شکایت ہے جو انہوں نے ناسمجھی میں کی ہے جس سے آپؐ کو تکلیف پہنچی ہے۔ آپؐ نے جواباً فرمایا: ’’ بیشک میں نے ان لوگوں کو مال دیا ہے جن کا زمانہ کفر بہت نزدیک تھا تاکہ ان کے دل اسلام پر مضبوط ہو جائیں۔ اے گروہِ انصار! کیا تم گمراہ نہیں تھے کہ اللہ نے تمہیں میرے ذریعہ ہدایت دی؟ کیا تم پراگندہ نہیں تھے کہ اللہ نے تمہیں میرے ذریعہ الفت کی لڑی میں پرویا؟کیا تم تنگ دست نہیں تھے کہ اللہ نے تمہیں میرے ذریعہ غنی کر دیا؟رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان نے گروہ انصار کو احساسِ ندامت دلایا اور ان کے سر جھک گئے انہوں نے عرض کی یا رسول اللہﷺ ہم آپ کو کیا جواب دیں؟ہم پر یہ سب اللہ اور اسکے رسولﷺ کا فضل و احسان ہی تو ہے۔
آنحضرت ﷺ کو انصار کے اس گلے سے اس قدر تکلیف تھی کہ شدتِ جذبات سے آپ کی آواز لرز رہی تھی آپؐ نے فرمایا ’’دیکھو! اگر تم چاہو تو خدا کی قسم! یہ سچی بات بھی کہہ سکتے ہو اور یہ کہنے میں تم بالکل سچے ہی تو ہو گے کہ آپؐ ہمارے پاس اس حالت میں آئے تھے کہ جب لوگوں نے آپؐ کو جھٹلا دیا تھا تو ہم نے آپؐ کی تصدیق کی تھی، آپؐ رد کئے گئے اور ہم نے آپؐ کی مدد کی تھی۔ آپؐ دھتکارے ہوئے آئے تھے تو ہم نے آپؐ کو پناہ دی تھی، آپؐ ہمارے باس بے یارومددگار آئے تھے تو ہم آپؐ کے پرسانِ حال بنے تھے۔‘‘
آپؐ نے انتہائی غم سے انصار کو فرمایا: ’’ اے گروہِ انصار! تم یہ کہتے جاؤ اور میں تمہاری تصدیق کرتا جاؤں گا‘‘
انصار یہ سب سن کر کس طرح زندہ تھے یہ وہی جانتے ہیں یا انکا خدا۔ تمام انصار مرغِ بسمل ہو گئے انکی چیخیں نکل گئیں اور داڑھیاں آنسوؤں سے بھیگ گئیں ۔انکا بس نہیں چل رہا تھا کہ زمیں پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں۔
رسول اللہ ﷺ نے انصار کو خوشخبری عطا کی کہ ’’ تم اس مال مویشی کی وجہ سے ناراض کیوں ہو گئے جو میں نے ان کو صرف اس لئے دیا کہ ان کے دل اسلام سے مانوس ہو جائیں۔ جبکہ تم کو تو میں نے تمہارا اسلام دیا ہے۔ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ یہ لوگ اپنے ساتھ مال لیکر جائیں اور تم اللہ کےنبی کو اپنے گھروں میں لیکر جاؤ۔ خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا۔ اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار ایک گھاٹی میں ، تو میں اس انصار والی گھاٹی میں چلو ں گا۔ اے میرے اللہ! انصارپر ان کے بیٹوں پر بھی اور ان کے بیٹوں کے بیٹوں پر بھی رحم فرما‘‘
انصار یہ خوشخبری سن کر سر تا پا خوشی سے نہال ہوگئےاور عرض کی ’’ یا رسول اللہﷺ ہم راضی ہیں اس تقسیم پر کہ ہمیں اللہ اور اللہ کا رسول ملا ہے‘‘
یہ مقامِ جعرانہ تھا ۔ اور جعرانہ محبت کرنے والوں کو راضی کردینے والا مقام ہے۔ میں اس مقام سے راضی ہو کر مکہ لوٹا اور اسی رضا کو ہمیشگی کے لے اپنے ہر ایک کے لیے مانگا۔ میں نے نشاں سے بے نشانی تک صرف اسی کو مانگا اسی رضا کو۔ جس کو اللہ اور اللہ کا نبی اپنے چاہنے والوں کو عطا کیا کرتا ہے۔!
یہاں ایک چار دیواری میں قبرستان بھی موجود ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ حنین کے شہداء یہاں دفن ہیں۔ مجھے یہاں سے دو مرتبہ احرام باندھ کر آنے کا موقع ملا اور دونوں مرتبہ اس قبرستان پر فاتحہ کا موقع ملا۔ کنواں بند تھا اس لیے وہاں جا نہیں سکے۔
بہت سے لوگ یہاں احرام باندھنے کی غرض سے آتے ہیں۔ مجھے یہاں افغان اور پاکستانی پشتون زائر زیادہ تعداد میں نظر آئے۔
قرن المنازل
پاکستان میں جب رہتا تھا تو مجھے یاد پڑتا کہ بہت کم بار گرمیوں میں ننگے پاؤں پھرا ہونگا۔ میرے ہر وقت جرابے پہننے رکھنے سے میرے گھر والے اکثر تنگ رہتے تھے اور کبھی کبھار مذاق میں کہا کرتے تھے کہ ’’اس قدر گرمی میں جرابے پہنے ہوئے ہو دماغ پگھل جائے گا۔‘‘ گھر والوں کو ایک بات کا علم نہیں تھا کہ مجھے دراصل پاؤں پر چھالے زرا سی دیر میں بن جاتےتھے۔ اور میں جرابیں اس لیے پہنتا تھا کہ انکی وجہ سے پاؤں پر پسینہ آتا تھا جس کی وجہ سے پاؤں نرم رہتا تھا۔
قران المنازل یہ میقات مکہ تقریباً اسی کلومیٹر دورہے اور طائف کے رستہ میں آتا ہے۔ سن دوہزار بیس میں کرونا پابندیوں کی بنا کر حج کی تعداد محدود کر دی گئی تھی اور ہر حاجی کے لیے صرف ایک ہی میقات مقرر کیا گیا تھا اور وہ تھا ’’میقات قرن المنازل‘‘
اس طرح تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ حج کا صرف ایک ہی میقات ہوا جہاں سے احرام باندھے گئے وگرنہ مکہ کے چاروں طرف مختلف میقات سے احرام باندھے جا سکتے ہیں۔
ہمیں یہاں پہنچتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ درجہ حرارت انتالیس ڈگری تھا اور ہم اے سی گاڑی کے باوجود پسینے میں شرابور سے تھے۔
یہاں پر بے انتہا رش تھا۔ مدینہ کے دنوں میں مجھے دائیں پیر پر ایک چھالہ بن رہا تھا جو مکہ میں آکر زیادہ بڑا ہوگیا تھا۔ اور اسکی وجہ سے چلنے میں دقت ہوتی تھی مگر پھر بھی میں ظاہر نہیں کر رہا تھا۔
اس مسجد میں نمازِ ظہر ادا کر کے دو رکعت نیت عمرہ ادا کی اور جب واپسی کے لئے باہر نکلا تو جوتی نا ملی۔ کافی دیر ادھر اُدھر ڈھونڈنے کے باوجود بھی جوتی نا ملی۔دیر ہو رہی تھی مگر ننگے پاؤں گاڑی تک جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔ مگر دیر ہو رہی تھی اور مجھے لگا کہ جیسے مدثر مجھے ڈھونڈرہا ہوگا میں نے سوچا کہ مکہ جا کر یا راستے میں جوتی خرید لونگا اور ننگے پاؤں ہی گاڑی کی طرف چل دیا۔ مگر بھول گیا تھا کہ یہ عرب کی گرمی ہے اور زمین تپ رہی ہوگی۔ میں نے جونہی گرم پتھروں پر جب پاؤں رکھا تو ایک لمحے میں ہی جلن کی شدت سے آنکھوں سے آنسو نکل پڑے چھالے نے بھی رونا شروع کر دیا گاڑی تک جاتے جاتے برا حال ہو گیا۔ ڈرائیور نے مشورہ دیا کہ کوئی بھی جوتی پہن لو مگر دل نا مانا۔ خوش قسمتی سے وہیں مسجد کی پارکنگ کے پاس ہی ایک عورت جوتیوں کا سٹال لگا کر بیٹھی ہوئی تھی اس سے جوتی خریدی اور گاڑی میں بیٹھ کر مکہ واپسی کے لئے چل دیے۔
قرن المنازل کو مکہ کے مقامی السیل الکبیر بھی کہتے ہیں۔ یہاں تک کا سفر بہت یادگار تھا۔ دور دور تک خشک پہاڑ اور صحرا ایک عجیب منظر پیش کر رہے تھے۔ مجھے پہاڑوں سے بہت محبت ہے اور میرا دل کسی بھی پہاڑ کو دیکھ کر ہمکتا ہے اور اس پر چڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر نا موقع تھا نا وقت ۔ اور پہاڑ بھی اتنے زیادہ کہ ان پر چڑھتے چڑھتے عمر بیت جائے۔
راستے میں مکہ کی حدود میں داخل ہوتے ہوئے چیک پوسٹس آتی ہیں جو اس بات کو یقنی بناتی ہیں کہ مکہ میں کوئی غیر مسلم تو داخل نہیں ہورہا ان پر چیکنگ ہو رہی تھی۔ ہماری کار کو بھی روک لیا گیا۔ اور کچھ دیر بعد پاسپورٹس وغیرہ دیکھ کر جانے دیا۔
زم زم کہانی
آبِ زم زم ہمیں پینے کو تو بہت میسر تھا ۔ جب بھی بیت العتیق جاتے وہاں جی بھر کے پیتے مگر ہمیں اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کے لئے بھی لیکر آنا تھا۔ شومئی قسمت جن دنوں ہم وہاں گئے زم زم دکانوں سے ملنا بند ہو چکا تھا۔ ہمیں پتا چلا کہ صرف ایک ۵ لیٹر کی بوتل ہی اپنے ساتھ ائیرپورٹ سے لانے کی اجازت ہے اور وہ بھی سیل پیک۔مگر مدینہ میں ہمیں معلوم ہوا کہ ائیرپورٹ پر دکانوں سے بکنا بند ہوگیا ہے اب ہمیں پروازسے پہلے ہی مقامی کسی دکان سے پانی خریدنا پڑے گا۔ مدینہ میں کسی دکان سے پانی نہیں ملا اور اب ہم مکہ میں تھے اور مکہ میں بھی کسی دکان سے پانی نہیں مل رہا تھا۔جوں جوں واپسی کا دن قریب آرہا تھا ہماری بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔
عجوہ کھجور تو لندن میں بھی دستیاب تھی مگر زم زم نہیں ملتا تھا اور زم زم کے بغیر مکہ سے لوٹنا ایسے ہی تھا جیسے ساون میں سوکھا رہنا۔ کسی نے بتایا کہ مکہ کی مشہور مارکیٹ ’’بن داؤد ‘‘ سے پانچ لیٹر بوتل دستیاب ہے۔ ہم فوراً دکان ڈھونڈ کر پہنچے تو پتا چلا کہ ہر صبح دس بجے سے ظہر تک ہی خریدا جا سکتا ہے۔ ہم اگلے دن گیارہ بجے دکان پر پہنچے تو پتا چلا سب ختم ہوگیا۔ اب اگلے دن آنا پڑے گا۔
