سقراط

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ مئی 2004ء میں مکرم طیب احمد طاہر صاحب کے قلم سے سقراط کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
سقراط 469قبل مسیح میں یونان کے شہر ایتھنز میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ سنگ تراش تھا اور ماں دائی تھی۔ انہوں نے اپنے قابل بیٹے کو علم ہندسہ، فلکیات، موسیقی اور پہلوانی کی تعلیم دلائی۔ یونان میں انہی علوم کا رواج اور مانگ تھی۔ سقراط نوجوان ہوا تو ایتھنز میں بہت سے فلسفی موجود تھے۔ سقراط ان سے اکثر ملاقاتیں کرتا اور علم میں اضافہ کرتا۔ وہ سوال کرنے اور سوالوں کا جواب دینے میں بہت ذہانت کا مظاہرہ کرتا تھا۔ فوجی خدمت کے دوران نہ صرف بہادر ثابت ہوا بلکہ موسم کی خرابی اور تھکان کی بھی بالکل پرواہ نہ کرتا تھا۔ پھر اس نے علم وحکمت کی طرف توجہ مبذول کی۔
اس کی زندگی بے حد سادہ تھی۔ آرام و آسائش کے سامانوں سے اسے نفرت تھی۔ وہ صرف ایک سوٹ پہنتا، سادہ کھانا کھاتا۔ اُس نے توجہ صرف اپنے حصول علم کی طرف مرکوز رکھی۔ اس کی بیوی نہایت سخت مزاج اور لڑاکا قسم کی عورت تھی لیکن وہ اپنے آپ کو صبر اور ضبط سکھانے کے لئے اُسی عورت کے ساتھ زندگی بسر کرتا رہا۔ علم کی ترویج اُس کا مقصد حیات تھا۔ اُس کا ذاتی اعتقاد تھا کہ علم ہی اخلاقی کردار پیدا کرتا ہے۔ اس کا اصول تھا کہ ’’علم نیکی ہے اور بدی جہالت ہے‘‘۔ اس کا طریقہ تعلیم یہ تھا کہ گفتگو کرو، سوالات کرو، جواب دو اور جواب لو اور باربار بحث ومباحثہ کرو تا آنکہ مسئلہ کے تمام گوشے سامنے آسکیں۔
399قبل مسیح میں ایتھنز کے حکام نے سقراط کے خلاف یہ الزام لگائے کہ وہ پرانے دیوتاؤں کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ نئے دیوتاؤں کو متعارف کروارہا ہے۔ یعنی پرانے علوم کو ٹھکرا کر نئے علوم متعارف کروارہا ہے۔ حکام کو سخت پریشانی تھی کہ وہ نوجوانوں کے ذہن خراب کررہا ہے جس سے نئی نسل کے باغی ہوجانے کا خدشہ ہے۔ چنانچہ چند ووٹوں کی اکثریت سے وہ مجرم قرار دیا گیا اور اسے حکم دیا گیا کہ وہ زہر کا پیالہ پی لے۔ اس زمانہ میں قابل احترام شخص کو موت کی ایسی ہی سزا سنائی جاتی تھی۔ سقراط نے آخری دن کی شام تک اپنے شاگردوں سے باتیں کرتے ہوئے وقت گذارا۔ شاگردوں میں اس کے نو نہار شاگرد زینوفن اور افلاطون بھی وہیں موجود تھے۔ شام کو نہایت سکون اور وقار کے ساتھ سقراط نے زہر کا پیالہ پی کر جان دیدی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں