سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ
صلاح الدین ایوبی وہ نامور مجاہد ہیں جن کا نام آج بھی مسلمانوں کے خون میں زندگی کی لہر دوڑا دیتا ہے- جنہوں نے اپنی فراست، شجاعت اور جنگی مہارت سے متحدہ عیسائی افواج کو شکست فاش دی-
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’صلاح الدین ایک بہت ہی عظیم شخصیت تھی جو اسلامی اخلاق کا ایک عظیم الشان مرقّع تھا- ایسا حیرت انگیز مرقّع کہ بعض مغربی مؤرخین نے اس کو عمر بن عبدالعزیز ثانی کہنا شروع کردیا‘‘-
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍جولائی 1998ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے بارے میں ایک مضمون مکرم سید ظہور احمد شاہ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے-
صلاح الدین کرد قبیلہ ’رادادیہ‘ سے تعلق رکھنے والے ایوب نجم الدین کے ہاں 1138ء میں پیدا ہوئے- سلطان نورالدین زنگی نے جب دمشق فتح کیا تو نجم الدین اور اُن کے بھائی شیرکوہ نے بھی اُس کی ملازمت اختیار کرلی- پھر سلطان کے کہنے پر شیرکوہ نے مصر فتح کیا اور وہاں کا وزیراعظم مقرر ہوا- اس جنگ میں بادل ناخواستہ صلاح الدین ایوبی نے بھی شرکت کی- اگرچہ وہ مطالعہ اور شاعری کے شوقین اور تنہائی پسند تھے اور انہیں جنگ و جدل سے شغف نہ تھا لیکن سلطان زنگی اور اپنے چچا شیرکوہ کے مجبور کرنے پر وہ اس مہم جوئی میں شامل ہوئے- کچھ عرصہ کے بعد جب شیرکوہ کا انتقال ہوگیا تو صلاح الدین ایوبی کو مصر کا وزیراعظم بنادیا گیا-
سلطان نورالدین کے برسراقتدار آنے سے پہلے عباسی خلافت کمزور ہوچکی تھی اور عیسائیوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاکر صلیبی جنگوں کا آغاز کردیا تھا- بلکہ پہلی جنگ میں ہی انہوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا تھا- دوسری صلیبی جنگ میں اگرچہ سلطان کی فوجوں نے عیسائیوں کو شکست دی لیکن جلد ہی سلطان کی وفات سے صورتحال پھر بدل گئی اور عیسائیوں کے حوصلے بلند ہوگئے- چنانچہ انہوں نے دمشق پر حملہ کیا لیکن وہاں کے حکمرانوں نے صلح کرلی- پھر عیسائیوں نے مصر پر حملہ کیا لیکن ایوبی کی فوجوں نے انہیں شکست دی-
دوسری طرف سلطان نورالدین کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں اور رشتہ داروں نے بہت سی علیحدہ علیحدہ حکومتیں قائم کرلیں جو آپس میں دست و گریبان رہتی تھیں اور بعض عیسائیوں سے بھی مل جاتیں- ایوبی کو احساس تھا کہ جب تک مسلمان متحد نہیں ہو جاتے تب تک عیسائیوں کا مقابلہ مشکل ہے- چنانچہ انہوں نے مسلسل چودہ سال مسلمانوں کو متحد کرنے میں صرف کئے اور آخر کار اسلامی سلطنت کو سلطان صلاح الدین کے زیر اہتمام وہی سطوت حاصل ہوگئی جو کبھی پہلے حاصل تھی-
اسی دوران کرک کے عیسائی حاکم ریجی نالڈ نے صلاح الدین ایوبی سے کئے گئے اپنے چار سالہ صلح کے معاہدہ کوخود توڑ ڈالا اور مسلمانوں کے ایک قافلہ کو لوٹ کر بعض مسلمانوں کو قتل اور بعض کو قید کردیا- چنانچہ صلاح الدین نے قسم کھائی کہ وہ ریجی نالڈ کو اپنے ہاتھ سے قتل کرکے مسلمانوں کے خون کا بدلہ لیں گے- انہوں نے 1187ء میں عیسائیوں کے خلاف جہاد کی عام منادی کرادی اور ایک بہت بڑی خونریز جنگ کے بعد ایوبی نے نالڈ کو اپنے ہاتھ سے قتل کرکے فلسطین اور بیت المقدس کو فتح کیا- اس موقع پر انہوں نے شہر کے عوام کو جان و مال کی امان دی حالانکہ ایک سو سال پہلے جب عیسائیوں نے بیت المقدس فتح کیا تھا تو مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھااور ظلم کا بازار گرم کیا تھا لیکن سلطان صلاح الدین نے بڑی شرافت اور فیاضی کا سلوک کیا جس کا اعتراف عیسائی مؤرخین نے بھی کیا ہے-
مسلمانوں کے بیت المقدس پر قبضہ کے بعد جلد ہی یورپ کی تمام اقوام نے متحد ہوکر مسلمانوں پر حملے شروع کردیئے- نو بڑے معرکے اور ایک سو سے زیادہ لڑائیاں ہوئیں جو اگرچہ بے نتیجہ ثابت ہوئیں لیکن مسلمانوں کا پلّہ بھاری رہا- آخر یورپین لشکر کو صلح پر مجبور ہونا پڑا- صلح کی شرط کے مطابق ساحلی علاقہ کی ایک پٹی عیسائیوں کو دیدی گئی اور باقی فلسطین مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا- لیکن جنگوں کے اس طویل سلسلے نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی صحت پر بہت برا اثر کیا تھا- مزید برآں انہوں نے جنگ اور بیماری کے دوران قضاء ہونے والے اپنے روزے بھی اب رکھنے شروع کردیئے جس سے صحت مزید گر گئی اور وہ 4؍مارچ 1193ء کو صرف 55 سال کی عمر میں انتقال کرگئے-
سلطان صلاح الدین ایک نڈر جرنیل تھے اور دشمن کے لشکر کا رات کے وقت چکر لگانا ان کا معمول تھا- جنگ کے دوران مجاہدین کی صفوں میں گھوم پھر کر حوصلہ بڑھاتے- اُن کی تقریباً ساری عمر میدان جنگ میں ہی گزری اور اسلام کی خاطر انہوں نے اپنا گھر بار، آرام و آسائش سب کچھ چھوڑ دیا- میدان جنگ میں ہی انہیں اپنے جواں سال بیٹے اور ایک بھتیجے کی وفات کی اطلاع ملی لیکن انہوں نے جہاد کی سرگرمیوں میں ذرّہ بھر بھی فرق نہ آنے دیا-
سلطان اعلیٰ اخلاق و کردار کا بے مثال نمونہ تھے- جنگ یا امن، صحت یا بیماری، ہر حالت میں ہمیشہ نماز باجماعت ادا کرتے- روزے باقاعدگی سے رکھتے- عادل اور رحمدل تھے اور لوگوں کیلئے اُن تک پہنچنے اور انصاف کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہ تھی-اُن کی فیاضی کا شہرہ عام تھا- وراثت میں کوئی جاگیر نہیں چھوڑی- وفات کے بعد محض 47 درہم اور سونے کا ایک ٹکڑا اُن کی کُل پونجی کے طور پر ملے- وہ کبھی غصے اور کرخت لہجے میں بات نہ کرتے- مہمان نواز تھے- کبھی اپنوں یا غیروں کو دھوکہ نہیں دیا اور ہمیشہ اپنے وعدے کا پاس کیا- عیسائی رعایا کی حفاظت اپنا فرض منصبی سمجھا- میدانِ جہاد میں اتنا وقت گزارنے کے باوجود عوام کی خدمت میں کمی نہیں کی اور ساری سلطنت میں مدرسے، سرائیں اور ہسپتال بنوائے- اُن کی بے شمار خوبیوں کی وجہ سے دوست اور دشمن اُن کا نام آج بھی احترام سے لینے پر مجبور ہیں-