خیر اسی شام ڈرائیور واصف سے بات کی تو کہنے لگا کہ دوسری لوکل دکانوں سے کھوجتے ہیں۔ کافی دکانوں سے پتا کیا اور پھرآخر ایک دکان سے مل گیا۔ پانی کی مانگ زیادہ ہونے کی وجہ سے کافی مہنگی بوتل ملی مگر ہم تو اس سے بھی زیادہ قیمت دینے کو تیار تھے اگر وہ مانگتا۔ ہم نے چار بوتلیں خرید لیں اور سکھ کا سانس لیا۔ ہم کافی خوش تھے کہ اب دونوں دس دس لیٹر پانی لے جائیں گے۔ مگر ہمیں نہیں پتا تھا کہ اصل سرپرائز ہمارے لئے باقی ہے۔
ان زیارات کے علاوہ مکہ میں جو قابلِ ذکر مقامات تھے وہ مسجد جن، مسجد الفتح، والدہ امام زین العابدین کا گھر، جنت المعلیٰ جہاں حضرت خدیجہ ؓ مدفون ہیں۔جبل ابوقبیس یہ پہاڑ کوہ صفا کے عین سامنے ہے اور اس کے متعلق حدیث میں بیان ہے کہ یہ دُنیا کا سب سے پہلا پہاڑ ہے۔ اسی پہاڑ پر معجزہ شق القمر ہواو تھا۔قلعہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی باقیات بھی دیکھنے کو ملیں۔
میرے اس سفر کے خاص حصوں کا ذکر تو میں کر چکا ہوں اب کچھ غیر اہم باتوں کا ذکر کرتا ہوں ۔
میرے بھائی عزیزم محمد ہارون سعید نے مجھ سے ایک فرمائش کی تھی کہ مکہ میں بچوں کے نام پر صدقہ کرنا ہے۔ اور مجھے یہ یاد تھا۔ اس مقصد کے لئے میں بروز جمعہ اپنے ایک ڈرائیور یونس کو لیکر بکر منڈی چلا گیا۔ ڈرائیور کے مطابق پہلے یہ منڈی مکہ کی حدود میں ہی تھی مگر اب اسے مکہ سے دور منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہمیں تقریباً ۴۰ منٹ لگ گئے وہاں جاتے جاتے۔ وہاں پہنچتے ہی ایک ہجوم نے ہماری کارکو گھیر لیا اور ہر کوئی اپنی طرف لے جانے کی زورزبردستی کرنے لگ گیا۔ میں نے ڈرائیور سے کہا تھا کہ وہی بھاؤ کروائے گا اور میں بس خاموش رہونگا۔پوری بکر منڈی شائد پاکستانی سندھی لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ جویہاں اپنی بھیڑ بکریاں فروخت کررہے تھے۔
ڈرائیور کار سے نکلا اور ایک طرف چل دیا۔ جبکہ میں ادھر ادھر گھومنے لگ گیا۔ کچھ آگے گیا تو دیکھا کہ بیل گائے بھی فروخت ہو رہی ہیں اور ایک حصے میں اونٹ بھی بندھے نظرآئے۔
واپس کار کے پاس آیا اور دیکھا کہ یونس صاحب ابھی تک کوئی بکرا نہیں خرید پائے۔ آخر میں ایک باڑے میں چلاگیا اور اسکے مالک سے جانوروں کے متعلق پوچھنے لگا۔ وہاں بہت مہنگے جانورمل رہے تھے۔ وہاں سے بالآخر ایک مناسب قیمت بکرا خریدا۔ وہیں مذبح خابہ تھا۔ بکرا وہاں لے گئے۔ بکرا ذبح کرانے کے لئےاجازت نامے کی پرچی لی ۔ ایک سوڈانی قصائی بکرا لے گیا اور ہمیں ایک طرف بھیج دیا گیا۔ ہم وہاں گئے تو وہاں سے قربان گاہ کا منظر نظر آرہا تھا۔ بے شمار افریقی مختلف لوگوں کے بکرے گائے بیل وغیرہ ذبح کر رہےتھے۔ جو ہمارا بکرا لے گیا تھا وہ قصائی سامنے بکرا ذبح کرنے لگا تھا۔ قریباً آدھے گھنٹے میں اس جوان نے بکرا ذبح کر کے گوشت کے بڑے بڑے ٹکرے کر دیے اور شاپرز میں ڈال کر ہمارے حوالے کر دیا۔ وہاں سے ہم نے گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکرےکیے اور قصائی کو اسکی محنت کے پیسے دیے اور فوراً نکل پڑے ۔ ہم کار میں آن بیٹھے اور جانے لگے تو پیچھے سے یا حاجی یا حاجی کی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ قصائی ہمیں پکار رہا تھا۔ میں کار سے اترا اور اس سے ماجرا پوچھا تووہ عربی میں کچھ کہنے لگا مجھے صرف ایک لفظ ’’صدقہ صدقہ‘‘ سمجھ آیا۔ میں ڈرائیور یونس کے پاس آیا اور اس کو بتایا تو کہنے لگا کہ آپ چپ کر جائیں یہ یہاں سے گوشت اکٹھا کر کے مقامی دکانوں پر بیچ آتے ہیں اس لئے ان کو دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں چپ چاپ کار میں بیٹھا اور ہم چل دئیے۔ وہاں سے بیت اللہ کے پاس واپس آئے اور ڈرائیور یونس نے وہاں موجود مختلف لوگوں میں گوشت تقسیم کر دیا۔ گوشت تقریباً پانچ منٹ میں سارے کا سارا تقسیم ہوچکا تھا۔
طائف
تاریخِ اسلام میں ایک وقت وہ آیا جب حضرت ابوطالب، و حضرت خدیجہؓ کی شعیب ابی طالب میں بائیکاٹ کے نتیجہ میں محصور صعوبتیں اٹھانے کی وجہ سے وفات ہو گئی۔ جس کی وجہ سے میرے حضور ﷺ بہت غمگین رہتے ۔ آپ مکہ کی گلیوں میں نکلتے مگر کوئی آپؐ سے بات نا کرتا، سنی ان سنی کر دیتا۔ دل گرفتہ آپؐ ایک دن حضرت زیدؓ بن حارثہ کے ہمراہ مکہ سے ساٹھ میل دور طائف میں بغرضِ تبلیغ تشریف لے گئے۔ یہ ماہِ شوال تھا!
طائف کے رئیسِ اعظم ابن عبدلیل سے ملاقات میں اس کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے رعونت و تکبر سے تمسخر اُڑاتے ہوئے جواب دیا ’’اگر تم سچے ہو تو مجھے تمہارے ساتھ گفتگو کی مجال نہیں اور اگر جھوٹے(نعوذباللہ) ہو توگفتگو کا کوئی فائدہ نہیں (بخاری)
آپؐ دس دن طائف رہے۔طائفی بدبختوں نےآپؐ کو شہر کے سے نکالنے کے لیے شریر اوباش آپ کے پیچھے لگا دیے جو آپؐ کو پتھر مارتے گالیاں دیتے فحش گفتگو کرتے اور ہاتھ اُٹھاتے۔ حضرت زیدؓ آپؐ کو بچاتے بچاتے خود بُری طرح زخمی ہو گئے۔ ان بدبخت کمینہ صفت شیطانوں نے آپؐ کو اتنا مارا کہ آپؐ کے نعلین مبارک تک خون سے بھر گئے۔ آپؐ مار کھاتے کھاتے تھک کر بیٹھ جاتے تو یہ رزیل آپؓ کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر آپ کو زبردستی کھڑا کر دیتے ۔
یہاں تک کہ آپؐ طائف سے باہر تین میل دور ایک انگوروں کے باغ میں پناہ گزین ہوئے اور طائف کے ظالم تھک ہار کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
یہ باغ عتبہ اور شیبہ کا تھا جو کہ آپؐ کے ہم وطن اور کچھ دور کے رشتہ دار بھی تھے۔ انہوں نے ازراہِ ہمدردی ایک ٹرے میں انگوروں کے گچھے اپنے ایک عیسائی نوکر عداس کے ہاتھوں آپؐ کے پاس بھجوائے جو آپؐ نے قبول کیے۔یہاں آپﷺ کا اس غلام عداس سے مکالمہ ہوا اورآپؐ نے اسے دینِ اسلام کی دعوت دی جس سے وہ بہت متاثر ہوا۔
کئی سالوں بعد ایک مرتبہ مدینہ میں حضرت عائشہؓ نے میرے حضورﷺ سے پوچھا کہ ’’آپؐ کو کبھی اُحد والے دن سے بھی زیادہ اللہ کی راہ میں تکلیف پہنچی؟‘‘
میرے پیارے آقا سیدنا محمد ﷺ نے فرمایا ’’ عائشہ! تیری قوم کی طرف سے مجھے بڑی بڑی سخت گھڑیاں ملی ہیں۔‘‘ اور پھر آپؐ نے انہیں واقعاتِ سفرِطائف سنائے اور آخر پر فرمایا کہ ’’اس سفر سے واپسی پر میرے پاس پہاڑوں کا فرشتہ آیا اور کہنے لگا کہ مجھے خدا نے آپؐ کے پاس بھیجا ہے کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں سائڈ والے دو پہاڑ ان پر گرا کر ان کا خاتمہ کر دوں‘‘ تو جواباً آپؐ نے فرمایاکہ ’’نہیں نہیں ! مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں میں سے وہ لوگ پیدا کرے گاجو خدائے واحد کی پرستش کریں گے‘‘
اورہم چونکہ مکہ میں تھے تو طائف جانا چاہیے تھا؟ مگر ہم طائف نہیں گئے۔ مدثر نے جانے کی ضد نہیں کی اور مجھے جانے کی طلب نہیں تھی۔ سعودی عرب میں طائف وہ واحد جگہ ہے جہاں میرے رسول اللہﷺ کے قدم مبارک پڑے اور میری وہاں جانے کی مگر ہمت نہیں ۔ اور کبھی دل بھی نہیں کیا۔
بچپن میں ایک مرتبہ پاؤں کے انگوٹھے پر شرارت کرتے ہوئے اینٹ گر گئی تھی تو جان ہی نکل گئی تھی اور کئی دن تکلیف سے چلنا مشکل ہوگیا تھا۔ پھرمیں جب سوچتا ہوں کہ وہاں طائف میں آپؐ پر شدید ظلم ہوا تھا آپؐ کا خون مبارک بہایا گیا بنا کسی جنگ کے۔تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اور آپؐ کو کس قدر تکلیف اُٹھانی پڑی۔ نعلین مبارک خون سے بھرے ۔ نا تھک کے بیٹھ سکتے نا تکلیف سے تیز چل سکتے۔حضرت زیدؓ کس طرح جانثاری سے آپ کو پتھروں سے بچانے کی دھن میں خود پتھر کھاتے ہونگے۔ اور کیسی وہ زمین ہے جہاں تاریخِ انسانی کا سب سے پاکیزہ اور معتبر خون گرا ۔
باتوں باتوں میں ڈرائیور واصف نے بتایا کہ طائف میں کوئی یادگارِ نبیؐ قائم نہیں ہاں ایک مسجد ہے جسے ’’الکوع یا الموقف‘‘ کہتے ہیں۔ ترکوں نے کافی صدیاں بعد یہ مسجد اس باغ والی جگہ بنائی جہاں روایت کے مطابق رسول اللہﷺ اپنے سفرِ طائف کے دوران پناہ گزین ہوئے اور آرام فرمایا۔ شائد یہ مسجد اب مستقلاً بند ہے۔
میں اپنے اندر کبھی بھی طائف جانے کی ہمت نہیں پاتا۔ اور ہم نہیں گئے
کچھ زائرین مکہ کے متعلق
تمام بستیوں کی ماں مکہ بذاتِ خود ایک معجزہ ہے۔ یہاں ہر رنگ نسل کے لوگ حاضر ہوتے ہیں۔ اور ہر ایک اپنی ذات میں خود مکہ کی سچائی کا اعلان ہوتا ہے۔ حرم میں مائیں اپنے بچوں کے ہمراہ موجود تھیں بوڑھے بھی جوان بھی ۔ کوئی بآواز بلندمناجات کرتا ہے کوئی دل ہی دل میں۔ کوئی جلدی میں ہوتا ہے اور کوئی نہایت آہستہ۔
