سنگاپور – تاریخ اور احمدیت کا آغاز

سنگاپور ملائشیا کے جنوب میں واقع ایک جزیرہ ہے جس کا رقبہ قریباً ساڑھے چھ ہزار مربع میل اور آبادی تین ملین ہے جس میں 75فیصد چینی ہیں۔ باقی ملائی، ہندوستانی، پاکستانی اور یورپین ہیں۔
اس جزیرہ میں 1819ء میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایجنٹ Sir Stam Ford Rafbes نے تجارتی اڈہ قائم کیا۔ 1924ء میں سلطان جوہوؔ نے یہ جزیرہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالہ کردیا اور 1926ء میں یہ مستقل طور پر برطانوی سلطنت میں شامل کرلیا گیا۔ 1942ء میں جنگ عظیم دوم کے دوران جاپان نے اس پر قبضہ کیا لیکن 1945ء میں برطانیہ نے دوبارہ قبضہ کرلیا۔ 1965ء میں یہ آزاد جمہوریہ بن گیا جس کا سربراہ وزیراعظم ہے۔
یہاں اکثریت کا مذہب کنفیوشس اور تاؤازم ہے۔ ملائی لوگ سب کے سب مسلمان ہیں اور شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندو اور عیسائی بھی یہاں موجود ہیں۔ ملائی، انگریزی، چینی اور تامل سرکاری زبانیں ہیں۔ یہ جزیرہ ایک قدرتی بندرگاہ ہے اور دنیا کا چوتھی بڑی بندرگاہ کہلاتا ہے۔ ہوائی اڈہ بھی دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے۔ عظیم تجارتی منڈی ہے اور اکثر لوگ تجارت کرتے ہیں۔ نہایت صاف ستھرا شہر ہے۔ شہر چھوٹا ہونے کی وجہ سے 75فیصد لوگ فلیٹوں میں رہتے ہیں جو بیس بیس منزلہ ہوتے ہیں۔ یہاں مکمل مذہبی آزادی ہے۔ کسی کو دوسرے مذہب کے خلاف کچھ کہنے کی اجازت نہیں، اسی لئے وہاں تمام مذاہب کے مشنریوں کا داخلہ منع ہے۔
احمدیہ مرکز تبلیغ سنگاپور کا قیام 1935ء میں حضرت مولانا غلام حسین صاحب کے ذریعہ آیا۔ آپ کو ابتداء میں نہایت ہی نامساعد حالات سے گزرنا پڑا۔ وہاں پہنچنے کے صرف چھ ماہ بعد مرکز سے آپ کو خرچ بھجوانا بند ہوگیا اور آپ خود ہی تجارت کرکے گزارا کرتے رہے اور تبلیغ میں مصروف رہے۔ آہستہ آہستہ بہت سی سعید روحیں احمدیت کی آغوش میں آئیں جن میں ایک ملائی دوست مکرم حاجی جعفر دین صاحب بھی تھے۔ انہیں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ثابت قدم رہے۔
1939ء میں ایک معاند احمدیت عبدالعلیم صدیقی میرٹھی سنگاپور گئے اور وہاں کی ایک مسجد میں لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ احمدیوں کا قرآن اَور ہے۔ اس لیکچر میں حضرت مولوی غلام حسین ایاز صاحب بھی موجود تھے۔ آپ نے کھڑے ہوکر کہا کہ میرے پاس قرآن موجود ہے، اگر ایک آیت بھی مختلف دکھادیں تو جو چاہیں سزا دیں۔ اس پر میرٹھی صاحب نے لوگوں کو اشتعال دلایا اور مولوی صاحب کو واجب القتل قرار دیا۔ چنانچہ لوگوں نے آپ کو خوب زدوکوب کیا، گھسیٹا اور کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ شدید چوٹیں آنے سے آپ بیہوش ہوگئے۔ ہسپتال میں بہت دیر بعد آپ کو ہوش آیا۔ اسی طرح ایک بار آپ کو چلتی بس سے دھکا دے کر گرا دیا گیا۔ لیکن آپ نے دعوت الی اللہ جاری رکھی اور 1947ء میں ایک قطعہ زمین خرید لیا جو دو کشادہ سڑکوں کے وسط میں تھا اور اس پر ایک لکڑی کا مکان بھی موجود تھا جو 1983ء تک مسجد اور مرکز کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ 1983ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ وہاں تشریف لے گئے تو حضورؒ نے اس جگہ پر مسجد طٰہٰ اور مرکز کا سنگ بنیاد رکھا جس کی دو منزلہ عمارت خدا تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہوچکی ہے۔ اس وقت سنگاپور میں قریباً اڑہائی صد افراد پر مشتمل ایک مخلص جماعت قائم ہے۔
حضرت مولوی ایازؔ صاحب کو 1956ء میں دوبارہ وہاں بھجوایا گیا۔ کچھ عرصہ بعد آپ کو برٹش نارتھ بورنیو (سبا) میں منتقل کیا گیا جہاں آپ 17 اور 18؍اکتوبر 1959ء کی درمیانی شب وفات پاگئے اور بورنیو جزیرہ لابوان میں دفن ہوئے۔
یہ معلوماتی مضمون مکرم مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ جون 2003ء کی زینت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں