سلاطینِ تیموریہ ۔ ایرانی تھے یامغل
(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جنوری و فروری 2024ء)
عام طور سے تو یہی مشہور ہے کہ سلاطین تیموریہ جنہوں نے سو سال سے زیادہ ایران میں اوراڑ ھائی سوسال سے زیادہ ہندوستان میں حکومت کی مغل تھے اور اسی لئے ان کی سلطنت کو بعض اوقات سلطنت مغلیہ کہا جاتاہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ سلاطین مغل نہ تھے۔ بلکہ ایرانی اور فارسی الاصل تھے ۔
تیموراز روئے نسب کون تھا؟
اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے سب سے اوّل ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ تیمور کون تھا؟ آیا تاتاری تھا یا کسی اور نسل سے؟ تیمور کے نسب کے متعلق بہت سے لوگوں نے دھوکا کھایا ہے۔ بعض نے یہاں تک کہہ دیا کہ تیمور چنگیزی مغل تھا۔تاریخی ناواقفیت نے اِن کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا۔تاریخ سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ تیمور کا دادا چغتائی خان پسرِ چنگیز خان کا وزیر تھا ۔اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ تیموری خاندان کے بعض افراد نے چنگیزی مغلوں میں شادی کی تھی۔ لیکن اتنی بات سے یہ کیونکر ثابت ہواکہ وہ چنگیزی مغلوں کی اولاد سے تھا۔سوال کیا جائے گاکہ پھر یہ خیال کہاں سے پیدا ہوا اور کیوں تیموریوں کو مغل کہنے لگے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب کسی قوم کے اقبال کے دن ہوتے ہیں اور ان میں بادشاہی آجاتی ہے تو پھر اس کی اصلیت کو کوئی نہیں دیکھتا ۔ نادر شاہ ایک ادنیٰ خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور عوام میں نادر قُلی کے نام سے مشہور تھا، لیکن بادشاہ ہوکر نادرشاہ بنا ۔اور جب دلی والوں نے خطبہ نکاح کے جواب میں اس کے نسب کے متعلق سوال کیا تو اس نے جواب دیا کہ لڑکی والوں سے کہہ دو کہ نادرشاہ پسرِ شمشیر پسرِ شمشیر پسرِ شمشیر اسی طرح ستر پشتوں تک شمار کرتے جاؤ۔
مغلوں نے کس طرح ترقی کی
مغل ایک قوم تھی جو کسی شائستہ تمدن وتہذیب کی مالک نہ تھی ۔ خداجوربّ العالمین ہے اُس نے اِس قوم پر فضل کیا۔ اور عصمت مآب حضرت آنقرا کے بطن سے چنگیز خاں جیساعالی مرتبت اور سپہرِ شکوہ فرزند پیدا ہوا۔ اس کے اقبال کا ستارہ ایسا درخشاں ہوا کہ تھوڑے ہی عرصے میں مغل قوم نے چنگیز خاں کی سرگردگی میں ایشیا اور یورپ کی بڑی بڑی مملکتوں کی بنیادیں ہلا دیں۔ توران، ایران، افغانستان، روس وغیرہ ممالک یکے بعد دیگرے مغلوب کرلیے۔ اس کے مرنے پر اس وسیع سلطنت پر اس کے بیٹے حکمران ہوئے۔ کچھ مدت کے بعد اس کے پوتے ہلاکو خاں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور لاکھوں مسلمان قتل ہوئے۔ چونکہ تیمور کے دادا کو چغتائی خاں پسر چنگیز خان حاکم ِتُوران (ماوراء لنہر) کے دربان میں بہت کچھ رسوخ حاصل تھا اور مغلوں کی قوم ہی سے مناکحت کے تعلقات بھی تھے لہٰذا آنے والی نسلوں نے غلطی سے تیمور کو چنگیز خان یا چغتائی خاں کی اولاد سمجھ لیا۔ حالانکہ یہ بات اصلیّت سے کوسوں دور ہے۔ تیمور کے آباء اصل میں فارس کے باشندے تھے۔ مغلوں کے حملوں کی وجہ سے اور ملکوں کی طرح ایران میں بھی ایک انقلاب عظیم برپا ہوا۔ سینکڑوں قدیم خاندان تباہ ہوگئے اور بیسیوں خاندانوں نے اُجڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ لی۔ تیمور کے آباؤ اَجداد فارس سے اُٹھ کر تُوران میں آگئے۔ قسمت نے یاوری کی اور تیمور کے دادا کو بوجہ لیاقت علمی اور شرافت نسبی کے چغتائی خاں کے دربار میں اعلیٰ منصب ملا۔ اور پھر ترقی کرتے کرتے وہ عہدہ وزارت پر فائز ہوگیا۔ تیمور کو اس وقت کے مغل حکمران نے شہر کِش کا حاکم مقر کردیا۔ (بعضوں نے کش کا نام شہر سبز لکھا ہے) چنگیز خاں کی اولاد روزبروز کمزور ہوتی جارہی تھی۔ تیمور نے موقع کو غنیمت جان کر تُوران کی ریاستوں کو یکے بعد دیگرے فتح کرنا شروع کیا۔ اورجب سارا تُوران اس کے قبضے میں آگیا تو اس نے اُولواالعزمی سے کام لے کر چنگیز خاں کی تقلید میں تمام ایشیائی ممالک کی فتح پر کمر باندھی اور آخر کار اس ارادے میں کامیاب ہوا۔
تیموریوں کے فارسی الاصل ہونے پر علمی دلائل
اب میں وہ علمی دلائل پیش کرتا ہوں جن سے تیمور اور اس کی ذُرّیت کا فارسی الاصل ہونا اظہر من الشمس ہوجاتا ہے۔
(۱) تیمور اور اس کے چچا حاجی برلاس کی اولاد قدیم الایام سے مرزا کے لقب سے ملّقب رہی ہے اور مرزا ا بدی طور سے فارسی ناموں کا جزو رہا۔اور بجز فارسیوں یا ایرانیوں کے اور کسی قوم نے اپنے لیے مرزا کا لقب اختیار نہیں کیا۔ ہندوستان میں جو اکثرمغل مرزا کہلاتے ہیں ۔اس کی دو وجوہات ہیں ۔
(ا)چونکہ سلاطین تیموریہ اور ان کے خاندان کے اکثر افراد مرزا کہلاتے تھے اس لیے مرزا کہلانا ایک فیشن ہوگیا۔خصوصاً مغل جو صدیوں سے تیموری خاندان کے ساتھ بیاہ کا تعلق رکھتے تھے انہوں نے مرزا کے لقب میں اپنی عزت دیکھی اور اسے فخریہ طور پر اپنے ناموں کا جزو بنایا۔
(۲) تیموری بادشاہوں نے بعض خاندانوں کو خود مرزا کا لقب عطاکیا۔ چنانچہ مغلوں کے علاوہ اور قوموں کے بعض افراد نے بھی یہی خطاب پایا۔مثال کے طور پر راجوری (واقعہ کشمیر ) کا خاندان پیش کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ شہنشاہ اورنگ زیب کی شادی اس خاندان کی ایک خاتون کے ساتھ ہوئی تھی ۔اور بہادر شاہ عرف عالم اوّل اسی کے بطن سے تھا۔لہٰذا اس خاندان کے تمام افراد آج تک مرزا کہلاتے ہیں۔ اسی طرح شہنشاہ اورنگ زیب کے عہد میں مہاراجہ جے سنگھ والئی جے پور کو میرزا را جہ کا خطاب عطا ہوا تھا حالانکہ وہ ہندو تھا۔
پس جبکہ راجپوت اپنے تئیں مرزا کہلاسکتے تھے تو مغلوں کو مرزاکہلانا بہت زیادہ آسان تھا۔کیونکہ ان کے تعلقات تیموری خاندان کے ساتھ کئی صدیوں سے چلے آتے تھے۔
مغلوں کا اصل لقب خان تھا۔جیسے چغتائی خاں ،ہلاکو خان، ارغون خان وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہندوستان میں مغلوں میں بلا استثنا فیشن کے طور پر اپنے تئیں مرزا کہلانا پسند کیا گیا اور یہ سکّہ ان کا چل گیا۔ ورنہ اصل میں تو اس لقب کے مستحق تیموری اور برلاسی ہی تھے ۔
اوّل ایرانی مغلوں میں جذب ہوتے چلے گئے۔پھر جب مغلوں کا زور گھٹ گیا اور ایرانیوں یعنی تیموریوں کا غلبہ ہوا تو مغلوں نے اپنے تئیں تیموریوں میں جذب کرنے کی کوشش کی ۔آخرکار دونوں قومیں آپس میں ایسی گھل مل گئیں کہ سطحی نظران میں تمیز نہیں کرسکتی۔ ہندو قوم نے تب مسلمانوں کو ترکوں کا خطاب دیا کیونکہ وہ ان باریکیوں کو سمجھ نہ سکتی تھی ۔چنانچہ سکھوں کے گرنتھ میں بھی مسلمانوں کو تُرک ہی کہا گیا ہے۔ گورو گوبند سنگھ نے خالصہ قوم کو وصیت کی کہ تُرک کا اعتبار نہ کرنا
(۳) سلاطین تیموریہ کو قدرت نے ایک خاص علمی دماغ بخشا تھا۔ اور اس قسم کی دماغی طاقتیں اور قویٰ بجز آریہ نسل کے کسی اور قوم میں نہیں پائے گئے۔ توزکِ تیموری توزکِ بابری،توزکِ جہانگیری،رقعاتِ عالمگیری اور داراشکوہ کی علمی تصانیف اس پر شاہد ہیں۔ علاوہ ازیں اس خاندان کے جملہ افراد از قسم ذکور واُناث نے سخن فہمی اور سخنوری کے لطیف جوہر کو وراثت میں پایا تھا۔یہ اَمر بالبداہت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خاندان فارسی الاصل تھا نہ کہ مغل۔ کیونکہ مغل قوم فطری طور سے کند ذہن واقع ہوئی تھی۔اس قوم نے کوئی بڑا سخن ور ادیب پیدا نہیں کیا جو اس کے لیے سرمایہ ناز ہوسکے۔ بلکہ انتظام سلطنت اور سیاسی تمدن کے لیے بھی وہ ایرانیوں اور فارسیوں کے محتاج تھے ۔یہی وجہ تھی کہ تیمور کے دادا کو چغتائی خاں نے وزارت کے عہدے پر سرفراز کیا تھا۔ اگر تیمور کے آباؤ اجداد علمی قابلیت اور ذہانت اور معاملہ فہمی کے جوہر سے بہرہ ور نہ ہوتے تو مغلوں کے دربار میں اعلیٰ عہدوں پر کبھی متمکن نہ ہوتے ۔
(۴) تیموریوں کے مغل نہ ہونے کا ایک زبردست ثبوت یہ بھی ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے تئیں مغل یا تا تاری نہیں کہا اور نہ کسی تُوزک میں اس کا تذکرہ پایاجاتا ہے ۔
(۵) اکبر کا راجپوتوں کے ساتھ نیک سلوک اور راجپوت شہزادیوں کے ساتھ نکاح کرنا اس فطری مناسبت کو ثابت کرتا ہے جو اَز روئے نسب تیموریوں کو راجپوتوں کے ساتھ تھی۔
(۶) بعض انگریزی مؤرخوں نے بابر کوبجائے مغل کے تُرک لکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’سلطنت مغلیہ ہندو کو سلطنت ترکیہ کہنا زیادہ موزوں ہے۔ مگر ہندوستان میں یہ دستور ہوگیا تھا کہ جوقومیں ماوراء لنہر یعنی تُوران سے آکر ہندوستان پر حملہ آور ہوتی تھیں ہندوستان ان کو مغل کہہ کر پکارتے تھے ۔چونکہ با بر تُوران کی ریاست فرغانہ سے ہند میں آیا اس لیے ہندوستان میں بابر کی اولاد مغل مشہور ہوگئی۔‘‘
میں کہتا ہوں کہ تُرک بھی اصل آریہ ہیں۔جب ایران کے آریوں کی شادیاں مغلوں کے ساتھ ہوگئیں تو ایک نئی قوم پیدا ہوگئی جو تُرک کہلائی۔ اس لیے اگر تیموری بابر کو تُرک ہی سمجھا گیا اور یہی مقصود تھا۔ نسب باپ کی طرف سے منسوب ہوتا ہے نہ کہ دادیوں اور نانیوں کی طرف سے ۔