بہت سے لوگ گروپ کی شکل میں آتے ہیں ۔ انکا ایک امیر ہوتا ہے جو ہاتھ میں کوئی کتابچہ پکڑے اونچی آواز میں دعائیں کرتا ہے او ر اسکے پیچھے پیچھے باقی گروپ وہ دعائیں دہراتا جاتا ہے۔
انڈونیشیا کے لوگ ہر جگہ نظر آئے۔ یہ مختلف گروپوں کی شکل میں طواف کرتے ہیں۔ سب نے ایک ہی رنگ کے لباس پہنے ہوتے ہیں۔ اور انکا جوش و جذبہ بہت دیدنی ہوتا ہے۔ افریقہ کے زائرین بھی نظرآتے رہے۔ عمرہ کرتے ہوئے مرد و زن ساتھ ساتھ طواف کر رہے ہوتے ہیں مگر جب کسی نماز کے لئے اذان ہو جائے تو پھر ڈیوٹی پر تعینات لوگ عورتوں کو طواف سے روک کر پیچھے عورتوں کے لئے مخصوص جگہوں پر بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔
موبائل فونز نے جہاں آسانیاں دی ہیں وہیں انکی وجہ سے کوفت بھی ہوتی ہے۔ ہر زائر کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ یادگاریں بنا لے اور اس مقصد کے لئے ہر کوئی ہاتھ میں موبائل پکڑے نظرآتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے پیاروں کو ویڈیو کالز سے براہ راست مکہ کے مناظر دکھا رہے ہوتے ہیں۔بعض دفعہ کچھ لوگ جذباتی ہوکر غصےکا اظہار بھی ایک دوسرے کے ساتھ کر جاتے ہیں۔
ایک شرمندگی
مدینہ کے شروع ایام میں میرے دائیں پیر کی ایڑھی پہ ایک بڑا سا چھالہ بننا شروع ہو گیا تھا جو کہ مکہ پہنچتے پہنچتے بہت بڑا ہو چکا تھا اور چلتے ہوئے نہایت تکلیف ہوتی تھی۔ ایک دن صفا مروہ کے درمیان سعی کر رہا تھا۔ تکلیف سے رک کر رونے لگا اور ایک رنگ میں اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی تکلیف پیش کرنی شروع کر دی ۔
تبھی میرے پاس سے ایک بزرگ گزرے۔انکا ایک پیر نہیں تھا اوربانس کا ایک ڈنڈا تھامے ہوئے تھے جسے بیساکھی کی جگہ استعمال کر رہے تھے۔ ایک لمحے میں انکو دیکھ کر دل کیا کہ کاش زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاؤں کہ میں کیا چھوٹی سی تکلیف پر بہانے بنانے پر اُتر آیا ہوں جبکہ میرے سے زیادہ تکلیف میں لوگ یہاں موجود ہیں۔
مگر ابھی میرا سبق ختم نہیں ہوا تھا۔
اگلے دن سعی کے دوران پھر جب تکلیف بڑھی اور میں لنگڑا کر چل رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ بوڑھا ہوکر شاید یہ موقع نا ملے اور اب یہ جو موقع ملا ہوا ہے اس میں بھی چلنا مشکل ہوا پڑا ہے۔ تبھی ایک ایک بوڑھی عورت مجھے نظر آئیں جو کمان کی عملی شکل تھیں عمر کوئی اسی نوے کے سال ہوگی۔ اور رکوع کی شکل میں چل رہی تھیں۔ میں یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ سعی کے درمیان کتنی مرتبہ رکتی ہیں ہولے سے انکے پیچھے پیچھے چلنا شروع ہوگیا۔ان بزرگ خاتون کی ہمت کو داد ہے کہ بنا کسی جگہ رکے وہ ذکر کرتی چلتی گئیں۔ اور انکے ہر قدم کے ساتھ میری شرمندگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اللہ ان کا بھلا کرے اپنے چھوٹے اور کمزور قدموں کے ساتھ وہ بزرگ عورت مجھے اچھا خاصہ مضبوط سبق دے گئیں۔
یا الٰہ العالمین درماندہ ام
غرق خون بر خشک کشتی راندہ ام
اے تمام جہانوں کے مالک میں عاجز ہوں! میں خون میں غرق ہوں اور خشکی پر کشتی چلا رہا ہوں
پادشاہا بر منِ مسکین مگیر
گر زمن بددیدے آن شد آن مگیر
اے بادشاہ! مجھ غریب کو مت پکڑ(سزا مت دے) اگر مجھ سے برائی سرزد ہوئی تو اُسے مت پکڑ!
(عطار)
حرمین شریفین میوزیم
ایک دن ہمارا ڈرائیور واصف ہمیں مکہ سے کچھ دور ایک میوزیم میں لے گیا جس کا نام تھا ’’حرمین شریفین میوزیم‘‘۔
یہ غلافِ کعبہ تیار کرنے والی فیکٹری کے بلکل ساتھ واقع ہے جس میں اموی دور حکومت سے لیکر موجودہ سعودی حکومت تک کے ادوار کی مختلف چیزیں موجود ہیں ۔ ان میں قیمتی نوادرات، حرم کے ماڈلز اور اور کعبہ کا حصہ رہنے والی دیگر پرانی چیزیں موجود ہیں۔
اس میوزیم کے سات ہالز ہیں اور ہر اپنے اندر کعبہ و بیت اللہ کی کچھ نا کچھ تاریخ رکھتا ہے۔ مکہ میں یہ پہلی جگہ تھی جہاں ہم آئے اور رش نا تھا وگرنہ جہاں جہاں بھی جانا ہوا وہاں ہمیشہ رش ہوتا تھا۔
جنت المعلیٰ
یہ مکہ کا قدیم قبرستان ہے۔ جہاں ایک روایت کے مطابق چھ ہزار کے قریب صحابہ کرامؓ دفن ہیں جن میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت فضیل بن عیاض، حضرت اسماءبنت ابوبکر صدیق ؓ کی قبریں بھی موجود ہیں مگر کسی کی بھی قبر پر کوئی نام و نشان نہیں ہے۔
یہاں کی ایک خاصیت ہے کہ یہاں حضرت خدیجہؓ کی قبر موجود ہے اور قبرستان کے رکھوالوں کو اسکا علم بھی ہے۔ یہاں آنے والے زائرین ان رکھوالوں سے درخواست کریں تو وہ انہیں حضرت ام المومنین ؓ کی قبر پر لے جاتے ہیں۔ کسی دور میں آپؓ کی قبر پر گنبد ہوا کرتا تھاجو کہ موجودہ حکومت نے گرا دیا ہے۔
تیز گرمی میں ہم یہاں پہنچے اور جنگلے کے باہر کھڑے ہو کر ہی اسکے اندر دیکھ سکے کیوں کہ یہ بند تھا۔پتا چلا کہ عصر کے بعد تا عشاء اکثر کھولا جاتا ہے مگر ہم اکثر اس دوران عمرہ میں مصروف ہوتےتھے اس لیے اندر جا کر حضرت خدیجہؓ کو سلام نا کہہ سکے۔ مگر داخلی دروازے پر کھڑے ہو کر اجتماعی فاتحہ پڑھنے کی توفیق مل گئی۔
دارِ ارقم
یہ اسلام کا پہلا مرکزِ تبلیغ تھا۔ اور یہاں بہت بڑے جلیل القدر صحابہؓ نے ابتدائے اسلام میں رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا ۔یہ دراصل ایک صحابی حضرت ارقم بن ابی الارقمؓ کا مکان تھا جو کوہِ صفا کے قریب موجود تھا۔ یہاں ابتدائی مسلمان کفارِ مکہ کے ظلم و ستم سے چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے اسی مکان میں حضرت عمر ؓ اور حضرت حمزہؓ نے اسلام قبول کیا تھا۔
یہ مکان حرم کی توسیع کی وجہ سے حرم کی چار دیواری میں شامل ہو گیا ہے۔ اس مکان کی جگہ اب ایک دروازہ ہے جس کے اوپر ’’باب دارارقم ‘‘لکھا ہوا ہے۔ بارہا اسکے پاس سے گزر ہوا ہے اور ہر مرتبہ دل سے خواہش اُبھری کہ کاش یہ مکان محفوظ کر لیا گیا ہوتا۔
عمرہ گائیڈ
ویزہ
سب سے پہلے آپ آن لائن ویزہ اپلائی کریں یہ تقریباً آدھے گھنٹے میں اپلائی ہو جاتا ہے۔ اسکی قیمت آن لائن ہی ادا کرنی ہوتی ہےآجکل یہ قیمت اک سو چالیس پاؤنڈ ز ہے اس میں انشورنس کی قیمت بھی ہے۔ جو کہ ہر سعودیہ جانے کے لیے لازمی ہے۔ دو دن کے اندر آپ کو بذریعہ ای میل ویزہ مل جائے گا۔ اگر دو دنوں میں ویزہ نہ آئے تو ایک یا ددہانی ای میل کروائی جا سکتی ہے۔ جب ویزہ اپلائی کریں تو عمرہ ویزہ آپشن سلیکٹ کرنا ہے۔
اگر آپ کے پاس برطانیہ یا کسی اور ملک کی نیشنیلٹی ہے تو یہ بھی سعودی ویب سائٹ سے چیک کیا جا سکتا ہے کہ آیا جدہ ائر پورٹ پر بھی انٹری پوائنٹس پہ ویزہ مل جاتا ہے۔ عمرے کے لئے پرمٹ وہاں سےبھی اپلائی کیا جاسکتا ہے۔
ٹکٹ
ٹکٹ آپ آن لائن خریدیں جو کہ ٹکٹ آفس سےکم قیمت پر مل جائے گی۔ ٹکٹ سرچ کرتے وقت اپنی مطلوبہ تاریخ سے نا تلاش کریں بلکہ ایک آدھ ہفتے کی مختلف تاریخ سے سرچ کریں آپ کو اندازہ ہو جائےگا کہ کن قیمت پر مل رہی ہے۔ ساڑھے پانچ سو پاؤنڈز سے سات سو تک آپ کو اکانومی کلاس ٹکٹ مل جائے گی۔
ہوٹل رہائش
ہم نے مکہ اور مدینہ میں اپنے ہوٹلزبکنگ ڈاٹ کام سے بک کئے تھے۔ یہ سب سے سستا آپشن ہے۔ چونکہ ہم دورِ کرونا سے گزر رہے تھے اس لئے کم قیمت اچھے ہوٹلز میں جگہ مل گئی تھی۔ اب چونکہ پابندیاں ختم ہو چکی ہیں اس لئے نرخ زیادہ ہو چکے ہیں ۔ ہمیشہ رمضان کے قریب شدید مہنگے کمرے ہونگے۔ حرم یا مسجد نبوی کے بلکل قریب ہوٹلز بہت مہنگے ہیں۔ دس منٹ کی پیدل مسافت پر نسبتاً کم قیمت کمرے مل جاتے ہیں۔
میرے خیال میں بہتر یہ ہے کہ اگر کچھ زیادہ فاصلے پر بھی کمرے لے لئے جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ایسے علاقے میں کمرے لیں جہاں آپکی پسند کا کھانا کمرے کے قریب ہی آسانی سے مل جائے۔ کیونکہ سارا دن گھوم پھر کر آپ کو فوری کھانا چاہیے ہوگا اور اگر کھانا پسند نا آئے تو دل خراب ہوتاہے۔
اڑھائیس صد ریال فی دن کے حساب سےشیرٹن ہوٹل یا قصویٰ ٹاورز ہوٹل میں کمرہ مل سکتا ہے یہ فائیو سٹار ہوٹل ہیں اور کچھ فاصلے پر ہیں۔ حرم اور مسجد نبوی کے عین سامنے جو ہوٹلز ہیں انکی قیمت ہزار ریال فی دن تک چلی جاتی ہے۔
مدثر کا خیال تھا کہ مکہ میں مسجد عائشہ کے قریب کمرے لینے چاہیں تاکہ عمرہ کے لئے نیت باندھنے مکہ سے بار بار مسجد عائشہ نا جانا پڑے ۔ ایک مرتبہ وہاں سے مکہ آجایا جائے اور پھر یہاں اطمینان سے وقت گزار کر کےایک بار ہی واپس کمرے میں جایا جائے۔
پیٹ پوجا
سب سے پہلے تو یہ بات یاد رکھیں کہ جس ہوٹل میں رہائش رکھیں اس میں ناشتے کی سہولت ضرور شامل کر لیں کیونکہ آپ کو ناشتے کے سلسلہ میں کافی مشکل پیش آئے گی، ہم نے اسکا یہ حل نکالا تھا کہ بازار سے کیک اور بسکٹس لے لئے تھے اور کمرے میں میسر چائے کے سامان سے چائے بنا کر ساتھ کھا لیا کرتے تھے۔ مکہ اور مدینہ میں کھانے پینے کے سلسلہ میں آپ کو دل پر پتھر رکھنا پڑے گا۔ یعنی کھانے پینے کا ہوٹلز میں انتظام کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔ چکن شوارمے آپ کو جگہ جگہ مل جائیں گے۔ مگر چونکہ ان دونوں بابرکت شہروں میں رش بہت ہوتا ہے تو دکاندار سینکڑوں کی تعداد میں شوارمے بنا کر رکھ لیتے ہیں یعنی آپ کی آنکھوں کےسامنے بہت کم بنا کر دیا جائے گا۔ اور ہر شوارمے میں آلو کی چپس زیادہ ہوتی ہے اور چکن کم۔ پھران کا ذائقہ کچھ ایسا خاص نہیں ہوتا۔ بس پیٹ بھرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ مگر انکو کھانے کے بعد اکثر افسوس ہی ہوتا ہے۔
سعودی عرب کا مشہور ’’البیک‘‘ ہمیں صرف ایک مرتبہ کھانے کی ہمت ہوئی اسکے بعد اسکا رُخ نہیں کر سکے۔ یہ فرائیڈ چکن کی سارے عرب میں پھیلی مشہور چین ہے۔اور اسکی جس دکان پر چلے جائیں ایسا لگتا ہے سارا عرب لائن بنائے کھڑا ہے۔ اسکا بھی ذائقہ کچھ خاص نہیں ہے۔ اور اپنا آرڈر لیتے لیتے بہت وقت لگ جاتا ہے۔ ہم نے پہلی اور آخری مرتبہ جدہ ائرپورٹ پر کھایا تھا جس میں ہمیں تقریباً آدھ گھنٹہ لگ گیا تھا۔ اس کے بعد ہمت نہیں ہوئی۔
عرب کی ایک مشہور ڈش ہے ’’مندی‘‘۔ اگر کسی اچھے ریسٹورینٹ میں جانا ہو تو اس کو ضرور کھائیں۔لندن میں اسکو میں کافی مرتبہ کھا چکا تھا مگر اسکا ذائقہ سعودیہ جا کر زیادہ مزیدار لگا ۔
حرم یا مسجد نبوکے قریب جو مارکیٹس ہیں وہاں کھانے کی دکانوں کی بھرمار ہے مگر ایک تو وہ کھانے بہت مہنگے ہوتے ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کی کوالٹی بلکل ہی خراب ہوتی ہے۔بہتر یہی ہے کہ مکہ کے علاقے عزیزیہ چلا جایا جائے وہاں پاکستانی ، انڈین و بنگالی کھانوں کے اچھے ہوٹلز موجود ہیں ۔ جبکہ مدینہ میں مسجد نبوی سے ۱۰ منٹ کے کار سفر پر اچھے ریسٹورینٹ مل جائیں گے۔
کسی بھی دیسی کھانوں کے ہوٹل میں جا کر ایک بات کا خیال رکھیں کہ ہر سالن کی قیمت کے ساتھ دو نان شامل ہوتے ہیں۔ اس لئے کاؤنٹر پر جب کھانا آرڈر دیں تو صرف سالن کا ہی آرڈر دیں۔ نان ساتھ آجائےگا۔
ہمیں اس کا پتا نہیں تھا تو شروع میں جب ہم کھانا آرڈر دیتے تو سالن اور نان کا آرڈر دیتےتو نان ایکسٹرا آن موجود ہوتے اور ہمیں سمجھ نا آتی کہ زیادا کیوں آئے ہیں نان۔ کئی مرتبہ ہم نے انہیں واپس کیے پھر سمجھ آئی کہ کیا ماجرہ ہے۔
ایک وقت کے کھانے کے لئے مناسب ہوٹل میں خرچ پچیس سے پچاس ریا ل ہوتا ہے
لباس
کوشش کریں کہ زیادہ لباس اپنے ساتھ نہ لائیں۔ ہاں شلوار قیمض ہوں تو وہ پینٹ شرٹ کی نسبت زیادہ بہترہے۔ عربوں کا مخصوص لباس جنہیں ہم جبہ اور مقامی اسے ’’توپ‘‘ کہتے ہیں عرب میں سب سے بہتر لباس ہے۔یہ ایک لمبی ٹخنوں تک قمیض اور ساتھ شلوار ہوتی ہے۔ عرب کےشدید موسم میں یہ سب سے بہتر آپشن ہے ۔ مقامی مارکیٹ سے کم قیمت مناسب کوالٹی کے خریدے جا سکتے ہیں۔
مدینہ میں مسجد بلال سے ملحقہ مارکیٹ میں احرام اور یہ لباس نہایت کم قیمت دستیاب ہیں جبکہ مکہ میں آپ قریبی علاقے ’’طیبہ ‘‘جائیں۔ ان دونوں جگہوں سے دیگر خریداری بھی کی جا سکتی ہے۔
احرام چالیس ریال اور سعودی جبہ ڈیڑھ سو ریال تک مل جائے گا۔اگر کپڑے دھلوانے ہوں تو ہوٹل کی لانڈری آپ کو بہت مہنگی پڑے گی۔ لوکل مارکیٹس میں بہت سی مناسب قیمت پر لانڈری کی دکانیں مل جائیں گی۔
آمد ورفت
مدینہ میں ٹیکسی کارز کی حالت نہایت پتلی ہے۔ پاکستان میں جیسی کاریں کباڑ میں پھینکی جاتی ہیں مدینہ میں ویسی کارز ہمیں روڈ پر چلتی نظر آئیں۔کوئی بھی ٹریفک قانون کی پاسداری نہیں ہے۔ جہاں سے مرضی لائن بدل لی جاتی ہے۔ بہت مرتبہ ایکسیڈینٹ ہوتے ہوتے بچا۔ عرب میں اوبر سے بھی ٹیکسی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اوبر کارز کی حالت بہت اچھی ہوتی ہے۔
ایئرپورٹ سے آپ کسی بھی ٹیکسی سے اپنے مطلوبہ ہوٹل جائیں ۔ اور کوشش کریں کہ کوئی عربی ٹیکسی والا نہ ہو۔ عربی ڈرائیور زیادہ تر مصری اور یمنی ہیں۔ ان کے کرائے دیگر سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
جس جگہ بھی آپ نے جانا ہو اس کے لئے ڈرائیور سے بھاؤ تاؤ ضرور کریں۔
مدینہ کی تمام زیارات ڈیڑھ سو ریال میں ہو جائیں گی مگر یہ صرف ہاتھ لگانے جیسا ہوگا۔ تفصیلی زیارات اور نوافل کی ادائیگی اگر کی گئی تو ڈرائیورز آپ سے اضافی چارجز وصول کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کی مرضی ہے کہ آپ کتنی مرتبہ کہاں کہاں جاتے ہیں۔
مکہ کی زیارات کے لئے مخصوص ریٹس نہیں ہیں۔ حرم سے مسجد عائشہ تک آنا جانا آپ کو پچاس ریال میں پڑے گا۔ غارِ حرا ایک سو بیس ریال میں۔ مکہ سے مدینہ ٹیکسی کے ذریعے چھ سو ریال جایا جا سکتا ہے۔ یہ صرف مثال کے لئے ریٹس بتائے ہیں باقی وہاں حالات اور رش کے حساب سے کرائے زیادہ ہو جاتے ہیں۔
کرنسی ایکسچینج
اپنے سفر کے آغاز پر ہم نے کچھ رقم ریال میں تبدیل کروالی تھی۔ اور باقی مطلوبہ رقم گاہے بگاہے ہم مدینہ اور مکہ سے بدلواتے رہے۔یہ سب سے بہترین طریقہ ہے۔ کیونکہ لندن سے ایکسچینج ریٹ اچھا نہیں مل رہا تھا جبکہ مدینہ اور مکہ میں ایک پاؤنڈ کے بدلے ریال کا ریٹ اچھا تھا۔
حجامت
ہر عمرہ کے بعد مردوں نے حجامت کرانی ہوتی ہے۔ حرم کے سامنے مارکیٹس میں بکثرت حجام ہیں۔ عام طور پر دس ریال سے حجامت کر لیتے ہیں۔ مگر جب سر شیو ہو جائے تو پانچ ریال میں بھی حجام مان جاتے ہیں۔ مگر مقامی پاکستانیوں کے مطابق حج اور عمرہ سیزن میں بیس ریال تک حجام مانگتے ہیں۔
طہارت و ضو
مسجد نبوی کے احاطہ میں جگہ جگہ کچھ فاصلوں پر باتھ رومز موجود ہیں، جو کہ زیرِ زمین ہیں۔ان تک جانے کے لئے برقی سیڑھیاں موجود ہیں اور ساتھ دوسری سیڑھیاں بھی۔ انکی پہلی منزل ہمیشہ بھری رہتی ہے اور یہاں قطاریں بنی رہتی ہیں۔ جبکہ اگرزیرِ زمین دوسری منزل پر جایا جائے تو وہاں نا ر ش ہوتا ہے اور نا ہی زیادہ وقت قطار رہتی ہے۔ اس لئے یہ منزل بہ نسبت پہلی منزل کے صاف ستھری بھی ہوتی ہے۔
مکہ میں بیت اللہ کے باہر باتھ رومز بنائے گئے ہیں جو کہ زیرِ زمین ہی ہیں۔ مگر یہاں رش بہت زیادہ ہوتا ہے۔ کسی بھی منزل پر جائیں یہاں آپ کو رش ہی ملے گا۔
طریق عمرہ
آپ کسی بھی میقات پر احرام پر پاک صاف حالت میں احرام باندھیں۔ (گھر سے نہا کر بھی احرام باندھا جا سکتا ہے)۔ یاد رکھیں احرام صرف دو سفید چادروں پر مشتمل ہوتا ہے اور مردوں کےلئے لازمی ہے۔ جبکہ عورتوں کے لئے عمرہ میں کوئی لباس مخصوص نہیں ہے ۔
شرائطِ احرام
ایک ضروری بات یاد رکھیں کے ایک مرتبہ احرام باندھ کر کسی بھی قسم کی خوشبو نہیں لگائی جا سکتی، ناخن نہیں کاٹے جا سکتے، بال نہیں کاٹے جا سکتے۔ا س لئے بہتر ہے کہ خوشبو، تیل وغیرہ احرام باندھنے سے پہلے لگا لیے جائیں۔ احرام کی تہبند ایسے باندھنی ہے کہ ٹخنے ننگے رہیں کپڑا زمین پر نا گھِسٹتا رہے۔حالتِ احرام میں ہر قسم کا جھگڑا یا ہم بستری منع ہے۔
کسی قسم کا شکار نہیں کر سکتے۔ موزے، جرابیں، شلوار زیر جامہ کی اجازت نہیں۔
نیتِ عمرہ
کسی بھی میقات پر دو رکعت نفل نیتِ عمرہ ادا کریں۔ اور یہ دُعا کریں۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُرِیدُ العُمرَةَ فَیَسِّرھَا لِی وَ تَقَبَّلھَا مِنِّی
اے اللہ میں عمرہ کی نیت کرتا ہوں تُو اسے میرے لئے آسان کردے۔
اور تلبیہ کہیں
پھر وہاں سے آپ بیت اللہ آجائیں اور تلبیہ کہیں
لَبَّیْکَ اَللَّهُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَاشَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ
اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لَاشَرِیکَ لَکَ
میں حاضر ہوں۔ یا اللہ میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں
بے شک تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لئے ہیں اور ملک بھی ۔تیراکوئی شریک نہیں۔
دورانِ مطاف
جب آپ مطاف میں داخل ہو جائیں تو اپنا دایاں کندھا ننگا کر لیں ۔ اور حجرِ اسود کے سامنے چلے جائیں۔ یہاں اب آپ نے تلبیہ نہیں پڑھنا۔
پھر اپنا دایاں ہاتھ حجرِ اسود کی طرف بلند کریں اور پڑھیں
بِسمِ اللہِ اللہُ اکبر
اور ہاتھ چوم لیں۔ اگر موقع ملے تو حجرِ اسود کو چومنا مسنون ہے وگرنہ طواف شروع کر لیں۔ کعبہ کے گرد تمام چکر الٹے لگانےہیں اور ہر چکر حجر اسود پر ختم ہوتا ہے اوروہیں سے دوسرا چکر شروع ہوگا۔ اور ہر چکر پر حجرِ اسود کی طرف ہاتھ بلند کر کے تکبیر بِسمِ اللہِ اللہُ اکبر پڑھنا لازمی ہے۔ دورانِ طواف ہر کوشش کریں کہ کسی قسم کی دھکم پیل نہ ہو۔ کوئی ناگوار بات ہوبھی جائے تو نظرانداز کریں۔ پہلے تین چکر قدرے تیز تقریباً بھاگتے ہوئے مکمل کریں۔ عورتوں کے لئے بھاگنا یا تیز چلنا لازمی نہیں۔
نوٹ: حجر اسود سے پہلے والا کعبہ کا کونا رُکنِ یمانی کہلاتا ہے۔ اس کونے اور حجرِ اسود کے درمیان ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار پڑھنا مسنون ہے۔ باقی طواف کے دوران اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ حمد و ثنا کرنی چاہیے۔ یا جو دل میں آئے دعا کریں۔
دوران طواف
حصنِ حصین میں درج ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’تُم اتنی کثرت سے اللہ کا ذکر کیا کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہنے لگیں۔
طواف کے دوران آپ کو بہت سی دعائیں پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ مختلف عربی دعائیں آپ کو کتب میں مل سکتی ہیں۔اگر آپ کو عربی کی سمجھ ہے اور دعائیں یا د ہیں تو ان عربی دعاؤں سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ کسی کتاب سے دعا پڑھتے ہوئے طواف کا مزہ نہیں آتا کیونکہ دھیان بٹ جاتا ہے۔ کوشش کریں کہ اپنی زبان میں دعائیں کریں سوائے طواف شروع کرتے وقت اور ربنا آتنا فی الدنیا حسنتہ وفی الآخرہ حسنۃ وقنا عذاب النار ۔ اگر کوئی مخصوص دعا یاد نا رہے تو دورانِ طواف قرآن بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
ایک حدیث ِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ جس شخص کو قرآن شریف میں مشغولیت کی وجہ سے ذکرِ الٰہی کا موقع نہ ملے اور دعائیں مانگنے کی فرصت نہ ملے، اس کو دعائیں مانگنے والوں سے زیادہ عطا کرتا ہوں‘‘ (ترمذی)
دورانِ طواف آپ رُک کر بھی مناجات کر سکتے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ رحج کے دوران رکنا ممکن نہیں ہوگا
اسی طرح آپ نے کعبہ کے گرد سات چکر مکمل کرنے ہیں ۔
نوٹ: اگر طواف کے چکر کی گنتی کے متعلق شک ہو جائے یا یاد نا رہے تو کم تعداد رکھ کر چکر مکمل کیے جائیں۔
مقامِ ابراہیم پر نفل
طواف مکمل ہونے کے بعد مقامِ ابراہیم جو کہ کعبہ کے دروازہ کی طرف ہے اسکے سامنے دو رکعات نفل ادا کرنے ہوتےہے۔ مگر نفل سے پہلے اپنادایاں کندھا ڈھانپ لیں مگر سر نہیں ڈھانپنا۔ یہاں لوگ عموماً کوشش کرتے ہیں کہ مقامِ ابراہیم کے قریب ہی نفل ادا کیے جائیں مگر کعبہ کے محافظ لوگوں وہاں سے ہمیشہ ہٹنے کے لیے کہتے رہتے ہیں ۔ اس لئے بہتر ہے کہ کچھ پیچھے کی طرف نفل کے لئے جایا جائے تاکہ اطمینان و تسلی سے نفل ادا کیے جا سکیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت سے ملتا ہے کہ انہوں نے مقامِ ابراہیم سے ایک طرف بھی نفل ادا کیے ہیں۔ اس لئے اگر مقامِ ابراہیم کے علاوہ بھی نفل ادا کیے جا سکتے ہیں
نوٹ: پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ الکافرون اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص کی تلاوت کریں۔
زم زم پینا
نفل ادا کرنے کے بعد کوہِ صفا کی طرف جانا ہوتا ہے۔ مگر راستے میں کثرت سے زم زم بھرے کولرموجود ہیں۔ انکے پاس جی بھر کے زم زم پیئں۔ دل کرے تو سر پر زم زم ڈالیں سینے پر ڈالیں۔ مسح کریں۔ زم زم پیتے ہوئے بھی دعا کریں کیونکہ میرے آقا ﷺ کا فرمان ہے کہ زم زم جس مقصد کے لئے پیا جائے وہ قبول ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ)
سعی
صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگانے کو سعی کرنا کہتے ہیں۔کوہ صفا کی طرف آتے ہوئے چھت کی طرف دیکھیں تو سعودی حکومت نے سائن بورڈ پر سبز رنگ میں سورۃ البقرہ کی آیت ۱۵۹ لکھی ہوئی ہے جو کہ کوہِ صفا اور مروہ کی دُعا ہے۔
إِنَّ ٱلصَّفَا وَٱلْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ ٱللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ ٱلْبَيْتَ أَوِ ٱعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ ٱللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ
جب کوہِ صفا پر آجائیں تو قبلہ رُخ ہو کر ہاتھ اُٹھا کر دعا کریں۔ اور خوب زور و شور سے کریں۔
پھر کوہِ مروہ کی طرف سعی شروع کر دیں۔ دورانِ سعی ایک ایسا حصہ آئے گا جہاں صرف مردوں کو بھاگنا ہوتا ہے۔ سبز روشنی سے سعودی حکومت نے اس حصے کی نشاندہی کی ہوئی ہے۔ کوہِ صفا سے مروہ تک ایک سعی کا ایک چکر مکمل ہوگا۔دورانِ سعی کثرت سے حمد و ثنا کریں۔ جو جو دل میں آئے اپنی زبان میں دعا کریں۔ یا تلاوتِ قرآن کریں۔ کوہِ مروہ پر بھی قبلہ رُخ ہوکر ہاتھ بلند کر کے دعا کریں۔ پھر صفا کی طرف سعی کریں۔ اس طرح سات چکر مکمل کرنے ہیں۔ ساتواں چکر کوہِ مروہ پر مکمل ہوتا ہے ۔ دورانِ سعی قبلہ رُخ نفل بھی ادا کیے جاسکتے ہیں۔
حلق کرنا یا سر منڈوانا
سعی مکمل کرنے کے بعد سر منڈوانے یا بال کٹوانے ہوتے ہیں اسے حلق کرنا یا تقصیر کرنا کہتے ہیں۔ اس کے لئے حرم سے باہر بے شمار دکانیں ہیں ۔ انگلی کی پور کے برابرمردوں کے لئے بال کتروانا اور سر منڈوانا مسنون ہے۔قینچی سے چند بال کاٹ لینا غلط ہے اس لئے کوشش کریں کہ مکمل حجامت ہو۔ عورتوں کے لئےبھی انگلی کی پور کے برابر بال کاٹنا لازمی ہے۔ اس کے بعدعمرہ مکمل ہو جاتا ہے اور احرام کی پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ الحمدللہ
واسطۂ رسولﷺ اور حضرت ابو طالب
دعا کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کا جنابِ الٰہی میں واسطہ بار بار دینا چاہیے۔ میرے حضورﷺ نے اس طریق کو سندِ قبولیت بخشی ہوئی ہے۔
کہتے ہیں کہ مکہ میں ایک دفعہ قحط پڑا ۔ قریش نے حضرت ابو طالب کو کہا کہ وادیاں سوکھ گئی ہیں، ہم ایک ایک لقمے کے محتاج ہوگئے ہیں۔ ہمارے ساتھ آئیں اور بارش کی دعا کریں۔ حضرت ابو طالب اپنے ساتھ ایک بچے کو لیکر کعبہ گئے اور بارش کی دعا کی ۔ کہتے ہیں کہ اس وقت آسمان سے اس قدر بارش ہوئی کہ مکہ اور اردگرد کی وادیاں جل تھل ہو گئیں۔
اس موقع پر حضرت ابو طالب نے چند اشعار کہے
وابیض یستسقی الغمام بوجھہ
ثمال الیتامیٰ عصمۃ الارامل
یلوذبہ الہلاک من آل ہاشم
فہم عندہ من نعمۃ فواضلِ
ومیزان عدل لا یخیس شعیرۃ
ووزان صدق وزنہ غیر ہائل
وہ روشن و تابناک چہرے والے جن کے صدقے میں بادلوں سے پانی مانگا جائے وہ یتیموں کے والی اور بیواؤں کی پناہ ہیں۔
بنی ہاشم کے فقراء اس کی پناہ حاصل کرتے ہیں۔ اور اسی کے پاس ناز و نعمت کے لئے جاتے ہیں۔
وہ عدالت کی ایک میزان ہےجس کا وزن ایک بال کے برابر بھی خطا نہیں کرتا اور اس کا وزن سچا وزن ہے اور اس میں کوئی جھوٹا دعویٰ نہیں۔
ابن ہشام میں درج ہے کہ مدینہ منورہ میں آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا سے بارش کے برسنے اور قحط کے آثار ختم ہونے پر میرے حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’ اگر ابو طالب آج زندہ ہوتے تو یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے‘‘
کسی نے پوچھا کہ کیا آنجنابؐ فداہ امی و ابی کا اشارہ ان اشعار کی طرف ہے جو حضرت ابو طالب نے کہے تھے؟ تو آپﷺ نے فرمایاکہ ’’بالکل درست‘‘
اہلِ علم کے نزدیک یہ اشعار تمام نعتوں میں اوّل اور ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کی جانب سے ان کو سندِ قبولیت عطا ہے۔
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ
تانیائی پیش حق چوں طفلِ خورد
ہست جامِ تو سراسر پُر زِ دُرد
جب تک تو چھوٹے بچے کی طرح خدا کے سامنے نہ آئیگا تب تک تیر اجام صرف تلچھٹ سے ہی بھرا رہے گا
اندازہ کریں کہ ایک بھرے میلے میں کوئی بچہ اپنی ماں سے بچھڑ جائے تو بچہ کیسا بیقرار ہوکوں سے روئے گا، لوگوں کے دامن پکڑ پکڑ کر اپنی ماں کے متعلق کھوجتی نظروں سے دیکھتے گا، چیخے گا چلائے گا۔
کعبہ میں اپنا آپ ایک بچہ بنا کر لے گیا۔ اور درحقیقت رب کے حضور انسان سب سے کم تر ترین حالت میں ہی جاتا ہے۔ مطاف کے ہر قدم پر ایک بچہ اپنے مسیح موعود علیہ السلام کا دامن پکڑ پکڑ کر اپنے رب کے متعلق کھوجتی نم ناک آنکھوں سے اپنا مدعا بیان کر رہا تھا۔
اپنی زبان میں ربِ کعبہ کے حضور مناجات کے لئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی دعاؤں سے بڑھ کر اور کیا دعا ہوگی۔ اسلئے کوشش کرنی چاہیے کہ مکہ مدینہ کے بابرکت سفر کے لئے ان دعاؤں کا زادِ راہ باندھ لیا جائے۔
صرف برکت کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے عظیم الشان سمندر سے چند قطرے پیش کرتا ہوں ۔
’’اے میرے رب! تو اپنے فضل سے میری قوت بن جا اور میری آنکھوں کا نور اور میرے دل کا سرور اور میری زندگی اور موت کا قبلہ تو ہوجا اور مجھے محبت کا شغف بخش اور ایسی محبت مجھے عطا کر کہ میرے بعد کوئی اور اس محبت میں آگے نہ بڑھ سکے۔ اے میر ے رب! میری دعا کو قبول کر اور میری خواہشیں مجھے عطا کر۔
اے میرے رب! میرے پاس ہر دروازے سے آ اور ہر پردے سے مجھے خلاصی دے دے اور ہر محبت کی شراب مجھے پلا دے۔‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام)
’’اے میرے رب! میرے دل پر نزول فرما اور میرے وجود کی نفی کے بعد میرے گریبان سے ظاہر ہو اور میرے دل کو عرفان کے نور سے بھر دے۔ اے میرے رب تو ہی میری مراد ہے پس میری مراد مجھے دے دے۔‘‘ (اعجاز المسیح)
’’رَبِّ کُلُّ شَئیٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِی وَارْحَمْنِی‘‘
اے میرے رب ! پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پررحم فرما۔ (تذکرہ)
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُبَاَرکًا حَیْثُ مَا کُنْتُ
اے میرے رب مجھے ایسا مبارک کر کہ ہر جگہ میں بودوباش کروں برکت میرے ساتھ رہے۔ (براہین احمدیہ)
یَااَحَبَّ مِنْ کُلِّ مَحْبُوْبٍ اِغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ وَ اَدْخِلْنِیْ فِیْ عِبَادِکَ الْمُخْلَصِیْنَ۔
اے محبوبوں سے محبوب ذات!میرے گناہ مجھے بخش دے اور مجھے اپنے مخلص بندوں میں شامل فرما۔ (مکتوبات احمد)
علاوہ ازیں میرا تجربہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاکیزہ شعری کلام کے دعائیہ مصرعے بھی دل نرم کرنے اور ایک توجہ قائم کرنے میں اکثر بہت مدد دیتے ہیں۔
اب جس چیز ، مرحلہ کو قلم بند کرنا ہےوہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ کتنے دنوں سے سوچ رہا ہوں کہ عنوان کیا ہومگر کوئی عنوان بھی دل کو بھا نہیں رہا اور لکھنا میرے لیے محال ہوگیا ہے۔ اور یہ مرحلہ ہے ہماری مکہ سے واپس لندن رخصتی کا۔
انسانوں سے بچھڑتے ہوئےکبھی دل اتنا اداس نہیں ہوا، کبھی اتنی تکلیف محسوس نہیں ہوئی جو مکہ سے دمِ رخصتی سے لیکر اب ان لمحات کو قلم بند کرتے وقت تک ہو رہی ہے۔ یہ میرے لئے ایک بلکل نیا تجربہ ہے ۔ گو چہرے پر مسکراہٹ بھی آتی ہے ، روزمرہ کی باتیں بھی ہو رہی ہیں کام بھی مگر دل کی گھڑی کی سوئیاں مکہ میں اٹک چکی ہیں میرے دل کا موسم مکہ میں ٹھہر چکا ہے۔ اور لندن میں مجھ پر خزاں کا نزول ہے۔ یہ تو مرےپیارے حضور کی نرم بارشیں ہیں جو تروتازہ رکھے ہوئے ہیں۔
مکہ سے بچھڑنا
مکہ سے بچھڑنا کیسا ہوتا ہے؟ زیادہ فرق نہیں بس ایسا جیسے گلاب بنا خوشبو کے، تتلی بنا نرماہٹ کے،بچہ بنا مسکراہٹ کے، ساون بنا بارش کے،ما ں بنا ممتا کے، ہدہد بنا اپنے تاج کے، تلاوت بنا تاثیر کے، آسمان بنا تاروں کے، چاند کے بغیر کرن، انسان بنا آواز کے، دل بنا دھڑکن کے، جسم بنا روح کے اور دعا بنا اثر کے۔۔مکہ سے بچھڑنا ایسا ہوتا جیسے دُنیا کے تمام حسین اور خوبصورت الفاظ کا موجود ہونا اور قلم کا ان سے محروم ہونا۔
بس مکہ سے بچھڑنا ایسا ہی ہوتا ہے اور اس کا وچھوڑا دل محلے کی گلیاں سنجیاں کر دیتا ہے اور ان سُنجی گلیوں میں پھرنے والا دل مرزا مکہ میں رہ جاتا ہے۔ تو محلے کی گلیاں بنا مرزا کے بذاتِ خود ایک بدعا ہو جاتی ہیں۔ مکہ حریمِ جاں سے آگے کا سفر ہے جس میں کبھی خود پر خامشی طاری ہوتی ہے اور کبھی روح شور مچاتی ہے۔ یہاں رات کو روشنی کے بھیس میں برکتیں اترتی ہیں۔اور دن کے اجالے میں قبولیت کی حدت سے قرب و جوار دہکتے رہتے ہیں۔
ہم اپنی اُدھڑی روحیں ، تار تار عقلیں اور شکستہ بدن لائے تھے تا وہ خیاطِ ازل اپنی محبت کے دھاگے اپنے فضل کی سوئی میں ڈالے اور ہمیں سی دے۔ ہمیں رفو کر دے۔
ہم جب پہلے دن سفر پر نکلے تھے تو یہ وچھوڑے کا دن ہمارے ذہن میں تھا۔مگر ہمیں علم نہیں تھا کہ یہ دن اتنا جلد آجائے گا بے شک درمیان میں پندرہ دن تھے مگر یہ پندرہ دن تو جیسے پلک جھپکتے گزر گئے اور ہم پر یہ دن آگیا۔ ہائے ہائے کیسا اجلا دن تھا جمعہ کا دن تھا مگر ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیرا تھا۔ ہماری سانسوں سے شوک نکل رہی تھی۔ اور ہم ایک دوسرے سے نظریں چرائے اِدھر اُدھر کی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔ آج کے دن کا آغاز کیسے ہوا تھا ۔بتاتاہوں۔
جمعہ والے دن ہمارا ہوٹل سے چیک آؤٹ بارہ بجے ہونا تھا۔ اور فلائٹ ہماری رات ساڑھے نو بجے تھی۔ چیک آؤٹ کے بعد سامان کہاں رکھیں گے؟ اور وقت کیسے گزاریں گے؟ یہ سوال جمعرات کی رات ہمارے ذہن میں تھے اور مدثر مختلف آئیڈیاز لڑا رہا تھا۔ ایک فیصلہ ہوا کہ ہم ایک دن کے لئے یہیں کوئی سستا سا کمرہ لے لیتے ہیں سامان وہاں رکھیں گے اور باقی وقت حرم میں گزار لیں گے۔
ایک اور آئیڈیا سوچا کہ ہوٹل کے پاس کمرہ لے لیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں وہاں۔ مگر میرا دل کر رہا تھا کہ کسی طرح مکہ میں ہی کمرہ لے لیتے ہیں۔اپنے ڈرائیور سے بات کی تو اس نے اپنے کسی جاننے والے سے بات کی تو ایک کمرہ سستا سا اس نے بندوبست کر دیا۔ مگر ہم ابھی وہاں شفٹ نہیں ہوئے تھے کہ مدثر نے ہوٹل کے نگران سے بات کی کہ اگر بارہ بجے کی بجائے ہم دو بجے چیک آؤٹ کر لیں تو کیا اجازت ہے؟ انہوں نے تھوڑی سی حیل و حجت ہاں کر دی۔ اب طے یہ ہوا کہ ہم دو بجے چیک آؤٹ کریں گے۔ ایک گھنٹہ ہوٹل کے ویٹنگ لاؤنج میں بیٹھیں گے اور پھر جدہ ائیرپورٹ کی طرف نکلیں گے راستے میں کھانا کھائیں گے اور قریباً پانچ بجے ائر پورٹ چلے جائیں گے۔
جمعہ کی صبح ہم نے آخری عمرہ ادا کیا۔ صبح فجر کی نماز ادا کی اور احرام باندھ کر مسجد عائشہ گئے۔ وہاں نیت عمرہ کے نفل ادا کیے اور حرم میں آگئے۔ عمرہ ادا کیا۔ اس عمرہ کی حالت ایسے تھی جیسے کسی قریب المرگ کی آخری ملاقات تھی۔
تلبیہ و حمد و ثنا کرتے ہم مطاف میں داخل ہوئے ۔تسلی اور اطمینان سے مگر بےقرار جذبوں سے پُر عمرہ مکمل کیا۔ اور پھر ہوٹل واپس چل دیے۔ حرم کے گرد رش دن بدن بڑھ رہا تھا۔ لوگ جوق در جوق زیارتِ کعبہ کو آرہے تھے ٹولیوں کی شکل اور کچھ اکیلے، کوئی لاٹھی ٹیکتے کوئی وہیل چئیر پر۔ مگر ایک لگن،مشترک جوش اور مطلوب واحد و یگانہ کی عبادت۔ لوگوں کا ہجوم اکثر بے زاری طاری کر دیتا ہے یا وحشت۔ یہاں کوئی انوکھا ہجوم تھا جس سے نا بےزاری ہوتی ہے نا وحشت۔ نا اکتاہٹ پاس پھٹکتی ہے۔
ہوٹل پہنچ کر سامان کی آخری پیکنگ کی۔ اور اندازاً وزن کیا اپنے کپڑوں اور دوسری چیزوں کا تو ہمارا خیال تھا کہ میرے بیگ کا وزن کوئی اٹھارہ کلو ہوگا اور مدثر کا بیگ اکیس بائیس کلو ہوگا۔ جبکہ ہم دونوں کو ایئر لائن کی جانب سے بائیس بائیس کلو سامان لے جانے کی اجازت تھی۔ چلیں سامان کے حوالے سے تو دل میں تسلی ہوئی۔
دوپہر دو بجے چیک آؤٹ کیا اور پھر ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے۔ پھر فیصلہ کیا کہ ڈرائیور کو بلا لیں اور جدہ چلتے ہیں وہاں کسی جگہ کھانا کھاتے ہیں اور پھر آرام سے ائیرپورٹ۔ ڈرائیور واصف کو کال کی اور اسے بلا لیا۔ آدھے گھنٹے میں وہ پہنچ گیا۔ پونے تین بجے ہم گاڑی میں بیٹھے اور چل دیے۔
کھڑکی سے حرم پر آخری نظر ڈالی اور اپنی تکلیف سے آنکھیں مسل دیں۔
اے بستیوں کی ماں ! اے حبیبِ خداﷺ کی محبوب بستی مکہ!
تو مجھے جان سے بھی پیاری ہے۔ تمام بستیوں سے زیادہ عزیز ہے۔ اور تمام شہروں سے زیادہ معتبر!
میں یہاں سے جانا نہیں چاہتا مگر مجھے جانا ہے!
میری التجا ہے اے بلد الامین!
میری لاج رکھنا، مجھے بار بار بلانا، اپنے دروازے اب مجھ پر میری آخری سانس تک بند نہ کرنا۔ میری تجھ سے محبت کا اور کیا ثبوت ہوگا کہ قبر میں بھی میرا منہ تیری طرف ہی ہوگا۔ اپنی محبت میرے گلے میں ایسے سجا دے جیسے طوطے کے گلے میں سجیلا طوق۔
اے پیاری بستی، تیرے مینارے سلامت رہیں، تیری گلیوں میں محبت قائم رہے، تو اپنے ہر آنے والے کے لئے کشادہ اور آسانیاں پیدا کرتی رہے، تیرے اندر لبیک اللھم لبیک کی صدائیں ہمیشگی والی ہوں اور جو بھی تیرے پاس آئے خیر پائے فضل پائے اور مرادیں پوریاں ہوں۔
’’کہ میں نے بے نشانی تک نشاں سے تُم کو مانگا ہے‘‘
جانبِ جدہ
ہم جدہ کی جانب رواں دواں تھے۔ہر گزرتا پل دل و جاں پر غبارِ درد گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ میرا محبوب مکہ میری پری بدیع الجمال مجھ سے دور ہوتی جا رہی تھی۔ڈر تھا کہ مکہ و مدینہ میں گزری خوشی کی ساعتیں زندگی بھر کا روگ نا بن جائیں حالانکہ اس روگ کے لگ جانے کی دعائیں بھی بہت کی تھیں۔ مکہ سے نکلتے ہی مجھ پر شامِ پیاس طاری ہو چکی ہے اور اس شام کی صبح اب دوبارہ مکہ میں آکر ہی ہوگی دیکھیں کہ کب مجھ پر دوبارا صبح صادق طلوع ہوتی ہے۔
ڈرائیور واصف سے مختلف باتیں ہوتی رہیں۔ واصف ہی صرف سڑک پر نظر نہیں رکھے ہوئے تھا بلکہ ہم دونوں سواریاں بھی سڑک پر نظر رکھے ہوئے تھیں کیونکہ یہاں کے ڈرائیور شدید بے احتیاطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہم اپنی لائن میں جا رہے تھے کہ یک دم دائیں طرف سے ایک کار نے بنا اشارہ کیے لائن بدل لی اور قریب تھا کہ ہماری گاڑی سے آ ٹکراتی، میں اور مدثر دونوں نے زور سے چلا کر واصف کو متوجہ کیا او راس نے بروقت کار بائیں طرف کر کے سپیڈ کم کر دی۔ یہ ایک لمحہ ایسا تھا جس نے دل بہت زور سے دہلا دیا۔ ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا تھا۔واصف کے مطابق دوسرا دوسری کار کےڈرائیور کو شائد اونگھ آگئی تھی۔ خیر بچت ہو جانے پر اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ادا کیا۔
میں چونکہ کار کی فرنٹ پسنجر سیٹ پر بیٹھتا تھا اس لئے جو بھی ڈرائیور ہوتا اسے کہتا رہتا تھا کہ ’’ہمیں پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں اس لئے سپیڈ تیز کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں‘‘ یہی میں بار بار تمام راستے واصف کو بھی کہتا آیا کہ بھائی جی۔۔کوئی جلدی نہیں!! اس کے دو مطلب تھے کہ نا تو ہمیں یہاں سے جانے کی جلدی ہے اور نا کہیں اور پہنچنے کی جلدی!!
راستے میں ہی واصف نے کسی سے بات کر کے ایک اچھے بوفے ریسٹورینٹ کا پتا کیا اور ہم اسے کھوجتے کھوجتے جدہ اس ریسٹورینٹ تک پہنچ گئے۔
ریسٹورنٹ دیکھ کر طبیعت باغ باغ ہو گئی، تمام دیسی کھانے اور قسما قسم کی سویٹ ڈشز ایک ہی جگہ پر موجود تھے اور ہم نے خوب انصاف کیا۔
کافی دیر اس ریسٹورنٹ میں وقت گزار کر ہم ایئرپورٹ کی طرف نکل پڑے۔قریباً بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعدکنگ عبدالعزیز ائیر پورٹ ڈراپ آف پر وا صف نے ہمیں اتار دیا اور الوداعی دعائیں دیتا ہوا رخصت ہو گیا اور ہم ائیرپورٹ بلڈنگ میں داخل ہوگئے۔
ابھی ہماری ایئرلائن والا کاؤنٹر نہیں کھلا تھا ہم اس کے سامنے انتظارگاہ میں بیٹھ گئے۔ میں نے ایئرپورٹ مسجد میں نمازِ ظہر و عصر ادا کی اور ادھر اُدھر گھومنے لگ گیا۔ کچھ دیر بعد واپس آیا تو کاؤنٹر کھل چکا تھا چنانچہ ہم لائن میں کھڑے ہوگئے۔
زمزم کہانی۲اور میرا دل کش کفر
لندن سے چلتے وقت مختلف لوگوں نے مجھے بتایا تھا کہ صرف پانچ لیٹر والی بوتل ہی زمزم کی ساتھ لانے کی اجازت ہے۔ میں نے مکہ سے پانچ لیٹر والی دو بوتلیں خریدی تھیں ایک کو اپنے بیگ میں پیک کرلیا اور دوسری کو ہاتھ میں پکڑ لیا۔ جب کاؤنٹر پر ہماری باری آئی تو اٹنڈنٹ نے بتایا کہ سر زمزم لے جانے کی اجازت ہرگزنہیں۔ مختلف حیلے بہانے کیے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اور کہنے لگی کہ سعودی عرب کے کسی بھی دوسرے ایئرپورٹ سے جائیں تو جتنا مرضی زمزم لے جائیں مگر کنگ عبدالعزیز ائیرپورٹ سے ہرگز کسی بھی صورت میں اجازت نہیں ہے۔ ہم نے کہا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا تو ہم اس ایئر پورٹ پر خاک ڈالتے آگ لگاتے اور اس کا نام تک نا لیتے مگر اب تو کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس بی بی کو ہمیں بتانے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ میں نے سامان میں زمزم پیک کیا ہوا ہے۔ یہ میرا دلکش کفر تھا یعنی سویٹ بلاسفمی!
سامان کے وزن کی جب باری آئی تو مجھے ڈر تھا کہ میرے بیگ کا وزن بہت زیادہ نکلے گا جبکہ مدثر بہت مطمئن تھا کہ اس کا بیگ وزن میں ٹھیک ہوگا۔
سب سے پہلے مدثر نے بیگ چیک ان ویٹ مشین پر رکھا تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیونکہ اسکیل پر لکھا آرہا تھا چونتیس کلو۔ ارے یار مارے گئے ۔ یہ میرے منہ سے نکلا۔ اب کیا کریں۔ کاؤنٹر والی سے کہا کہ پلیزجانے دو تو اس نے اپنے افسر سے بات کی اس نے کہا کہ بائیس کلو کی اجازت ہے ہم پچیس کلو تک بنا چارجز جانے دیتے ہیں مگر باقی کے نو کلو کے پیسے دینے ہوں گے۔ مرتے کیا نہ کرتے کےمصداق مدثر پیسے دینے چلا گیا۔ اور اب میری باری تھی۔ مجھے پہلے ہی تارے نظرآرہے تھے اس لیے جب اپنا بیگ وزن کنڈے پر ڈالا تو منہ سائید پر کرلیا کہ بری خبر دیکھنے کا مجھ میں توحوصلہ نہیں۔ میرے کانوں میں دل دھڑک رہا تھا جب کاؤنٹر گرل نے کہا ’’اٹس ٹونٹی فور کلو‘‘ تو یقین نہیں آیا۔ دوبارہ پوچھا ’’سو اِٹ کین گو وِدآؤٹ چارجز‘‘ تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی ’’یس سر یو آر فائن۔‘‘
اتنے میں مدثر اپنے وزن کے چارجز ادا کرکے آیا تو اسے بتایا۔ وہ بھی حیران کہ ’’یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے‘‘ خیر ہم دونوں نے سامان بک کرایا اور بورڈنگ پاس لے کراسکیورٹی پراسس سے گزرنے کے لئے چل دئے۔جو زم زم کی بوتلیں ہم نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھیں وہ وہان موجود بنگالی ایئرپورٹ اسٹاف کو دے دیں۔ ہمیں معلوم ہوا کہ وہ بوتلیں مقامی دکانداروں کو بیچ دیتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر صلہ
چیک ان کے وقت جس قطار میں لگے وہاں پاس ہی زمزم کی بوتلوں کا ڈھیر لگا ہواتھا۔ اور ہم ان کی طرف حسرت و یاس بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے چیک اِن دروازے سے گزر گئے ۔ اب ہم واپس نہیں ہو سکتے تھے۔ مکہ سے بچھڑنے میں چند گھڑیاں رہ گئیں تھیں۔
انتظار گاہ میں موجود مسجد میں مغرب وعشاء جمع ادا کی میں نے کچھ خریداری کی اور گھوم پھر کر وقت گزاری کی۔
کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
مدثر سامان کے پاس بیٹھا ہوا اپنے موبائل میں مگن تھا۔ میں ائیرپورٹ گھومنے کا بول کر اس کے پاس سے اُٹھ گیا اور ائیرپورٹ کے ایک نسبتاً خاموش کونے میں کھڑا ہو کر باہر دیکھنے لگ گیا۔ آسمان پر سرخی مائل اندھیرا لمحہ بہ لمحہ گہراہوتا جا رہا تھا۔چند ایک تارے نظر آرہےتھے اور کچھ پرندے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ مجھے لگا کہ جیسےہر پرندہ اپنی مرضی سے نہیں لوٹ رہا بلکہ کوئی کوئی کسی مجبوری سے لوٹ رہا ہے ورنہ مکہ کی فضاؤں سے بڑھ کر کونسی فضا ہو سانس لینے کو زندگی جینےکو۔
علیم صاحب نے جانے کس ترنگ میں کہا تھا کہ
کوئی لاکھ سمندر پی جائے
کوئی لاکھ ستارے چھو جائے
کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے
میں نے ایک سمندر پیا تھا ان چند دنوں میں مگر کئی نئے صحرا جاگ گئے تھے۔میری آنکھوں میں ایسی چمک تھی جیسے کوئی ستارے کھا لیے ہوں مگر آس کی چمک وہیں چھوڑے جا رہا تھا۔
میں اکیلا اس گوشے میں کھڑا تھا اور خیاطِ ازل اپنے رب سے محوِ گفتگو تھا۔
اے مولا! اے میرے پیارے مولا!
تُو میرا عشق ہے اور تیرے گھر سے جانا میری مجبوری ہے، تیری سرکار میں میں کسی کی شکایت لےکر نہیں آیا بلکہ اپنا سر جھکائے آیا تھا،میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش تیرا گھر دیکھنا تھا وہ تو نے پوری کر دی، میرے الفاظ میرے رزق کا ایک حصہ ہیں تیری ہی جناب سے ملتے ہیں، تو جانتا ہے میں رنگوں کے تعاقب میں اپنی آنکھوں میں حیرانی بھرے بھاگ رہا ہوں،تو میرا خیاطِ ازل ہے تو مجھے خواب عطا کرتا ہے تو میں دیکھتا ہوں تو میرے دل میں ڈالتا ہے تو میں تجھ سے کہتا ہوں۔
مالکا! تُو جانتا ہے کہ میں کھونے سے نہیں ڈرتا مگر زندگی میں پہلی بار ڈر رہا ہوں، دیکھ شام اُتر رہی ہے اور تو سویرا معجزہ کر۔تو نے میرے دل میں تمنا کا دیا جلایا ہے اسے قائم رکھنا۔ (مزید لکھنا میرے لیے سہل نہیں سو اسی پر اکتفا کرتا ہوں)
الغرض اس خاموش کونے میں میں اور میرا ربِ عظیم تھے یا کبھی کبھار سپیکرز سے نکلتے مختلف اعلانات!
کچھ دیر بعد میں مدثر کی طرف چلا آیا، اور پھر سپیکرز سے اعلان ہوا کہ بحرین جانے والی فلائٹ کی بورڈنگ شروع ہو گئی ہے۔ ہم قطار میں کھڑے ہوگئے اور اپنی باری آنے پر بورڈنگ پاس چیک کروا کر جہاز میں سوار ہو گئے۔ قریباً بیس منٹ بعد جہاز نے ٹیکسی شروع کی اور ایک جھٹکے سے فضا میں بلند ہوا۔ میں اپنے سامنے لگے مانیٹر سے فلائٹ مانٹرنگ کر رہا تھا جونہی طیارہ سعودی فضاؤں سے نکلا میں نے آنکھیں بند کر لیں اور دل سے دعا کی صورت کہا :
جھولی رب دے اگے کراں گے
جیوندے رئے تے فیر ملاں گے
حرفِ آخر
اِنَّآ اِلَی اللہِ رٰغِبُونَ
میں چاہتا ہوں کہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے اگر مجھے بڑھاپا عطا کیا تو یہ سفر میرے چہرے پر جھریوں کی صورت موجود ہو۔ میری آنکھوں میں روشنی جب بجھنے لگے تو آخری جھلک جو قائم رہے وہ ایک باریک درز سے کعبہ پر پڑنے والی پہلی نظر ہو۔ میرے ہاتھ جب سرد ہو رہے ہوں تو ان پر جو آخری لمس ہو وہ اصحاب صفہ اور روضہ رسول کے درمیان والی جگہ کا لمس ہو ۔
میرا اپنے سفر کے متعلق لکھنے کا مقصد ہرگز کوئی دکھاوا نہیں یا اپنے آپ کو کچھ ثابت کرنے کی کوشش ہے۔ اس کو لکھنے کا صرف اور صرف ایک مقصد ہے جس کی طرف میرے چند دوستوں نے توجہ دلائی تھی کہ اگر ایک انسان بھی پڑھے اور اسکے دل میں عمرہ یا حج کا ارادہ ہو جائے تو یہ بہت باعثِ برکت و فضل ہوگا۔ ہر دو محترم دوستوں کا نہایت شکرگزار ہوں جن کی بدولت یہ الفاظ لکھنے کی ہمت ہوئی۔ جزاک اللہ خیر
ایک اور بھی مقصد ہے اپنی داستان لکھنے کا کہ بچپن میں سنا تھا کہ جب تک کسی کا لکھا اللہ اور نبی کا نام قائم رہتا ہے تب تک اللہ تعالیٰ اس پر فضل کرتا رہتا ہے۔سو ایک مطلب یہ بھی ہے کہ شائد اللہ تعالیٰ اسے منظور فرمالے۔
پہلے سوچا کہ حرفِ آخر کے طور پر حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی تقریر فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۰۸ بعنوان ’’فلسفۂ حب‘‘ میں سے کچھ لکھ دوں پھر ارادہ ملتوی کر دیا کہ یہاں اپنےخیال لکھنا زیادہ مناسب ہے۔
مدینہ میں شائد دوسرا دن تھا کہ جب دل میں ایک عجیب و غریب خیال گزرا کہ اگر کسی کے دل میں کچھ کمزوری ہو ایمان پختہ نا ہو تو مدینہ آکر بعید نہیں کہ اسکا دل انکار پر سختی سے قائم ہو جائے اور اگر ایمان پختہ ہوگا تو لازمی اسکا ایمان مزید مستحکم ہوگا۔ واپس آکر جب یہ بات الفضل ایڈیٹر مربی ظفراللہ صاحب کے ساتھ شئیر کی تو انہوں نے فوراً ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا جس میں میرے پیارے حضورﷺ نے فرمایا کہ ’’مدینہ ایک بھٹی کے مثل ہے جو دور کر دیتا ہے اپنے کھوٹ کو اور خالص کر دیتا ہے پاک کو۔‘‘
اس لئے کوشش کرنی چاہیے کہ مکہ مدینہ سے پہلے اپنے ایمان کو اضافی جڑی بوٹیوں سے پاک کر لینا چاہیے۔ وگرنہ یہ نہ ہوکہ انسان کسی امتحان میں پڑ جائے۔
عام طور پر پیش لفظ میں اپنا تعارف لکھا جاتا ہے اور جب میں اپنی طرف دیکھوں تو میرے پاس اپنے تعارف کے لئے کچھ بھی نہیں بس یہ کہ اک انسان ہوںکرمِ خاکی ہوں۔ جسےمضغہ اور کھڑکھڑاتی مٹی سے کمزور پیدا کیا گیا ۔ ایسا انسان جو گرتا ہے سنبھلنے کی اداکاری کرتا ہے اور پھر گر جاتا ہے۔ مگر ایک چیز جو میری متاعِ حیات ہے وہ یہ کہ میں اپنے رب سے کبھی بھی مایوس نہیں ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ میری مدد کی ہےجو کہ میری کسی قابلیت کی وجہ سے نہیں بس اُس خدائے واحد کا فضل ہے بس ۔ اور یہ فضل میرے مُرشد میرے حضور ، والدین اور مجھ سے محبت کرنے والوں کی دعاؤں نے میرے لئے کھینچا ہے۔
میرا ہم سفر میرا دوست مدثر احمد ڈار ہےجس کا آبائی علاقہ ڈنگہ ضلع گجرات ہے وہاں سے وقت کی گردش اسے ربوہ اور ربوہ سے لندن لے آئی۔ ہماری دوستی ۲۰۰۵ء میں ٹوٹنگ کے فلیٹ سے ہوئی ۔پھر ہم کافی عرصہ ایک فلیٹ میں بھی رہتے رہے۔ مدثر کے ساتھ یہ میرا دوسرا سفر ہے پہلا سفر ہم نے اٹلی وینس کا کیا تھا۔
مدثر ایک پریکٹیکل اور لاجیکل بندہ ہے۔ آسانی سے قصےکہانیوں پر یقین نہیں کرتا اور اسے سمجھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ پلان بہت اچھا بناتا ہے۔ سفرِ عمرہ پلان میرا تھا مگر جب یہ ساتھ جانے پر راضی ہو گیا تو ٹکٹ سے لیکر ویزہ اور ہوٹلز، ٹرین وغیرہ سب اسی نے بندوبست کیے۔ حالانکہ یہ مجھ سے زیادہ غصے والا ہے مگر اس سفر میں اسکا غصہ ہر جگہ سویا رہا اور مزے کی بات ہے جہاں بات غصے والی ہوتی وہاں بھی اسکا غصہ سویا ہی رہا۔ الحمدللہ
مکہ مدینہ کے اس سفر کا واحد مقصد خدا تعالیٰ کی محبت کو پانے کی راہیں ہموار کرنا تھا۔ خدا تعالیٰ کی خوشبو سے معطر ہونے کے لئے اپنے حواس کو پاک کرنا تھا۔ مجھے یہ علم نہیں کہ میرا یہ سفر قبول ہوا ہے یا نہیں۔ مگر میرا ماننا ہے کہ حسنِ ظن صرف دوسروں کے لئے رکھنا ہی مخصوص نہیں بلکہ خود اپنی ذات کے لئے بھی واجب ہے اور میرا میرے متعلق حسنِ ظن اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو دیکھتےہوئے بہت حسین ہے۔
مجھے علم ہے کہ خدا کو پانے والا اس فانی دُنیا میں ہی اللہ تعالیٰ کا پڑوسی ہو جاتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کے پیارےﷺ نے ہی تو فرمایا کہ ’’آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے-‘‘
یہ سفر ایک محبت کے حصول کا سفر تھا ایسا سفر جس میں میرے پاس سوائے دو دعاؤں یادو خواہشوں کے اور کچھ نہیں تھا۔ انہی دو کے گرد میری زندگی کے اب تک کے ماہ و سال گزرے ہیں۔ آخر پر دُعا ہے کہ یا ربِ کریم! مجھے تُم سے اور تُمہارے حبیبِ کبریاؐ سے محبت ہے پس آخرت میں مجھے جن سے محبت ہے ان کے ساتھ رکھنا ! آمین
میری دعائیں ساری کریو قبول باری
مَیں جاؤں تیرے واری کر تُو مدد ہماری
ہم تیرے در پر آئے لیکر اُمید بھاری
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اللھم صلی علیٰ محمد وبارک وسلم انک حمید مجید